وہ سید خاندان کا چشم و چراغ تھا مگر جب اس کا جنازہ اٹھا تو قرآن، گیتا، انجیل، توریت اور شاہ جو رسالو اس کی میت کے سرہانے رکھے تھے۔ ایک مسلمان معاشرے میں یہ عجیب بات تھی لیکن ایسا کرنا اس کی وصیت تھی۔ جسے پورا کرنا اس کے چاہنے والوں نے اپنا فرض سمجھا۔

وہ کہا کرتا کہ انسانیت اس کا پہلا مذہب ہے، باقی سب بعد میں آتا ہے۔ اسے جو کہنا ہوتا تھا بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے کہہ ڈالتا۔ اسے کبھی مذہبی فتووں اور روایتی ملائیت سے ڈر نہیں لگا۔ وہ کبھی اپنے آپ میں ڈوبا ہوا صوفی نظر آتا تو کبھی اس کے اندر کا باغی پوری شدت سے باہر آ جاتا۔ صرف حکومت ہی نہیں پورے معاشرے کو چیلنج کرنے لگتا۔ جب اس پر ملک دشمنی اور غداری کے مقدمات بنتے تو جج انہیں ذاتی طور پر پیغامات بھیجتے کہ خدارا، آپ عدالت مت آئیے گا، آپ اعتراف کرنے میں دیر نہیں کریں گے اور مجبوراً ہمیں سزا سنانی پڑے گی۔

وہ گاؤں کی مسجد میں امامت کرتا رہا، جمعے کے خطبے دیتا رہا، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر تہجد پڑھتا رہا، غریبوں میں نیاز بانٹتا رہا، مگر سیکولرزم کا بھی پرچار کرتا رہا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ کبھی کبھار اس کی شخصیت ایک معما بن جاتی جو ہر ایک کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ مذہب کے بارے میں تو اس کے بعض تصورات اس انتہا کو پہنچتے کہ لوگ اسے مسلمان ماننے سے ہی انکار کر دیتے تھے۔

ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم مگر متنازع ترین سیاست دان، سندھ کے قوم پرست رہنما، ادیب، دانش وَر اور ڈھیروں کتابوں کے مصنف غلام مرتضیٰ سید کی جنہیں عرف عام میں ’’جی ایم سید‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سید نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں قیامِ پاکستان کی قرار داد پیش کی مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی شخص نے پاکستان کی حمایت کو اپنا ’’عظیم گناہ‘‘ قرار دیا۔ صرف یہی نہیں، وہ پاکستان کی مخالفت میں اتنا آگے چلا گیا کہ دوستوں سے کہتا کہ آؤ دعا کریں کہ پاکستان ٹوٹ جائے!

ایک وقت تھا کہ وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کا نہ صرف دل سے احترام کرتا بلکہ کسی محبوب کی طرح انہیں ٹوٹ کر چاہتا۔ ایک بار جب یہ افواہ پھیلی کہ جناح قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے، تو جی ایم سید پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کے اپنے الفاظ تھے:

جناح کی موت نے مجھ پر زلزلہ طاری کر دیا، میرا وجود کانپنے لگا اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے، مجھے لگا کہ میرا سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

مگر یہی جی ایم سید قائدِ اعظم کی زندگی ہی میں ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اور بانی پاکستان کے مقابلے میں اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی۔

آخر یہ نوبت کیوں آئی؟ اس پر بات کریں گے لیکن پاکستان کو قبول نہ کرنے والے اس شخص میں کوئی بات تو تھی کہ کٹر مخالفین بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ تلخ سے تلخ بات کو ہنس کر پی جایا کرتے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس تاریخ ساز شخصیت کی دلچسپ زندگی سے آپ کو آگاہ کریں، سب سے پہلے آپ کو جی ایم سید کی ابتدائی زندگی کی طرف لیے چلتے ہیں۔

جی ایم سید سندھ کے موجودہ ضلع دادو کے چھوٹے سے گاؤں سن میں 17 جنوری 1904 کو پیدا ہوئے۔ محض 16 ماہ کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد سید محمد شاہ کاظمی خاندانی دشمنی پر قتل کر دیے گئے۔ کہا جاتا ہے جس بچے کو باپ کی انگلی پکڑنا نصیب نہیں ہوتا وہ چلنا تو سیکھ جاتا ہے لیکن اسے زمانے کے ساتھ دوڑنا نہیں آتا۔ مگر یہاں ایسا نہیں تھا۔ شِیر خوارگی میں یتیم ہونے والے جی ایم سید زندگی میں نہ صرف دوڑے بلکہ عمر بھر دوسروں کو بھی دوڑاتے رہے۔

جی ایم سید ذرا بڑے ہوتے ہیں تو گھر ہی میں تعلیم اور تربیت کا بندوبست کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آ جاتے ہیں۔ جی ایم سید غیر معمولی ذہین تھے۔ ان کا دماغ ہمیشہ اپنی عمر سے آگے کا سوچتا تھا بلکہ شاید اپنے اساتذہ سے بھی کچھ آگے۔

ملکی اور عالمی حالات میں ان کی دلچسپی حیران کن تھی۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر ہوتی۔ تعلیم سے لگاؤ کا عالم یہ تھا کہ 16 سال کی عمر میں اپنے گاؤں میں ایک بورڈنگ اسکول بنوایا اور خود اس کے صدر بنے۔

سیاست میں انٹری

1919 میں تحریک خلافت شروع ہوئی اور پھر لاڑکانہ میں ایک جلسہ ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی تقریروں نے جی ایم سید کو بڑا متاثر کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنے گاؤں سن میں خلافت کانفرنس کرانے کا اعلان کر دیا جو انگریز سرکار کو سخت ناگوار گزرا۔ انہیں دھمکیاں ملیں کہ اگر کانفرنس ہوئی تو سرکار زمینوں سے ملنے والی رقم بند کر دے گی۔

یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ جی ایم سید کے والد کے قتل کے بعد ان کی زمینیں انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں لے لی تھیں۔ انہیں بدلے میں ایک مخصوص رقم ہی ملا کرتی تھی۔ مگر جی ایم سید نے سن میں خلافت کانفرنس کروا کر بتا دیا کہ وہ ڈرنے والے نہیں۔ اس کانفرنس میں ترک مسلمانوں کے لیے چندہ جمع کیا گیا اور کئی سیاسی رہنماؤں نے انگریز سرکار کی مراعات اور القابات واپس کر دیے۔

کراچی لوکل بورڈ کی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد 1929 میں سید کراچی ضلع کے نائب صدر منتخب ہوگئے۔ اگلے ہی سال انہوں نے سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ انہی دنوں گاندھی کا فلسفہ انہیں اپنی طرف کھینچنے لگا جس میں ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا جاتا تھا۔ جی ایم سید نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔ 27 اپریل 1921 کو گاندھی سندھ کے دورے پر آئے۔ صرف سولہ سال کے سید قافلے کی قیادت کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پہنچے اور گاندھی کا استقبال کیا۔ گاندھی نے جی ایم سید کو کھدر پہننے کا مشورہ دیا جس پر انہوں نے عمل بھی کیا۔ اور ہاں انگریز سرکار نے وہ کون سا چیلنج دیا تھا جسے صرف جی ایم سید ہی پورا کر سکا؟ اس سے پردہ اٹھائیں گے لیکن فی الحال بات سید کی بڑی سیاسی کامیابی کی۔

پہلی سیاسی کامیابی

جی ایم سید کو احساس ہونے لگا تھا کہ سندھ کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کیے بغیر سندھیوں کی حالت نہیں بدلے گی۔ 1934 میں وقت کے تمام بڑے سیاسی رہنما کراچی میں جی ایم سید کی رہائش گاہ ’’حیدر منزل‘‘ پر جمع ہوئے۔ یہاں انہوں نے سندھ کی پہلی سیاسی جماعت ’’سندھ پیپلز پارٹی‘‘ بنائی۔

بلاول بھٹو کے پڑنانا اور ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو پارٹی کے صدر اور جی ایم سید نائب صدر منتخب ہوئے۔ اس جماعت نے سرکار پر اتنا دباؤ ڈالا کہ صرف دو سال میں انگریز نے گھٹنے ٹیک دیے اور سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے سندھ اسمبلی قائم کر دی۔

1936 کے الیکشن میں جی ایم سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ قوم پرست رہنما ڈاکٹر حمید سبزوئی کے مطابق یہ وہ دور ہے جب جی ایم سید کانگریس کو ہاتھی دانت کہا کرتے جو مسلمانوں کو برابر کے حقوق دینے کی بات تو کرتی مگر صرف دکھانے کے لیے۔ کانگریس کا زور وفاق کو اختیارات دینے پر تھا جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ صوبوں کو خود مختار بنانا چاہتی تھی۔ یوں جی ایم سید نے کانگریس سے راہیں جدا کرلیں اور 1938 میں قائدِ اعظم کی درخواست پر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ وہاں سے مسلم لیگ سندھ کے صدر بنے اور صوبے میں مسلم لیگ کے دفاتر دس سے بڑھا کر سو تک لے گئے۔

یہی نہیں 24 دسمبر 1943 کو کراچی میں جی ایم سید نے تاریخ ساز جلسہ کر کے پوری پارٹی کا دل جیت لیا۔ پورے ہندوستان سے مسلم لیگی رہنما اور کارکن جمع ہوئے۔ ایک جشن کا سماں تھا، جس میں کم و بیش ساٹھ سے ستر ہزار افراد شریک تھے۔ قائدِ اعظم نے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا، جس نے مسلمانوں میں آزاد ملک بنانے کا جنون اور بھی بڑھا دیا۔

تئیس مارچ 1940 کو جب قراردادِ لاہو ر پیش کی گئی تو جی ایم سید بھی دیگر رہنماؤں کے ساتھ لاہور پہنچے۔ یہاں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور سامنے آیا اور یہی قرار داد آگے چل کر قراردادِ پاکستان کہلائی۔

تاریخ ساز کارنامہ

اور اب بات انگریزوں کے چیلنج کی۔ سال ہے 1943۔ انگریزوں نے قائدِ اعظم کو چیلنج کیا کہ اگر وہ آزاد وطن کی بات کرتے ہیں، تو پہلے کسی مسلم اکثریتی صوبائی اسمبلی سے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کر کے دکھائیں۔ قائدِ اعظم نے یہ بات جی ایم سید کو بتائی جو اس وقت سندھ مسلم لیگ کے صدر تھے۔ جی ایم سید نے یہ چیلنج نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے پورا بھی کر دکھایا۔

سندھ اسمبلی سے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کرالی گئی۔ اس وقت ہندوستان کی دیگر اسمبلیوں میں بھی کئی مسلمان رہنما موجود تھے۔ لیکن اگر کوئی شخص قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ہو پایا تو وہ جی ایم سید ہی تھے۔ اسی کامیابی نے آگے چل کر پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔

جی ایم سید اور قائدِ اعظم

لیکن آخر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان بننے سے صرف ایک سال پہلے نہ صرف جی ایم سید نے مسلم لیگ چھوڑ دی بلکہ قیامِ پاکستان ہی کے خلاف ہوگئے؟ اور وہ قائدِ اعظم جنہیں وہ ایک محبوب کی طرح چاہتے تھے ان سے نہ صرف منہ موڑ لیا بلکہ ان کی مخالفت پر علیحدہ سیاسی جماعت بنا لی۔

ہوا کچھ یوں کہ 24 فروری 1945 کو لیگی رہنما سر غلام حسین ہدایت اللہ کی وزارت اعلیٰ کے خلاف شیخ عبدالحمید سندھی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، جسے منظور کرا لیا گیا۔ اس وقت جی ایم سید مسلم لیگ سندھ کے صدر تھے، یہ بات قائدِ اعظم محمد علی جناح کو سخت ناگوار گزری۔ یہ وہ فیصلہ تھا جو جی ایم سید اور قائدِ اعظم کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ بنا۔

قائدِ اعظم نے تار بھیج کر جی ایم سید سے سخت ناراضی کا اظہار کیا۔ قائدِ اعظم کے سید کو لکھے گئے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں:

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے خود قبول کیا کہ غلام حسین کو ہٹانے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کیے۔ آپ منصوبہ سازوں میں شامل ہو کر دشمن کے ہاتھوں میں کھلونا بنے۔ آپ نے اپنے رہنما اور پارٹی کے ساتھ غداری کی ہے۔ اس اقدام سے آپ نے ہمارے مقاصد اور مسلم لیگ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ جو کچھ بمبئی میں ہمارے درمیان ملاقات میں طے پایا تھا یہ اس کی خلاف ورزی ہے۔ اب آپ کو کسی قسم کی ہدایات یا مشورہ دینا بالکل بے معنی ہے۔

قائدِ اعظم نے انہیں پارٹی سے تو نہیں نکالا لیکن جی ایم سید جیسے حساس انسان کے لیے مسلم لیگ سے راستے الگ کرنے کو یہ الفاظ کافی تھے۔ جی ایم سید نے مسلم لیگ چھوڑ دی لیکن اس کی مقبولیت کم نہ ہوئی بلکہ بڑھتی چلی گئی۔ 1946 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو سندھ کی تمام 35 سیٹیں مسلم لیگ جیت گئی، یہاں تک کہ جی ایم سید اپنی نشست بھی نہ بچا سکے۔

پاکستان بننے کے بعد بھی جی ایم سید کے سیاسی نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جی ایم سید کے قریبی ساتھی خادم سومرو اُس پیش گوئی کو بھی درست مانتے ہیں جو سید صاحب نے پاکستان بننے کے بارے میں کر دی تھی۔ اور یہی بات ان کے مسلم لیگ سے الگ ہونے کی وجہ بنی۔

خادم سومرو کا کہنا ہے کہ جی ایم سید سندھ کے وسائل پر سندھیوں کا اختیار چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم ایسے لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دے رہے ہیں جو سندھ کی ایلیٹ کلاس ہے۔ یہی طاقت ور وڈیرے، جاگیر دار، میر اور پیر ہی سندھ پر حکومت کریں گے اور عام سندھی پستا رہے گا۔

وقت نے ثابت کیا کہ ان کا مؤقف ایسا غلط بھی نہ تھا۔ آج بھی سندھ جاگیرداروں، وڈیروں اور چند سیاسی خاندانوں کے نرغے سے باہر نہیں نکل سکا۔ عام سندھی کی حالت آج بھی وہی ہے جو پاکستان بننے سے پہلے تھی۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ جی ایم سید خود پیر اور جاگیر دار تھے۔ وہ سندھ کے عظیم صوفی مخدوم بلاول کے مرید اور ایک بزرگ حیدر شاہ سنائی کے سجادہ نشین بھی تھے۔

معروف کالم نگار زاہد ہ حنا، جناح صاحب اور جی ایم سید کے اختلافات کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ سندھ جسے جی ایم سید امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے تھے وہ فرقہ واریت کے خنجر سے ذبح ہو گیا۔ انہیں دکھ تھا کہ جس سیاسی جماعت سے ان کی طویل وابستگی رہی تھی اس نے ان کے مشوروں پر کان نہیں دھرا۔

اختلافات کی وجہ جو بھی رہی ہو، دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں کبھی نہ مٹ سکیں۔ یا شاید پہلے مصروفیت اور پھر زندگی نے قائدِ اعظم کو اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنے پرانے دوست کو منانے کا سوچتے۔ پاکستان بننے کے بعد جی ایم سید نے آہستہ آہستہ اپنی سیاسی جدوجہد سندھ تک محدود کر دی۔

1946 میں مسلم لیگ سے الگ ہو کر جی ایم سید نے اپنی ایک نئی پارٹی ’’پروگریسیو مسلم لیگ‘‘ بنا لی۔ اور پھر ’’سندھ عوامی محاذ‘‘ کے نام سے ایک جماعت بنائی۔ سندھ عوامی محاذ نے1953ء کے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا اور سندھ سے واضح نشستیں حاصل کیں۔ جی ایم سید سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بن گئے۔ اسی دوران ملک میں ’’ون یونٹ‘‘ نافذ کر دیا گیا، سارے اختیارات مرکز کے پاس چلے گئے۔ سندھ اسمبلی میں ون یونٹ کے خلاف صرف تین اراکین نے ووٹ دیا جس میں ایک ووٹ جی ایم سید کا تھا۔ 1970 میں انتخابی شکست کے بعد انہوں نے الیکشن لڑنا چھوڑ دیا۔ یہاں ان کی اپنی اولاد نے ان سے سیاسی راہیں جدا کرلیں اور پارلیمانی سیاست کو ترجیح دی۔

ضیا سے محبت، بھٹو سے نفرت؟

جی ایم سید کے بعض سیاسی خیالات ایسے تھے کہ انہیں آزادانہ سیاست کا موقع دینا ریاست اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی تھی۔ وہ پاکستان توڑنے اور آزاد سندھ کی بات کرتے تھے۔ وہ پاکستان کی جدوجہد کو اپنا سب سے بڑا ’’سیاسی گناہ‘‘ قرار دیتے۔

ملک میں جمہوری دور ہو یا ڈکٹیٹر ز کی حکمرانی، انہیں آزادی کی زندگی کم ہی نصیب ہوئی، بھٹو تو بھٹو ان کی بیٹی بے نظیر بھی ان کی نظر بندی ختم کرنے کو تیار نہ ہوئیں۔1995 میں یہ ’’اعزاز‘‘ بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ملا کہ بار بار اپیلوں کے باوجود جناح اسپتال کراچی میں بسترِ مرگ پر پڑے عمر رسیدہ بوڑھے کو رہائی نہ ملی۔

جی ایم سید کی سیاست سے متعلق ایک اور بات کم لوگوں کو ہضم ہوتی ہے کہ وہ آخر کیوں ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ وہ سب کے سامنے ضیا کو اپنا محسن کہتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ایک پوتے کا نام بھی ضیا رکھ دیا۔ وہ جنرل ضیا کا شمار ڈھائی سو برس میں گزرنے والے پنجاب کے چار اہم ترین رہنماؤں میں کرتے تھے۔

دوسری طرف جمہوریت کے چیمپیئن اور اپنی ہی سندھ دھرتی کے سپوت ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی کبھی نہ بن سکی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو کم ظرف اور تنگ نظر کہنے سے بھی نہ چوکتے تھے۔

دراصل جی ایم سید کی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو سے بڑی دوستی تھی۔ دونوں نے ایک ساتھ سیاست کی تھی۔ بھٹو جی ایم سید کی نظر بندی ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور سید کو، بھٹو سے اس سلوک کی توقع نہ تھی۔

جی ایم سید کہا کرتے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو میں نے کہا میں بیمار ہوں، اجازت دو باہر جا کر علاج کرا آؤں۔ پہلے اس نے کہا تیاری کر لو۔ میں نے خون کے ٹیسٹ کرائے، کپڑے بنوائے، 20، 25 ہزار روپے خرچ کیے۔ جب کہا کہ اجازت دو، تو اس نے جواب دیا۔ تم کون ہوتے ہو مجھے براہ راست لکھنے والے؟

ضیاء الحق کا ان سے سلوک حیرت انگیز تھا۔ ایک انٹرویو میں جی ایم سید کے اپنے الفاظ ہیں:

ضیا جب میری عیادت کو آئے تو مجھ سے پوچھا آپ تو ہر حکومت کے خلاف رہے ہو۔ یہ جو پیپلز پارٹی اور ایم آر ڈی ہے، ان کی آپ نے کیوں مدد نہیں کی؟ میں نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ آپ ان کو نکال کر دوسرے کو لانا چاہ رہے ہیں۔ مار کھائے بندر اور کمائی کھائے مداری۔ اگر ہم اس لڑائی میں شامل ہوتے تو پہلے ہماری پٹائی ہوتی اور فائدہ پیپلز پارٹی اٹھاتی۔

اب یہ سیاسی مجبوری تھی یا کچھ اور لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان ملاقاتوں کا جی ایم سید کو بہت نقصان ہوا۔ سید کا قوم پرستی کا دعوی کمزور دکھائی دینے لگا۔ یہ تاثر ابھرا کہ سید نے اپنے نظریے پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ جہانداد خان اپنی کتاب ’’پاکستان قیادت کا بحران‘‘ میں لکھتے ہیں:

دونوں شخصیات میں دوستی کی وجہ پیپلز پارٹی مخالفت کے سوا اور کچھ نہ تھی۔

جیے سندھ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے بانی صدر اور آج کے مسلم لیگی رہنما شاہ محمد شاہ کا دعویٰ ہے کہ بھٹو نے تو پیپلز پارٹی ہی سید کے مشورے پر بنائی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ 1966ء میں بھٹو کابینہ سے نکلے تو جی ایم سید سے ملاقات کرنے سن آئے۔ وہ سید کو ایسے ملے جیسے باپ بیٹا سے ملتا ہے۔ بھٹو نے جی ایم سید سے کہا کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر خان ولی خان انہیں لینے کو تیار نہیں۔ جی ایم سید نے انہیں مشورہ دیا کہ تم اپنی پارٹی بناؤ۔

71 میں بنگلہ دیش الگ ملک بن چکا تھا۔ شاید یہی دیکھتے ہوئے جی ایم سید نے جیے سندھ محاذ پارٹی بنائی اور ’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ لیکن اس نعرے کو عوامی سطح پر کبھی پذیرائی نہ مل سکی۔ 73 میں آئین بنا تو جی ایم سید نے کھل کر مخالفت کی۔

جی ایم سید نے مذہب اور سیاست سے لے کر سماج، فلسفہ، نفسیات سمیت صوفی ازم اور سیکولرزم پر کتابیں لکھیں۔ ’’پیغامِ لطیف‘‘ کو سید کا ماسٹر پیس کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض کتابوں پر انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اپنی ایک کتاب میں انہوں نے محمد بن قاسم کو حملہ آور، اور راجا داہر کو ہیرو قرار دیا۔ اس بات پر انہیں آج تک برا بھلا کہا جاتا رہا ہے۔

دراصل جی ایم سید کا کہنا تھا کہ اموی حکمران اہل بیت کے مخالف تھے۔ سندھ میں اہل بیت آ کر بس گئے تھے۔ اسی لیے حجاج کے حکم پر محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوا اور راجا داہر نے اپنی قوم اور اہل بیت کے دفاع میں جان دی۔

جی ایم سید میں تنقید کا بہادری سے سامنا کرنے کی صلاحیت تھی۔ ظہیر احمد نامی ایک شخص نے سید کے خلاف ایک کتاب لکھی۔ انہوں نے اسے پیغام پہنچایا کہ میرے خلاف لکھی کتاب نہ جانے کتنی سیل ہو، میں ہی تمہاری آدھی کتابیں خرید لیتا ہوں۔

جی ایم سید بنیادی طور پر سیکولرزم کے حامی تھے۔ وہ نئی عمارت کے افتتاح پر تمام مذاہب کے رہنماؤں کو بلا کر دعا کرواتے۔ اس معاملے میں وہ اتنے سخت تھے کہ خود سید ہوتے ہوئے مذہب اسلام کو بھی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’جیسا میں نے دیکھا‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اسلامی قوانین قدیم دور کی روایات پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ موت کے بعد زندگی، روزِ قیامت، پل صراط، جنت اور دوزخ ملاؤں کی ایجاد کردہ ہیں۔ مذہبی حلقوں نے سید صاحب کی اس کتاب پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔

یہی وہ باتیں تھیں کہ سید پر کفر کے فتوے لگے۔ یہاں تک کہ گلستان خان نامی ایک شخص نیفے میں خنجر چھپائے قتل کرنے ان کے گھر پہنچ گیا، مگر پکڑا گیا۔ جی ایم سید نے اسے نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اس کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی سے بھی انکار کر دیا۔

سید میں نہ جانے ایسی کیا کشش تھی کہ نوجوان ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں نوجوان جیے سندھ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا حصہ بننے کو سندھ دھرتی سے وفا کی علامت سمجھتے۔ ایک زمانے میں آصف علی زرداری بھی جیے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ممبر رہے۔

خیالات میں تضادات

سید کے ایک خیال کی گونج ابھی تھم نہیں پاتی تھی کہ وہ کوئی دوسرا خیال پیش کر دیتے۔ دو قومی نظریے کی حمایت کی مگر کچھ ہی عرصے بعد اس نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ سکھر میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تو سید کا گھر ’’حیدر منزل‘‘ ہندوؤں کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی علامت بن گیا۔ انہیں یہاں تک کہتے سنا گیا کہ وہ سندھ سے ہندوؤں کو ایسے نکال باہر کریں گے جیسے ہٹلر نے یہودیوں کو جرمنی سے نکالا تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علم بردار بن گئے اور راجا داہر ان کا ہیرو ٹھہرا۔ وہ عدم تشدد کے قائل تھے لیکن سب سے زیادہ تشدد پسند ہونے کے الزامات بھی ان ہی کی جماعت پر لگتے تھے۔

ضمیر کا قیدی

تین دہائیوں سے زائد عرصے تک انہیں گھر ہی میں نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران انہوں نے ساٹھ کے قریب کتابیں لکھیں۔ وہ خود نہ بولتے تو ان کا قلم بولنے لگتا۔

جی ایم سید نے طویل عمر پائی۔ 91 برس کی عمر میں 25 اپریل 1995ء کو جناح ہسپتال کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ آخری دم تک بولتے رہے یہاں تک کہ موت چپ کرانے آ گئی۔ ان کی قبر پر لکھے الفاظ کا مفہوم ہے:

جب تک میں زندہ رہا خاموش نہیں بیٹھا، یہاں تک کہ اپنی قوم کے لیے بولتے بولتے قبر میں اتر گیا۔

جی ایم سید کی سیاست سے لاکھ اختلاف سہی لیکن سخت ترین مخالف بھی یہ مانتے ہیں کہ جی ایم سید، سندھ نیشنل ازم کے امام تھے اور سندھ قوم پرستی میں ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ وہ سندھ کے لیے جیا اور سندھ کے لیے ہی مرا۔ اور آخری بات، سندھ کا وہ واحد بوڑھا تھا جس کے زیادہ تر عاشق جوان تھے۔

شیئر

جواب لکھیں