طاقت میں بڑی کشش ہوتی ہے، یہ انسان کو یقین دلاتی ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ ہر سلطنت بلکہ جبر کا ہر نظام اِسی طاقت کے اصول پر بنا ہے، لیکن ایک جگہ ایسی ہے، جہاں اِن جابر سلطانوں نے بھی سر جھکایا۔

تال پر تھرکتے قدموں نے اُن کے سرکش دماغوں کو جھکایا، جہاں کاجل سے تراشیدہ نگاہوں نے تلواریں میانوں میں واپس دھکیل دیں۔ صرف طوائف کے لیے مہاراجاؤں نے کوڑے کھائے، جنگوں کا منہ دیکھا، جوگی صوفی بھی بن گئے اور کچھ ایسے تھے جو جان ہی دے گئے۔ وہ طاقت جو انسانوں کو غلام بناتی، نازنینوں کی دہلیز پر دل ہار جاتی۔ یہ وہ بازار ہے جہاں شاہوں کی سوداگری ہوتی ہے، یہ جگہ طوائف کا کوٹھا کہلاتی ہے۔

زیادہ دن نہیں گزرے، ایک انڈین ویب سیریز آئی ہے، ’’ہیرا منڈی‘‘۔ یہ کہانی ہے اُس زمانے کی، جس میں کچھ طوائفیں وزیروں، مشیروں سے زیادہ عیش اور عشرت اور پروٹوکول والی زندگی گزارتی تھیں۔ اُن سے وابستہ ہونا دولت، حیثیت اور تہذیب و ثقافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مردوں کے معاشرے میں یہ خواتین اثر بھی رکھتی تھیں اور پہنچ بھی۔ اُن کے پاس دولت بھی تھی، طاقت بھی اور اثر و رسوخ بھی۔ یہاں تک کہ اکثر سیاسی معاملات میں بھی مداخلت کیا کرتیں۔

اس سیریز نے ہیرا منڈی اور طوائف کو ایک مرتبہ پھر موضوع بنا دیا ہے، لیکن سوال وہی کہ اس سیریز میں حقیقت کتنی ہے اور فکشن کتنا؟ یہ کہانی کوئی اور نہیں، ہم بتائیں گے۔

ہم تاریخ کے ایک ایسے چیپٹر میں داخل ہو رہے ہیں، جس کا ذکر تو بہت ہوا، شاعروں نے دیوان کے دیوان لکھ ڈالے، ادیبوں نے ناول اور افسانوں سے صفحات کے صفحات کالے کر دیے، فلم سازوں نے مہنگی سے مہنگی فلمیں بنا ڈالیں۔ لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ اس موضوع پر کچھ موجود نہیں۔ آج بھی طوائف کے کوٹھے پر پراسرار پردے پڑے ہوئے ہیں۔

تو آئیے، یہ پردے اٹھاتے ہیں اور جانتے ہیں ہیرا منڈی کی اصل تاریخ کیا ہے؟ یہ جسم فروشی کے اڈے تھے یا کلچر کے مراکز؟ اور نئے زمانے نے کیا کچھ بدل ڈالا؟

یہ پرانے لاہور کا شمالی حصہ ہے۔ تنگ و تاریک گلیاں، ویران چو بارے۔ لیکن ایک زمانہ تھا کہ یہاں کی رونقیں بادشاہوں کی آنکھیں خیرہ کر دیتی تھیں اور اُن رونقوں کی بنیاد پڑی رنجیت سنگھ کے دور میں۔

رنجیت سنگھ کون؟

یہ 1792 ہے۔ ابھی لاہور پر سکھ راج قائم نہیں ہوا۔ رنجیت سنگھ 12 سال کا ہے، اس کے باپ کا انتقال ہو چکا ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا اس کی شادی کر دی گئی۔ شادی تو نہ چل سکی لیکن رنجیت ضرور چل پڑا۔ ‏1799 میں اُس نے اپنی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی، لاہور فتح کر لیا اور بنیاد ڈال دی سکھ راج کی۔ وہ حکومت، جس کی سرحدیں بعد میں پشاور سے دلّی اور کشمیر سے ملتان تک پھیل گئیں۔

نوجوان رنجیت سنگھ کے دو ہی شوق تھے، اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور خوبصورت عورتیں۔ تو سکھ راج میں بادشاہی مسجد گھوڑوں کا اصطبل بن گئی اور شاہی قلعہ عورتوں کا مسکن۔ اُس زمانے میں رنجیت سنگھ کے ایک وزیر تھے دھیان سنگھ۔ اُن کے بیٹے ہیرا سنگھ نے قلعے کے قریب ہی ایک غلہ منڈی بنوائی، جو اس کے نام پر ’’ہیرا منڈی‘‘ کہلائی۔

فقیر خانہ عجائب گھر کے سیف الدین بتاتے ہیں:

ہیرا سنگھ دھیان سنگھ کا بیٹا تھا اور دھیان سنگھ مہاراجا رنجیت سنگھ کا ایک وزیر تھا۔ تو ہیرا سنگھ کی منڈی اس کو کہتے ہیں پھر دوسری ہیرا منڈی، یہاں پر مال گدان تھے اور اجناس رکھے جاتے تھے۔ سکھوں نے یہاں پر اس علاقے کو آباد کیا تھا۔

ٹؤر آپریٹر عادل لاہوری بتاتے ہیں:

چونکہ ایک کاروباری گھر تھا تو اوپر دور میں یہ مشہور ہوا کہ ہیرے دی منڈی جیسے آج آپ لاہور میں کسی اندرون شہر سے باہر کھڑے ہیں اور آپ نے کسی کو کہنا ہو یار میں انہوں انار کلی اتار دے یا بھاٹی اتار دے تو وہ اصل میں ان میں علاقوں کا نام مشہور ہوا۔ اسی طرح ہیرے دی منڈی مشہور ہوا۔

موراں سرکار

یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب میں ایک خوبصورت طوائف کے بڑے چرچے تھے۔ بلا کی شہسوار، حُسن میں یکتا اور ذہانت میں بے مثال، نام تھا، ’’موراں بائی‘‘۔

رنجیت سنگھ نے ایک شاہی تقریب میں رقص کرتے ہوئے دیکھ لیا اور پہلی نظر میں محبت میں گرفتار ہو گیا۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک بار موراں ہنسالی نہر سے آ رہی تھی۔ نہر پار کرتے ہوئے اُس کے چاندی کے جوتے پانی میں بہہ گئے۔ وہ ننگے پاؤں دربار پہنچی اور راستے کی مشکلات کا بتایا۔ تب رنجیت نے اس نہر پر پُل تعمیر کروا دیا۔ جس کا نام پڑ گیا ’’پُل کنجری‘‘۔ یہ دونوں محبت کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔

خیر، سلسلہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ سکھ راجا مسلمان طوائف سے شادی کرنے کو تیار ہو گیا۔ بہت بڑی بڑی شرطیں رکھی گئیں، اور رنجیت ہر شرط مانتا چلا گیا۔ وہ موراں کو ہارنا نہیں چاہتا تھا۔ فقیر سیف الدین اس بارے میں بتاتے ہیں:

باقاعدہ نکاح جب اس کے ساتھ ہوا اور یہ بارات لے کے گیا۔ سب سے پہلے شام سنگ اٹاری والے کی حویلی پہنچے، وہاں پہ ان کا طعام ہوا، کھانا ہوا، پھر میاں سمدوں کی حویلی سے اس کو اٹھا کے لے آئے، اس سے نکاح کر کے لے آئے۔ پھر اس کے خلاف اکال تخت میں مقدمہ چلا، پھر مہاراجا کو پانچ کوڑوں کی سزا ہوئی۔ تو پھر ایک عہدیدار نے کہا کہ ہمارا راجا ہے، ہم اسے کوڑے مارتے اچھے نہیں لگتے، پھر فی کوڑا پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ تو مہاراجا نے ادا کیا مگر موراں کا مذہب تبدیل نہیں کیا۔

شادی کے بعد رنجیت نے موراں کو محل میں رہنے کو کہا، مگر اس نے انکار کر دیا۔ تو موراں رنجیت کے پاس نہیں جاتی تھی، بلکہ وہ خود چل کر موراں کی حویلی پر آتا۔ اسی حویلی سے رنجیت نے کئی سرکاری احکامات بھی جاری کی، جن کے نیچے لکھا ہوتا تھا، ’’جاری کردہ کوٹھا مائی موراں‘‘۔ فقیر سیف الدین کہتے ہیں:

