جنوری 1959 کی ایک دوپہر لاہور کی سڑک پر ایک عجیب منظر ہے۔

ایک تانگا دوڑے چلا جا رہا ہے۔ پیچھے، دو سپاہیوں کے پیچ ایک شخص ہتھکڑی پہنے بیٹھا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر بلا کا اعتماد ہے۔ یہ کیمرے اور موبائل فون کا زمانہ نہیں، پھر بھی لاہور والے اس شخص کو پہچانتے ہیں۔ مزدور، ریڑھی والے، پیدل اور سوار ہر شخص کی نظریں اس تانگے پر لگی ہیں۔ ایسا لگتا ہے لوگ اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہیں۔

تانگے کے ساتھ ساتھ ہجوم بھی بڑھ رہا ہے۔ کیا پیچھے بیٹھا شخص کوئی سیاستدان ہے؟ لیکن یہ محبت سیاستدانوں کے نصیب میں کہاں۔ پھر یہ کون ہے۔ ذرا سنبھل کے بیٹھیے کہ ہم آپ کو ایک عظیم شخصیت سے ملوانے لگے ہیں۔

تانگے میں اس شان سے سوار کوئی اور نہیں، علامہ اقبال کے بعد ملک کے مشہور ترین شاعر، فیض احمد فیض ہیں۔

نہ تو فیض صاحب کا کوئی جرم ہے، نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ۔ 1958 میں جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا تو سیکڑوں لوگ احتیاطاً قید کر لیے گئے۔ فیض بھی ان کے ہمراہ جیل پہنچ گئے۔ کہا گیا بس ایک بار لکھ کر دے دیں کہ حکومت کے خلاف کچھ نہ بولیں گے۔ فیض احمد فیض نہ مانے۔ چار ماہ قید رہے، تب جا کر رہائی ملی۔

قید میں سوال ہوا کہ جائیداد کتنی بنائی، بینک میں کتنا پیسہ پڑا ہے، کن ملکوں کے دورے کیے، کن سے ملے اور کیوں ملے؟ فیض مسکرائے اور یوں گویا ہوئے:

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں

فیض صاحب کی منزل سینٹرل جیل اور پھر بدنام زمانہ شاہی قلعہ تھی۔ دانت میں درد اٹھا تو جیل انتظامیہ نے اسپتال بھیجا، مگر پولیس والے ساتھ کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب تو فیض احمد فیض کے پرستار نکلے۔ روز چیک اپ کے بہانے فیض صاحب کو بلانے لگے۔ خیال تھا کہ چلو، کچھ دیر ہی سہی، جیل سے آزادی تو میسر آئے گی۔

ایک دن جیل میں گاڑی نہ تھی۔ جیلر بابو نے تانگہ اس شرط پر منگوایا کہ اسپتال جانا ہے تو ہتھکڑی پہننی ہوگی۔ فیض صاحب کو بالکل بھی اعتراض نہ تھا۔ یوں یہ اعزاز بھی حصے میں آیا کہ جرمِ بے گناہی میں پابند سلاسل ہو کر محبوب کی گلی سے گزرے۔

ویسے بھی یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا۔ ایک ناکردہ گناہ کی پاداش میں فیض کئی قید خانوں میں چار برس سے اوپر اسیر رہ چکے تھے۔ ان پر بغاوت اور حکومت گرانے کی سازش کا الزام تھا۔ یہ مقدمہ راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

راولپنڈی سازش کیس

9 مارچ 1951۔ صبح کے پانچ بجے ہیں، سورج کی کرنوں نے ابھی رات کی سیاہی کا پردہ چاک نہیں کیا ہے۔ نیم تاریکی کو چیرتی قطار در قطار گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس ایک گھر کے باہر آ کر بجھ گئیں۔ سیکنڈوں میں بندوق اٹھائے پولیس اہلکار گھر کے آس پاس پھیل گئے۔ لگ رہ تھا کہ کسی خطرناک دہشت گرد کو پکڑنے آئے ہیں۔ کھٹ پٹ کی آوازوں سے پہلی منزل پر بتی جلی۔ ایک خاتون نے جھانک کر دیکھا تو بہت سی بندوقیں اور سر نظر آئے۔ ایلس فیض نے گھبرا کر اپنے شوہر فیض احمد فیض کو جگایا جو کچھ دیر پہلے ہی دفتر سے گھر آئے تھے۔

راولپنڈی میں میجر جنرل اکبر خان کے گھر رات کے کھانے پر چند لوگ آئے ہیں۔ ان میں فیض احمد فیض اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر بھی ہیں۔ یہ وہی اکبر خان ہیں جو کچھ عرصہ پہلے کشمیر کے محاذ پر پاک فوج کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ اور کچھ ہم خیال فوجی افسران حکومت کی کشمیر اور خارجہ پالیسی سے خوش نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان امریکی بلاک میں گیا تو یہاں فوجی اڈے بنیں گے اور پھر روس ایٹم بم برسانے میں دیر نہیں لگائے گا۔

