گوجرانوالہ کرکٹ اسٹیڈیم میں فرسٹ کلاس میچ ہو رہا تھا۔ کھلاڑیوں میں رمیز راجا جیسے انٹرنیشنل اسٹارز بھی شامل تھے لیکن انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ سخت گرمی تھی لیکن اس کے باوجود دوسرا سیشن شروع ہوتے ہی گراؤنڈ بھرنا شروع ہو گیا۔ دس بیس پچاس کی ٹولیوں میں تماشائی اسٹیڈیم میں آنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں پورا اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا۔

کھلاڑی حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ مگر پھر تماشائیوں کے ساتھ ساتھ پولیس بھی آنا شروع ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں ایک ایس ایچ او صاحب میدان میں داخل ہو گئے اور پوچھا، ’’کپتان کون ہے؟‘‘۔ رمیز راجا ڈرتے ڈرتے آگے آئے اور کہا، ’’جی میں کپتان ہوں۔ ‘‘ تھانے دار بولا، ’’چلو جی وکٹاں کڈو‘‘۔ رمیز راجا نے پوچھا، ’’ہیں؟ وکٹیں کیوں ہٹائیں؟‘‘ تھانے دار بولا، ’’اتھے کوڑے وجنے اں‘‘۔

یہ تھا ضیا کے پاکستان کا ایک عام منظر، جہاں سارا اسلام سزاؤں اور پابندیوں کی حد تک محدود ہو چکا تھا۔ ویسے تو کوڑے کسی کو بھی لگ سکتے تھے مگر اس کام کے لیے ’’صحافی حضرات‘‘ ضیا کے فیوریٹ تھے۔

ضیا اور افغان جہاد

پارٹ ون کے آخر میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ ضیا نے پہلی امریکی آفر کو ’’ایبسولوٹلی ناٹ اِنف‘‘ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدر کارٹر کا پورا خاندان مونگ پھلی کے کاروبار سے منسلک تھا۔ ضیا نے ان کے چالیس کروڑ ڈالرز کو ’’پی نٹس‘‘ قرار دے دیا تھا۔

جمی کارٹر ضیا کے ری ایکشن پر حیران تھے۔ یہ پہلی بار تھا کہ ایک آرمی ڈکٹیٹر امریکا کو ’’نو‘‘ کہ رہا تھا۔ مگر ضیا نے ایک کیلکولیڈڈ رسک لیا تھا۔ انہیں پاکستان کی لوکیشن ویلیو معلوم تھی۔ وہ جانتے تھے کہ خمینی کے اقتدار میں آنے کے بعد اب امریکا کے پاس افغانستان کے لیے پاکستان کے سوا کوئی دوسرا دروازہ موجود نہیں۔

جیسے تیسے ایک سال گزر گیا اور پھر جنوری 1981 میں رانلڈ ریگن کی حکومت آ گئی۔ انہوں نے ضیا کو 3۔ 2 ارب ڈالر کا پیکج آفر کیا جسے ضیا نے ’’ایبسولوٹلی یس‘‘ کہتے ہوئے قبول کر لیا۔

پلان تیار ہو گیا۔ افغان جہاد میں ساتھ دینے کے لیے ضیا نے امریکیوں کے سامنے بس ایک شرط رکھی۔ انہیں افغان جہاد کی پلاننگ اور فنڈز کے استعمال میں مکمل فری ہینڈ دیا جائے۔ اسے امریکا نے بلا جھجک مان لیا۔ تمام معاملات کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے حوالے کر دی گئی۔

اور یہ پہلا موقع تھا جب انٹیلی جنس اور آپریشنز دونوں کی کمان ایک ہی محکمے کے حوالے کی گئی تھی۔ اور یہی اغاز تھا ایک سپر سائزڈ اور سپر پاور فل آئی ایس آئی کا۔ ایک ایسی ایجنسی جس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا تھا، حتیٰ کہ امریکا بھی نہیں۔

لیکن جنگ لڑنے کے لیے صرف پیسے اور اسلحے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاریخ کی سب بڑی جہادی ریکروٹمنٹ ڈرائیو شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تینتالیس مسلم ممالک سے ہزاروں انٹرنیشنل مجاہدین پشاور پہنچنے لگے۔

