ہال میں زبردست رش ہے۔ بیچ میں اسٹیل کیج رکھا ہے۔ کیا یہاں کوئی ڈبلیو ڈبلیو ای کا ریسلنگ میچ ہونے جا رہا ہے؟ ہاں پنجرے کے اندر ایک ریسلر نما شخص تو موجود ہے۔ گورا چٹا، سرمئی بال، دیکھنے میں ہی باڈی بلڈر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ کچھ پریشان ہے۔ کیا انڈر ٹیکر آنے والا ہے؟
ارے نہیں۔ یہ تو عدالت کا ہال ہے۔ اور یہ تماشائی نہیں صحافی ہیں، جو ملزم کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر چڑھے جا رہے ہیں۔ شور میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ٹکٹ لگا کر تماشا دکھایا جا رہا ہو۔ لیکن ملزم کو پنجرے میں بند کر کے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ ایسا پہلے تو کبھی نہ دیکھا۔
سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ ملزم کو لوگوں سے بچانا ہے یا لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنا ہے؟
لکڑی کا ہتھوڑا گرتے ہی ایسی خاموشی ہوتی ہے جیسے ریموٹ کا بٹن دبا کر آواز میوٹ کر دی گئی ہو۔ تماش بین باہر کر دیے جاتے ہیں۔ خاموش کمرے میں ایک ڈراؤنی آواز مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ چھت پر مکڑی کے جالوں سے بھرا قبل از مسیح کا پنکھا ہے جو ہوا کم اور آواز زیادہ نکال رہا ہے۔
کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ پنجرے کے پہلوان کا جیسے دم نکلا جا رہا ہے۔ سردی کے باوجود اس کا چہرا سردی پسینے میں ڈھلا ہوا ہے۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹے اس کے لیے قیامت خیز ثابت ہوئے ہیں۔ وہ مسلسل یہی سوچے جا رہا ہے کہ اسے کیسے مارا جائے گا؟ عدالت کے باہر بوڑھے برگد سے لٹکا کر پھانسی دی جائے گی یا یہ سارے مل کر اسے زندہ جلا ڈالیں گے۔
دلائل دیے جا رہے ہیں، لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون کیا بک رہا ہے۔ اچانک لوگوں کا شور اٹھا تو اسے لگا کی کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ باہر ٹی وی چینلز پر سرخ پھٹے گھوم رہے ہیں۔ اینکرز اور رپورٹرز گلا پھاڑ پھاڑ کر سب کو پکار رہے ہیں، انصاف ہو گیا، کہانی ختم ہو گئی، لیکن نہیں! کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔
جنوری 2011
تھانے کے نیم تاریک کمرے میں فون کی گھنٹیاں گونج رہی ہیں، پولیس افسر نے فون سائلنٹ پر کیا اور بولا، ’’اچھا تو تم امریکی ہو؟‘‘
وہی دیو قامت شخص ہتھکڑی پہنے ہاں میں سر ہلاتا ہے۔ اس کی گردن میں لٹکے بیجز امریکی قونصل خانے سے اس کا تعلق ظاہر کر رہے ہیں۔ پولیس افسر ایک کے بعد، ایک بیج دیکھ کر سوال کرتا ہے، تم کس عہدے پر کام کرتے ہو،؟ وہ بولا، میں کنسلٹنٹ ہوں۔ اتنے میں دروازہ کھلتا ہے، اور ایک پولیس والا کمرے میں داخل ہو کر سخت لہجے میں بولتا ہے، چوہدری تم کیا باتیں کر رہے ہو، کچھ جانتے بھی ہو، یہ امریکی تھوڑی دیر پہلے مزنگ پر دو لڑکوں کو پھڑکا کر آ رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ چوہدری کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی جاتی ہیں۔
