ایمرجنسی روم مشین کی آواز سے گونج رہا ہے۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور اسٹاف دوڑتے ہوئے ایک اسٹریچر اندر لے کر آتے ہیں۔ لگ بھگ پچاس برس کا آدمی اسٹریچر پر بے ہوش پڑا ہے۔ اس کے ماتھے پر پسینہ ہے اور چہرہ پیلا پڑ چکا ہے۔ نرس گھبرا کر ڈاکٹر سے کہتی ہے، ’’Sir! BP is dropping, breathing is shallow‘‘۔ ڈاکٹر مریض کی نبض پکڑے اسٹاف سے کہتا ہے، ’’پیشنٹ کارڈیک اریسٹ میں جا رہا ہے۔ سی پی آر دیں، کوئیکلی۔‘‘

مسز خان آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑی ہیں۔ ابھی چند گھنٹوں پہلے وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھر میں کھانا کھا رہی تھیں کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بس یہ فون سننا تھا کہ ان کے شوہر بے ہوش ہو کر گر پڑے اور اب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے۔

ایمرجنسی روم کا دروازہ کھلتا ہے اور ڈاکٹر گلوز اتارتے ہوئے مسز خان کی طرف آتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر صاحب میرے husband ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ مسز خان نے پوچھا۔ ’’Patient is serious، آپ بتا سکتی ہیں کہ انہیں کیا ہوا تھا؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔ مسز خان نے اسی فون کال کی کہانی سنانا شروع کی۔ وہ بولتی گئیں۔ اور ڈاکٹر کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب اپنا دل پکڑے زمین پر بیٹھ چکے تھے۔

اس کال میں ایسا کیا تھا کہ جسے سن کر مریض ہی نہیں ڈاکٹر کی بھی حالت غیر ہو گئی؟ اصل میں یہ دونوں اپنی اپنی مسجد کے امام کے ہاتھوں عمر بھر کی کمائی گنوا بیٹھے تھے۔ جی ہاں، منبر پر بیٹھنے والے حضرت صاحب انہیں ’’شریعہ‘‘ کے نام پر ’’چریا‘‘ بنا چکے تھے۔ اور یہ scam ایک یا دو نہیں ملک کے پچاس ہزار خاندانوں کو تباہ و برباد کر گیا۔ 500 ارب روپے کے اس مضاربہ اسکینڈل کا شکار پڑھے لکھے دیندار لوگ تھے۔

لیکن نہ تو یہ پہلا فنانشل فراڈ تھا اور نہ ہی آخری۔ 1990 کی ’’سیور ریفل لاٹری‘‘ ہو یا سن دو ہزار کا تاج کمپنی scam، الائنس موٹرز ہو یا ڈبل شاہ، B4U سے لے کر 2010 کے ٹائر اسکینڈل اور دو سال پہلے کے کمیٹی فراڈز میں کون سی باتیں کامن تھی؟ یہ میں آج آپ کو بتاؤں گا۔

ہو سکتا ہے کوئی ڈبل شاہ اس وقت بھی آپ کی سیونگز پر نظریں گاڑے بیٹھا ہو۔ اور آپ راتوں رات امیر بننے کی خاطر اپنا اصل سرمایہ بھی داؤ پر لگا دیں۔ کیونکہ جب ملک میں کچھ اور نہ چل رہا ہو تو پھر ایسی اسکیمیں ہی چلا کرتی ہیں۔

تو چلیے پہلے اس شخص کی کہانی پر نظر ڈالتے ہیں جو بابائے father of scams کہلایا۔ آج سے سو سال پہلے۔ اس نے آدھی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

چارلس پونزی

بیسویں صدی کی دوسری دہائی ایک دھوکے باز کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تھا اطالوی کون آرٹسٹ چارلز پونزی۔ وہ ویٹر بنا اور چوری پر نکالا گیا۔ بینکر بنا تو کرپشن پر جیل گیا۔ ایڈور ٹائزنگ کمپنی کھولی مگر ٹھپ ہو گئی۔

وہ دنیا کا پہلا فراڈیا نہیں تھا۔ مگر اب جو چیٹنگ وہ کرنے جا رہا تھا۔ اس نے ساری دو نمبر اسکیموں کا نام، اس کے نام سے جوڑ دیا۔

