یہ لاہور میں ایک معمول کا دن تھا۔ وہ اڈے پر موجود اپنے کمرے میں کھاتوں سے بھری میز لیے بیٹھا تھا۔ اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ موت اسے تلاش کرتے کرتے سر پر آن پہنچی تھی۔ بدترین دشمن چند فٹ کے فاصلے پر اسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ سرخ آنکھیں، بکھرے بال اور ہاتھ میں ہتھیار لیے کوئی اس کی جان کے پیچھے تھا۔

موت کو یوں آتا دیکھ کر وہ دہل گیا۔ لیکن اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے ایک دم اٹھا اور گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح کمرے سے باہر نکل گیا۔ ہر طرف گولیوں کی بو چھاڑ تھی۔ اپنے ڈیرے پر دشمن کی یلغار کا غصہ تو اسے بہت تھا۔ مگر یہ وقت جوش کا نہیں، ہوش کا تھا۔ چھپتا چھپاتا، دشمن کی گولیاں سے بچتا وہ ایک ٹرک کے پیچھے جا چھپا۔

ابھی اس کی سانسیں بحال نہ ہوئی تھیں کہ اسے نزدیک ہی قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو اس کا ننھا سا بیٹا اِردگرد سے بے خبر کھیلتا ہوا اس کی جانب آ رہا تھا۔ اس کے پاوں جم گئے، کانپتے ہاتھوں سے اس نے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا۔ اس کا بدترین دشمن، اس کے خون کا پیاسا۔ چند گز دور بندوق تانے کھڑا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور دل میں سوچا کہ کاش یہ مجھے مار دے لیکن میرے بیٹے کو چھوڑ دے۔ ’’تمہاری دشمنی مجھ سے ہے، اسے چھوڑ دو!‘‘۔ وہ پوری طاقت سے چلایا اور گولی کا انتظار کرنے لگا۔

لمحے صدیوں پر بھاری ہوتے چلے گئے اور پھر سناٹے میں ایک زور دار فائر ہوا۔ لیکن گولی کسی کو نہیں لگی تھی۔ ابھی وہ پریشانی میں ہی تھا کہ ایک آواز گونجی، ’’ٹیپو، ہم بچوں کو نہیں مارا کرتے‘‘۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو ایک ہیولا جاتا دکھائی دیا۔ اس کی جان ایک بار پھر بچ گئی تھی۔ وہ کون تھا؟ وہ کیوں اس کے پیچھے پڑا تھے؟ یہ آج ہم آپ کو تفصیل سے بتائیں گے۔

پہلوان، ٹرک اور انڈر ورلڈ

‏1857 کے غدر کے بعد لاہور شہر میں اب بد معاشوں اور ٹھگوں کا راج ہے۔ سکھا شاہی اور مغل راج دونوں ختم ہو چکے ہیں۔ ہر علاقے کا بڑا بد معاش ’’پہلوان‘‘ کہلاتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ 1950 کے لاہور میں نتھو نامی کوچوان کا بڑا چرچا ہے۔ وہ کہنے کو تو صرف تانگہ چلاتا ہے، مگر پہلوان جیسی جسامت سے سب ہی سہمے رہتے ہیں۔ وہ اکثر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا ہے اور اس کا کیا فیصلہ سبھی کو ماننا پڑتا ہے۔ بعض فیصلوں نے لوگوں کو اس کا جانی دشمن بنا دیا ہے۔

ایک دن نتھو شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد کے لیے نکلا۔ ابھی کچھ دور چلا تھا کہ یکایک کسی نے اس پر خنجر سے حملہ کر دیا۔ پے در پے وار سے نتھو نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا اور وہیں تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔

نتھو کو دنیا سے گئے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ اس کی گدی بیٹے نے سنبھال لی، امیر الدین عرف بلّا۔ وہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے تھا۔ اپنا زور بڑھانے کے لیے بلّے نے پولیس افسروں اور با اثر لوگوں سے دوستیاں شروع کر دیں۔

شہزاد بٹ کہتے ہیں کہ پیسہ، قبضے، دکانیں یہ ساری باتیں جو ہے ناں، یہ پہلوانوں کا ٹچ ہے۔ ان کی ڈیروں پر آ کے پنچائتیں ہوتی ہیں۔ ’’باؤ جی میرا بیس لاکھ اس نے پکڑ لیا ہے وہ نہیں دے رہا۔‘‘ اب باؤ اگر لے کے نہیں دے گا، تو پھر باؤ ’’باؤ‘‘ کہاں کا ہے؟

بلّا کنجوس نہ تھا، پیسہ پانی کی طرح بہاتا۔ شالمی مارکیٹ میں اس کے خاندان کی دھاک پہلے ہی سے تھی۔ بلّا نے یہاں ٹرک اڈے کا کام شروع کیا جو پھیلتا چلا گیا۔ یہیں سے اس کا نام پڑ گیا بلّا ٹرکاں والا۔

بلّا ٹرکاں والا

شہزاد بٹ، بلّا ٹرکاں والا کا تعارف یوں کرواتے ہیں:

امیر الدین عرف بلّا ٹرکاں والا نے ساری زندگی پستول اپنی جیب میں نہیں رکھا۔ وہ اس کا سٹائل ہی نہیں تھا۔ کاروباری آدمی نہیں تھا۔ وہ تو یہ تھا، ٹیلی فون پر بیٹھ کر اس کو اٹھا لو، اس کو پکڑ لو، اس کو اندر ڈلوا دو۔

لیکن یہ کہانی بلّے کی نہیں اس کے بیٹے کی ہے جسے دنیا ’’ٹیپو ٹرکاں والا‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ٹرکاں والا خاندان کشمیری ہے جس میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں۔ ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بڑا کاروبار ہے۔ پورے ملک میں ان کے سینکڑوں ٹرکس سامان لیے پھرتے ہیں۔ ٹرکاں والا کا ڈیرا کیسے اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ بنا؟ زمینوں پر قبضے سے لے کر قتل تک، جرائم کا کاروبار کیسے پنپتا گیا؟ یہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔

چار یار

ہاں تو بات ہو رہی تھی بلّا ٹرکاں والا کی، جس نے تین دوستوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ یہ دوست تھے:

  1. الیاس جٹ جوٹی والا: جو فیصل آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کا رکن اسمبلی تھا۔
  2. پیلا پہلوان: جو سونے کے اسمگلروں میں ڈان مشہور تھا اور صوبائی اسمبلی کا رکن بھی تھا۔
  3. ایس پی امان اللہ: بندے پھڑکانے میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔

یہ سب شاہ عالم چوک پر بلّا ٹرکاں والا کے ڈیرے پر روز محفل لگاتے۔ جی این این نیوز کے بیورو چیف شہزاد بٹ بتاتے ہیں:

ایک نام تھا ایس پی امان اللہ، وہ بات بعد میں کرتا تھا بندہ پہلے فارغ کر دیتا تھا۔ وہ بھی بلّا ٹرکوں والا کا دوست تھا۔ اب چار دوست بن گئے یعنی الیاس فیصل آباد ایک، پیلا پہلوان دو، امیر الدین عرف بلّا ٹرکوں والا تین اور ایس پی امان اللہ چار۔ یعنی پولس بھی آگئی اور پہلوانی بھی آگئی۔ اب انہوں نے پنجاب پر حکومت شروع کر دی۔

اب بلّا لاہور انڈر ورلڈ کا بادشاہ بن چکا تھا۔ ہر گینگ اور ہر اشتہاری اس کی پہنچ میں تھا۔ شفیق عرف بابا، حنیف عرف حنیفا، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بد معاش اس کی مٹھی میں تھے۔

ہم نیوز کے بیورو چیف شیراز حسنات کہتے ہیں:

جس طرح ٹیپو، بلّے ٹرکاں والا کا اصل حقیقی بیٹا تھا، اسی طرح جو ایک گینگسٹر تھے حنیفا اور بابا جو دونوں سگے بھائی تھے، بلّا ان کو بھی اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اور وہ اسی طرح پلے بڑے جیسے ٹیپو پلا بڑا۔

ایک اشارے پر یہ لوگ وہ کچھ کر گزرتے۔ کہ علاقے میں بلّے کی دھاک بیٹھ جاتی۔ جی ہاں! بابا اور حنیفا، ٹیپو کے پکے یار تھے۔ بلّا ٹرکاں والے کی سرپرستی میں یہ دونوں بھائی علاقے میں چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کیا کرتے۔ ایک روز دونوں نے اکبری گیٹ کے ایک رہائشی امیر الدین تاراں والا کو دو ساتھیوں سمیت قتل کر دیا۔ مقدمہ ہوا تو بابا اور حنیفا کے ساتھ بلّے کا بیٹا، ٹیپو ٹرکاں والا بھی نامزد تھا۔

بلّے نے کمال ہوشیاری سے اپنے بیٹے کا نام پرچے سے نکلوا دیا۔ بابا اور حنیفا سے کہا کہ وہ ابھی جرم قبول کر لیں، بہت جلد انہیں جیل سے چھڑا لیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بابا اور حنیفا کو سات سال قید ہو گئی!

نفرت میں بدلتی دوستی

یہاں انٹری ہوتی ہے گوال منڈی کے طیفی بٹ اور گوگی بٹ کی۔ جو ٹرکاں والا خاندان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

مشہور ہے کہ دونوں نے جیل میں بابا اور حنیفا کو بلّے کے خلاف خوب بھڑکایا۔ دونوں کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح اتار دی کہ بلّے نے اپنے بیٹے کو تو بچا لیا۔ مگر تمہیں جیل میں سڑتا چھوڑ دیا۔

شیراز حسنات نے اس بارے میں بتایا:

فیملی یہ سمجھتی تھی کہ گوگی اور طیفی اس کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ جنہوں نے حنیفا اور بابا کو بھڑکایا کہ دیکھو اگر تم اس کے حقیقی بچے ہوتے تو وہ ٹیپو کی طرح تمہیں پروٹیکٹ کرتا۔ ٹیپو نے بندہ قتل کیا تم نے نہیں کیا تو ٹیپو جیل نہیں گیا تمہیں اس نے جیل بھیج دیا۔ لہٰذا تم اس کے اصل بچے تو نہ ہوئے پھر تم میں اور ٹیپو میں فرق ہے۔

دھندا ہے پر گندا ہے

پنجاب سمیت ملک بھر سے آئے سامان کا لین دین اندرون لاہور کے بازاروں میں ہوتا۔ اور ان بازاروں کے عین سامنے تھا بلّا ٹرکاں والا کا گڈز ٹرانسپورٹ کا اڈہ۔ بات ذاتی دشمنی سے بڑھ کر منڈیوں پر کنٹرول اور دھاک بٹھانے تک پہنچ چکی تھی۔ گوال منڈی کے طیفی اور گوگی بٹ، بلّا ٹرکاں والے کے سامنے بچے تھے، مگر یہ بات انہیں قبول نہ تھی۔

طیفی اور گوگی نے سامنے آئے بغیر بلّے کا پتّا صاف کرنے کی ٹھانی اور مہرے بنے نفرت کی آگ میں جلتے بابا اور حنیفا۔

جیل سے آزادی ملتے ہی بابا اور حنیفا کے سر پر ایک بھوت سوار ہو گیا۔ وہ ہر قیمت پر بلّا اور ٹیپو سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ طیفی اور گوگی تو ہم خیال تھے ہی، بھولا سنیارا جیسا خطرناک گروہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ بابا اور حنیفا کو بس ایک موقع کی تلاش تھی اور وہ موقع ہاتھ آ ہی گیا۔

1994 کی ایک صبح جب بلّا اپنے اڈے پر نمازِ فجر کی تیاری کر رہا تھا، گھات لگائے بابا اور حنیفا نے اچانک گولیوں کی برسات کر دی۔ بلّا ٹرکاں والا کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ اپنے اڈے پر ہی قتل ہو گیا۔

یہاں شروع ہوتی ہے لاہور انڈر ورلڈ کی وہ کہانی، جس نے لاہور میں خونی دشمنی کا بازار گرم کر دیا۔

ٹرکاں والا کی ٹکر

باپ کی موت نے ٹیپو کو زخمی شیر بنا دیا۔ اس نے باپ کے ڈیرے کو قلعہ بنا کر دشمنی کا جواب دشمنی سے دینا شروع کیا۔ اس کے ڈیرے پر درجنوں محافظ ہر وقت آٹو میٹک ہتھیار لیے موجود رہتے۔ ٹیپو ٹرکاں والا ایک پہلوان، گینگسٹر اور شیروں کا شوقین تھا۔ اپنے ڈیرے پر بھی اس نے دس شیر پال رکھے تھے۔

شیراز حسنات اس بارے میں کہتے ہیں:

ٹیپو بہت تیز دماغ کا شخص تھا اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات سے مکمل آگاہ تھا۔ ٹیپو چونکہ بالکل ان پڑھ تھا تو اس نے ایک بندہ ملازم رکھا ہوا تھا اخبار پڑھنے کے لیے۔

بلّا ٹرکاں والا کے قتل کے بعد دشمنی کی دہکتی آگ نے کئی گھرانوں کے چراغ گُل کیے۔ آتشی بندوقیں جب کبھی ٹھنڈی ہوتیں تو سینوں میں سلگتی نفرت انہیں پھر سے بھڑکا دیتی۔

جہاں پہلے بلّا ٹرکاں والا کا رعب اور دبدبہ ہوا کرتا تھا، وہاں اب باقاعدہ گینگ وار شروع ہو چکی تھی۔ ہمایوں گجر، ناجی بٹ، مناظر شاہ، داؤد ناصر، ثنا گجر اور پنجاب کے کئی اور نامور اشتہاری ایک ایک کر کے طیفی بٹ سے جا ملے تھے۔ حنیفا اور بابا جو کبھی ٹیپو کی طاقت ہوا کرتے تھے، وہ پہلے ہی طیفی کی صفوں میں تھے۔ ٹیپو ان سب سے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھا۔

یہاں ٹیپو نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ نعیم اور قیصر طیفی گروپ میں ٹیپو کے لیے کام کرنے لگے۔ بھولا سنیارا گروپ کے بھی کئی لوگ پیسے لے کر ٹیپو کے لیے مخبری کیا کرتے۔

شیراز حسنات بتاتے ہیں:

جو لوکل گینگسٹر تھے، جو اس علاقے میں خاص طور پر بہت سٹی میں بہت پنپ رہے تھے۔ اسوڈنٹ لیڈرز بڑے پنپ رہے تھے۔ یہ دونوں ان کے ساتھ اپنے آپ کو انٹرلنگ کرتے تھے۔ ان کو اپنی طرف توڑتے تھے کیونکہ وہ ان کی گرفت بڑھتی تھی کہ جی فلاں فلاں اس کے گینگ میں، گروپ میں شامل ہو گیا، فلاں اس کے گینگ میں شامل ہو گیا۔ پھر اس کا ملنا ملانا بہت تھا۔ وقت جتنے بھی بڑے سے بڑے پولیس آفیسرز تھے، خاص طور پر جو رینکرز پولیس آفیسرز تھے، ان کا بڑا رول رہا اس ساری لڑائی میں۔ وہ بہت آ کے بیٹھتے تھے دونوں طرف۔ تو دونوں طرف کے لوگ پہلے بلّے کے ساتھ بیٹھتے تھے، بلّے کے بعد وہ اٹیچ ہوئے ٹیپو کے ساتھ اور وہ ٹیپو کے ساتھ سارا ان کا ملنا ملانا۔

ٹیپو نے اپنے باپ سے ایک ہی بات سیکھی تھی، دھاک بٹھاؤ اور سامنے آئے بغیر کام نکلواتے جاؤ۔ باپ کا انداز اپناتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کو مروانا شروع کر دیا۔ اس کام کے لیے ٹیپو نے کرائے کے قاتلوں اور پولیس مقابلوں کا سہارا لیا۔

ٹیپو ٹرکاں والا آن فائر

ٹیپو، بلّا ٹرکاں والا سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ پہلے اس نے بھولا سنیارا کو جمرود میں مخبری کر کے مروایا۔ پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر جیسے غدار بھی مارے گئے۔ انسپکٹر نوید نے شاہدرہ میں پولیس مقابلے کر کے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ ٹیپو نے نہ تو طیفی بٹ کے داؤد ناصر کو چھوڑا اور نہ ہی ثناء گجر کو۔ اگلی باری لبا موٹی والا اور کالیا کی تھی۔ ایک ایک کر کے سب خاک اور خون میں تڑپتے دکھائی دیے۔ نوے کی دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں ٹیپو ٹرکاں والا خوف اور دہشت کی علامت بن چکا تھا۔

طیفی بٹ بھی موت بانٹنے کے کھیل میں ٹیپو سے پیچھے نہ تھا۔ دشمنی کی آگ میں دونوں گروہوں نے کروڑوں روپے جھونک ڈالے۔ ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک، پولیس کا ہر فرد اس لڑائی کا حصہ بنتا چلا گیا اور پورا شہر جلنے لگا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انسپکٹر عابد باکسر کے پولیس مقابلے شہ سرخیوں کی زینت بنتے۔ اشتہاری ایک ایک کر کے ختم ہوئے تو ٹیپو اور طیفی نے ایک دوسرے پر مقدمہ کرنا شروع کر دیا۔

کہتے ہیں دشمن داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ٹیپو اور طیفی کی دشمنی سے ان کی خواتین اب تک بچی ہوئی تھیں۔ مگر ایک روز ٹیپو نے ریڈ لائن کراس کر لی۔ پولیس میں ایک دوست کے ذریعے اس نے حنیفا اور بابا کی خواتین کو اٹھوا لیا۔

شہزاد بٹ بتاتے ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ ان کے ہاتھوں کبھی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ہوا ہو، لیکن اگر ان کی خواتین کو ٹچ کیا جائے تو یہ پاگل ہو جاتے ہیں۔

حنیفا اور بابا، اپنی خواتین پر آنچ آتی دیکھ کر غصے سے پاگل ہو گئے۔ اب دونوں نے باپ کے بعد بیٹے کو سبق سکھانے کی ٹھانی۔ 2003 میں ٹیپو پیشی پر آیا تو لاہور کچہری کے باہر اس پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ حملہ مبین بٹ کے ذریعے کیا گیا جس میں ٹیپو کے پانچ گارڈز مارے گئے اور وہ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ واقعے کا مقدمہ طیفی اور گوگی بٹ پر درج ہوا۔ حنیفا اور بابا نے ٹیپو پر کئی قاتلانہ حملے کروائے مگر وہ ہر بار بچ نکلا۔

2003 کے حملے میں بال بال بچنے کے بعد ٹیپو کو اپنے بچوں کی فکر تھی۔ خاندان کو دبئی شفٹ کروا کر وہ خود بھی کچھ عرصے کے لیے ملک چھوڑ گیا اور دبئی میں ایک ہوٹل خرید لیا۔ تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو ملک سے باہر پڑھایا۔

ٹیپو ٹرکاں والا کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ اس کے سینکڑوں ٹرک تھے اور لاہور میں اربوں روپے کی پراپرٹی تھی۔ یہ سب چھوڑنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ اسی لیے وہ دبئی میں زیادہ عرصے نہ ٹھیر سکا۔ پھر یوں ہونے لگا کہ وہ فیملی سے مل کر کچھ عرصے بعد واپس لاہور آ جاتا۔

22 جنوری 2010 کی ایک خون جمانے والی رات تھی۔ ٹیپو دبئی سے لاہور جانے والی پرواز میں بیٹھا تھا۔ اور کوئی اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ لاہور میں پانچ بہترین نشانہ بازوں کو ایک ہائی پروفائل قتل کی سپاری دی گئی۔ جب انہیں ٹیپو کا نام بتایا گیا تو وہ تھر تھر کانپنے لگے، اور چار نے ہاتھ جوڑ لیے۔ لیکن پانچویں نشانے باز خرم اعجاز بٹ نے ٹیپو کو تنہا مارنے کی حامی بھر لی۔ خرم کا بھائی ٹیپو کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا تھا اور وہ ہر قیمت پر بھائی کا انتقام لینا چاہتا تھا۔

ائیر پورٹ میں اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن خرم کو ایئر پورٹ کے اندر پستول پہنچا دیا گیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیپو کے بارے میں ساری انفارمیشن آخر کون دے رہا تھا؟ یہ کام انجام دیا ایک رقاصہ نے، جس کی مخبری ٹیپو کو موت کی دہلیز تک لے آئی۔

ٹیپو ٹرکاں والا اڑتالیس گھنٹے میو اسپتال میں موت سے لڑتا رہا، اور پھر یہ جنگ ہار گیا۔ جان چلی گئی لیکن دشمنی ابھی باقی تھی۔ ٹیپو جاتے جاتے، اپنے باپ کے قتل سے شروع ہونے والی 16 سالہ دشمنی اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے امیر بالاج کو ورثے میں دے گیا۔

بالاج نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ دبئی میں گزارا تھا جہاں وہ اور اس کے بہن بھائی بہترین اسکولز میں پڑھتے تھے۔ باپ کے قتل کے بعد اب بالاج کو ’’ڈیرا‘‘ سنبھالنا تھا۔ مگر وہ اپنے خاندان کو ورثے میں ملی دشمنیاں ختم کرنا چاہتا تھا۔

ٹیپو کے بعد بندوقیں کچھ عرصہ خاموش رہیں مگر دشمنی کا الاؤ ٹھنڈا نہ ہو سکا۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا باپ قتل ہو گیا اور دشمنی کا ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا، میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔ بالاج جب بھی دشمنی ختم کرنے کی بات کرتا، کوئی نہ کوئی سامنے آ کر اسے اپنے رشتہ دار کا خون یاد دلا دیتا۔

ادھر طیفی بٹ گینگ کو یہ خطرہ تھا کہ بالاج ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ ٹیپو کا بیٹا دشمنی ختم کرنے میں مخلص ہو سکتا ہے۔ 2016 میں بٹ گینگ نے زمینوں پر قبضہ کیا تو بالاج دیوار بن گیا۔ یہاں اسے پیغام دیا گیا کہ اگر وہ راستے سے نہ ہٹا تو باپ کی طرح اس کا پتّا بھی صاف کر دیا جائے گا۔

ٹیپو کے جواں سال سپوت کی جان مسلسل خطرے میں تھی۔ بالاج اگر اپنے ’’ڈیرے‘‘ کی چار دیواری چھوڑ کر کہیں نکلتا، تو اسلحے سے لیس محافظوں کا قافلہ اس کے آگے پیچھے ہوتا۔ لیکن یہ قلعے جیسا ڈیرا اور محافظوں کا ٹولہ نہ تو دادا کی جان بچا سکے، نہ ہی باپ کی۔ ٹرکاں والا خاندان کے نصیب میں اب ایک اور موت لکھی تھی۔

19فروری 2024، لاہور کی ایک نجی سوسائٹی میں عظیم الشان تقریب جاری ہے۔ ڈی ایس پی اکبر کے گھر کی شادی کے لیے راستے پر جگہ جگہ پولیس والے کھڑے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کو دو سیکیورٹی لیئرز سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسلحہ تو دور، یہاں سوئی لانے کی بھی اجازت نہیں۔ تقریب میں ایک فوٹوگرافر کافی دیر سے لوگوں کی تصویریں اتار رہا ہے۔ وہ کبھی اسٹیج تو کبھی میز کے اِردگرد مہمانوں کے پاس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کی نظریں بار بار اینٹرنس گیٹ پر اٹھتی ہیں، جیسے وہ کسی کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا ہو۔

اتوار کی شام گہری ہو چکی ہے، سب مہمان آ چکے ہیں، لیکن ڈی ایس پی اکبر کو تو بس اپنے عزیز دوست کا انتظار ہے۔ بالاج اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ڈیرے سے نکل چکا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے اس کے آنے جانے پر کسی کر کڑی نظر ہے۔ خون کا پیاسا دشمن ایک ایک لمحے کی رپورٹ لے رہا ہے۔ بندوق بردار محافظوں سے لدی گاڑیاں امیر بالاج کو لیے اڑتی ہوئی اپنی منزل تک آ پہنچیں۔

امیر بالاج شہزادوں کی طرح محافظوں کے جھرمٹ میں نمودار ہوا، تو ایسا لگا جیسے صرف ڈی ایس پی اکبر ہی نہیں۔ سبھی اس کے انتظار میں تھے۔ کون ہوگا جو ٹیپو ٹرکاں والا اور اس کے بیٹے کو نہ جانتا ہو۔ امیر بالاج ہاتھ ملاتا آگے بڑھنے لگا۔ فوٹوگرافر بھی تصویر لینے پہنچ چکا تھا۔ وہ کئی بار امیر بالاج کے نزدیک ہونے کی کوشش کرتا مگر گارڈز اسے پیچھے دھکیل دیتے۔ آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ بالاج بالکل سامنے تھا جو فوٹوگرافر کی موجودگی سے بے خبر دوستوں سے ملنے میں مصروف تھا۔ اچانک فوٹوگرافر نے کیمرا پھینک کر اپنے لباس سے ایک پستول نکالی۔

محافظوں نے پہلا فائر سنتے ہی جواباً گولیوں کی بو چھاڑ کر دی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ چار گولیاں امیر بالاج کے جسم کو چھلنی کر چکی تھیں۔ کچھ ہی لمحوں میں دو بے جان لاشیں زمین پر پڑی تھیں جن کے خون سے سارا کارپٹ سرخ ہو چکا تھا۔

بٹ اور ٹرکاں والا کی یہ دشمنی چالیس سال پرانی ہے۔ اس دوران تین نسلیں گزریں اور سینکڑوں افراد دشمنی کی آگ میں جل گئے۔ بلّا سے بالاج تک اس لڑائی میں زیادہ نقصان ٹرکاں والا فیملی نے اٹھایا۔ امیر بالاج صلح چاہتا تھا، لیکن مارا گیا۔ بالاج کے بھائی بھی دشمنی جاری رکھنے کے حق میں نہیں۔

ہو سکتا ہے بالاج کے خون کے ساتھ ہی برسوں پرانی دشمنی کا ڈراپ سین ہو چکا ہو۔ لیکن لاہور میں جرائم کی دنیا اب بھی موجود ہے۔ کئی گینگسٹرز آج بھی بٹ اور ٹرکاں والا کی جگہ لینے کے لیے بے چین ہیں۔ اور انہیں قابو کرنے والا، کوئی نہیں۔

شیئر

جواب لکھیں