صحافی شاہ نواز رائے نے ان لمحات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا:
اس کی ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں یہ کسی انویسٹیگیشن روم میں بیٹھا ہوئے اس میں بلو شرٹ ایک پہنی ہوئی آج مجھے یاد ہے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس سے سوال کیے جا رہے ہیں اور یہ ان کو بتا رہا ہے کہ اس کا پہلا جو واقعہ تھا وہ یہ تھا جی کہ میں ATM سے پیسے لے کے نکلا ہوں اور یہ لوگ مجھے فالو کر رہے تھے یہ مجھے مارنا چاہتے تھے تو میں نے سیلف ڈیفینس کیا ہے تو یہ اس کی پہلی فرسٹ اسٹیٹمنٹ تھی۔
وہ جنوری دو ہزار گیارہ کی ایک سرد شام تھی۔ سفید رنگ کی چمچماتی ہنڈا سوک جیل روڈ سے فراٹے بھرتی ہوئی مزنگ چوک کے اشارے پر آ کر ٹھہر گئی۔ ارد گرد گاڑیوں، چنگ چی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کا بے ہنگم ٹریفک ہے۔ سب ہی سگنل گرین ہونے کے انتظار میں ہیں کہ ایک موٹر سائیکل راستہ بناتی ہوئی ہنڈا سوک کے سامنے آ گئی۔
موٹر سائیکل پر دو لڑکے سوار ہیں جو مڑ کر کار کی جانب دیکھتے ہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر چیک والی شرٹ میں ایک موٹا تازہ انگریز غور سے انہیں دیکھے جا رہا ہے۔ موٹر سائیکل سوار بھی اسے گھورنے لگتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمنگ برڈ ایک سیکنڈ میں 55 بار پروں کو حرکت دیتی ہے، اتنی ہی دیر میں بوئنگ 777 طیارہ آٹھ سو فٹ بلندی چھو لیتا ہے۔
ایک سیکنڈ وقت ہی کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے بھی کم وقت میں کار میں بیٹھا شخص بایاں ہاتھ شرٹ کے نیچے لے جا کر چمکتی ہوئی سیمی آٹو میٹک گلاک پسٹل نکالتا ہے اور پانچ فائر کر ڈالتا ہے۔ گولیاں مکھن کی طرح ونڈ اسکرین پگھلاتی ہوئے موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھے 19 سالہ فہیم کی کمر میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ گورے کا دایاں ہاتھ اب بھی اسٹیئرنگ پر ہے۔ وہ ماہر نشانے باز کی طرح کار سے اترتا ہے اور مزید پانچ گولیاں بھاگنے والے موٹر سائیکل سوار فیضان حیدر کے جسم میں اتار دیتا ہے۔
کیا یہ کوئی فلم کا سین ہے؟ ارد گرد لوگ حیرت اور خوف سے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کار والے کو کوئی فکر نہیں۔ وہ اطمینان سے لڑکوں کی تصویر لیتا ہے اور مڑ کر گاڑی کی طرف واپس آ جاتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ کام اس کے لیے نیا نہیں، جیسے وہ قاتل نہیں کوئی پولیس والا ہے۔
دو جانیں لینے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور اپنا ملٹری رسیور کنیکٹ کرتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک تیز رفتار لینڈ کروزر شملہ پہاڑی کے پاس ایک دفتر سے نکلتی ہے۔ اس میں سیاہ لباس اور سیاہ چشمے پہنے کمانڈوز بیٹھے ہیں۔
ایک فلمی سین کی طرح یہ گاڑی اڑتی ہوئی سڑک پر آتی ہے اور نہایت تیزی سے دوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ اس گاڑی کی منزل مزنگ چوک ہے جہاں سے چند سیکنڈز پہلے ایک پیغام موصول ہوا ہے۔ مزنگ کے قریب لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہے۔ ڈرائیور کو راستہ نہیں ملتا تو وہ رانگ سائڈ پر گاڑی بھگانا شروع کر دیتا ہے۔ وہیں ایک موٹر سائیکل پر عباد الرحمان کاسمیٹکس کا سامان لیے گزر رہا ہے، کہ اچانک لینڈ کروزر اسے سامان سمیت روندتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ قریب کھڑا وارڈن فور بائی فور روکنے کی کوشش کرتا ہے تو دروازے سے M16 بندوق کی نالیں باہر آ جاتی ہیں۔ سب پیچھے ہٹ جاتے ہیں، چھبیس برس کا عباد تڑپ تڑپ کر وہیں دم توڑ دیتا ہے۔
لینڈر کروزر مزنگ پہنچتی ہے تو سوک جا چکی ہوتی ہے۔ دراصل چند لمحوں پہلے مزنگ چوک پر پڑی لاشیں دیکھ کر ہجوم غصے سے بے قابو ہو چکا تھا۔ اسے سے پہلے کہ لوگ کار سوار کو باہر نکال کر ٹھکائی شروع کرتے ہنڈا سوک اسکریچز لگاتی ہوئی انارکلی کی طرف نکل گئی۔
ون فائیو پر واقعے کا الرٹ میسج چل چکا تھا۔ پولیس موبائلیں سفید سوک کے پیچھے تھیں۔ ابھی کار صرف دو میل دور گئی تھی کہ انارکلی میں ٹریفک وارڈن ہنڈا سوک کے سامنے آ جاتا ہے۔ اتنے میں پولیس موبائلیں بھی پہنچ چکی ہیں اور شدید ٹریفک جام میں بھاگنے کا اب کوئی راستہ نہیں۔ یوں ہوشیار ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ پکڑا جاتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کون؟
یہ کون ہے، امریکی قونصل خانے میں کام کرنے والا ایک بے ضرر سا ٹیکنیشن، یا ہالی ووڈ فلموں جیسا خوفناک سی آئی اے ایجنٹ جو اپنے مشن کے آگے آنے والی ہر دیوار کو توڑ کر گزر جاتا ہے۔
لیکن بات اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دو ملکوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ کوئی سادا سا ہٹ اینڈ رن کیس نہیں تھا، یہ سامراج کے تکبر کی ایک عملی تصویر تھی۔
پاکستانیوں کو دکھائی دے رہا تھا کہ ’’بلیک واٹر‘‘ کی کہانیاں فرضی نہیں۔ یہاں جو چاہے قانون ہاتھ میں لے کر کچھ بھی کر سکتا ہے، اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔
ڈیوس لاہور میں کیوں تھا اور کیا کر رہا تھا اس کے لیے ہمیں اس دور کے حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔
پاکستان اکیسویں صدی میں کچھ عجیب انداز سے داخل ہوا ہے۔ ملک بھر میں دہشت گرد اور خفیہ تنظیموں کا جال، ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ خفیہ جنگیں سرحدوں پہ نہیں، شہروں میں لڑی جا رہی ہیں۔ القاعدہ کے جواب میں سی آئی اے پاکستان کی مغربی پہاڑیوں پر ڈرون برسا رہا ہے تو شہروں میں ایجنٹس خفیہ آپریشنز میں مصروف ہیں۔ لاہور جو کبھی مغلوں، سکھوں اور برطانوی راج کا حصہ رہا ہے، اب خفیہ اداروں کی لپیٹ میں ہے۔ ریمنڈ ڈیوس بھی یہاں ایک ایسے ہی مشن کا حصہ تھا۔
صحافی عامر نفیس کہتے ہیں کہ اصل بات صرف یہ تھی کہ اس کا ’’کور بلو‘‘ ہو گیا تھا اور کسی Spy کے لیے یہ اس کا ’’سب کچھ‘‘ ہوتا ہے، اسی لیے اس نے فائر کیا تھا کہ ان کو میرا پتہ چل گیا ہے۔
ڈیوس کی گاڑی سے ملے کیمرے میں پاکستانی فوجی تنصیبات کی خفیہ طور پر لی گئی تصویریں موجود تھیں۔ لیوٹن تھانے میں قتل کا مقدمہ تو درج ہو چکا تھا لیکن پولیس جان چکی تھی کہ، معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا کہ دکھائی دے رہا ہے۔
