برطانیہ صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت رہا۔ ایک زمانے میں اس نے ایسی سلطنت بنائی تھی جس کی سرحدوں میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ تب تاجِ برطانیہ کا نگینہ تھا ہندوستان۔ وہی خطہ جہاں آج دنیا میں سب سے زیادہ غریب بستے ہیں، لیکن برطانیہ کے قبضے سے پہلے یہ اتنا خوشحال تھا کہ کُل عالمی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 25 فیصد اسی سرزمین پر پیدا ہوتا تھا۔ پھر برطانوی راج کے دور میں ہندوستان کو اتنی بُری طرح لوٹا گیا کہ نہ صرف عالمی معیشت میں اس کا حصہ صرف 2 فیصد رہ گیا بلکہ آج آزادی کے 75 سال بعد بھی اس خطے میں خوشحالی نہیں آ سکی۔

تب سرزمینِ ہندوستان سے جو نادر و نایاب خزانے لوٹے گئے، وہ سب آج برطانیہ کے پاس ہیں۔ پانچ سال پہلے جب شاہ چارلس شہزادے تھے، تب اُن کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر شاہی محل بکنگھم پیلس میں ایک نمائش کا اہتمام ہوا تھا، جس میں شاہی خزانے میں موجود اُن کی پسندیدہ چیزیں پیش کی گئی تھیں۔ ان میں کئی مجسمے تھے اور مصوروں کے بنائے گئے فن پارے بھی، ان کے علاوہ ایسی کئی نوادرات بھی جو ہندوستان سے لوٹی گئی تھیں۔ ایک یہ تھا، سونے سے بنا کمر بند، جس پر 19 زمرد جڑے ہوئے تھے، جو اصل میں لاہور سے لُوٹا گیا تھا۔

Raftar Bharne Do

دنیا کے مختلف ملکوں سے چوری کیے گئے مال کی یوں فخریہ نمائش کرتے کچھ شرم تو آنی چاہیے، لیکن نہیں! نو آبادیاتی ریاستوں میں شرم نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس لیے دھڑلّے سے یہ نمائش کی گئی اور دنیا جہاں سے لُوٹا گیا مال سب کو اپنی "کلیکشن" کے طور پر دکھایا گیا۔

برطانوی اخبار 'گارجیئن' نے 46 صفحات مشتمل ایک آرکائیو کی بنیاد پر برطانوی شاہی خزانے کی تفصیلات جاری کی ہیں کہ اس میں موجود مختلف نوادرات کہاں سے اور کیسے آئیں۔

انھی آرکائیوز میں فینی ایڈن کا لکھا ہوا ایک روزنامچہ (جرنل) بھی ہے۔ وہ برٹش راج میں ہندوستان کے گورنر جنرل جارج ایڈن اور اپنے زمانے کی معروف شاعرہ و ناول نگار ایملی ایڈن کی بہن تھیں۔ یہ روزنامچہ فینی نے 1837 میں لکھا تھا جب وہ لاہور آئی تھیں۔ تب اُن کی ملاقات مہاراجا رنجیت سنگھ سے ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں برطانیہ اور پنجاب کے درمیان "دوستی کا معاہدہ" تھا۔

اس ملاقات میں رنجیت سنگھ نے کئی قیمتی نوادرات پہن رکھی تھیں، جن کا ذکر ایڈن نے اپنے روزنامچے میں کیا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چیزیں دیکھ کر اُن وفد کی رال ٹپک رہی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ

"مہاراجا اپنے بہترین جواہرات گھوڑوں کو پہناتے ہیں۔ اُن کی زین اور دیگر چیزیں تو اتنی شاندار ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔"

آگے جا کر ایڈن لکھتی ہیں کہ

"اگر کبھی اس سلطنت کو لُوٹنے کا موقع ملا تو میں تو سیدھا اصطبل میں جا گھسوں گی۔"

پھر صرف 12 سال بعد رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور جانشیں دلیپ سنگھ کو برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فاتح افواج نے ایک معاہدے پر مجبور کیا۔ اس شاہی خزانے کو لُوٹ لیا گیا، تاریخی ہیرا کوہِ نور برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا، اصطبل بھی لُوٹے گئے اور یہیں سے یہ خوبصورت کمر بند پہنچ گیا برطانیہ کے شاہی خزانے میں۔

کوہِ نور کی بھی اپنی پوری داستان ہے۔ یہ آج ملکہ برطانیہ کے تاج کا حصہ ہے۔ جب چارلس بادشاہ بنے تو اُن کی تاج پوشی کے موقع پر ان کی اہلیہ کمیلا نے یہ تاج نہیں پہنا، کیونکہ اس سے نو آبادیاتی دور کی "افسوس ناک یادیں" وابستہ ہیں۔

Raftar Bharne Do

لیکن رنجیت سنگھ کے خزانے سے صرف کوہ نور ہی نہیں لوٹا گیا تھا۔ اس دستاویز میں جن جواہرات کا ذکر ہے ان میں ایک اور ہار، جس میں چار بڑے لعل لگے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا 325.5 قیراط کا ہے۔ اس ہار کا نام ہے تیمور روبی۔

Raftar Bharne Do

‏1969 کی ایک بی بی سی ڈاکیومنٹری 'رائل فیملی' ملکہ ایلزبتھ دوم کو اس کے بارے میں بات کرتے دکھایا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ "اس کی تاریخ بہت زبردست ہے۔ یہ فارس اور مغلیہ سلطنت کے کئی بادشاہوں کے پاس رہا، یہاں تک کہ ملکہ وکٹوریا نے اسے ہندوستان سے بھیجا۔"

ملکہ ایلزبتھ کو 'تیمور روبی' پہنے تو کبھی نہیں دیکھا گیا، لیکن لاہور سے لُوٹے ہوئے خزانوں میں اور بھی بہت کچھ تھا جو انھوں نے زینت کے لیے استعمال کیا۔ جیسا کہ 24 بڑے موتیوں سے بنا یہ ہار۔ 2012 میں لندن کے رائل اوپیرا ہاؤس میں ایک تقریب میں پہنا گیا یہ ہار اصل میں رنجیت سنگھ کا تھا۔

Raftar Bharne Do

ماضی قریب میں جرمنی اور نیدرلینڈز اپنی نو آبادیات سے لوٹی گئی کئی نوادرات واپس کر چکے ہیں۔ کیا برطانیہ یہ قدم اٹھائے گا؟

شیئر

جواب لکھیں