پچھلے دنوں پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے سے مبینہ زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا جس نے طلبہ میں شدید غم و غصے کو جنم دیا۔ اگرچہ واقعے کی تصدیق یا تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں، مگر اس ایک خبر نے طلبہ کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوان نسل اتنی بڑی تعداد میں باہر کیوں نکل آئی؟

رفتار کے بانی فرحان ملک نے اس حساس موضوع پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج کسی ایک واقعے کا ردعمل نہیں بلکہ برسوں کی دبی ہوئی آواز اور ناانصافیوں کا نتیجہ ہے۔ ملک میں جنسی زیادتی کے کیسز سامنے آتے ہیں مگر اکثر اوقات ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ تعلیمی اداروں میں بچیوں کو ہراسانی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ان کی آوازیں دبائی جاتی ہیں اور انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ ان کی ڈگریاں روک لی جائیں گی۔

فرحان ملک نے ماضی کے چند اہم واقعات کی نشاندہی بھی کی، جیسے مختاراں مائی اور موٹر وے کیس۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ایک عمومی رویہ ہے کہ زیادتی کے واقعات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح نظام اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔

پوڈ کاسٹ کے دوران فرحان ملک نے طلبہ سیاست کے خاتمے کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ نظام ہمیشہ نوجوانوں کی طاقت سے خوفزدہ رہا ہے، کیونکہ طلبہ میں تبدیلی کا جذبہ اور مزاحمت کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ سیاست کو ختم کر کے انہیں طاقت کے مراکز سے دور رکھا گیا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اس احتجاج کی گہرائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کا یہ غصہ صرف ایک واقعے کا نہیں بلکہ معاشرتی ناانصافیوں، تعلیمی نظام کی ناکامی اور غیر محفوظ ماحول کے خلاف جمع ہونے والی مایوسی کا نتیجہ ہے۔

فرحان ملک کا کہنا تھا کہ یہ نظام اب مزید طاقت کے زور پر ان آوازوں کو نہیں دبا سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی نے آج کے نوجوان کو آگاہ کر دیا ہے، اور وہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر خود بھی اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ طلبہ سیاست میں کیوں ہو رہا ہے اور کس طرح طلبہ اپنی آواز کو بلند کر رہے ہیں، تو یہ پوڈکاسٹ ضرور دیکھیں۔

شیئر

جواب لکھیں