میری آج کی اِس کہانی کا کوئی ہیرو نہیں ہے! بلکہ یہ کہانی ہے ایک وِلَن کی۔

اور ہمارا معاشرہ ان جیسوں سے بھرا پڑا ہے۔

یہ کہانی ہے ایسے کمزوروں کی جو خود کو مرد کہتے ہیں۔ وہ عورت پر ظلم کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی شادی سے انکار کر دے تو چہرہ تیزاب سے جھلسا دیتے ہیں۔ جان کہنے سے منع کر دے تو جان لے لیتے ہیں۔

قصور کی بے قصور زینب ہو یا 70 سال کی بوڑھی، انہیں تو عورت صرف ایک شکار نظر آتی ہے اور بس۔ آپ شاید مردوں کی ایک ہی کمزوری سے واقف ہیں لیکن آج میں آپ کو مردوں کی اصل کمزوری کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اور اس کے لیے مجھے آپ کو ایک کہانی سنانا ہوگی۔

یہ اسلام آباد کی ایک حسین شام تھی۔ شادی کی تقریب میں ڈانس کرتی شوخ چنچل لڑکی نور مقدم کے ساتھ ہے ظاہر جعفر۔ دونوں گہرے دوست ہیں۔ بلکہ اِن دونوں کے دوست تو یہ سمجھتے ہیں کہ ظاہر نے جینا ہی تب شروع کیا، جب نور اُس کی زندگی میں آئی۔

مگر اُس روز کمرے میں صرف وہ دونوں تھے کہ ایک تیسرا شخص کھڑکی سے کود کر اندر آتا ہے۔ ظاہر اُسے دیکھتے ہی چھرے کا وار کرتا ہے اور پھر پاس پڑی پستول اٹھا کر فائر کرتا ہے، مگر گولی چیمبر میں پھنس جاتی ہے۔ چھ فٹ لمبے ظاہر کے چنگل سے بچنے کے لیے لڑکا زور زور سے چلاتا ہے۔ وہاں نور بھی موجود تھی، مگر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اسی کمرے میں نور کا سَر اُس کے جسم سے تین فٹ دور پڑا تھا۔

23 اکتوبر 1993

جورڈن کے ایک اسپتال میں پاکستانی سفیر شوکت مقدم تیز تیز قدموں سے ٹہل رہے ہیں۔ اتنے میں اسٹاف آ کر انہیں خوش خبری سناتا ہے، ’’مبارک ہو سر! بیٹی ہوئی ہے۔‘‘ یہ ننھی سی جان شوکت مقدم اور انکی اہلیہ کوثر کی زندگی میں روشنیاں لے کر آئی تھی۔ والدین بچی کا نام ’’نور‘‘ رکھتے ہیں۔

29 اگست 1991

اُدھر ٹھیک دو سال پہلے امریکی ریاست نیو جرسی میں پاکستانی بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ اس کا نام انہوں نے ’’ظاہر‘‘ رکھا۔

نور اور ظاہر کی تعلیم اور تربیت پاکستان سے باہر ہوئی۔ مگر دونوں میں بڑا فرق تھا۔ وہ کہتے ہیں ناں، پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں۔ ظاہر دولت کے نشے میں چور، مغرور اور تہذیب سے دور تھا۔ اُدھر نور مقدم، ایک سلجھی ہوئی، محبت کرنے والی، مہذب اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والی لڑکی تھی۔ مگر پھر قسمت نور مقدم کو اِس منفی سوچ رکھنے والے ظاہر جعفر کے قریب لے آئی۔ امریکا اور جورڈن میں پیدا ہونے والے اسلام آباد میں آ کر مل گئے۔

ہیلو! میرا نام ظاہر ہے۔
ہائی! میں نور ہوں۔
پلیزڈ ٹو میٹ یو۔

بات ہائی ہیلو سے آگے بڑھی۔ نمبروں ایکسچینج ہوئے اور ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ نور کی اٹریکٹیو پرسنلٹی ظاہر کو اس کے قریب لا رہی تھی۔ اس سے پہلے ظاہر صرف زندگی گزار رہا تھا مگر اب جینے لگا تھا۔ نور کی باتیں اس کے لیے دوا کا کام کر رہی تھیں۔ اسے ذہنی سکون مل رہا تھا۔ ایک منٹ! ذہنی سکون سے متعلق ایک اہم بات تو بتانا بھول ہی گیا، واپس پیچھے چلیے۔

