’’میں تمہیں اصل نام سے نہیں بلکہ دانی کہہ کر بلاؤں گی، تمہارے نام سے تو مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ نازی نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ وہ تو نازی کی ہر بات مان جایا کرتا تھا، یہ بھی مان گیا۔ دونوں پڑوسی تھے اور بچپن سے ہی گھروں میں آنا جانا تھا۔

وقت گزرتا گیا، اور پھر 1997 کی ایک خوبصورت شام وہ اپنی اٹھارہ سالہ محبت کا ہاتھ تھامے گھر کے پیچھے پہاڑ پر چڑھ رہا تھا۔ اب وہ ایک چھبیس سال کا گبرو جوان تھا۔ لمبا قد، گھنی موچھیں اور کھلا گریبان۔ وہ بالکل فلمی ہیرو جیسا دکھتا۔

آپ کو جیک اینڈ جل کی اسٹوری یاد ہے؟ دانی اور نازی بھی بچپن میں گھنٹوں پہاڑ پر کھیلتے۔ لیکن اب وہ بچے نہیں رہے تھے، پھر آج ایسا کیا تھا جو دونوں خاموشی سے ہاتھ پکڑے پہاڑ پر چڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اوپر پہنچ کر دانی نے نازی کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
’’ذرا نیچے دیکھو۔‘‘ وہ بولا۔
’’ہاں دیکھ رہی ہوں۔‘‘ نازی کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
’’یہ نیچے جاتی ڈھلان ہی میری زندگی ہے نازی۔ میں ایک خطرناک رستے کا مسافر ہوں۔ کیا اس کے باوجود، تم مجھ سے شادی کرو گی؟؟؟‘‘ نازی تو کب سے یہ سننے کو بیتاب تھی۔ وہ تو اس کی زندگی کا پہلا اور آخری شخص تھا۔ اس نے شرماتے ہوئے ’’ہاں‘‘ کر دی اور دونوں کی شادی بھی ہو گئی۔ مگر افسوس وہ اسے جرائم کی کھائی میں گر کر پاش پاش ہونے سے نہ بچا سکی۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو بچپن سے چاہتے تھے، مگر جب شادی ہوئی تو اٹھارہ سال میں صرف تین ماہ ساتھ رہے۔ نازی چاہتی تھی کہ وہ دونوں یہ پہاڑ یہ محلہ بلکہ ملک ہی چھوڑ کر کہیں دور چلے جائیں۔ مگر وہ پہلے ہی ایسے سفر پر روانہ ہو گیا جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔

نازی کا ہیرو آخر کون تھا؟ اور وہ شہر کا بدنام زمانہ ولن کیسے بن گیا؟ کرکٹر بن رہا تھا تو ٹارگٹ کلر کیسے بن گیا؟ آج ہم آپ کو اُسی قاتل کی کہانی سنانے جا رہے ہیں۔ اس کا خون تو O پازیٹو تھا مگر کرتوت نیگیٹو تھے۔ اسے خون دے کر جان بچانا بھی آتا تھا، اور جان لے کر خون بہانا بھی۔ کراچی کو آگ میں دھکیلنے والا یہ نوجوان نہ پولیس سے ڈرتا نہ فوج سے۔ وہ انوکھا مجرم تھا جس کے تین بار ڈیتھ وارنٹس نکالے گئے، لیکن پھانسی دینے میں سولہ سال لگ گئے۔ ذرا جگر تھام کر بیٹھیے کہ آج ہم آپ کو ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر ’’صولت مرزا‘‘ کے بارے میں بتانے لگے ہیں۔

جی ہاں، وہی صولت مرزا، جس نے جیل کی کال کوٹھری میں بیٹھے بیٹھے وہ دھماکے کیے، جس سے ’’نائن زیرو‘‘ ہی نہیں لندن میں ’’ایج ویئر‘‘ بھی لرز گئی۔ اس کہانی میں ایکشن بھی ہے اور رومینس بھی، سسپینس بھی ہے اور تھرل بھی!

اب ہم چلتے ہیں 1971 کے کراچی میں۔

کمزور قیادت اور فاش غلطیوں کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہزاروں فوجیوں کے سرنڈر نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ سیاست ہی نہیں، فوج میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری ہے۔ اسی ٹرانسفر پوسٹنگ میں پیرا ملٹری ڈپارٹمنٹ کے کلرک وجاہت علی خان کا کوہاٹ سے کراچی تبادلہ ہوتا ہے۔

یہ ایک مڈل کلاس اردو اسپیکنگ فیملی ہے جو پہلے ملیر پھر نارتھ ناظم آباد آ کر آباد ہوتی ہے۔ پانچ لڑکوں اور پانچ لڑکیوں کے بعد وجاہت کے گھر اسی سال ’’صولت‘‘ کی پیدائش ہوتی ہے۔

کراچی ہمیشہ سے ہی کرکٹ کی نرسری رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ سلیکشن ہونے تک کئی اسٹارز ڈوب چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب گلیاں ہی نہیں ناظم آباد کے گراؤنڈ بھی کرکٹ سے آباد تھے، شاید ابھی کسی کو چائنا کٹنگ کا خیال نہیں آیا تھا۔

گھر میں گیارہویں نمبر کا صولت بڑا ہوا تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں بھی آگے نکل گیا۔ پورے ناظم آباد میں اس کی فاسٹ بولنگ کی دھوم تھی۔ بڑے سے بڑا بلے باز اس کے سامنے آنے سے ڈرتا۔ اس بے فکری کے دور میں وہ پورا دن گھر سے باہر رہتا۔ کبھی عشق لڑاتا تو کبھی درس میں بیٹھ کر اللہ رسول کی باتیں سنتا۔ اسے بیڈ منٹن کھیلنا پسند تھا اور بھائی کے ساتھ شادی کی ویڈیوز بنانا بھی۔ یہ وہ دور تھا جب سارے والدین بچوں کو ڈاکٹر یا انجینیئر دیکھنا چاہتے تھے۔ صولت بھی شپ اونرز کالج میں داخلہ لے کر پری میڈیکل پڑھنے لگا۔

صولت مرزا کے بھائی فرحت علی خان بتاتے ہیں:

بچپن سے صولت کے دو شوق تھے ایک کرکٹ کا۔ جس وقت وہ گرفتار ہوا ہے کالج کے اندر سے وہ کالج کی ٹیم میں تھا انڈر نائنٹین کراچی میں تھا اور کراچی کا سب سے تیز ترین بالر تھا، ایک شوق اس کا مذہبی پروگرامز تھا جس میں وہ جاتا تھا۔ ایک کرکٹ اور دوسرا مذہبی اجتماعات میں جانا

کراچی کی تاریخ میں اسی اور نوے کی دہائیاں بڑی ہی اہم ہیں۔ ان دنوں پولیٹیکل اور ایتھنک ڈویژن عروج پر تھی۔ اسٹالز پر پڑے اخباروں کی سرخیاں گمنام لاشوں کے خون سے رنگی ہوتیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز سیاسی اکھاڑے بنے رہتے۔ یہ وہ دور تھا جب افغان جہاد کی مہربانی سے اسلحے کی فراوانی بھی خوب تھی۔

کراچی کی ایک تہائی آبادی اسی شہر میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی تھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے 71 فی صد لڑکے لڑکیاں پڑھے لکھے ہوا کرتے تھے جب کہ باقی ملک میں لٹریسی ریٹ صرف 26 فی صد تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ ماحول کچھ ایسا بننے لگا کہ پڑھے لکھے نوجوان کتابیں چھوڑ کر جھنڈے اور بندوقیں اٹھانے لگے۔ تعلیمی اداروں میں جمیعت، پی ایس ایف، ایے این پی اور جیے سندھ کے بعد اب ’’اے پی ایم ایس او‘‘ اپنا سکہ بٹھا چکی تھی۔

سینیئر صحافی نذیر لغاری کہتے ہیں:

یہ خواب ہی نہیں ہو سکتا جس کی تعبیر ملے۔ کراچی میں ایک بڑا تناسب ہے اردو بولنے والوں کا۔ لیکن بلوچوں، سندھیوں، سرائیکوں کا سب سے بڑا شہر کراچی ہی ہے۔ تو اس میں حسن تلاش کرنا چاہئے تھا، ایسا پوائنٹ تلاش کرتے جو اتحاد کی علامت بنتا۔ تمام زبانیں بولنے والے دوستی کے ساتھ رہتے اور وہ رہ رہے ہیں۔

نفرت اور دشمنی کی باتیں صولت کے کانوں سے ہو کر دل میں اتر رہی تھیں۔ ابھی تک اس کا سارا اگریشن وکٹیں اڑانے میں صرف ہو رہا تھا۔ اور ایک روز شپ اونر کالج کے گراؤنڈ میں زبردست میچ ہوا۔ صولت اپنی بالنگ سے میچ پر چھایا رہا۔ جب اس کی ٹیم جیت کر گراؤنڈ سے باہر آ رہی تھی تو اے پی ایم ایس او کا یونٹ انچارج ارشد شاہ سگریٹ کے کش لگاتا صولت پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ لمبا قد، گھنی موچھیں اور کھلا گریبان، صولت سب میں الگ ہی دکھائی دیتا۔ وہ ایک نڈر لڑکا تھا، جس نے کسی سے دبنا نہیں سیکھا تھا۔ شاید یہی ادا ارشد کو بھا گئی تھی اور اب وہ اسے ’’حق پرست‘‘ بنانے کی فکر میں تھا۔

فرحت علی خان کہتے ہیں:

اصل میں یہ تو بہت ساری چیزیں ایسی تھیں کہ جب انسان کی دوستی یاری ہوتی ہے تو اگر اس پیٹرن پر وہ لڑکے چل رہے ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ اس نے بھی چلنا شروع کر دیا تھا۔ دوسری چیز اس وقت کا جو ماحول تھا، ہر مہاجر بچہ ایم کیو ایم میں جا رہا ہے۔ ہر پٹھان اے این پی جا رہا تھا۔

لیکن ایک منٹ، صولت تو پہلے ہی اپنے ایک دوست سے بڑا متاثر تھا۔ اور یہی دوستی اس کی لائف کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ وہ دوست بھی کوئی ایسا ویسا نہیں تھا۔ وہ ایم کیو ایم کے ملیٹنٹ ونگ کا کرتا دھرتا، ڈیتھ سیلز چلانے والا فہیم فاروقی تھا۔

ہاں، یہ وہی فہیم کمانڈو ہے، جسے قتل کیے بغیر راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ جو ذرا سے شک پر پولیس والوں کو گولی سے اڑا دیا کرتا تھا۔ جس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے رکھی گئی تھی۔ صولت، فہیم سے متاثر تو تھا ہی اور علاقے پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا۔ پھر اس نے 1993 میں فہیم کا پڑھایا سبق ایسا یاد کیا کہ اپنی پڑھائی بھول گیا۔

ادھر جنرل ضیا کے چراغ سے ایم کیو ایم کا جن پوری طرح باہر آ چکا تھا۔ 1987 میں پارٹی لانچ کرنے کے بعد ایم کیو ایم نے پہلے بلدیات اور پھر اٹھاسی اور نوے کے الیکشنز میں بھرپور سیٹیں جیت لیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ Power tends to corrupt, and absolute power corrupts absolutely۔

روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوبنے لگا۔ بھتا خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتیں عروج پر پہنچ گئیں۔ یہ سب کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے نا؟ یہی تو کراچی کا المیہ ہے۔

اِنہی دنوں خبریں آنا شروع ہوئیں کہ یونٹ اور سیکٹرز کے ذریعے علاقے کنٹرول کرنے کی سیاست ہورہی ہے۔ بانوے کے آغاز میں الطاف حسین ہمیشہ کے لیے لندن جا چکے تھے۔ ان کے پیچھے آپریشن کلین اپ شروع ہوا جو خاصی کنفیوژن کے بعد کریڈیبیلیٹی کھو بیٹھا۔

الطاف حسین خود نہیں تھے مگر شہر کے کونے کونے میں ان کی آواز گونج رہی تھی۔ ایج ویئر کے صوفے پر بیٹھے وہ مائکروفون پر ایک کے بعد دوسری اسٹرائک کا اعلان کرتے۔ جسے کامیاب بنانا اب صولت کی بھی ذمہ داری تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب صولت نے پہلی بار منی بس کو آگ لگائی۔

سابق ایس ایس پی فیاض خان بتاتے ہیں:

صولت مرزا نے جو پہلا انکشاف کیا، وہ یہی تھا کہ اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ کراچی کو شہر سے ایک ایسا ملک بنایا جا سکے جس کا آرمی چیف سے لیکر چپراسی تک مہاجر ہو۔

ان دنوں عجیب ہی ماحول تھا۔ نامعلوم افراد شہر پر راج کر رہے تھے۔ ہر جماعت کے مسلح جتھے اس آگ میں کود پڑے تھے۔ ہر علاقے میں ٹارچر سیل تھے۔ تشدد زدہ لاشوں کو بوری میں بند کر کے سڑک پر پھینک دیا جاتا۔ ڈرل مشین، آری اور چھینی ہتھوڑے، کانکریٹ اور پتھر نہیں۔ بلکہ انسانوں پر استعمال ہو رہے تھے۔ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر بسوں سے اتار کر مار دیا جاتا۔ فوج کا میجر اغوا ہوا تو موت کے ڈر سے پولیس اہلکاروں نے بھی وردی پہننا چھوڑ دی۔ ہزاروں معصوم شہری اس قتل عام کا نشانہ بننے لگے۔ ان گنت لاوارث لاشیں خود ایدھی صاحب نے اپنے ہاتھوں سے دفنائیں۔

لیکن شاید ابھی شہر کے برباد ہونے میں کوئی کسر باقی رہ گئی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے فوجی قیادت سے مل کر فیصلہ کیا کہ کراچی آپریشن کا دوسرا مرحلہ پولیس اور رینجرز کے سپرد کیا جائے گا۔ نصیر اللہ بابر کو سربراہی سونپی گئی۔ یہاں سے پولیس اور سیاسی جرائم پیشہ افراد کے درمیان وہ خونی جنگ شروع ہوئی جو اگلے کئی برسوں تک ختم نہ ہو سکی۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی فیاض خان کہتے ہیں:

زیادتیاں تو ہوئی ہیں۔ جو پہلا آپریشن تھا اس میں جو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے حوالے سے ایم کیو ایم کہتی ہے ان مں سے بہت سی چیزیں سہی بھی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام اکاؤنٹرز صحیح تھے ان میں سے بہت سے غلط بھی ہوں گے۔ میرے علم میں نہیں ہیں، لیکن مجھے اندازہ ہے کہ بہت سے لوگ اگر آج غائب ہیں اور اس زمانے میں بھی گمشدہ تھے تو کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوا ہے۔

صولت مرزا کسی روبوٹ کی طرح بندوق تھامے لندن کے اشارے پر ناچ رہا تھا۔ اس کا دماغ کچھ ایسا ہی ماؤف تھا جیسا ان دنوں ’’پب جی‘‘ یا ’’کال آف ڈیوٹی‘‘ کھیلنے والوں کا ہوتا ہے۔ بس فرق یہ تھا کہ یہاں جیتے جاگتے لوگ جان سے جا رہے تھے۔

یکم مئی 1994 کو ایم کیو ایم تین ہٹی پر ایک بڑا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس میں الطاف حسین ملک توڑنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور دو دن کی ہڑتال کر دی جاتی ہے۔ اسی رات نارتھ ناظم آباد بلاک این میں ایک میٹنگ ہوتی ہے۔ یہ میٹنگ یونٹ انچارج نعیم فائربریگیڈ والا نے بلائی تھی۔ فہیم کمانڈو اور اس کے نمبر ٹو صولت مرزا کے بغیر اب ایسی کسی میٹنگ کا تصور بھی ناممکن تھا۔ ادھر سیکٹر انچارج سلیم بلوچ نے لڑکوں کو کلاشن کوف تھمائیں اور انہیں آرمی وین پر حملے کا ٹارگٹ دے دیا۔ ’’بیلجیئم‘‘ کے نام سے مشہور یہ وہی ہٹ مین ہے جو 2019 میں پکڑا گیا۔

فیاض خان مزید بتاتے ہیں:

میں نے پہلی مرتبہ صولت مرزا کا نام 1994 میں اس وقت سنا جب ہم نے ایک کرمنل پکڑا نارتھ کراچی سے وہ بھی کچھ کلنگ میں ملوث تھا۔ اس نے کافی کچھ بتایا ساتھ میں فہیم کمانڈو اور صولت مرزا کے بارے میں بتایا تھا۔ صولت مرزا کو تو ہم جانتے تھے لیکن جس طریقے سے اس نے بتایا کہ کس طرح وہ ایکٹو ہے، پڑھا لکھا تھا، اسٹریٹ اسمارٹ تھا، کرکٹ کھیلتا تھا ملحے میں۔ شروع میں ہڑتالوں میں بسوں کو آگ لگانا، فائرنگ کرنا، اس میں بہت ایکٹو تھا۔

اب صولت مرزا کا سافٹ ویئر مکمل طور پر اپ ڈیٹ ہو چکا تھا۔ یہاں اس نے اپنے پہلے ہدف کو نشانہ بنایا۔ اور یہ نصرت بھٹو کالونی کے سب انسپکٹر واجد علی شاہ کا قتل تھا۔ اس کے بعد صولت نے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نذیر لغاری بتاتے ہیں:

میں دفتر کے لیے نکل رہا تھا اور اس وقت دیکھا کہ تیزی سے لڑکے بائیک پر بھاگ رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ یہ اے ایس آئی سلطان یا کون تھا اس کو قتل کر کے جا رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ صولت مرزا جا رہا ہے اور اس نے نصرت بھٹو کالونی میں ایک واردات کی ہے اور وہ بھاگ رہا ہے۔

کراچی والے ان دنوں کیفے پیالہ پر چائے پراٹھے کھانے اور مالش کروانے جاتے ہیں۔ لیکن ایک دور تھا جب یہاں بڑے بڑے حملوں کی اسکیمیں بھی بنا کرتی تھیں۔ آدھی رات سے اوپر ہو چکی تھی۔ دسمبر 1994 کو صولت اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیفے پیالہ کے سامنے مسجد پر گھات لگائے بیٹھا تھا۔ گلبرگ تھانے کی موبائل جیسے ہی گزری اس نے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ ایک پولیس والا تو موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تین چار موبائلیں مدد کو پہنچیں تو باقاعدہ مقابلہ شروع ہو گیا۔

کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والے پولیس آفیسر ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ ان دنوں شہر میں پولیس کی نفری لگ بھگ 25 ہزار تھی۔ مگر مورال کا یہ عالم تھا کہ پولیس چیف کی حفاظت نیم فوجی ادارے کر رہے تھے۔ چار سالہ آپریشن کے دوران تقریباً ساڑھے چار سو پولیس مین مارے گئے۔ ان دنوں کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی صف میں آ چکا تھا۔

مئی کی ایک صبح فجر کی اذان ہوتے ہی نصرت بھٹو کالونی فائرنگ سے گونج اٹھی۔ فہیم، صولت اور فاروق دادا نے کئی روز پلاننگ کے بعد رینجرز سب ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ جگہ صولت کے گھر سے بہت قریب تھی اور اس اٹیک کا ماسٹر مائنڈ بھی وہی تھا۔ صولت نے رات بھر بسیں چھین کر پہلے ہی روڈز بلاک کر دی تھیں اور اب وہ مدد کو آنے والی رینجرز کی ہر گاڑی پر فائرنگ کر رہا تھا۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس کے بعد حکومت نے ہر حال میں فہیم کمانڈو کو پکڑنے کی ٹھان لی۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی فیاض خان بتاتے ہیں:

جب فہیم کمانڈو پکڑا گیا تو اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ صولت مرزا کا بتایا اور ہمیں پتہ چلا کہ صولت مرزا کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی میں جو ٹارگٹ کلنگ چل رہی تھی اس میں صولت مرزا کا کردار پہلی مرتبہ سنا۔ اس سے پہلے تو نام آیا لیکن فہیم کمانڈو نے جب بتایا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ عام دہشتگرد نہیں ہے بلکہ اس کا لیول کچھ اور ہے۔

اس واقعے کے بعد سے ہی حالات بدلنے لگے۔ اب بدلہ لینے کی باری پولیس اور رینجرز کی تھی۔ فاروق پٹنی عرف فاروق دادا ایک مشکوک اور متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اور یہ مقابلہ کرنے والا کوئی اور نہیں، چار سو ماورائے عدالت قتل کا ملزم ایس ایچ او راؤ انوار تھا۔ گھر گھر چھاپے مارے جانے لگے۔ علاقوں کا محاصرہ کر کے نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی بری طرح پسنے لگے۔ یہی نہیں، چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ اس پر کبھی کسی اور ویڈیو میں تفصیل سے بات کریں گے۔

پولیس متنازع مقابلوں میں ایک ایک کر کے لاشیں گرا رہی تھی۔ ادھر مسلح جتھے ری-ایکشن میں گاڑیاں جلا کر شہر مفلوج کر رہے تھے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اکثر واقعات کی اطلاع پہلے سے اخباروں کو فون کر کے دے دی جاتی تھی۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا تھا۔

اسی دوران صولت کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ وہ واپس تب آیا جب بے نظیر بھٹو کی حکومت جا چکی تھی۔ ہم نے ویڈیو کے شروع میں بتایا تھا کہ صولت کس طرح نازی کا ہاتھ تھامے اسے گھر کے پیچھے پہاڑ پر لے جا کر پروپوز کرتا ہے۔ اور ایک فلمی اسٹوری کی طرح اس بچپن کی محبت کا اختتام ایک ہیپی اینڈنگ پر ہوتا ہے۔ لیکن پکچر ابھی باقی ہے۔

اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس کہانی کا ہیرو ہی اصل وِلن ہے۔ صولت بچپن کا پیار نبھانے کے لیے شادی تو کر لیتا ہے لیکن اس کی منزل تو کہیں اور ہے۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی صولت کو لندن سے ایک کال موصول ہوتی ہے۔ ابھی بتاتے ہیں وہ کال کس کی تھی۔

کراچی والے گرمی میں کے الیکٹرک کو بڑا یاد کرتے ہیں۔ ان دنوں صورتحال اور بھی بری تھی۔ کے ای ایس سی ابھی پرائیویٹائز نہیں ہوئی تھی۔ سیاسی بھرتیوں کے نتیجے میں ان ایفیشینسیز کا بازار گرم تھا۔ یونینز نے ادارے کا بھٹا بٹھا دیا تھا۔ ان دنوں سرکاری بیوروکریٹ شاہد حامد کے ای ایس سی کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے بھرتی کے لوگوں کی کرپشن پکڑنی شروع کر دی۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ Old habits die hard…

مزدور یونینز نے شاہد حامد سے دشمنی پر کمر باندھ لی۔ ادھر شاہد حامد بھی دھمکیاں ملنے کے باوجود ڈٹے ہوئے تھے۔ کے ای ایس سی مافیا کے پاس ایم ڈی کو ہٹانے کے سوا کوئی چارہ نہ بچا۔

اب ہم ذکر کرتے ہیں اس فون کا جو صولت کو آیا تھا۔ یہ فون سلیم بیلجیئم کا تھا جو براہ راست الطاف حسین سے رابطے میں تھا۔ سلیم نے ایک ہائی پروفائل ٹارگٹ کی ذمہ داری صولت کو سونپ دی۔ بتایا گیا کہ یہ ٹارگٹ آئی ایم ایف سے کنکٹڈ ہے جو عنقریب ملک کو قرض دینے والا ہے۔ اور یہ ٹارگٹ کوئی اور نہیں شاہد حامد تھے۔

صولت نے تین لڑکوں کے ساتھ ریکی شروع کی۔ یہ لوگ کئی روز شاہد حامد کے دفتر جانے اور گھر آنے کا ٹائم نوٹ کرتے رہے۔ 5 جولائی 1997 کو صولت مرزا اور اس کے تین ساتھی ڈیفینس فیز ٹو میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ شاہد حامد کے گھر سے مین روڈ تک دو گلیاں جاتی تھیں۔ صولت اور اس کے ساتھی دونوں گلیوں کو کور کر کے بیٹھ گئے۔ شاہد حامد اپنی بیوی شہناز اور بیٹے عمر کے ساتھ ناشتا کر کے اٹھے۔ ان کا گارڈ اور ڈرائیور دونوں الرٹ تھے۔ گھر والوں کو خدا حافظ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر گیٹ سے باہر نکل گئے۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ ایک گلی میں موجود ٹیم نے کار پر فائرنگ کی تو ڈرائیور کو گولیاں لگیں۔ اس نے گاڑی دوسری گلی کی طرف دوڑائی مگر وہاں پر صولت کلاشنکوف تھامے ان ہی کا انتظار کر رہا تھا۔ عمر دوڑتا ہوا باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ چار افراد گاڑی پر کلاشنکوف سے گولیاں برسا رہے ہیں۔

ڈی آئی جی پولیس عمر شاہد بتاتے ہیں:

پانچ جولائی کی صبح میری آنکھ کھلی ہی تھی کہ انتہائی سخت فائرنگ کی آواز آئی۔ گھر سے بیس تیس قدم کے فاصلے پر۔ اور جیسے ہی یہ فائرنگ کی آواز آئی کیونکہ ایک سلسلہ میری غیر موجودگی میں چل رہا تھا دھمکیوں کا۔ تو میری والدہ کو فوری طور پر شک ہوا کیونکہ میرے والد صاحب کو گھر سے نکلے ہوئے شاید دو منٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔ میں گھر سے باہر بھاگا۔ جہاں ان کی گاڑی تھی وہاں ایک کچرا کنڈی تھی۔ پاپا کی گاڑی مجھے نظر آ رہی تھی جو کچرا کنڈی کے ساتھ عجیب و غریب انداز میں لگی ہوئی تھی۔سفید رنگ کی 1992 ماڈل ہنڈا سوک۔ وہ وہاں کچرا کنڈی کے ساتھ عجیب سے اینگل کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ دو بندے اس گاڑی پر فائر کررہے تھے اس کا بھی مجھے احساس بعد میں ہوا۔ جیسے ہی انہوں نے فائر ختم کئے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔ میں گاڑی تک پہنچا اور دیکھا کہ والد صاحب جو پیچھے بیٹھتے تھے وہ شدید زخمی تھے ڈرائیور اور گن مین بھی شدید زخمی تھے اور وہ ہل نہیں رہے تھے۔ اس واقعہ کو ستائیس سال گزرچکے ہیں لیکن مجھے وہ شکلیں اور چہرے اسی طرح یاد ہیں جیسے یہ واقعہ آج ہی ہوا ہو۔

شاہد حامد کے جسم میں ڈیڑھ سو سے زائد گولیاں لگی تھیں۔ یہ قتل کیسے صولت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، ہم آپ کچھ دیر میں بتانے والے ہیں۔ ادھر سلیم بیلجیئم نے صولت کی پرفارمنس سے متاثر ہو کر اسے اگلا ٹارگٹ دینے کا فیصلہ کیا۔

شاہنواز فوج سے ریٹائرڈ میجر تھے جو ایک امریکی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ سلیم نے صولت کو بتایا کہ شاہنواز ایم کیو ایم کارکنوں کی خفیہ رپورٹس اوپر تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ٹارگٹ ٹھکانے لگانے سے امریکا کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بلآخر وہ دن بھی آگیا جب صولت مرزا ایک اور قتل کرنے کے لیے تیار تھا۔

اس روز بھی شاہنواز اپنے بیٹے کو بورڈ آفس سے حیدری ڈراپ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ ’’پاپا آج پیٹ میں بہت درد ہے، ٹیونشن سے چھٹی کر لوں؟‘‘ شاہنواز بیٹے کا بہانہ سمجھتے ہوئے مسکرائے اور بولے، ’’کوئی بات نہیں، راستے میں کلینک پڑتا ہے، پہلے وہاں چلے جاتے ہیں؟‘‘ بیٹا سجھ گیا کہ اب کوئی ایکسکیوز نہیں چلے گا۔ وہ تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ’’چائے تو پیتے جائیں۔‘‘ بیگم نے آواز لگائی۔ ’’تم چائے بناؤ میں بس دس منٹ میں آتا ہوں، اکھٹے پیئں گے۔‘‘

مگر یہ چائے شاہنواز کی قسمت میں نہ تھی۔ وہ جیسے ہی حیدری پہنچے، گھات لگائے صولت نے اپنی ٹیم کے ساتھ کار پر فائر کھول دیے۔ شاہنواز موقع پر ہی دم توڑ گئے اور ان کا بیٹا بھی شدید زخمی ہوا۔

ان دنوں ملک میں نواز شریف، مگر کراچی میں صولت کا راج تھا۔ اچانک اسے لندن قیادت کی طرف سے ایک پیغام ملتا ہے۔ اب اسے ایک بڑے مقصد کے لیے ملک چھوڑنا ہے۔ صولت سب کو چھوڑ چھاڑ سری لنکا روانہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کے دو اور کارکن اطہر اور عمران بھی ہیں۔ صولت ایک جعلی پاسپورٹ پر سفر کرتا ہے جس پر اس کا نام فرحان درج ہے۔ ابھی یہ سری لنکا میں ہی تھے کہ انہیں لندن سے ساؤتھ افریقا پہنچنے کا ٹاسک ملتا ہے۔ یہاں صولت نے چند ماہ رہ کر سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ لیکن پارٹی کے تو کچھ اور ہی ارادے تھے۔ صولت کی اگلی منزل انڈیا تھی جہاں اسے فوج سے لڑنے کی ٹریننگ حاصل کرنا تھی۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی فیاض شاہ نے بتایا:

یہ صرف ایم کیو ایم کے لوگ نہیں تھے بلکہ الذوالفقار، جیے سندھ، علیحدگی پسند بہت سے گروپ اس وقت اور آج بھی کرتے ہیں ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔

نذیر لغاری کہتے ہیں:

سب سے پہلے تو ہمارا سوال ریاست سے ہے۔ یہ سب کچھ کرنے والا کون تھا؟ یہ آرگنائز کرنے والی قوت کون تھی؟ یہ نوجوان کیسے وہاں جاکر ٹریننگ لیتے تھے؟ یہ ٹرین کرنے والی قوت کون سی تھی؟ یہ نوجوان کہاں سے جاکر ٹریننگ لیتے تھے؟

صولت کے بقول وہ انڈیا نہیں گیا۔ اور شاید یہی وہ غلطی تھی جہاں سے اس کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ حلف توڑنے کی سزا میں اسے ایم کیو ایم کارکن سے ہمدرد بنا دیا گیا۔ صولت کو اب گھر یاد آ رہا تھا۔ ماں کی بیماری کا سن کر وہ چپکے سے کراچی آگیا۔ ادھر وہ کراچی آیا اور ادھر ایم کیو ایم نے اس کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ وہ گرفتار ہوئے بغیر دوبارہ بنکاک چلا گیا۔

یہاں آکر اسے دوبارہ لندن سے کال آتی ہے۔ مگر اس بار کالر کوئی اور نہیں خود الطاف حسین تھے۔ صولت کو کراچی جا کر لڑکے اکٹھا کرنے اور مخالفوں کو ٹھکانے لگانے کا ہدف ملتا ہے۔ اب یہ ایم کیو ایم کا اندرونی اختلاف تھا یا کوئی چال کہ ایک طرف تو صولت کو معطل کیا گیا تو دوسری طرف نئے ٹاسک دے کر کراچی بھیج دیا گیا۔ صولت اب بھی اپنی پارٹی کا وفادار تھا، مگر بہت جلد یہ وفاداری، غداری میں بدلنے والی تھی۔

یہ بات تو طے تھی کہ اب صولت کے ستارے گردش میں آ چکے تھے۔ دوست مخبر بن چکے تھے۔ وہ پولیس اور انٹیلی جنس کو پل پل کی خبر دے رہے تھے۔ مگر خود صولت اس صورتحال سے بے خبر تھا۔

یہ 11 دسمبر 1998 کی رات تھی۔ صولت جعلی پاسپورٹ پر بنکاک سے کراچی آ رہا تھا۔ ایئرپورٹ پر ہینڈل نما موچھوں والا گورا چٹا ایس ایچ او چوہدری اسلم ہاتھ میں گلاک لیے بے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ وہ اسے اکیلے ریسیو کرنے نہیں آیا تھا۔ درجنوں پولیس والے سادہ لباس میں ایئر پورٹ کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ چوہدری کو یہ تک معلوم تھا کہ صولت کس سیٹ پر بیٹھا ہے۔ باہر آتے ہی صولت تیزی سے ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھنے لگا لیکن اگلی ہی لمحے وہ چاروں طرف سے گھیرے میں آ چکا تھا۔

یہ ایک ہائی پروفائل گرفتاری تھی۔ اگلے ہی روز صولت مرزا کا ایک گھنٹے سے زائد کا انٹرویو منظر عام پر آگیا۔ اس انٹرویو میں صولت مرزا نے اپنے جرم کا اعتراف کیا، ایم کیو ایم قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر وہ کبھی باہر نہ آنے کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔

جرم ثابت ہونے پر عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنا دی۔ مگر اس بار قسمت صرف صولت ہی نہیں ایم کیو ایم پر بھی مہربان تھی۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے نواز شریف کو چلتا کیا تو ایم کیو ایم کے جیسے دن پھر گئے۔ صولت مرزا نے صدر سے رحم کی اپیل کی جس کا التوا برسوں پھانسی کو ٹالے رہا۔ مشرف دور میں جہاں ایم کیو ایم کو فری ہینڈ ملا وہیں صولت مرزا نے بھی جیل میں بیٹھے بیٹھے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔

صحافی منصور خان بتاتے ہیں:

میری پہلی ملاقات صولت سے 2002 میں پھانسی وارڈ میں ہوئی اس وقت ایک معمولی قیدی کی طرح تھا وہ۔ صولت گرل پکڑ کر ایک نارمل قیدی کی طرح کھڑا ہوا تھا۔ دوسری ملاقات ہوئی 2006 میں۔ بڑا مشکل مسئلہ تھا 2006 میں پھانسی وارڈ تک جانا۔ ایم کیو ایم کی حکومت تھی۔ اس کے قیدیوں کو تمام سہولیات حاصل تھیں۔ پھانسی وارڈ کی صورتحال ایسی تھی کہ وہ سیکٹر آفس لگتا تھا۔ جس وقت میں پھانسی وارڈ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ تھری کوائٹر شارٹ میں ایک نارمل ہینڈسم لڑکا اس سے میری ملاقات ہوئی۔

آپ نے بھارتی فلم ’’آپہارن‘‘ دیکھی ہے۔ اس فلم میں اجے دیوگن ایک کرمنل اور نانا پاٹیکر اس کا لیڈر ہے۔ اجے جیل پہنچ کر عیاشی کی زندگی گزارتا ہے اور سارا نیٹ ورک جیل سے چلاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ان دنوں کراچی جیل کی تھی۔

صولت نے قید میں رہتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کا ایک سیٹ اپ بنا ڈالا۔ وہ پاکستان میں کسی کو جواب دہ نہیں تھا بلکہ اس کا ڈائریکٹ رابطہ لندن قیادت سے تھا۔ جیل کیا تھا بس ایک پارٹی آفس تھا جس پر صولت نے 17 سال راج کیا۔ یہاں اس کی سالگرہ منائی جاتی، رقص کی محفلیں ہوتیں۔ اس کے استعمال میں 6 موبائل اور 16 سمیں تھیں۔ منسٹرز اور سیاسی رہنما جھنڈے والے گاڑی میں بیٹھ کر صولت سے ملنے جیل آتے۔ تنظیمی ذمہ داروں سے بھی اس کی ملاقاتیں یہیں ہوا کرتیں۔ اب تو جیل میں کانسٹیبل سے لیکر سپرانٹینڈنٹ تک ٹرانفسر اور پوسٹنگ بھی صولت کی مرضی سے ہونے لگی تھی۔

ایس ایس پی سی ٹی ڈی فیاض خان بتاتے ہیں:

امان اللہ نیازی جو جیل کے سپرٹینڈنٹ تھے، انہوں نے صولت پر سختی کی تو ان کا انجام کیا ہوا۔ صولت مرزا نے ان کو چیلنج کیا تھا اور بھرے بازار میں انہیں ان کے گن مینوں کے ساتھ مار دیا گیا۔

صولت جتنا خطرناک جیل سے باہر تھا، اس سے کہیں خطرناک جیل کے اندر ثابت ہوا۔ یہاں اس کے پاس گھریلو جھگڑے سلجھانے کی درخواستیں بھی آتیں اور وہ جیل میں بیٹھے بیٹھے ان پر فیصلے جاری کرتا۔ مگر جو فیصلہ ایک بار ہو جاتا اس سے انکار کی ہمت کسی کو نہ ہوتی۔

صولت کے بھائی فرحت علی خان بتاتے ہیں:

ایک خاتون تھی اس کا شوہر اس کو طلاق دینا چاہ رہا تھا وہ خاتون طلاق نہیں لینا چاہ رہی تھی کسی نے اس کو کہا کہ صولت کے پاس چلی جاؤ ہو سکتا ہے آپ کا معاملہ حل ہو جائے۔ وہ صولت کے پاس گئی تو صولت نے اس شخص کو پارٹی کے ذریعے بلوایا۔ اس سے پوچھا کہ کیوں طلاق لینا چاہتے ہو؟ اس نے دس وجوہات بتائیں تو صولت نے کہا کہ آپ میرے کہنے پر اس کے ساتھ رہ لو اگر کوئی شکایت ہو تو مجھے آ کر بتانا میں اس کو ایک بہن سمجھ کر سمجھاؤں گا لیکن اسے طلاق نہ دو۔ جس دن صولت کو پھانسی ہوئی تو اس خاتون کا خانہ کعبہ سے فون آتا ہے۔ کہتی ہے ایک ہفتہ ہو گیا میں خانہ کعبہ میں دعا کرتی رہی۔ سب کچھ کرتی رہی۔ آج جو میں خانہ کعبہ میں ہوں صرف صولت بھائی کی وجہ سے ہوں کیونکہ اس نے میرا گھر ٹوٹنے سے بچایا۔

صولت کو یہ یقین تھا کہ اسے پھانسی نہیں ہوگی۔ جب بھی نازی اس سے ملنے جاتی تو وہ وکٹری کا نشان بنا کر کہتا کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ مشرف دور کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پانچ سال کے لیے اقتدار میں آئی۔ گورنر شپ ایم کیو ایم کے پاس تھی اس لیے صولت کو جیل میں سہولتیں ملتی رہیں۔مگر جب 2013 میں ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آئے تو کراچی میں آپریشن شروع ہوا۔

صرف وزیر اعظم اور آرمی چیف ہی نہیں وزیر اعلی سندھ، کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز بھی آن بورڈ تھے۔ آٹھ ہزار چھاپوں میں ساڑھے بارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ پہلی بار نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا۔ باہر ہی نہیں جیل میں بھی حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ قائد، پارٹی اور مشن سب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ صولت جو اپنے خاندان کی دھاک بٹھانے پارٹی میں آیا تھا، اب اس کی بہنیں بدسلوکی کا شکوہ کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔

نذیر لغاری بتاتے ہیں:

جب اس کی بہنیں اس سے ملاقات کے لیے جاتی تھیں جس طرح کا طرز عمل وہاں ہوتا تھا، وہ تکلیف دہ تھا۔ اس کی بہنوں کو اس سے ملاقات کے لیے جس اذیت سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ اس کی بہنوں کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا تھا میرے لیے وہ تکلیف دہ تھا۔

صحافی منصور خان بتاتے ہیں:

فیملی کے ساتھ بدتمیزی کا صولت کو یقین نہیں آتا ہے۔ پھر سپرٹینڈیٹ کے کمرے میں صولت کی اس کی بہن سے باتیں کرائی جاتی ہیں۔ ان کی بہن بتاتی ہیں کہ ہمارے ساتھ رات میں بدتمیزی کی گئی اور ہمیں مرکز سے جانے کا کہا گیا۔ یہ پوائنٹ تھا جہاں وہ صولت مان جاتا ہے۔ پھر الطاف حسین کی وہ ویڈیو دکھائی گئی جس میں اس نے کہا کہ میں صولت مرزا کو نہیں جانتا۔

ایک عرصے تک صولت اور اس کی بیوی نگہت کے درمیان رابطے کا واحد سہارا خطوط تھے۔ نگہت، صولت سے ہر بات خط میں لکھ کر کیا کرتی۔ سترہ برسوں میں صولت نے نازی کو بیس، بیس صفحات کے اتنے لیٹرز لکھے تھے کہ ایک کمرا ان سے بھر گیا تھا۔ حیدرآباد اور مچھ جیل شفٹ ہونے سے پہلے صولت جب تک کراچی میں رہا وہ ہر ہفتے اس سے ملنے جیل جاتی رہی۔ وہ اس کے لیے ابن صفی کے ناولز بھی لایا کرتی۔

صولت کی پھانسی کا وقت پھر قریب آ رہا تھا۔ 2015 میں لٹکائے جانے سے صرف چند گھنٹے پہلے، صولت کا ایک اور انٹرویو کلپ تمام ٹی وی چینلز کو بھیجا جاتا ہے۔ ٹھیک ایک ہفتے پہلے رینجرز نے نائن زیرو پر ریڈ کیا تھا۔ بلدیہ فیکٹری فائر میں تمام انگلیاں ایم کیو ایم کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ لیکن اس دھماکہ خیز اعترافی بیان کو چلانے کی ہمت کسی چینل میں نہ تھی۔ جب سما ٹی وی نے آگے بڑھ کر وہ انٹرویو بریک کیا تو باقی چینلز بھی پیچھے پیچھے آگئے۔ اس انٹرویو میں صولت نے الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کی سینیئر لیڈرشپ کے کرتوت کھول کر رکھ دیے۔ یہ ویڈیو کس نے بنائی اور کیسے لیک ہوئی یہ آج تک ایک راز ہے۔

انٹرویو چلنے کے بعد صولت کی پھانسی 72 گھنٹے کے لیے روک دی گئی۔ صولت کی فیملی جو پچھلے سترہ برسوں سے گمنامی کی زندگی گزار رہی تھی اچانک ایکٹو ہو گئی۔ بیوی اور بہنوں نے ایک کے بعد ایک پریس کانفرنسز کیں۔ میڈیا انٹرویوز اور پروگرامز میں صولت کا کیس دوبارہ سننے کی اپیل کر دی۔

مگر اب ساری تدبیریں الٹی ہو رہی تھیں۔ صولت کو بھی یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ پھانسی سے ایک دن پہلے وہ مچھ جیل میں ایک قیدی کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔ ’’کیا مجھے اور وقت ملے گا؟‘‘ قیدی سب جانتے ہوئے بھی کہتا ہے کہ جی صولت بھائی ضرور ملے گا۔ صولت ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سر ہلاتا ہے۔ ’’یار میں جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے اپنا بیٹا صائم نظر آتا ہے۔ لگتا ہے ہمارا ساتھ بس یہیں تک تھا۔‘‘ وہ پوری رات صولت نے کمرے میں ٹہلتے اور سگرٹ پیتے گزاری۔

12 مئی 2015، پرانے گیارہ بارہ وارڈ کا بڑا دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ کھلتا ہے۔ جیل سپرٹینڈیٹ انصاف زہری کچھ لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہوتا ہے۔ اس کے پاس گردن میں باندھنے والا پٹہ اور ہاتھ باندھنے والی رسی ہے۔ وہ سوئے ہوئے صولت کو جگاتے ہیں۔ ’’کیا وقت آگیا؟‘‘ صولت نے سر اٹھا کر پوچھا۔ ’’ہاں! باہر آؤ۔‘‘ صولت کے گلے میں چمڑے کا پٹہ ڈال کر ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ پر لے جا اس کے منہ پر نقاب ڈال دیا جاتا ہے۔ اندھیرے ہوتا ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی زندگی کی فلم چلنے لگتی ہے۔ کبھی اسے اپنی ماں دکھائی دی تو کبھی بیوی اور کبھی ان بے گناہوں کی شکل جنہیں قتل کرنے سے پہلے وہ جانتا تک نہ تھا۔ اور پھر کھٹاک کی آواز کے ساتھ سب ختم ہو گیا۔

ایک بارہ مئی وہ تھی جب صولت نے جیل سے بیٹھے بیٹھے شہر کے گلی کوچے لاشوں سے بھر دیے تھے اور ایک بارہ مئی یہ تھی جب وہ تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

صحافی منصور خان کہتے ہیں:

بہت ہی رازدارنہ طریقے سے اپنی وصیت نگہت کو مکمل گائنڈینس کے ساتھ ایک سپاہی کو کچھ پیسے دے دلا کر بھجوا دیا۔ اس میں اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ میرے بعد شادی کر لیجیے گا۔

وہ آج سترا سال بعد اپنے دانی کے ساتھ تھی۔ وہ دونوں ایک ایئرکنڈیشنڈ ایمبولینس میں تھے جس کے شیشوں پر پرائیوسی کے لیے دوپٹے لگے تھے۔ گھر والے اور پورا میڈیا اکٹھا تھا اور نازی پچھلے ایک گھنٹے سے اپنا سر تابوت سے ٹکائے روئے جا رہی تھی۔ اسے حیرانی تھی کہ اگر پھانسی ہی صولت کا مقدر تھی تو آسرا کیوں دیا گیا؟ کیوں ایک کے بعد ایک انٹرویوز کروائے گئے۔ مگر وہ شاید بھول گئی تھی کہ برے آغاز کا انجام بھی برا ہوتا ہے۔

اس کے کانوں میں دانی کے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’’یہ نیچے جاتی ڈھلان ہی میری زندگی ہے نازی۔ میں ایک خطرناک رستے کا مسافر ہوں۔‘‘

شیئر

جواب لکھیں