چند گھنٹوں بعد، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے یہ مان لیا کہ واقعے میں امریکی شہری ہی ملوث تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ایک ایسے وقت ہوا تھا، جب افغانستان میں امریکا اور اتحادی فوجیں القاعدہ سے سینگ لڑائے ہوئے تھیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئے روز ڈرون حملے ہو رہے تھے جن میں معصوم شہری مارے جا رہے تھے۔ امریکی شہری کے ہاتھوں پاکستانیوں کے اس خوفناک قتل نے عوام کے غصے کو اور بھڑکا دیا تھا۔
اگلے روز امریکی سفارتخانے نے پاکستانی دفتر خارجہ کو ایک خط لکھ کر قونصلر رسائی کا مطالبہ کر دیا۔ امریکی سفیر کیمرون منٹر سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر سے ملے اور پھر یہی بات دہرائی۔ یوں دفتر خارجہ نے پنجاب حکومت سے کہ کر ریمنڈ ڈیوس کو قونصلر رسائی دینے کی ہدایت کر دی۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کہتے رہے کہ ملزم کو کوئی وی آئی پی پروٹوکول نہیں دیا جائے گا، مگر پروٹوکول تو ملنا شروع ہو چکا تھا۔
28 جنوری کو ریمنڈ ڈیوس کو ماڈل ٹاؤن کچہری پیش کیا جانا تھا۔ شہر بھر کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا، کمانڈوز الرٹ کر دیے گئے۔ میڈیا نمائندے دن بھر انتظار کرتے رہے مگر ریمنڈ ڈیوس کو جان بوجھ کر عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد بکتر بند گاڑی میں لایا گیا اور وہاں سے کوٹ لکھ پت جیل بھیج دیا گیا۔
لاہور کے صنعتی علاقے میں موجود کوٹ لکھپت اپنے بدترین حالات کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں قیدیوں کا پراسرار طور پر مر جانا معمول کی بات ہے۔ مگر اب تو یہاں امریکی شہری نے ٹھہرنا تھا۔ جیل انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں۔
ریمنڈ ڈیوس تمام قیدیوں سے الگ رکھا گیا۔ الٹا اس کی حفاظت کی خاطر کسی اہلکار کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ امریکی قونصل خانے نے کتوں کی ایک ٹیم مقرر کی تھی جو جیل میں ڈیوس کو ملنے والا کھانا ٹیسٹ کرتی کہ کہیں اس میں زہر تو نہیں۔
اس بارے میں صحافی عامر نفیس اور مقتولین کے وکیل اسد منظور بٹ نے کئی چشم کشا حقائق بیان کیے۔ یہ تفصیلات ویڈیو میں ملاحظہ کیجیے۔
تفتیش کرنے پر سیکیورٹی اداروں کی تشویش بڑھنے لگی۔ ریمنڈ ڈیوس کے سامان میں کیا تھا، وہ کہاں ٹھہرا؟ کس سے ملا؟ لوکیشن ٹریس کرنے پر وہ مذہبی مدارس کے باہر بھی دیکھا گیا۔ لاہور کینٹ کے ایک مدرسے میں اس کے بار بار آنے جانے اور انتظامیہ سے ملاقاتوں کے ثبوت ملے۔
ریمنڈ ڈیوس اگر صرف ایک ٹیکنیشن تھا تو وہ مختلف لوکیشنز پر کیا کر رہا تھا؟ امریکا ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی اہل کار ثابت کرنے پر تلا تھا، تاکہ قانون اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ پہلے اسے لاہور قونصل خانے کا ملازم بنایا پھر اگلے ہی روز کہا کہ نہیں نہیں وہ تو اسلام آباد ایمبیسی کا ملازم تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک امریکا یہ نہ بتا سکا کہ ریمنڈ ڈیوس کون تھا اور کس مشن پر تھا۔ عامر نفیس بتاتے ہیں:
