پاکستان میں ریاست اور تاجروں کے درمیان ٹیکس کلیشن کے ضمن میں طویل کشمکش جاری ہے۔ عوامی مسائل اور اقتصادی چیلنجز کی جڑیں ان پیچیدہ معاملات میں چھپی ہیں، جو ریاست کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے سابق چئیرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی سے ایک خصوصی پوڈ کاسٹ کی، جس میں انہوں نے اپنے تجربات اور حقائق کی بنیاد پر ان مشکلات کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا۔

شبر زیدی صاحب نے بتایا کہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں۔ ان کے مطابق، تاجر ایک مضبوط مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو ریاست کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی جماعتوں کی حمایت ہوتی ہے، اور کسی بھی سخت کارروائی کے نتیجے میں بازار بند ہونے اور اشیائے خوردونوش کی قلت کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ریاست کا خوف یہی ہے کہ ان تاجروں کی مخالفت عوامی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بطور چئیرمین ایف بی آر کئی اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کی، جن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے عملے کی تنخواہیں بڑھانے اور کرپٹ افسران کو نکالنے کے منصوبے شامل تھے۔ لیکن بدقسمتی سے، انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ ان پر جسمانی حملے بھی ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ریاست صرف دو کاموں میں کامیاب ہونی چاہیے: ٹیکس اکٹھا کرنا اور عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنا۔ بدقسمتی سے، ان کے مطابق، ریاست ان دونوں میں ناکام ہے۔

جب اسلامی بینکنگ پر سوال کیا گیا تو شبر زیدی صاحب نے واضح کیا کہ دنیا میں جو بھی نظام حق اور مساوات پر مبنی ہو، وہ اسلامی تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن موجودہ اسلامی بینکنگ کے ماڈل کو انہوں نے ناکافی قرار دیا۔

انہوں نے فوج کی موجودہ پالیسیوں پر بھی بات کی اور کہا کہ معیشت کی بہتری کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ورنہ صرف عارضی اقدامات سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

شبر زیدی کی گفتگو نے یہ بات عیاں کر دی کہ ریاست اور تاجروں کے درمیان موجود مسائل صرف طاقت اور پالیسی کے نفاذ کی بات نہیں بلکہ ایک منظم اور مؤثر منصوبہ بندی کی کمی کا خمیازہ ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ ملاحظہ کریں۔

شیئر

جواب لکھیں