وہ کراچی کی سول سوسائٹی کی آنکھ کا تارا تھی۔ ویلنٹائنز ڈے پر ہاتھ میں سرخ گلاب لے کر مسجدوں کے باہر کھڑی ہو جاتی اور نعرے لگاتی، ’’فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں‘‘۔
یہ تھیں تیز ہوا میں جلتے دیے جیسی سبین محمود۔
اُن دنوں پورا ملک بم بلاسٹس اور خود کش دھماکوں کی زد میں تھا۔ گھٹن کے ماحول میں سبین کو ایک کھڑکی کھولنے کا خیال آیا۔ یوں کراچی میں دی سیکنڈ فلور یا T2F بن گیا۔
اب تو یہاں آرٹسٹ، میوزیشینز، رائٹرز اور اسٹوری ٹیلرز آتے اور اپنا دل کھول کر رکھ دیتے۔ یہاں کافی بھی ملتی اور پڑھنے کو کتابیں بھی۔ نمائش بھی ہوتی اور کانسرٹس بھی۔ ہر موضوع پر یہاں کھل کر بات ہوتی۔
فروری 2015 کی ایک شام، یہاں کراچی کے حالات پر ایک ایونٹ چل رہا تھا۔ نڈر اور بے باک سبین نے وہاں طالبان اور لال مسجد کے خطیب مولانا عزیز کی خوب کھنچائی کی۔
سب کچھ کیا، رات کو اکیلے جا کر نمائش پر بیٹھے ہیں، اکیلے گاڑی چلاتے ہیں، ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ جس دن ہونا ہے وہ ہوجائے گا، ہم کس دن کے انتظار میں ہیں۔ When they want to they will come and no force on earth can stop that…
لوگ بہت غور سے یہ باتیں سن رہے تھے۔ بلکہ وہاں بیٹھا ایک نوجوان تو کچھ زیادہ ہی غور سے سب کچھ سن رہا تھا۔ سبین کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ اس کے دل میں نفرت کی آگ لگا رہا تھا۔ طالبان کے خلاف نہیں، خود سبین کے خلاف۔ اور یہ نفرت اسے سبین کے قتل تک لے گئی۔
لیکن کیوں؟
ابھی کچھ سال پہلے تک تو وہ ایک لبرل مائنڈڈ لڑکا تھا۔ بیکن ہاؤس، Lyceum اور آئی بی اے میں پڑھنے والا ایک امیر فیملی کا لڑکا۔ ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر شیشے کے کش لگاتا، دھوئیں کے رنگز بناتا، لڑکیوں میں اٹھتا بیٹھتا۔ لیکن پھر اچانک وہ بدلنے لگا، اور اتنا بدلا کہ ایک وحشی درندہ بن گیا۔
چُن چُن کر سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے لگا۔ اور انہی میں سے ایک تھیں سبین محمود۔ جنہیں قتل کیا کراچی کے اُسی گریجویٹ ٹیررسٹ نے۔ اس کا نام تھا سعد عزیز۔
تعلیم یافتہ دہشت گرد
لیکن ایک ویل آف، ویل ایجوکیٹڈ اور ویل سیٹلڈ لڑکا خطرناک دہشت گرد کیسے بن گیا؟ آئی بی اے سے جیل کی کال کوٹھڑی تک کیسے پہنچ گیا؟ یہ آج ہم آپ کو بتائیں گے۔
نوجوانی میں ہر کوئی اپنے مقصد کی تلاش میں ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر کوئی یہ مقصد پانے میں کامیاب بھی ہو جائے۔ سعد بھی اسی تلاش میں نکلا تھا، مگر بھٹک گیا۔
درمیانی قد و قامت اور ٹرمڈ بیئرڈ والے اس نوجوانی کی کہانی شروع ہوتی ہے Lyceum سے۔ وہاں وہ کبھی ڈراما کلب میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا تو کبھی foosball کلب میں۔ دوست بتاتے ہیں کہ اس کی حسِ مزاح بہت اچھی تھی اور وہ ٹینس اور فٹ بال بھی اچھی کھیلتا۔ لیکن وہ کسی مقصد کی تلاش میں تنہا ہوتا جا رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کچھ کھویا کھویا سا رہتا۔