پونزی نے اٹلی سے سستے ڈاک کوپن خرید کر انہیں امریکا اور کینیڈا میں بیچنے کا پلان بنایا۔ اس نے دوستوں سے اٹھارہ سو ڈالر لے کر 53 ہزار کوپن خرید لیے۔ کہنے کو یہ اس کا کاروبار تھا مگر حقیقت میں یہ صرف ایک دکھاوا تھا۔

پونزی 90 روز میں پیسے ڈبل کرنے کی آفر دے رہا تھا اور یہ ایسی آفر تھی جسے رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔ لیکن یہ سب کیسے ہورہا تھا؟

اصل میں پونزی نئے انویسٹرز سے پیسہ لے کر پرانے انویسٹرز کو دے رہا تھا۔ یعنی شروع میں اس جال میں پھنسنے والے لوگوں کو ہائی ریٹرنز کا وعدہ کیا جاتا۔ اور جب نئے شکار جال میں پھنستے تو ان کا پیسہ لے کر پہلے والوں کو منافع دے دیا جاتا۔ اور ہاں، پونزی اس میں اپنا کٹ رکھنا نہ بھولتا۔

اس طرح ایک کے بعد ایک انویسٹرز پیسہ لگاتے چلے گئے۔ کبھی انہیں منافع ملتا تو کبھی بہانہ بنا کر مزید وقت لے لیا جاتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ساری ڈیلنگ کیش پر ہوتی جس کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہ تھا۔

پونزی روز کے ڈھائی لاکھ ڈالر کمانے لگا۔ اب وہ زمین پر سونے والا ویٹر نہیں بلکہ کئی بنگلے اور گاڑیوں کا مالک تھا۔ 1800 ڈالر کی رقم اب 20 ملین ڈالر ہوچکی تھی۔ مگر کہتے ہیں نا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

ایک روز خبر لگی کہ اتنے تو ڈاک کے کوپنز نہیں جتنی رقم پونزی اکھٹی کر چکا ہے۔ بس پھر کیا تھا، لوگ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے اور پونزی اس وقت پکڑا گیا جب اس کے پاس دینے کے پیسے نہ رہے۔

اکیسویں صدی کے امریکا میں برنی میڈوف نے تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کیا جو پینسٹھ ارب ڈالر کا تھا۔ آج بھی کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب صرف امریکا میں سیکڑوں ’’پونزی اسکیمز‘‘ سامنے نہ آتی ہوں۔

صحافی فیصل وحید کہتے ہیں:

ہائی ریٹرنز اور لو رسک پر آپ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج جانی چاہیے۔ مارکیٹس اوپر نیچے جاتی ہیں، مستقل ریٹرنز کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا، جو دے رہا ہے وہ رانگ نمبر ہے۔ پیچیدہ، خفیہ سمجھ میں نہ آنے والی اسکیمز تو ویسے ہی ریڈ فلیگز ہیں۔ ایک مثل مشہور ہے نا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آپ کی محنت کا پیسہ ہے۔ انویسٹ کرنے سے پہلے کوئسچن کریں، ریسرچ کریں یا کم سے کم کسی سے مشورہ ضرور کریں۔

کیا کیجیے کہ ہمیں سانپ سیڑھی کا کھیل جو بہت پسند ہے۔ جب سیڑھی ملتی ہے تو اوپر جانے میں، اونچا اڑنے میں بڑا مزا آتا ہے، مگر جب سانپ ڈس لیتا ہے، تو گھر اجڑ جایا کرتے ہیں۔ اور یہی کچھ ہوا مرید عباس کے ساتھ جس کا سب کچھ تو لٹ ہی چکا تھا، جان بھی چلی گئی۔

یہ کہانی شروع ہوتی ہے کراچی کی ایک بستی کشمیر کالونی سے۔ جہاں کا رہائشی عاطف زمان دکان پر ٹائر بیچتے بیچتے چند سال میں ٹائر انڈسٹری کا سب سے بڑا ٹائیکون بن گیا۔

ایک ایسا ارب پتی جس نے زندگی میں ایک ٹائر بھی امپورٹ نہ کیا اور نہ ہی اس کی کوئی فیکٹری تھی۔ اسے تو اس کی حرکتوں نے ٹائر شاپ سے بھی فارغ کرا دیا تھا۔ لیکن ایک روز اس کا دوست سستے ٹائر لینے کے لیے اس سے رابطہ کرتا ہے۔ اور یہی کال اس کی زندگی کا ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ثابت ہوتی ہے۔

عاطف زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر اس نے ایک ایسا جال بنا جس میں سب سے پہلے پھنسنے والے ’’نیوز اینکرز‘‘ تھے۔ ان چمکتے چہروں کے پاس پیسہ تھا اورعاطف کے پاس ایک plan۔

کروڑوں پر لاکھوں ملنے کے لالچ میں وہ بڑے شوق سے پیسہ لگانے کو تیار ہوگئے۔ اب عاطف کے نام نہاد کاروبار کی مارکٹنگ وہ چہرے کر رہے تھے جن کی خبروں پر پورے ملک کو اعتبار تھا۔ ان کی برانڈ نیو کاریں، فلیٹس اور پر تعیش لائف اسٹائل سب کو دیوانہ بنا رہے تھے۔ یوں انویسٹرز کا دائرہ دھیرے دھیرے پھیلتا چلا گیا۔

لیکن عاطف نیوز اینکرز تک پہنچا کیسے؟ اصل میں ان دونوں انویسٹر بھائیوں، یعنی ہمایوں اور یاسر، کی ٹی وی اینکرز سے بڑی دوستی تھی۔ نیوز اینکر مرید عباس نے ہمایوں کی عاطف زمان کے ساتھ تصویریں دیکھ رکھی تھیں۔ مرید ایک سیلف میڈ لڑکا تھا جو بڑی محنت کے بعد میانوالی کے ایک گاؤں سے اٹھ کر اینکر کی پوزیشن تک پہنچا تھا۔ ایک روز جاگنگ کرتے ہوئے مرید کی ملاقات عاطف زمان سے ہو گئی جو بہت جلد دوستی میں بدل گئی۔ اور پھر مرید عاطف کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کا سب سے بڑا انویسٹر بن گیا۔

ایک اینکر نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو بتایا۔ چار ماہ میں پیسہ ڈبل کرنے کا خواب دکھایا۔ یہ پہلے انویسٹرز کی کھیپ تھی جنہیں دیکھ کر سیکڑوں لوگ عاطف کے جال میں پھنستے گئے۔

یہ پارٹیز کرتے اور سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا ہوتا۔ بات بڑھتی گئی اور یہ اینکرز سے بینکرز تک پہنچ گئی۔ بینک کے ایک جوڑے کو تو یہ بزنس اتنا پسند آیا کہ میاں بیوی نوکری چھوڑ کر عاطف زمان کے ملازم بن گئے۔ اب یہ طاغوت کا مطلب جانتے تھے یا نہیں مگر پڑھے لکھے ضرور تھے۔ مگر کسی نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ آخر یہ کونسا کاروبار ہے جس میں اتنا منافع کمایا جاسکتا ہے۔

صحافی بابر سلیم کہتے ہیں:

تو آپ اس سے اندازہ کریں کہ لوگ کس حد تک اس پر بھروسا کر رہے تھے، کشمیر کالونی میں رہنے والا ایک لڑکا جو ٹائر کی کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔ وہ 2014 کے بعد سے اچانک ابھرنا شروع ہوتا ہے اور میڈیا کے اینکرز آگے پیچھے گھوم رہا ہے، وہ کبھی کسی ٹی وی چینل میں پایا جاتا ہے اور کبھی کسی ٹی وی چینل میں پایا جاتا ہے، کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ ارب پتی کیسے بن کر سامنے آگیا ہے۔

کوئی سوچ ہی تو نہیں رہا تھا۔ تب ہی تو رفتار کو یہ ڈاکیومینٹری بنانے کا خیال آیا تاکہ لوگ کم ازکم آئندہ ایسی انویسٹمنٹ کرنے سے پہلے دس بار سوچیں۔ تو جناب اب انویسٹرز کے سامنے ایک ویڈیو آتی ہے جس میں عاطف زمان اس وقت کے گورنر پنجاب کو ایک رفاہی تقریب میں چیک دیتا نظر آ رہا ہے۔

یہی نہیں، وہ ہر ہفتے کبھی کسی مشہور شخصیت کے ساتھ اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈالتا تو کبھی ٹائروں کے اسٹاک کے سامنے کھڑے ہو کر نئی کھیپ کی مبارک باد وصول کرتا۔ انویسٹرز کا عاطف پر اعتماد دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔

سیکڑوں افراد کی انویسٹمنٹ اربوں روپے کو چھو رہی تھی۔ عاطف کا اسٹائل یہ تھا کہ وہ انویسٹمنٹ لیتے ہی اسی اماؤنٹ کا چیک کاٹ کر انویسٹر کے ہاتھ میں تھما دیتا۔

دکھ کی بات یہ تھی کہ جن کا گھر مشکل سے چل رہا تھا وہ کبھی ساس کے زیور بیچ کر تو کبھی سسر کی ریٹائرمنٹ سیونگز عاطف کے حوالے کر رہے تھے۔ اینکرز کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں تھے۔ وہ نہ صرف خود رقم لگاتے بلکہ ایجنٹ بن کر غریب دوستوں کی لگائی رقم میں اپنا کمیشن علیحدہ سے لیتے۔

سب اچھا چل رہا تھا مگر پھر 2018 کے دسمبر میں جس شخص نے سب سے پہلے پیسہ لگایا تھا وہ quit کرنےکا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ شادی کرنے کے بعد لندن شفٹ ہو کر نیا بزنس شروع کرنے کا پلان کر رہا تھا۔ یہ اینکرز کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔ انہوں نے کروڑوں روپے ہمایوں کے بھروسے پر لگا رکھے تھے۔ مگر یہاں عاطف سب کو تسلی دیتا ہے کہ فکر کی کیا بات ہے؟ ہمایوں کے ذریعے ملنے والا 15 فیصد پرافٹ اب تمہیں ڈائریکٹ 25 فیصد ملے گا۔

بات آئی گئی ہو گئی لیکن صرف چار مہینے بعد عاطف نے پرافٹ دینا بند کر دیا۔ اس نے بتایا کہ کام میں کچھ نقصان ہو گیا ہے مگر حالات جلد بہتر ہوجائیں گے۔ اب اگلے دو ماہ تک کسی کو پرافٹ ملتا تو کسی کو آسرا۔ پھر جون آگیا۔ اینکر مرید عباس سمیت چار دوست سیر پر باکو گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک دوست عمر ریحان سب سے کہتا ہے کہ بظاہر تو سب ٹھیک چل رہا ہے، لیکن کچھ ہے جو ہمیں نظر نہیں آرہا۔

یہ سنتے ہی سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہوتا ہے جس کے بعد کسی بھی پائرامڈ یا پونزی اسکیم کا چلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اب انویسٹمنٹ آنی بند ہو جاتی ہے۔ چاروں اینکرز فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اب نہ خود پیسہ لگائیں گے اور نہ کسی اور کو لگانے دیں گے۔ وہ ابھی عاطف پر کچھ ظاہر نہیں کرتے۔

ایک طرف عاطف کے دفتر میں اس کا ملازم صفائی کرتا تو دوسری طرف چاروں دوست پیسے وصول کرنے کی پلاننگ کرتے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی ہر بات عاطف تک پہنچ رہی تھی۔ کیونکہ وہ صفائی والا وہ ڈرائیور کوئی اور نہیں، عاطف کا سگا بھائی عادل زمان تھا۔ ایک روز فیس بک پر مرید عباس نے عاطف کے دفتر میں بیٹھ کر ایک تصویر شیئر کی جس میں ایک پستول میز پر رکھا تھا۔ اس دن کے بعد عاطف زمان غائب ہو گیا۔

سات جولائی 2019 کی صبح عاطف زمان اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اینکر مرید عباس اور باقی ساتھی چلے آتے ہیں۔ انویسٹرز عاطف زمان سے رقم کا تقاضا کر رہے تھے۔ ماحول گرم ہو گیا۔ عاطف ایسی بند گلی میں پہنچ چکا تھا جہاں سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اس وقت تو اس نے سب کو واپس بھیج دیا مگر پھر اس نے ایک نیا پلان بنایا۔

خضر کو قتل کرنے کے بعد عاطف مرید کو مارنے اپنے دفتر پہنچا تو دیکھا وہاں صرف عمر ریحان بیٹھا ہے۔ ’’مرید کہاں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’وہ واش روم گیا ہے۔‘‘ عمر نے جواب دیا۔ عمر عاطف کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر چوکنا ہو گیا تھا مگر اسی لمحے مرید واش روم سے باہر نکلا۔ عاطف نے مرید کو کہا، ’’تجھے پیسے چاہیں ناں؟ یہ لے!‘‘

کیمرے میں سب ریکارڈ تھا کہ کیسے عاطف ہاتھ میں پستول لیے دفتر سے باہر نکلتا ہے اور اس کے پیچھے عادل بھی دوڑ لگا دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد اسی بلڈنگ سے زارا اپنے شوہر کو زخمی حالت میں لے جاتی دکھائی دیتی ہے۔ عاطف زمان یہاں سے سیدھا اپنے اپارٹمنٹ جاتا ہے، پولیس اس کے پیچھے ہے اور وہ یہاں خود کو گولی مار لیتا ہے۔ مگر وہ مرتا نہیں بلکہ زخمی حالت میں اسپتال پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے جیل ہو جاتی ہے۔ عاطف زمان کا بھائی عادل بھی پکڑا گیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہ عدالت سے فرار ہو گیا۔

مرید کی بیوہ انٹرویوز میں کہتی رہی کہ کیس ختم کروانے کے لیے اسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آج زارا کہاں ہیں؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر آخری میسج یہ تھا:

تمہارے شوہر کو تین گولیاں ماری تھیں۔ تمہارا کام ایک گولی میں ہی تمام ہو جائے گا۔ کیس سے پیچھے ہٹ جاؤ!

مرید عباس کے قتل کا کیس اب تک چل رہا ہے۔ عاطف زمان کے نام نہاد ٹائر بزنس میں رقم لگانے والے اب بھی نیب کے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر ڈوبنے والا پیسہ کبھی واپس نہیں آتا۔

سب سے بڑی ڈکیتی

ایک مسلمان کا خود سے بھی زیادہ اعتماد مسجد کے امام یا مفتی پر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ گھریلو معاملات سے لے کر حلال و حرام کے فیصلے بھی ان ہی سے کرواتے ہیں۔

قرآن میں سود کی کھلم کھلا ممانعت ہے۔ سود کا لین دین خدا اور رسول سے جنگ تصور کیا جاتا ہے۔ مذہبی رجحان کا مڈل کلاس طبقہ اسی کشمکش میں زندگی گزارتا ہے کہ وہ اپنی جمع پونجی اونچی شرح سود والے سیونگ سرٹیفیکٹ میں لگائے یا حلال کے نام پر اسلامی بینکوں کے کم منافع پر صبر کرے۔

2012 کے آس پاس کراچی کے ایک بڑے مذہبی ادارے سے ایک ’’مضاربہ اسکیم‘‘ کا پرچار کیا گیا۔ پہلے پہل یہ اسکیم صرف مفتی صاحبان اور مذہبی شخصیات کو آفر کی گئی۔ مگر پھر یہ مسجد کے اماموں کے ذریعے پورے ملک میں پھیلتی چلی گئی۔ اب مفتی صاحبان اس اسکیم کے ایجنٹ تھے جن کا ہدف تھے درمیانی عمر کے پڑھے لکھے دیندار نمازی۔ ملیریا یا ریبیز کی طرح یہ اسکیم ایک وائرس جیسی تھی جو پہلے اپنے ہوسٹ کو بیمار کرتا ہے اور بعد میں ہر اس شخص کو جو کانٹیکٹ میں آتا چلا جائے۔

ایک متاثرہ شخص نے بتایا:

سچی بات یہ ہے کہ مضاربہ کی شہرت کا مجھے نہیں پتہ تھا۔ ہمارے امام صاحب نے ایک روز بتایا کہ یہ حلال بزنس ہے جس میں انویسٹ کرنا چاہیے۔ اب مفتی صاحب کا کہا کون ٹال سکتا ہے۔ میں سعودی عرب سے چھٹی گزارنے آیا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ بزنس جینوئن ہے مطلب کوئی سود وغیرہ کا چکر تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی میری ذمہ داری۔ بس پھر میں نے پیسے لگا دیے۔

ایمان نہ ڈگمائے۔ سوالات نہ پوچھیں جائیں۔ اسی لیے جامعہ بنوریہ سے ایک فتویٰ بھی حاصل کر لیا گیا۔ یہ فتویٰ دینے والے تھے مفتی عبداللہ شوکت۔ جنہوں نے فراڈ کے مرکزی کردار شفیق الرحمان کے جعلی کام پر اصلی مہر لگا دی۔

اب تو یہ حال تھا کہ لوگ اپنی اپنی مسجد کے امام صاحبان کے پاس جا کر پیسہ لگانے کی منتیں کرنے لگے۔ انہیں مضاربہ کا نام لے کر طرح طرح کے کاروبار کا بتایا جاتا۔ کبھی کہا جاتا کہ ہم کیبلز امپورٹ کرتے ہیں جو کمپنیاں ادھار پر دگنی قیمت پر لے لیتی ہیں۔ کوئی کہتا کہ ملائیشیا میں پولٹری فارمز ہیں اور آسٹریلیا میں کیٹل فارمز ہیں جہاں سے بہت ایکسپورٹ ہوتی ہے۔

ایک انویسٹر کو بتایا گیا کہ اس کے پیسوں سے آلو کے تیس بورے خریدے گئے۔ کبھی 20 لاکھ کا فلیٹ 60 لاکھ میں بیچنے کا بتاتے تو کبھی گولڈ اور منرلز کا کاروبار ظاہر کیا جاتا۔ مگر بھولے بھالے انویسٹرز کو بھلا اس سے کیا غرض تھی۔ یہاں تو معتقدین آنکھیں بند کیے حضرات کا کہا مان رہے تھے۔

حقیقت میں یہ ایک ’’پونزی اسکیم‘‘ ہی تھی جس میں پیسہ نئے انویسٹر سے لے کر پرانے انویسٹرز کو دیا جا رہا تھا۔ کمیشن کی ریل پیل سے مفلوک الحال امام مسجد کے حالات بھی بدلنے لگے۔ جو بس کا کرایہ نہیں دے سکتے تھے وہ جہازوں میں سفر کرنے لگے۔ جن کے پاس سائیکل نہیں تھی وہ نئی نویلی کاروں میں گھومنے لگے۔ اب مسجدوں میں نمازیں مؤذن پڑھانے لگے تھے کیونکہ امام صاحب تو اپنے بزنس میں مصروف تھے۔

بات بہت آگے نکل چکی تھی۔ پنڈی سے شروع ہونے والا یہ دھندا کراچی تک پھیل چکا تھا۔ ملک میں شرح سود 20 فیصد سالانہ تھی مگر یہ اسکیم 60 سے 120 فیصد منافع کا لالچ دے رہی تھی۔ شروع کے چھ مہینے تو بڑی باقاعدگی سے منافع ملا مگر بعد میں کم ہوتا چلا گیا۔

نیب کے مطابق فراڈ کرنےوالے مفتی احسان الحق اور مفتی اسامہ ضیا انویسٹمنٹ پر 10 سے 20 فی صد منافع ایجنٹس کو دیتے اور مسجدوں میں بیٹھے یہ ایجنٹس کمیشن رکھ کر آدھا منافع انویسٹرز کو دے دیا کرتے۔

لوگ اندھا دھند اپنے زیورات۔ جائیداد سب بیچ باچ کر مفتی صاحبان کے پاس نوٹوں کی گڈیاں جمع کرائے جا رہے تھے۔ اور یہ سب کیش میں تھا۔ نہ کوئی اکاؤنٹ تھا نہ رسید۔ جو زیادہ ضد کرتا اسے مسجد کے چندے جیسی رسیدیں کاٹ کر تھما دی جاتیں۔

یہاں آپ کو بتاؤں کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت سورۂ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ اس میں نہ تو توحید کا ذکر ہے اور نہ شرک کا۔ بلکہ یہ طویل ترین آیت لین دین سے متعلق ہے جس میں معاملات کو لکھنے اور گواہ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ مگر ہمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے کیا تعلق۔