پہلے پتہ چلا گورا تھا پھر پتہ چلا وہ امریکی قونصل خانے کا ملازم تھا، پھر پتہ چلا ڈپلومیٹ تھا، پھر پتہ چلا کہ نہیں کوئی اور تھا یہ تھا وہ تھا اس پہ ہم نے تین دن کام کیا بہت زیادہ، جب ہم نے کام کیا اسٹوریز بنتی گئی۔ اس کا سینیریو top level پر چینج ہو رہی تھی اور یہی وہ ایک چیز تھی جو ہمیں تنگ کر رہی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے باہر ہر طرف کالے کوٹ دکھائی دے رہے ہیں۔ وکلا کو ریمنڈ ڈیوس پر بہت غصہ تھا اور وہ اس کے خلاف طرح طرح کے نعرے لگا رہے تھے۔
گورے جاسوس کو جیل میں بھی شراب دی جا رہی تھی۔ کیا یہ اس کی خالہ کا گھر تھا؟ سڑک پر ہر پاکستانی کے یہی جذبات تھے۔
ریمنڈ ڈیوس کی زندگی
ڈیوس ورجنییا میں امریکی فیملی کے ہاں پیدا ہونے والا تیسرا بچہ تھا۔ اسکول میں فٹ بال کھلینے اور کشتی لڑنے میں اس کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ گریجوئیشن کے بعد اس نے دس سال فوج میں گزارے۔ 2003 میں پروائیوٹ کنٹریکٹر بننے سے پہلے اس نے تھرڈ اسپشل فورسز گروپ کے لیے کام کیا۔ کچھ عرصے ایکس ای یعنی بلیک واٹر کے لیے کام کیا اور پھر سی آئی اے جوائن کر لی۔ عراق میں سیکڑوں نیوی سیلز کی طرح وہ سی آئی اے کو سیکیورٹی کور دیتا رہا۔ افغانستان جنگ شروع ہوئی تو جاسوس سائبیرین پرندوں کی طرح جوق جوق پاکستان آنے لگے۔ ڈیوس بھی دیگر جاسوسوں کی طرح ڈپلومیٹک پاسپورٹ پر پشاور چلا آیا جہاں اسے دو لاکھ ڈالر سالانہ تنخواہ ملتی۔ پھر وہ لاہور آکر ایک بڑے بنگلے میں خفیہ طور پر رہتا رہا جہاں اس کا اسائنمنٹ القاعدہ اور لشکر طیبہ پر نظر رکھنا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں
وہ یہاں ایک ٹیکنیشن کے طور پر آیا تھا لیکن اسلام آباد اور کے پی کے بجائے پنجاب میں گھومتا رہا۔ اس کی گاڑی سے ملنے والے کیمرے میں فوجی بنکرز کی تصویریں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔
ایسا کیا تھا کہ ایک معمولی ٹیکنیشن کے لیے امریکی قونصل جنرل کارمیلا کانرے ہر سماعت پر دوڑی چلی آتی؟ دال میں کچھ کالا تو تھا، بلکہ شاید۔ پوری دال ہی کالی تھی۔ عامر نفیس بتاتے ہیں:
یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو low پروفائل سے شروع ہو کر ہائی پروفائل کیس بنا اور ایسا بنا جس میں دو بڑی states involved ہو گئے ایک ترقی پذیر ملک کا ترقی اپنا ملک کے ساتھ، براہ راست۔
ایک طرف سڑکوں پر احتجاج تو دوسری طرف حکومتوں میں بیک ڈور رابطے تیز ہو رہے تھے۔
ڈیوس کا کہنا تھا کہ اس نے ڈاکووں سے بچنے کے لیے سیلف ڈیفنس میں گولی چلائی۔ سوال یہ ہے کہ اسے ایک دو نہیں پورے دس فائر داغنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر وہ کار سے نکل کر بھاگتے ہوئے فیضان کے پیچھے کیوں گیا۔ کیا حیدر اور فہیم واقعی ڈاکو تھے؟ اس کے جواب میں صحافی عامر نفیس کا تبصرہ ویڈیو میں ملاحظہ کیجیے۔
