وہ کراچی سے اٹھا اور دبئی کے چمکتے دمکتے ٹاورز کو اپنا مسکن بنا لیا۔ دنیا کے امیر ترین investors، یہاں تک کے کئی ملکوں کو بھی قائل کر لیا کہ وہ اُن کو اور بھی دولت مند بنا سکتا ہے اور صرف پیسہ ہی نہیں کما کر دے سکتا، بلکہ دنیا سے غربت کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔

اُس کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ دنیا بھر کی بڑی بڑی تقاریب میں اسے بلایا جاتا، جہاں وہ billionaires کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھتا۔ audience کو بتاتا کہ حکومتیں نہیں بلکہ امیر لوگ ہی دنیا سے غربت، بھوک اور بیماریاں ختم کر سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں کو بھی قائل کیا کہ وہ اسے پیسہ دیں تاکہ وہ لوگوں کی زندگی بہتر بنائے

اُس نے کئی سربراہوں، عرب شاہی خاندانوں اور امریکی وزیروں تک رسائی حاصل کی۔ عمران خان کے ساتھ کرکٹ کھیلی، ان کی پارٹی تحریک انصاف کی مالی معاونت بھی کی اور زرداری، شریف برادران اور شاہد خاقان عباسی کی good books میں بھی رہا۔

یہی کرشماتی pitch تھی جس نے کچھ ہی عرصے میں دنیا بھر سے 14 ارب ڈالر سمیٹ کر اس کی جھولی میں ڈال دیے۔ اس کی بنائی گئی private equity firm نے دنیا بھر میں تقریباً 100 کمپنیوں کے shares خریدے۔ ایسے ایسے شہروں میں منافع کمانے کے مواقع ڈھونڈے، جو investors شاید نقشے پر بھی تلاش نہ کر سکتے۔

اس کا عروج سر چکرا دینے والا تھا، لگتا تھا آسمان کی بلندی بھی کم پڑ جائے گی اور اس کی کامیابیوں کو کبھی زوال نہیں آئے گا، لیکن پھر وہ وقت آیا کہ برسوں میں بنائی یہ ایمپائر مہینوں میں جل کر خاک ہو گئی۔ الزامات لگے کہ اس شخص کا اصل مقصد امیروں کا پیسہ غریبوں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ خود امیر بننا تھا۔ وہ اصل میں investors کا پیسہ اپنی شاہانہ زندگی اور ذاتی مقاصد پر خرچ کر رہا تھا۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ جب کوئی investor منافع مانگتا تو وہ کسی نئے investor سے پیسہ لے کر اسے دے دیتا۔ یعنی وہ اپنی firm کو بالکل ایک Ponzi scheme کی طرح چلا رہا تھا۔

وہ کون تھا؟

یہ کہانی ہے ابراج گروپ کے بانی اور CEO عارف نقوی کی۔

دنیا بھر میں اپنے private jet میں گھومنے والے عارف نقوی کی کل کائنات، اب محض ایک لندن کا اپارٹمنٹ ہے۔ ‏2019 میں گرفتاری کے بعد وہ اپنے اسی گھر میں قید ہیں۔ انتظار ہے تو بس اس بات کا کہ کب انہیں امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔ کہاں وہ وقت، جب لگتا تھا کہ ان کا خواب، ان کا ambition اتنا بڑا ہے کہ اسے پورا کرنے میں شاید ایک زندگی کم پڑ جائے گی، اور کہاں یہ حال کہ آج اتنی طویل قید کا سامنا ہے کہ شاید چار زندگیاں بھی کم پڑ جائیں، یعنی 291 سال قید کی سزا۔

عارف نقوی کا خواب کیا تھا؟ اور وہ کیسے ایک بھیانک nightmare میں بدلا؟ آئیے جانتے ہیں عارف نقوی کی کہانی۔

عارف نقوی کی کہانی

عارف نقوی نے 1960 میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ کراچی گرامر اسکول پہنچے اور اپنی ذہانت سے سب کو حیران کیا۔ یہی وجہ تھی کہ 1978 میں انہیں outstanding student award بھی ملا۔ تقریر کی مہارت اور قائل کرنے کی قابلیت ان کی رگ رگ میں تھی۔ اس کی وجہ سے وہ آگے چل کر نیٹ ورکنگ کے بادشاہ کہلائے۔

