پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین قومی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف معیشت پر بوجھ ڈال رہا ہے بلکہ معاشرتی اور صحت کے مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں؟ یا یہ مسئلہ صرف تباہ کن اعداد و شمار تک محدود ہے؟
اس اہم موضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے رفتار پوڈ کاسٹ میں گرین اسٹار پاکستان کے سی ای او، ڈاکٹر سید عبدالرب صاحب کو مدعو کیا گیا۔ گرین اسٹار 32 سال سے پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت اور دیکھ بھال کے لیے کام کر رہا ہے، اس حوالے سے کئی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرب نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 13 ملین حمل ہوتے ہیں، جن میں سے 6 ملین غیر مطلوبہ ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، 4 ملین اسقاط حمل کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف خواتین کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ معاشی بوجھ کا بھی سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آبادی کے مسائل کے پیچھے معیشت، تعلیم اور صحت کے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرب نے واضح کیا کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے سب سے عام طریقوں، خاص طور پر کنڈومز، پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جس سے یہ عوام کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آدمی کے پاس روٹی خریدنے کے لیے 20 روپے نہیں ہیں، تو وہ 25 روپے کا کنڈوم کیسے خریدے گا؟ اس اقدام نے خاندانی منصوبہ بندی کے آلات کی خریداری میں 35% کمی کر دی ہے، جو مزید مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرین اسٹار کمیونٹی لیول پر خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد سے آگاہ کر رہا ہے نیز مذہبی رہنماؤں کو اس کام میں شامل کر کے لوگوں کے خدشات کو دور کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرب نے آبادی کنٹرول کے لیے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بھی ملٹی سیکٹورل اپروچ اپنائیں تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا صرف ایک عددی مسئلہ نہیں، بلکہ وسائل کی تقسیم، صحت کی سہولیات، اور معیشت کی پائیداری کا معاملہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالرب کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو یہ ایک معاشی سونامی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی کے مسائل پر تفصیلی بات چیت کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ ضرور دیکھیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب اس مسئلے کے حل کے لیے کردار ادا کریں۔