پلان تھا کہ لیاقت علی خان کو اغوا کر کے ان انہیں برطرف کیا جائے اور گورنر جنرل سے نئی حکومت کا اعلان کروایا جائے۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر سمیت کئی لوگوں نے اس پلان کی مخالفت کی۔ میجر جنرل اکبر خان نے بھی بعد میں یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ تاہم مخبری ہو چکی تھی، یوں دعوت میں شریک سب ہی گرفتار کر لیے گئے۔

فیض کے نواسے علی مدیح ہاشمی ان کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ نانا کہاں ہیں اور کیوں گرفتار ہوئے؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ پولیس نے صاف کہہ دیا تھا کہ فیض صاحب ان کی تحویل میں نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایلس فیض کی فکر اور پریشانی بڑھ رہی تھی۔ افواہوں کا بازار گرم تھا۔ کوئی کہتا، فیض کو قلعۂ لاہور کی زمین دوز جیل میں رکھا گیا ہے۔ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے، ان کی بینائی ضائع ہو چکی ہے۔ ایسے میں یہ بھی پریشانی تھی کہ کہیں یہ افواہیں ’’بے بے جی‘‘ یعنی فیضؔ کی والدہ کے کانوں تک نہ پہنچ جائیں۔

چھوٹی سی تنگ و تاریک کوٹھری، نہ کوئی ہم دم نہ ہم سخن۔ ڈیوٹی گارڈ بھی نہ بولتے اور کتابیں بھی میسر نہ تھیں۔ فیض احمد فیض کم گو تو تھے لیکن تنہا قید کاٹنا ایک سخت آزمائش تھی۔ یہ دور ان کے لیے فطرت اور اپنے آپ سے قربت کا دور ثابت ہوا۔

جیل میں ان کی صلاحیتیں مزید پروان چڑھیں۔ اردو کا دامن کئی شاہکار نظموں اور غزلوں سے بھر گیا۔ یہ نہ صرف قیدی ساتھیوں کو حوصلہ دیتیں، بلکہ جیل سے باہر چاہنے والوں کی امید بھی بڑھاتیں۔

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان قاتلانہ حملے میں شہید ہو گئے مگر راولپنڈی سازش کیس کا مقدمہ چلتا رہا۔ یکم نومبر 1952 کو کیس کی سماعت مکمل ہوئی اور 5 جنوری 1953 کو فیصلہ آگیا۔ فیض احمد فیض کو چار سال اور میجر جنرل اکبر کو 12 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

فیض صاحب اپنی اہلیہ کو خط میں لکھتے ہیں:

یہ بری خبر تم تک پہنچ چکی ہوگی۔ دِل زیادہ پریشان نہ ہونے دو۔ ذرا سوچو اِس نئی مصیبت کے آخر کیا معنی ہیں۔ ڈھائی سال کی مزید جُدائی! ہندوستان پاکستان میں شاید ہی کوئی نیک آدمی ایسا ہو جِس نے اِس سے زیادہ جیل نہ کاٹی ہو۔ کِسی کا کچھ نہیں بِگڑا۔ بدقِسمتی سے نیکی اور نجات کی کوئی سہل راہ نہیں ہے۔

1954 میں اسمبلی تحلیل ہوئی تو اس کے بنائے سارے قوانین بھی ختم ہو گئے۔ یوں ڈیڑھ سال بعد اپریل 1955 میں فیض صاحب کو رہائی ملی۔ اب جیل کے قیدی نہیں، مشاعروں کے شیدائی فیض احمد فیض کی نظمیں سن رہے تھے، اور سر دھن رہے تھے۔

رنگ پیرہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے سامنے آنے کا نام

ظلم و آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے، آگ میں پھول کھلانے کی ہمت اور رقیب کی چار دن کی خدائی سے نہ گھبرانے کا حوصلہ دینے والی نظم۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

یہ سب قید خانوں کی سوغاتیں ہیں۔ جیل سے بہت پہلے ہی فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری منظر عام پر آ چکی تھی۔ یہ شاعری کب اور کیسے شروع ہوئی؟ کس کی شاگردی میں ہوئی؟ اور فیض کالج کے استاد سے فوجی افسر اور پھر اخبار کے ایڈیٹر کیسے بنے؟ آئیے کچھ اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

فیض کی شاعری کا آغاز

سیالکوٹ اور پاکستان کا رشتہ کچھ خاص ہے۔

فیض احمد فیض کی پیدائش 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے کالا قادر میں ہوئی۔ والد خان بہادر سلطان محمد خان بیرسٹر تھے جن کی دوستی علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، سر عبدالقادر اور ڈاکٹر ضیاءالدین جیسی قد آور شخصیات سے تھی۔ فیض کے والد والی افغانستان کے چیف سیکریٹری اور برطانیہ میں افغان سفیر رہ چکے تھے۔ والدہ سلطان فاطمہ گھریلو عورت تھیں۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت پر بڑا زور تھا۔ فیض نے 4 سال کی عمر میں قران حفظ کرنا شروع کیا لیکن تین سپاروں کے بعد آنکھوں میں ہو گئی۔ حفظ کا سلسلہ رکنے کا دکھ فیض صاحب کو عمر رہا۔

مطالعے کے شوق نے غیرنصابی کتابوں کی طرف مائل کیا تو محلے کی لائبریری سے 2 پیسے کرائے پر کتابیں لانا شروع کر دیں۔ فیض بتاتے ہیں کہ بچپن میں ہمیں اکنی ملتی تھی جیب خرچ کے لیے، دونوں بھائی لٹو، پتنگ، قلفی وغیرہ پر خرچ کرتے تھے، ہم کتاب پڑھا کرتے تھے۔

فیض صاحب نے چھوٹی سی عمر میں کلاسیکی نظم اور نثر کی بیشتر کتابیں پڑھ لی تھیں۔ طلسم ہوش ربا، فسانہ آزاد، عبدالحلیم شرر کے ناولوں سے خوف فائدہ اٹھایا۔ اردو کے تمام اساتذہ کے شعری مجموعے بھی پڑھ ڈالے۔ زبان کی سادگی نے انہیں داغ اور امیر مینائی کا گرویدہ بنا دیا۔ ایک مرتبہ میر حسن نے انعام میں ایک روپیہ دیا جو انہیں عمر بھر عزیز رہا۔

اسکول کے زمانے میں ہی والد کے کہنے پر انگریزی فکشن کا مطالعہ کیا اور چارلس ڈکنز، رائیڈر ہیگرڈ، آرتھر کونن ڈوئل کو پڑھ ڈالا۔ فیض سیالکوٹ سے انٹر کر کے لاہور چلے آئے اور علامہ اقبال کی معرفت گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا۔ یہاں سے شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

فیض کا ابتدائے عشق

فیض ابھی کالج میں پڑھے رہے تھے کہ ایک ماہ جبین کے حسن کے اسیر ہوگئے۔ امرتا پریتم سے گفتگو میں انہوں نے بتایا تھا، ’’پہلا عشق اٹھارہ وریاں دی عمر وچ کیتا سی۔‘‘

وہ ایک افغان لڑکی تھی جو سیالکوٹ میں ان کے پڑوس میں رہتی۔ فیض صاحب آتے جاتے اسے کمرے کی کھڑکی سے دیکھا کرتے اور یک طرفہ عشق کی آگ میں جلتے رہتے۔ شرمیلے فیض کو اظہار کی ہمت نہ پڑتی۔ بس غزلیں اور نظمیں لکھ کر محبت کا خراج ادا کیا کرتے۔

ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے

اگلی بار چھٹیوں میں لاہور سے واپس ہوئی تو کھڑکی خالی تھی۔ جس کی یاد نے دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا اس کی شادی کسی کشمیری جاگیردار سے ہو چکی تھی۔ فیض صاحب کی تو دنیا اندھیر ہو گئی۔ پہلے ہمت التجا نہ تھی، اور اب ضبط کا حوصلہ نہ تھا۔ جیسے تیسے خود کو سمیٹ کر واپس لاہور پہنچے۔

اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
ہو چکا ختم عہد ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی

کچھ عرصے بعد فیض سیالکوٹ لوٹے تو پڑوس میں متاع دل و جاں بھی آئی ہوئی تھی۔ ستم یہ کہ وہ اپنے خوبصورت شوہر کو ملانے بھی لے آئی۔ جب دونوں رخصت ہوئے تو کچھ دور جا کر اکیلے واپس آئی اور چہک کر کہا، ’’دیکھا میرا شوہر کتنا حسین ہے۔‘‘

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

فیض کی شاعری میں انقلاب

فیض لاہور سے امرتسر آگئے۔ وہاں انہیں ایم اے او کالج میں لیکچرر شپ مل گئی۔ ان دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ بانیوں میں ڈاکٹر تاثیر، ملک راج آنند، سجاد ظہیر اور انگلینڈ سے آنے والے صاحب زادہ محمود الظفر شامل تھے۔ سینے میں دہکتے عشق کی سوزش فیض کے چہرے اور آنکھوں سے نمایاں تھی، گویا پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھا تو سارے جہاں کا درد اپنے اندر سمو لیا۔