اب یہاں آپ کے لیے ایک سبق ہے۔

جب بھی آپ انویسٹمنٹ کریں تو اس کی لکھت پڑھت اور گواہ لازمی ہوں۔ خانانی اینڈ کالیا کی طرح سب کچھ زبانی کلامی نہیں چل رہا ہو۔ خانانی اینڈ کالیا پر رفتار کی ڈاکیومینٹری ضرور دیکھیے گا۔

تو جناب مولوی صاحبان اپنے نمازیوں کو مضاربہ کی ٹوپی پہنائے چلےجا رہے تھے۔ مگر اب اس اسکینڈل کا بلون برسٹ ہونے کا وقت نزدیک آچکا تھا۔ لوگوں کو منافع ملنے میں پہلے کچھ تاخیر ہوئی۔ پھر آہستہ آہستہ مولوی ایجنٹس غائب ہونے لگے۔ بات پھیلی تو نئی انویسمنٹ آنا رُک گئی۔ انویسٹمنٹ رکی تو پرانے انویسٹرز کو پرافٹ ملنا بھی بند ہو گیا۔ اب رقم کی واپسی کا تقاضا بھی کس سے کرتے۔ ایجنٹس تو غائب ہوچکے تھے۔

نیب کو ملک بھر سے اچانک فراڈ کی ہزاروں درخواستیں ملنا شروع ہوگئیں۔ نیب کے مطابق لال مسجد کے مفتی احسان الحق نے 280 ارب روپے، زید شاہان صدیقی المعروف سیٹھ میمن ڈیفنس والا نے 125 ارب روپے، شفیق الرحمان نے 80 ارب روپے، مفتی اسامہ ضیا نے 20 ارب روپے کا فراڈ کیا۔

نیب نے مفتی احسان الحق کو ساتھی نثار علی خان سمیت گرفتار کر لیا۔ فتویٰ جاری کرنے والے مفتی عبداللہ شوکت کو دبئی سے انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا۔

پہلا منافع وقت پر ملا لیکن دوسری قسط میں ڈیڑھ ماہ لگا گیا۔ مجھے بتایا جاتا تھا کہ سامان راستے میں ہے اور جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب منافع پھر نہیں ملا تو تھوڑا پریشان ہوا تو جواب ملا کہ اکٹھا آگے بڑی رقم مل جائے گی انتظار کر لیں۔ پھر نہ تو منافع ملا اور نہ میری اصل رقم۔ اب نہ تو امام صاحب ملتے اور نہ ہی فون اٹھاتے۔

پانچ سو ارب کے فراڈ میں سے بہت تھوڑی رقم واپس ملی۔ بیشتر انویسٹر نے تو رقم واپس ملنے کی امید ہی چھوڑ دی ہے اور بہت سے دنیا ہی چھوڑ گئے۔ مملکت خدا داد میں اے دوست ”درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری ہے۔

کسی پونزی کے فرزند کے ہاتھوں لالچ میں آکر پیسہ گنوانے سے پہلے، یہ یقین کر لیں کہ ملک میں انٹرسٹ ریٹ کیا چل رہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی جینوئن کاروبار بھی کچھ زیادہ پرافٹ آفر کر دے، مگر چند ماہ میں پیسہ ڈبل کرنے والا فراڈیا رانگ نمبر کے سوا کچھ نہیں۔ اور آواز گروپ نے تو بہت پہلے ہی ایسے لوگوں سے خبردار کر دیا تھا۔ ویسے یہ گانا لکھا کسی اور کے لیے گیا تھا جس کا انکشاف ہارون نے بہت بعد میں ایک انٹرویو میں کیا۔

انٹرویوز کے دوران مجھے ایک انویسٹر نے کہا، ’’معظم صاحب! جو پیسہ آپ کی جیب میں ہے، وہ آپ کا ہے۔ جو کسی اور کی جیب میں گیا، وہ ڈوب گیا۔‘‘ مجھے لگتا ہے ساری پونزی اسکیمز میں ایک ہی چیز کامن تھی اور وہ یہ کہ انویسٹرز نے پیسہ لگایا، دماغ نہیں۔

شیئر

جواب لکھیں