مہاراجا نے اس کو بہت پیسہ دیا، دولت دی، وہ اس کی ہر دل عزیز رانی تھیں۔ تو موراں کا جو گھر تھا، غریبوں کا حاجت روا بن گیا۔ تو جتنے بھی غربا تھے، امیروں کے دروازوں پر نہیں جاتے تھے۔ وہ موراں کے دروازے پر آتے اور وہ ان کی حاجت روائی کرتی۔

ٹکسال میں اُس کے نام کا سکہ بھی بنا اور ’’موراں شاہی سکے‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس زمانے میں موراں کے کہنے پر ایک مسجد بھی بنوائی گئی، کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا اصل نام ’’مسجدِ طوائفاں‘‘ تھا جو 1998 میں بدل کر ’’موراں مسجد‘‘ رکھ دیا گیا۔ اُدھر انڈیا میں بھی ’’پل کنجری‘‘ کا نام بدل کر ’’پل موراں‘‘ کر دیا گیا ہے، یوں موراں آج بھی زندہ ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ موراں بائی لاہور کے بازارِ حسن کا پہلا بڑا کریکٹر تھی۔ وہ پہلا کردار جس کے سامنے کسی راجا نے سر جھکایا۔ لیکن یہ آخری کردار ہرگز نہیں تھی، ایسی اور کئی طوائفیں آئیں۔ لیکن پہلے یہ جانتے ہیں کہ ہیرا منڈی آخر تھی کیا؟ صرف جسم فروشی کا اڈہ یا کچھ اور؟

جسم فروشی یا علم کا مرکز؟

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اِن طوائفوں کا بنیادی کام جسم فروشی نہیں تھا۔ ہاں! یہ کام بھی ہوتا تھا لیکن اِن کی اصل اہمیت محض اس لیے نہیں تھی، اصل وجہ تھی اُن کا گانا اور رقص کرنا۔ لیکن ایسا کیوں؟

اصل میں شاعری کو ہمارے ہاں ہمیشہ بہت اہمیت ملی ہے۔ شاعروں کو درباروں میں بڑے بڑے عہدے ملتے اور ان کی بہت آؤ بھگت کی جاتی۔ وہ بادشاہ اور درباریوں کی سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ تھے۔ تو جو اُن کی شاعری کو نیکسٹ لیول پر لے جائے، اسے مزید بہتر انداز میں پیش کرے، تو اس کی اہمیت تو ہوگی ہی۔ یہ ہنر طوائفوں سے بڑھ کر کسی کو نہیں آتا تھا۔ تو بادشاہ اور نواب شاعروں کے بھی سرپرست بنے اور طوائفوں کے بھی۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہائی کلاس کی prostitutes تھیں۔ راجاؤں کو اچھا شعر سننے کے ساتھ اچھی صورت بھی دیکھنے کو مل جاتی، کچھ بہک جاتے، اپنا دھن دولت اور دل بھی لٹا بیٹھتے۔ اور کبھی کبھی تو ریاست بھی گنوا دیتے۔

بہرحال، جہاں اپنے زمانے کے راجا، مہاراجا، نواب اور رئیس جاتے ہوں۔ کیسے ممکن تھا کہ وہ کوٹھے تہذیب و ثقافت سے خالی ہوں؟ لاہور، لکھنؤ اور دلّی کی طوائفوں میں رکھ رکھاؤ اور تہذیب کی اہمیت بہت زیادہ تھی اور یہاں اس کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ نوابوں نے اپنے بچوں کو آداب اور رکھ رکھاؤ سکھانے کے لیے یہاں بھیجنا شروع کر دیا۔

فقیر سیف الدین بتاتے ہیں:

ان کے جو استاد تھے، ان کے جو اتالیق تھے جن سے یہ زبان سیکھتی تھیں، ان کے وہ گھرانے وہ سلسلے تھے کہ آپ نے پان کس طرح پیش کرنا ہے، آپ نے کھانا کس طرح پیش کرنا ہے، آپ نے گفتگو کس طرح کرنا ہے۔ آپ نے بیٹھنے کا کیا انداز ہے۔ آپ کا انداز تکلم کیا ہے؟ تو یہ چیزیں ان کی باقاعدہ ان کی تعلیم ہوتی تھی۔ اور ان کے اساتذہ ان کو سکھاتے تھے، گھروں میں جا کر ناچنے اور گانے کی تعلیم تھی باقاعدہ گائیکی، آواز گلا کیسے کھولنا ہے، سر میں کیسے رہنا ہے، اونچا سر کیسے رہنا ہے، مدھر سر کیسے لگانا ہے۔ ان کی باقاعدہ یہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔

ہندوستان میں تقسیم سے پہلے 562 ریاستیں تھیں اور تقریباً سبھی ریاستوں میں طوائفوں کو ایک خاص مقام حاصل تھا یا یوں کہہ لیجیے کہ طوائف اُن کے کلچر کا اہم حصہ تھی۔ ویسے مغل بھی اس معاملے میں کم نہیں تھے۔ اور بہت پہلے سے ایسے تھے۔ مغل سلطنت کے بانی تھے ظہیر الدین بابر۔ کہتے تھے ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ یعنی بابر عیش کر لو کہ زندگی دوبارہ نہیں ملتی!

اِس اصول کو تقریباً ہر مغل بادشاہ، اُس کے وزیر اور امیر نے اپنے سینے سے لگایا۔ عیش و عشرت میں تو انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مغلوں میں ایک بادشاہ تو ایسا گزرا کہ آج تک دنیا اسے ’’رنگیلا‘‘ کہتی ہے۔ تبھی تو زوال کے زمانے میں مغل نہ نادر شاہ کا مقابلے کر پائے، نہ مراٹھوں کا اور نہ ہی انگریزوں کا۔ جی ہاں! انگریز، جو آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ اور ہندوستان میں سب کچھ بدل گیا، طوائف کا کوٹھا بھی۔

لال کرتی

‏1857 میں دلی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جنگِ آزادی ناکام ہوئی اور مغل دور ختم ہو گیا۔ زیادہ وقت نہیں لگا۔ لاہور پر بھی گوروں کا قبضہ ہو گیا۔ سکھ راج کا خاتمہ ہو گیا۔ بادشاہوں، مہاراجاؤں اور شہزادوں پر تو بُرا وقت آیا ہی، اُن کی دولت پر پلنے والی طوائفوں کے کوٹھے بھی ویران ہو گئے۔ ہیرا منڈی کی سرکاری سرپرستی ختم ہو گئی اور آخر ایسا کیوں نہ ہوتا؟ انگریزوں کو رقص و سرور سے کیا لینا دینا؟ وہ تو سب سے الگ تھے۔ مغلوں، مراٹھوں، سکھوں اور ہندوستان کے ہر چھوٹے موٹے نواب سے بالکل مختلف۔ اسی لیے تو انہوں نے دنیا پر راج کیا۔ عیش کیے، لیکن اِسے سر پر سوار نہیں کیا۔

وہ کہتے ہیں نا کہ جب کوئی شہر دشمن کے ہاتھ لگ جائے تو اُس کی دولت ہی نہیں عزت بھی لٹتی ہے۔ فاتحین چکلے بناتے ہیں اور مفتوحین کسبیاں جنتے ہیں۔

تو انگریز فوجیوں کے لیے میاں میر کے علاقے میں ایک چھاؤنی بنائی گئی۔ جہاں فوجیوں کے لیے قریب ہی مخصوص کالونیاں بھی بنیں۔ جن کا نام رکھا گیا ’’لال کرتی‘‘، سمجھیں یہ گوروں کی ہیرا منڈی تھی۔ مگر یہ جسم فروشی کا اڈہ ہی تھا۔ اور بس! نہ شاعری کی لیپا پوتی، نہ رقص کا بہانہ، نہ ادب آداب کے چرچے اور نہ ہی تہذیب کی باتیں۔ جو ہے، کھلے عام ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔

لال کرتی میں لڑکیاں ہاسٹل طرز پر رہتی تھیں۔ محقق فیضان نقوی بتاتے ہیں:

اس میں مختلف علاقے کی جو خواتین تھیں ان کو بھرتی کیا جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر تو اپنی مرضی سے ہی یہاں آتی تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ جو پرانے شہر کے خاندان کے ساتھ متصل تھی کیونکہ ہر دور میں انسان کی ایک طلب اور تمنا اپنے سے اچھا کمانا اور اچھا رہنا اور اپنا لیونگ اسٹینڈرڈ مینٹین کرنا ہی رہا ہے تو اسی طرح جو اندرون شہر میں پہلے سے لوگ رہ رہے تھے اور اسی کاروبار میں ملوث تھے انہوں نے اپنے آپ کو ڈیولپ کرنے کے لیے جو ہے وہ اس سلسلے کے ساتھ جو ہے لال کرتی میں شمولیت اختیار کی اور یہاں کا حصہ بنے۔