پولیس کے مطابق فیضان موبائل فونز کا کام کرتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اسکا بھائی مارا گیا تھا۔ واقعے کے روز فیضان کے پاس پستول موجود تھا لیکن چیمبر خالی تھا۔ فیضان کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ قتل کے روز فہیم اور فیضان گھریلو مسئلہ نمٹا کر سول کورٹ سے واپس آ رہے تھے۔
کہانی میں ڈرامائی موڑ
یہاں کہانی نے ایک اور ڈرامائی رخ اختیار کیا۔ پہلے اس کیس میں تین لوگ جان سے گئے تھے، اب ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔
شمائلہ کی فہیم سے چھ ماہ پہلے شادی ہوئی تھی۔ واقعے کے کچھ روز بعد وہ لاہور سے اپنے گھر فیصل آباد چلی آئی اور شدید ذہنی دباؤ میں آ کر چوہے مار دوا کھالی۔ اس نے اپنے آخری انٹرویو میں ریمنڈ ڈیوس کو سزا دینے کی اپیل کی تھی۔
اس نئے واقعے نے جیسے زخم پھر سے تازہ کر دیے۔ شمائلہ کی موت کی خبر پھیلی تو ایک طوفان آگیا۔ میڈیا چینلز نے شور مچایا تو جماعت اسلامی نے احتجاج کے لیے کمر کس لی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ایک کال پر اچانک یہ احتجاج ختم کر دیا گیا۔
شمائلہ کی موت نے پاکستانی حکام پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔ امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سینیٹر جان کیری کے ساتھ پاکستان آئے اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی کوششیں تیز کر دیں۔
امریکی لہجہ نرم ہو چکا تھا۔ کیری نے کہا ہم متاثرہ فیملیز کے ساتھ ہیں اور ان کا دکھ ہمارا دکھ ہے۔ کیری نے یہ تک کہہ ڈالا کہ اگر ڈیوس کو امریکا بھیج دیا گیا، تو اس کے خلاف سخت انکوائری کریں گے۔ صحافی شاہ نواز کہتے ہیں کہ امریکا نے پاکستانی امداد ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے مشروط کر دی تھی۔
اکیس فروری کو امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سی آئی اے ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہیں۔ وہ آج تک امریکا کے نہایت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جب کبھی امریکیوں کے لیے پاکستانی ویزے لگوانے کا موقع آیا تو انہیں ہی یاد کیا جاتا۔
سی آئی اے ڈائریکٹر لیون پنیٹا ان سے ملاقات کے لیے بے چین تھے۔ طویل ملاقات کے بعد دونوں نے مل کر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے ایک ایسا حل نکالا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔
اب امریکی حکومت اور ریمنڈ ڈیوس کی واحد امید ’’اسلام‘‘ تھا۔
اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر کیمرون منٹر کو ٹاسک دیا گیا کہ دیت کے شرع قانون کا سہارا لیا جائے۔ قتل ہونے والوں کے اہل خانہ سے مل کر کے خون بہا کی رقم طے کی گئی۔ گھر والے نہ مانے تو دباؤ ڈالا گیا۔
غیروں پر نہیں اپنوں پر زور آزمایا گیا۔ کئی دنوں کی بحث کے بعد فہیم اور فیضان کے گھر والے بیس کروڑ روپے دیت لے کر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے پر تیار ہو گئے۔
مقتول فہیم کی ساس اور شمائلہ کی والدہ مسرت بی بی بتاتی ہیں:
