27 اپریل 2022 پریذیڈنٹ ہاوس جئے بھٹو کے نعروں سے گونج رہا ہے، موقع ہی ایسا ہے، شہید بی بی کا بیٹا، بھٹو کا نواسا بلاول وفاقی وزیر کا حلف اٹھارہا ہے، بہت سی انکھیں نم ہیں، لوگ سوچ رہے ہیں، کاش آج بی بی زندہ ہوتی تو وہ کتنی خوش ہوتیں، یہ ہوتی ہے لیگیسی، نانا ینگسٹ منسٹر بنا اور نواسا ینگسٹ فارن منسٹر اور میں ٹی وی پر یہ سب دیکھ کر سوچ رہا تھا۔ کیا ڈرامہ ہے یار! غالب نے یہ شعر شاید بھٹو خاندان کے لیے ہی کہا تھا:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
وہ کیسے ابھی سمجھاتا ہوں، چلیں آپ کو ذرا ماضی میں لے کر چلتے ہیں۔
شیطان کی اب تک کی سب سے بڑی چال یہ تھی کہ دنیا کو یقین دلایا جائے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے۔
ذلفقارعلی بھٹو کا صدر مرزا کو اپریل 1958 کو لکھا گیا خط:
مائی ڈئیر سر! آپ کے احکامات کے مطابق میں یہاں تمام ذمہ دار یاں بھر پور طریقے سے سر انجام دے رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ آپ اب تک کی میری کارکردگی سے مطمئن ہوں گے، سر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہمیشہ آپ کا فرمانبردار اور وفا دار رہوں گا۔ سر شاید آپ کو نہیں معلوم لیکن میرے مرحوم والد نے مجھے وصیت کی تھی میں ہمیشہ آپ کا ساتھ نبھاؤں کیوں کہ آپ ایک انسان نہیں ایک انسٹی ٹیوشن ہیں، اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر آپ نہیں ہوتے تو پاکستان کا کیا ہوتا؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو آپ کا نام سب سے اوپر ہوگا، مسٹر جناح سے بھی اگے۔ بیگم صاحبہ یا اپ کو اگر یہاں سے کچھ چاہیئے ہو تو بلا جھجک مجھے حکم کیجئے گا۔
آپ کا مخلص
ذولفقار علی بھٹو
یہ خط بھٹو نے اسکندر مرزا کو اپریل 1958 میں نیو یارک سے بھیجا تھا، اتنا لمبا خط لکھنے کے بجائے بھٹو صرف یہ بھی کہ سکتے تھے کہ سر۔ آپ کا وژن ہے! لیکن خیر، اس خط میں اٹھانے۔ اوہ میرا مطلب ہے قلم اٹھانے کے چند ماہ بعد بھٹو پاکستان کے ینگسٹ وفاقی وزیر بنادیے گئے تھے، لیکن ابھی اس خط کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر انہیں لندن بھیج دیا اور پھر اپریل میں اسکندر مرزا کو جناح سے بڑا لیڈر کہنے والے بھٹو اکتوبر میں ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر بلانے لگے، ویسے بھی ان کے بایولوجیکل والد تو کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے۔
بھٹو کی خیانت پر اسکندر مرزا کہتے تھے:
میں نے اسے اقتدار کا پہلا ذائقہ چکھایا، لیکن اسے ایک نیا استاد مل گیا۔
ایوب کی بھٹو سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1958 میں بننے والی پہلی ایوب کیبنیٹ میں تمام ارکان اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی تجربہ کار اور ماہر سمجھے جاتے تھے۔ لیکن واحد بھٹو تھے جنہیں اپنی وزارت میں کوئی تجربہ یا مہارت حاصل نہیں تھی اور پھر پانچ سال کی بھرپور ٹریننگ کے بعد بھٹو بالآخر 1963 میں وزیر خارجہ بن گئے، بھٹو اپنی ترقی پر اتنے خوش ہوئے کہ صدر ایوب کو تا حیات صدر رہنے کا مشورہ تک دے ڈالا، اب اپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ دیکھو یار کیسا ادمی تھا۔ جس کی حکومت اس کے ساتھ؟ لیکن بھٹو اپنی اس صلاحیت پر نازاں تھے۔ قریبی حلقوں میں اکثر کہتے سنے جاتے کہ دیکھو یہ صرف میری قابلیت تھی کہ مجھے اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں نے چوز کیا۔
دسمبر 1965
دسمبر 1965 ایوب خان انڈیا سے مذاکرات میں امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر وائٹ ہاوس پہنچ گئے، جہاں امریکی صدر جونسن نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا، اس دور ے پر ایوب خان کو امریکا سے اور تو زیادہ کچھ نہیں ملا لیکن جونسن سے وزیر خارجہ بھٹو کے متعلق ایک مفت مشورہ ضرور مل گیا
جونسن نے ایوب خان سے کہا:
مسٹر پریذیڈینٹ میں جانتا ہوں کہ آپ بھٹو پر بالکل ویسے ہی اعتماد کرتے ہیں جیسے میں ڈین رسک پر یا ایئزن ہاوا ڈیلس پر کیا کرتے تھے لیکن آپ بھٹو کو ٹرسٹ نہیں کر سکتے، میں آپ کے ملکی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہتا لیکن آپ میرے دوست ہیں اور میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ شخص انتہائی خطرناک ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں خبردار کر رہا ہوں۔
آج تو ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ 65 کی جنگ ہم جیتے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اس تاریخی فتح کے بعد آرمی چیف اور صدر ایوب خان شدید ڈپریشن میں چلے گئے، وہ جانتے تھے کہ سرکاری میڈیا پر جنگ کے جو حالات بتائے گئے ہیں حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے، تاشقند مذاکرات کے دوران ایک موقع تو ایسا آیا کہ ایوب نے بھارتی وزیر اعظم شاستری سے درخواست کی کہ کشمیر کے معاملے پر کچھ ایسا کر دیجئے کہ میں اپنے ملک میں منہ دکھانے کے قابل رہوں، شاستری کے جواب نے ایوب کو مزید پریشان کردیا، انہوں نے کہا صدر صاحب، میں معافی چاہتا ہوں لیکن اس معاملے پر میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔
65 کی جنگ کے بعد ایوب کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ ان کی عمر تو صرف 61 سال تھی لیکن ان کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی، ہواؤں کا رخ بدل رہا تھا اور ساتھ ساتھ اور ایوب کے سیاسی صاحبزادے کا قبلہ بھی، اسٹانلی وولپرٹ اپنی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب تاشقند میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہوا تو سیکرٹیری خارجہ عزیز احمد نے بھٹو سے کہا: The bastard is dead، جس پر بھٹو نے کہا:Which one? ۔
چھ مہینوں میں اسکندر مرزا کو بھلانے والے بھٹو نے آٹھ سال میں ایوب خان کو ڈیڈی سے باسٹرڈ بنا دیا تھا اور پھر 5 فروری 1966 کو لاڑکانہ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں ایوب خان نے بھٹو کو کابینہ سے فارغ کر دیا۔ سب سے حیرانی کی بات بتاؤں؟ جب 1974 میں ایوب خان کا انتقال ہوا تو اس وقت کے طاقت ور وزیر اعظم اور چند سال پہلے تک انہیں ڈیڈی بلانے والے ذولفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم ہاؤس سے چند کلومیٹر دور راولپنڈی ریس کورس گراونڈ میں ہونے والی نماز جنازہ میں شرکت تک نہیں کی۔
دسمبر 1970
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نتائج آ چکے تھے، عوامی لیگ سادہ اکثریت حاصل کر چکی تھی۔ پاکستانیوں کا فیصلہ تھا کہ شیخ مجیب ان کا اگلا وزیر اعظم ہو گا، مگر ملٹری لیڈرشپ کا فیصلہ کچھ اور تھا، یحیی خان قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا رہا تھا اور بھٹو ساتھ بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، ائیر انڈیا کا ایک فوکر طیارہ ہائی جیک ہو گیا، ہائی جیکر طیارے کو لاہور لے آئے، ان کی ڈیمانڈ تھی کہ انڈین حکومت کشمیری عسکریت پسند رہنماؤں کو فورا رہا کرے، ابھی مذاکرات چل ہی رہے تھے کہ بھٹو ہائی جیکرز سے ملاقات کے لیے اغوا شدہ جہاز پر جا پہنچے اور ہائی جیکرز کو قومی ہیروز قرار دے ڈالا، بھٹو کے اس بیان نے معاملات مزید خراب کردئے، مذاکرات ختم ہوگئے، ہائی جیکرز نے طیارے کو اگ لگا دی اور انڈیا نے اپنی ایئر اسپیس پاکستانی جہازوں کے لیے بند کر دی۔
3 مارچ 1971
3 مارچ 1971کو انتخابات کے دو مہینوں بعد یحیی نے ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا، لیکن اجلاس سے صرف پانچ دن پہلے 27 فروری کو بھٹو موچی گیٹ لاہور میں ایک جلسہ کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اجلاس چار مہینے بعد بلایا جائے اور یہی نہیں ساتھ دھمکی بھی لگائی کہ جس نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی اس کے ساتھ اچھا نہیں ہو گا، یکم مارچ کو اجلاس سے صرف دو دن پہلے یحیی خان نے بھٹو کا مطالبہ مانتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔
ادھر تم ادھر ہم
14 اپریل کو بھٹو نے نشتر پارک کراچی میں خطاب کرتے ہوئے ایک انوکھا مطالبہ کر ڈالا، یہی وہ بیان تھا جس نے پہلی بار پاکستان کی تقسیم کی بنیاد ڈالی۔ بھٹو نے مطالبہ کیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے دو الگ الگ وزرائے اعظم بنا دیے جائیں اور وہاں عوامی لیگ اور یہاں پیپلز پارٹی کو اقتدار دے دیا جائے
18 دسمبر 1971
آرمی چیف یحیی خان کے اقتدار کی ہوس جناح کا پاکستان ختم کرچکی تھی، لیلن اس کی بھوک ختم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اب بھی اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتے تھے لیکن اس بار وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انہیں اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ایک خاموش بغاوت کا سامنا ہوگیا۔ ان تک واضح پیغام پہنچا دیا گیا کہ 19 دسمبر شام 8 بجے سے پہلے پہلے گھر چلے جائیں ورنہ ان کی اپنی فوج ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی۔ یحیی چلے گئے، بھٹو الیکشن ہار کر بھی وزیراعظم بن گئے، بلاول ٹھیک کہتے ہیں ڈیموکریسی از دا بیسٹ ریوینج اس الیکشن سے لے کر آج تک پی پی پی نے پانچ بار وفاق میں حکومت تو کی لیکن کبھی کسی بھی الیکشن میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی ، آف کورس ہم 77 کے الیکشن کو کاونٹ نہیں کررہے۔ یقین نہیں آتا تو چیک کرلیں۔ 88، 93، 2008، یا پھر 2022 اور 2024 ہر بار پیپلز پارٹی اتحادیوں کی بے ساکھیوں کے سہارے ہی وفاقی حکومت میں آئی ہے۔ شاید یہی بھٹو کی اصل لیگیسی بھی ہے۔ جس جماعت کی گھٹی میں ہی اکثریت کو رد کرنا ہو اس جماعت سے اکثریت کیوں بے زار نہ ہو!
خیر واپس 70s میں چلتے ہیں بھٹو وزیراعظم بن چکے تھے لیکن یہ کافی نہیں تھا وہ مارشل لا ڈکٹیٹر بن گئے اور پھر وہی ہوا جو شروع سے ہوتا آ رہا تھا، بھٹو نے انہیں اقتدار کی مسند پر بٹھانے والے آرمی چیف گل حسن خان اور ایر چیف رحیم خان کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا، 2 مارچ 1972 کو دونوں کو سہالہ گیسٹ ہاوس بلایا گیا، سہالہ گیسٹ ہاوس ان دنوں سیاسی قیدیوں کے حوالے سے بدنام تھا، دونوں چیفس نے اس مشکوک مقام پر میٹنگ سے انکار کر دیا۔ انکار پر میٹنگ کا مقام پریزیڈنٹ ہاوس اسلام اباد منتقل کردیا گیا، جب دونوں وہاں پہنچے تو بھٹو نے انہیں واضح الفاظ میں بتا دیا کہ آپ دونوں کو عہدوں سے ہٹایا جارہا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ گل حسن خان کو میڈرڈ اور رحیم خان کو ویانا پوسٹ کیا جا رہا ہے جہاں وہ اپنی نوکری کے باقی دن سکون اور خاموشی سے گزاریں گے۔ ائیر چیف نے کہا یہ ڈرامہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں سیدھا سیدھا استعفا دے کر گھر چلا جاتا ہوں۔ بھٹو کی خوشی کی انتہا نہ رہی، فٹافٹ استعفے تیار کیے گئے۔ سلطان خان بتاتے ہیں کہ رات ہو چکی تھی ایوان صدر کے سارے اسٹینوگرافر گھر جا چکے تھے بڑی مشکل سے ایک ٹائپ رائٹر ارینج ہوا جس پر استعفے ٹائپ کیے گئے۔ استعفوں پر دستخط لینے کے بعد غلام مصطفی جتوئی اور مصطفی کھر نے دونوں حضرات کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور لاہور کا رخ کر لیا، یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور آخری موقع تھا جب ایک صدر نے ایک سٹنگ آرمی اور ائر چیف کو غائب کروا دیا تھا۔ ویسے بلاول آئی جی سندھ کے اغوا پر کتنا ناراض ہوئے تھے سوچیے آرمی چیف کے اغوا پر ان کا ری ایکشن کیا ہوتا؟ خیر پھر بھٹو اپنا آرمی چیف لے آئے۔ ان کی چوائس بھی خوب تھی، بچر اف بلوچستان اینڈ ماسٹر مائنڈ اف دا جینوسائڈ اف ایسٹ پاکستان جنرل ٹکا خان۔
ایک انٹرویو میں جب بھٹو سے ٹکا خان کے بارے میں سوال ہوا تو وہ بولے:
ٹکا ایک سپاہی تھا۔ ٹکا خان اپنا کام کررہا تھا، اسے جو حکم ملا اس نے وہ پورا کیا۔
بھٹو تو ٹکا خان کے قصیدے پڑھ رہے تھے لیکن ٹکا خان کے اپنے جنرل نیازی اپنی کتاب میں انہیں کچھ یوں یاد کرتے ہیں، ٹکا خان کو کلئیر ارڈرز تھے کہ ہمارا ہدف باغی فورسز ہیں لیکن انہوں نے تو پورے ایسٹ پاکستان کو اگ لگا دی۔ انہوں نے کہا مجھے یہاں کے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں مجھے یہاں کی زمین چاہیے۔ چاہے زمین کا رنگ سبز سے لال ہی کیوں نہ ہو جائے، فوج کو مکمل کنٹرول کرنے کے بعد بھٹو کا اگلا ہدف تھا عدلیہ، 73 میں آئین بنانے کے بعد بھٹو نے اگلے تین سالوں میں اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں آدھا درجن ترامیم کر ڈالیں، جن میں سے بالخصوص چوتھی، پانچویں اور چھٹی ترمیم کا مقصد عدلیہ کو کنٹرول کرنا تھا، 75 میں پاس ہونے والی چوتھی ترمیم میں ہائی کورٹس سے ضمانت کے اختیارات واپس لے لیے گئے۔ یہ ترمیم بھی بغیر کسی ڈسکشن کے بغیر کسی مشاورت کے اپوزیشن کو بلڈوز کرکے پاس کرائی گئی، نہ جانے اس وقت کیا مجبوری تھی۔
76 میں پاس ہونے والی پانچویں ترمیم کا مقصد بھی ججز کی پاورز کو کم کرنا اور سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کا چیف جسٹس لانا تھا۔ لیکن سب سے دلچسپ چھٹی اور آخری ترمیم الیکشنز سے پہلے اسمبلی کے آخری سیشن میں پاس کی گئی جس میں اپنے من پسند چیف جسٹسسز کی مدت ملازمت میں تین تین سال کی ایکسٹینشن کر دی گئی۔ کچھ سنا سنا لگ رہے نا۔ واقعی بھٹو زندہ ہے! اسی سال جب آرمی چیف کی تقرری کا موقع آیا تو بھٹو نے پانچ سینیئر موسٹ جنرلز کو بائی پاس کرکے جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنادیا۔ وہی ضیا۔ جو بھٹو کے کمرے کے باہر پہرہ دیتے نظر آتے تھے، وہی ضیا، جو بھٹو کو بوس بوس کہہ کر بلاتے نہیں تھکتے تھے۔ جنرل چشتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ضیا کے نام کو اعلان ہوا تو ہم سب حیران پریشان تھے کہ اس جیسا۔ انتہائی معمولی قابلیت کا شخص آرمی چیف کیسے بن گیا؟ لیکن جنرل چشتی غلط تھے۔ بھٹو کے دربار میں جس قابلیت کی ضرورت تھی ضیا میں وہ قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور پھر ضیا جس شخص کے قدموں میں بیٹھ کر آرمی چیف بنے تھے، ایک سال بعد اسی شخص کو کرسی سے گراکر پھینکنے میں زیادہ وقت نہیں لگایا، شاید وہ فوجیوں کے بھٹو بننا چاہتے تھے۔
یکم جولائی 1978
بھٹو مری کے گیسٹ ہاوس میں بے چینی سے ٹہل رہے تھے، موسم تو اچھا تھا لیکن ان کے ماتھے پر پسینہ مری کی کسی آبشار کی طرح بہ رہا تھا۔ پھر اچانک کمرے کے باہر سے شور کی آوازیں آنے لگیں، کوئی آرہا تھا اور پھر دروازہ کھلا اور جنرل ضیا الحق کمرے میں داخل ہوگئے، یہ دونوں پہلے بہت بار مل چکے تھے لیکن آج ہونے والی ملاقات ذرا مختلف تھی، آج بھٹو ضیا کا بوس نہیں قیدی تھا لیکن پھر بھی ضیا کا خیال تھا کہ Bhutto being bhutto، آج کی ملاقات میں اسے خوب کھری کھری سنائے گا، اس کی اوقات یاد دلائے گا، کہے گا میں نے تمہیں چھٹے نمبر سے اٹھا کر سپہ سالار بنا یا اور تم نے میرا ہی تختہ الٹ دیا۔ ابھی ضیا اپنے دماغ میں بھٹو کے ممکنہ حملوں کا جواب سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے کانوں سے آواز ٹکرائی، ارے جنرل آپ آگئے، میں کب سے آپ کا انتظار کررہا تھا اور اس سے پہلے کہ ضیا اپنے مارشل لا کی کوئی توجیحات پیش کرتے بھٹو بولے، ارے جو ہوا سو ہوا، let bygones be bygones میں اور آپ مل کر حکومت چلاتے ہیں، ہم دونوں مل کر ہی پاکستان کو اس کرائسس سے نکال سکتے ہیں، کیوں حیران ہوگئے؟ ضیا بھی ہوگئے تھے، اب ذرا فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں اور دختر مشرق کے پہلے دور میں چلتے ہیں۔
جون 1989
آرمی چیف اسلم بیگ اپنے دفتر میں کام کررہے تھے کہ ان کا فون بجا، لائن پر پرائم منسٹر آف پاکستان بے نظیر بھٹو موجود تھیں، ہیلو جنرل صاب، ہاو آر یو، واجبی سلام دعا کے بعد بے نظیر نے جنرل بیگ کو بتایا کہ وہ آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں، یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن جو اگلی بات بے نظیر نے کی اس نے جنرل بیگ کو ہلا کر رکھ دیا، جنرل صاحب میں چاہتی ہوں کہ جنرل گل کی جگہ جنرل شمس الرحمان کلو ڈی جی آئی ایس آئی اپائنٹ کرلیا جائے، لیکن میڈم پرائم منسٹر وہ تو ریٹائرڈ ہیں! جنرل بیگ نے جواب دیا! میں آپ کو تین نام بھجواتا ہوں آپ ان میں سے کوئی سیلیکٹ کرلیں۔ یہی ہمارا طریقہ ہے! کال ختم ہوگئی۔ آرمی چیف نے نام بھجوا دیے، لیکن بے نظیر نے پھر بھی جنرل شمس الرحمان کلو کو ہی ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کردیا، پوری فوج میں کھلبلی مچ گئی، کیسے ایک ریٹائرڈ افسر جو فوج کے ڈسپلن کا پابند بھی نہیں ہر طرح کی میٹنگز کا حصہ بن سکتا ہے، اس طرح تو فوج اور آئی ایس آئی میں دوریاں پیدا ہوجائیں گی، لیکن بے نظیر آئی ایس آئی میں اپنا بندا چاہتی تھیں، چاہے وہ ریٹائرڈ ہی کیوں نا ہو؟ یہ بھی کچھ سنا سنا لگ رہا ہے نا۔ مگر اس میں کیا بری بات تھی ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ پی ایم کو رپورٹ کرتا ہے اور یہ ان کی صوابدید تھی جسے چاہے لگا دیں اور ویسے بھی یہ کہاں لکھا تھا کہ ریٹائرڈ افسر آئی ایس آئی چیف نہیں بن سکتا، اصل اسٹوریز تو بے نظیر کے دوسرے دور کی ہیں، غلام اسحاق خان کی ڈسی بے نظیر نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ اس بار صدر کے عہدے پر کوئی ایسا بندہ لانا ہے جو بالکل گھر کا ہو، اپنا بندہ! بھائی جیسا! ان کی نظریں فاروق بھائی پر آکر ٹہر گئیں، ارے، ہمارے پی آئی بی کے 80 گز کے گھر میں رہنے والے فاروق بھائی نہیں جنوبی پنجاب کے لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک سردار فاروق خان لغاری پرفاروق لغاری بے نظیر کے آدمی تھے، آپ جانتے ہیں، لیکن پھر یہ بھائی بہن جانی دشمن بن گئے، یہ بھی سب جانتے ہیں، لیکن یہ لڑائی ہوئی کیوں؟ یہ کہانی شاید آپ نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی ہوگی، ہے ہین کیسلنگ اپنی کتاب یونٹی فیتھ ڈسپلن دی آئی ایس آئی آف پاکستان کے صفحہ نمبر ایک سو سولہ میں لکھتے ہیں کہ اپنے دوسرے دور حکومت میں بے نظیر صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار سے خاصی پریشان تھیں۔ اسی لیے اپنے خاص آدمی فاروق لغاری کو صدر بنوایا۔ لیکن پھر بھی کچھ دن بعد صدر اور وزیراعظم ہاوس میں ٹینشنز بڑھنے لگیں۔ اسی دوران پریس کو ایک وڈیو لیک کی گئی۔ جس میں صدر لغاری کے خاندان کے ایک شخص کو انتہائی نازیبا حالت میں فلمایا گیا تھا، کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ یہ وڈیو آئی بی نے ایک اعلی حکومتی شخصیت کی ریکویسٹ پر تیار کی تھی، جس کا مقصد صدر کو کنٹرول کرنا تھا، لیکن بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وڈیو دراصل آئی ایس آئی نے تیار کرکے اس کا الزام حکومت پر لگایا جس کا مقصد بے نظیر اور لغاری کے درمیان اختلافات کو بڑھاوا دینا تھا، خیر بعد میں پیش آنے والے حالات گواہ ہیں کہ وڈیو نے معاملات بنانے کے بجائے مزید خراب کردئے اور لغاری نے بے نظیر کے اپنے ایک اور بندے کے ساتھ مل کر ان کی دوسری اور آخری حکومت کو بھی گھر بھیج دیا۔ ویسے یہ اپنا بندہ لانے کی خواہش صرف ہمارے بھٹوز کو ہی نہیں، تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی شخصیات سے لے کر بادشاہوں تک اپنے بندوں کو اہم عہدے بانٹنے کا شوق صدیوں پرانا ہے، پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ بار بار اپنے بندوں سے دھوکا کھانے کے باوجود انسان ہے کہ سبق ہی نہیں سیکھتا۔ خیر واپس 90s میں چلتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ مئی 1993 میں جب سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بنچ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ سنایا تو صرف ایک جج تھا جس نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور بے نظیر کو یہ کام بہت پسند آیا، اسی لیے چھٹے نمبر کے افسر کو آرمی چیف بنا نے والے بھٹو کی بیٹی نے 20 سال بعد سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے سے نوازنے کا فیصلہ کیا، یہ الگ بات ہے کہ زرداری کے قریبی دوست سیشن جج رفیق آغا کی سندھ ہائی کورٹ میں اپائنٹمنٹ کو لے کر بالآخر یہ دوستی بھی ٹوٹ گئی۔ جس کا نتیجہ الجہاد ٹرسٹ کے تاریخی کیس کی صورت میں نکلا۔ بعد میں بے نظیر اپنے اس چیف سے اتنی ناراض ہوئیں کہ ایک بار یہ تک کہ دیا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں جہانگیر بدر کو چیف جسٹس لگادیتی۔ ایک بار جب سجاد علی شاہ کچھ بیمار ہوئے تو بے نظیر ان کی عیادت کے لیے ٹافیوں کا تحفہ لے کر گئیں، ستانوے میں جب بے نظیر حکومت فارغ ہوئی تو ان کے اپنے لگائے ہوئے چیف نے ان کی حکومت کی برطرفی کے حق میں فیصلہ سنا کر بی بی کو ہمیشہ کے لیے گھر بھیج دیا۔
بے نظیر نے مارشل لاء کے حق میں بیان دیا۔ ویسے لوگ اس بیان پر بہت حیران اور پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں پریشانی کی کیا بات ہے! پی پی پی اور فوج کی ہمیشہ سے خوب بنتی آئی ہے ۔بی بی وہی کر رہی تھیں جو انہوں نے اپنے مرحوم والد کو کرتے دیکھا تھا۔ بھٹو مرحوم نے نہ صرف دو فوجی آمروں ایوب اور یحیی کے ساتھ مل کر کام کیا بلکہ ضیا تک کو مری گیسٹ ہاوس میں اپنی حمایت اور شراکت کا یقین دلایا۔ یاد ہے نا۔ نہیں، تو پیچھے جا کر پورا دوبارہ پڑھ لیں۔
10 مارچ 2008
سفیر نے 10 مارچ کو آصف زرداری سے ملاقات کی تاکہ وہ پی ایم ایل (ن) کے سربراہ نواز شریف کے ساتھ ہونے والے "معاہدے" پر زرداری کا موقف جان سکیں۔ زرداری نے کہا کہ ان کی اور نواز شریف کی بہت نجی طور پر یہ بات طے ہوئی تھی کہ سابق چیف جسٹس کو بحال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی موجودہ چیف جسٹس ڈوگر کو ہٹایا جائے گا۔ جب سفیر نے ججز کی بحالی کے لیے پارلیمانی قرارداد کی 30 دن کی ڈیڈ لائن کے بارے میں پوچھا، تو زرداری ہنسے اور کہا کہ سیاست میں 30 دن 80 یا 90 بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، خاص طور پر طارق عزیز کے ساتھ، جن کے ساتھ وہ خود کو بہت کمفرٹ ایبل محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مشرف "ریلیکس" کریں اور سابق چیف جسٹس کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں۔
9 فروری 2009
صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کردیا۔ ٹھیک ہوگیا؟ جمہوریت، سویلین سپریمیسی۔ عدلیہ کی آزادی۔ بھٹو کی لیگیسی! آگے چلیں! او سوری بھٹو کی لیگیسی سے یاد آیا۔اگے نہیں پیچھے جانا پڑے گا، 1973 میں!
10 فروری 1973
مقام: عراقی سفارتخانہ اسلام آباد، صبح کے دس بج رہے ہیں ، اسلام آباد کے ایک انتہائی حساس علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی موومنٹ شروع ہوتی ہے۔ ایک دو تین چار اور پھر درجنوں گاڑیاں ایک بلڈنگ کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیتی ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ اس بلڈنگ میں کوئی بہت ہی خطرناک دہشت گرد یا ہائی ویلیو ٹارگٹ موجود ہے، سیکیورٹی اہلکار بلڈنگ کے اندر گھس گئے اور پھر ایک لیزر گائڈڈ میزائل کی طرح ایک ٹنکی کا ڈھکن اٹھاتے ہیں اور یہ کیا، اس ٹنکی میں تو خطرناک جنگی اسلحہ رکھا ہوا ہے، درجنوں بندوقیں، کلاشنکوفیں اور گرینیڈ، ایک سیکنڈ میں نائی زیرو والے چھاپے کی بات نہیں کررہا، یہ بلڈنگ کسی سیاسی یا عسکری تنظیم کا ہیڈکوارٹر نہیں بلکہ پاکستان میں عراق کا سفارت خانہ تھا۔ منٹوں سیکنڈوں میں پی ٹی وی کے کیمرے اور انٹرنیشنل پریس بھی وہیں بلوالی جاتی ہے، الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اسلحہ روس نے بذریعہ عراق بلوچستان میں گڑ بڑ پھیلانے کے لیے بھجوایا تھا، عراقی سفیر کے لیے یہ ناقابل یقین تھا، یہ نہ صرف سفارتی آداب کی خلاف ورزی تھی بلکہ ایک غیر قانونی عمل بھی تھا، مگر سفارت خانے سے کچھ کلومیٹر دور اپنے آفس میں بیٹھے ذولفقار علی بھٹو انگلیوں میں سگار دبائے مسکرارہے تھے!
امریکی انٹیلی جنس کئی سالوں بعد اپنے ڈی کلاسیفائی ہونے ڈاکومنٹس میں اس پورے واقعے پر بڑا مزیدار تبصرہ کیا ہے:
عراقی ایمبیسی سے ہونے والی اسلحے کی ڈرامائی ریکوری ہماری سمجھ سے باہر ہےْ، روس یا عراق ایسا کیوں کر رہے تھے اس بات کا جواب اب تک کسی کے پاس نہیں۔ اس کے ساتھ ایک بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اتنا زیادہ اسلحہ کراچی ایرپورٹ کے کسٹمز سے نکل کر اسلام آباد تک پہنچا کیسے گیا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس پیشرفت کا سب سے بڑا فائدہ بھٹو کو ہوا ہے!
14 فروری 1973
اسلحہ ریکوری کے ٹھیک چوتھے دن آرمی کے چن تخب وزیراعظم ذولققار علی بھٹو نے بلوچستان میں عطا اللہ مری کی منتخب حکومت فارغ کر کے گورنر راج نفاذ کر دیا، آج نہ بھٹو ہیں نا بے نظیر ،لیکن پی پی پی آج بھی تاریخ پر غور کیے بغیر اپنے ججز کی تلاش میں لگی ہے۔
بلاول کا مہر بخاری کے پروگرام میں کہا:
منصور علی شاہ ججز کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے۔
صحافیوں کا قتل ہو، منی لانڈرنگ ہو یا ہارس ٹریڈنگ، وڈیروں کی سرپرستی ہو یا پھر مقامی اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل، پیپلز پارٹی آج بھی ہر میدان میں سب سے آگے نظر آتی ہے۔ فیک اکاونٹس یا پھر بحریہ ٹاون جیسے اوپن اینڈ شٹ کیسز کے باوجود زرداری کہتے ہیں نیب کی کیا حیثیت ہے، اس کی کیا مجال ہے کہ مجھ پر کیسز بنوائے۔
قیادت، مقبولیت، کارکردگی ان سب چیزوں کی کسے ضرورت ہے، جب بھٹو زندہ ہے!