اور بھی دکھ ہیں، زمانے میں محبت کے سوا

فیض بیک وقت ترقی پسند تحریک اور کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین چاہتے تھے کہ ادیب خیالی محل کے بجائے زمینی حقائق پر نظم اور نثر کی بنیاد رکھیں۔ فیض صاحب نے اس تحریک پر تن من دھن لگا دیا۔ ایک اسٹڈی سرکل قائم کیا اور گاؤں دیہاتوں میں جا کر مزدوروں اور کسانوں کو حالات اور جغرافیہ کا درس دینے لگے۔ شام تک وہ کالج میں مصروف رہتے اور پھر رات گیارہ بجے تک خدمت خلق کرتے۔ فیض احمد فیض دیہی زندگی کے مسائل سے واقف تھے۔ غریبوں کے دکھ درد کو اب انہوں نے اپنا ذاتی غم بنا لیا تھا۔ بقول امیر مینائی:

خنجر چلے کسی پہ، تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

ان کا پہلا مجموعہ نقشِ فریادی کے نام سے 1940 میں منظر عام پر آیا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ وہ واپس لاہور آ گئے اور ہیلی کالج آف کامرس میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑک چکے تھے۔ ان کی تپش برصغیر میں بھی محسوس کی جارہی تھی۔ فیض کے اندر بھی دوسری محبت کی آگ جل اٹھی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر نے ایک انگریز خاتون کرسٹوبیل سے شادی کی، جن کی بہن ایلس کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہو کر ہندوستان آ چکی تھیں۔

ایلس اور فیض پہلے امرتسر میں ملے، جہاں رفتہ رفتہ ان کے خیالات اور دل بھی ملنے لگے۔ اس بار امیدوں کی فصل کسی جاگیردار کے ہاتھ اجڑنے کا اندیشہ نہ تھا۔ ہاں گھر والوں کا ڈر ضرور تھا۔ فیض نے والدہ کو منا لیا۔ ایلس کیتھرین جارج مسلمان ہو کر کلثوم بن گئیں۔ 1941 میں دونوں کا نکاح مہاراجا کشمیر کے سری نگر محل میں ہوا۔ نکاح نامے کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی تھا جس میں فیض نے دوسری شادی نہ کرنے اور ایلس کو طلاق کا حق دینے پر اتفاق کیا۔

شادی سے کچھ پہلے فیض نے کیمبرج میں داخلہ لیا تھا۔ تمام تیاری مکمل تھی کہ جنگ عظیم چھڑ گئی۔ بحری راستے بند ہونے سے فیض کا برطانیہ جانے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ کچھ سال گزرے تھے کہ قسمت انہیں برٹش آرمی میں لے گئی۔

کمیونسٹ سے کیپٹن کا سفر

فیض جیسا انقلابی، کمیونسٹ، ترقی پسند اور بائیں بازو کا شاعر، ایک استعماری فوج کا دست و بازو کیوں بنا؟ اس سوال کا جواب فیض خود دے چکے ہیں۔

جنگ عظیم کے دوران فیض احمد فیض کے کئی دوست ’’بی بی سی‘‘ سے وابستہ ہو کر لندن چلے گئے۔ وہ فیض کو بلاتے اور فیض بھی للچاتے کہ چلو انگلستان ہی دیکھ آئیں، وہاں بیرسٹر بھی بن جائیں گے۔ لیکن انقلابی دوست ان کی راہ میں رکاوٹ تھے، یوں فیض لندن نہ جا سکے۔ ان دنوں فیض کے قریبی دوست مجید ملک برطانوی فوج میں پبلک ریلیشنز افسر مقرر ہوئے۔ انہوں نے فیض کو بھی بلانا چاہا مگر وہ نہ آئے۔ کچھ عرصے بعد جب جرمنی نے روس پر حملہ کیا اور جاپان دندناتا ہوا ہندوستان کی سرحدوں تک آ پہنچا تو فاشزم کے خلاف یہ ملکی دفاع کا مسئلہ بن گیا۔ اس بار مجید ملک نے انہیں بلایا تو فیض نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کیپٹن بننا قبول کر لیا۔

کچھ ہی عرصے میں میجر اور پھر لیفٹینٹ کرنل بن گئے۔ البتہ پاکستان بنتے ہی انہوں نے فوج سے استعفا دے دیا۔ فوج سے صحافت کا رخ کیا اور اپنے دوست میاں افتخار الدین کے کہنے پر انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ آزادی کے خواب کی تعبیر ابھی کوسوں دور ہے۔

تقسیم کے موقع پر انسانیت کی تذلیل اور خونریزی دیکھتے ہوئے انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی آزادی کا مرثیہ لکھ دیا تھا:

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فیض اسی منزل کا خواب دیکھتے رہے۔ پاکستان ٹائمز اور پھر اردو روزنامے امروز کے اداریوں میں ارباب اختیار کی توجہ مقصد کی جانب دلاتے رہے۔

مزدروں کو حق دلوانے کے لیے وہ پانچ سال پنجاب لیبر ایڈوائزری کمیٹی کے سرپرست رہے۔ ٹریڈ یونینز قائم کیں، انہیں منظم کیا اور فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے۔

پھر انہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ دس سالہ سلیمہ اور چھ سالہ منیزہ کبھی والد کو ہتھکڑیوں میں تو کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھتیں۔ وہ کئی برسوں جدائی کی اذیت جھیلتی رہیں۔ ننھے دل پر جو گزرتی اس کا درد فیض اپنے روح میں کھبتا ہوا محسوس کرتے۔

فیض احمد فیض خود کو بھائی طفیل احمد کے انتقال کا ذمہ دار سمجھتے رہے۔ 1952 میں طفیل ان سے ملنے حیدرآباد جیل آنے والے تھے۔ فجر کی نماز کے وقت دل کا دورہ پڑا جس نے اٹھنے نہ دیا۔ فیض نے ایلس کے نام خط میں لکھا:

آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی۔ یہ لوگ میری زندگی کی عزیز ترین متاع مجھے دکھانے لے گئے۔ وہ متاع جواب خاک ہو چکی ہے اور پھر وہ اسے ساتھ لے گئے۔ میں نے اپنے غم کے غرور میں سر اونچا رکھا اور کسی کے سامنے نظر نہیں جھکائی۔ یہ کتنا مشکل اور کتنا اذیت ناک کام تھا یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔

اگلے خط میں انہوں نے لکھا:

میں اُن کے بیوی بچوں اور ماں کے خیال کو دل سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے اپنی ماں کی پہلی اولا د چھین لی ہے۔ ہاں میں نے ہی سب کو اُن کی زندگی سے محروم کر دیا ہے۔ حواس اس قدر پراگندہ ہیں کہ زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ یہ غم بہت اچانک اور بے سبب لگا ہے لیکن اسے سہنے کا حوصلہ مجھ میں ہے، میرا سر نہیں جھکے گا۔

اس صدمے کا اثر فیض احمد فیض پر کافی عرصے رہا۔ انہوں نے کچھ دن بعد ایک خط میں بھائی کا نوحہ ایک نظم کی صورت میں لکھ کر اہلیہ کو بھیجا:

مجھ کو شکوہ ہے میرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمر گزشتہ کی کتاب

فیض صاحب کو ملکی اور عالمی حالات کی خبریں جیل میں بھی ملا کرتیں۔ وہ اکثر ان پر نظمیں اور غزلیں لکھا کرتے۔ فیض کی شاعری وہ ہنگامی یا وقتی نہیں بلکہ آفاقی اور دائمی ہے۔

جب ایک کمیونسٹ جوڑے کو امریکا میں سزائے موت سنائی گئی تو فیض نے نظم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے لکھی۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیری آنکھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

جب شاہ ایران کے خلاف احتجاج کرنے والے ایرانی طلبہ پر گولیاں چلیں تو ایک خوبصورت نظم وجود میں آئی۔ ’’زنداں نامہ‘‘ جیل میں لکھی تمام غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے۔ قید خانے سے بیوی اور بیٹیوں کے نام لکھے خطوط کا مجموعہ ’’صلیبیں میرے دریچے‘‘ کے نام سے موجود ہے۔

1955 میں قید سے رہائی کے بعد فیض دوبارہ اپنی ادبی اور صحافتی ذمے داریوں میں مصروف ہوگئے۔ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ نے ایک ادبی رسالہ ’’لیل و نہار‘‘ نکالا تو اس کی ادارتی ذمے داری فیض صاحب کے سپرد ہوئی۔ وہ اس پرچے کے ذریعے ترقی پسندی کا مشن آگے بڑھاتے رہے۔ ایوب دور میں جب یہ ادارہ سرکاری تحویل میں لیا گیا تو یہ مشغلہ بھی ختم ہو گیا۔ 1959 سے 1962 تک وہ نیشنل کونسل آف آرٹس کے سیکریٹری اور بعد میں نائب صدر رہے۔

انہوں نے 1959 میں جاگو ہوا سویرا نام سے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی تھی جو مشرقی پاکستان میں بننے والی پہلی اردو فلم تھی۔ ایوب سرکار نے اس فلم کو کمیونسٹ پروپگینڈا قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ مگر ان کی شاعری اور ان کے افکار کی روشنی مشرق و مغرب میں پھیل چکی تھی۔

وہ ایشیا کے پہلے شاعر ہیں جنہیں روس نے ’’لینن امن ایوارڈ‘‘ دیا جو نوبیل انعام کا ہم پلہ مانا جاتا ہے۔

لیاری کے چھوٹے سے عبداللہ ہارون اسکول کا چارج سنبھال تو پورا لیاری ہی بدل ڈالا۔ کھڈا مارکیٹ میں جہاں غربت، جہالت اور منشیات کا راج تھا وہاں ٹیکنیکل اسکول اور آڈیٹوریم قائم کیا۔ اپنی جمع پونجی بھی اسی کام پر لگا دی۔ فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی قائم کی تو ادارے کی آمدن سے سو بچے مفت تعلیم حاصل کرتے۔

1965 کی جنگ میں فیض احمد فیض فوج سے وابستہ ہوئے اور سپاہیوں کے لیے نظمیں اور گیت لکھے۔ ان کی کتاب ’’دست تہ سنگ‘‘ بھی انہی دنوں چھپ کر آئی۔

جنگ کے بعد سیاسی حالات خراب ہونے لگے۔ صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرانے پر گوہر ایوب نے فتح کا جشن منایا۔ کراچی میں ایسے جشن خونریزی میں بدل جایا کرتے ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہوا۔ ایک نوجوان کی لاش لیے گھر والے ساری رات دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ نہ کوئی پوچھنے آیا، نہ ایف آئی آر ہوئی اور لاش یونہی دفنانی پڑی۔ فیض نے یہ سب دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا۔

کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل، نہ آستین پہ نشان
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

یہ خون رائگاں نہ گیا۔ ایوب خان کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا گیا اور 25 مارچ 1969 کو انہیں اقتدار یحییٰ خان کو سونپ کر رخصت ہونا پڑا۔ حکومت بدلی مگر طرز حکومت نہیں۔ فیض کی چشم بینا مشرقی پاکستان میں بہنے والے خون کے قطروں سے ایک طوفان اٹھتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اس موقع پر لکھتے ہیں:

آج کے دن نہ پوچھو میرے دوستو
زخم کتنے ابھی، بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دست قاتل میں ہیں

مشرقی پاکستان میں طاقت استعمال ہوئی تو فیض نے یحییٰ خان اور ان کے حواریوں کو کچھ یوں تنبیہ کی:

حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے

مگر ان کی کون سنتا؟ وہ وطن کے دامنِ تار تار کی خیر مانگتے رہے اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ملک ایک بازو سے محروم ہو گیا۔ فیض صاحب کی واقفیت ذوالفقار علی بھٹو سے تھی اور شیخ مجیب الرحمان سے بھی، لیکن وہ سقوط ڈھاکا کا ذمے دار دونوں کو سمجھتے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ان کا دل زخموں سے چور ہو گیا۔ اس عرصے میں انہوں نے کئی درد ناک نظمیں لکھیں:

کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آلگے عمر رواں یا دل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹہر جائے

بھٹو دور میں مشیر ثقافت بنے اور جب معافی تلافی کے لیے پاکستانی وفد بنگلہ دیش گیا تو فیض بھی ساتھ تھے۔ افواہ تھی کہ بھٹو فیض کو بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفیر مقرر کرنا چاہتے تھے۔ مگر بنگلہ دیش کی قیادت نے پاکستان سے تعلقات قائم کرنے میں کوئی گرم جوشی نہ دکھائی۔ پاکستانی وفد خالی ہاتھ واپس آگیا۔ فیض صاحب کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ واپسی پر فیض احمد فیض نے اپنے ایک دوست سے کہا:

ہم تو سوچ کر گئے تھے کہ خوب گھومیں گے۔ احباب سے مل کر کچھ اُن کی سنیں گے کچھ اپنی سُنائیں گے۔ گلہ گزاریاں ہوں گی پھر از سر نو دوستی استوار کریں گے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے۔ کوئی ملاقات نہ ہو سکی۔ بس آخری دن شیخ مجیب سے مختصر ملاقات ہوئی۔

شیخ مجیب نے ان سے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ فیض احمد فیض نے واپسی پر طیارے میں بیٹھے بیٹھے درد سے بھری ایسی غزل لکھی جس نے اُن کی روح کو جھلسانے والے غم کا پتہ دیا:

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

فیض صاحب نے سرکاری ادارے نیف ڈیک کے ساتھ تین فلموں کا معاہدہ کیا۔ ’’دور ہے سکھ کا گاؤں‘‘ نامی ایک فلم کا اسکرپٹ بھی لکھ لیا اور اس کی عکس بندی بھی ہو گئی۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ ان کے ایک قریبی دوست اے جے کاردار پیٹھ میں چھرا گھونپ کر فلم کے تمام پرنٹس لندن لے اڑے۔ فیض صاحب کو ہمیشہ اس کا دکھ رہا۔

فیض صاحب کو ذوالفقار علی بھٹو سے بہت امیدیں تھیں جو پوری نہ ہو سکیں۔ 5 جولائی1977 کو جنرل ضیاءالحق نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فیض صاحب کی جلا وطنی کا نیا دور شروع ہوا۔

مرے دل مرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر
کہ گلی گلی پھرے ہم، کریں رخ نگر نگر کا

دوستوں کی محفل میں ذکر ہوا کہ 90 روز میں الیکشن کا وعدہ ہوا ہے۔ آمروں کی رگ رگ سے واقف فیض بولے، ’’یہ تو خلاف فطرت عمل ہوگا۔‘‘

1978 میں ان کا نیا شعری مجموعہ ’’شام شہر یاراں‘‘ شائع ہوا۔ اس میں شامل نظمیں اور غزلیں فیض کو معتوب قرار دینے کے لیے کافی تھیں۔ فیض صاحب کی کڑی نگرانی ہونے لگی۔ گھر سے نکلتے تو ایجنسیوں کے ہرکارے سائے کی طرح ساتھ چلتے۔

67 برس کے فیض تنگ آ چکے تھے۔ اور فروری 1978 کی ایک دوپہر وہ گھر سے ٹہلتے ہوئے نکلے۔ ایئر پورٹ سے کراچی، پھر دلی اور وہاں سے لندن چلے گئے۔ پردیس میں ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی خبر سنی تو دل کرچی کرچی ہو گیا۔

آباد کرکے شہر خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغ ستمگر لگی ہوئی
آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میان قاتل و خنجر لگی ہوئی
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی

انقلاب ایران کو فیض عوام کی فتح قرار دیتے اور کہا کرتے کہ فرانس کے بعد ایسا انقلاب دنیا میں کبھی نہیں آیا۔ اسی انقلاب پر اپنی بے مثال نظم ’’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ لکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوا کرتے۔ یہ شاہکار نظم مظلوموں اور محکوموں کے لیے ترانۂ امید بن گئی۔

ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

فیض فلسطین کے مظلوموں کے بڑے حامی تھے۔ یاسر عرفات سے ان کی گہری دوستی تھی۔ یاسر عرفات کی درخواست پر ’’لوٹس مگیزین‘‘ کے ایڈیٹر بن کر بیروت چلے آئے۔ ایلس بھی بطور میگزین سیکریٹری ان کے ساتھ تھیں۔ بیروت ان دنوں خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اسرائیلی حملے میں ایک دن لوٹس میگزین کی عمارت بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ خوش قسمتی سے فیض ایک دن پہلے یہاں سے جا چکے تھے۔ وہ دو ہفتے فلسطینی شاعر معین بعصیصو کے گھر رہے اور کچھ عرصے بعد شامل سے لندن آگئے۔ جنگ میں فیض نے موت کو بہت قریب سے دیکھا۔ وہ فلسطینیوں کے جذبہ حریت سے بہت متاثر تھے۔

فیض احمد فیض کی محبتیں

فیض صاحب کا دل لندن میں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وطن کی محبت 1983 میں انہیں واپس لاہور کھینچ لائی۔

اب ہم کچھ فیض کی محبتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایلس سے شادی کے بعد بھی وہ عشق سے پیچھے نہ ہٹے۔ حقیقت میں فیض نے نہ کسی عشق کو ادھورا چھوڑا، نہ کام سے پہلو تہی کی۔

جناح اسپتال میں ڈاکٹر عبداللہ ہارون کی صاحب زادی شوکت ہارون فیض کی گرویدہ ہوگئیں۔ فیض بھی ان کی قابلیت سے متاثر ہوئے۔ ان کے انتقال کی خبر پر فیض شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ ملتان کی عفت ذکی سے 70 کی دہائی میں راہ و رسم خاص رنگ اختیار کر گئی۔ فیض جب بھی ملتان آتے عفت ذکی کے گھر قیام کرتے۔

راولپنڈی کی بیگم سرفراز سے بھی فیض کا تعلق قائم ہوا۔

تجھے پکارا ہے بے ارادہ
جو دل دکھا ہے بہت زیادہ

سرحد پار بھی فیض صاحب کے عاشقوں کی بڑی تعداد تھی۔ ایک مشاعرے میں جہاں فراق گورکھ پوری بھی تھے، نظامت کرنے والے نے فراق کا ایک شعر پڑھا اور نام فیض کا نام جڑ دیا:

آنے والی صدیاں تم پر رشک کریں گی ہم عصرو
جب یہ خیال آئے گا ان کو تم نے فیض کو دیکھا تھا

فیض کی شخصیت میں وہ مقناطیسی کشش تھی کہ جو ان سے ایک بار ملتا وہ انہی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ اتنی محبتوں میں کچھ حاسدین بھی پیدا ہوئے جنہیں اور کچھ نہ ملا، تو فیض کو ملحد کہنا شروع کر دیا۔

کیا فیض لادین تھے؟

فیض صاحب نوجوانی میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوئے۔ رومانوی شاعری کے بعد فیض احمد فیض کی غزلوں پر سیاسی رنگ غالب رہا۔ لیکن فیض مذہب سے دور نہیں رہے۔ بچپن ہو یا کالج وہ درس قرآن میں کئی بار شریک ہوئے۔ فیض نے حمد لکھی اور فارسی میں خوبصورت نعت بھی۔ سانحہ کربلا سے متعلق کئی مرثیے بھی تحریر کیے۔ وہ خود کو پوشیدہ صوفی قرار دیتے اور اقبال کی طرح مولانا روم کو مرشد مانتے تھے۔

ایک نوجوان کرنل نے جیل میں فیض صاحب کو قرآن اور حدیث کا درس دیتے دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ انہیں اکیلے میں لے جا کر پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ فیض بولے، وہی جو مولانا روم کا تھا۔ یہی کرنل برسوں بعد دوبارہ ملا تو سوال کیا کہ مولانا روم کا مذہب کیا تھا؟ فیض جھٹ سے بولے، وہی جو میرا ہے۔

ایک خط میں فیض نے اقبال کا یہ شعر لکھ کر کچھ ہوں شکوہ کیا:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

فیض صاحب نہ مذہب بیزار تھے، نہ مذہب مخالف۔ وہ روس اور چین کی طرح پاکستانی عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتے تھے جس کا حل ان کے نزدیک اشتراکی نظام ہی تھا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اسلامی نظام میں کوئی خرابی نہیں۔ وہ عمر بھر انصاف اور عام افراد کی بالا دستی کا خواب دیکھتے رہے۔

فیض کا آخری دور

فیض صاحب وطن واپس آ کر بہت تنہائی محسوس کر رہے تھے۔ دشتِ تنہائی میں آوازوں کے سائے اور یادوں کے سراب تھے۔ ان کے سب یار ایک ایک کر کے رخصت ہو چکے تھے۔ اب ان کی صحت بھی کافی خراب رہنے لگی تھی۔ مہ نوشی تو اعتدال سے کرتے لیکن سگریٹ بے حساب پیا کرتے۔ کالج سے لگی اس عادت نے اب ان کے جسم کی توانائی پینی شروع کر دی تھی۔ دل کے ساتھ پھیپھڑوں اور جگر کو بھی روگ لگ چکا تھا۔ مارچ 1984 کو شدید بیمار ہو کر لاہور کے میو اسپتال میں داخل ہوئے۔ اکھڑتی سانسوں کو آکسیجن ماسک لگا کر سہارا دیا گیا۔ دس بارہ دن فیض اسپتال میں رہے۔ سانسیں بحال ہوئیں تو بیماری کی یاد میں نظم لکھی۔

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویرا
نظم کے آخر میں اپنے دل کا حوصلہ بڑھایا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو ابھی عمر پڑی ہے

انہوں نے دوبارہ ہمت کی۔ اس وقت تک ان کے سات مجموعہ کلام چھپ چکے تھے۔ 1982 میں کسی چاہنے والے نے ان کی کلیات ’’سارے سخن ہمارے‘‘ کے نام سے شائع کروا دی تھی۔ تنقیدی مضامین، اداریوں، تقریروں پر مشتمل دس کے قریب کتابیں بھی شائع ہو چکی تھی۔ فیض نے سارا کلام جمع کیا جو ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ فیض ایک بار پھر لندن گئے اور اپنے اعزاز میں ایک مشاعرے میں شرکت کی۔ یہ ان کی زندگی کا آخری مشاعرہ تھا۔

فیض جلد واپس آگئے۔ شاید انہیں یہ احساس ہو چلا تھا کہ شمع حیات کی لو مدھم پڑتی جا رہی ہے۔

18 نومبر 1984 کی ایک رات فیض صاحب کی طبیعت دوبارہ خراب ہوئی۔ انہیں لاہور کے میو اسپتال لے جایا گیا۔ سانسیں بحال کرنے میں ڈاکٹروں نے جان لڑا دی مگر اجل کا ہرکارہ آ چکا تھا۔

اردو شاعری کے آسمان کا یہ دمکتا سورج 20 نومبر 1985 کی دوپہر غروب ہو گیا۔ یوں بیوی بچوں سمیت کروڑوں چاہنے والوں کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں ان کی تدفین کے وقت ہزاروں آنکھوں نے اشکوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ جو لوگوں کو جینے کی، حالات سے لڑنے کی امنگ دیتا تھا، بے کسوں اور بے بسوں کی آس اور آواز تھا، سب کو صدمے سے ساکت کر گیا۔

شیئر

جواب لکھیں