یوں، انگریزوں کے آنے کے بعد نوابوں کو ںخرے دکھانے والیاں یتیم ہو گئیں اور بات عام لوگوں کو جسم بیچنے تک آ گئی۔ ان کا علاقہ کبھی ’’شاہی محلہ‘‘ کہلاتا تھا۔ مزاج ضرور شاہانہ تھا۔ لیکن اب دو پیسے کمانے کے لیے ایک ہی راستہ بچا تھا، جسم فروشی۔

یوں انگریزوں کے دور میں طوائف اور جسم فروش کا فرق ختم ہو گیا۔ گانے والیاں کم ہوتی گئیں اور ہیرا منڈی جسم فروشی کا اڈہ بن گئی۔ فقیر سیف الدین بتاتے ہیں:

لاہور کا قلعہ ہے تو یہ اس وقت ویران سے علاقہ تھا، ان طوائفوں کو چوک متی سے، پاپڑ منڈی سے لاہوری دروازے سے نکال کر یہاں مکانات اور الاٹ کیے گئے۔ کسی کو چھوٹا ملا، کسی کو بڑا ملا تو پھر یہاں پہ باقاعدہ انگریز دور میں ان کی آبادی ہوئی۔

یوں موجودہ ٹکسالی گیٹ میں باقاعدہ اِس بازار حسن کی بنیاد پڑی، جسے آج ہیرا منڈی کہا جاتا ہے۔ یہاں مختلف خاندان آباد ہوئے۔ پہلے وہ تھے جو فخر کے ساتھ یہ پیشہ کرتے تھے۔ عادل لاہوری بتاتے ہیں:

جو number one والے ہوتے ہیں وہ dancing میں ادب و آداب میں محفلوں کی زینت بننے کے لیے۔ اس زمانے میں درجہ اول کی یہ خصوصیت ہوتی تھی کہ کہیں پر present کرنا ہوتا تھا اپنے اپنے business کو یا اپنے خاندان کو نہیں اپنے business کو یا اپنے behaviour کو تو آپ درجہ اول کے لوگوں کو ساتھ لے کے چلتے تھے، درجہ دوم وہ ہوتے تھے جو basically وہ ہوتے تھے جو اس چیز کو سمجھتے نہیں تھے۔ اور ان سے باغی ہو جاتے تھے وہ کہتے تھے یہ کیا معاملہ آتا ہے وہ سمجھ نہیں سکتے ان چیزوں کو they convert their self to the prostitution اور ان کے باقاعدہ طور پر اڈے ہوتے تھے۔، number third جو word use ہوتا ہے گشتیاں، جن کا کوئی supporting point نہیں ہوتا they move around they find out they are up اپنا تلاش کر کے then they go to the room اور وہاں پہ within few minutes they come back here۔

یہ سب کیسے بدلا؟ اس سے پہلے چند مشہور طوائفوں کا ذکر کرتے ہیں۔

مشہور طوائفیں

تاریخ میں دربار سے جڑی کچھ خواتین ایسی ہیں، جنہوں نے بڑا نام کمایا۔ انار کلی بھی ایسا ہی ایک نام ہے جو آپ کو چپے چپے پر ملے گا۔ سڑکیں، بازار، محلّے، دکانیں اور بہت کچھ اُس کے نام پر ہے! لیکن حیرت کی بات یہ ہے آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ انار کلی حقیقت میں تھی بھی یا نہیں۔

کہانیوں کے مطابق وہ مغل بادشاہ اکبر کی کنیز تھی اور شہزادہ سلیم اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا، جی ہاں! وہی شہزادہ جو بعد میں شہنشاہ جہانگیر کے نام سے جانا گیا۔ اس کہانی کے مطابق شہزادہ سلیم انار کلی کی خاطر باپ سے لڑا، سلطنت سے ٹکر لے لی، سب کچھ کیا لیکن اپنی محبت کو بچا نہیں پایا اور آخر میں اکبر بادشاہ نے انار کلی کو دیوار میں چُنوا دیا۔

