پاکستان کے معاشی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ٹیکس کا ہے۔ ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کئی شعبے اور افراد اپنے حصے کا ٹیکس دینے سے قاصر ہیں۔ تاجر برادری پر بھی یہی الزام ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ لیکن اگر وہ ٹیکس دیتے ہیں، تو ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے تاجر رہنما عتیق میر کے ساتھ گفتگو کی۔
عتیق میر کراچی کے تاجروں کی ایک نمایاں آواز ہیں۔ ان کی گفتگو میں ٹیکس کے موجودہ نظام، اس کی خامیوں اور تاجروں کو درپیش مشکلات پر کھل کر بات کی گئی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تاجر ٹیکس دینے کو تیار ہیں، مگر حکومت کی پالیسیوں اور نظام کی پیچیدگیوں نے تاجروں کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔
پوڈ کاسٹ میں سوالات کے دوران عتیق میر نے بتایا کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے عوام سے پہلے ہی ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا، آٹا، دال، حتیٰ کہ اسکول کی کتابوں تک پر ٹیکس عائد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کی بڑی تعداد فائلر بننے کے لیے تیار ہے، مگر ایک منصفانہ اور آسان نظام کی ضرورت ہے۔
عتیق صاحب نے زور دیا کہ حکومت کو نئی پالیسیوں کے نفاذ سے قبل اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جس سے ہڑتالوں اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر منصفانہ ٹیکس اسکیمیں تاجروں میں خوف پیدا کرتی ہیں اور اعتماد بحال کیے بغیر انہیں نیٹ ورک میں لانا مشکل کام ہے۔
تاجر رہنما نے حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا موجودہ ٹیکس نظام کرپشن اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک ایسا نظام بنانا چاہیے جو عوام اور تاجروں کی حقیقی مالی حالات کو مدنظر رکھے۔
اگر آپ اس موضوع پر مزید جاننا چاہتے ہیں تو مکمل پوڈ کاسٹ دیکھنا نہ بھولیں، جہاں عتیق میر نے کھل کر اپنی رائے دی اور کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی۔