ظاہر نشے کا عادی تھا۔ اس کا اپنا آپ اس کے قابو میں نہ تھا۔ پاکستان آنے سے پہلے لندن میں ایک شام روز اس کا ماں سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ عصمت آدم جی، ظاہر کو سمجھانے لگیں دونوں میں بحث شروع ہو گئی۔ ماں کا سمجھانا ظاہر کو بالکل پسند نہ آیا اور اچانک اس نے اپنی والدہ پر حملہ کر دیا۔

بطور تھیراپسٹ والدہ کو اندازہ ہو گیا کہ ظاہر کی دماغی حالت ٹھیک نہیں، اور اسے تھیراپی کی ضرورت ہے۔ پاکستان آ کر والدہ نے بیٹے کا وہاں داخل کرایا جہاں سے وہ خود تھیراپسٹ بنی تھیں۔ اور یہ ادارہ تھا، اسلام آباد کا ’’تھیراپی ورکس‘‘۔

یہاں الٹا دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھا دیا گیا۔ ظاہر یہاں اپنی تھیراپی کروانے کے بجائے خود تھراپسٹ بننے لگا۔ تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور کہتے ہیں کہ کورس کے دوسرے سال فیل ہونے کے بعد ظاہر جعفر کو ہٹا دیا گیا تھا اور اسے کلائينٹ دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ظاہر تو اب یونیورسٹیوں میں تھیراپی پر لیکچر دیتا پھر رہا تھا۔ خیر بیک ٹو دا اسٹوری!

ملنا جلنا بڑھا تو نور پر ظاہر کی حالت کھلنے لگی۔ اس کا عجیب و غریب رویہ نور مقدم کو اس سے دور کر رہا تھا۔ نشے کی حالت میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا۔ ظاہر کا یہ روپ نور کے لیے حیران کن تھا۔ اُسے امیر باپ کی بگڑی اولاد کے ساتھ اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔

’’میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘ نور نے بریک اپ کا فیصلہ کر لیا۔

وقت گزرتا گیا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے بات کیے تین مہینے ہو چکے تھے۔ مگر پھر ایک رات۔۔۔۔

18 جولائی 2021

نور مقدم کے فون پر ایک میسج آیا۔ یہ ظاہر کی طرف سے تھا۔ اس میں اس نے لکھا تھا، ’’میں ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ بس آخری بار تم سے ملنا چاہتا ہوں، پلیز!‘‘ نور راضی ہو گئی اور آخری بار ظاہر سے ملنے کے لیے گھر میں کسی کو بتائے بغیر نکل گئی۔

اسلام آباد ایف سیون کے گھر میں ظاہر جعفر اکیلا تھا۔ اس کے والدین کراچی گئے ہوئے تھے۔ ظاہر نے نور سے جھوٹ بھی نہیں کہا تھا۔ اس نے امریکا روانگی کے لیے ٹکٹ بک کرا رکھی تھی لیکن اب ظاہر کے ذہن میں کچھ اور خیال آرہا تھا۔ اس نے ٹریول ایجنسی کو فون گھمایا۔

’’اگر میں امریکا نہ جاؤں تو کیا ہوگا؟‘‘
’’آپ کا ٹکٹ ضائع ہو جائے گا سر!‘‘ ٹریول ایجنٹ نے جواب دیا۔
ظاہر جعفر رکا، تھوڑا سوچا، پھر بولا، ’’اگر دس دن بعد امریکا روانہ ہوں تو؟‘‘
ٹریول ایجنٹ نے جواب دیا، ’’تو آپ کو ڈفرنس پے کرنا ہوگا۔‘‘

ظاہر نے فون رکھ دیا۔

اُدھر گھر کے باہر ٹیکسی ڈرائیور کافی دیر سے ظاہر کا انتظار کر رہا تھا۔ ظاہر نے اسے ایئر پورٹ جانے کے لیے بک کیا ہوا تھا۔ بار بار کال کرنے پر بھی ظاہر انتظار کروا رہا تھا۔ رات بارہ بج کر سات منٹ پر ظاہر نے چوکی دار کے ہاتھ ٹیکسی ڈرائیور کو ہزار روپے دے کر ٹیکسی واپس بھجوا دی۔ کچھ دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور نے پھر فون کر کے کہا کہ اگر آپ اب بھی جانا چاہیں تو میں اویلیبل ہوں۔ ظاہر نے جواب دیا، ’’ایسا کرو۔۔۔ آ جاؤ!‘‘

اب ٹیکسی دوبارہ دروازے پر پہنچی تو ظاہر بھی مین گیٹ پر آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا اور وہ دوسرے ہاتھ سے نور کا ہاتھ پکڑا ہوئے تھا۔ ظاہر نے نور کو چپل بھی نہیں پہننے دی، وہ ننگے پاؤں ٹیکسی میں بیٹھی۔ رات 2 بج کر 20 منٹ پر ٹیکسی ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئی۔ لیکن ابھی ٹیکسی ایئر پورٹ سے دور تھی کہ ظاہر نے ڈرائیور سے گاڑی گھمانے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے پوچھا، ’’اب کیا ہوا سر؟‘‘ ظاہر نے جواب دیا، ’’ہم لیٹ ہو گئے ہیں۔ فلائٹ مس ہو جائے گی، لیٹس گو بیک۔‘‘ اب ظاہر نور کو لیکر واپس اپنے گھر آگیا۔

یہاں کہانی میں ایک اور ٹوِسٹ آتا ہے۔

ظاہر نور سے سات لاکھ روپے ارینج کرنے کا کہتا ہے۔ نور چونکہ گھر پر کسی کو بتائے بغیر آئی تھی، وہ اپنے ڈرائیور کو فون کرتی ہے اور اسے سات لاکھ روپے فوری ارینج کرنے کا کہتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتی ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ خیر جیسے تیسے ڈرائیور تین لاکھ روپے ارینج کر کے بتائے ہوئے پتے پر، ظاہر کے گھر کے باہر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

ظاہر یہ رقم گھر کے نوکر کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ اسلام آباد میں ایف سیون کے اِس گھر میں آگے چل کر بہت بڑا کہرام مچنے والا تھا۔ مگر اب چلتے ہیں نور کے گھر، جہاں بیٹی کو گھر میں نہ پا کر سب بہت پریشان تھے۔

21 جولائی کو بقر عید تھی۔ مگر نور کے والدین بیٹی کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے ظاہر کو بھی کالز کیں مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا اور نہ ہی نور کو کال ریسیو کرنے دے رہا تھا۔ اور پھر کچھ دیر بعد نور گھر پر کال کرتی ہے۔ جس میں وہ بتاتی ہے کہ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ لاہور چلی گئی ہے۔

نور خطاطی کی شوقین تھی۔ اسے مذہب سے خاصا لگاؤ تھا۔ ایک وقت تو اس نے حجاب لینا بھی شروع کر دیا تھا۔ وہ ظاہر کو مذہب کے قریب لانا چاہتی تھی۔

20 جولائی 2021

اب واپس اسلام آباد کے ایف سیون چلتے ہیں۔ ظاہر بیرون ملک جانے کا ارادہ ترک کرچکا تھا۔ نور آخری ملاقات کرنے اس کے گھر میں تھی اور اب وہ نور کو جانے نہیں دے رہا تھا۔

شام چار بجے

دونوں میں بحث ہوئی۔ نور فوراً واپس جانا چاہتی تھی۔ ظاہر جعفر نے اس پر تشدد شروع کر دیا۔ نور اپنی جان بچانے کے لیے بھاگی۔ وہ روشن دان سے کودی اور سیدھا گرل پر گری۔ پھر وہ اپنا پیٹ پکڑے آگے کی جانب بڑھی۔ وہ مین گیٹ سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔ مگر یہاں واچ مین نے دروازہ بند کر رکھا تھا۔

وہ کہتی ہے، ’’ظاہر مجھے مار دے گا، مجھے جانے دو۔‘‘ مگر گھر کے دونوں ملازم جمیل اور افتخار راستے کی دیوار بن گئے۔ بے چاری نور چوکی دار کے کیبن میں چھپ گئی۔ اتنے میں ظاہر بھی فرسٹ فلور سے کودا۔ نیچے آ کر اس نے نور کو کیبن سے باہر نکالا اور ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا واپس اندر لے گیا۔

اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ گھر کے اندر جو کچھ چل رہا تھا، کیا اس کا علم صرف گھر کے دو ملازمین کو تھا۔ نہیں!

تحقیق سے پتہ چلا کہ ظاہر جعفر کراچی میں اپنے ماں باپ سے رابطے میں تھا۔ فون کالز کے ریکارڈز کے مطابق وہ کئی کئی گھنٹے اپنی والدہ سے بات بھی کر رہا تھا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظاہر جعفر کے والدین کو اپنے بیٹے کے اگلے قدم کا علم ہو گیا تھا یا نہیں؟ کیونکہ سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے تحقیقات کی روشنی میں اس وقت ایک کالم تحریر کیا، جس میں انہوں نے لکھا کہ ظاہر نے اُس دوران اپنے والد کو فون کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ شادی نہیں کر رہی اور وہ اُسے قتل کر رہا ہے۔ مگر ذاکر جعفر نے اپنے بیٹے کی بات کو سیریس نہیں لیا۔

چوکی دار نے ذاکر جعفر کو فون پر بتایا کہ کمرے کے اندر سے چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں اور آس پاس کے لوگ بار بار گھر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ والد نے چوکی دار سے کہا، ’’تم فکر نہ کرو، میں ابھی تھیراپی سینٹر والوں کو بھیجتا ہوں۔‘‘ اور پھر ذاکر جعفر نے تھیراپی سینٹر کے سی ای او طاہر ظہور کو فون کیا۔

لیکن ادھر صورتِ حال تیزی سے خراب ہوتی جا رہی تھی۔ نور کے شادی سے انکار پر ظاہر آپے سے باہر ہو چکا تھا۔ وہ چاقو سے اس کے جسم کو جگہ جگہ سے زخمی کر رہا تھا۔ وہ چیختی چلاتی رہی مگر کوئی مدد کو نہ آیا۔

اُدھر ظاہر کے والد کی طرف سے بھیجی گئی ٹیم اب دروازے پر کھڑی تھی اور اندر جانے کے لیے نئے نئے حربے آزما رہی تھی۔ اب یہاں ٹھہر جائیے! آپ کو انٹرو تو یاد ہوگا؟ اگر نہیں یاد تو دوبارہ دیکھ لیجیے اور پھر یہیں سے جوائن کیجیے۔ میں نے بتایا تھا کہ ایک لڑکا کھڑکی سے اندر کودتا ہے جس پر ظاہر حملہ کر دیتا ہے۔ وہ لڑکا تھا تھیراپی سینٹر کا نرسنگ اسٹاف امجد۔

اور بالآخر پھر انہیں بلایا گیا جنہیں بہت پہلے بلا لینا چاہیے تھا۔ کمرے میں داخل ہونے والے پولیس اہلکار بھی مںظر دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔ نور کی شناخت کے لیے شوکت مقدم کو فون کر کے بلایا گیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔

اب ظاہر بچ نکلنے کے راستے ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کا پہلا حربہ تھا، ’’میں تو امریکی شہری ہوں مجھ پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔‘‘

اِسی دوران امریکی سفارتخانے سے کچھ افراد ظاہر جعفر سے ملنے کے لیے آئے۔ ایسا لگا جیسے پاکستانیوں کو قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کی طرح ظاہر بھی بچ نکلے گا۔ امریکی سفارت خانے سے ٹویٹ آتا ہے جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ وضاحت کی جاتی ہے کہ امریکا وکیل تو دے سکتا ہے مگر عدالتی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

اب پولیس ظاہر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کو قتل کے شواہد مٹانے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کر لیتی ہے۔ دوسری جانب تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ان کی ٹیم بھی شواہد مٹانے کے الزام میں دھر لی جاتی ہے مگر الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بَری کر دیا۔

ادھر ظاہر جعفر کو اب بھی بچ نکلنے کی امید تھی۔ اب وہ عدالت کے سامنے پاگل ہونے کا ڈرامہ رچانے لگا۔ وہ کبھی وہیل چیئر پر آتا تو کبھی اسٹریچر پر۔

تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی کے ظاہر جعفر کو سزائے موت دے دی جائے۔ دروازہ نہ کھولنے والے چوکی دار اور خانساماں کو بھی دس، دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

آخر میں بس ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ جو کہتے ہیں کہ بیٹیوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے وہ بیٹوں پر نظر کیوں نہیں رکھتے؟ کیوں مظلوم کو ہی قصور وار بنا کر ہر بار ظالم کو بچا لیا جاتا ہے۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا، کب تک؟

شیئر

جواب لکھیں