عدالت کھچا کھچ بھری ہے۔ کٹہرے میں کھڑی خاتون شوہر کو divorce دینا چاہتی ہیں مگر شوہر اُسے بد چلن ثابت کرنے پر تُلا ہے۔ میڈیا کی نظریں فلم انڈسٹری کے اس مشہور کپل پر ہیں۔ اچانک ایک نوجوان وکیل چلتا ہوا اُس خوبصورت خاتون کے بالکل سامنے آجاتا ہے۔ سامنے بیٹھا شوہر مسکرا رہا ہے۔ مائی لارڈ، ان صاحب نے اپنی بیوی کو ایک کرکٹر کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ کیا محترمہ بتائیں گی کہ وہ اُس شخص کے ساتھ تنہائی میں کیا کر رہی تھیں؟ اس انکشاف پر سب کی آنکھیں حیرت سے خاتون کو تکنے لگتی ہیں۔ اِس سے پہلے کوئی کچھ بولے، خاتون مسکرا کر کہتی ہیں۔ جج صاحب، یہ جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اُس سے میرے تعلقات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے اِن وکیل صاحب کے ساتھ ہیں۔ یہ جملہ جیسے کانوں پر بم کی طرح گرا اور وکیل تو کچھ سمجھ ہی نہ پایا۔ جی جج صاحب، میری اُس شخص سے اتنی ہی ملاقاتیں ہیں جتنی ان وکیل صاحب کے ساتھ ہیں اور ہم اُسی سلسلے میں ملے جس سلسلے میں وکیل صاحب کے ساتھ ملتے رہے۔ اب یہی بتائیں نا کہ اِنہیں اعتراض کیا ہے؟ اس حاضر جوابی پر وکیل مولوی مشتاق کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ کچھ نہ بولے اور مقدمہ ہار گئے۔ مگر اس سے بڑی ذلت آگے ہونا تھی۔ جب وہ وکیل سے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور پھر جنرل ضیا کے کہنے پر انہوں نے بھٹو کو سزائے موت دی۔ تاریخ کے اس controversial فیصلے کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔

میری طرح آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں پینتالیس سال لگا دیے۔ مگر وہ دبنگ خاتون کون تھیں، جس نے 1953 میں ہی مولوی مشتاق کو پہچان کر بھری عدالت میں فکس کر دیا تھا۔

جس کے ایک فون پر فوجی ڈکٹیٹر فون لائن پر آجاتے اور ہر کہا مان لیتے۔ جو ضد پر اڑ جاتیں تو منوا کر رہتیں۔ وہ ایک ناکام بیوی صحیح مگر دنیا آج انہیں پہلی خاتون پروڈیوسر، اداکارہ اور اس سے کہیں بڑی گلوکارہ کے طور پر جانتی ہے۔ جو اقبال کا کلام ہو یا عشقیہ گیت، اتنا ڈوب کر گاتیں کہ ریکارڈنگ میں پسینے پسینے ہوجاتیں۔ جن کے نغمے فوجی جوانوں کا لہو گرماتے تو کبھی ان کا گایا ایک گانا، صرف ایک گانا ، کسی جرنیل کے لیے ملک بچانے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا۔ اُن کی ادائیں بھی کچھ ایسی تھیں کہ ایک کرکٹ اسٹار نے چھت سے کود کر ہاتھ تڑوالیا اور کیریئر تباہ کر لیا۔ وہ عاشق مزاج خاتون جس تیزی سے کسی کو اپناتیں، اتنی ہی جلدی اس سے تعلق توڑ لیتیں۔ آج ہم آپ کو دنیائے موسیقی میں ملکہ ترنم کے نام سے مشہور میڈم نور جہاں سے ملوانے لگے ہیں۔

واقعی، ایک دنیا ان کے گیت آج بھی گنگنا رہی ہے۔ میں آپ کو بتانے لگی ہوں کہ نورجہاں نے اللہ رکھی وسائی سے بے بی، پھر میڈم اور پھر ملکہ ترنم کا سفر کیسے طے کیا۔

آپ نے اسکرین پر نورجہاں کو چمکتی ساڑھی، دمکتے زیور، مخصوص ہیئر اسٹائل اور ہیوی میک میں دیکھا ہوگا۔ لیکن وہ کہاں سے آئیں یہ جاننے کے لیے ہمیں ایک صدی پیچھے جانا ہوگا۔

1930 کی دہائی برٹش انڈیا میں سیاست ہی نہیں فلم اور میوزک انڈسٹری کے لیے بھی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہورہی تھی۔ خاموش فلموں کے بعد اب کردار بولنے اور گانے لگے تھے۔ انٹرٹینمنٹ ورلڈ میں ساونڈ سینیما تہلکہ مچا رہا تھا۔ انہی دنوں صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں جب اللہ وسائی کی پیدائش ہوئی تو پھوپھو نے حیران ہو کر والد سے کہا، ارے مدد علی، یہ لڑکی تو روتی بھی سُر میں ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ اس لڑکی کے پورے خاندان کا اوڑھنا بچھونا، گانا بجانا ہی تو تھا۔ جو تقریبات، اسٹیج اور میلوں میں پرفارم کرتے۔ بڑی بہنیں سُر میں ہی نہیں، حسن میں بھی بے مثال تھیں، مگر اللہ وسائی سب سے آگے نکل گئی۔ پانچ سال گزرے تھے کہ اللہ وسائی نے استاد بڑے غلام علی سے گائیکی سیکھ کر گانا شروع کردیا۔ وہ اپنی نرم مخملی، معصومیت بھری آواز میں اونچے سر لگاتی تو لگتا جیسے جھرنا بہ رہا ہو۔

فلم رائٹر ناصر ادیب کہتے ہیں:

اللہ وسائی جب سنگر بننے کے لیے آئی اس وقت دو باتیں تھیں ،جو ہیروئیں بنتی تھیں وہ سنگر بھی ہوتی تھیں وہ گاتی تھیں لائیو رکارڈ نہیں ہوتا تھا۔ وہ چونکہ آرٹسٹ بھی تھیں سنگر بھی تھیں اور خوبصورت بھی تھیں۔

یہ وہ دور تھا جب کلکتہ کی فلم اور میوزک انڈسٹری بمبئی کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اللہ وسائی کا پورا خاندان کلکتہ آگیا۔ کجن بائی اور پٹیالہ گھرانے کا ذکر تو آپ نے سنا ہوگا۔ اللہ وسائی ان کے ساتھ ریاض کرتی اور خاموش فلموں کے انٹرویل میں گانے گاتیں۔ ایک روز کلکتہ کے فلم میکر سُکھ لال کرنانی کی نظر اس لڑکی پر پڑی اور پھر سب بدل گیا۔ جی ہاں، یہ وہی سُکھ لال تھے جنہوں نے اللہ وسائی کو نورجہاں کا نام دیا۔ اب بے بی نورجہاں، گانے گاتیں اور بطور چائلڈ اسٹار فلموں میں کام کرتیں۔

لاہور آکر نورجہاں نے فلم گل بکاؤلی میں وہ رنگ جمایا کہ شہرت بمبئی پہنچ گئی۔ اس گیت نے چھوٹے سے قصبے کی نورجہاں کے لیے کامیابی کے در کھول دیے۔ وہ اب گائوں کی سیدھی سادی لڑکی نہیں بلکہ شہر کی ماڈرن گرل تھیں۔ دو فلموں کی آفر لے کر وہ بمبئی آ گئیں جہاں اسکینڈلز بھی ان کے منتظر تھے۔

قلم کار منٹو لکھتے ہیں کہ نورجہاں فلم بینوں کے لیے فتنہ تھی قیامت تھی۔ وہ ان کے گلے سے متاثر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ نورجہاں کی آواز بہت صاف تھی اور وہ تنے ہوئے رسے پر کھڑے بازی گر کی طرح گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی تھی۔

پہلی فلم خاندان میں ہیروئن کا رول کیا تو نورجہاں کی دھوم مچ گئی۔ ڈائریکٹر شوکت رضوی اور ان کے عشق کا چرچہ ہونے لگا۔ چند سال میں شادی ہوگئی اور نورجہاں فلموں کی سیڑھیاں پھلانگ کر انڈیا کی ٹاپ ایکٹریس بن گئیں۔ صرف اداکاری ہی نہیں، انیس سو بیالیس سے سینتالیس تک پانچ سال میں نورجہاں، سہگل کی ٹکر کی گلوکارہ بن چکی تھیں۔ لتا منگیشکر بھی ان سے آٹوگراف لینے گھنٹوں انتظار کیا کرتیں۔ اب لوگوں نے اِنہیں ملکہ ترنم کہنا شروع کر دیا تھا۔ لتا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایک وقت نورجہاں کو کاپی کرتیں اور الفاظ کی ادائیگی سیکھتیں۔

تو جانب نورجہاں اپنے کیریئر کے پیک پر تھیں جب پاکستان آزاد ہوگیا۔ وہ فیملی سمیت لاہور آگئیں۔ بمبئی میں ان کی آخری فلم جگنو تھی، جس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔ لاہور آکر نورجہاں اور شوکت رضوی نے شاہ نور اسٹوڈیو بنایا اور مل کر پہلی فلم چن وے پروڈیوس کی۔

فلم رائٹر ناصر ادیب مزید کہتے ہیں:

آپ نے بہت سارے لوگوں کا انٹرویو کیا میری نظر میں آپ آزما کر دیکھیں کوئی فلم دیکھیں کہ میڈم کے علاوہ کوئی گارہی ہو۔ اگر سینیما اسکرین ہے وہ سینٹر میں کھڑی ہے اگر نورجہاں کے علاوہ کوئی آواز ہے تو لڑکی کے فیگر تک رہے گی پھر آپ نورجہاں گا رہی ہو وہ دیکھیں۔ وہ ایج ٹو ایج آرہی ہوگی۔ یہ جو بھرپورتا ان کی آواز کا تھا وہ کسی سنگر کی آواز میں نہیں تھا۔ ایون لتا جی کی آواز میں بھی نہیں۔

نور جہاں اور فیض

انہی دنوں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پروگرام ہوا۔ نوزائیدہ پاکستان میں نورجہاں کی پہلی پبلک پرفارمنس تھی۔ اسٹیج پر جانے سے پہلے آرگنائزرز نے پوچھا۔ میڈم، کونسا گانا گائیں گی؟ وہ بولیں، مجھ سے پہلی سی محبت۔
آرگنائزرز کو تو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ فیض صاحب تو اُن دنوں حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں قید تھے۔ سرکار ان کی شاعری اور بائیں بازو کی پولیٹکس سے تنگ تھی۔ اب سرکاری فنڈ ریزر میں نورجہاں بھلا یہ نظم کیسے گا سکتی تھیں۔ میڈم پلیز کچھ اور گالیں، پلیز، مگر نورجہاں نے کہاں ماننا تھا، بولیں، اگر ایسا ہے تو آپ مجھے جانے دیں۔ آرگنائزر کی جان پر بن گئی۔ منع کریں تو آڈینس ناراض ، گانے دیں تو سرکار ناراض۔ تنگ آکر انہوں نے کہہ دیا کہ میڈم جو چاہے گائیں پر ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں۔

مزے کی بات یہ تھی کہ گانا ریڈیو پاکستان پر لائیو نشر ہونا تھا۔ لاہور سے ہزار کلومیٹر دور حیدرآباد سینٹرل جیل میں درجن بھر قیدی ٹرانسسٹر ٹیون کر کے بیٹھے تھے کہ ایک مدھر آواز کانوں سے ٹکرائیں۔

گانا ختم ہوا تو پنجاب یونیورسٹی کا ہال ہی نہیں حیدرآباد جیل بھی تالیوں سے گونج اٹھی۔ ایک قیدی نے اٹھ کر نورجہاں کی ہمت پر زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ وہ کوئی اور نہیں خود فیض احمد فیض تھے۔ نورجہاں نے یہ نظم کچھ اس ادا سے گائی کہ فیض صاحب کو اپنا عشق یاد آگیا۔ وہ کونسا عشق تھا، اس کے لیے آپ ہماری آرٹیکل ضرور پڑھنا گا۔

فیض صاحب کہنے لگے کہ بھئی یہ نظم اب ہماری نہیں رہی۔ یہ نورجہاں کی ہوچکی اور وہی اس کی مالک ہیں۔ ایک بار ملکہ پکھراج نے کہا کہ فیض میرے بھائی جیسے ہیں۔ عاشق مزاج نورجہاں بولیں، میں تو انہیں بھائی نہیں، بلکہ محبوب سمجھتی ہوں۔

مگر جس محبوب سے انہوں نے شادی کی تھی اب اس سے دوریاں بڑھ رہی تھیں۔ کچھ لوگ ملبہ شوکت رضوی پر ڈالتے ہیں کہ وہ ایک دل پھینک آدمی تھے۔ وہ اُن دنوں فلمسٹار یاسمین سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے تھے۔ بعض لوگ نورجہاں کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس کے پیچھے فلم انڈسٹری اور کرکٹ کی تاریخ کا ایک دلچسپ مگر افسوس ناک واقعہ چھپا ہے۔ چلیں پہلے آپ کو وہ سناتی ہوں۔

1952 میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیمیں ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھیں۔ ایک اطلاع آئی اور تمام کھلاڑی ایک منٹ کے لیے کھیل روک کر خاموش کھڑے ہوگئے۔ یہ ٹریبیوٹ تھا مشہور ٹیسٹ کرکٹر نذر محمد کے لیے جو ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے کے سبب دنیائے کرکٹ سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ لیکن ایک منٹ، ابھی کچھ عرصہ پہلے تو نذر محمد نے انڈیا کے خلاف اپنی فرسٹ ٹیسٹ سینچری اسکور کی تھی۔ ان کی ناٹ آوٹ پرفارمنس سے پاکستانی ٹیم اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ پھر اچانک انہوں نے کھیلنا کیوں چھوڑ دیا؟ چند ماہ بعد روزنامہ امروز نے یہ بھانڈہ پھوڑ دیا۔ دراصل نذر محمد کرکٹ ہی نہیں نورجہاں کے بھی عاشق تھے اور گاتے بہت عمدہ تھے۔ ایک روز نور جہاں ان سے ملنے گئیں تو ڈرائیور نے شوہر شوکت رضوی سے شکایت کردی۔ وہ غصے میں بھرے وہاں پہنچے اور سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر آگئے۔ جب نذر محمد نے انہیں آتے دیکھا تو وہ گھبرا کر بھاگے اور کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ یوں اونچائی سے گر کر ان کا بازو بری طرح ٹوٹ گیا۔ شوکت اور نورجہاں میں شدید لڑائی ہوئی، بہت شور مچا اور بات الزامات سے ہوتی ہوئی عدالت اور پھر علیحدگی پر ختم ہوئی۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر کہتے ہیں:

مجھ سے ظاہر ہے بہت سینئر تھیں نورجہاں صاحبہ میری ان سے دوستی نہیں رہی لیکن میں نے جو آبزور کیا میرا خیال ہے کہ وہ مرد کی طرح جیئن اور مردوں سے ان کی برابری برداشت نہیں ہئی اور جو کانفلکٹ ہوا تو علیحدگی ہوگئی۔

نورجہاں کہتی تھیں کہ وہ نذر محمد سے اس لیے ملیں تاکہ شوکت کا دماغ درست کر سکیں۔ شوکت بھی اپنے افیئر سے ہمیشہ انکار کرتے رہے۔ مگر پھر انہوں نے شادی فلمسٹار یاسمین سے ہی کی۔ شوکت رضوی سے نورجہاں کے دو بیٹے اکبر اور اصغر جبکہ بیٹی ظل ہما ہوئیں۔

فلم رائٹر ناصر ادیب اس بارے میں کہتے ہیں:

جو سچ ہے وہ میرے منہ سے نکل جاتا ہے۔ مرد ہو یا عورت ہو کچھ ایسے مرد اور عورتیں ہوتی ہیں جو ہوٹل میں کھانا کبھی کبھی کھا لیتے ہیں وہ کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہر روز تو ہوٹل میں کھانا نہیں کھایا جاتا۔ فلم انڈسٹری کے مردوں میں تو یہ ہے بلکہ شاید سارے مردوں میں ہے سوائے اس کے جس کو موقع نہ ملے عورتوں میں یہ بہت کم ہوتی ہے، لیکن میڈم نورجہاں انتہا درجے کی رومانٹک تھیں۔میڈم نورجہاں نے جو خواب دیکھا فورا تعبیر دیکھ لی۔ جس ڈائریکٹر کو چاہا وہ مل گیا۔ کرکٹر بیوروکریٹ بڑا آدمی اس کو بلایا اس کا انکار نہیں کیا۔ کسی کو جرات نہیں ہوسکی۔

ایک دنیا نور جہاں پر مرتی تھی پر ان کا دل ایک ایسے نوجوان پر آگیا جو دس سال چھوٹا تھا۔ لالی وڈ کے اس سوہنے منڈے اعجاز درانی کا ابھی فلموں میں کوئی نام نہ تھا۔ نورجہاں نے ان سے شادی کر کے بڑے نخرے اٹھائے۔ اعجاز سے تین بیٹیاں حنا، شازیہ اور ٹینا پیدا ہوئیں۔ حنا کہتی ہیں ماں ابا کے لیے اپنے ہاتھ سے کھانا بناتیں، پانی گرم کرتیں، میچنگ کے موزے پہناتیں۔ ایسا لگتا کہ ایک سولہ سال کی لڑکی ننھے کاکے کو پال رہی ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر دماغ درست کردینے والی نورجہاں نے کبھی اعجاز پر غصہ نہ کیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔ ایک وقت آیا کہ اعجاز نورجہاں سے بیزار ہوگئے اور نوجوان فلم اسٹار فردوس میں دلچسپی لینے لگے۔ دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ نورجہاں کی بیٹی ٹینا بتاتی ہیں کہ ماں آخری دنوں میں میرے اور حنا کے پاس کراچی رہ رہی تھیں۔ جہاں والد بھی آ جاتے۔ جب تک ہمت رہی وہ ان کے لیے ناشتہ خود تیار کرتی رہیں۔ بیماری اور انتقال کے وقت بھی ان کے لبوں پر اعجاز کا ہی نام تھا۔

فلم رائٹر ناصر ادیب کہتے ہیں:

اعجاز صاحب بیٹھے تھے تو میڈم کی گاڑی لیٹ تھی۔ تو پروڈیوسر نے کہا کہ اعجاز میڈم نوں گھر چھڈ دے۔ اس پونے گھنٹے میں سب کچھ ہوگیا، دوسرے دن شادی ہوگئی۔ کچھ مدت بعد پہلو بدلتا ہے مرد، دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا تو ان کے فردوس سے مراسم ہوگئے۔ میڈم نورجہاں بریک کرنے میں ٹائم نہیں لیتی تھیں۔ پھر یوسف خان صاحب بھی خوبصورت آدمی تھے ایک گانا تھا جھگڑا ہوگیا۔ پھر یوسف خان صاحب گئے ان کے گھر گئے بھئی گانا آپ نے گانا ہے۔ اکیلے گئے۔ بوسکی شلوار اور قمیص ، پھر وہی گئے تو وہیں رہ گئے۔ شادی ہوگئی۔ بس ہوگیا۔ اب بند کمرے کی باتیں تو وہیں جانتے ہیں میں تو بس اتنا بتا رہا ہوں کہ لمبی باتیں نہیں ہوتیں۔ پھر ایک عورت یوسف خان صاحب کی زندگی میں آگئی۔ پھر میڈم کو پتہ چل گیا اور ایک سیکنڈ لگایا میڈم نے بریک کرنے میں۔

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے۔ بطور اداکارہ نورجہاں کا غالب فلم میں یہ آخری گانا تھا جس کے بعد انہوں نے فلمی دنیا کو خیرباد کہ دیا۔

نور جہاں اس بارے میں کہتی ہیں:

گانا تو میری روح ہے جی اسی لیے میں نے ایکٹنگ چھوڑ دی کہ زیادہ سے زیادہ ایک پکچر میں چھ گانے ہوتے ہیں سال میں میں زیادی پکچروں میں کام نہیں کرتی تھی، دو تین پھر اسلیے میں نے سوچا کہ گانا زیادہ مل سکتا ہے اگر فلموں میں کام چھوڑ دوں تو۔

آپ نے بڑوں سے پینسٹھ کی جنگ کا زکر بہت سنا ہوگا، جب پوری قوم اپنے دفاع کے لیے ایک ہوگئی تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان تو اس جنگ میں کارکردگی کا آدھا کریڈٹ نورجہاں کو دیا کرتے تھے۔ مورچوں سے لے کر بنکروں تک، میڈم کے گائے جنگی ترانے کونے کونے میں گونج رہے تھے۔ کہتے ہیں اِن ترانوں نے ہتھیاروں سے بڑھ کر کام کیا۔

اے پتر ہٹاں تے نئیں وک دے، اے راہ حق کے شہیدوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، ایک طویل فہرست ہے ترانوں کی جو قوم کا جوش بڑھا رہے تھے۔ نورجہاں، پروڈیوسر اور فن کار دن بھر ریکارڈنگ کرتے اور پھر گُڑ اور خشک چنے کھا کر رات بنکروں میں گزارتے۔ جب جہاز آنے پر سائرن بجتا تو سب چھپ جاتے مگر نورجہاں کام بند نہیں کرتیں۔ وہ کہتی تھیں کہ مریں گے تو یہیں مریں گے۔ ایک روز پتہ چلا کہ محاذ پر جوان شہید ہوئے ہیں تو صوفی تبسم نے ’ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘ لکھا۔ جب یہ گانا تیار ہوا تو میڈم اور صوفی تبسم سمیت ہر کوئی رو رہا تھا۔

ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد عاظم کہتے ہیں:

سارے دن میں گانا لکھا گیا کمپوز ہوا بیلنسنگ ہوئی پھر ریکارڈنگ ہوئی جب رات کو گانا براڈکاسٹ ہوا تو پورے لاہور میں دھوم مچ گئی کہ ریڈیو پاکستان نورجہاں کے نغمے کر رہا ہے تو بڑی اللہ کا کرم ہے اور بڑی محنت کی۔

آخری دنوں میں جنرل پرویز مشرف نور جہاں کی عیادت کو آئے اور بولے "مادام میں نے آپ کے جنگی ترانے سن کر جنگیں لڑی ہیں۔ بیمار نور جہاں نے کمزور آواز میں کہا" خدا نہ کرے پھر کبھی جنگ ہو، لیکن جنرل صاحب، اگر ایسا ہوا تو آپ مجھے ’میریا ڈھول سپاہیا‘ گاتے سُنیں گے۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر کہتے ہیں:

نورجہاں ہوں یا کوئی بھی سنگر جب ایج بڑھ جاتی ہے تو گانے کے رینج میں فرق پڑتی ہے۔ تو یہ صرف ملکہ ترنم نورجہاں کے گانے میں نہیں اس طرف لتا منگیشکر جب گارہی تھیں ففٹی پلس ہوگئی تھیں تو وہ بھی میوزک ڈائریکٹر کو کہتی تھیں کہ ایک سر نیچا کر لیں ان کے ماسٹر عبداللہ سے کئی بار اختلافات ہوئے۔

جنگیں دو تھیں اور آواز ایک۔ 65 میں نورجہاں کے ترانے جوانوں کا لہو گرما رہے تھے۔ تو اکہتر کی جنگ میں ان کے گانے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحیی خان کو دیوانہ بنا رہے تھے۔ پینسٹھ میں قوم ایک ہوئی تو اکہتر میں بٹ گئی اور پھر ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔

فلم رائٹر ناصر ادیب کہتے ہیں:

اصل میں نورجہاں جرنل رانی کی بہت اچھی دوست تھیں۔ یحیی خان بڑا وومینائزر تھا انہوں نے میڈم رانی کو بلایا اور خوش کرنے کے لیے ہر بار نئی سے نئی لڑکی بھیجی۔ جنرل یحیی خان نے بھی پھر بہتی گنگا نے ہاتھ دھوئے کے نہیں یہ تو اللہ کو پتہ ہے۔ بہرحال جنرل ضیا صاحب بھی بلاتے تھے۔ جنرل ضیا صاحب نے کہا تھا آپ جو حکم کریں۔ مگر ان کے مراسم کچھ اور طرح کے تھے۔ ان کے مراسم کچھ اور لوگوں کے ساتھ ہی جو آپ کو نہ پتہ ہو۔ مثال کے طور پر۔ ایویں ڈالا آئے گا مینوں چک کے لے جائے گا۔ تھوڑا بہت بتاوں گا تو پکڑا جاوں گا۔ پتہ چل گیا آپ کو بھی چک کے لیے جائیں گے۔ جتنے بڑے بیروکریٹ ہیں اور منسٹرس اور پولیٹیشنز ہیں ان میں ہمارے جرنلز بھی آتے ہیں۔ میڈم نورجہاں کو میں تو نہیں بلاسکتا نا نہ آپ بلاسکتی ہیں۔ ایک رینک ہوتا ہے اس سے اونچے لوگ بلاتے ہیں۔ ان کے پاس چلی جاتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے وہ ڈائیلاگ میں نے لکھا تھا کہ لڑکی کو منڈا چھیڑتا ہے تو وہی کہتی ہے کہ یاد رکھ یہ گڈی چھوٹے اسٹیشناں تے نہیں کھلوتی۔ ہا ہا ہا

پرانی شراب کی طرح نورجہاں کی آواز وقت کے ساتھ ساتھ مزید نکھرتی جا رہی تھی۔ اب اس میں کئی دہائیوں کا تجربہ جھلک رہا تھا۔ جنرل یحیی صدر بنے تو میڈم کے ساتھ ان کے اسکینڈلز بھی بننے لگے۔ نورجہاں انہیں کبھی سرکار تو کبھی چن کہہ کر بلاتیں۔ وہ یحیی کے دل و دماغ پر سوار تھیں۔ ملک ٹوٹ رہا تھا اور قوم کا سربراہ پنڈی میں نوری کے ساتھ پارٹی کر رہا تھا۔ ایک بار تو حد ہی ہوگئی۔ صدر یحیی، جنرل حمید سے بولے کہ اگر میں نوری کو چیف آف اسٹاف بنا دوں تو وہ تم سب سے بہتر کام کرے گی۔ کیا بات ہے، وہ دن بھی آیا کہ ایک طرف ہزاروں جوان ہتھیار ڈال رہے تھے اور یحیی نورجہاں سے فون پر سیونی میرا ماہی سن کر جھوم رہے تھے۔ ایک روز یحیی جنرل رانی کے ساتھ بیٹھے تھے، آدھی رات گزر چکی تھی کہ انہیں اچانک نورجہاں کے گانے کی ہوک اٹھی۔ پھر کیا تھا، ملٹری سیکرٹری کو حکم ہوا جس نے فٹا فٹ دکاندار کو نیند سے اٹھاکر دکان کھلوائی اور ریکارڈ پیش کر دیا۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر کہتے ہیں:

ان کی زندگی کا یہ پہلو رہا ہے، طاقت ور مردوں دولت مند مردوں نے ان کے قریب ہونا شان سمجھا ہے۔ اسٹیٹس سمبل سمجھا ہے۔ جو ان کی محفل میں پہنچا وہ سیلیبرٹی بنا جو محروم رہا وہ اس زمانے کی سیلیبرٹی نہیں تھا۔ میڈم نورجہاں جب جوان تھیں ایکٹو تھیں توآپ یہ سمجھیں کہ سورج تھیں اور باقی سیلیبریٹیز بائیس خاندان اسٹیبمشمنٹ اور سیاستدان تھے ان سب کی خواہش تھی کہ وہ اس سولر سسٹم کے چھوٹے موٹے ستارے ہوں۔

اکھتر کی جنگ کا وقت تھا۔ میڈم تین نغمے ریکارڈ کرا کر اسٹوڈیو سے باہر آئیں اور سیدھا ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر طاہر شاہ کے کمرے میں پہنچیں۔ یہ واقعہ براڈکاسٹر جمیل زبیری کے سامنے ہوا جو انہوں نے اپنی کتاب یاد خزانہ میں لکھا۔ میڈم نے کہا کہ میری یحیی خان سے بات کرائیں۔ طاہر شاہ گھبرا گئے تو کہنے لگیں، آپ ڈریں نہیں، فون ملا کر مجھے دے دیں۔ بڑی مشکل سے فون ملایا گیا، پہلے سیکرٹری کی آواز آئی اور پھر میڈم کا نام سن کر خود صدر پاکستان لائن پر آگئے۔

میڈم بڑے پیار سے بولیں: چن، میں کراچی وچ تِن نغمےاج ای ریکارڈ کروائے نے، تسی رات اٹھ وجے ریڈیو تے سن لینا، نورجہاں نے تو فون رکھ دیا مگر وہاں موجود لوگوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ میڈم نے نہ صرف نغمے نشر ہونے کا ٹائم فکس کردیا تھا بلکہ صدر کو بھی بتا دیا تھا۔ اُن دنوں بلیٹن رات آٹھ بجے نشر کیا جاتا تھا۔ اس وقت نہ تو ٹی وی چینلز تھے نہ ہی سوشل میڈیا۔ خبروں کا واحد ذریعہ یہی بلیٹن تھا۔

عام دن ہوتے تو اور بات تھی لیکن جنگ کے دوران خبریں روکنا ناممکن تھا۔ بات ہیڈ آفس پہنچی تو ڈائریکٹر جنرل نے سیکرٹری کی منتیں شروع کردیں اور بڑی کوشش کے بعد نغمے بلیٹن کے بعد نشر کیے گئے۔ نہ جانے اس حکم عدولی پر ڈائریکٹر اور ڈی جی کو بعد میں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا ہوگا۔

نور جہاں بلا کی حسن پرست تھیں، انہوں نے زندگی اپنی شرائط پر ہی گزاری۔ ایک بار امریکا کنسرٹ کرنے گئیں تو پوچھا گیا کہ بھارتی قونصل جنرل کو مہمان خصوصی بلا لیں۔ نورجہاں کا جواب تھا، بھارتی ہو یا پاکستانی جس کو بھی بلائیں، دکھنے میں اچھا ہونا چاہیے۔ کسی بدشکل کو سامنے دیکھ کر میرا موڈ آف ہوجاتا ہے۔

نورجہاں نے چالیس سے زائد فلمیں کیں اور ہزاروں گیت گائے۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کب سے گارہی ہیں؟ نورجہاں کا جواب تھا میں شاید پیدا ہوتے وقت بھی گا رہی تھی۔ صحافی کلدیپ نائر کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے کسی نے نورجہاں سے پوچھا کہ آپ نے کتنے گانے گائے ہیں تو ان کا جواب تھا، میں نہ گانوں کا حساب رکھتی ہوں نہ گناہوں کا۔

فلم رائٹر ناصر ادیب کہتے ہیں:

بڑی دبنگ اور بڑی دلیر خاتوں تھیں اس کو کوئی بدمعاش بیوروکریٹ ڈرا نہیں سکا نہ وہ ڈری۔ وجہ یہ تھی کہ اسے ایک ڈرانے والا تھا تو دس بچانے والے بھی تھے۔ ایک ہوتا ہے سیکس پرورژن سے بھی آگے کی چیز، وہ آگے کی چیز تھیں۔ میں ان سے سوال یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ پیدائشی ہیں یا کسی انسیڈنٹ کی وجہ سے ہوگئی ہیں۔ مگر میں نے نہیں پوچھا کہ ناراض نہ ہوجائیں کیوںکہ وہ گالیاں بھی دینا شروع کردیتی تھیں۔ کیونکہ وہ بے بی تھیں پھر بڑی ہوئیں۔ انڈسٹری کے لوگوں کے ہاتھوں میں بڑی ہوئیں۔ لوگوں کی بری نظروں نے انہیں وقت سے پہلے جوان کیا۔

ایک بار دوستوں کی محفل میں بیٹھی وہ مشہور گیتوں کو اپنے بچوں کی پیدائش سے جوڑ رہی تھیں۔ میڈم نے فخر سے بتایا کہ جب میرا گیت ’آواز دے کہاں ہے‘ ہٹ ہوا تو میرا بیٹا اکبر پیدا ہونے والا تھا۔ اسی طرح وہ ایک ایک کر کے تمام بچوں کے بارے میں بتاتی گئیں۔ اس پر پاس بیٹھے سازندے نے کہا میڈم، کیا آپ نے کبھی کوئی گیت خالی پیٹ بھی گایا ہے؟ اس بات پر قہقے گونج اٹھے اور وہ خود بھی قہقہ لگانے لگیں۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر کہتے ہیں:

ملکہ ترنم نورجہاں ایک بار گئیں انڈیا میں تو لتا جی سے پوچھا آپ کتنی پیسے چارج کرتی ہو ایک گیت کے انہوں نے کہا بس میڈم پچیس ہزار۔ میڈم یہاں پانچ ہزار کر رہی تھی۔ انہوں نے یہاں آکر پچیس ہزار کردیا۔ پروڈیوسرز نے ہڑتال کردی۔ ڈیلیگیشن کے ڈیلیگیشن مل رہے ہیں طافو بیٹھے ہوئے تھے۔ طافو صاحب نے سر نیچے کیا کہ دسو، چوٹ نہ بولنا، طافو صاحب کہتے ہیں صبح سے شام تک کلمہ پڑھ رہا ہوں اور جھوٹ بول رہا ہا۔ میڈم کی کرتے پیے ہو خدا دا نال لو۔ انہوں نے کہا طافو میاں پڑھو کلمہ۔ انہوں نے کلمہ شہادت کہ کر دوڑ لگا دی۔

لاہور میں ایک بار گھر کے باہر کسی عورت کے گانے کی آواز آئی۔ نورجہاں نے اندر بلا لیا۔ خاتون کے ہاتھ میں گڑوی تھی جسے وہ گاتے ہوئے بجا رہی تھیں۔ میڈم نے گانے کی بہت تعریف کی اور بیس ہزار روپے انعام دیا۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ مشہور لوک گلوکارہ ریشماں تھیں جو پاکستان اور انڈیا میں بلبل صحرا کے نام سے مشہور ہوئیں۔ طبلہ ساز اور لائٹ مین ہی نہیں راہ چلتے لوگوں کی مدد کرنا بھی نورجہاں کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ باہر ملکوں سے ڈھیر ساری شاپنگ کرتیں اور لاہور آکر میک اپ روم کی لڑکیوں میں تقسیم کر دیتیں۔ کسی کو غصے میں جھڑک دیتیں تو فوراً معافی مانگ لیتیں۔ موسیقار نثار بزمی ایک بار نورجہاں سے ملنے گئے جب وہ گھر میں گانوں کی ریہرسل کر رہی تھیں۔ بزمی صاحب کو چائے پیش کی تو وہ چھلک کر ان کے کولاپوری چپل پر گری۔ نورجہاں نے فوراً جھک کر اپنی قیمتی ساڑھی کے پلّو سے چائے صاف کرنے لگیں۔ بزمی صاحب گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ میڈم یہ کیا کر رہی ہیں۔ تو نورجہاں نے ان کی چپل اٹھائی اور سر پر رکھ لی۔ بزمی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بہت روکا لیکن ان کا جواب تھا کہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی میں اس مقام تک پہنچی ہوں۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر کہتے ہیں:

میڈم نورجہاں کو انارکلی فلم کی آفر ہوئی وہ فلم چھوڑ کر گانا گا رہی تھیں، تسی بننا ہے انارکلی۔ فیر تسی کوئی پرانی انارکلی بنا رہے ہو،

انیس سو بیاسی میں پینتیس سال بعد وہ انڈیا گئیں۔ اس دورے کی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ میڈم لاہور ائرپورٹ پہنچی تو بتایا گیا کہ اوپر سے آرڈر ہے آپ بھارت نہیں جاسکتیں۔ میڈم نے بس اتنا کہا کہ جائوں گی تو میں آج ہی۔ چند فون گھمائے اور پھر جو طیارہ ٹیکسی کر رہا تھا اسے بریکیں لگ گئیں۔ میڈم اسی دن بھارت پہنچیں۔ یہ انڈین ٹالکی مویز کی گولڈن جوبلی تھی جہاں دلیپ کمار اور لتا نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔

جرنلسٹ طاہر سرور میر مذید کہتے ہیں:

میں رفتار جو آپ کا پلیٹ فارم ہے اس کے لیے ایک ایکسکلوزو بات ملکہ ترنم نورجہاں کے حوالے سے شیئر کروں گا جو اس سے پہلے میڈیا میں نہیں ہے۔ یہ انٹرویو میں نے گامے خان صاحب کا ایک اخبار میں فائل کیا تو ایڈیٹر نے وہ والا واقعہ اس میں سے ایڈٹ کردیا کہ یہ ایک بریکنگ نیوز سے بڑی نیوز ہے اور شاید اخبار ہمارا ڈائجسٹ نہیں کرسکے گا۔ میڈم نورجہاں انہیں بتاتی ہیں کہ استاد جی میں انڈین نیشنیلٹی لے رہی ہو جب میں انڈیا چلی جاوں گی تو میرا استاد یہاں تھوڑی رہے گا وہ بھی میرے ساتھ ہوگا۔ تو یہ بات مجھے استاد گامے خان نے انٹرویو میں بتائی۔ ظاہر ہے ملکہ ترنم نورجہاں بھی انہوں نے ساری زندگی وطن سے محبت کے گیت گائیں ہیں آفر ہوئی ہو نیشنلٹی کی انہوں نے کبھی سوچا بھی ہوا پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہیں رہیں گی۔

شبانہ اعظمی نے کہا کہ جیسے کائنات میں ایک سورج اور ایک چاند ہے، اسی طرح نور جہاں بھی ایک ہی ہے۔ نورجہاں نے دلیپ کمار کو بتایا کہ سیکھنے کے زمانے میں وہ گھنٹوں ریاض کرتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ایک دن گانا چھوڑیں تو یہ آپ کو 21 دن چھوڑ دے گا۔

میڈم کی یہ خواہش تھی کہ حکومت کوئی ایسی اکیڈمی بنائے جہاں نئی نسل کو موسیقی کی تعلیم دی جاسکے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔

فلم رائٹر ناصر ادیب کہتے ہیں:

میڈم نورجہاں کا یہاں گھر تھا جب وہ فوت ہوگئیں تو انہوں نے بیچ دیا اور حکومت خاموش رہی آپ خرید لیتے ہال بنا لیتے، جہاں ان کے گانے ہوتے وغیرہ ان کی فلمیں ہوتیں جو سنگر بنا چاہتیں وہاں آتیں۔

میڈم نے پوری زندگی چار چیزوں سے عشق کیا۔ موسیقی، خوبصورتی، وطن اور بچے۔
نورجہاں کو زندگی میں وہ سب ملا جس کی انسان خواہش کر سکتا ہے۔ مگر انہیں کبھی غرور اور تکبر کرتے نہیں دیکھا گیا۔ وہ اپنی کامیابیوں کو خدا کا کرم قرار دیتیں۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور 23 دسمبر سن 2000، رمضان المبارک کی ستائسویں شب کو "ترنم کی ملکہ" دنیائے موسیقی کو الوداع کہہ گئیں۔

شیئر

جواب لکھیں