اسی کشمکش میں وہ شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور شدت پسند اسے وہ کچھ دینے میں کامیاب ہو گئے، جو اسکول سسٹم نہیں دے پایا۔ سعد وہاں خود کو valued فیل کرنے لگا، اسے اپنا مقصد دکھائی دینے لگے۔ لیکن وہ کون لوگ تھے اور سعد ان تک پہنچا کیسے؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
نو گیارہ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر
اکیسویں صدی کا آغاز خوف اور غیر یقینی کی فضا میں ہوا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کی میڈیا کوریج نوجوانوں کی سوچ پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ کچے ذہنوں کے لیے یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ پاکستان خاص طور پر کراچی میں رہنے والا ہر شخص بہت قریب سے ان واقعات کو دیکھ رہا تھا۔بے شمار سوالات تھے، الجھاو تھا مگر کوئی سادہ جواب نہیں تھا۔
اسی کنفیوژن کے ماحول میں سعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا۔ 2009 میں پشاور سے لے کر جکارتا تک خود کش دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں ماس شوٹنگ کا واقعہ بھی اسی سال پیش آیا۔
سیکورٹی اینالسٹ اسفند یار میر بتاتے ہیں:
پاکستان کے کونٹیکسٹ میں ایک اسٹڈی ہوئی تھی۔ اس میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پاکستان میں جہاں تک ملیٹینٹ گروپ کی سپورٹ کا تعلق ہے، وہ اربن مڈل کلاس لوگوں میں زیادہ ہے بنسبت لو انکم پارٹ آف سوسائٹی میں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان کی پراوسس ایبلیٹ بہتر ہوتی ہے بائی دوز ایکسٹریمسٹ گروپس۔
2009 میں ہی سعد پہلی بار عمرے پر گیا۔ 20 سال کا سعد اُس خدا کے گھر پہنچا، جس نے انسان کو بنایا، اور انسانوں کی شکل میں شیطانوں کو بھی۔ جس نے انسان میں نفس پیدا کیا اور ضمیر بھی۔ جس نے امتحان میں ڈالا تو برائی سے بچنے کا راستہ بھی بتایا۔
سعد خانہ خدا میں کھڑا کیا سوچ رہا ہوگا؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن ایک بات ضرور تھی۔ اب اس کے خیالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی تھی۔ اس کے دل میں لبرل خیالات سے نفرت پیدا ہو رہی تھی۔ وہ کٹی پتنگ کی طرح کبھی تبلیغی جماعت میں بیٹھتا تو کبھی انٹرنیٹ پر قتل و غارت کی ویڈیوز دیکھتا۔ کبھی صوفی ازم کی طرف مائل ہو کر لمز کے پروفیسر شیخ کمال الدین احمد کے لیکچرز سنتا تو کبھی قرآن میں جہاد کی آیتوں کے مفہوم تلاش کرتا۔
جن ہاتھوں میں شیشے کا پائپ ہوا کرتا تھا، اب ان میں مذہبی کتابیں تھیں۔
یہ تو اچھی تبدیلی تھی، لیکن ڈائریکشن ٹھیک نہیں تھی۔ سعد میں ان کتابوں کو ہضم کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ انہیں پڑھ کر کسی اور ہی طرف نکل گیا۔ اس کا اپنا حال تو یہ تھا کہ نماز میں پڑھی جانے والی دعائیں تک ٹھیک سے یاد نہیں تھیں۔ لیکن قدم تھے کہ تیزی سے شدت پسندی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یوں وہ ایک خطرناک راہ پر چل نکلا۔
یہ آئی بی اے میں سعد کا تیسرا سال تھا۔ ایک اچھے اسٹوڈنٹ کی طرح وہ اقرا سوسائٹی کے لیکچرز ضرور سنتا۔ وہیں اُس نے برٹش جرنلسٹ Yvonne Ridley کی کہانی سنی۔ وہ ایوون رڈلی جو افغانستان میں طالبان کی قیدی بنی اور ان سے اتنی متاثر ہوئی کہ اسلام قبول کر لیا۔