صرف 19 سال کی عمر میں وہ لندن آگئے، سال تھا 1979۔ یہاں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس کا رخ کیا۔ 1982 میں گریجویشن کے بعد شادی کر لی اور تین سال بعد جاب کے لیے کراچی واپس آگئے۔ لیکن، بات نہیں بنی۔ نوکری نہیں باس آپ کی سیٹ چاہیے۔ قسمت نے ایک اور چکر کاٹا جو انہیں 1990 میں سعودی عرب لے آئی۔ یہاں انہوں نے عُلیان گروپ (Olayan Group) جوائن کیا، اور جلد ہی اپنے باس سلیمان العُلیان کی آنکھ کا تارا بن گئے۔

لیکن 30 سال کے عارف نقوی کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ انہوں نے امیروں کے لیے کام نہیں کرنا تھا، بلکہ خود امیر بننا تھا۔ ان کے عزائم کا اندازہ سلیمان العلیان سے ہونے والی اس گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے، جب عارف نقوی نے کہا کہ وہ کمپنی چھوڑنا چاہتے ہیں۔

سلیمان بولا: تم ابھی جوان ہو، اس گروپ میں کوئی بھی نوکری کر سکتے ہو۔ کیا کرنا چاہو گے؟
عارف نے کہا: چیف! آپ مجھے وہ نہیں دے سکتے، جو میں چاہتا ہوں۔
سلیمان نے پوچھا: مگر کیوں؟
عارف نقوی کا جواب تھا: میں آپ کی جگہ لینا چاہتا ہوں۔

اب عارف نقوی ایک کمپنی بنانا چاہتے تھے لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا کہ کسی پاکستانی کے لیے سعودی عرب میں کمپنی کھولنا ناممکن تھا، کیونکہ صرف سعودی شہری ہی کمپنیاں قائم کر سکتے تھے۔ اسی لیے وہ 1994 میں متحدہ عرب امارات آ گئے۔ یہاں ’’کپولا گروپ‘‘ کے نام سے اپنی انویسٹمنٹ فرم لانچ کی۔ شروع میں کچھ ناکامیاں تو ہوئیں، لیکن پھر ایک بڑی کامیابی ملی۔

عارف نقوی نے Inchcape Group نامی ایک کمپنی کا مڈل ایسٹ بزنس خرید لیا اور صرف دو سال میں 71 ملین ڈالر کے منافع پر اسے بیچ دیا۔ اگلی بڑی ڈیل بنی کوریئر کمپنی Aramex کی، جسے مڈل ایسٹ کا FedEx کہا جاتا تھا۔ جس پرائیویٹ ایکوئٹی فنڈ کے ذریعے ایرامیکس کو خریدا گیا، اس کا نام رکھا گیا ’’ابراج‘‘۔ جی ہاں… عارف نقوی، اب راج کرنے والے تھے۔

عارف نقوی کا دلچسپ ماڈل

عارف نقوی جس ماڈل پر کام کر رہے تھے، اس کی دلچسپ بات یہ تھی کہ نئی کمپنیاں خریدنے پر اُن کا اپنا پیسہ کم ہی استعمال ہوتا۔ وہ جو کمپنی خریدنا چاہتے، اسے collateral کے طور پر رکھوا کر قرض لیتے اور اسی رقم سے کمپنی خرید لیتے۔ پھر اس خریدی گئی کمپنی سے حاصل ہونے والے profits سے وہ قرضوں کی ادائیگی کر دیتے۔ اس کو بزنس ٹرم میں leveraged buyout کہا جاتا ہے۔

بہرحال، 2005 میں ابراج نے ایرامیکس کوریئر کمپنی میں اپنے شیئرز بیچ دیے۔ اس بار 85 ملین ڈالرز ملے، جو لگائے گئے 15 ملین ڈالرز سے پانچ گنا زیادہ تھے۔ اسی سال عارف نقوی نے ابراج کے دوسرے پرائیویٹ ایکوئٹی فنڈ کے لیے 500 ملین ڈالرز بھی اکٹھے کر لیے۔

اب وہ مکمل طور پر ایک مختلف شخص تھے۔ ان کا اپنا پرائیویٹ جہاز تھا اور برطانیہ سمیت کئی ملکوں میں ان کی پراپرٹیز تھیں۔

