آئی بی اے کے سامنے درجنوں اسٹوڈنٹس دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ پچھلے ہفتے یہاں ایک ڈانس پارٹی ہوئی تھی جس کی وائرل ویڈیوز نے ملک میں ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں homosexuality کی باتیں، وہ بھی ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ میں؟ لاحول ولا قوت۔ اب کیا یہاں ’’گے پارٹیز‘‘ ہوا کریں گی؟
اسٹوڈنٹس ہوں یا ٹیچرز سبھی غصے سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ ملک کے ٹاپ بزنس انسٹیٹیوٹ نے دو لڑکوں کو قربانی کا بکرا بنایا، تب کہیں جا کر معاملہ ٹھنڈا ہوا۔ احتجاج کرنے والوں نے سڑک کھول دی اور سب اپنے اپنے گھر جانے لگے۔
وہیں ٹریفک میں پھنسے ایک ٹرک میں بیٹھا بارہ سالہ اریب اپنے سامنے یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ بینر پر لکھے لفظ homosexuality کا کیا مطلب ہے۔ اس کے دماغ میں تو جیسے دھماکے ہو رہے تھے، جن سے اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہا تھا۔ مگر ایسا کیوں تھا؟
اصل میں اریب کو اس بات کا غصہ تھا کہ وہ کیوں بادشاہ خان کے کہنے میں آ کر، اُس کے ساتھ پشاور سے کراچی آگیا۔ پانچ سو کا وہ نوٹ لینے سے تو بہتر تھا کہ وہ ساری عمر کچرا چنتا رہتا۔ اب وہ پچھتا رہا تھا۔
احتجاج کرنے والے بھی بے خبر تھے کہ جو ویڈیو انہیں یہاں کھینچ لائی تھی اس سے کہیں سنگین، گھناؤنی اور ناقابل معافی حرکت، بادشاہ خان اس ٹرک میں بیٹھے بچے کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ سب اسی ٹرک کے سامنے سے ایک ایک کر کے گزر رہے تھے مگر اریب بے بسی سے انہیں جاتے دیکھ رہا تھا۔ وہ اور کرتا بھی کیا۔ وہ تو اب ایسی دلدل میں پھنس چکا تھا جس میں سیکڑوں بادشاہ خان اریب جیسے غریب اور بے گھر بچوں کو پھنسائے ہوئے ہیں۔ اور اس دلدل کا نام ہے ’’بچہ بازی‘‘۔
رات کے گیارہ بجتے ہی ہائے ویز پر ایک نئی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اپنی پیٹھ پر سامان لادے دس سے بارہ ٹن وزنی ٹرک، رینگتے ہوئے دریائے سندھ سے قراقرم کے برف پوش پہاڑوں تک جاتے ہیں۔
یہ کوئی پونے تین لاکھ ٹرکس ہیں جو ہماری معیشت کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے ہیں۔ ہمارا سامان ایک سے دوسرے شہر پہنچاتے ہیں۔ کبھی بندر گاہ تو کبھی سڑک اور کبھی ٹریفک میں پھنسے ڈرائیور کی پوری زندگی اسی ٹرک کے کیبن میں گزرتی ہے۔ منفرد ٹرک آرٹ سے سجے ان دیو ہیکل ٹرکس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔
جب رات ہوتی ہے تو سرخ روشنی میں نہائی ان گاڑیوں کے کیبن کسی ریڈ لائٹ ایریا کا مںظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ ان رنگ برنگے ٹرکوں سے جڑی بچہ بازی کی کہانیوں میں کتنی حقیقت ہے؟ آج ہم اس سے پردہ اٹھانے لگے ہیں۔ یہ ایک حساس موضوع ہے جس کے لیے ہم نے تمام بچوں کے نام بدل دیے ہیں اور چہرے بھی دھندلے کر دیے ہیں۔
ہماری ٹیم کئی روز کی محنت کے بعد بالآخر اُن ٹرک ڈرائیورز تک پہنچ گئی جو ’’بچہ باز‘‘ کہلاتے ہیں۔
رات ہوتے ہی ٹرک اڈوں پر کھلے آسمان کے نیچے چارپائیاں بچھا دی جاتی ہیں۔ دور دراز سے آئے ڈرائیور یہ بستر کرائے پر لے کر رات گزارتے ہیں اور صبح ہوتے ہی آگے چل دیتے ہیں۔ یہاں پچاس فیصد ٹرک ڈرائیورز نے یہ مانا ہے کہ لڑکوں کے ساتھ سونا ان کا واحد ’’سورس آف انٹرٹینمنٹ‘‘ ہے۔ اسی طرح یہ بھی سامنے آیا کہ مانگنے والے یا کچرا چننے اور سامان بیچنے والے دس میں سے آٹھ بچے کسی نہ کسی شکل میں زیادتی کا شکار ہوئے۔