سعد سے کہیں زیادہ لبرل لڑکی طالبان کی sympathizer بن گئی۔ اُن کی اَن آفیشل ambassador بن گئی۔ اور اب اُس کی زبان سے نکلنے والا ہر بول سعد کو طالبان کا دیوانہ بنا رہا تھا۔ بلکہ سعد تو دو قدم اور آگے نکل گیا۔ وہ اب ایک ایسے انسان کو ہیرو ماننے لگا جو کالعدم تنظیم کا فاؤنڈر تھا۔ ایک ایسی تنظیم جس نے 2004 میں عاشورہ کے موقع پر کوئٹہ میں دھماکے کر کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس تنظیم کا نشانہ ایک کمیونٹی تھی: شیعہ کمیونٹی اُس کے لیڈر کو سعد نے نام دیا: The Man Who Rocked Kufr
جی ہاں! سعد اب حق نواز جھنگوی کا فین بن چکا تھا۔ وہ نہ صرف اُن کے لیکچرز سنتا بلکہ انہیں انگلش میں ترجمہ بھی کیا کرتا۔ اور جیسے جیسے وہ یہ کام کرتا گیا، اس کی نفرت بڑھتی چلی گئی۔ لیکن۔ یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نفرت کیوں پیدا ہوئی؟ اصل میں یہ تاریخ پرانی ہے، جسے سمجھنے کے لیے ہمیں بہت پیچھے جانا ہوگا۔
نفرت کی ابتدا
اسلام کے نام پر سب سے پہلی دہشت گرد تنظیم تھی خارجیوں کی۔ یہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں کی خلافت ماننے کو تیار نہ تھے۔ اسی لیے انہوں نے اسلحہ اٹھا لیا اور دونوں کو واجب القتل قرار دے دیا۔
جی ہاں! یہ وہ پہلا گروپ تھا جس نے سب سے پہلے اسلام کا نام لے کر قتل کا فتویٰ دیا بلکہ حضرت علی کی شہادت بھی انہی کے ہاتھوں ہوئی۔
تاریخ میں ایک گروپ نے بڑی بدنامی حاصل کی، جس کہا جاتا ہے ’’حشاشین‘‘۔ انہوں نے کئی سنی، شیعہ لیڈرز کو ٹارگٹ کر کے مارا۔ اتنی ہائی پروفائل assassinations کیں کہ دنیا میں دہشت پھیل گئی بلکہ حشاشین کے نام پر انگریزی کا لفظ assassin بن گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے دہشت گردوں کا اسٹائل بھی بدلتا چلا گیا۔ ماڈرن ورلڈ میں اس کی بڑی مثال ’’القاعدہ‘‘ ہے۔
افغان جہاد کے بعد جہاں بہت سی آرگنائزیشنز بنیں، ان میں سب سے بڑی ’’طالبان‘‘ تھی۔ یہ سب الگ تنظیمیں ہیں، ان کے میدان الگ، ٹارگٹس الگ، سوچ الگ، لوگ الگ، لیکن ایک چیز سب میں کامن ہے: انا۔ یہ انا کہ میری آئیڈیالوجی سب سے بہتر ہے۔ اس کا مخالف اتنا بڑا دشمن ہے کہ اس کا قتل بھی جائز ہے۔
صحافی فہیم صدیقی بتاتے ہیں:
القاعدہ کے بعد، چاہے حرکت المجاہدین العالمی ہو، جیش محمد ہو، جند اللہ ہو ان سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ انہوں نے سوچ لیا ہے وہ صحیح ہے۔ اس دہشت گردی میں انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ نقصان اس قوم کا ہوا۔ اور مرنے والے بھی پاکستان ہی تھے۔
سعد بھی ایسے ہی گروپس سے inspired تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ قلم سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ کراچی کے 8 نوجوان مل کر ایک میگزین بناتے ہیں، جس کی بنیاد نفرت پر تھی۔ سعد کے دوستوں کا یہ گروپ اپنی رائٹنگز سے ہی نہیں، speeches سے بھی تفریق کو ہوا دے رہا تھا۔ ایک IBA گریجویٹ اتنی جلدی کیسے اتنا آگے بڑھ گیا؟
دراصل یہ کام بھی کتابوں نے ہی کیا۔ کسی بھی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ اور اس کی سب سے اہم شکل ہے لٹریچر۔ تو سعد مختلف کتابیں پڑھتا، جن میں سے ایک کتاب نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس کتاب کا ہر لفظ، ہر صفحہ، ہر چیپٹر سعد کو جکڑتا چلا گیا۔ مگر سعد تو بچہ تھا۔ اس کتاب سے تو القاعدہ کے بڑے بڑے لیڈرز radicalized ہو چکے تھے۔ یہ کتاب تھی معالم فی الطریق، جس کا انگریزی ترجمہ Milestones کے نام سے ہوئی۔
لیکن اس کتاب میں ایسا بھی کیا تھا؟
اصل میں سید قطب مغربی اور سیکولر سوسائٹیز پر تنقید کرتے تھے۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی یہی آئیڈیالوجی بعد میں extremist اور radical آرگنائزیشن کے لیے ایک نظریاتی بنیاد فراہم کر دے گی۔ کتاب میں مغربی نظریات کو جہالت سے تشبیہ دی گئی اور دنیا میں شریعت اور اسلامی ریاست قائم کرنا لازمی قرار دیا گیا۔
کتاب لکھنے پر سید قطب کو مصر کی حکومت نے سزائے موت دے دی۔ بعد میں القاعدہ نے اس نظریے کو بنیاد بنا کر پہلے مغرب اور پھر مسلمان حکومتوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اُن سب کے خلاف جہاں شریعت لاگو نہیں کی جاتی۔
اب القاعدہ، سید قطب کی اسلامی ریاست بنانے کی فکر میں تھی۔ خیر، یہ وہ کتاب تھی جو سعد کو اُس راستے پر لے گئی جس پر کوئی ایک بار چل پڑے تو واپس نہیں آتا۔
فہیم صدیقی مزید کہتے ہیں:
ایسے لوگ جو ہوتے ہیں، وہ انتہاؤں کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک انتہا یہ چھولی اعلی تعلیم حاصل کر لی، اس کے بعد وہ دیکھتے ہیں کہ کونسی سمت ہوسکتی ہے جہاں جا کر انتہا چھو سکتےہیں۔ یہ چیز القاعدہ اور سعد میں بھی نظر آئی۔ عجیب بے چینی کہ لیں، یہی سعد عزیز اور دیگر پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ہوا۔
تب سعد کی ملاقات ٹونی اور پھر حارث سے ہوتی ہے۔ حارث عرف ابوذر کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ یہ سب اُس وقت ہو رہا تھا جب سعد کی گریجویشن چل رہی تھی۔ اب ذرا غور کیجیے گا کہ سعد ان لوگوں تک پہنچا کیسے؟
سعد ایک روز کسی مذہبی مقرر کی تقریر سننے گیا جو نفرت سے بھری تھی۔ وہیں اس کی ملاقات کراچی یونیورسٹی کے ایک اسٹوڈنٹ حافظ ناصر عرف یاسر سے ہوئی۔ اس نے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کر رکھا تھا۔ مگر اس کا اصل کام نوجوان ذہنوں کو برین واش کر کے جہاد پر ابھارنا تھا۔
کچھ عرصے بعد سعد کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں انٹرن شپ کی آفر ہوئی۔ یہاں اس کی ملاقات علی رحمان سے ہوئی۔ علی کے دہشت گردوں سے رابطے تھے۔ چار ہفتوں کی انٹرن شپ کے دوران علی روزانہ سعد سے ملتا اور اسے اسلام کے لیے جدوجہد پر ابھارتا۔ اگلے ہی سال علی نے سعد کا تعارف حارث سے کرا دیا اور تعلیم پوری ہونے تک سعد انٹرنیٹ کے ذریعے حارث سے جڑا رہا۔
اسفند یار مزید بتاتے ہیں:
2010 کے عرصے کو دیکھیں تو اس زمانے میں جو سوشل میڈیا تھا وہ اس وقت ماس میڈیا نہیں بنا تھا۔ وہ کانسنٹریٹڈ تھا چند حصوں میں، چند لوگ استعمال کر پاتے تھے۔ وہ بھی رسک کا شکار ہوئے۔ الٹی میٹلی انفرادی کیسز میں لوگ کیوں رستہ اختیار کرتے ہیں یہ کہنا مشکل ہے، فیملی اور پرسنل سچویشن ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک جو اسٹرکچرل حالات تھے، پاکستان کے بہت سے لوگوں کو یہ لگتا رہا کہ یہ گروپس ہمیں ایک رستہ فراہم کرتے ہیں، جس سے دنیا اور زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
2011 میں سعد اپنے بیچ میٹس کے ساتھ گریجویٹ ہو جاتا ہے۔ باقی سب تو نوکری کی تلاش میں گھوم رہے تھے، لیکن سعد ان سے دُور پہاڑوں میں گھوم رہا تھا۔ سیاح بن کر نہیں بلکہ ایک ملیٹنٹ بن کر۔ وہ وزیرستان کے ایک قصبے میران شاہ کی پہاڑیوں کے بیچ اپنی نئی جاب کے لیے ٹریننگ لے رہا تھا۔
وہ ہاتھ جو کبھی قلم تھامتے۔ اب ان میں کلاشنکوف تھی۔ یہاں سعد کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو تین ہزار سے زائد قتل میں ملوث تھا۔ یہ تھا القاعدہ برصغیر کا ڈپٹی ہیڈ احمد فاروق۔ جو چند سال بعد امریکی ڈرون اسٹرائک میں مارا گیا۔
سعد بنا ٹِن ٹِن
لیکن سعد آخر گھر پر کیا بتا کر آیا تھا؟ بعد میں پتہ چلا کہ اس نے گھر والوں سے کہا تھا کہ وہ افغانستان ٹریننگ کے لیے جا رہا ہے۔ لگتا ہے گھر والے بھی اس کے ذہنی رجحان سے پوری طرح آگاہ تھے یا شاید مجبور۔ سعد دس لڑکوں کے گروپ میں شامل تھا جنہوں نے 25 دن یہاں ٹریننگ کی تھی۔ باقی سب تو گھروں کو لوٹ گئے مگر استاد احمد فاروق نے سعد کو روک لیا۔ وہ سعد کی قابلیت اور بیک گراؤنڈ سے بہت متاثر ہوا تھا۔
اور پھر سعد ایک نہیں، دو نہیں، ساڑھے چار ماہ کی ٹریننگ لے کر خاموشی سے کراچی آگیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس پرسکون سمندر کے نیچے ایسا سونامی چھپا ہوا ہے جو ایک دن سب بہا لے جائے گا۔ کراچی آتے ہی اس نے اپنے والد کا ریسٹورنٹ بزنس جوائن کر لیا جو سندھی مسلم سوسائٹی میں تھا۔
سعد خود کو ’’سلفی‘‘ کہتا۔ حالانہ اس کے والد کا کہنا تھا کہ وہ سلفی نہیں سنی مکتبۂ فکر کو فالو کرتے ہیں۔ 2012 میں سعد کی شادی بھی ہو گئی جس کے کچھ عرصے بعد اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ بظاہر وہ ایک بھرپور فیملی لائف گزار رہا تھا مگر حقیقت میں وہ اپنی بیوی اور بیٹی سے زیادہ علی اور حارث سے کنیکٹڈ تھا۔ وہ ان کے لیے مسلسل انگریزی میں نفرت سے بھرے آرٹیکلز لکھ رہا تھا۔
ریسٹورانٹ سعد کے لیے صرف ایک کور تھا۔ اس کی اصل نوکری تو القاعدہ میں تھی۔ حارث نے سعد کو اب تک صرف جہادی پبلی کیشنز تک محدود کر رکھا تھا۔ مگر علی سعد کا پوٹینشل سمجھ گیا تھا۔ اس نے سعد کو نیکسٹ لیول پر لانے کا فیصلہ کرلیا۔
علی نے سعد سے کہا کہ وہ حارث کی ایکٹیویٹیز سے مطمئن نہیں۔ پھر اس نے سعد کی ملاقات عمر سے کروائی جس کو حیدر عباس یا عاکف کے نام سے جانا جاتا تھا۔ شروع شروع میں ان کا رابطہ اسکائپ، واٹس ایپ اور وائبر پر ہوتا رہا۔ اور یہ سب سعد حارث سے چھپائے رکھا۔ چھ ماہ تک وہ ہر روز عمر کو اپنی گاڑی میں پک اینڈ ڈراپ سروس دیتا جو راستے بھر خوفناک کہانیاں سنا کر سعد کو برین واش کیا کرتا۔
سعد اب ایک تڑپتی ہوئی بے چین روح بن چکا تھا۔ مگر اس نے اپنی نارمل لائف صرف اس لیے نہیں چھوڑی تھی کہ وہ جہادی آرٹیکلز لکھتا پھرے۔ وہ تو فیلڈ میں جانا چاہتا تھا۔ اپنی ٹریننگ پر چل کر دل میں لگی آگ بجھانی تھا۔ اور پھر 2013 میں سعد کی بے چینی اسے ایک ایسے شخص تک کھینچ لائی۔ جس کا نام تو طاہر منہاس تھا مگر وہ مشہور سائیں نذیر کے نام سے تھا۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ سب کیسے ہو رہا تھا۔ ایک آئی بی اے گریجویٹ دہشت گرد تنظیم کیسے جوائن کر رہا تھا؟ لیکن اُس گروپ کے ممبرز کے لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔ جس کا حصہ این ای ڈی کے انجینیئرز سے لے کر کراچی یونیورسٹی کے گریجویٹس بھی تھے۔ اور ان سب کے پیچھے ایک ایسا سرغنہ تھا جو صرف میٹرک پاس تھا۔ وہی گروپ کے اصول طے کرتا، ٹارگٹس دیتا اور اسٹریٹجی بنا کر execute کرواتا۔ جی ہاں! یہ سب کام طاہر منہاس کیا کرتا۔
آپ نے موویز میں دیکھا ہوگا کہ خفیہ کام کرنے والوں کے کوڈ نیمز ہوتے ہیں۔ طاہر منہاس کے گروپ میں بھی ایسا ہی تھا۔ وہاں سب کا نام پوشیدہ رکھا جاتا تھا اور ان کے ایڈریس بھی۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر کوئی بھی ممبر پکڑا جائے تو وہ کسی دوسرے کا نام نہ لے سکے۔ یہ سب طاہر منہاس کی ہدایت پر کیا جا رہا تھا۔
یہاں سعد کا کوڈ نیم تھا Tintin اور John۔
اسی سال ستمبر میں حارث پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے القاعدہ کے تعلق پر پکڑا گیا۔
سبین کا قتل
یہ کراچی میں بہار کی ایک شام تھی۔ T2F میں کچھ دیر پہلے بلوچستان کے حالات پر ایک ٹاک ختم ہوئی تھی۔
ایک تو حالات اوپر سے بلوچستان، ہر کوئی کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ ان کا خدشہ ٹھیک تھا، لیکن جو ہونے والا تھا اس کی پلاننگ کئی ماہ سے کی جا رہی تھی۔ ہنستی مسکراتی سبین سب سے مل کر اپنی امی کے ساتھ T2F سے باہر نکلیں۔ وہ کار خود ڈرائیو کر رہی تھیں۔
اُدھر پانچ لڑکے موٹر سائیکلوں پر پہلے ہی ڈیفنس پہنچ چکے تھے۔ ان میں سے ایک سعد تھا جو علی رحمان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اچانک اُسے موبائل پر سبین کی کار نکلنے کا میسج ملا۔
کار T2F سے صرف 500 میٹر دور سگنل پر آکر ٹھہر گئی۔ اور جیسے وقت بھی وہیں تھم گیا۔ ابھی سگنل گرین نہیں ہوا تھا کہ ماحول پر لہو کی سرخی چھا گئی۔ سعد نے اپنی نائن ایم ایم اسٹوگر سے سبین پر پانچ فائر کیے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ان کی بوڑھی والدہ اپنی آنکھوں سے یہ سب ہوتا دیکھ رہی تھیں۔ وہ بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں۔ سبین اسپتال کے رستے میں دم توڑ گئیں۔
وہ جو بات کرنا چاہتی تھی، اسے خاموش کر دیا گیا۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی
سبین کا قتل کراچی کو پہنچنے والا بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ جو کبھی ’’فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں‘‘ جیسے نعرے لگاتے تھے، اب وہ انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سبین کے خون سے رنگی سڑک یہ ثابت کر رہی تھی کہ اس ملک میں ایک لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ خون کی لکیر!
