ہم اپنے نیوز روم کے کاموں میں مصروف تھے۔ شام کی شفٹ کو آئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی۔ رات 9 بجے کے بلیٹن کی میٹنگ شروع ہونے والی تھی کہ اچانک کراچی بیورو سے اسائنمنٹ ایڈیٹر بھاگتا ہوا ڈائریکٹر نیوز کے کمرے میں آیا اور بولا، ’’سر! ائیرپورٹ کے قریب حامد میر کی گاڑی پر فائرنگ ہوگئی ہے اور وہ شدید زخمی ہوگئے ہیں۔‘‘ ہمارے پیروں سے زمین نکل گئی۔

ہم سب نے اپنے جرنلزم کا آغاز ہی حامد میر کو دیکھ کر کیا۔ ابھی ہم ان کے لیے پریشان تھے کہ جیو کی اسکرین پر چلنے والی بریکنگ نے ہمارے ہوش ہی اڑا دیے، حامد میر کے بھائی ان پر قاتلانہ حملے کا براہ راست الزام موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام پر لگا رہے تھے اور ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے جیو کی اسکرین دیکھ رہے تھے۔ ابھی تو حامد میر آپریشن تھیٹر سے باہر بھی نہیں آئے، اتنی جلدی اتنا بڑا الزام، اتنے خطرناک اور طاقتور آدمی پر؟ حاضر سروس ڈی جی آئی آیس آئی۔ میں نے سوچا بھئی بڑے ہی دلیر ہیں یہ جیو والے۔

ملک ریاض کی طاقت

لیکن پھر ٹھیک چھ سال بعد مئی 2020 میں ایک وڈیو وائرل ہوئی۔ وڈیو میں صاف نظر آ رہا تھا کہ ملک ریاض کی بیٹیاں اور ان کے خاندان کی کچھ اور خواتین ایکٹر عظمی خان کے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کر رہی ہیں۔ ساری دنیا جانتی تھی کہ حملہ آور کون تھا، الزام کس پر لگا۔ لیکن پہلے تو اس خبر کی کوریج جیو نیوز نے کی ہی نہیں اور ایک ہفتے بعد جب پولیس نے عظمی خان کی طرف سے پرچہ درج کر لیا تب بھی کوریج کچھ اس انداز میں کی گئی کہ ایف آئی آر میں نام صاف لکھے تھے، مگر اینکر نے نہیں لیے وڈیو میں خواتین نظر آ رہی تھیں، چہرے چھپا دیے گئے۔

جب میں نے یہ بریکنگ نیوز دیکھی تو سوچا، ‘‘باس یہ ملک ریاض تو ڈی جی آئی آیس آئی سے بھی کوئی بہت بڑی چیز ہے۔‘‘ لیکن جیو کیا چیز ہے؟ عمران خان، نواز شریف، زرادی، چودھری برادران، الطاف بھائی، ایک کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی سیاست دان ہو جس نے ملک ریاض کی شان میں کبھی کوئی گستاخی کی ہو، بوجھو تو کون؟ اگر اب بھی نہیں سمجھے تو یہ دیکھیں۔

کہا جاتا ہے 80 کی دہائی میں ملک ریاض راولپنڈی میں سائیکل پر گھومتے تھے، لیکن آج شاید وہ پاکستان کے سب سے طاقتور سویلین ہیں۔ مگر یہ وڈیو ملک ریاض پر نہیں، ان کے فلیگ شپ پراجیکٹ ’’بحریہ ٹاؤن کراچی‘‘ کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا پراجیکٹ جہاں جا کر آپ کو لگتا ہے جیسے آپ کراچی نہیں دبئی میں ہوں۔ جہاں اگر زیادہ بارش بھی ہو جائے تو زیادہ پانی نہیں آتا، کامی بھائی (کامران خان) تو اس بارے میں کئی بار ٹوئٹ بھی کر چکے ہیں۔ یہاں پارکس ہیں۔ خوبصورت مسجدیں ہیں۔ چوڑی چوڑی ہائی وے جیسے سڑکیں ہیں۔ صفائی ستھرائی ہے۔ اگر آپ کبھی رات کی فلائٹ سے کراچی آئے ہیں تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ کے کان میں لوگوں کی ایسی آوازیں نہ آئی ہوں۔

یہاں راوی چین ہی چین لکھتا نظر آتا ہے، ارے نہیں بھئی یہ والا رآوی نہیں، اصلی والا رآوی۔ لیکن اگلی بار جب آپ بحریہ ٹاؤن جائیں تو خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر ذرا غور سے سننے کی کوشش کیجئے گا۔ آپ کو اس پرسکون خاموشی میں اُن ہزاروں غریب سندھیوں کی دبی ہوئی چیخیں سنائی دیں گی، جنہیں اُن کی خاندانی زمینوں سے زبردستی اکھاڑ پھینکا گیا۔

لیکن بحریہ ٹاؤن کراچی کا ذکر ہو تو ملک ریاض کے بعد دوسرا سب سے اہم نام ہے "نذیحہ علی" کا۔ جی نہیں یہ کوئی رئیل اسٹیٹ ڈیولپر نہیں یہ پاکستان کی ایک ٹاپ انویسٹی گیٹو جرنلسٹ ہیں۔ جی ہاں، ایک تو پاکستان میں جرنلسٹ ہی نایاب ہیں اوپر سے انوسٹی گیٹو ماشاءاللہ، اللہ نظر بد سے بچائے۔ چلیے سنتے ہیں بی ٹی کے کی کہانی نزیحہ کی ہی زبانی۔

نزیحہ کہتی ہیں:

دیکھیں یہ ایسا اسٹوری ہے جسے کوئی اگنور نہیں کر سکتا سے لے کر اس پر تو مووی بن سکتی ہے، لیکن اس لینڈ اسکیم کا سرا انہیں، میرا اور میرا کولیگ پروین رحمان کے کور اپ پر کام کر رہے تھے، ہم اس ریسرچ میں وہاں گئے ، سے لے کر، اس ٹائم تک میڈیا نے کور ہی نہیں کیا تھا۔

2011 میں کراچی گینگ وار اپنے عروج پر تھی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اسمبلی میں تو ساتھ تھیں لیکن سڑکوں پر ان کے گینگز ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ لوگ لٹ رہے تھے، بھتہ دے رہے تھے، اغوا ہو رہے تھے، مر رہے تھے لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ایسی صورت حال میں بالآخر سپریم کورٹ نے کراچی کی تباہی کا نوٹس لے ہی لیا۔ بیس سالوں سے امن قائم کرنے لیے شہر میں بیٹھے رینجرز افسران نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی کے حالات وزیرستان سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ شہر میں فساد کی ایک بہت بڑی وجہ لینڈ گریبنگ ہے۔

نزیحہ کہتی ہیں:

تو نومبر 2012 میں سپریم کورٹ نے میوٹیشنز پر پابندی لگا دی۔

یہ خبر بحریہ ٹاؤن مینجمنٹ کے لیے شاکنگ تھی۔ کیوں کہ وہ اور ان کے سندھ کے لوکل پارٹنرز منصوبے کی مکمل تیاری کر چکے تھے۔ مگر وہ کہتے ہیں نا ہمارے سندھ میں ہر دو نمبر کام نمبر ون طریقے سے کیا جاتا ہے، تو اس الو کو سیدھا کرنے کا بھی طریقہ ڈھونڈ لیا گیا۔

اور پھر 21 مارچ 2019 کو فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن پر 460 ارب روپے کا جرمانہ کر دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ تھا۔ سیٹلمنٹ کے تحت بحریہ ٹاؤن کو اگلے سات سالوں تک ہر مہینے ڈھائی ارب روپے کی قسط سرکاری خزانے میں جمع کرانی تھی۔ لیکن ساتھ ہی نیب کو ان سات سال کے دوران بحریہ ٹاؤن کراچی یا اس کیس میں انوولوڈ کسی بھی کیرکٹر کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے سے بھی روک دیا گیا۔

خیر ستمبر 2023 کی سماعت میں قاضی فائز عیسی نے بحریہ ٹاؤن کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے نہ صرف فوری طور پر جرمانہ دینے کا حکم دیا بلکہ بیس لاکھ مزید جرمانہ بھی کر دیا۔ لیکن اسی کیس کے دوران ایک اور انٹرسٹنگ ڈیولپمنٹ بھی ہوئی جس نے عمران خان کے خلاف بننے والے 160 ملین پاونڈ کیس سے ہوا نکال دی۔ یہ کہانی ابراہیم سے سنتے ہیں۔

ابراہیم کہتے ہیں:

دیکھیں آپ نے یہی سنا ہوگا نا کہ، بلکہ چھوڑیں، رانا ثنا اللہ سے سن لیتے ہیں۔

ان شارٹ پی ڈی ایم حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ برطانیہ نے ملک ریاض سے ضبط کیے ہوئے 190 ملین پاونڈ جس کی اس وقت مالیت تقریباً 40 ارب روپے بنتی تھی ،پاکستان بھیجے جسے عمران خان کی حکومت نے سرکاری خزانے کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے جرمانوں کی مد میں ایڈجسٹ کروا دیا اور پھر اس فیور کا بدلہ القادر ٹرسٹ کے نام زمینیں کروا کر لیا۔ لیکن قاضی فائز عیسی اپنے فیصلے میں یہ بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو 10 مختلف ٹرانزیکشنز میں تقریبا 170 ملین پاونڈ کی رقم موصول تو ہوئی لیکن ان میں سے کوئی بھی ٹرانزیکشن برطانوی حکومت کی جانب سے نہیں تھی بلکہ ان 10 میں سے صرف تین ریمٹینسز برطانیہ سے آئیں باقی ساری ٹرانزیکشن دبئی کے مختلف اکاونٹس سے پاکستان آئیں اور ان کے بھیجنے والے بھی ملک ریاض کے خاندان کے مختلف لوگ تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ پیسے ملک ریاض نے خود ہی پاکستان بھیجے تو پھر عمران خان پر کیا الزام لیکن ایک اور سوال بھی ہے جب پیسے ملک ریاض نے خود بھیجے تو پھر عمران خان نے کابینہ سے خفیہ اپروول کس بات کی لی؟ خیر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ، بیک ٹو اسٹوری۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن پر تاریخی جرمانہ ہوگیا۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ انف نہیں۔ چلیں جیسا تیسا سہی بحریہ ٹاؤن پر جرمانہ تو ہوگیا۔ لیکن ایس ایس پی راو انوار سے لے کر سی ایم مراد علی شاہ تک سندھ کے حکومتی سہولت کاروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، کیا واقعی اتنا بڑا منصوبہ، ،زمین پر اتنا بڑا قبضہ بغیر کسی حکومتی مدد کے ہو سکتا تھا؟

خیر بحریہ ٹاؤن کے کچھ متاثرین تو وہ تھے جن کو اپنی موروثی زمینوں سے زبردستی بے دخل کر کے یہ نیا دبئی بسایا گیا تھا لیکن دوسری سائڈ پر وہ افیکٹیز بھی تھے جنہیں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے خلائی یا ہوائی پلاٹ بیچ ڈالے۔ یعنی ایسے پلاٹ جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ لوگوں نے احتجاج کیا۔

لیکن ایک ایسے زمانے میں جب ملک ریاض کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی نے متاثرین کا جھنڈا اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر کیا تھا جس ملک ریاض کے دروازے پر بڑے بڑے لوگ حاضری لگاتے تھے خود چل کر ادارہ نور حق پہنچ گئے۔ ویسے تو ہمارے حافظ جی بڑے سخت آدمی ہیں لیکن ملک ریاض کو اپنے گھر پر دیکھ کر پگھل گئے۔ آج اس معاہدے کو تین سال گزر گئے لیکن اب بھی سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس بحریہ ٹاؤن کی فایلیں تو ہیں لیکن پلاٹ زمین پر نہیں بلکہ خوابوں میں موجود ہیں۔

بحریہ ٹاؤن تو انٹرنینشل اسٹوری بنا لیکن پچھلے پندرہ سالوں میں مین لینڈ کراچی میں گلشن، نارتھ ناظم ، کورنگی، فیڈرل بی ایریا، ملیر سمیت تقریباً سارے ہی علاقوں میں لینڈ گریبنگ اور چاینا کٹنگ کی اتنی داستانیں ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی آ جائے گی لیکن داستانیں ختم نہیں ہوں گی۔ آپ نے کاکا کا نام تو سنا ہی ہوگا، ارے بھائی اپنے زرداری سسٹم والا منظور کاکا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کراچی میں ہی کیوں ہوتا ہے اور آخر کب تک ہوتا رہے گا؟

بحریہ ٹاؤن کراچی ایک ہاؤسنگ پراجیکٹ نہیں ایک ایسا مورل ڈیلیما ہے جس کا جواب ہمارے پاس موجود نہیں۔ آپ نے کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے والی باتیں تو سنی ہی ہوں گی۔ یہاں بھی کچھ ایسا مسئلہ ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یار جیسے بھی زمین پکڑی، یہ دیکھو بنایا کیسا شاندار ہے۔ لوگ ملک ریاض کے سو خون معاف کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے؟

کیا صرف مقصد کا حصول ضروری ہوتا ہے؟ کیا یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ منزل تک پہنچے کیسے؟ صرف شاندار گھر اور گاڑی دیکھنی چاہیے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ یہ پیسا آیا کہاں سے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کی پلاننگ اور مینجمنٹ بہت شاندار ہے لیکن اللہ بھٹو کو حیاتی دے، کراچی کا اتنا بیڑا غرق کیا جا چکا ہے کہ اب تو شاید حیدر آباد بھی بہتر لگنے لگے۔

آج ملک ریاض زندگی کے ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، ہو سکتا ہے کچھ دن بعد اُن کی یہ مشکلات دور ہو جائیں۔ میں تو بس یہ کہتا ہوں، نفرت کھیل سے ہونی چاہیے کھلاڑیوں سے نہیں اور ملک ریاض اور ان جیسے ہزاروں کردار اس گندے کھیل اور نظام کی پیداوار ہیں جس میں ایمانداری، میرٹ اور انصاف نام کے کوئی اصول نہیں، وہاں صرف ایک کرنسی ہے ایک معیار ہے، طاقت۔

شیئر

جواب لکھیں