اِس امریکی ایجنٹ کی کہانی تو آپ نے سُن لی تھی۔ لیکن آج جس کی کہانی میں آپ کو سنانے جار ہا ہوں۔ اس نے بھی امریکہ، ہندوستان اور برطانوی راج کو ہلا کر رکھ دیا، کوئی اُسے برٹش ایم آئی سکس کا ایجنٹ کہتا، تو کوئی آئی ایس آئی کا، کوئی جہادی کہتا، تو کوئی فسادی، کوئی لیڈر مانتا، تو کوئی گھاٹ لگا کر شکار کرنے والا بھیڑیا پیدا وہ برطانیہ میں ہوا، مگر ہے پاکستانی، انگریزی فرفر بولتا ہے، مگر گوروں کا وہ دشمن ہے، ہتھیار چلانا جانتا ہے، مگر لڑتا دماغ سے ہے، کُل ملا کر بولیں تو سو انٹیلی جنٹ، سو بریلینٹ، سو کلیور، بٹ ہی از جسٹ لائیک آ بم، تو کون ہے وہ؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں کراچی کے علاقے گڈاپ چلنا ہوگا۔
17 مئی 2002
کراچی پولیس ایک قبر کو گھیرے کھڑی ہے، یہاں ایک ایسی لاش ملی ہے، جس کا سر تَن سے جدا ہے اور تن بھی نو ٹکڑوں میں ہے، یہ ایسی لاش ہے، جس نے کراچی سے اسلام آباد، ، اسلام آباد سے واشنگٹن، واشنگٹن سے لنڈناور لنڈن سے اسرائیل، سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے، کیونکہ یہ لاش ہے، ایک امریکی صحافی کی، مگر تھا وہ یہودی، سمجھا اسے برطانوی ایجنسی کا ایجنٹ گیا تھا، جی ہاں! ڈینیل پرل۔
16 سال بعد 26 نومبر 2008
اُدھر ممبئی کی عمارت میں دھماکوں کی گونج ہے اور اِدھر پاکستان کے ایوان صدر میں فون کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بتایا گیا کہ آپ سے ہندوستان کے وزیر خارجہ پرناب مکھر جی بات کرنا چاہتے ہیں، زرداری نے ہیلو کہا، تو دوسری طرف سے آنے والی آواز میں غصہ اور گرج تھی، زرداری سے کہا آپ نے جو کرنا تھا کرلیا، اب جنگ کے لیے تیار ہوجائیں، ہماری فوج چڑھائی کرنے والی ہے، پھر یہی کال اُسوقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی کی گئی۔
اب پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے تیاری پکڑلی، سرحد پر ہلچل دیکھ کر ہندوستانی فوج میں بھی ٹنشن بڑھ گئی، دونوں طرف ماحول بگڑ گیا، جنگ شروع ہونے والی تھی کہ اگلے ہی گھنٹے میں پتہ لگا کہ یہ کال بھارتی وزیرخارجہ کی نہیں تھی بلکہ ایک برطانوی نمبر سے کی گئی، تو کس نے کی تھی یہ کال؟ وہ تھا امریکی جرنلسٹ پَرل کے قتل کے الزام میں حیدرآباد جیل میں بیٹھا، احمد عمر سعید شیخ
صحافی فیض اللہ خان کہتے ہیں:
ادارے بار بار چکر لگارہے تھے مگر جیل کے پاس آکر رک جاتے۔
جیسا کہ آج مشرق وسطیٰ میں مسلمان، یہود اور عیسائیوں کے زیر اعتاب ہیں، فلسطینیوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے، اسی طرح اُس وقت بوسنیا کے مسلمانوں کو سَرب عیسائی چُن چُن کر مار رہے تھے، اصل میں بوسنیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے ریفرنڈم جیتنے کے بعد الگ ریاست کا اعلان کرتے ہوئے وہاں مسلم صدر اور وزیراعظم تعینات کر دیا تھا، مگر سربین حکومت بوسنیا کو اپنے زیر اقتدار رکھنا چاہتی تھی، اِسی لیے سرب عیسائی فوج نے بوسنیا پر حملہ کر دیا اور مئی سے اگست تک تین ہزار مسلمانوں کی جان لے لی، بلکہ ظالموں نے لاشوں کے ساتھ زندہ بچوں اور خواتین کو بھی دفن کر دیا، یہ سب دیکھ سُن کر دنیا بھر کے مسلمانوں کا خون کھول رہا تھا بلکہ اُن دنوں لنڈن میں تو مسلم کافی ایکٹیو تھے اور اِنہی مسلمانوں میں لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجویشن کررہا تھا عمر سعید شیخ۔ جس سے مسلمانوں کا یہ درد برداشت نہ ہوا اور وہ بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کو پہنچ گیا، مگر پرویزمشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ عمر شیخ کو وہاں برطانوی انٹیلی جنس ادارے ایم آئی سکس نے بھیجا تھا، کیونکہ وہ خود ایم آئی سکس کا ایجنٹ تھا،
سابق ایف بی آئی ایجنٹ کامران فریدی کہتے ہیں:
بڑا ہی زبردست لڑکا تھا، آگے بڑھ بڑھ کر لڑ رہا تھا۔
مگر جیسے کہ میں نے شروع میں بتایا کہ عمر شیخ ہتھیار چلانا جانتا تھا مگر لڑتا عقل سے تھا، اِن جہادی گروپوں میں رہ کر عمر شیخ کو احساس ہوا کہ پوری دنیا میں ہی مسلمان کمزور پڑر ہے ہیں، زمین پر قلا بازیاں کھاکر، چند گولیاں چلا کر، کچھ دشمنوں کو مار گرانا حل نہیں ہے، تو پھر حل کیا ہے؟ دشمن کے دل میں اپنا خوف بٹھانا اور یہی ہوا، جب اِس شاطر دماغ نے شطرنج کی بساط سے نکل کر سُپر پاورز کو چیک میٹ کرنے کے لیے بھارت میں اپنی ڈھائی چال چلی، وہ بھی بتاؤں گا، لیکن ابھی جہادی گروپس نے عمر شیخ کو لنڈن سے افغانستان بھیج دیا تھا، جہاں اُس کی ٹریننگ چل رہی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اِس جنگی تربیت کی اُسے کبھی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑی، کیونکہ آگے چل کر میٹھی انگریزی زبان اُس کا ہتھیار بننے والا تھااور شاطر عقل اُس کی ڈھال، افغانستان میں عمر شیخ سے الگ الگ جہادی تنظیموں کے سربراہان ملنے بھی آتے اور اسکی شخصیت سے انسپائر ہو کر لوٹتے، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عمر شیخ جہادی تنظیم کا حصہ بن گیا تھا، مگر نہیں! وہ تو اپنا لشکر بنانے کی تیاری کررہا تھا۔
سابق ایف بی آئی ایجنٹ کامران فریدی مزید کہتے ہیں:
ایسے لوگ کسی تنظیم کا حصہ نہیں بنتے
یہاں عمر شیخ کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت بڑھ رہی تھی اور بھارت میں مسلمانوں پر ظلم، 1992 میں بابری مسجد شہید کی جاچکی تھی، وہ کہانی میری اس آرٹیکل میں آپ پڑھ لیجیے گا، مگر اس سے بھی بُرا برتاؤ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہورہا تھا اور پھر عمر شیخ بھارت پہنچ گیا۔
مشن انڈیا
یہاں عمرشیخ کا نام تھا، روہت شرما، یوپی کے شہر غازی آباد میں اُس نے ایک گھر رینٹ پر لیا، ویسے آپ کو کیا لگتا ہے عمر شیخ یہاں کیوں آیا ہوگا؟ داڑھی رکھنے پر قتل کرنے والوں کو مارنے نہیں آیا تھا، وہ تو اُس کے لیے پینٹس تھے، عمرشیخ تو بھارت میں بیٹھ کر امریکہ اور لندن کو ہلانے آیا تھا، ایک شام وہ بار میں گیا، شراب وہ پیتا نہیں تھا، دودھ کا گلاس ہاتھ میں تھا، لندن کا ایک گورا ’’پال‘‘ یہ دیکھ کر حیران ہوا اور عمر شیخ سے دودھ کے فوائد پوچھنے چلا آیا یا یوں سمجھ لیجیۓ کہ جال میں پھنسنے آگیا، عمر نے بتایا وہ بھی ایک برٹش ہی ہے، باتوں ہی باتوں میں شیخ نے اُسے شیشے میں اتار لیا، پال بھی عمر کی طرح شطرنج کا شوق رکھتا تھا، اگلی ملاقات میں اُس نے باقی دوستوں کو بھی انٹروڈیوس کرایا، عمر شیخ نے ٹیورسٹ سے کہا کہ کچھ ہی دنوں پہلے اُس کے انکل کی ڈیتھ ہو گئی ہے مگر مرنے سے پہلے وہ ایک گاؤں اُس کے نام چھوڑگئے ہیں۔ یہیں پاس میں ہے سہارن پور، ٹیورسٹ چاہیں تو وہ اُنہیں سیر کرا سکتا ہے، گورے مان گئے۔
16اکتوبر 1994
16اکتوبر 1994 کو سہارن پور کے گاؤں میں شطرنج کی بساط بچھی تھی، قہقہے لگ رہے تھے، لیکن اچانک ماحول میں سناٹا چھا گیا، جب دونوں گوروں نے اپنے سر پر بندوق کی نال محسوس کی، Don’t Move, You are Kidnapped my friends۔ اِس سے پہلے 29ستمبر کو عمرشیخ ایک آسٹریلین ریز پیٹرج Rhys Partridge کو غائب کرچکا تھا، مگر یہ کافی نہیں تھے، کیونکہ سُپر پاور کو بھی تو ہلانا تھا، اِسی لیے تین دن بعد امریکن لیڈی بیلا روس کو بھی غازی آباد سے عمر شیخ نے اغوا کرلیا، اب دو برٹش، ایک آسٹریلین اور ایک امریکن عمر شیخ کے پاس تھے اور بدلے میں چاہیے تھی "عزت"۔ عزت کے ساتھ کشمیر کے دس فریڈم فائٹرز کی رہائی جو کہ بھارت کی تہاڑ جیل میں قید تھے، عمرشیخ ویڈیو بنا کر ریلیز کرچکا تھا، بھارت کانپ رہا تھا، امریکہ اور برطانیہ کا دباؤ بڑھ رہا تھا، مگر پھر، 31اکتوبر کی صبح، غازی آباد پولیس ایک ڈکیت کو ساتھ لیکر اُس کے ساتھیوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُس گھر میں گھس گئی جہاں بیلاس روس قید تھی، پولیس نے بیلا روس کو بازیاب کرایا، بیلا نے بتایا کہ عمر ابھی ابھی گھر سے نکلا ہے، وہ بیلا روس کو کھانا کھانےکے لیے منانے آیا تھا کیونکہ بیلا نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی، پولیس نے راستے میں عمر شیخ کو گھیر لیا، مقابلے کے دوران وہ اور اسکا ڈرائیور پکڑا گیا، اُدھر سہارن پور میں قید باقی تین مغویوں کو بھی چھڑالیا گیا،
7 سال بعد
یہ وہ صبح تھی جب بھارت کی تہاڑ جیل کے دروازے کھول دئیے گئے، احمد عمرسعید شیخ کے قدم ایک بار پھر جیل سے باہر آگئے، عدالت نے ریلیز نہیں کیا بلکہ انڈین گورنمنٹ کو اپنی نااہلی کی وجہ سے گھٹنے ٹیکنا پڑ گئے، آپ کو یاد ہو گا کھٹمنڈو سے دہلی جانے والی پرواز کو کیسے اغوا کر کے قندھار لے جایا گیا تھا، وہ واقعہ آپ میری اس آرٹیکل میں پڑھ سکتے ہیں، احمدعمرسعید شیخ، مولانا مسعود اظہر اور مشتاق زرگر اس فلائٹ کے اغوا کے بدلے رہا کردیئے گئے تھے، 2000 کی صدی شروع ہو رہی تھی اور عمر شیخ ایک بار پھر قیدی بننے جا رہا تھا، غلط سمجھ رہے ہیں آپ میں محبت کا قیدی بننے کی بات کر رہا ہوں، جی ہاں! عمرشیخ کی شادی ہو گئی اور دلہن بنیں، انگلش میں ایم اے کرنے والی سادیہ رؤف اور اگلے ہی سال عمر شیخ ایک بچے کا باپ بن گیا، تو کیا سمجھے؟ زندگی بدل گئی، مقصد بدل گیا، جنون ختم ہو گیا، ابھی تو کہانی شروع ہوئی ہے باس، انٹرو یاد ہے، وہ ایک لاش، 10 ٹکڑے، امریکی صحافی، سی آئی اے کا ایجںٹ، 9/11 حملوں کے بعد دنیا بھر کے حالات بدل گئے تھے، امریکہ نے رَسی کسی ہوئی تھی اور امریکی مخالف جہادی گروپ بھی ڈھیل نہیں دے رہے تھے، مشرف کی حکومت تھی اور امریکہ پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا، ایسے میں ڈینیل پرل نامی ایک شخص کی اپنی پریگننٹ بیوی کے ساتھ پاکستان میں انٹری ہوتی ہے، یہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف تھے ان کا دفتر بھارتی شہر ممبئی میں تھا، مگر پاکستان آنے کا مقصد تھا، پیر مبارک علی شاہ گیلانی سے ملنا، ملیے آپ بھی، یہ ہیں پیر مبارک علی شاہ گیلانی، مگر پیرخاندان کے چشم و چراغ کا نائن الیون حملوں اور جہادی گروپوں سے کیا تعلق؟ جو ڈینیل پرل اِن کی تلاش میں نکلے تھے اس کی وجہ ہے رچرڈ کولون ریڈ، عرف شو بمبار، یہ اسٹریٹ کرمنل تھااور جیل میں اسلام قبول کرکے جہادی گروپوں سے تعلق بنا لیا۔ ہاں! شو بمبار نام اس لیے پڑا کیونکہ افغانستان میں ٹریننگ کے دوران اسے بارودی جوتے دیے گئے، جو پہن کر یہ پیرس سے فلوریڈا جانیوالی پرواز میں سوار ہو گیا، یہ بات ہے 22 دسمبر 2001 کی، جب یہ اپنے جوتوں کے فیتے کو ماچس سے جلا کر جہاز میں دھماکا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اِس دوران مسافروں نے اِسے قابو کر لیا، یہ پکڑا گیا، اسے سزا بھی ہو گئی، مگر سوال یہ بنتا ہے کہ اس کا ہماری اسٹوری سے کیا تعلق؟ کہا یہ جاتا ہے رچرڈ کولون مبینہ طور پر لاہور میں قائم پیر مبارک علی شاہ کے ایک مرکز میں کچھ عرصے قیام پذیر رہا تھااور ڈینیل پرل، رچڑڈ یعنی شو بمبار کی اسٹوری پر کام کر رہا تھا۔ اسی سلسلے میں اُسے پیر مبارک علی شاہ سے ملنا تھا، اُدھر دوسری طرف یہ خیال تھا کہ ڈینیل پرل سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔
وہ جو بھی تھا، مگر اُسے پھانسنے کا پلان فِکس ہوگیا تھا، کس نے اور کیسے فکس کیا، ابھی آپ کو پتہ چل جائے گا، لیکن کہانی میں آگے ہوتا یہ ہے کہ پَرل اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک پاکستانی صحافی کو ریکویسٹ کرتے ہیں کہ وہ اپنے سورسز سے مبارک علی شاہ گیلانی سے ملاقات کا بندوبست کروائے، وہ پاکستانی صحافی کون تھا، میں جانتا ہوں لیکن نام لینا اس لیے مناسب نہیں کہ اُس وقت اس کیس کی وجہ سے پاکستانی صحافیوں کوبڑی انویسٹی گیشنز بھگتنا پڑی تھیں اب تو وہ اس کیس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے، میں نے کوشش کی تھی، بہرحال! اُس پاکستانی صحافی نے جہادی گروپوں میں اپنی سورسز کو فون کھڑکھڑائے، سورسز نے 11 جنوری کو راولپنڈی کے اکبر ہوٹل میں ایک شخص سے میٹنگ فکس کردی، وہ شخصیت آئیں، ملاقات ہوئی، فر فر انگریزی بولنے کے ساتھ باتوں میں الجھانے کی کمال مہارت رکھنے والی اس شخصیت سے ڈینیل پرل بہت متاثر ہوا اور ریکویسٹ کی کہ وہ کسی بھی طرح پیر مبارک علی شاہ سے میٹنگ فکس کرادے اور اس شخصیت نے کہا بالکل ممکن ہوجائے گا کیونکہ وہ خود پیرصاحب کا ہی مرید ہے، ان شخصیت نے اپنا نام چوہدری بشیراحمد شبیر بتایا تھا، مگر وہ جو بتاتا ہے وہ نکلتا نہیں، جو وہ کہتا ہے ویسا ہوتا نہیں، کیونکہ وہ کوئی اور نہیں، خود احمدعمرسعید شیخ تھا، جو پیر صاحب کا مرید بن کر پرل سے ملا، جس کے بعد پرل کے اغوا کا پلان تیار کرلیا، مگر اسے ایگزیکیوٹ کرنے کے لیے ایک گینگ بنانا تھا، عمرشیخ نے پُرانے ساتھیوں کو فون گھمائے، اِن میں سے کچھ وہ تھے جو افغانستان میں ٹریننگ کے دوران ساتھ تھے اور کچھ وہ، جو جیل میں دوست بنے مگر اب وہ مختلف جہادی گروپوں کا حصہ بن چکے تھے، عمر شیخ نے ان سب کو اکھٹا کرکے ایک نیا گینگ بنالیا۔
مگر یہ سب کراچی میں ہی ایکٹیو تھے، کسی اور شہرمیں کارروائی کرنا مشکل تھا، اسی لیے کسی بھی طرح ڈینیل پَرل کو کراچی لانا تھا، عمرشیخ نے کراچی کے الگ الگ مقامات پر اِن سے ملاقاتیں کیں، سب کو ان کی ذمہ داریاں سمجھائیں، اب مسئلہ یہ تھا کہ پرل کو اغوا کرکے کہاں رکھا جائے گا، ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ کراچی کے علاقے پاپوش نگر میں اس کا گھر ہے، وہاں رکھ لیتے ہیں، عمرشیخ نے منع کر دیا، پھر دوسرے نے بتایا کہ اس کا احسن آباد میں ایک خالی کمپاؤنڈ ہے، جہاں آس پاس کوئی آبادی بھی نہیں، بس، جگہ فکس ہو گئی، اب ڈینیل پَرل کے کمپیوٹر پر ’’ نو بدمعاشی ایٹ یاہو ڈاٹ کام‘‘ کے ایڈریس سے ایک ای میل ریسیو ہوتی ہے، یہ چوہدری بشیر میرا مطلب عمرشیخ کی ہی تھی جس میں لکھا تھا کہ شیخ مبارک علی شاہ گیلانی سے ملاقات کراچی میں ممکن ہوسکتی ہے۔ عمرشیخ نے ایک شخص کا نمبر بھی ای میل میں درج کر دیا اور ہدایت کی کہ پرل اس نمبر پر رابطہ کرے وہ پیر گیلانی سے ملوا دے گا، یہ رابطہ نمبر عمرشیخ کے اپنے گینگ ممبر کا تھا۔ جال تیار تھا، پَرل اپنی وائف کے ساتھ اسلام آباد سے کراچی آگئے، یہاں وہ ڈیفنس زمزمہ میں وال اسٹریٹ کی ہی جرنلسٹ اسرا نعمانی کے گھر ٹھہرے لیکن اب پَرل کو بھی کچھ گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ پہلے ڈینیل پرل نے اسی جرنلسٹ کو فون کیا جس نے اُسے چوہدری بشیر یعنی شیخ عمر سے ملوایا تھا اور پوچھا کہ پیر مبارک گیلانی سے ملنا خطرناک تو نہیں ہو گا؟ جرنلسٹ نے جواب دیا۔ اگر ملاقات ویرانے میں نہیں ہے تو بالکل خطرناک نہیں ہے، اسی روز پرل نے امریکی قونصلیٹ کے آفیسر رینڈل بینیٹ سے مل کر بھی یہی سوال پوچھا اور انکا جواب بھی تقریباً وہی تھا کہ ویرانے میں نہ ملیں، پھر اسی روز ڈینیل پرل سی پی ایل سی کے چیف جمیل یوسف سے بھی ملے اور یہی سوال دہرایا، مگر جمیل یوسف نے کہا کہ وہ کسی پیر مبارک علی شاہ گیلانی کو نہیں جانتے تو ملنا کیسا رہے گا یہ بھی انہیں نہیں معلوم، شام ساڑھے چھ بجے پرل نے اپنی وائف ماریان کو فون کیا اور بتایا کہ اُسے پیر مبارک گیلانی سے ملوانے کے لیے کال موصول ہو گئی ہے، وہ ملاقات کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔
ڈینیل پرل نے ویلیج ہوٹل پر اتر کر رینٹ کی ٹیکسی کو روانہ کر دیا اور یہاں انہیں پک کیا، ایک لال آلٹو نے جو شیخ عمر کے گینگ کا کارندہ ساجد جبار ڈرائیو کر رہا تھا، یہ گاڑی پرل کو بٹھا کر شاہراہ فیصل کی جانب روانہ ہو گئی گاڑی کے اطراف میں موٹر سائیکلوں پر گینگ کے باقی افراد بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے ان میں کچھ لوگوں کی ذمہ داری کمپاؤنڈ میں ریڈی رہنا تھی، کار پہنچنے سے پہلے بائیک پر عطا الرحمان نے کمپاؤنڈ پہنچ کر سگنل دیا کہ مہمان آنے والا ہے، جیسے ہی کار احسن آباد میں کمپاؤںڈ کے باہر پہنچی تو اندر موجود افراد نے گیٹ کھول دیا اب پَرل کو کمپاؤنڈ میں لایا گیا، عطا نے کہا اپنے سارے کپڑے اتاردو ڈینیل پَرل اب تک یہی سمجھ رہے تھے کہ اُن کی پیرمبارک علی شاہ گیلانی سے ملاقات کروائی جا رہی ہے اور یہ سب سیکیورٹی کے پیش نظر ہے، پرل نے کپڑے اتار دیے، موبائل فون، واچ، کیمرا، ٹیپ ریکارڈر، والٹ اور جو کچھ بھی تھا سب اِن لوگوں کے حوالے کر دیا، بدلے میں اُسے پہننے کے لیے ٹریک سوٹ دیا گیا، اس کے بعد ڈینیل پرل کو زنجیروں میں جکڑ کر وہاں پڑے ایک پرانے انجن سے باندھ دیا گیا اِدھر اَسرا نعمانی کے گھر پر موجود ماریان پریشان ہو رہی تھیں، صبح چھ بجے امریکی قونصلیٹ کے سیکیورٹی آفیسر کو آگاہ کیا گیا کہ پَرل اب تک نہیں لوٹے کراچی پولیس کو اطلاع ملی، ہوٹر بجاتی گاڑیاں تلاش میں نکل پڑیں، اس وقت کے اسپیشل برانچ کے ایس ایس پی دوست علی بلوچ نے اسرا کے گھر اسپیشل فون لگوا دیا تاکہ اگر تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے تو موصول ہونے والی کال وہ سن سکیں، اگلے روز صبح دس بجے، احسن آباد کے کمپاؤنڈ میں عطا الرحمان بخاری پرل کے لیے ناشتہ لیکر پہنچتا ہے، اب پَرل نے کہا۔ اب اُنہیں کوئی انٹرویو نہیں کرنا، نہ ہی پیرگیلانی سے ملنا ہے، وہ جانا چاہتے ہیں، ان میں سے ایک نے پرل کو تھپڑطرسید کرتے ہوئے کہا تم ہماری حراست میں ہو، کہیں نہیں جا سکتے، لیکن اب ایسی بڑی غلطی ہونے والی تھی، جس سے سارا پلان چوپٹ ہو جاتا، اُدھر ڈینیل پرل کے اغوا کی خبر نے اسلام آباد سے واشنگٹن سب کو ہلاکر رکھ دیا تھا، امریکی اور پاکستانی ایجنسیاں بھی ایکٹیو ہو گئی تھیں، دو دن بعد یعنی 25جنوری کی صبح، عمرشیخ کی ہدایات کے مطابق پرل کو اس روز کا انگریزی اخبار ڈان ہاتھ میں دیا گیا اور تصویریں لی گئیں، جو کہ عادل نامی شخص نے صدر میں پہنچ کر سلمان اور فہد نام کے دو لڑکوں کو ایک سفید لفافے میں لاکر دیں، ان کا کام تھا، یہ تصویریں اسکین کر کے ای میل کرنا، عمرشیخ سختی سے ہدایت کرکے گیا تھا کہ ای میل کے لیے اپنا ذاتی کمپیوٹر استعمال مت کرنا، یہ لڑکے گلستان جوہر کے نعمان گرینڈ سٹی اپارٹمنٹس میں پہنچے اور انٹرنیٹ کیفے سے کڈنیپر گائے ایٹ ہاٹ میل ڈاٹ کام کے ایڈریس سے ای میل سینڈ کردی، جس کا سبجکیٹ تھا امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ ہماری حراست ہے، میں بتایا گیا کہ قومی تحریک بحالی خود مختاری پاکستان نے سی آئی اے کے آفیسر ڈینیل پرل کو حراست میں لے لیا ہے۔ اگر امریکہ رہائی چاہتا ہے تو ایف بی آئی کی حراست میں موجود تمام پاکستانیوں کو وکلا اور اہلخانہ تک رسائی دی جائے۔ جتنے بھی پاکستانی کیوبا میں حراست میں ہیں انہیں وطن واپس بھیجا جائے۔ اور ان پر یہاں مقدمہ چلایا جائے۔ افغانستان کے سفیر ملا ضعیف کو بھی واپس پاکستان بھیجا جائے اور ان پر الزامات سے پاکستان ہی نمٹے گا، جواب میں امریکہ کی طرف سے صفائیاں آنا شروع ہو گئیں کہ پرل سی آئی اے کا ایجنٹ نہیں، وہ صرف ایک جرنلسٹ ہے اس نے کبھی جاسوسی نہیں کی۔ اُدھر ڈینیل پَرل نے واش روم جانے کے بہانے فرار ہونے کی کوشش کی، مگر دبوچ لیا گیا۔ خیر، تین روز گزر گئے مگر مطالبات نہیں مانے گئے۔
اب 28 جنوری کو عمرشیخ نے سلمان اور فہد کو مزید تصویریں ای میل کرنے کے لیے کہا، اس بار لکھا گیا کہ پرل اسرائیلی ایجنسی موساد کا ایجنٹ ہے اور اب بھلے امریکہ مطالبات پورے کردے، پرل کو قتل کیا جائے گا، اس ای میل میں سلمان اور فہد نے غلطی کردی، ای میل کیفے سے بھیجنے کے بجائے اپنے ذاتی کمپیوٹر سے سینڈ کردی، یعنی سراغ لگانے والوں کو پہلی کڑی مل گئی اور بالآخر سلمان ثاقب کا سراغ مل گیا، پولیس اس کے گھر پہنچی، حراست میں لیا، کمپیوٹر پر تصویریں بھی مل گئیں، سلمان نے کہا کہ تصویریں اس نے ڈان اخبار سے ڈاؤن لوڈ کی ہیں، پولیس نے کہا اخبار میں تو چار تصویریں ہیں، مزید دو تصویریں کہاں سے آئیں؟ اب سارا معاملہ کھلنے لگا، جو ہاتھ لگتا گیا پکڑا گیا، معلوم ہوگیا کہ سارے گیم کے پیچھے عمرسعید شیخ ہے۔
صحافی فیض اللہ خان بتاتے ہیں:
بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے گھر پر پہنچ کر اس نے خود گرفتاری دے دی۔
مگر اَب ڈینیل پرل کا کیا جائے، جو کہ عمرشیخ کے بنائے گئے گینگ کے پاس تھا، اِسی کے کارندے عطا اور فضل کریم کو پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ پرل کے معاملے میں دلچسپی لے رہی ہے، اب یہاں تفتیش کاروں کی الگ الگ رائے ہے، ایک کی رائے ہے کہ اسی گینگ کے سعود عطا اور فضل کریم نے دس سے پچاس ہزار ڈالر لیکر پرل کو القاعدہ کو بیچ دیا اور دوسری رائے ہے کہ ڈالر لیے بغیر اپنی جان چھڑانے کے لیے پرل کو القاعدہ کے حوالے کیا گیا، جو بھی تھا، اَب اِسی کمپاؤںڈ کا قبضہ بد نام زمانہ دہشت گرد خالد شیخ محمد کے پاس تھا، اس نے اپنے آدمیوں سے پرل کی ویڈیو بنانے کا کہا پرل کو اب بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحوں میں اس کو ختم کر کے ویڈیو ریلیز کر دی گئی۔
خیر! خالد شیخ محمد تو 2003 میں گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا جو کہ اب گوانتاناموبے میں ہے، ہم عمرشیخ پر واپس آتے ہیں، جو کہ اب جیل میں تھا اور وہیں سے بیٹھ کر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ کرانے کا پلان بنایا جس کی کہانی میں آپ کو شروع میں سُنا چکا ہوں، مگر جیل میں عمرشیخ کا صرف یہی قصہ نہیں اور بھی قصے مشہور ہوئے سنتے ہیں اُس نے تفتیش کرنے والے ایک آفیسر کو مُکا مار دیا، یہی نہیں، کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اس وقت کے صدر جنرل پرویزمشرف کو بھی دھمکیاں دی تھیں۔
ڈینیل پرل کیس میں تفتیش کاروں نے بہترین کارکردگی دکھائی، مگر یہ کیس عدالت میں انتہائی کمزور تھا۔ جن گواہوں کی بیساکھیوں پر کیس کھڑا تھا، عدالت میں وہی گواہ جھوٹے قرار پائے،
اس وقت تو یعنی 2002 میں ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمرشیخ کو سزائے موت سنادی تھی، مگر 18 سال بعد یعنی دو اپریل 2020 کو سندھ ہائیکورٹ نے سزائے موت ختم کرکے عمرشیخ کو اغوا کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی اور جنوری 2021 میں سپریم کورٹ نے عمرشیخ کی رہائی کا پروانہ جاری کر دیا، اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، کون تھا عمر شیخ؟ نہیں سمجھے تو پوگو لگالیں۔