امریکی سیریئل کلر Jeffrey Dahmer کے مطابق کلنگ ایک addiction ہے، ایک بار قتل کر لیا۔ تو جیسے لت پڑ جاتی ہے۔ سعد کے لیے سبین کا قتل تو ابتدا تھی۔ ابھی اس نے کئی اور جانیں بھی لینا تھیں۔
صفورہ قتل عام
یہ 13 مئی 2015 کی شام ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے تھوڑا آگے صفورہ گوٹھ کے نزدیک ایک ایسا دہشت ناک واقعہ ہوا جس سے پورا شہر کانپ اٹھا۔
کچھ لوگ ایک بس روکتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں موت کا اندھیرا تھا۔ ایک ایسا اندھیرا جو پورے شہر کو نگلنے والا تھا۔ بس میں عام سے لوگ بیٹھے تھے۔ مگر طاہر کی نظر میں یہ بہت خاص تھے۔ اس کی نظر میں یہ ایک ’’فتنہ‘‘ تھے۔ یہ اسماعیلی شیعہ تھے، اور ان کا یہ ’’جرم‘‘ ہی ان کی موت کے لیے کافی تھا۔
12 منٹ تک بس کے اندر اندھا دھند فائرنگ ہوتی رہی۔ شروع میں چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں لیکن آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئیں۔ اب وہاں موت کی خاموشی تھی اور انسانوں کا بہتا ہوا لہو بس سے نیچے ٹپک رہا تھا۔
جب طاہر، عبد اللہ اور عمر موت بانٹ رہے تھے تو سعد اس کی وڈیو بنا رہا تھا۔ تب اچانک ڈرائیور نے گاڑی چلانے کی کوشش کی، جو ایک جھٹکے کے بعد رک گئی۔ ڈرائیور کی اس حرکت سے سعد کے ہاتھوں سے کیمرا گر گیا، وہ غصے میں پاگل ہو گیا۔ بس میں گھسا اور ڈرائیور کو بے دردی سے قتل کر دیا۔
طاہر منہاس کا پلان کام کر گیا۔ ایک ماہ کی پلاننگ، سات بار کی ریکی اور روٹ مانیٹرنگ، سیل ممبرز کی deployment۔ یہ پلان 46 معصوم لوگوں کی جان لے گیا۔
سانحہ صفورہ سے کوئی 4 سال پہلے۔ کراچی سے ہزاروں کلومیٹرز دور ناروے میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک سیریئل کلر نے یوتھ کیمپ میں گھس کر 77 لوگوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ آخر لوگ اتنے خوفناک کرائمز کیسے کر لیتے ہیں؟ یہ ہمت کیسے آتی ہے؟
یہ ہمت violent وڈیو گیمز سے آتی ہے۔
صفورہ کلنگ سے پہلے بھی گروپ ممبرز کو ایک وڈیو دکھائی گئی تھی۔ یمن میں حوثی باغی عورتوں اور بچوں کا بے دردی سے قتل کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ سعد کے نزدیک اسی بنیاد پر بے گناہ اسماعیلی عورتوں اور بچوں کو مارنا جائز تھا۔
فہیم صدیقی اس بارے میں کہتے ہیں:
یہ بات اتنی زیادہ قابل قبول تو نہیں کہ یمن میں جو ہو رہا تھا ایک پاکستانی نوجوان بھی وہی کرے۔ انٹرن شپ امپورٹنٹ تھی۔ سعد ہی کیا، سعد کے ساتھ جو دو لڑکے ہیں اظفر عشرت اور حافظ ناصر، دونوں ہی پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔
سعد نے صفورہ سانحے کے بعد بھی کراچی میں کئی قتل کیے۔ وہ شہر میں 20 بڑے اور چھوٹے آپریشنز میں شامل رہا۔ امریکن لیکچرر Debra Lobo پر حملہ کیا۔ وہ ایک نیول آفیسر پر بم اٹیک اور رینجرز کے بریگیڈیئر باسط پر suicide اٹیک پلان کرنے میں شامل تھا۔ اور یہ سب کچھ اس نے صرف 8 مہینوں میں کیا۔ لیکن کب تک،
آخر کار جنوری 2016 میں پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے انچارج راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ پولیس تیرہ ماہ کی انویسٹی گیشن کے بعد اس گروپ تک پہنچی۔ جو 2009 سے ٹیررسٹ ایکٹیویٹیز میں انوالو تھا۔
جنوری 2016 میں سعد اور گروپ کے دیگر افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں شروع ہوا۔ ان سب پر 18 مقدمات تھے۔ سزا کا اعلان ہوا، ہر زندگی جو اس کے ہاتھوں ختم ہوئی تھی، اس کے بدلے موت کی سزا سنائی گئی۔
Debra Lobo پر حملے کے لیے 20 سال قید، سبین محمود اور صفورہ گوٹھ قتلِ عام پر پھانسی، ایک ہائی پروفائل پولیس آفیسر کے قتل پر سزائے موت۔ کوئی ایک قتل ہوتا تو سزا بھی ایک ہوتی۔ اور صرف سعد عزیز کو ہی نہیں۔ طاہر منہاس، اسد الرحمٰن، محمد اظہر عشرت اور حافظ ناصر احمد کو بھی۔
سعد ایک عبرت ناک مثال بن گیا۔ اس نے اپنے عمل سے دنیا کو بتایا کہ کس طرح پروپیگنڈا، radicalization اور سوشل isolation انسان کو mass killings تک لے جاتی ہے۔
وہ ایک promising اسٹوڈنٹ تھا، مگر انتہا پسندوں سے متاثر ہوا اور ان کی آئیڈیالوجی اس کے اندر کا غصہ اور نفرت بڑھاتی چلی گئی۔ وہ سوسائٹی کو ہی اپنا دشمن سمجھنے لگا۔
اسفند یار میر کہتے ہیں:
اینلسٹ اسکالرز کو لگتا ہے کہ ایکسٹریمزم کو کاونٹر کرنے کے لیے کہ بجائے لوگوں کو کسی آئیڈیلوجی میں موڈریٹ کرنے کے بجائے ان کی سوسائیٹی اور فیملی میں لو ایفیکشن اور سینس آف ریسپانسبلٹی پیدا کریں۔
وہ کہتے ہیں نا کہ پڑھا لکھا شخص زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ وہ آئیڈیالوجیز اور سسٹمز کو جانتا ہے۔ جبکہ less educated لوگ تو کسی ایک کو ہی اپنا دشمن بنا کر خوش ہو جاتے ہیں۔
اسامہ بن لادن was bachelor in business and economics۔ ایمن الظواہری ایک فزیشن تھے، سعد بھی ایک بزنس گریجوئیٹ تھا۔ ان سب میں ایک چیز کامن تھی، اپنی آئیڈیالوجی کو سب سے بہتر سمجھنا۔ اور جو اس آئیڈیالوجی کے خلاف ہو۔ اس کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرنا۔
سعد جیسے mass shooters سوشل isolation اور اپنے psychological issues کی وجہ سے قتل و غارت کی ایسی دنیا میں آ جاتے ہیں۔ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