نیکی اور کمائی ساتھ ساتھ

زیادہ وقت نہیں گزرا کہ عارف نقوی کو اندازہ ہو گیا کہ ایک بزنس مین کے لیے چیریٹی ورک کتنا اہم ہے۔ یہ اس کے اسٹیٹس اور influence کو ظاہر کرنے اور اسے بڑھانے کا کتنا اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے بل اور میلنڈا گیٹس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عارف نقوی اور ان کی بیگم فائزہ نقوی نے پاکستان میں 100 ملین ڈالرز سے ’’امن فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ ایسی خدمات کی وجہ سے پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز جیسا اہم قومی اعزاز بھی دیا۔

ابراج کو بنے سات سال ہو چکے ہیں، اب عارف ایک ملینیئر ہیں۔ آئے دن وہ کسی نہ کسی ملک میں انوسٹرز سے میٹنگز کرتے نظر آتے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس تو ان کی توجہ کا مرکز ہوتا۔ وہ ہر سال پابندی کے ساتھ اس میں شریک ہوتے اور اپنی اور ابراج کی تشہیر پر لاکھوں ڈالرز لگا دیتے۔ ایسی کانفرنسز میں عارف نقوی مغرب کے سرمایہ کاروں کو بتاتے کہ کس طرح وہ پاکستان، انڈیا، نائیجیریا، کینیا اور ایسے ملکوں میں انوسٹ کر کے اچھے پیسے بنا سکتے ہیں اور غربت کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ بتاتے کہ developing countries میں حکومتوں کے پاس اسکول، ہسپتال اور ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکشن نیٹ ورکس بنانے کے لیے ٹیکس کی اتنی آمدنی نہیں ہوتی۔ اس لیے سرمایہ کار آگے بڑھیں اور یہ خدمات فراہم کریں۔ اور ہاں! ساتھ ہی منافع بھی کمائیں۔ یعنی نیکی اور کمائی ساتھ ساتھ!

مغربی سرمایہ کاروں کو بھلا اور کیا چاہیے؟ عارف نقوی کی کہانی بکتی گئی اور ابراج پر کروڑوں، اربوں ڈالرز کی بارش ہوتی چلی گئی لیکن ابراج کے اس روشن چہرے کے پیچھے ایک تاریک پہلو بھی تھا، جو اس کے investors بلکہ یہاں تک کہ ملازموں سے بھی چھپا ہوا تھا۔

ابراج کا مخفی شعبہ

الزام لگایا جاتا ہے کہ ابراج کے دبئی ہیڈ کوارٹرز کے اندر ایک خفیہ treasury department تھا۔ اس یونٹ کی نگرانی عارف کے بہنوئی وقار صدیق اور ایک پاکستانی اکاؤنٹینٹ رفیق لاکھانی کر رہے تھے۔ یہ دونوں کئی سال سے عارف کے ساتھ تھے اور شروع سے ہی انوسٹرز کے پیسوں کا غلط استعمال کر رہے تھے۔

فائنانشل ریگولیٹری ایجنسی دبئی فنانشل سروسز اتھارٹی کی شرائط کے مطابق ابراج پر لازم تھا کہ ہر وقت دبئی کے بینک اکاؤنٹ میں چند ملین ڈالر رکھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ ابراج اصل میں کوئی ایک کمپنی نہیں تھی، یہ تو تین سو سے زیادہ کمپنیوں کا الجھا ہوا جال تھا۔ یہ کمپنیاں زیادہ تر ایسے ملکوں میں تھیں، جہاں foreign investors نرم قوانین کی وجہ سے بہت کم ٹیکس دے کر اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ ایسی جگہوں کو tax havens کہا جاتا ہے۔ دبئی میں قائم کمپنی — Abraaj Capital Limited— تو اس عالمی نیٹ ورک کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ تھی۔

ابراج کی دو سب سے اہم کمپنیاں Cayman Islands میں رجسٹرڈ تھیں، دبئی ریگولیٹر کی پہنچ سے ہزاروں کلومیٹرز دُور۔ یہ دو کمپنیاں تھیں Abraaj Investment Management Limited اور Abraaj Holdings Limited۔

دبئی میں موجود ابراج کیپیٹل دبئی کے ریگولیٹری قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا تھا۔ وہ اس طرح کہ کمپنی کا دبئی بینک اکاؤنٹ چند ملین ڈالرز رکھنے کے بجائے زیادہ تر خالی رہتا لیکن ہر quarter کے ختم ہونے سے پہلے، جب ریگولیٹر کو بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم دکھانی ہوتی، تو عارف اور اُن کے ساتھی ہوشیاری سے رقم منتقل کر دیتے تاکہ یہ لگے کہ وہاں مطلوبہ رقم موجود ہے۔ پھر quarter کے خاتمے کے چند روز بعد ہی یہ اکاؤنٹ دوبارہ خالی کر دیا جاتا۔ یہ ایک طرح کی window dressing تھی۔

پھر تو یہ ابراج کی عادت ہی بن گئی لیکن ابراج کے کلائنٹس اور ملازم سب اس سے لاعلم تھے۔ انہیں تو صرف وہی نظر آتا جو عارف نقوی انہیں دکھانا چاہتے اور ان کی اس بناوٹی دنیا میں راوی چَین ہی چَین لکھ رہا تھا۔

پروجیکٹ کے الیکٹرک

عارف نقوی کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم پراجیکٹ شاید ’’کراچی الیکٹرک‘‘ تھا۔ ماضی میں اسے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن یعنی KESC کہا جاتا تھا۔ یہ سرکاری ادارہ برسوں سے کراچی والوں کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام تھا۔ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے آئے دن احتجاج اور ہنگامے ہوتے۔ یہ ادارہ کتنے برے حال میں تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت بھی اس کو سیدھا کرنے میں ناکام رہی۔

‏2005 میں حکومت نے کمپنی کو privatize کرنے کا فیصلہ کیا تو ابراج کو بھی آفر ہوئی لیکن اس نے ڈیل سے انکار کر دیا۔ حکومت نے سعودی اور کویتی investors سے معاہدہ کر لیا اور KESC کے 71 فیصد شیئرز بیچ دیے۔ مگر معاملات جوں کے توں رہے، وہی لوڈشیڈنگ، وہی ہنگامے!

پھر ستمبر 2008 میں آصف زرداری کی حکومت آگئی اور ابراج کو ایک بار پھر KESC خریدنے کی آفر ہوئی۔ اس بار عارف نقوی مان گئے۔ یہ ڈیل یقیناً ابراج کے لیے ایک بہت بڑا رسک تھی لیکن عارف نقوی نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر KESC کے معاملات ٹھیک کر دیے، تو ایک کامیاب investor کے طور پر ان کی دھاک بیٹھ جائے گی۔

نومبر 2009 میں تابش گوہر کو KESC کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا۔ ان کے ٹارگٹس بالکل واضح تھے: بجلی کی پیداوار اور ریونیو بڑھانا جبکہ چوری اور لاگت گھٹانا۔ Cost-cutting کے لیے 17 ہزار ملازموں میں سے one third کو نکالنے، ghost workers اور اقربا پروری کو ختم کرنے، ادائیگی نہ کرنے والے صارفین کی سپلائی کاٹنے اور غیر قانونی لائنیں، یعنی کنڈے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔

بظاہر ناممکن نظر آنے والے یہ اہداف کسی حد تک حاصل کر لیے گئے۔ جب KESC نے جون 2012 میں اپنی رپورٹ جاری کی تو ملازمین کی تعداد کم ہو کر تقریباً 11 ہزار رہ گئی تھی اور 17 سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کمپنی نے profit کمایا۔ اُدھر لوڈشیڈنگ میں بھی کمی آ چکی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ کمپنی نے ایک متنازع پالیسی بنائی، جس میں شہر کے مختلف علاقوں کو بلوں کی ادائیگی کے لحاظ سے بانٹ دیا گیا۔ جہاں کم ادائیگی ہوتی، وہاں لوڈشیڈنگ بڑھا دی جاتی۔ اس پالیسی کا کمپنی کو فائدہ ہوا ہوگا، مگر وہ ایمان دار شہری ناراض ہوئے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے تھے۔

بہرحال، KESC کو منافع بخش بنانے کا یہ کارنامہ ابراج نے خوب کیش کیا اور عارف نقوی جگہ جگہ اس کی مثال دیتے نظر آتے۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ 2013 میں KESC کا نام بدل کر KE رکھ دیا گیا تھا۔

ابراج کا مالی بحران

ادارہ بہتر بنا کر ابراج نے کسی حد تک کراچی کی روشنیاں تو لوٹا دیں، مگر عارف نقوی investors کو مسلسل اندھیرے میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک طرف ابراج گروپ مالی بحران کا شکار تھا تو دوسری طرف عارف نقوی کی شاہانہ زندگی ویسے ہی گزر رہی تھی۔

2014 کے شروع میں ابراج کے معاملات سنگین حد تک بگڑ چکے تھے۔ نو جنوری 2014 کو ایک فائنانس منیجر نے عارف نقوی کو ای-میل کی اور بتایا کہ ہمیں 15 جنوری تک 100 ملین ڈالر خسارے کا سامنا ہوگا۔ اب عارف نقوی کے پاس دو راستے تھے:

  • ایک یہ کہ investors اور قرض دہندگان سے سچ بولیں اور انہیں ابراج کی بگڑتی ہوئی مالی حالت کے بارے میں بتائیں۔
  • دوسرا یہ کہ جھوٹ کا راستہ پکڑیں اور ابراج کے مالی بحران کو پوشیدہ رکھیں۔

جی ہاں! انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ امریکن ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب عارف نقوی نے اس راستے پر قدم رکھا، جس کا نتیجہ نکلا تاریخ کی سب سے بڑی private equity firm کے زوال کی صورت میں۔ کہا جاتا ہے کہ عارف نقوی نے ملازموں کو ہدایت کی کہ وہ ابراج کے تمام وسائل، اس کا انٹرنیشنل نیٹ ورک اور شہرت۔ چوری، رشوت اور دنیا بھر میں فراڈ کے لیے استعمال کریں۔

عارف کے پاس investors کا بہت سارا پیسہ تھا اور مزید رقم لینے کے لیے بہت سے ذرائع بھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی مالی مشکلات کو شاید ہمیشہ کے لیے چھپا سکتے ہیں۔ Investorsکا وہ پیسہ جو انہوں نے ابراج کو کمپنیاں خریدنے کے لیے دیا تھا، ابراج نے اسے تنخواہوں اور بونسز ادا کرنے پر لٹا دیا۔ بلکہ عارف کی عیش و عشرت کی زندگی پر بھی یہی پیسہ خرچ ہوتا رہا۔ دوسری طرف انہوں نے سرمایہ کاروں کو جھوٹی رپورٹس بھیج کر یہ تاثر دیا کہ ابراج میں سب اچھا ہے، بلکہ انہیں ابراج میں مزید پیسہ لگانے پر قائل بھی کر لیا۔

2014 میں investors کو جو ڈاکومنٹ بھیجا گیا، اس کے مطابق ابراج کو 17 فیصد منافع ہوا تھا لیکن عارف نقوی کے ان باکس میں موجود ای-میلز کچھ اور ہی بتا رہی تھیں۔

دنیا کی نظر سے سب کچھ چھپا ہوا تھا۔ بظاہر ابراج ہواؤں میں اڑتی ایک کامیاب کمپنی تھی۔ امریکی billionaires تو عارف نقوی کو اب اور بھی زیادہ محفلوں میں بلا رہے تھے۔ عارف کو اپنا لائف اسٹائل برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت تھی۔ مئی 2015 تک حال یہ تھا کہ ابراج کا خسارہ بڑھ کر 219 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس کے باوجود عارف نے اسی سال ابراج سے اپنے لیے تقریباً 54 ملین ڈالرز لیے۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک عام پاکستانی کو اتنی دولت کمانے میں 40 ہزار سال سے زائد لگیں گے۔ اور ذرا ٹھیریں، اس میں وہ لاکھوں کروڑوں ڈالرز شامل نہیں جو عارف نقوی ابراج سے خفیہ طور پر اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر رہے تھے۔

گمنام ملازم کی ای-میل

ابراج میں معاملات جس طرح چلائے جا رہے تھے، ایسا لگتا تھا یہ سب یونہی چلتا رہے گا۔ مگر 2017 میں کچھ ایسا ہوا، جس نے کچھ ہی مہینوں میں سب کچھ بدل دیا۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ابراج کے ایک ہیلتھ کیئر فنڈ میں 100 ملین ڈالر انویسٹ کر رکھے تھے۔ کچھ عرصے بعد فاؤنڈیشن کے ایک فنڈ منیجر Andrew Farnum کو ابراج کے معاملات کھٹکنے لگے۔ انہیں یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ابراج گروپ نے پچھلی سرمایہ کاری پر کوئی کام نہیں کیا؟ اور مزید کروڑوں ڈالر کا مطالبہ کر رہا ہے؟

تب ستمبر 2017 میں Farnum نے ابراج کو ایک ای-میل کی اور پوچھا کہ بل گیٹس کے موجودہ فنڈز کن بینک اکاؤنٹس میں ہیں اور انہیں کہاں کہاں انویسٹ کیا گیا ہے؟ ساتھ ہی مستقبل میں ہونے والی investments کے بارے میں بھی سوال کیا۔ اصل میں وہ جاننا چاہ رہے تھے کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک، یعنی بل گیٹس، کا پیسہ کہیں غلط استعمال تو نہیں ہو رہا؟ جواب میں ابراج نے مبہم سے جوابات دیے، یقین دہانیاں کرائیں اور پرانے بینک اسٹیٹمنٹ بھیج دیے۔

یہاں Farnum نے مزید تفصیلات مانگ لیں۔ ابراج کی طرف سے تو فوری کوئی جواب نہیں آیا، لیکن ایک ہفتے بعد ہی ابراج کے ایک گمنام ملازم نے Farnum کو ایک ای-میل کی، جس سے انکشاف ہوا کہ کمپنی میں کیا گڑبڑ چل رہی ہے۔ اس ای-میل میں بتایا گیا کہ جو کچھ ابراج آپ کو دکھاتا ہے اس پر ہرگز یقین نہ کریں اور حقیقت تک پہنچیں۔ اپنی due diligence ٹھیک طریقے سے کریں اور صحیح سوالات پوچھیں۔ جو معلومات سامنے آئیں گی آپ اس پر حیران رہ جائیں گے۔

یوں گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھادی، اور پھر سب کچھ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا چلا گیا۔ انوسٹرز کا اعتماد اٹھنا شروع ہو گیا، انہوں نے اپنے پیسے مانگنا شروع کر دیے۔ لیکن ابراج کے پاس پیسہ تھا ہی کہاں؟

اسی دوران گیٹس فاؤنڈیشن نے ابراج کے اکاؤنٹس کی چھان بین ایک فرانزک اکاؤنٹنگ ٹیم کے سپرد کر دیں۔ جنوری 2018 میں امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے ایک صحافی Will Louch کو بھی ابراج کے ایک گمنام ملازم کی طرف سے ای-میلز ملیں۔ انہوں نے اپنے ساتھی رپورٹر Simon Clark کے ساتھ مل کر اس اسٹوری پر کام کیا اور 2 فروری 2018 کو وال اسٹریٹ جرنل نے بریکنگ نیوز چلا دی۔

خبر میں بتایا گیا کہ ابراج گروپ کے ایک بلین ڈالر کے ہیلتھ کیئر فنڈ کا آڈٹ فرانزک اکاؤنٹنٹس کر رہے ہیں۔ جن چار سرمایہ کاروں نے یہ آڈٹ کروایا ہے ان میں گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہے۔ آڈٹ سے یہ جاننا ہے کہ ابراج نے انویسٹرز کی رقم کہاں استعمال کی۔ سائمن اور وِل ہی وہ رپورٹرز ہیں، جنہوں نے آگے چل کر اس موضوع پر ایک کتاب The Key Man بھی لکھی۔

اُسی دن، یعنی 2 فروری کو ہی "نیو یارک ٹائمز" نے بھی یہ خبر چھاپ دی اور پھر یہ بات دنیا بھر میں آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ عارف نقوی کے پاس کالز کا تانتا بندھ گیا۔ investors اور lenders یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کے پیسے کا کیا بنا؟ عارف تو بس یہی کہتے رہے کہ یہ سب فیک نیوز ہیں، لیکن معاملہ اب رکنے والا نہیں تھا۔