اُسامہ بن لادن کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا لیکن سوویت یونین جیسی سپر پاور سے مقابلے کے لیے اس سے کہیں زیادہ لوگ درکار تھے پاکستان میں مقامی مجاہدین تیار کرنے والی فیکٹریاں لگانے کا فیصلہ ہو گیا۔

سینتالیس سے لے کر انیس سو اسی تک پاکستان میں صرف چند سو مدارس بنے تھے لیکن اگلے پانچ سالوں میں ان مدارس کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی۔ اور ان مدارس میں دس سے پندرہ لاکھ اسٹوڈنٹس یا پھر ’’طالبان‘‘ تعلیم حاصل کرنے لگے۔

ان اسٹوڈنٹس کی ذہن سازی اور تعلیم کے لیے امریکا نے پانچ کروڑ ڈالر جاری کیے۔ ان ڈالرز سے ایسی کتابیں اور مٹیریل چھپوا کر بانٹے گئے جس میں قتل اور اسلحے کے استعمال سے متعلق موٹی ویشنل چیپٹرز موجود تھے۔

ذرا چوتھی جماعت کی میتھس کی کتاب کا یہ سوال دیکھیے اور سر دھنیے:

کلاشنکوف کی ایک گولی آٹھ سو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اگر ایک روسی فوجی آپ سے 3200 میٹرز دور کھڑا ہے تو پھر آپ کو اس کے سر کو نشانہ بنانے میں کتنے سیکنڈز لگیں گے؟

یہ اور اس جیسے درجنوں اور سوالات کے ذریعے نو دس اور گیارہ سال کے بچوں کو حساب کا مضمون سمجھایا جا رہا تھا۔ مگر جہاں یہ سب فیل ہو جاتا تو پھر پیسہ بھی خوب چلایا جاتا۔ سی آئی اے نے روسی فوجیوں کے رینک کے حساب سے ان کے سروں کی قیمت رکھنا شروع کر دی۔ عام روسی فوجی کے پانچ ہزار اور اسپیشل فورسز کے دس۔

یہ ٹو پرونگڈ اسٹریٹیجی کامیاب ہونا شروع ہو گئی۔ انیس سو چوراسی تک افغان سرزمین پر موجود 17 ہزار روسی فوجی مارے جا چکے تھے، لیکن ان مجاہدین کے پاس اسمانوں سے بم برساتے روسی جہازوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور پھر افغان جہاد کا فائنل فیز شروع ہو گیا۔

اس سے پہلے کہ ہم فائنل فیز کی بات کریں، روسی صدر گورباچوف کے ضیاء الحق کے بارے میں خیالات سنتے جائیے:

یہ ضیاء الحق بہت ہی مکار انسان ہے، مسلسل مجھے اپنی بے چارگی اور مظلومیت کا احساس دلاتا رہا کہ دیکھیں نا ہم تو خود اس جنگ کے وکٹم ہیں۔ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ دیکھیں ضیا صاحب! آپ خود ایک فوجی ہیں اور آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کیا کر رہا ہے، کون سے کیمپ میں کتنے جہادیوں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے اور ان کیمپس میں پیسہ کہاں سے آ رہا ہے ہمیں سب معلوم ہے۔ لیکن وہ شخص معصوم بن کر ہر چیز سے انکار کرتا رہا۔

14 جولائی 1987 کا دن تھا، شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ صدر کے بوہری بازار سے لوگ اپنے کاروبار بند کر کے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ سیدنا برہان الدین اسٹریٹ پر اچانک ایک دھماکا ہوا۔ چند سیکنڈ کے لیے مکمل خاموشی ہو گئی اور پھر ہر طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔

ہر طرف انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے۔ دس سے پندرہ منٹ میں درجنوں ایمبولینسز اور پولیس موبائلز وہاں پہنچ گئیں اور پھر ایک اور دھماکا ہو گیا۔

قیامت کا منظر تھا۔ جب دھول چھٹی تو 72 پاکستانی شہید اور دو سو سے زائد زخمی ہو چکے تھے۔ روسی اور افغان انٹیلی جنس افغانستان کا بدلہ پاکستان میں لے رہی تھیں۔ اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگائے کہ 1987 تک دنیا بھر میں ہونے والے 770 دہشت گرد حملوں میں سے نوے فیصد پاکستان میں ہوئے تھے۔

بیگانی شادی میں دیوانہ بننے والے عبداللہ کا اپنا گھر اجڑ رہا تھا۔ اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستانی معیشت کی کمر توڑنے لگا۔ لیکن ضیا کو پاکستان کی کہاں فکر تھی، وہ تو پورے خطے کو ایک سپر اسلامک اسٹیٹ بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

خیر بیک ٹو فائنل فیز آف افغان جہاد!

انیس سو چھیاسی میں امریکا نے پاکستان کو شولڈر فائر ڈ اینٹی ائیر کرافٹ اسٹنگر میزائلز فراہم کرنا شروع کر دیے۔ 80 پرسنٹ ہٹ ریٹ والے اسٹنگر میزائل نے افغان جنگ کی بازی فیصلہ کن طور پر پلٹ دی۔ مجموعی طور پر اسٹنگرز نے 300 سے زائد روسی ائیر کرافٹس مار گرائے۔

زمین کے بعد اب روسی فوجیوں کے لیے اسمان بھی تنگ ہو چکا تھا۔ اور بالآخر اکتوبر انیس سو ستاسی میں روسی انخلا اور جنگ بندی کے لیے باقاعدہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ اور 15 فروری 1989 کو تمام روسی فورسز افغانستان سے چلی گئیں۔

لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے ضیاء الحق خود روسیوں کو افغانستان سے جاتا نہ دیکھ سکے۔

افغان جہاد کے دوران ضیا اور ان کے ساتھی جرنیلز کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں تھے۔ اس دور میں پاکستان کو امریکا سے 40 ایف-16 لڑاکا طیارے، 100 ایم-48 ٹینک بھی ملے جنہیں ہم آج تک استعمال کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کو 8 بلین ڈالرز کی امریکی امداد ملی۔ اس میں چالیس فیصد حصہ فوج کا تھا۔

جب زیادہ پیسہ اتا ہے تو ساتھ زیادہ خرچے بھی لاتا ہے۔ چند سالوں میں فوجی بجٹ ایک سو اڑسٹھ فیصد اضافے کے ساتھ 70 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر ایک ارب 86 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گیا۔

یہ تو وہ امداد تھی جو بینکنگ چینلز سے آ رہی تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ ڈالر ان افیشلی ’’حوالہ‘‘ اور ’’ہُنڈی‘‘ نیٹ ورکس کے ذریعے سعودی عرب سے پاکستان پہنچ رہے تھے۔ اور یہ جنگی ڈالرز ایک بار پھر پاکستانی معیشت کو فُل اسپیڈ سے آگے بڑھانے لگے۔

ضیا اور ملکی معیشت

ماہر معیشت علی حسنین کہتے ہیں کہ ضیا کے سر بہت سی چیزیں سوار تھیں، لیکن معیشت ان میں سے نہیں تھی۔ اسی لیے اکانومی کا سارے معاملات انہوں نے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان کو اوٹ سورس کیے ہوئے تھے۔

وہ واقعی پٹھان دماغ کے ادمی تھے۔ ایک بار ورلڈ بینک کے ساتھ ایک پچیس کروڑ ڈالر کے لون کے مذاکرات سے یہ کہ کر اٹھ گئے کہ میں اتنی سی رقم کی خاطر اپنی معیشت آپ کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اس دور میں جی ڈی پی 6، 5 فیصد کی اوسط رفتار سے اگے بڑھی جو چین، کوریا اور ہانگ کانگ کے علاوہ ایشیا کی تمام اکانومیز سے زیادہ تھی۔ ضیا نے کیپیٹلسٹ اکانومی کا انداز تو اپنایا لیکن بھٹو کی جانب سے نیشنالائز کیے گئے اداروں کو پرائیویٹائز نہیں کیا۔

ڈالرز کی بارش کے باوجود پاکستان کو اسی کی دہائی میں چار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، لیکن مجال ہے جو ایک بھی ریفارم کی گئی ہو۔ ضرورت بھی کیا تھی؟ جب امریکا کا آشیرباد ساتھ ہو تو پھر آئی ایم ایف والے بھی زیادہ سوال جواب نہیں کرتے، بس لون اپروو کرتے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف لونز اور امریکی اور سعودی امداد کے باوجود پاکستانی روپیہ لڑکھڑاتا رہا اور اسی سے لے کر اٹھاسی تک ڈالر دس روپے سے بڑھ کر بیس کا ہو گیا۔

ضیا دور کو ایک لحاظ سے ایک ’’لوسٹ ڈیکیڈ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ جس وقت وہ اقتدار میں آئے تو ایک عام پاکستان کی آمدنی ایک چینی شہری کے مقابلے میں ڈبل تھی لیکن جب ضیا کا جہاز کریش ہوا تو چین کی کئی گنا زیادہ آبادی کے باوجود یہ فرق ختم ہو چکا تھا۔

ضیا اور بھارت

1974میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرے گا، چاہے اس کے لئے عوام کو ’’گھاس ہی کیوں نہ کھانا‘‘ پڑے۔ وہ تو اپنے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے زندہ نہ رہے لیکن ذرا فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔

سال 1984 میں خالصتان تحریک نے ہندوستان کر ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اندرا گاندھی کا ماننا تھا کہ اس تحریک کے سارے تانے بانے پاکستان میں بنے جا رہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان کو گھر میں گھس کر مارنے کا پلان تیار کر لیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں یہ مودی صاحب کا اوریجنل آئیڈیا تھا؟

مگر یہ پلان اتنا بڑا اور خطرناک تھا کہ بھارت کو اس پر عمل کرنے کے ایک قابل اور با اعتماد پارٹنر کی ضرورت تھی جسے اسرائیل نے پورا کر دیا۔

منصوبہ تیار ہو گیا، عراق کی طرح پاکستان پر بھی ایک پریسیژن ائیر اسٹرائک کیا جائے گا اور اس حملے کا ٹارگٹ ہوگا کہوٹہ نیوکلیر فیسیلیٹی۔ مگر جانتے ہیں اس وقت پاکستانی نیوکلیر پروگرام کو ریسکیو کرنے کون آیا؟ تھری لیٹرز، گیس کریں! آئی ایس آئی؟ نہیں، سی آئی اے!

جی ہاں، سی آئی اے نے جنرل ضیا تک اس پلان کی ساری انفارمیشن لیک کر دی اور پھر پہلے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے 10 فروری 1984 کو اور پھر خود جنرل ضیا نے 27 فروری کو ایک میڈیا انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستان پہلے ہی ہتھیاروں کے درجے کا یورینیم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے، اگر کہوٹہ تباہ ہو بھی گیا تو پاکستان میں اس سے زیادہ پلانٹ بن سکتے ہیں۔

پھر کیا مرتا کیا نہ کرتا بھارت مذاکرات کی میز پر آ ہی گیا اور جنگ کے بجائے اپریل 1984 میں ٹریک 2 امن مذاکرات شروع ہو گئے۔ لیکن اس ڈی اسکیلیشن کی اڑ میں بھارت سیاچن گلیشیر پر خاموشی سے قبضہ کر لیا جسے پاکستان آج تک چھڑانے میں ناکام ہے۔

ٹھیک تین سال بعد، جنوری 1987 میں، جب بھارت نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں شروع کیں تو پاکستان میں ایک بار پھر خوف پیدا ہوا کہ کہیں ایکسر سائز براس ٹیکس، آپریشن براس ٹیکس کا پیش خیمہ تو نہیں۔ دونوں طرف پراسرار خاموشی تھی لیکن پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز جنرل ضیا کو بتا چکی تھیں کہ بھارت جنگی مشقیں نہیں جنگ کرنا چاہتا ہے۔

ٹینشنز بڑھتی جا رہی تھیں اور پھر اسی دوران اکیس فروری 1987 کو دلی ائیر پورٹ پر پاکستان ائیر فورس کا ایک جہاز لینڈ ہوا۔ اس میں جنرل ضیا اپنے ساتھیوں سمیت سوار تھے۔ وہ جے پور میں جاری پاکستان انڈیا کا ٹیسٹ میچ دیکھنے بھارت پہنچ چکے تھے۔ راجیو گاندھی حیران تھے یہ ہو کیا رہا ہے، انہیں سمجھ نہیں ارہا تھا کہ ضیا کی آمد پر کیسے ری ایکٹ کریں؟

قریبی ساتھیوں نے بڑی مشکل سے انہیں ضیا کو ائیر پورٹ رسیو کرنے کے لیے کن ونس کیا۔ خیر راجیو گاندھی ائیر پورٹ پہنچ گئے دونوں کے درمیان رسمی مصافحہ ہوا اور پھر اسی مصافحے کے دوران مسکراتے ہوئے ضیا نے راجیو گاندھی سے کہا:

مسٹر راجیو اگر آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ لیکن یاد رکھیں پھر جو ہوگا اس کے بعد لوگ ہلاکو اور چنگیز خان کو بھول جائیں گے اور ضیالحق اور راجیو گاندھی کا نام یاد رکھیں گے۔ اب ہم آپ سے روایتی جنگ نہیں لڑیں گے۔ اور میں ایک بات جانتا ہوں کہ اس نیوکلیر وار سے پاکستان تو تباہ ہوجائے گا لیکن مسلمان باقی رہیں گے، لیکن اگر انڈیا تباہ ہو گیا تو ہندو ازم اس سرزمین سے ختم ہو جائے گا۔

راجیو گاندھی مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دی جانے والی اس خطرناک دھمکی کو سن کر سکتے میں اگئے لیکن پھر اگلے ہی دن جنرل ضیا کو ڈنر پر بلوا لیا۔ ضیا کی دھمکی کام کر گئی!

ضیا اور جونیجو

چاہے آپ سپریم کورٹ سے کوئی بھی فیصلہ کروا لیں لیکن ایک عدالت آپ کے دل میں بھی ہوتی ہے جو کسی بھی غاصب اور غیر قانونی حکمران کو چین سے سونے نہیں دیتی۔ یہی حال ضیا کا بھی تھا۔ وہ مسلسل اپنے اقتدار کو قانونی کپڑے پہنانے کی کوششوں میں مصروف تھے اور پھر انہیں اپنے روحانی والد ایوب خان کا آزمودہ فارمولا یاد آ گیا، ’’ریفرینڈم‘‘۔

ضیاء الحق کا ریفرینڈم

عام انتخابات سے دو مہینے پہلے دسمبر 1984 میں ضیا نے خود کو پاکستانی عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ لیکن افغانستان میں روس کو ناکوں چنے چبوانے والا جرنیل، اپنے ملک کی عوام سے کس قدر خوف زدہ تھا اس کا اندازہ آپ اس ریفرینڈم میں پاکستانیوں سے کیے گئے سوال سے لگائیں۔ بیلٹ پیپر پر سوال درج تھا:

کیا آپ صدر ضیا کی جانب سے ملک میں قران اور سنت کے مطابق اسلامی قوانین کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں؟

ضیا کی الیکشن کیمپین کا نعرہ تھا، ’’ووٹ فار اسلام، ووٹ فار ضیا‘‘ واہ کیا بات تھی ضیا کی! اور یوں وہ اگلے پانچ سال کے لیے بھی صدر منتخب ہو گئے۔

ویسے تو بلاشبہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن پاکستان میں یہ کام بہت جلدی جلدی ہوتا رہتا ہے۔ بھٹو نے ضیا کو کمزور سمجھ کو چیف بنایا، نقصان اٹھایا لیکن پھر پچاسی میں ضیا نے بھی بھٹو کی غلطی دہرا دی۔

فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد اب باری تھی ملک کا وزیر اعظم چننے کی۔ ضیا سمجھتے تھے کہ ایک سندھی وزیر اعظم منتخب کروانے سے ان کے دامن پر لگے بھٹو کے خون کے چھینٹے صاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کے سامنے ایک اور چھوٹی سی پرابلم بھی تھی اور وہ پرابلم تھی آئین۔

آئین کے تحت ملک کے تمام معاملات کا اختیار وزیر اعظم کے پاس تھا اور صدر کی حیثیت ایک رسمی سربراہ جیسی تھی۔ انہیں ایک ’’یس مین‘‘ کی ضرورت تھی اور اس کام کے لیے ان کے سامنے دو نام تھے۔ ایک الہی بخش سومرو اور دوسرا محمد خان جونیجو۔

الہی بخش سومرو ایک بیورو کریٹ تھے اور شروع سے ضیا سیٹ آپ کا حصہ بھی رہے تھے اس لیے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ضیا انہیں ہی منتخب کریں گے لیکن شاید ضیا نے سوچا کہ اقتدار میں رہ رہ کر کہیں سومرو صاحب زیادہ با اختیار نہ ہو گئے ہوں۔

ابھی ضیا اس کشمکش میں ہی تھے کہ پیر پگارا نے بھی اپنا وزن جونیجو کے پلڑے میں ڈال دیا۔ پھر کیا تھا جونیجو کا نام فائنل ہو گیا اور انہیں 20 مارچ شام آٹھ بجے میٹنگ کے لیے ایوان صدر بلوا لیا گیا۔ لیکن جونیجو نے اپنی پہلی ہی میٹنگ میں ضیا سے ایک ایسا سوال کیا جو ضیا کے لیے بالکل ان ایکسپیکٹڈ تھا۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ صدر ضیا تو پاور لیس تھے لیکن چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا کے پاس بہت اختیارات تھے۔ وہ وزیر اعظم کے کسی بھی فیصلے کو جب چاہے ویٹو کر سکتے تھے۔ جونیجو یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اسی لیے مبارک باد قبول کرنے کے بعد پہلا سوال اسی بارے میں کر دیا۔ انہوں نے پوچھا:

صدر صاحب مجھے منتخب کرنے کا شکریہ، لیکن وہ آپ مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں؟

بس اسی دن سے ضیا اور جونیجو کے درمیان شطرنج کا کھیل شروع ہو گیا۔

ضیا کو اگلا سرپرائز اس وقت ملا جب جونیجو نے اپنی کابینہ کے لیے یعقوب علی خان اور محبوب الحق کے علاوہ ضیا کی طرف سے بھیجے گئے تمام نام مسترد کر دئے۔ کچھ ہی دن بعد جونیجو نے پاک فوج کے سینیئر افیسرز کے خرچوں کو کم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کی بڑی بڑی اسٹاف کارز کو مقامی طور پر بننے والی سوزوکی کارز سے تبدیل کا اشارہ بھی دے دیا۔ یہی نہیں جونیجو نے آرمی افسران کی تھری اور فور اسٹار کے عہدوں پر ترقیوں میں بھی اپنے اختیارات کا استعمال شروع کر دیا۔ وہ اس وقت تک ضیا کے نامزد جرنیلوں کی ترقی پر دستخط نہیں کرتے جب تک ان کے ریکومنڈڈ جرنیلوں کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہیں کر لیا جاتا۔

حیران ہو رہے ہیں نا؟ سوچیں ضیا کتنا حیران اور پریشان ہوں گے۔ مگر بات یہیں نہیں رکی، جونیجو نے بالآخر ضیا کو مارشل لا اٹھانے پر راضی کر لیا۔ اس کا اعلان جونیجو نے خود یکم دسمبر انیس سو پچاسی کو مینارِ پاکستان پر ہونے والے ایک جلسے میں کیا۔

ضیا کا اپنا ’’چنتخب‘‘ وزیر اعظم انہیں پیچھے دھکیل رہا تھا اور بھٹو کی بیٹی لندن میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کر لیا اور 10 اپریل کو واشنگٹن، لندن اور دہران سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئیں۔ اور پھر بھٹو کی موت پر گھروں میں بیٹھے رہنے والی پاکستانی عوام نے اپنی محبت کا حق ادا کر دیا۔ لاکھوں لوگ ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ سے مینار پاکستان تک کا چند کلومیٹر کا سفر دس گھنٹوں میں مکمل ہوا۔

ضیا پاور میں تھے، ایوان صدر میں تھے لیکن پھر بھی اکیلے تھے۔ بھٹو کی بیٹی سڑک پر تھی لیکن لاکھوں جیالے اس کے ساتھ تھے۔

ضیا کی فرسٹریشن بڑھ رہی تھی اور پھر اٹھاسی کے شروع میں ہونے والے دو واقعات نے معاملات کو ’’پوائنٹ اف نو ریٹرن‘‘ پر پہنچا دیا۔

ضیا کے چیف اف اسٹاف جنرل رفاقت نے انہیں بتایا کہ جونیجو آئی بی کے ذریعے ایوان صدر کی سرویلنس کروارہے ہیں۔ ابھی ضیا اس معاملے پر اپنا ری ایکشن پلان ہی کر رہے تھے کہ دس اپریل انیس سو اٹھاسی کو اوجڑی کیمپ دھماکے ہو گئے۔

کراچی میں بیٹھے جونیجو نے فورا تحقیقات کا حکم دے دیا لیکن ساتھ ہی ضیا نے بھی اپنی ایک الگ انوسٹی گیشن کمیٹی بنا دی جس نے چند روز میں ہی اس سانحے کو ایک تکنیکی حادثہ قرار دے کر چیپٹر کلوز کر دیا۔ لیکن جونیجو نے اپنی تحقیقات جاری رکھیں اور پھر جب جونیجو کی تحقیقاتی ٹیم نے فوجی افسران کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیا تو ضیا کی بس ہو گئی۔ انہوں نے آئین کی شق اٹھاون ٹو بی استعمال کرتے ہوئے 19 مئی انیس سو اٹھاسی کو جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا۔

یہ فیصلہ اتنا اچانک اور ان پلانڈ تھا کہ وائس چیف اف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل تک سے مشورہ نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے اب ان کے سارے کور کمانڈرز اس قدر جونیر افسران پر مشتمل تھے جن کے ساتھ ضیا کا کوئی بھی کمیونی کیشن کرنا بے حد مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

ضیا اسلام اباد میں تو اکیلے تھے ہی، اب وہ پنڈی میں بھی تنہا ہوتے جا رہے تھے۔ یہ ضیا کا بنکر مومنٹ تھا۔ ضیا ایک اور وزیر اعظم کو غیر قانونی طور پر گھر بھیج چکے تھے لیکن اس بار ان کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیا اور 1989 میں اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن چوں کہ اس وقت تک نئے انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر کی حکومت اقتدار میں آ چکی تھی، اس لیے جونیجو حکومت کی بحالی کا حکم نہیں دیا گیا۔

ضیا اور کراچی

جماعت اسلامی کی کراچی لیڈرشپ اپنی مرکزی قیادت اور میاں طفیل کی ضیا سے دوستی سے خوش نہیں تھی۔ اسی لیے جہاں جماعت کی پنجاب لیڈرشپ ضیا کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی، وہیں کراچی کے رہنما کھلے عام ضیا پر تنقید کرتے نظر آتے تھے۔

ضیا نے جماعت کی کراچی قیادت کو فکس کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی لیے جب فروری پچاسی کے انتخابات ہوئے تو عمومی طور پر کراچی سے ’’لینڈ سلائڈ‘‘ کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اسلامی صرف دو سیٹیں ملیں۔ لیکن ضیا اس مسئلے کا کوئی پرمننٹ حل بھی نکالنا چاہتے تھے وہ کراچی کو ایک نئی قیادت دینا چاہتے تھے۔ اور نئی قیادت کے لیے ایک نئے نعرے کی ضرورت تھی۔ اور اس نئے نعرے کو پروان چڑھانے کے لیے خون کی ضرورت تھی۔ خون کی فراہمی شروع کر دی گئی۔

اس بارے میں آپ رفتار پر پہلے بھی بہت سی ڈاکومنٹریز دیکھ چکے ہیں اور چوں کہ اس ویڈیو کا موضوع ضیاء الحق ہیں اس لیے بس مختصراً یہ سمجھ لیجیے کہ بشری زیدی کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ اگلے تیس سالوں تک کراچی کو خون میں نہلاتا رہا۔ پوری کی پوری نسلیں تباہ ہو گئی۔ جو پڑھ لکھ گئے وہ شہر اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

جماعت سے کراچی چھیننے کی کوشش میں ضیا نے کراچی سے اس کا امن چھین لیا۔ پھر جب خون کی فراہمی بند ہوئی تو وہ متبادل قیادت بھی اپنے نعرے سمیت کہیں غائب ہو گئی۔

The Day It all came crashing down

22 اکتوبر 1988 کا دن تھا۔ مرزا اسلم بیگ بطور آرمی چیف جوائنٹ چیفس اف اسٹاف کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔ ہر کسی کا خیال تھا کہ اس اہم ترین اجلاس میں یقیناً ضیا پلین کریش انوسٹی گیشن ٹاپ اف ایجنڈا ہو گی۔ ہو کوئی جاننا چاہتا تھا کہ ملک کے آرمی چیف اور صدر کی موت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سی ون تھرٹی جیسا ہوائی جہاز کسی ٹیکنیکل یا مکینکل خرابی کی وجہ سے کریش کر جائے؟ لیکن جب تلاوت قران پاک کے بعد اجلاس شروع ہوا تو ڈسکشن آئٹم نمبر ون تھا:

Re employment of retired army officers in civilian departments

چھتیس سال ہو گئے لیکن آج تک ضیا کے پلین کریش کو لے کر ایک بھی سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ شاید کوشش بھی نہیں کی گئی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ انتہائی ذہین اور سمجھدار لوگوں پر مشتمل ہے اسی لیے ان میں سے کچھ اہم سوالات ہم آپ کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں کیا پتہ آپ جواب ڈھونڈ لیں۔ اگر جواب مل جائیں تو ضرور بتائیے گا۔

پہلا سوال: جب 19 اگست کی صبح کو ہی یہ پتہ چل چکا تھا کہ جہاز کے پرزوں سے دھماکا خیز مواد کی غیر معمولی مقدار ملی ہے تو پھر اس کی مزید تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں؟

دوسرا سوال: کیوں دھماکا خیز مواد کا پتہ لگانے والی انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ گروپ کیپٹن ظہیر زیدی کو کھڈے لائن لگا کر پہلے نیوی میں ڈیپیوٹ کیا گیا اور پھر اکانوے میں ریٹائر کر دیا گیا؟

تیسرا سوال: کریش میں امریکی شہریوں کی ہلاکت کے باوجود کیوں امریکی حکومت نے ایف بی آئی کو اس کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا؟

چوتھا سوال: کیوں بھارت میں امریکی سفیر جان گنتھر ڈین کو اس وقت پاگل قرار دے کر جبری طور پر ریٹائر کروا دیا گیا جب انہوں نے ضیا کی موت میں موساد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا؟

پانچواں سوال: کیوں چھتیس سال گزرنے کے باوجود یو ایس نیشنل آرکائیو کے وہ ڈھائی سو پیجز آج تک ڈی کلاسی فائی نہیں کیے جن میں اس پلین کریش سے متعلق معلومات موجود ہیں؟

چھٹا سوال: جب ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ’’انہیں‘‘ فوراً ملوث کر لیا جاتا ہے تو پھر کیوں اس پورے معاملے کی تحقیقات میں آئی ایس آئی یا ایم آئی کو شامل نہیں کیا گیا؟

ساتواں سوال: کیوں پانچ بار اقتدار میں آنے کے باوجود نواز شریف نے اپنے ہی بنائے ہوئے جسٹس شفیع الرحمان کمیشن کی رپورٹ آج تک شائع نہیں کروائی؟

شاید آنے والے کسی بھی حکومت کو ضیا کے جانے کا کوئی افسوس، کوئی دکھ، کوئی غم نہیں تھا۔ اسی لیے آج بھی سقوطِ ڈھاکا کے حمود الرحمان کمیشن کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن اس پلین کریش کی تحقیقات کی کوئی بات نہیں کرتا۔ ٹھیک کہتے ہیں:

Either you die a hero or live long enough to become a villain…

اس میں کوئی شک نہیں کہ ضیا اپنی ذاتی زندگی میں ایک انتہائی نمازی اور پرہیز گار انسان تھے۔ تاریخ کہ سنہرے لفظوں میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے ضیا ایک عاجزی اور انکساری والے کردار کی نمائش کرتے رہے۔ لیکن شاید حکم رانوں کے لیے اپنی ذات سے زیادہ ان کی پالیسیز نیک ہونا ضروری ہوتی ہیں۔ اسی لیے آج اکثر لوگ ضیا کو ایک ناکام حکمران قرار دیتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں ضیا ایک کامیاب حکمران تھے۔ کیوں؟ ابھی سمجھاتا ہوں!

دیکھیں ضیا کی ہر پالیسی کا مقصد ایک ایسی قوم پروان چڑھانا تھا جو ’’صُمٌّ بُکمٌ عُمْیٌ‘‘ہو یعنی کسی چیز پر نہ زیادہ سوچے نا سوال کرے۔ جو منجن اسے بیچا جائے وہ اسے ویسے ہی کنزیوم کرلے۔ کریٹیکل تھکنگ اور برداشت جیسی چیزیں اسے چھو کر نہ گزری ہوں۔ ایک ایسی قوم جو اپنے ماضی اور مستقبل کو لے کر ایسے خوابوں کی دنیا میں مگن رہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ایک ایسی قوم جہاں حمید گل اور زید حامد جیسے لوگ انٹیلکچولز اور اوپنین لیڈرز سمجھے جائیں۔ اور عاصمہ جہانگیر اور احمد فراز جیسے لوگ غدار۔

اب ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور خود بتائیے، ضیا کامیاب ہوا یا ناکام؟

شیئر

جواب لکھیں