یہ ایک ہولناک انکشاف تھا جس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ کئی ڈرائیورز ایسے تھے جن کی بات سمجھنا ہی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ پھر ہر کوئی کیمرے پر بولنے کو تیار بھی نہ تھا، بعض تو بات کرنے سے پہلے ہی ہتھے سے اکھڑ گئے۔
ڈرائیوری کے اس پیشے میں ڈرگز، اسمگلنگ اور ویپنز کا استعمال کوئی انہونی بات نہیں۔ یہاں تو کسی کو قتل کر دینا بھی معمول کی بات ہے۔ ہمیں تمام خطرات کا پوری طرح اندازہ تھا۔ یہ سب باتیں ذہن میں رکھ کر ہماری ٹیم انٹرویوز کے لیے دن ڈھلنے کا انتظار کرتی رہی۔ رات گہری ہوئی تو رنگین سواریوں میں بیٹھے ڈارئیورز کسی کے منتظر دکھائی دیے۔
FORGOTTEN CHILDREN
بے حسی شرط ہے جینے کے لیے
اور ہمیں احساس کی بیماری ہے
جون ایلیا ٹھیک ہی کہتے تھے، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ بے حسی ہے۔ ہمیں چلتی گاڑی سے کچرا پھینکنے کی عادت ہے اور اسے چننے والے بچے کچرے کی طرح سڑک کنارے پڑے رہتے ہیں۔
پاکستان میں چالیس فی صد آبادی انتہائی غریب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی روز کی کمائی نو سو روپے سے کم ہے۔ حکومت کے بجٹ ریڈار پر ان کا نام و نشان تک نہیں۔ اتنی کم تنخواہ اور کئی بچوں کا بڑا خاندان! ایسے میں قرض دار نسلیں بچپن سے زندگی کی گاڑیاں کھینچنا شروع کر دیتی ہیں۔ کہیں چھوٹا بن کر تو کہیں کچرا چُن کر۔ کم و بیش دس لاکھ بچے غریب ہونے کی وجہ سے کم عمری میں کام پر جانا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سوں کو بچپن سے ہاتھ پھیلانے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ ان میں سے کئی یتیم اور بے سہارا بچے ایسے بھی ہیں جو اس بھری دنیا میں اکیلے ہیں اور ان کے پاس سونے کے لیے صرف فٹ پاتھ ہے۔ اِن پھول جیسے بچوں کو آس پاس دیکھ کر کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا، کہ ان کی بھی کوئی ضرورتیں ہیں۔ انہیں بھی کھانے پینے، پڑھنے لکھنے اور کسی چھت کے نیچے رہنے کا حق ہے۔ یہ سب تو چھوڑیے، ان بچوں کو خباثت بھرے ٹرک ڈرائیورز سے بچانے والا بھی کوئی نہیں۔ نہ حکومت، نہ ہی عوام۔
HISTORY OF ABUSE
بچوں کے ساتھ اس زبردستی کے پیچھے کیا سوچ ہے؟ ذرا اس سے اندازہ لگائیے:
دریا کے اُس پار ایک لڑکا مجھے بالکل آڑو جیسا دکھتا ہے، افسوس کہ میں تیرنا نہیں جانتا۔
زخمی سندارا نامی ایک پشتو گانے میں یہ شعر بار بار آ رہا ہے، جسے ہم نے سینسر کر دیا ہے۔ یہ گانا 1940 میں پشاور کے لاوڈ اسپیکر پر بج رہا ہے۔ یہ انگریزوں کا دور ہے۔ کوہاٹ کے اسسٹنٹ کمشنر میجر مورس پیٹرک او کونر سے کسی نے اس گانے کا ذکر کیا تو گورا حیران رہ گیا۔ ایک قدامت پسند مذہبی معاشرے میں اتنی فحش بات کس طرح کھلم کھلا بازاروں میں سنائی جا رہی ہے۔ اس نے یہ پوری کہانی اپنی یاد داشت میں لکھ ڈالی۔
اسکاٹش ہسٹورین ولیم ڈارلمپل نے 27 فروری 2013 کو ایک ٹویٹ کی۔ اس نے وہی شعر والی بات خٹک قبیلے کے جنگجو لیڈر اور شاعر خوشحال خان خٹک کے نام سے جوڑ دی۔ یہ لائن ڈارلمپل کی بک ریٹرن آف آ کنگ میں درج تھی۔ ایک نامور ہسٹورین کا ان اشعار کو بغیر تحقیق پبلک فورم پر یوں کسی سے منسوب کر دینا حیرت انگیز تھا۔ پانچ سال بعد ڈارلمپل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے تصحیح کر لی۔
مورس اور ڈارلیمپل کے دعوے صحیح ہیں یا غلط لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کم عمر بچوں سے جنسی خواہش پوری کرنے کی تاریخ، افغانستان اور وسط ایشیا میں ایک ہزار سال سے بھی پہلے ملتی ہے۔ جرمن ایتھنو گرافک ریسرچ کے مطابق پہاڑوں میں رہنے والے بڑی عمر کے شادی شدہ مرد بھی چھوٹے لڑکوں کو چائلڈ پروسٹیٹیوشن یا سیکس سلیو کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔
ایشیا میں لوگ homosexuality کی تاریخ کا تانا بانا اور بھی پیچھے سے جوڑتے ہیں۔
تئیس سو برس پہلے یہ وہ وقت تھا جب سکندر اعظم ایشیا سے گزرا اور یہاں اس کی لڑکوں سے دوستی خاصی مشہور ہوئی۔ شاید تب سے ہی یہ سلسلہ یہاں جڑیں مضبوط کرتا چلا گیا۔
افغانستان میں یہ لڑکے ڈانسنگ بوائز کے طور پر مشہور تھے جن کے تماشائیوں میں خود پولیس بھی شامل ہوتی۔ طالبان بھی ابتدا میں بچہ بازی روکنے کے خلاف ہی میدان میں اترے۔ حکومت میں آکر انہوں نے بچہ بازی کی سزا موت رکھی۔ اسے روکنے کے لیے کئی عالمی معاہدے بھی ہوئے، لیکن اسے ختم نہ کیا جا سکا۔
بچہ باریش یا بغیر داڑھی والے آٹھ دس سال کے معصوم اور پیارے سے بچے۔ یہ اکثر گھر سے بھاگے ہوئے، یتیم اور بے آسرا لڑکے ہوتے۔ جب یہ اٹھارہ، انیس برس کی عمر کو پہنچ کر جوان ہوتے تو ان زخمی روحوں کو دوبارہ معاشرے میں دھکیل دیا جاتا۔ برسوں کی زیادتی، بدنامی کا ڈر اور ذہنی ٹارچر تو انہیں پہلے ہی تنہا کر چکا تھا۔ اب نہ تو معاشرہ انہیں قبول کرتا اور نہ وہ خود نارمل زندگی گزار پاتے۔
سوشل ایکٹیوسٹ عمران بتاتے ہیں:
ایک کیٹگری وہ ہے جو گھر سے بھاگ سے آتے ہیں۔ ایک وہ ہے گھروں سے کام کے لیے نکلتے ہیں اور واپس اپنے گھروں کو جاتے ہیں انکی فیملی کو تو پتہ ہوتا کہ ہمارا بچہ کب کہاں ہے کس کام کے لیے گیا ہے، بھاگے ہوئے بچے کا الیمہ یہ ہے بچے کو تو پتہ ہوتا ہے میرے ماں ماپ کہاں ہیں اس کے ماں باپ کو پتہ نہیں ہوتا ہمارا بچہ کہاں ہے، اس میں زیادہ تر بچے کے پی کے، بھاگ کر پشاور کر جنرل بس اسٹینڈ پہ اترتے ہیں یہی ان کا ڈراپنگ پوائنٹ ہوتا ہے۔
بچوں کے عالمی ادارے یونیسیف نے خیببر پختونخوا میں پہلا چائلڈ لیبر سروے ابھی پچھلے سال ہی جاری کیا تھا۔ اس میں پانچ سے 17 سال کی عمروں کے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ سروے میں سامنے آیا کہ صوبے میں 80 لاکھ سے زائد بچوں میں سے 9 لاکھ مزدوری کرتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ چائلڈ لیبر سے منسلک 16 فیصد بچے کسی نہ کسی زیادتی کا شکار ضرور ہوئے۔
پیسوں کے لیے مارے مارے پھرتے چند بچوں سے ہم نے بات کی۔ فرشتوں جیسے معصوم، ہر ایک بچے کی اپنی ہی کہانی تھی۔ روح کے زخم کریدنا آسان کام نہیں ہوتا، یہ مرحلہ ہماری رپورٹر کے لیے بھی کافی اذیت ناک ثابت ہوا۔
بسکٹ نمکو بیچنے والے یہ بچے چار پیسے کمانے کے لیے ہر روز کئی بار بس اڈے کا چکر لگاتے۔ یہاں آ کر وہ کبھی پاپڑ بیچتے تو کبھی اپنا جسم۔
SOCIAL NEGLECT
مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کہ ٹرک اور بس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک بچہ کیوں موجود ہوتا ہے۔ کیا وہ ڈرائیور کا بیٹا ہے یا رشتہ دار؟ یا کوئی کام سیکھنے والا apprentice؟ آخر اس کا یہاں کام کیا ہے۔
