وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف دورۂ سعودی عرب سے واپس آ چکے ہیں۔ ان کے ہمراہ آرمی چیف بھی تھے۔ یہ پچھلے ڈیڑھ سال میں شہباز شریف کا دوسرا دورۂ سعودی عرب ہے اور تقریباً اتنے ہی دورے آرمی چیف بھی کر چکے ہیں۔ اس سے قبل 2019ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آئے تھے۔ تب عمران خان وزیر اعظم تھے۔ اس کے بعد سے وہ پاکستان نہیں آئے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کئی بار آنے کا پروگرام بنایا لیکن پھر وہ کینسل ہو گیا۔ اب سے کچھ ہفتوں پہلے بھی انہوں نے پاکستان آنا، تاریخ بھی طے پا چکی تھی لیکن پھر اچانک یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔

اب ہر عام پاکستانی کی طرح ہم جب یہ سب دیکھتے ہیں تو ذہن میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں یہ دوریاں کیوں پیدا ہو رہی ہیں؟ معاشی طور پر مضبوط نظر آنے والا سعودی عرب اور دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟ پاکستان کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی سطح کا کیا ہوا؟ وغیرہ۔

ایسے سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے رفتار کے بانی فرحان ملک کو دعوت دی کہ وہ نہ صرف ان حالات پر روشنی ڈالیں اور ہمارے سوالات کے جوابات دیں بلکہ کچھ اندر کی بات بھی بتائیں کہ کیا آئی ایم ایف کے قرضے پر مذاکرات خالصتاً معاشی اصلاحات کے لیے ہو رہے ہیں؟ پوڈ کاسٹ دیکھیے اور اہم امور کے بارے ہمارے مہمان کی رائے جاننے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پاکستان میں درکار تبدیلیوں سے متعلق بھی جانیے۔

شیئر

جواب لکھیں