لوگ آتے تھے، نسیم صادق بھی تھے، رانا ثناء اللہ بھی تھے، کہتے تھے کا کاغذ بھیج رہے ہیں، دستخط کر دو۔ میں پڑھی لکھی نہیں تھی، مجھے نہیں پتہ تھا کہ کس کاغذ پر دستخط کرا رہے ہیں۔ کہتا تھا کہ بندے بھیج رہا ہوں، انگوٹھے لگا دے، تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہیں آئے گی۔ کہتے تھے بولنا نہیں، خاموش رہنا ہے۔
ان دنوں کوٹ لکھپت جیل میں صرف ریمنڈ ڈیوس کیس کا چرچا تھا۔ پولیس 47 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر چکی تھی۔ بظاہر سارے شواہد ریمنڈ ڈیوس کے خلاف تھے، مگر پس پردہ تو کچھ اور ہی چل رہا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کیس کا فیصلہ
سترہ مارچ کو ریمنڈ ڈیوس کی شاہانہ قید کا اننچاسواں روز تھا۔
عدالت ریمنڈ ڈیوس پر فرد جرم عائد کر چکی تھی۔ مگر اب ریمنڈ ڈیوس کو ہر صورت بچایا جانا تھا۔ لمحہ ضائع کیے بغیر اعلی ترین مداخلت پر کیس شرعی عدالت بھیج دیا گیا۔ یعنی اس انوکھے قیدی کے لیے ایک ہی دن میں دو عدالتیں سجا دی گئیں۔
اب ہم وہیں چلتے ہیں جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی۔ پنجرے میں کھڑے ریمنڈ ڈیوس کو امریکی ساتھی نے آ کر بتایا ہے کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے اب کیس اسلامی عدالت دیکھے گی۔ یہ سن کر جیسے ڈیوس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
کیا؟ آر یو میڈ؟؟؟ یہ تو مجھے بدلے میں مار دیں گے؟ تم کیا کہہ رہی ہو؟؟؟ ہوش میں تو ہو؟؟؟
امریکی ڈپلومیٹ مسکرائی، اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ گھبراو نہیں ڈیوس، ہم پیسے دے کر تمہیں چھڑا لیں گے۔
لیکن یہ سب ہوا کیسے؟
فہیم، فیضان اور عباد کے گھر والے چودہ مارچ سے اسی کوٹ لکھپت جیل کی کوٹھری میں قید تھے جہاں کچھ فاصلے پر ریمںڈ ڈیوس شاہانہ جیل کاٹ رہا تھا۔ ان کے گھروں پر تالے تھے اور موبائل فونز چھین لیے گئے تھے۔ فہیم اور عباد کے بھائی دیت لے کر خون معاف کرنے پر تیار نہ تھے، لیکن بندوق کے زور پر سب مان گئے۔
اگلے روز مقدمہ شروع ہوا۔ اٹھارہ ورثا ایک ایک کر کے پیش ہوئے۔ ان کے چہروں پر مایوسی تھی اور وہ کئی روز سے جاگے ہوئے دکھائی دیتے۔ جج نے ہر ایک کو رسید تھمائی جہاں دیت کی رقم لکھی ہوئی تھی۔ جب سب دستخط کر چکے تو جج نے پوچھا:
کسی پر کوئی زبردستی تو نہیں؟
سب نے نفی میں سر ہلا دیا۔ یوں شام پانچ بجے تک سی آئی اے کنٹریکٹر، دو پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس رہا کر دیا گیا۔
صحافی شاہ نواز اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:
مجھے یاد ہے کہ جب تین بجے تین بج گئے تھے تو اس فیملی کے وکیل اسد کی گاڑی گیٹ سے باہر نکلی، میں جب بھاگ کے اسد کے پاس گیا میں نے کہا بھائی جان کیا ہوا ہے اندر؟ تو وہ نا بہت زیادہ پریشر میں تھا اور اس سے بات نہیں ہو رہی تھی اور لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ ڈپریشن میں تو میں نے کہا کیا ہوا؟ کہتے ہیں، وہ ریمنڈ ڈیویس کو لے گئے ہیں۔ اس کو بری کر دیا تو ابھی وہ یہ بات کر رہا تھا تو میں نے فوری دفتر میں اپنے ڈائریکٹر نیوز کو کال کی میں نے کہا کہ جی ریمنڈ ڈیویس بری ہو گیا۔
شمائلہ کی ماں مسرت بی بی کہتی ہیں کہ میری آواز بھی بند کرا دتی، کسی کو کوئی بات نہیں کرنی، مجھے کہا کہ انگوٹھے لگا دے، تیرے تک ہر چیز پہنچے گی، ہر چیز پہنچنے کے بجائے مجھے گلیوں میں رلا دیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی آخری پیشی پر سب کو باہر نکال دیا گیا تھا۔ مفت مقدمہ لڑنے والے اسد منظور بٹ کو بھی خاموش کرا کر دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال دیا گیا۔ صرف جنرل شجاع پاشا موجود رہے جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اگلے چند روز میں ان کی مدت ملازمت میں ایک سال اضافہ ہو چکا تھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو پچھلے دروازے سے نکال کر لاہور کے پرانے ہوائے اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں پہلے سے تیار امریکی ایئرفورس کا طیارے انتظار میں تھا۔ سی آئی اے کا وہ جاسوس جو چند گھنٹوں پہلے پنجرے میں اپنی موت سامنے دیکھ رہا تھا، آزاد ہو کر پاکستانی فضاؤں سے بہت دور جا چکا تھا۔
ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر خون بہا کیا امریکا نے دیا؟ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تو پوچھنے پر صاف انکار کر دیا۔ بعد میں یہ خبریں آئیں کہ پاکستان نے خون بہا ادا کر کے بل امریکا کو پیش کر دیا۔ پتہ نہیں یہ کسی دیت تھی، کہ جس کو ملی وہ اجڑتا چلا گیا۔
مسرت بی بی کہتی ہیں:
میری بیٹی چلی گئی، ماں باپ چلے گئے، میں بھی زندہ لاش کی طرح زندگی گزار رہی ہوں، اٹھ بیٹھ نہیں سکتی، نیند نہیں آتی، دماغ پاگل ہو گیا ہے میرا، نیند نہیں آتی مجھے۔
مارچ 2013
امریکی شہر ڈینور میں سورج طلوع ہورہا ہے۔ رچرڈ نائٹ ڈیوٹی کر کے گھر نکلنے ہی لگا تھا کہ اسے اپنے ایڈیٹر کی آواز آتی ہے۔ رچرڈ، سائمن کی طبیعت خراب ہے، ڈگلس کاونٹی کا اسائنمٹ تم کور کرلو پلیز۔ رچرڈ ٹھنڈی جمائی لے کر شانے اچکاتا ہے اور پھر چابیاں اٹھا کر آفس سے نکل جاتا ہے۔
عدالت میں پارکنگ لاٹ فائٹ پر فیصلہ سنایا جانا ہے۔ ایک طرف وہیل چیئر پر پٹیوں میں لپٹا میس اپنی بیوی کے ساتھ پہلے سے آچکا ہے۔ میس کو چھ ماہ پہلے ایک جنونی نے کولوراڈو میں ہی معمولی سی بات پر ریسلر کی طرح اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا تھا جس کی ریڑھ کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی۔
رچرڈ جو اب تک مسلسل اونگھ رہا تھا ایک دم اچک کر بیٹھ جاتا ہے۔
او مائی گاڈ، یہ تو ریمنڈ ڈیوس ہے، وہی سی آئی اے کنٹریکٹر، جس کی جان بچانے کے لیے اوباما کو کودنا پڑا۔
فیصلہ سنایا جانے لگا۔
آج ریمنڈ ڈیوس پنجرے میں نہیں تھا، اس پر قتل کا الزام بھی نہیں تھا، وہ اپنے لوگوں کے بیچ اپنی ہی عدالت میں تھا، سب کی زبان بھی خوب سمجھتا تھا۔ لیکن اس بار وہ زیادہ خوفزدہ کیوں تھا۔شاید اس لیے کہ یہاں کسی کے سر پر کوئی بندوق نہ تھی۔ مدعی بھی آزاد تھا اور منصف بھی۔ یہاں انصاف تھا مگر صرف اپنوں کے لیے، امریکیوں کے لیے۔