بالآخر امریکا کے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے عارف نقوی کے خلاف criminal proceedings کا آغاز کر دیا۔ ان پر اور ابراج کے پانچ ایگزیکیٹوز پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا گیا اور پھر وہ دن آگیا جس کا عارف نقوی کو ڈر تھا۔

10 اپریل 2019

بدھ کے روز لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر Detective Constable Mathew Benedict۔ اسلام آباد سے آنے والی ایک فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ آفیسر کا تعلق میٹرو پولیٹن پولیس کے extradition یونٹ سے تھا۔ جیسے ہی طیارے نے زمین کو چھوا، وہ الرٹ ہو کر ایکشن کے لیے تیار ہوگئے۔ مسافر ایک ایک کر کے طیارے سے باہر آ رہے تھے اور انہیں میں موجود تھے عارف نقوی۔ انہیں جہاز سے اترتے ہی Benedict نے گرفتار کر لیا۔

Benedict نے عارف کے ہاتھ سے سفری بیگ لیا، جس میں چار پاسپورٹس تھے۔ دو پاکستان کے، تیسرا کیریبین ملک Saint Kitts and Nevis کا اور چوتھا انٹرپول کی سفری دستاویز۔

کہا جاتا ہے کہ اگر عارف نقوی کے الیکٹرک کو وقت پر بیچ دیتے تو شاید بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ اکتوبر میں چین کی شنگھائ الیکٹرک نے اعلان کیا کہ وہ کے الیکٹرک کو 1.77 ارب ڈالر میں خریدنے جا رہی ہے، اس ڈیل سے ابراج کو 570 ملین ڈالر کا فائدہ ہونا تھا۔ لیکن نجانے کیوں یہ ڈیل برسوں لٹکی رہی اور آج بھی یہی حال ہے۔

تحریک انصاف سے قربت

عارف نقوی پر ایک الزام اور بھی تھا۔ اور وہ یہ کہ 2016 میں کے الیکٹرک ڈیل کی فائل کو پہیے لگانے کے لیے انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کو 20 ملین ڈالر کی رشوت آفر کی۔ یہ خبر حیرت انگیز طور پر 2018 میں سامنے آئی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، لیکن اس دور میں بھی اس پر کوئی کارروائی دیکھنے میں نہ آئی۔ الٹا عارف نقوی اپنی گرفتاری سے پہلے کئی میٹنگز میں عمران خان کی ٹیم کے ساتھ بیٹھے نظر آئے۔

جولائی 2022 میں برطانوی اخبار ’’فائنانشل ٹائمز‘‘ نے بتایا کہ عارف نقوی کی کمپنی Wootton Cricket Ltd نے 2013 میں تحریک انصاف کو 2.12 ملین ڈالر کے فنڈز ٹرانسفر کیے۔ یہی نہیں، اپریل 2019 میں گرفتاری کے وقت عارف نقوی نے پولیس افسر کو جو سات ٹیلی فون نمبر لکھوائے تھے، ان میں سے ایک نمبر عمران خان کا تھا۔

بہرحال، مئی کے مہینے میں عارف کو ضمانت تو مل گئی، لیکن انہیں ان کے لندن کے فیٹ میں قید کر دیا گیا۔ ان کے پاؤں میں ایک bracelet پڑا رہتا ہے جو ان کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

لالچ اور دھوکے بازی کی داستان

یہ تھی ابراج کے بانی عارف نقوی کی کہانی۔

لیکن یہ صرف عارف نقوی ہی نہیں، اُن بہت سے امیر ترین investors کی بھی کہانی ہے جو منافع کے لالچ میں ابراج پر اندھا اعتبار کرتے چلے گئے۔ یہ ابراج کے اُن executives کی بھی کہانی ہے جن کی زبانیں اُن کی بھاری بھرکم تنخواہوں نے تب بھی بند رکھیں، جب وہ سچ جان چکے تھے۔

یہ شاید اُن بہت سے انسانوں کی کہانی ہے جو بہت جلد بہت سا پیسہ کمانے کی جستجو میں فاش غلطیاں کر جاتے ہیں۔ اپنے انجام سے بے خبر، یہ لوگ جب ایک بار پیسے کو منزل بنا لیں تو پھر انہیں کسی کی پرواہ نہیں رہتی۔ اور پھر دنیا پر راج کرنے کا خواب، تاراج پر ختم ہوتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں