15 اگست 1975۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ ڈھاکہ کے علاقے دھان منڈی میں مکمل خاموشی تھی کہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے خاموشی کو توڑ دیا۔
کیپٹن ہدیٰ اپنے ساتھیوں سمیت دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا اور کچھ ہی دیر بعد سیڑھیاں اترنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو گولیوں سے بھون دیا۔ ان پر ایک، دو نہیں، پوری اٹھارہ گولیاں فائر کی گئیں۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے اور گرتے ہی دم توڑ گئے۔
اب اگلا حکم تھا اِس خاندان کا کوئی بندہ زندہ نہیں بچنا چاہیے۔ پھر بیوی، بھائی، بیٹوں، بہوؤں، بلکہ 10 سال کے چھوٹے بیٹے کو بھی بے رحمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔
کیپٹن اور اُس کے ساتھی فوجی مطمئن تھے کہ اُن کا مشن پورا ہو گیا، لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس گھرانے کی دو بیٹیاں اور بھی ہیں۔ جو اُن کی پہنچ سے ہزاروں کلومیٹرز دُور ہیں۔ انہوں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ جس خاندان کا نام و نشان مٹانے آئے ہیں۔ ایک دن آئے گا، اِس گھرانے کی ایک لڑکی ملک پر راج کرے گی۔
وہ اپنے باپ کے قاتلوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی مخالف کے لیے دہشت اور موت کی علامت بن جائے گی۔ کیپٹن ہدیٰ سمیت کئی لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ اُسی کے ہاتھوں ہوگا۔
اس لڑکی کا نام تھا: شیخ حسینہ واجد!
بنگلہ دیش پر تقریباً 20 سال حکومت کرنے والی حسینہ، دنیا کے غریب ترین ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالنے والی حسینہ۔ لیکن اس ترقی کے پیچھے جو بھیانک کہانی تھی۔ وہ بتاتی ہے کہ جمہوریت بھی آمریت بن سکتی ہے۔ کس طرح عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت بھی اندھیر نگری میں بدل جاتی ہے۔
لیکن ظلم کی رات چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، بالآخر ختم ہو کر رہتی ہے۔ حسینہ کا عروج بھی اختتام کو پہنچا۔ کچھ اس طرح کہ لاکھوں لوگ اُن کے خلاف سڑکوں پر تھے۔ اور ممکن تھا کہ وہ بھی اپنے والد کے انجام کو پہنچتیں۔ لیکن انہیں بچا لیا گیا اور جلا وطن کر دیا گیا۔
حسینہ واجد ایک مرتبہ پھر ملک سے باہر ہیں۔ بالکل ویسے جیسے 27 سال کی عمر میں والد کی موت کے بعد تھیں۔ کیا حسینہ کی کہانی ختم ہو چکی ہے یا اِس کہانی کا کوئی نیا باب شروع ہوا ہے؟
حسینہ واجد کون؟
15 اگست 1947۔ ہندوستان تقسیم ہو چکا اور پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ دنیا کا انوکھا ترین ملک۔ جس کے دو حصے تھے اور دونوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔
جہاں آزادی کے تقریباً ایک مہینے بعد 28 ستمبر 1947 کو حسینہ کا جنم ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی سب سے بڑی بیٹی۔ جنہوں نے آنکھیں کھولتے ہی گھر میں سیاسی ماحول دیکھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مجیب کی political activities شروع ہو چکی تھی۔ وہ ’’بنگلہ زبان موومنٹ‘‘ میں جیل بھی جا چکے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی گرفتاریاں اور مسائل بڑھتے چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ آپ کا بچپن جس ماحول میں گزرا ہو، آپ جانے انجانے میں ہمیشہ اُسی mindset میں رہتے ہیں۔ حسینہ کا دماغ بھی شاید بچپن ہی سے عدم تحفظ کا شکار ہو گیا تھا۔ ایسا کہ insecurity اُن کی شخصیت کا بہت اہم حصہ بن گئی۔
بہرحال، شیخ مجیب کی کوششوں سے 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اقتدار ملنے کے بعد مجیب بھی ڈکٹیٹر بن گئے۔ وہ کہ جنہوں نے ایوب خان اور یحییٰ خان جیسے ڈکٹیٹرز کے خلاف جدوجہد کی، حکومت میں آئے تو خود بھی انہی جیسے بن گئے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا۔ سیاسی مخالفت کو دشمنی سمجھا۔ حکومت کو جبر کے ذریعے مضبوط کیا اور مخالفین کو دبانے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا، جو انہیں نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
بنگلہ دیش کی آرمی کے ایک افسر تھے شریف الحق دالیم۔ ملک کی آزادی کے لیے انہوں نے بڑی جدوجہد کی۔ لیکن اپنی کتاب Bangladesh, Untold Facts میں لکھا کہ مجیب کا دور جبر کا دور تھا، ان کا سارا زور مخالفین کو کچلنے اور اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر تھا۔ 71 سے پہلے شیخ مجیب بنگالیوں کے پسندیدہ لیڈر تھے۔ لیکن آزادی کے بعد وہ ایسے آمر بن گئے، جن سے عوام شدید نفرت کرتے تھے۔
کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ تین، چار سال میں ’’بنگا بندھو‘‘ یعنی بنگالیوں کے باپ کو اتنی بے دردی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسا کہ انہیں دفنانے سے پہلے ٹھیک سے غسل بھی نہیں دیا گیا تھا۔
تب حسینہ کی عمر 27 سال بھی نہیں تھی۔ اپنے گھر سے، اپنے ملک سے کہیں دُور جرمنی میں انہیں اطلاع ملی: ماں، باپ، چچا، بھائیوں، بھابھیوں، سمیت خاندان کے 16 لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور حسینہ بدل کر رہ گئیں۔ اُن کے دل میں بدلے کی وہ آگ لگی جو کبھی نہیں بجھ سکی۔ لیکن فی الحال تو موت سر پر منڈلا رہی تھی۔ اس لیے حسینہ کو انڈیا میں پناہ لینا پڑی۔ وہ چھ سال تک دلّی میں رہیں، کیونکہ ملک میں اُن کے داخلے پر پابندی تھی۔ یہاں تک کہ 1981 آ گیا!
حسینہ کی واپسی
شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ کا حال بہت بُرا تھا۔ 1979 کے الیکشن میں پارٹی بُری طرح ہار گئی۔ پارٹی رہنماؤں نے عوامی لیگ کو ’’عوامی‘‘ بنانے پر کام شروع کر دیا اور فروری 1981 میں فیصلہ کر لیا: مجیب کی بیٹی حسینہ کو پارٹی کا نیا صدر بنا دیا گیا۔
یوں مئی 1981 میں حسینہ واجد بنگلہ دیش واپس آ گئیں۔ ہزاروں لوگوں نے اُن کا استقبال کیا۔ یوں ڈکٹیٹر کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔ جی ہاں! حسینہ اب اپنے والد کے راستے پر تھیں۔ مجیب نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف تحریک چلائی تھی، تو حسینہ کا ٹارگٹ جنرل حسین محمد ارشاد کا مارشل لا تھا۔
اس جدوجہد میں حسینہ کو بہت کچھ سہنا پڑا۔ گرفتاریاں اور نظر بندیاں ایک طرف، 1988 میں تو اُن پر قاتلانہ حملہ بھی ہو گیا، لیکن وہ بچ گئیں۔ پھر وہ کہتے ہیں نا What doesn't kill you, makes you stronger۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسٹرگل فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو گئی۔
عوامی لیگ نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا اور 1991 میں ’’تبدیلی آ گئی!‘‘۔ بنگلہ دیش میں مارشل لا کا خاتمہ ہو گیا اور "عورت راج" شروع ہو گیا۔
خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور حسینہ واجد اپوزیشن لیڈر۔ دونوں نے اب تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جمہوریت کی باتیں کی تھیں، لیکن اب حالات نے انہیں ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا۔ سیاست نام ہی اس کا ہے!
تو ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا جو دو دہائیوں تک چلی۔ جس میں خالدہ کی حکومت پر وہی الزام لگا، جو برصغیر میں ہمیشہ لگایا جاتا ہے: کرپشن۔ اِس میں حقیقت ہو یا نہ ہو، لیکن خراب گورننس اور اکانمک کنڈیشنز ایسی تھی کہ حالات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔
حسینہ واجد کی پارٹی پر گرپ مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔ بلکہ انہوں نے تو پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، اور بالآخر وہ دن آ گیا۔ جس کا انہیں انتظار تھا، جون 1996 میں ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ جیت گئی۔
وہ لڑکی، جس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا تھا، اب بنگلہ دیش کی حکمران تھی۔ اور وہ کچھ بھی بھولی نہیں تھی، اس لیے پہلا کام یہ کیا کہ Indemnity ایکٹ کا خاتمہ کر دیا۔ وہ قانون جس کے تحت شیخ مجیب کے تمام قاتلوں کو immunity مل گئی تھی۔ یہ کوئی چھوٹا قدم نہیں تھا، اب ہر سیاسی مخالف حسینہ کے نشانے پر تھا۔
اپوزیشن تو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگاتی تھی۔ یہ ایکٹ ختم ہوا تو سڑکوں پر آ گئی۔ احتجاج اور ہڑتالوں نے ملک کا پہیہ جام کر دیا۔
حسینہ نے اپنی پہلی حکومت میں اکانمی بہتر بنانے کی کوششیں تو کی تھی، لیکن باپ کا بدلہ لینے میں جلد بازی نے انہیں بڑا نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ 2001 کے الیکشنز میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ بُری طرح ہار گئی۔
بنگلہ دیش کی ’’Battling Begums‘‘ کے درمیان جنگ نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ بلکہ یہ کرائسس یہاں تک پہنچ گیا کہ 2006 میں فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔
اب حسینہ واجد پھر جلا وطن تھیں اور ان کے ملک میں داخلے پر پابندی تھی۔ لگ رہا تھا کہانی ختم ہوئی، لیکن اصل میں یہ نئی کہانی کا اسٹارٹ تھا۔
طاقت کا گھمنڈ
ہر میدان کی طرح سیاست میں بھی جیتتا وہی ہے، جس کے اندر لڑنے مرنے کا جذبہ ہو۔ حسینہ شیخ مجیب کی بیٹی تھیں۔ اُن کے تو خون میں ہی بغاوت اور سیاست شامل تھیں۔
حالات بہتر ہوئے تو جون 2008 وہ ملک واپس آ گئیں۔ ایسی انٹری دی کہ پھر انہیں نکالنے والا کوئی نہیں بچا۔ الیکشن ہوئے تو ان کی پارٹی کے اتحاد نے دو تہائی اکثریت لے لی۔
اب بنگلہ دیش پر واقعی حسینہ کا راج تھا، اور اس مرتبہ اُن کے ارادے بالکل مختلف تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اُن کے ارادے نیک نہیں تھے۔ وہ تو اپنے والد سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئیں۔
وہ انگریزی میں کہتے ہیں ناں کہ Power corrupts and absolute power corrupts absolutely۔ تو گرفتاریاں ہوں یا جبری گمشدگیاں، میڈیا سینسرشپ ہو یا ڈجیٹل سکیورٹی کے قوانین، حسینہ واجد نے اپنے مخالفوں کو دبانے کے لیے ہر ہتھکنڈا آزمایا۔
خود پر ہونے والے ظلم کی تلافی اور اقتدار سے بے دخل ہونے کا خوف۔ یہ دو ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے حسینہ کی جمہوریت پسندی ختم کر دی تھی۔
انصاف یا ناانصافی
حسینہ کی اندر کی insecurities اب پوری طرح جاگ چکی تھیں۔ بدلے کی آگ اب ایک الاؤ بن چکی تھی۔ انہیں کسی کی پروا نہیں تھی کہ کون کیا کہتا ہے؟ کیا سمجھتا ہے؟ اور یہ سب کرنے سے ملک کا کیا ہوگا؟ انہوں نے اِس آگ میں ہر اپوزیشن پارٹی کو جلایا۔
سب سے پہلے تو ایک عدالت سجائی۔ نام رکھا گیا ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘‘۔ اس کا کام تھا ملک کے کونے کونے سے ان لوگوں کو نکالنا، جن پر آزادی کی جنگ میں عوامی لیگ کی مخالفت کا الزام تھا۔
ارے نہیں نہیں، انگریز کے خلاف آزادی کی بات نہیں کر رہا، بنگلہ دیش کے لیے آزادی کا مطلب ایک ہی ہے: 1971 میں پاکستان سے آزادی۔
تو 71 میں جس جس نے عوامی لیگ سے اختلاف کیا۔ پاکستان کا ساتھ دیا، وہ سب ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے گئے اور ان پر کیسز ڈال دیے گئے۔ ان میں ’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ کے کارکن بھی تھے اور رضاکار بھی۔ رضاکاروں کو یاد رکھیے گا، ان کا ذکر آگے پھر کروں گا۔
تو ٹربیونل نے اپنا کام شروع کر دیا لیکن 2012 میں ایک controversy سامنے آ گئی۔ اس ٹربیونل کے ایک جج تھے محمد نظام الحق۔ وہ بیلجیئم میں رہنے والے ایک بنگلہ دیشی lawyer احمد ضیا الدین سے مشاورت کر رہے تھے۔ دونوں کے درمیان اسکائپ پر بھی گفتگو ہوتی اور ای میلز کا بھی تبادلہ ہوتا۔ اور ایک دن اچانک ان دونوں یہ بات چیت لیک ہو گئی۔
برطانیہ کا مشہور میگزین The Economist دونوں کی 17 گھنٹوں کی گفتگو اور 230 ای میلز کا ریکارڈ سامنے لے آیا۔ ان آڈیو ریکارڈنگز اور ای میلز نے تو دنیا میں تہلکہ مچا دیا کیونکہ ان میں صاف صاف کہا گیا تھا کہ حکومت ٹربیونل میں interfere کر رہی ہے اور ججوں پر پریشر ڈالا جا رہا ہے کہ وہ جلدی فیصلے کریں۔
جج نظام الحق نے فوراً استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اس نے دوسرا جج لگا دیا۔ ٹربیونل کا کام جاری رہا۔ وہی کام جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔ اور پریشر بڑھانے کے لیے عوامی لیگ نے ’’عوام‘‘ کا سہارا لیا۔ فروری 2013 میں ڈھاکہ میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ جن کا مطالبہ ایک ہی تھا: جنگی مجرموں کو پھانسی دی جائے!
عوامی لیگ اپنے ہر مخالف کا خاتمہ چاہتی تھی اور اس کا پہلا نشانہ تھی: جماعت اسلامی، جس کے تقریباً ایک درجن رہنماؤں پر مقدمہ چلایا گیا۔ ان میں غلام اعظم، مطیع الرحمٰن نظامی، دلاور حسین سعیدی، علی احسن محمد مجاہد، محمد قمر الزماں اور عبد القادر ملّا جیسے لیڈرز شامل تھے۔
اور پھر فروری 2013 میں وہ ہو گیا، جس کی توقع کم از کم بنگلہ دیش سے باہر تو کسی کو نہیں تھی۔ عبد القادر ملّا کو پھانسی دے دی گئی۔ اصل میں ٹربیونل نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن ’’عوامی‘‘ مظاہروں سے پیدا ہونے والے ’’دباؤ‘‘ کے بعد انہیں سزائے موت دے دی گئی۔
اگلے چند سالوں میں جماعت کے تقریباً سارے ہی اہم رہنما یا تو جیلوں میں ہی مر گئے، یا پھر پھانسی چڑھا دیے گئے۔ یہاں تک کہ 2014 میں خالدہ ضیا کو بھی 17 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ یونائیٹڈ نیشنز سے لے کر ایمنسٹی انٹرنیشنل تک، پاکستان سے لے کر ترکی تک، سب نے مذمت کی، لیکن حسینہ واجد کب کس کی سننے والی تھیں؟ انہوں نے وہ کیا، جو انہیں ٹھیک لگ رہا تھا۔ شاید یہ سمجھ کر کہ میرا گھر برباد ہوا تو ہزاروں دوسرے گھر بھی برباد ہو جائیں، کیا فرق پڑتا ہے؟
انہی حالات میں 2014 میں الیکشن ہوئے۔ تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا۔ اور وہ کر بھی کیا سکتی تھیں؟ حسینہ واجد اب اپنے عروج پر پہنچ گئیں!
بنگلہ دیش کی صنف آہن
مڈ 2010s سوشل میڈیا کے پیک پر پہنچنے کا دور تھا۔ اور یہیں پر انفارمیشن ایج کے بعد ’’ایج آف مس انفارمیشن‘‘ کا آغاز ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک populist لیڈر سامنے آیا اور چھا گیا!
انڈیا میں نریندر مودی اور بنگلہ دیش میں حسینہ، ایک جیسے خیالات رکھنے والی۔ ایک دوسرے سے بہت قریب اِن پارٹیز نے اپنے ملکوں کا نقشہ ہی بدل دیا۔ بنگلہ دیش میں تو سسٹم کو کچھ اس طرح بنا دیا گیا کہ حسینہ کے علاوہ کوئی جیت بھی نہ سکے۔
2014 کے الیکشنز میں عوامی لیگ نے 267 سیٹیں جیتیں۔ اس طرح کہ 153 سیٹوں پر مقابل کوئی امیدوار ہی نہیں تھا یعنی آدھی سے زیادہ سیٹیں بغیر لڑے مل گئیں۔ پھر 2019 میں حسینہ واجد پانچویں مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنیں۔
ایک مسلم ملک میں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر برصغیر میں بھی اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ نام تو بہت ہیں؛ رضیہ سلطان سے لے کر اندرا گاندھی، بندرانائیکے سے بے نظیر تک، لیکن اس خطے میں حسینہ واجد جتنی طاقتور خاتون کبھی نہیں دیکھی گئیں۔
حسینہ نے ایک، دو نہیں مسلسل تین الیکشنز جیتے لیے تھے۔ دھاندلی کے الزامات لگے۔ اتنے زیادہ کہ بھارت بھی کہہ پڑا کہ جو بھی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ امریکا نے کہا کہ بنگلہ دیش میں شفاف الیکشن کروائے جائیں، ورنہ بنگلہ دیشی آفیشلز کے ویزے بند کر دیں گے۔ اِس پر حسینہ واجد نے کہا تھا کہ امریکا بنگلہ دیش میں جمہوریت کے خاتمے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ سنا سنا لگ رہا ہے نا؟
خیر، انہوں نے اپوزیشن کے بائیکاٹ اور دنیا بھر کی مذمت، کسی کی پروا نہیں کی۔ اور کیوں کرتیں؟ ان کے تمام مخالف یا تو زمین سے چھ فٹ نیچے جا چکے تھے یا اِس سے چھ فٹ اوپر لٹکا دیے گئے تھے۔ اب ملک میں حسینہ کو ٹکر دینے والا کوئی نہیں تھا۔ انہیں تو لگ رہا تھا کہ وہ تاحیات بنگلہ دیش کی حکمران رہیں گی۔
دنیا کی 100 طاقتور ترین خواتین میں سے ایک حسینہ۔ بنگلہ دیش کی ’’آئرن لیڈی‘‘ حسینہ۔ اور جب اتنا کچھ ہو جائے تو بندہ اوور کونفیڈنٹ ہو ہی جاتا ہے، حسینہ بھی ہو گئیں۔ ایک الیکٹڈ پی ایم سے وہ ایک ڈکٹیٹر بن گئیں۔ ویسے بھی یہ عادت انہیں ورثے میں ملی تھی۔ حسینہ کی شخصیت میں باپ کی باغی فطرت بھی تھی، سخت لہجہ بھی اور عدم برداشت بھی۔ اور پھر انہوں نے وہی غلطیاں دہرائیں جو شیخ مجیب الرحمٰن سے ہوئیں۔
کوٹے کا معاملہ
پاکستان ہو، انڈیا ہو یا پھر بنگلہ دیش، سرکاری نوکری کا چارم ہی الگ ہے۔
تو 1972 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے آزادی کی جنگ لڑی، ان کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوٹا ہونا چاہیے۔ یوں 30 فیصد نوکریاں ڈائریکٹ انہیں مل گئیں۔ بلکہ صاف صاف کہیں تو عوامی لیگ کے کارکنوں میں بانٹ دی گئی۔
جب 97 میں حسینہ واجد کی حکومت آئی تو بنگلہ دیش بنے 26 سال ہو چکے تھے۔ تب ایسے لوگ اتنے نہیں تھے جنہوں نے 71 کی جنگ لڑی ہو۔ اور جو تھے وہ نوکریوں سے ریٹائر ہو رہے تھے۔ تب حسینہ واجد نے ایک فیصلہ کیا کہ اس کوٹے میں اُن کی اولادوں کو بھی شامل کر دیا۔ جی ہاں! یعنی جن کے ماں باپ نے 71 کی جنگ لڑی، ان کے بچوں کو نوکریوں میں کوٹا ملے گا۔
اور یہی نہیں! 2010 میں تو پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بھی کوٹے پر نوکریاں ملنے لگیں۔ یعنی کسی کو میرٹ کے بجائے صرف اس بنیاد پر نوکری ملے کہ اس کے نانا نے ایک جنگ لڑی تھی۔ واہ! یعنی نوکریوں میں بھی نیشنلزم پیدا ہو گیا۔
چلیں، جنگ لڑنے والوں کو کوٹا ملا۔ سمجھ بھی آتا ہے لیکن سالوں بعد اُن کی اولادوں بلکہ اولادوں کی بھی اولادوں کو کوٹے کے تحت نوکریاں ملیں؟ یہ بات کوئی اور تو شاید ہضم کر لیتا، نئی نسل بالکل نہیں کر سکتی۔
اس فیصلے پر احتجاج ہوا اور زبردست ہوا۔ ریفارمز کی ڈیمانڈز ہوئیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور عام اسٹوڈنٹس میں بہت جھگڑے بھی ہوئے جس کے بعد فیصلہ ہو گیا۔ حکومت نے تمام کوٹے ختم کر دیے۔ احتجاج ختم ہو گیا، اور امن ہو گیا۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔
سن 2021 میں مکتی باہنی کی کچھ خاندانوں نے ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ کوٹا سسٹم بحال کیا جائے۔ اور پانچ جون 2024 کو عدالت نے فیصلہ دے دیا، کوٹہ سسٹم بحال کر دیا گیا! پھر کیا تھا؟ بنگلہ دیش میں احتجاج پھر شروع ہو گیا! اور کیوں نہ ہوتا؟ اب زمانہ بدل چکا تھا! یہ ’’جین زی‘‘ کا زمانہ تھا۔
تبدیلی آ گئی
کھیل کوئی بھی ہو۔ چاہے سیاست ہی ہو، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ نے کون سا کارڈ کس وقت کھیلنا ہے؟ لیکن اوور کونفیڈنس انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔
حسینہ نے ایک کارڈ کھیلا اور بہت غلط وقت پر کھیلا۔ سرکاری نوکریوں میں کوٹا سسٹم کا معاملہ انہیں بہت مہنگا پڑا۔ وہ انگریزی میں کہتے ہیں نا Last straw that broke the camel's back۔ جہاں بہت سارے فیکٹرز تھے، وہاں کوٹہ سسٹم وہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔
کرونا کی وبا کے بعد بنگلہ دیش کی اکانمی کمزور ہو گئی تھی۔ غربت بڑھ رہی تھی، فارن ریزروز تیزی سے کم ہو رہے تھے اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی نوبت آ گئی۔ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں، اظہار رائے پر پابندی، اپوزیشن کو دبانا، یہ سب تو ویسے ہی ہو رہا تھا، اوپر سے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ، جس نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔ اب ردِ عمل کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
یہ پرانی جنریشن نہیں تھی کہ جنہیں قوم پرستی کا چورن آسانی سے بیچ دیا جائے۔ یہ جنریشن نہ ایسی کوئی چیز خریدتی ہے اور نہ ہی بکاؤ مال ہے۔ تو حالات کے سمجھنے کے بجائے حسینہ نے کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ پولیس اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر حملے شروع کر دیے۔
احتجاج جتنا پھیلتا گیا، اس کے خلاف ردِ عمل بھی اتنا ہی بڑھتا گیا۔ حالات جیسے جیسے قابو سے باہر ہو رہے تھے، حسینہ واجد کی طرف سے طاقت کا استعمال بھی اتنا ہی بڑھ رہا تھا۔ حکومت کھلے عام violence کی پالیسی پر چل رہی تھی۔ تقریباً 1200 لوگوں کی جان گئی اور ہزاروں جیلوں میں ڈال دیے گئے۔
اتنے خطرناک حالات تھے لیکن حسینہ واجد کا ردعمل بالکل casual تھا۔ انہوں نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو دہشت گرد کہا۔ بلکہ یہ تک کہا کہ اگر نوکریاں ’’جنگِ آزادی‘‘ میں حصہ لینے والوں کو نہ دی جائیں تو کیا ’’رضا کاروں‘‘ کو دی جائیں؟ اس بیان نے تو ملک میں آگ ہی لگا دی۔ طلبہ تحریک کا نعرہ بن گیا:
تم کون؟
ہم کون؟
رضا کار!
رضا کار!
جی ہاں! رضاکار کا لفظ، جو بنگلہ دیش میں گالی سمجھا جاتا تھا۔ اب ہر زبان پر تھا۔ اب تو لگ رہا تھا سارا بنگلہ دیش سڑکوں پر تھا۔ اسکول اور کالجز بلکہ مدرسے بھی بند کر دیے گئے۔ کرفیو لگا دیا گیا۔ لیکن اب دلوں سے خوف نکل چکا تھا۔ عوام پھر بھی سڑکوں پر تھے۔ اور پھر سرکاری اہلکاروں کے استعفے آنے لگے۔ پولیس نے بغاوت کر دی اور حالات آؤٹ آف کنٹرول ہو گئے۔
حسینہ واجد بالکل آخری وقت پر بھی عوام کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن فوج نے انکار کر دیا۔ کیونکہ بات اب طاقت کے استعمال سے کہیں آگے بڑھ چکی تھی۔ پھر پانچ اگست کا دن آ گیا۔
5 اگست 2024
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزماں وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوئے اور سیدھا حسینہ واجد کے دفتر میں پہنچ گئے۔ حکم دیا کہ فوراً استعفیٰ دیں اور جتنی جلدی ہو سکے، ملک چھوڑ دیں۔
حسینہ واجد جیسی دبنگ عورت کے لیے یہ الٹی میٹم کسی ایٹم بم سے کم نہیں تھا۔ وہ کسی قیمت پر ملک چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ ملک تو اُن کے باپ کا ملک تھا، لیکن اب اُن کے پاس دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔
یہاں حسینہ کی بہن ریحانہ سے رابطہ کیا گیا اور انہیں تمام تر صورت حال سمجھائی گئی، جنہوں نے حسینہ واجد کے بیٹے کو کال کر کے بتایا کہ 45 منٹ ہیں، اگر ماں کو بچا سکتے ہو تو بچا لو۔ اور پھر بیٹے نے ماں کو بچا لیا۔ حسینہ واجد نے استعفیٰ دیا اور ملک چھوڑ دیا۔
قید خانے کھل گئے۔ دہائیوں سے جیلوں میں سڑنے والے رہا ہو گئے۔ جن جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی تھی، ان کے دفتر کھل گئے۔ ایسا لگا جیسے ملک ایک بار پھر آزاد ہوا ہے۔
دنیا نے تاریخ رپیٹ ہوتے دیکھی۔ اگست 1974 میں باپ کو گھیر لیا گیا تھا۔ 50 سال بعد بیٹی بھی گھری ہوئی تھی۔ باپ کے پاس تو موقع نہیں تھا، لیکن بیٹی کو قسمت نے بچا لیا۔
حسینہ واجد 1975 میں بھی اپنی قسمت کی وجہ سے بچی تھیں۔ 1988 میں قاتلانہ حملے میں بھی بچ گئی تھیں۔ 2004 میں بھی انہیں قتل کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ لیکن 2024 میں جو کچھ ہوا ہے، کیا اُس سے لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی یوتھ نے اپنے ملک سے موروثیت کا خاتمہ کر دیا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا!