جو ٹیکس نیٹ میں نہیں، اسے باہر ہی رہنے دو۔ مگر جو پہلے سے ٹیکس دیتا ہے، اس پر مزید ٹیکس بڑھا دو۔ یہ ہے پاکستان کی ٹیکس پالیسی کا خلاصہ جس پر حکومت مستقل مزاجی سے عمل کر رہی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نشانہ بن رہی ہے ہماری سیلریڈ کلاس یعنی تنخواہ دار طبقہ۔
لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ ٹیکس دے دے کر تنخواہ دار طبقے کی ہمت بھی جواب دے گئی ہے۔ پورے ملک میں "ٹیکس کم کرو" مہم زور پکڑ رہی ہے۔ یہ مہم ایک عام احتجاج سے کہیں زیادہ ہے - یہ ایک پورے طبقے کی مایوسی اور بے چینی کا اظہار ہے۔
اس اہم موضوع پر روشنی ڈالنے کے لیے، ہم نے رفتار پوڈ کاسٹ میں ناصر حسین صاحب کو مدعو کیا، جو سیلریڈ کلاس الائنس پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ناصر صاحب نے اس مسئلے کے متعدد پہلوؤں پر بات کی، جو نہ صرف تنخواہ دار طبقے بلکہ پورے ملک کی معیشت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
ناصر حسین صاحب نے بتایا کہ کس طرح حکومت ہر سال سیلریڈ کلاس پر ٹیکس کا بوجھ بڑھاتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ ایک آسان ہدف ہے جس سے ان کے ٹیکس ریونیوز کلیکٹ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مثالوں کے ساتھ وضاحت کی کہ کس طرح مختلف آمدنی کے زمروں میں ٹیکس میں 30 سے 40 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ مالی سال پورے پاکستان سے سیلریڈ کلاس نے 368 ارب روپے کا ڈائریکٹ ٹیکس ادا کیا ہے، جبکہ ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز نے مل کر صرف 111 ارب روپے دیے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقہ کس قدر بڑا ٹیکس دہندہ ہے۔
لیکن یہ صرف اعداد و شمار کی بات نہیں ہے۔ ہمارے مہمان نے کئی اہم سوالات بھی اٹھائے جن میں سے ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ اتنا زیادہ ٹیکس دینے کے بعد، عوام کو اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ انہوں نے تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور سیکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات کی کمی کی طرف اشارہ کیا۔
یہ پوڈ کاسٹ صرف ٹیکس یا تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی حالت، حکومتی پالیسیوں، اور عام شہری کی زندگی پر ان کے اثرات کے بارے میں ایک مفصل جائزہ ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے دیے گئے ٹیکس کہاں جا رہے ہیں؟ کیوں تنخواہ دار طبقہ اتنا پریشان ہے؟ پاکستان کی ٹیکس پالیسی میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟ اس کا آپ کی روزمرہ زندگی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اور سیلریڈ کلاس الائنس کیا تجاویز پیش کر رہا ہے؟ تو یہ پوڈ کاسٹ آپ کے لیے ہے۔