ٹرک ڈرائیورز اور کنڈکٹرز اکثر ان بچوں کو لمبے سفر پر اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ یہ وہی غریب اور بے سہارا بچے ہیں جو چند پیسوں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہاں ان کی ضرورت ایک سیکس پارٹنر کے طور پر ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ رفتہ رفتہ ایک کلچر کی شکل اختیار کر چکا ہے مگر مجال ہے جو کوئی اس پر بات کرے۔ سب جانتے بوجھتے اس موضوع کو ٹیبو یا شجر ممنوعہ بنا کر آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ ہاں قصوں اور لطیفوں میں بچہ بازی کا ذکر خوب ہوتا ہے، ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگائے جاتے ہیں، لیکن کوئی ان بچوں کو اپنا بچہ نہیں سمجھتا۔
سوشل ایکٹیوسٹ عمران ٹاکر مزید بتاتے ہیں:
اسٹریٹ میں اگر کوئی بچہ آجئے تو 24 گھنٹوں میں 70 سے 80 فیصد یہ امکان ہوتا ہے وہ جنسی تشدد کا شکار ہو جائے، جس سیکشوئل ابیوز کا ہم ذکر کرتے ہیں اسے کہتے ہیں commercial sexual exploitation وہ ضروری نہیں ہے پیسوں کی شکل میں ان کو oblige کیا جائے ان کو روزگار دے کر اسی کی بیس پہ استعمال کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں ہم تمہیں ڈرائیور بنائیں گے کراچی گھمائیں گے ان کو لالچ دیتے ہیں۔
ظلم اور استحصال کے ماحول میں سڑک پر اکیلا کھڑا بچہ بہت تنہا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ہوسٹائل ماحول میں پلا بڑھا بچہ، بڑے ہو کر معاشرے میں کیا کرے گا، یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
اکثر ڈرائیورز خود کو یہ تسلی دیتے دکھائی دیے کہ یہ گھناؤنا کام بچے اپنی خوشی سے کرتے ہیں یا کم از کم انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ ٹرک ڈرائیورز گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور تو اور اپنی غلطی چھپانے کے لیے بعض اوقات یہ بچے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
جس معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کر دینا ایک عام سی بات ہو، وہاں اس کھلی بے غیرتی کا بھلا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو دین سے دوری اور کلچر کے ڈبل اسٹینڈرڑز کو ظاہر کرتی ہے۔ جہاں عورت کا گھر سے باہر نکلنا جرم سمجھا جائے، وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کا یہ اوپن سیکریٹ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے خواہش پوری کرنے پر قرآن کی واضح ممانعت ہے۔ ایسے کام کو حد سے بڑھ جانا قرار دیا گیا ہے۔ علما کے نزدیک کردار، کمائی سے زیادہ اہم ہے۔ ایسی کوئی بھی ڈیوٹی مجبوری نہیں بننی چاہیے جس میں کسی کو اپنی فیملی سے مہینوں دور رہ کر بد کاری کی راہ پر چلنا پڑے۔
عالم دین ابتسام الہی ظہیر کہتے ہیں:
جانور اور انسان میں بنیادی فرق کیا ہے جانور خواہش پوری کرتا ہے جبکہ انسان فرق کرتا ہے۔ کوئی جواز ایکسیپٹبل نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے، تجرد کی زندگی نہیں آئیڈیل انسان وہ ہوتا ہے جو اسلام پر چلے اسلام میں تجرد کی زندگی گزارنے کا راستہ نہیں دکھلایا گیا۔
بعض ٹرک ڈرائیورز کو اپنے کیے پر شرمندگی بھی ہوئی، مگر ندامت کو نشے کے دھوئیں میں اڑا کر وہ پھر پہلے جیسے ہوگئے۔
خیبر پختونخوا میں نشہ کرنے والوں کی بڑی تعداد پشاور میں ہے۔ نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کا استعمال دس فی صد ہے جو دیگر صوبوں سے تقریباً دگنا ہے۔ پشاور شہر سے افغان تورخم بارڈر کا فاصلہ صرف ساٹھ کلومیٹر ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں ڈرگز کی فراوانی ہے۔ رات گہری ہوتے ہی ڈرگ ڈیلرز بس اڈوں کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کا نشانہ اکثر چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ ایک بار لت لگ جائے تو بچہ نشے اور پیسے کی خاطر ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
سائیکلوجسٹ خاتون عروسہ عباسی کہتی ہیں:
یہ ان کے فزیکل باڈی نیڈ ہے جوسائیکلوجی کے مطابق کھانے اور خوراک کے بعد جو یہ ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر حد تک جاتا ہے۔ اور ابیزور کرتا ہے یہ۔ اس addiction کی مثال ایسے ہےکہ ایک گولی کھاتے ہیں دو کھاتے ہیں تو آپ گولی بڑھاتے جاتے ہیں اس طرح یہ فزیکل نیڈ میں بھی وہ آگے آگے بڑھتا جاتا ہے ایک کے بعد دوسرے پہ جاتا ہے۔ وہ اس حد تک جاتا کہ مردوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔
چائلڈ ابیوز کا نتیجہ ڈپریشن، اینگزائٹی اور اسٹریس کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس بچے کو دیکھیے۔ اس سے بات کرنا بہت تکلیف دہ تھا۔ یہ صرف دس سال کا تھا جب نشے کی لت میں پڑا اور کئی ٹرک ڈائیورز کی ہوس کا نشانہ بنا۔ اب تک یہ بچہ اس ٹراما سے نہیں نکل پایا ہے۔ اس کی تکلیف ناقابل بیان تھی۔ اس نے کئی بار خود کو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی۔
کچھ دن پہلے گھر گیا تھا تو دوستوں کے ساتھ نشہ کیا۔ جب ادھر واپس آیا تو بھی نشے میں تھا، ہم لوگ جب نشہ کرتے تھے تو پیسوں کے لئے غلط کام بھی کرتے تھے، میرے ساتھ دس لوگں نے غلط کام کیا ہے، ایک دفعہ اک ٹرک ڈرائیور مجھے زبردستی لے گیا اور میری شلوار نکال دی، پھر مجھے پانچ سو روپے دیے۔
سائکالوجسٹ عروسہ عباسی نے مزید بتایا:
یہ بچے پیسے کمانے کے لئے گھر سے نکلتے ہیں، کچھ بچے بھیک مانگتے ہیں اور کچھ اور کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں مگر جب ان کو اتنے پیسے نہیں ملتے تو وہ یہ کام کرتے ہیں، اور یہ وہ مجبوری کے عالم میں کرتے ہیں، اگر کوئی یہ کہے کہ بچوں کو عادت ہو جاتی ہے اس کام کی تو وہ بالکل غلط ہے، بچے کو بار بار بدترین ٹراما سے گزرنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں برا بننے میں لمحہ نہیں لگتا، مگر اچھا بننے میں عمر بیت جاتی ہے۔ ہر بچہ اپنے ماحول کا اثر لیتا ہے۔ غریب اور بے آسرا بچوں کو سہارا دینے کے لیے پشاور میں کئی افراد اور ادارے کام کر رہے ہیں۔ مگر حیرت تو یہ ہے کہ ان کے جنسی استحصال پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ہم نے جب ایک فلاحی ادارے میں جا کر بچوں سے بات کی تو یہاں بھی وہی کہانی نکلی۔
رکشے میں بیٹھ کر اس کے ساتھ گھر جاتا ہوں، صدر سے بیٹھ کر، جب تھوڑا آگے جا کر میرے ساتھ پھر یہ کام کرتا ہے، جب میں رونے لگ جاتا ہوں تو دس روپے دے کر مجھے کہتا ہے کہ جاؤ، میرے ساتھ دو دفعہ یہ کام کر چکا ہے، مجھے پر صدر سے تھوڑا آگے لیکر ڈراپ کرتا ہے جہاں کوئی نہ ہو۔
خیبر پختونخوا میں ایک ایسا سرکاری فلاحی ادارہ ہے جسے بے آسرا بچوں کا سائبان کہا جاتا ہے۔2016 میں تحریک انصاف حکومت نے ’’زمونگ کور‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 216 فلیٹس والی اس عمارت میں بے آسرا بچوں کے پڑھنے لکھنے، کھانے پینے اور کھیلنے کا انتظام ہے۔ یہاں انہیں ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کا نفسیاتی علاج بھی کیا جاتا ہے۔ ٹی وی دیکھتے، ہنر سیکھتے یہ بچے، فکروں سے آزاد ہیں۔ انہیں یہاں کمانے کی کوئی پریشانی نہیں۔
کہتے ہیں کلاس میں بیٹھا بچہ سڑک پر بیٹھے بچے سے کہیں بہتر ہے۔ پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے سوا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں سے پچاس لاکھ بچے خیبر پختونخوا میں ہیں۔
نصر، زمونگ کور میں سات سال پہلے آیا تھا۔ اپنے معصوم خیالوں کو رنگوں کی صورت میں کینوس پر بکھیرنا اس کا پسندیدہ کام ہے۔ وہ کہتا ہے:
یہاں میں بہت خوش ہوں۔ دوست بھی ہیں یہ میرا گھر ہے، سب کو میری پینٹنگ پسند آتی ہیں۔ میں آرٹسٹ بننا چاہتا ہوں۔ میرے ماں باپ بچپن میں ہی مر گئے تھے۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے پالا تھا لیکن اس نے بھی نکال تھا۔ میں سڑک پہ سوتا تھا، ایک دفعہ ایک گاڑی والے نے کہا میرے ساتھ چلو میں نے کہا میں غلط کام نہیں کرتا، گاڑی والے ہوٹل والے بھی تنگ کرتے تھے۔ جب میں سڑک پہ سویا ہوتا تھا تو ہاتھ لگاتے تھے اب یہاں آکر مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ کوئی غلط کور کے لیے کہے تو پولیس کو بتاؤ یا وہاں کوئی بزرگ ہو تو اسے بتاؤ۔
بچے من کے سچے ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ بولنا نہ چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں بولنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان بچوں نے اپنی دکھ بھری زندگی کیسے ہماری رپورٹر کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ یہی سوال جب ماہر نفسیات سے کیا تو ان کا جواب حیران کردینے والا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ مستقبل کے ان مردوں کو مرد کی شکل سے ہی نفرت ہو چکی تھی۔
صرف بچے ہی نہیں، خیبر پختونخوا میں اٹھارہ سال سے بڑے لڑکے بھی جنسی ہوس کا نشانہ بنتے ہیں۔ مگر اس طرح کے کیسز جنسی استحصال کی فہرست میں شامل نہیں کیے جاتے۔ ان کو باہمی رضا مندی کا ٹیگ لگا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چائلڈ رائٹس ایکٹویسٹ اس بات کو ریاست اور اداروں کی کمزوری قرار دیتے ہیں۔
Fade out and strong transition
یہ نومبر کا مہینہ ہے اور پشاور میں سخت سردی ہے۔ لوہے کے ٹھنڈے فرش پر ٹھٹھرتے بچے کی اس تصویر نے سوشل میڈیا پر کہرام مچا دیا ہے۔ تہکال بی آر ٹی اسٹیشن پر ماسک تو اور بھی بچے بیچتے ہیں مگر چائلد پروٹیکشن بیورو کو تو صرف اسی بچے کی تلاش ہے۔ چند روز میں پولیس یہ بچہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر زمونگ کور بھیج دیتی ہے۔
خدا کے لیے میرا بچہ واپس کر دو۔ میں اب اسے گھر سے باہر نہیں جانے دوں گی۔ یہ تو بس ناراض ہو کر چلا گیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اسے اٹھا کر ہی لے جائیں۔
زمونگ کور کے باہر یہ ایک بلکتی ماں کی صدائیں ہیں جس کا یہ نواں بچہ ہے۔ ماں اسے واپس لے جانا چاہتی ہے لیکن عدالت نے بچے کی عمر اٹھارہ سال ہونے تک اسے یہیں رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس بچے کو تو شور اٹھنے کے بعد بچا لیا گیا، لیکن یہ تصویر پکار پکار کر کہ رہی ہے کہ اب بھی اس جیسے سیکڑوں بچے سڑکوں پر موجود ہیں۔ کبھی ٹھنڈ تو کبھی غربت اور کبھی ٹرک ڈرائیورز کے رحم و کرم پر۔ اور ان میں سے اکثر کو بچانے والا، کوئی نہیں۔