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

یہ کہانی کتابوں سے نکلی، پھر ڈراموں اور فلموں تک پہنچ گئی۔ انار کلی لازوال ہو گئی۔ بیسویں صدی میں کئی مشہور طوائفیں آئیں اور تاریخ میں محفوظ ہو گئیں۔ دلّی کی موتی بائی، رحمان بائی، گلاب بائی، چمنی، کمال بائی اور نور حدیقہ عرف نور بائی۔ لاہور کی ہیرا منڈی کی چند رقاصاؤں نے بھی بڑا نام کمایا۔ نتھی بائی، دولت بائی، ریشماں بائی اور بالی بیگم۔ فقیر سیف الدین اس بارے میں بتاتے ہیں:

ایک ’’مرقع دہلی‘‘ کتاب ہے جو نواب قلی خان نے لکھی انہوں نے دلی کے حالات اور دلی کی ان خواتین کا بھی اس میں ذکر ہے، کچھ باب ہیں اس میں اس کا ذکر آتا ہے تو اس میں یہ بتاتے ہیں کہ ایک طوائف تھی جن کا نام تھا، ’’نور حدیقہ‘‘۔ وہ ہاتھی پر سواری کرتی تھی۔ اس کی اپنی فوج تھی اور بڑے بڑے نواب عرضی لکھتے تھے کہ ہم نے آپ کے دربار میں آنا ہے یا آپ کے کوٹھے پہ آنا ہے یا آپ کے گھر تشریف لانا ہے تو وہ باقاعدہ سکروٹنی کرتی تھی کہ نواب صاحب کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ اچھے کھاتے پیتے ہیں اور کئی درخواستوں کو رد کیا جاتا تھا۔

زیادہ تر رئیس، جاگیردار اور وڈیرے طوائفوں کے کوٹھوں کے اسیر ہوتے تھے۔ رعایا پر سخت ہوتے مگر طوائفوں کی اداؤں کے سامنے ڈھیر۔

ایک واقعہ خیر پور کے والی میر علی نواز ناز کا ہے، جو ہیرا منڈی کی مشہور طوائف اقبال عرف بالی بیگم کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انہوں نے تو اِس طوائف کے لیے اپنی ولی عہدی کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ پوری ریاست سے لڑ پڑے لیکن بالی بیگم کو نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ اُن سے شادی کر لی۔ اپنی چہیتی بیگم کے لیے انہوں نے خزانے کے منہ کھول دیے، اُس کے ناز نخرے اٹھاتے چلے گئے، کسی کی کوئی پروا نہیں کی۔ لیکن یہ سب آخر کب تک چلتا؟ بار بار روٹھنے والی بیگم کو مناتے مناتے میر علی نواز بالآخر خود ہار گئے۔ شہر سے دُور صحراؤں کا رخ کر لیا۔ صوفی بن گئے اور بالآخر انتقال کر گئے، بالی بیگم سے شادی کے صرف 10 سال بعد مرنے سے پہلے کہہ گئے بالی میرا مرا ہوا منہ نہ دیکھے!

ایک ٹریجک کہانی نواب محمد نواز خان کی بھی ہے۔ وہ پنجاب کے ایک امیر جاگیردار تھے۔کسی روز ہیرا منڈی میں ’’شمشاد بائی‘‘ کو دیکھ لیا اور ان کے عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اسے کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ جھنگ لا کر دم لیا۔ مگر ایک روز نشے کی حالت میں عشق کا بھوت یوں اترا کہ خود ہی شمشاد بھائی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ اور کچھ ہی عرصے بعد پیشیاں بھگتتے ہوئے 31 سال کی عمر میں خود بھی انتقال کر گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان بدل رہا تھا اور دنیا بھی ایک نئی کروٹ لے رہی تھی۔ جہاں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی تو وہیں ایک انقلاب بھی برپا ہو رہا تھا، وہ تھا میڈیا کا انقلاب۔ ریڈیو اور سینما مقبول ہو رہے تھے اور جس طبقے نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا وہ طوائفوں کا طبقہ تھا۔

آزادی کے بعد

اگست 1947 آ گیا۔ ہندوستان بٹ گیا، پاکستان بن گیا۔ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا، اُس میں طوائفیں کیسے چل سکتی تھیں؟ لیکن رنجیت سنگھ کے بوئے بیج سے جو تناور درخت نکلا تھا، اسے کاٹنا ناممکن تھا۔ بلکہ یہ تو بہت پھلا پھولا۔ کیوں؟ وجہ تھی سینما اور ریڈیو۔

اِن دونوں ابھرتے ہوئے میڈیمز پر جو کچھ آ رہا تھا۔ اُس کے لیے خام مال بازارِ حسن ہی بنا۔ جن کی آواز اچھی تھی، انہوں نے ریڈیو کا رخ کر لیا اور جن کی شکل اچھی تھی، انہوں نے فلموں کا۔ ایک طرف ریڈیو پر اُن کے گانے چلتے۔ تو دوسری طرف فلموں نے انہیں نئے زمانے میں نئی زندگی دی۔

طوائف گھر گھر پہنچ گئی۔ پہلے جو دیواروں کے پیچھے ہوتا تھا، اب کھلے عام ہونے لگا۔ جو پہلے کبھی عیاش نواب زادوں کو میسر تھی، اب چند روپے کے سینما ٹکٹ پر شریف زادے بھی ان سے فیض یاب ہونے لگے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا پاکستان کی فلم انڈسٹری کچھ ہی عرصے میں طوائفوں سے بھر گئی۔ اور اس کی پہلی اکیڈمی یہی تھی، لاہور کی ہیرا منڈی۔ بلکہ یہاں سے تو پوری میڈیا انڈسٹری کو خام مال ملنے لگا۔ کیونکہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ ’’شرفا‘‘ کی بیٹیاں سینما میں کام کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ٹرینڈ اُس زمانے میں سیٹ ہو گئے، وہ آج تک چل رہے ہیں۔ مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا ہندوستان اور پاکستان کی فلموں میں ڈانس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چاہے اس کا تعلق کہانی سے ہو، یا نہ ہو، لیکن فلم میں گانا اور رقص ضرور ہوگا۔

آپ دنیا کی کوئی بھی فلم انڈسٹری اٹھا کر دیکھ لیں، شاید ہی کہیں ڈانس کو فلم کا حصہ بنایا جاتا ہو، لیکن یہاں شروع سے یہی ہو رہا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ ہے سینما پر ہیرا منڈی جیسے بازاروں کا influence۔ اور یہ اثر ہمیں لٹریچر پر بھی بہت زیادہ نظر آیا۔

میر سے غالب

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نثر دیکھیں تو شاید ہی اردو کا کوئی بڑا لکھاری ہو، جس نے طوائف پر قلم نہ اٹھایا ہو۔ 1899 میں مرزا ہادی رسوا کی ’’امراؤ جان ادا‘‘ سے لے کر 1916 میں منشی پریم چند کے ’’بازارِ حسن‘‘ تک۔ غلام عباس کی ’’آنندی‘‘ ہو یا سعادت حسن منٹو کے پھڑکتے ہوئے افسانے۔ کرشن چںدر، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور یہاں تک کہ ممتاز مفتی اور بانو قدسیہ جیسے لکھاریوں نے بھی طوائف کو اپنا موضوع بنایا۔

طوائف فلموں اور ڈراموں کا بھی ٹاپک بنی۔ ’’پاکیزہ‘‘ سے ’’دیو داس‘‘ تک، ’’امراؤ جان ادا‘‘ سے ’’مغلِ اعظم‘‘ تک اور ہاں! آج کی ہیرا منڈی تک۔

نیٹ فلکس کی ہیرا منڈی

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز کا لاہور کی اصل ہیرا منڈی سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اِس میں تو بڑی بڑی عالیشان حویلیاں دکھائی گئی ہیں، جو اصلی ہیرا منڈی میں کہیں نہیں۔ جو نواب دکھائے گئے ہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں لکھنؤ میں تو ہوں گے، لاہور میں بالکل نہیں تھے۔

فقیر سیف الدین اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:

ہیرا منڈی بنانے کے لئے جب معین بیگ صاحب آئے کیونکہ جب میں نے اس ہیرا منڈی کی کہانی سنی، دو سال، ڈھائی سال پہلے کا واقعہ ہے، تو میں نے کہا بھائی! بات بڑی سیدھی سی ہے، آپ کی ہیرا منڈی جو آپ فرما رہے ہیں، یہ لاہور کی ہیرا منڈی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے اور آپ کی کہانی بالکل الگ ہے، آپ کی کہانی میں کبھی پاکیزہ نظر آتی ہے، کبھی امراؤ جان نظر آتی ہے اور ہمارے ہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

نہ لباس، نہ زبان اور نہ ہی ملبوسات۔ نیٹ فلکس کی ہیرا منڈی تو کچھ اور ہی ہے۔ لاہور کی طوائفیں نہ تو اتنے زرق برق کپڑے پہنتی تھیں اور نہ ہی ایسی اردو میں بات کرتی تھیں۔ عادل لاہوری اس بارے میں کہتے ہیں کہ فلم کے اندر جو انہوں نے properly describe لاہور کو کیا، لاہور ایسا بالکل کی نہیں ہے۔

پھر دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے سیریز میں طوائفوں کو انقلابی دکھایا گیا ہے۔ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ طوائفیں فرنگیوں سے معلومات بٹور کر باغیوں کو فراہم کرتی تھیں۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ فقیر سیف الدین کہتے ہیں کہ انگریزوں کے ساتھ وہ وفا دار رہی ہیں کیونکہ وہ سسٹم کو یہ چینج نہیں کرنا چاہ رہے تھے اور ان کو سہولیات انہوں نے دی تھیں۔

ہیرا منڈی کی یہ کہانی تو اصل نہیں، لیکن اصلی ہیرا منڈی کی کہانیاں بہت تلخ ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب تو میڈیا پر بھی شرفا کی نسلوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ نئے زمانے نے سب کچھ بدل دیا ہے اور ہیرا منڈی کے نصیب میں صرف ویرانیاں رہ گئی ہیں۔ فقیر سیف الدین کہتے ہیں:

زندگی کا زوال اپنے دور کا زوال بھی بڑا درد ناک ہوتا ہے اور آپ نے دیکھا یہاں پہ ہم نے ان خواتین کو دیکھا۔ عمر ڈھلنے کے بعد جو بزرگ ہو گئیں جو کسی قابل نہ رہے۔ وہ پھر بڑی مشکل ان کی زندگی ہوتی ہے سہارے تو ہوتے نہیں۔ ان کو زندگی میں کبھی وفا ملی نہیں ہوتی انٹرٹینمنٹ کرتے ہوئے ان کی ساری زندگی گزر جاتی ہے، مگر حقیقی پیار نہیں ملتا۔

طوائف عمر بھر نام نہاد شریفوں کی گندگی صاف کرتے گزار دیتی، مگر وہی معاشرہ اسے کبھی قبول نہیں کرتا۔ اسے کچرا تصور کیا جاتا ہے، اسے قابلِ نفرت، گھناؤنا کردار سمجھا جاتا ہے۔ وہ سماجی روایات بھی نبھاتی ہے، مذہبی تہواروں میں بھی بھرپور شرکت کرتی ہے لیکن کبھی قبولیت کا درجہ نہیں پاتی۔ عادل لاہوری کہتے ہیں:

یہ لوگ بائیوں سے جب convert to a prostitute کے اوپر کوئی ڈاکٹر ان کو نہیں دیکھتا تھا ان کو اپنے کلینک میں آنے نہیں دیتا تھا at the end انہوں نے چونکہ ہمارے بڑے بازار ہیں کہ زیادہ تر جو transport use ہوتی تھی وہ ٹانگا ہوتا تھا تو ٹانگے کے اوپر ہی جاتے تھے یہاں تک کہ ان بائیوں کے ساتھ کوئی ٹانگا share بھی نہیں کرتا۔ تو بھی سالم ٹانگا کرواتی تھی اور ٹانگے کے آگے پردہ ہوتا تھا۔

آج ہیرا منڈی نہ تو بازارِ حُسن ہے اور نہ ہی کوئی دلکش جگہ۔ یہ تو پامال روحوں اور زندہ جسموں کا قبرستان ہے۔ اگر آج ہیرا منڈی نفرت کے قابل ہے تو یہ معاشرہ اُس سے کہیں زیادہ نفرت کے قابل بن چکا ہے کیونکہ آج پورا سماج اِس بازار سے کہیں اونچے درجے کی منڈی بن چکا ہے جہاں سب کچھ بکتا ہے، ضمیر، روح، ایمان۔ اور انہیں بیچنا یقیناً جسم بیچنے سے کہیں زیادہ غلیظ اور گھناؤنا کام ہے۔ یہ سب کام وہ کر رہے ہیں جو شریف بنے پھرتے ہیں، اور ان میں سے کئی شریف ایسے ہیں، جن کے دامن ایسے بازاروں کے چھینٹوں سے آلودہ ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں