عام پاکستانی بنگالی کہتے ہیں:

ہمارا قصور کیا ہے، ہمارا گناہ ہے کہ ہم بنگالی ہیں، ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے، ہم تکلیف میں ہیں۔

1971

بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان تقریر نے ایک جلسہ میں کہا تھا:

جب بھی کبھی ہم نے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تم سات کروڑ لوگوں کو مسخر نہیں کر سکتے۔ ہم نے اب مرنا سیکھ لیا ہے۔

 اور ایک جلسہ میں  پی پی پی کے  بانی ذوالفقار علی بھٹو کہتے تھے:

جہنم میں جائیں سور کے بچے۔

معروف سیاستدان اور ایڈوکیٹ جبران ناصر کہتے ہیں:

جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دوسرے کو چڑانے کیلئے بھوکا ننگا بنگالی کہتے تھے۔

محمود شام:

ہم تو انہیں بہت چھوٹا سمجھتے تھے۔

ملک ٹوٹ گیا! مگر سوچ نہ بدلی! کیا آپ جانتے ہیں کہ کلکتہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے بعد بنگالیوں کا چوتھا بڑا شہر کونسا ہے؟ کراچی۔ حیران ہو گئے نا؟ کروڑوں کے شہر میں تیس لاکھ بنگالی بستے ہیں۔ یہ نہ زندہ ہیں نہ مردہ، مردہ اس لیے نہیں کیونکہ سانس لیتے ہیں! اور زندہ اس لیے نہیں کیونکہ انہیں زندوں میں شمار ہی نہیں کیا جاتا آپ کسی بچے سے کبھی پوچھیں کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو وہ کہے گا ڈاکٹر، انجنیئر، کوئی پائلٹ یا پروگرامر، ویسے جو ملک کے معاشی حالات ہیں ان میں تو شاید سرکاری کے ملازم ہی بننا چاہیں گے، لیکن بنگالیوں کیلئے یہ سوال بڑا مشکل ہے، کیونکہ یہ بچے، پاکستانی نہ بن سکے تو اور کیا بنیں گے۔ میں آج کچھ سوال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وہ لوگ جنہوں نے بنگلہ دیش چھوڑ کر پاکستان کو اپنا یا، آج تک ریاست نے انہیں قبول نہیں کیا، کیوں؟ جو تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ اسلام اور پاکستان کے وفادار تھے، وہ اچانک غدار بن گئے، کیوں؟ مشرقی پاکستان تو چھوڑیں، مغربی پاکستان میں بھی بنگالیوں سے ذلت آمیز رویہ رکھا گیا، اُنہیں طنز اور مذاق کا نشانہ بنایا گیا، لفظ بنگالی۔ ایک گالی بن کر رہ گیا، کیوں؟ یہ بچے اور جوان ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے آج بھی آزاد نہیں ہیں، کیوں؟ جواب جاننا چاہتے ہیں، تو آئیے چلتے ہیں کراچی ہی نہیں ملک کی سب سے بڑی کچی آبادی مچھر کالونی۔

بے وطن لوگ

یہ سونیا ہے، 7 سال کی تھی جب پہلی بار یہاں آئی، اسی روز سونیا نے جمناسٹ بننے کا فیصلہ کر لیا، وہ اپنی بہن انوارا کے ساتھ یہاں روز آتی رہی، آج سونیا نیشنل لیول کی جمناسٹ ہے۔ سندھ ویمن ٹیم کا حصہ ہے، مگر وہ کیا چیز ہے جو اس کے پاوں کی بیڑی بنی ہوئی ہے۔ جو انٹرنیشنل مقابلوں میں اس سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

سونیا اس بارے میں کہتی ہے:

میری جو امی ہیں ان کے ابو ، یعنی میرے نانا، ان کے شناختی کارڈ بلاک ہو گئے، اور وہ فوت ہو گئے اور اس وجہ سے امی کا نہیں بنا، تو اسی لیے ہمارے لیے بھی مسائل ہو رہے ہیں۔

یہ مسئلہ صرف سونیا کا نہیں، اس جیسی ہزاروں ٹیلنٹڈ لڑکیاں اور لڑکے بے فارم اور شناختی کارڈ نہ ہونے سے اپنا مستقبل ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔

جاوید جمناسٹ کہتے ہیں:

میں جمناسٹک کرتا ہوں اسپورٹ میں میں کہیں نیشنل لیول پر جمناسٹک کرنے جاؤں گا یا کاروبار مجھے شناختی کارڈ کی ضرورت پڑے گی، گدھے گھوڑے کی محنت کرنے جاؤں گا بغیر شناختی کارڈ کے واپس گھر پر آؤں گا، کوئی اچھا کام ڈھونڈو تو شناختی کارڈ مانگتے ہیں۔ بولتے ہیں این آئی سی نہیں ہے اس کو گیٹ کے باہر کرو۔

ڈھاکہ فال سے پہلے بنگالیوں کو عجیب و غریب ناموں سے بلایا جاتا تھا، جب وہ گلی محلوں میں ریڑھیوں پر مچھلی اور  چھوٹا موٹا سامان بیچا کرتے تھے تو انہیں مذاق میں کہا جاتا، بنگالی بابو آیا، مرغی چرا کر لایا۔ کوئی کہتا گلی گلی میں شور ہے۔ بنگالی بابو چور ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ہم نے انہیں ایلین کا نام دے دیا، اب یہ مارز یا جوپیٹر سے تو آئے نہیں۔ جو ہم انہیں ایلین کہیں۔

ذرا امیجن کریں! آپ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہوں جہاں نہ ٹھیک سے پڑھ سکیں، نہ نوکری کر سکیں اور نہ ہی ڈھنگ کے اسپتال میں علاج کرا سکیں، آپ نہ پراپر کاروبار کر سکیں اور نہ ہی جائیداد خرید سکیں، نہ تو ٹریول کر سکیں، اور نہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی ایف آئی آر کٹوا سکیں، سب کچھ چھوڑیں ایک سم تک نہ خرید سکیں۔ تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یہ سوچ کر جو آپ کا حال ہے، یہاں لوگ روز اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔

صدر پاک مسلم الائنس الاؤلدین لطیف کہتے ہیں:

پولیس اسٹیشن کے اندر جو ایس ایچ او ہے وہ با قائدہ ہائر کیا جاتا ہے وہ تھانے کو خریدتے ہیں۔ کہ یہاں بنگالیوں کی آبادی ہے ، جس کو پکڑو کیش پیسے ہیں، انکے پاس تو زبان نہیں، شناختی کارڈ نہیں ہے، نادرا نہیں دے رہا، ان کو پکڑ کر پیسے لیتے ہیں، دس سے پچاس ہزار لیتے ہیں، ان کا شناختی کارڈ ہونے کے باوجود ان کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ گھریلو جھگڑوں میں لے جاتے ہیں۔ کیونکہ پولیس کو بہانا چاہئے، پوری رات ان کو بٹھاتے ہیں، پیسے لیکر چھوڑتے ہیں۔

یہ کب شروع ہوا؟

لیکن یہ ہمیشہ سے اتنے غیر اہم نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بنگالی مڈل کلاس، کے پی ٹی، سیکریٹیریٹ اور اسٹیٹ بینک جیسے سرکاری اداروں میں ایکٹو نظر آئی۔ کیپیٹل اور اکنامک ہب ہونے کی وجہ سے کراچی کے پرائیوٹ سیکٹر میں بھی پڑھے لکھے بنگالیوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ زیب النِسا اسٹریٹ مشہور بنگالی رائٹر اور مولوی تمیز الدین روڈ قائد اعظم کے مسلم لیگی ساتھی کے ناموں سے جڑی ہیں۔ یہ وہی بہادر سیاستدان تھے جنہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جرنل غلام محمد کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ آج تو ہر طرف شاہ کے مصاحب ہی دکھائی دیتے ہیں۔

مشہور بنگالی شاعر قاضی نذرالاسلام پارٹیشن سے پہلے کراچی آکر فارسی سیکھتے رہے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام فزکس میں اپنی کامیابی کا کریڈٹ گورمنٹ کالج لاہور کے بنگالی ٹیچر پروفیسر گنگولی کو دیا کرتے تھے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں کراچی یونیورسٹی کے بنگالی ڈپارٹمنٹ سے کئی پروفیسرز نکلے مگر آج یہ جامعہ کا مختصر ترین ڈپارٹمنٹ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ آج بنگالی کسی ادارے اور محکمے میں تو دور گھروں میں بھی کم ہی بولی جاتی ہے۔ شاید آپ یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ انیس سو چالیس میں کراچی کی چٹاگانگ کالونی سے بنگالی زبان میں اخبار قومی بندھن نکلتا تھا، جو اکہتر میں ضبط کا بندھن ٹوٹنے پر خاموش ہو گیا۔ اس دور میں 10 سے 20 ہزار بنگالی پاکستان میں تھے، پھر ایک ایک کر کے پڑھی لکھی اکثریت بنگلہ دیش چلی گئی۔ ان میں مشہور سنگر رونا لیلی اور سوھنی دھرتی گانے والی شہناز بیگم بھی شامل ہیں۔

ورکنگ کلاس بنگلہ دیش سے روزگار کی تلاش میں کراچی آتی رہی۔ ویسے کئی خاندان انگریزوں کے دور میں ہی فشنگ اور ٹریڈ کے شعبے میں مزدوری کے لیے یہاں سیٹل ہو چکے تھے۔ کئی ایسے بھی تھے جنہیں پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلہ دیش سے نکال دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے تو ایک بار طیارہ بھر کر انہیں واپس بنگلہ دیش بھیجنے کی کوشش کی۔ مگر خالدہ ضیا نے طیارہ زمین پر اترنے نہ دیا۔

ایک بنگالی پاکستانی شہری ارشد کہتے ہیں:

کراچی میں پیدا ہوا، تین بیٹیاں ہیں۔ وہ سات آٹھ تک پڑھتی ہیں اس کے بعد بولتے ہیں باپ کا کارڈ لے آؤ، میٹرک تک نہیں جا پا رہیں، بڑی کمپنیوں میں نوکری نہیں کر سکتے کیونکہ شناختی کارڈ نہیں۔ چھوٹی کمپنیوں میں کام مل جاتا ہے، میری بچی کی آنکھوں کا مسئلہ ہوا تھا انہوں نے بولا کارڈ لے آؤ، دوسرے بندے کی سفارش پر علاج ہوا۔

کراچی میں بنگالیوں کی ایک سو پانچ کولونیز ہیں۔ ان میں سب سے مشہور ابراہیم حیدری، موسی کالونی، ضیاء الحق کالونی، مچھر کالونی، لیاری اور کورنگی کا بنگالی پاڑہ ہے، یہاں پانی کی قلت، کرائم، گھچ پچ اور گندگی سمیت بہت سے مسائل ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہاں آدھی آبادی کے پاس شناختی کارڈز ہی نہیں ہیں۔

بنگالی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کا کہنا ہے:

بس میں سفر کرتا ہوں، پولیس والے روکتے ہیں راستے میں، بس سے اتار کر تلاشی لیتے ہیں، پرس چیک کرنا، پھر ہم بڑے سے بات کرواتے ہیں کہ بھائی ہم یہیں رہتے ہیں، اس طرح پولیس والے تنگ کرتے ہیں۔ جدھر بھی جائیں پریشانی ہے، میں یہاں کا انچارج ہوں۔ مگر نادرا پر جانا ہے، نکاح کو پچیس سال یہاں  پر ہوگئے۔ مگر وہ کچھ نہیں سنتے۔

پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟

اس ملک میں راتوں رات 26 ویں آئینی ترامیم تو پاس کر لی جاتی ہے، مگر پچھتر برسوں میں بھی سٹیزن شپ ایکٹ میں ترمیم کا خیال نہیں آتا۔ یہی وہ قانون ہے جس کی وجہ سے  بنگالی پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ریاست کو دکھائی نہیں دے رہے! عجیب بات ہے کہ اسی قانون کے تحت اگر کوئی کشمیری یہاں آ جائے تو وہ پاکستانی تصور ہو گا اور اسے شناختی کارڈ بھی مل جائے گا۔

قانونی ماہر محمد اظہر صدیقی کہتے ہیں:

جب تک آپ قانون میں تبدیلی نہیں کریں گے۔ سٹیزین شپ کے قانون کے اندر تبدیلی نہیں کریں گے تو ان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس کیلئے ہمیں اکھٹا بیٹھنا پڑے گا، یا پھر ایک قومی ریفرینڈم کروا لیں آرٹیکل فورٹی ایٹ کے تحت، قوم کیا چاہتی ہے اس سے پوچھ لیں۔ سیکورٹی ایشوز کو ڈیل کیا جاسکتا ہے۔ جب تک آپ کی پارلیمنٹ نہیں چاہے گی حکومت وقت نہیں چاہے گی تب تک کچھ نہیں ہوسکتا۔

لیکن سٹییزن شپ ایکٹ یہ بھی تو کہتا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر پیدا ہونے والا بچہ پاکستانی ہی کہلائے گا۔ اگر صرف اسی کلاز پر عمل کر لیا جائے تو ہزاروں بنگالی بچوں کا مستقبل بچایا جا سکتا ہے۔

ڈائریکٹر امکان ویلفیئر آرگنائزیشن اور وکیل طاہرہ حسن کہتی ہیں:

قانون کو صرف لاگو کرنا ہے، ہمیں کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہمارا قانون بغیر کسی تاخیر اور حیلے بہانے کے لاگو کر دیا جائے تو ان سب بچوں کے پاس آج پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ہونا چاہئے کیونکہ یہ بچے یہی پیدا ہوئے ہیں، ان کے والدین بھی زیادہ تر یہی پیدا ہوئے، یہ چوتھی جنریشن ہے، تو ان کے حقوق تو بہت واضح ہیں۔

آئین کا آرٹیکل پچیس اے، پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن آئین کا حلف اٹھانے والی حکومت یہ ضمانت نہیں دیتی۔ بنگالیوں کے بچے چاہے کتنے ہی ٹیلنڈ کیوں نہ ہو،  تعلیم اور روزگار کے دروازے ان پر بند ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں یہ چور، ڈکیت اور نشئی نہیں، تو اور کیا بنیں گے۔

ڈائریکٹر امکان ویلفیئر آرگنائزیشن اور وکیل طاہرہ حسن مزید کہتی ہیں:

تعلیم آپ نہیں حاصل کر سکتے، گھر اور سم کارڈ آپ نہیں خرید سکتے، سے لیکر، اس کا اثر بچوں کی مینٹل ہیلتھ پر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں ڈرگس کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔

صدر پاک مسلم الائنس الاؤلدین لطیف اس بارے میں کہتے ہیں:

جتنے بنگالیوں میں سب سے زیادہ جو نشئی بن رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس جاب نہیں ہے وہ فارغ لوگ ہیں ان کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں ہے، ایک جگہ پر پانچ آدمی بیٹھتے ہیں وہ نشہ شروع کر دیتے ہیں، اور اس کے جراثیم، صرف بنگالیوں تک نہیں رہیں گے بلکہ پورے پاکستان میں پھیلیں گے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ میں ڈیفنس یا ڈے ایچ اے میں رہتا ہوں تو بچا رہوں گا اس کی سوچ غلط ہے۔

بنگالیوں کے لیے قانون

ضیاء دور میں بنگلہ دیش سیل قائم ہوا۔ پھر تو اسپیشل برانچ والے جب چاہتے بنگالیوں کو پکڑ کر لے جاتے تھے۔ انہیں ایف آئی آر کاٹ کر جیل میں ڈال دیا جاتا۔ ذرا سنئیے کہ ایف آئی آر میں جھوٹ کیسے دھڑلے سے لکھا جاتا تھا۔ پہلے بنگالی نوجوانوں کو صدر، پشاور گیٹ یا کراچی کے مختلف ایریاز سے اٹھایا جاتا پھر یہ لکھا جاتا کہ یہ تو ابھی ابھی بارڈر سے آیا تھا۔ ریل سے اترا ہی تھا کہ اس کی گٹھری دیکھ کر شک پر گرفتار کر لیا۔ خیر، یہ سب باتیں تو مارشل لاء کا تحفہ تھیں لیکن جمہوری حکومتیں بھی کوئی کارنامہ انجام نہ دے پائیں۔ یہ رپورٹ دیکھئے، 1996 میں ایف سی کے سربراہ افضال علی شگری نے تو بنگلہ دیش سے آنے والے والوں کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان نے بنگالیوں کو شناختی کارڈ دینے کا اعلان تو کیا مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ مشرف نے آکر نیشنل ایلین رجسٹریشن اتھارٹی ،نارا، بنائی۔ سوچ یہ تھی کہ غیر قانونی امیگرنٹس کو کنٹرول کیا جائے گا لیکن نارا نے سارا زور بنگالیوں پر لگا دیا۔ انہیں غیر ملکی بنا کر زبردستی رجسٹر کرنے لگے۔ جو نہ مانا اسے تشدد، ہریسمنٹ اور گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ جن بنگالیوں کے شناختی کارڈز بن چکے تھے وہ بھی بلاک ہوگئے، 2015 میں نارا، نادرا میں مرج ہو گیا لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔

عبد القدوس کہتے ہیں:

2006 میں مجھے افغانی کارڈ بنا کر دے دیا، پکڑ کر زبردستی، مجھے افغانی بنا دیا، یہ ثبوت ہے میرے پاس، جب پکڑ کر گاڑی میں ڈالا انہوں نے تو اس وقت یہاں پر نشانی ابھی تک رکھا ہوا ہے۔ میں نے گاڑی کی سائڈ لگ کر میرا خون بہا۔ نیلا شرٹ ابھی تک ثبوت رکھا ہوا ہے، ساتھ ہی دس بارہ بندوں کو پکڑا انہوں نے مجھے نام بتایا، جیب میں فوٹو تھا، وہ لگا کر مجھے بولا زبردستی انگوٹھا لگایا میرا، وہ کہتا تھا میں ایف آئی اے والا ہوں، حنیف، نام کا ایک نارا کا ایک بندہ تھا، اس کا پورا گروپ تھا، دس بارہ بندہ تھا، ہمارے ستائیس اٹھائیس افراد کو پکڑا ہوا تھا۔

چیئرمین پاک مسلم الائنس بچو عبدالقادر دیوان کہتے ہیں:

آپ کو پتہ ہے یہ نارا کیسے بنا؟ مشرف کے ٹائم پہ ہمارے لوگوں کو روڈ سے اُٹھا کر، گھر سے اُٹھا کر پولیس والے لے جا کر اس کو انگوٹھا لگا کر نارا کارڈ پکڑا دیتا تھا۔ اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ جب تک تمہارا نارا کارڈ نہیں بنے گا اس وقت تک تم نوکری نہیں کر سکتے ہو، تو کچھ لوگوں نے مجبور ہو کر اپنا پیٹ پالنے کیلئے یہ کارڈ بنوا لیا مطلب نہیں سمجھا، اب ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ جس کے پاس پہلے سے ہی شناختی کارڈ ہے، یعنی شناخت ہے، اس کو کیسے پھر غیر ملکی بنا سکتے ہیں؟ اس وقت بھی دو سے تین لاکھ کارڈ نارا کارڈ میں پھنسا ہوا ہے، مگر ایک گھر میں دس افراد ہیں اگر ایک کا بھی نارا کارڈ ہے تو دسوں کا کارڈ پراسیس نہیں ہو گا۔

بقا اور شراکت

کراچی فش ہاربر میں ستر فی صد ورک فورس بنگالی برادری کی ہے۔ مچھلی پکڑنے سے لیکر مچھلی بیچنے تک چھوٹے بڑے بیوپاری، لانچ اونرز، سب ہی بنگالی ہیں، مگر یہاں بھی وہ برابر کے شہری نہیں۔ آج تک فش ہاربر ایسوسی ایشن کی ممبر شپ کسی بنگالی کو نہیں ملی۔ چند سال پہلے  چیئرمین حافظ عبدالبر نے بنگالیوں کو ممبر شپ دینے کی ایک کوشش ضرور کی مگر وہ ناکام رہے۔

محمد حسین شیخ کہتے ہیں:

سندھی، بلوچ اور کچھی ان کو یہ ہضم نہیں ہوا۔ یہ چلے گئے ہائی کورٹ کہ حافظ عبدالبر صاحب ،یہ کیا کر رہے ہیں، کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟ ہمارے باپ دادا نے بنایا تھا 1965 کے بعد تو جب سے یہ ممبر شپ چلی آ رہی ہے پرانا کارڈ، جس طرح پرانا شناختی کارڈ ہوتا تھا، تو حافظ صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کورٹ کے اندر کہ جس طرح پرانا شناختی کارڈ ختم ہوا اور نیا کمپیوٹرائزڈ آگیا اس لیے ماہی گیروں کو بھی کمپیوٹرائزڈ کیا جائے تو اس میں تمام ماہی گیروں کو ہم شامل کر سکتے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں، تین سال بعد الیکشن ہوتا ہے فشری میں اس میں ہم بنگالیوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں، لیکن ابھی تک وہ کیس چل رہا ہے۔

شاید یہاں بھی وہی ڈر تھا کہ کہیں بنگالی 166 سیٹیں نہ لے جائیں! شناخت نہ ہونے کے باوجود یہ قوم پاکستانی معیشت میں اپنا رول پلے کر رہی ہے۔ فشریز ہی نہیں گارمنٹس، فارمنگ، ایگریکلچر، ٹائل میکنگ اور اسکول بیگز بنانے میں بنگالیوں کا بھی ہاتھ ہے۔

چیئرمین پاک مسلم الائنس بچو عبدالقادر دیوان کہتے ہیں:

کسی قسم کی کوئی سبسڈی نہیں ہے، ہماری بجلی کا بل ڈھائی کروڑ آرہا ہے، ہمیں کوئی فیسیلٹی نہیں مل رہی، حکومت کچھ نہیں دے رہی، ہم تو پاکستان کو لا کر ڈالر دے رہا ہے، پاکستان ترقی کرے گا، لیکن ہماری فش انڈسٹری کو حکومت کی طرف سے کسی قسم کی بھی کوئی فیسلٹی نہیں ہے۔

بنگالیوں کے لئے مزید چیلنجز

آپ جانتے ہوں گے کہ نادرا میں ڈیٹا اینٹری کے بعد سینیئر بیوروکریٹ یا ڈپٹی کمشنر کی تصدیق ضروری ہوتی ہے۔ بنگالیوں کو اس کام میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بنگالیوں کی اکثریت پڑھی لکھی نہیں۔ یہ بے چارے اکثر فارمز بھی بغیر پڑھے سائن کر دیتے ہیں۔ اگر یہ فارم اور ایجنٹ دو نمبر ہوں تو اِنہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مچھر کالونی کے مڈل مین اس سیچیوشن کا پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ان سے رشوت لیتے ہیں اور پھر یہی جعلی کام، بنگالیوں کے گلے پڑ جاتا ہے۔

محمد حسین شیخ کہتے ہیں:

میں جب چھوٹا تھا تو ماں باپ مر گئے، اس وقت ان کا کوئی کارڈ نہیں تھا، جب شادی کی تو شادی کے بعد کارڈ بنایا، میرے دو پاسپورٹ بھی ہیں۔ اس کے بعد ایک دفعہ مجھے پکڑ کر لے گئے میں ایک مہینہ جیل بھی کاٹ کر آیا اور میرے کارڈ کو بلاک کر دیا۔ ہماری تین بیٹی ایک بیٹا ہے، ایک اسکول میں بات کر کے اس کو آگے کر دیا، بیٹی نے کسی طرح انٹر کر لیا، میرا بیٹا نہیں کر سکا شناختی کارڈ کی وجہ سے۔

آپ کو کووڈ دور تو یاد ہے نا۔ جب حکومت نے تمام پاکستانیوں کیلئے فری ویکسین کا اعلان کیا تھا، لیکن آپ حیران ہوں گے کہ کراچی کے بنگالی یہاں بھی ویکسین سے محروم رہے تھے۔

ڈائریکٹر امکان ویلفیئر آرگنائزیشن اور وکیل طاہرہ حسن اس بارے میں کہتی ہیں:

کورونا کی ویکسین کیلئے ہم لوگوں نے بہت زیادہ ایڈوکیسی کی اور ڈیڑھ سال بعد حکومت نے اعلان کیا کہ بغیر شناختی کارڈ کے آپ ویکسین لگوا سکتے ہیں اس میں مسئلہ یہ تھا کہ جہاں کورونا کی ویکیسن لگ رہی تھی وہ جگہ مچھر کالونی سے بہت دور تھی، تو یہاں بہت کم لوگوں نے کورونا کی ویکسین لگوائی۔

ریاست انہیں نظر انداز کیوں کر رہی ہے؟

ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، مگر کوئی سیاسی نمائندگی نہیں۔ بنگالیوں کی بستیوں میں جائیں تو آپ کو ہر سیاسی جماعت کا بینر دیکھنے کو ملے گا۔ آدھے لوگوں سے ووٹ تو مانگے جاتے ہیں لیکن بدلے میں انہیں صرف وعدوں پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔

چیئرمین پاک مسلم الائنس بچو عبدالقادر دیوان کہتے ہیں:

پاکستان بنے 77 سال ہو چکے ہیں تب سے لیکر اب تک ہم لوگوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو آزمایا ہے، یہ صرف یہاں تک آتا ہے، جب الیکشن آتے ہیں تو یہ ووٹ لینے کیلئے آ جاتے ہیں، ان کے ووٹ سے منسٹر اور وزیراعظم بن جاتا ہے، لیکن سیٹ پر بیٹھتے ہیں تو پھر ان کو غیر ملکی کہہ دیتے ہیں، پاکستان کے سیاستدانوں نے کبھی ہمیں اپنا نہیں سمجھا۔

افغان مہاجرین اور بنگالیوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ افغانیوں کو حکومتی معاہدے کے تحت پناہ دی گئی تھی۔ اسی معاہدے کے تحت انہیں واپس بھیجا سکتا ہے، اور چند ماہ پہلے ایسا ہی ہوا۔ مگر بنگالیوں کا مسئلہ کچھ اور ہے! پاکستان کا بنگلہ دیش کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ان کے پاس بنگلہ دیش کا شناختی کارڈ ہے نہ کوئی اور ڈاکیومنٹ۔ اب نہ تو یہ پاکستانی ہیں اور نہ ہی بنگلہ دیشی۔ یہ لاکھوں خاندان جائیں تو جائیں کہاں؟

ریحانہ کہتی ہیں:

میرے بچے کام نہیں کر پاتے ہیں، فیکٹری میں جاتے ہیں تو ان کو نکال دیتے ہیں، کہتے ہیں این آئی سی لے کر آؤ، اب جب میرا شناختی کارڈ نہیں بنے گا تو ان کا کیسے بنے گا؟ میری بچیاں اسکول جاتی ہیں تو کہتے ہیں ب فارم لے کر آؤ، میرا شناختی کارڈ ہی نہیں تو ان کا بے فارم کیسے بنے گا؟ اب بچوں کے مستقبل کیلئے تو مجھے چاہئے نا، نادرا جا کر میرے چپل گھس گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے شوہر کو لے کر آؤ، اب میرا شوہر اس دنیا میں نہیں ہے تو کہاں سے لاؤں، اتنا دکھ ہوتا ہے مجھے۔

مفتی محی الدین کہتے ہیں:

میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے زخمی والدین کو سقوط ڈھاکہ کے وقت بنگلہ دیش چھوڑ کر آئے کیونکہ اگر وہ نہ آتے تو ان کی پوری نسل مٹا دی جاتی اور پوری زندگی پھر اس زمین کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس درد اور تکلیف کے ساتھ پاکستان زندہ باد کہتے ہوئے یہ لوگ آئے۔ آپ اس عشق کو کہاں پہ لے کر جا رہے ہیں؟ کون سے ڈاکیومنٹ پر اس عشق کو تولیں گے آپ؟

حافظ محمد جاوید کہتے ہیں:

ایک کام کرو ہم سب بنگالیوں کو ایک جگہ جمع کرو اور بم گرا دو۔

تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا، بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ انتظار۔

In the middle of nowhere… ایک بزرگ کو دیکھا، جن کی عمر شناخت کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزر گئی۔ جو اپنا سب کچھ کھو کر پاکستان آئے تھے، یہاں بھی کچھ نہ پا سکے۔ ایسے ہزاروں بزرگوں کی یہی کہانی ہے۔ جو ریاست سے اپنے  لیے کچھ نہیں چاہتے۔ مگر اب اپنے بچوں کیلئے شناخت مانگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو دھکے انہوں نے کھائے، کم از کم اُن کے بچے تو محفوظ رہیں۔ مگر یہ ننھے بچے تو ابھی شناخت کا مطلب بھی نہیں جانتے، لیکن جب اسکول جانے کے قابل ہوں گے تو ان سے 1970 کے کاغذات مانگے جائیں گے، کہاں سے لائیں گے یہ پیپرز؟

محمد حسین شیخ کہتے ہیں:

تعلیم حاصل کرنے دو ابھی بھی اس قوم میں ایم ایم عالم پیدا ہوگا، تعلیم حاصل کرنے دو، اس قوم میں شیر بنگال اے کے فضل الحق پیدا ہو گا، اس قوم میں محمد علی بوگرا اور محمد علی چوہدری پیدا ہو گا، تعلیم تو حاصل کرنے دو! اس ملک کی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کریں گے اگر بنگالیوں کو حقوق دیئے گئے۔

جاوید جمناسٹ کہتے ہیں:

انٹرنیشنل پلیئر بننا چاہتا ہوں کیونکہ میرے گیم کا لیول بہت اچھا ہو رہا ہے ماشاءاللہ سے پاکستان میں پیدا ہوا ہوں، میرا حق ہے اس ملک پر۔ میرا ملک ہے یہ۔ مجھے حق دینا چاہئے مجھے این آئی سی کیوں نہیں دے رہے؟ ہمیں این آئی سی نہیں دیا جا رہا، ہم نیشنل لیول میں جب جائیں گے ایک مرتبہ کم از کم مجھے بھی تو اپنے ملک کا جھنڈا لہرانا ہے نا دوسرے ملکوں میں۔

سونیا اس بارے میں کہتی ہے:

میں جمناسٹک کر رہی ہوں تو میں نے اسکول لیول کھیلا ہے، نیشنل کھیلا ہے اگر میرا پاسپورٹ بن گیا تو میں انٹرنیشنل لیول بھی کھیل سکتی ہوں

اس کے بعد کیا ہے؟

یہ پڑھنا چاہتے ہیں، ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں! یہ بس شناخت ہی تو مانگ رہے ہیں۔ جس کے لیے یہ آگ کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے تھے۔ یہ لاکھوں بنگالی اسی ملک کے شہری ہیں۔ ایلین کہیں یا سیکیورٹی تھریٹ۔ انہیں جو چاہیں پکاریں، پر آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کا کوئی اور ٹھکانہ بھی تو نہیں۔ انہیں قبول کیجئے! ان کیلئے قانون آسان کیجئے! یہ مردہ نہیں ہیں! بس انہیں، جینے کا حق دے دیجئے!

شیئر

جواب لکھیں