22 اکتوبر 1988
ضیا کی موت کے بعد جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا۔ ہر کسی کا خیال تھا کہ اس اہم ترین اجلاس میں ضیا پلین کریش انوسٹی گیشن ٹاپ آف ایجنڈا ہوگی۔
ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ ملک کے آرمی چیف اور صدر کی موت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ روس انڈیا یا پھر کوئی اور؟ اور بیرونی ہاتھ جس کا بھی ہو، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی بیرونی سازش کسی اندرونی مدد کے بغیر کامیاب ہو گئی؟
لیکن جب تلاوت قرآن پاک کے بعد اجلاس شروع ہوا تو ڈسکشن میں آئٹم نمبر ون تھا:
Re-employment of retired army officers in civilian departments
وہ دن اور آج کا دن، چھتیس سال ہو چکے، لیکن ضیا کے پلین کریش پر ایک بھی سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ شاید کوشش بھی نہیں کی گئی۔
پہلا سوال: جب 19 اگست کی صبح کو ہی یہ پتہ چل چکا تھا کہ جہاز کے پرزوں سے دھماکا خیز مواد کی غیر معمولی مقدار ملی ہے تو اس کی مزید تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں؟
دوسرا سوال: کیوں دھماکا خیز مواد کا پتہ لگانے والی انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ گروپ کیپٹن ظہیر زیدی کو کھڈے لائن لگا کر پہلے نیوی میں ڈیپیوٹ کیا گیا اور پھر سن اکانوے میں ریٹائر کر دیا گیا؟
تیسرا سوال: کریش میں امریکی شہریوں کی ہلاکت کے باوجود کیوں امریکی حکومت نے ایف بی آئی کو اس کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا؟
چوتھا سوال: کیوں بھارت میں امریکی سفیر John Gunther Dean کو اُس وقت پاگل قرار دے کر جبراً ریٹائر کر دیا گیا جب انہوں نے ضیا کی موت میں موساد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا؟
پانچواں سوال: کیوں چھتیس سال گزرنے کے باوجود یو ایس نیشنل آرکائیو کے وہ ڈھائی سو پیجز ڈی کلاسیفائی نہیں کیے گئے، جن میں اس پلین کریش سے متعلق معلومات موجود ہیں؟
چھٹا سوال: جب ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ’’انہیں‘‘ فوراً ملوث کر لیا جاتا ہے تو پھر کیوں اس پورے معاملے کی تحقیقات میں آئی ایس آئی یا ایم آئی کو شامل نہیں کیا گیا؟
ساتواں سوال: کیوں پانچ بار اقتدار میں آنے کے باوجود نواز شریف نے اپنے ہی بنائے ہوئے جسٹس شفیع الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ آج تک پبلش نہیں کروائی؟
آج ہم آپ کے ساتھ مل کر ان سب سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔
17 اگست 1988
صبح، الارم کی آواز کے ساتھ ہی انوار کی آنکھ کھل گئی۔ کچھ دیر تک تو وہ بستر پر لیٹا ہی رہا۔ پھر اچانک اسے کچھ یاد آیا، وہ اچھل پڑا، آج تو اُس نے اپنے والد کے ساتھ بہاولپور جانا تھا۔ ایک ایسی مشین دیکھنے کے لیے، جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوا والد کے کمرے میں پہنچا؟ لیکن والد جا چکے تھے۔
اب انوار کے چہرے پر پریشانی نہیں بلکہ غصہ تھا۔ آخر ابا اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ لیکن اس وقت اسے اندازہ نہیں تھا کہ آج اس کے والد اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ یہ انوار الحق کے والد جنرل محمد ضیاء الحق کی زندگی کا آخری دن تھا۔
سی 130 طیارے میں بیٹھے ضیاء الحق گہری سوچ میں ہیں۔ ان کے دل میں ایک انجانا سا خوف ہے۔ انٹیریئر منسٹر اسلم خٹک اور ڈی جی آئی ایس آئی کے الفاظ بار بار اُن کے دماغ کو پریشان کررہے ہیں:
مسٹر پریذیڈنٹ ابھی کچھ دن آپ ایئر ٹریول avoid کریں۔
لیکن بحیثیت صدر اور آرمی چیف ضیا کے لیے ایئر ٹریول چھوڑنا ناممکن تھا اور ویسے بھی ضیا کب تک امریکیوں کو ٹالتے رہتے؟ وہ پچھلے کی مہینوں سے پاکستان پر اپنے ایم ون ایبریم ٹینکس خریدنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ آرمڈ کور کے میجر جنرل محمود درانی کا بھی خیال تھا کہ یہ ٹینک پاکستان کے بہت کام آ سکتا ہے۔
بہرحال، ساڑھے 11 بجے یہ سی 130 بہاولپور ایئر پورٹ پر ٹچ ڈاؤن ہوا اور پھر وہاں سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سارے مہمان ٹامیوالی فائرنگ رینج روانہ ہو گئے۔ جہاں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل، ملٹری اتاشی بریگیڈیئر جنرل Herbert Wassom، پاکستان کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اختر عبد الرحمٰن، وائس چیف آف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ اور بہت سی اور اہم شخصیات پہلے سے موجود تھیں۔ یعنی سمجھیں پاکستان میں موجود سب سے ہائی پروفائل امریکی اور پاکستانی شخصیات سب ایک جگہ تھیں۔
امریکی سفیر کو تو بڑی امید تھی کہ آج انہیں اچھی خبر سننے کو ملے گی، لیکن چولستان کے تپتے صحرا میں اُن کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ انجن اسٹارٹ ہوتے ہی باریک ریت ٹینکوں کے فِلٹرز میں گھس گئی۔ ایک ٹینک ٹیلے پر چڑھا اور اچانک بند ہو گیا، پھر نشے میں دھت کسی انسان کی طرح پھسلتے پھسلتے نیچے آ گیا۔ یورپ اور امریکا میں دہشت پھیلانے والے یہ ٹینک پاکستان کے صحرا میں ڈولتے ہوئے نظر آئے۔
بہرحال، ٹینکوں کا مظاہرہ بالآخر ختم ہو گیا لیکن امریکی سفیر اور عہدیداروں کے چہروں پر شرمندگی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ جدید ترین امریکی ٹینکوں کی ساکھ صحرا کی خاک میں مل چکی تھی۔ ضیاء الحق کے چہرے پر بھی غصہ تھا۔ مگر انہیں امریکیوں سے زیادہ غصہ میجر جنرل محمود علی درّانی پر تھا، جنہوں نے اِس ٹینک ٹرائل کو ارینج کرنے لیے انہیں 16 کالز کی تھیں۔
دوپہر تقریباً ڈھائی بجے ضیاء الحق ٹامیوالی سے واپس بہاولپور آ گئے۔ ظہر کی نماز ادا کی، دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر ایئر پورٹ کی طرف چل پڑے، جہاں ان کا جہاز ’’پاک ون‘‘ تیار کھڑا تھا۔
صحرا میں ٹینکوں کے انجن کی گڑگڑاہٹ کے مقابلے میں بہاولپور ایئر پورٹ پر مکمل سکون تھا۔ 37 ڈگری سینٹی گریڈ میں بادل تو کیا پرندے بھی آسمان سے غائب تھے۔ تمام سیفٹی چیکس کیے گیے اور بالآخر جہاز کو گرین سگنل مل گیا۔ ایک کو چھوڑ کہ تمام اہم مہمان ضیا کے جہاز میں سوار ہو چکے تھے۔
’’جنرل! آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘ ضیا نے مرزا اسلم بیگ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا لیکن انہوں نے جواب دیا:
نہیں سر! میرا جہاز موجود ہے، اور ویسے بھی ہمارا ساتھ جانا سیکیورٹی پروٹوکول کے خلاف ہے، بہت شکریہ!
’’See you soon general‘‘ یہ کہہ کر ضیا جہاز میں داخل ہو گئے۔ اگلے چند منٹوں میں ساری کلئیرنسز ملنے کے بعد پاک ون بہاولپور رن وے سے ٹیک اف کر گیا۔
اس دن ارشد دریا کنارے ایک درخت کے سائے میں بیٹھا آرام کر رہا تھا۔ اس کی نظریں آسمان پر تھیں، جہاں ایک جہاز آہستہ آہستہ ہواؤں کو چیرتا ہوا اُس کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ارشد کو بھی ہواؤں میں اڑنے کا جنون تھا، اسی لیے وہ روز یہاں آ کر بیٹھ جاتا اور پھر گھنٹوں آسمان پر اڑتے جہازوں کو دیکھتا رہتا۔ لیکن آج جو جہاز اس کے سامنے سے گزر رہا تھا، اس کی پرواز کچھ مختلف تھی۔ کبھی وہ ایک دم اوپر کی طرف اٹھ جاتا اور پھر نیچے آنے لگتا، ارشد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ اور پھر وہ جہاز مسلسل نیچے آنے لگا۔
ارشد اٹھ کر کھڑا ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ جہاز ایک دھماکے کے ساتھ زمین سے ٹکرا گیا۔ ابھی ارشد یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے ہائی پروفائل کریش کا واحد گواہ بن چکا ہے۔
ادھر وائس چیف اف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ کا جہاز بھی فضا میں بلند ہو چکا تھا ابھی فلائٹ کو تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اچانک کاک پٹ سے آواز آئی:
Sir! this is urgent, we need you here right now!
جنرل اسلم بیگ حیران ہو گئے کہ ایسا کیا ہو گیا کہ انہیں کاک پٹ میں بلایا جا رہا ہے؟ وہ کیبن میں داخل ہوئے اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ دوسری طرف سے جنرل شمیم کی گھبرائی ہوئی اواز آئی:
سر! پریزیڈنٹ کا جہاز کریش ہو گیا ہے!
جنرل بیگ خاموش ہو گئے۔ پچھلے کئی مہینوں سے اسلم بیگ اور ضیا کے تعلقات بہت اچھے نہیں تھے۔ ضیا انہیں مسلسل اگنور کر کے سارے جرنیلوں سے ڈائریکٹ کمیونی کیٹ کرتے رہتے۔ جنرل اسلم کو لگتا تھا کہ ایسا کرنے سے اُن کی اتھارٹی انڈر مائن ہورہی ہے۔ لیکن یہ وقت گلے شکووں کا نہیں تھا۔
جنرل اسلم بیگ بتاتے ہیں کہ بہاولپور سے پنڈی تک کا سفر اُن کی زندگی کا مشکل ترین سفر تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ خود کریش سائٹ پر جا کر حالات کا جائزہ لیں لیکن جہاز پر ان کے ساتھ موجود جنرل جہانگیر کرامت اور حامد نیاز نے انہیں فوراً جی ایچ کیو پہنچنے کا مشورہ دیا۔
12 اگست انیس سو چوبیس کو کھلنے والی آنکھیں 17 اگست 1988 دوپہر 3 بج کر 51 منٹ پر ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔ پاکستان کو دھماکوں میں دھکیلنے والے ضیا کا اپنا انجام بھی ایک ہولناک دھماکے کی صورت میں ہو چکا تھا۔
ایک لمحے نے سب کچھ بدل دیا تھا! ملک کی باگ ڈور اب عملاً جنرل اسلم بیگ کے ہاتھوں میں تھی۔ اور ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اب ملک میں آمریت برقرار رہے گی یا جمہوریت واپس آئے گی؟
انیس اگست کو جی ایچ کیو میں مرزا اسلم بیگ کی قیادت میں ایک میٹنگ ہوئی۔ وہاں 6 اہم فیصلے کیے گئے :
- غلام اسحاق خان عبوری صد ر ہوں گے۔
- ضیا کابینہ برقرار رہے گی۔
- امن و امان یقینی بنایا جائے گا۔
- کسی بھی گڑ بڑ سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔
- ایک ایمرجنسی کونسل بھی بنائی جائے گی۔ اس میں تینوں افواج کے چیف، سی ایمز اور سینیئر وزیر مل کر فیصلے کریں گے۔
- سولہ نومبر 1988 کو ہر حال میں الیکشنز کروائے جائیں گے۔
20 اگست انیس سو اٹھاسی اور پھر ضیا کو لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں فیصل مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ضیا کا وجود تو 20 اگست 1988 کو منوں مٹی تلے دب گیا لیکن ان کی موت کو لے کر اٹھنے والے سوالات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
شروع کے دنوں میں اس کا ذمہ دار سوویت یونین اور انڈیا کو ٹھہرایا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کچھ دن پہلے ہی سوویت یونین نے افغانستان کو لے کر ایک غیر علانیہ دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے اپنا مؤقف نہیں بدلا تو سخت کارروائی ہوگی۔ پھر 15 اگست کو بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بھی کہا تھا:
اگر پاکستان نے خالصتانیوں کی مدد نہ روکی تو انڈیا پاکستان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوگا۔
اشارے ہر طرف تھے: را، سی آئی اے، کے جی بی، خاد، یہاں تک کہ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اس میں شیعہ ملوث ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا تھا؟ حقیقت کیا تھی؟ اس کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ضیا کی شہادت سے کچھ مہینے پہلے جانا پڑے گا۔
روس 9 سال سے افغانستان میں خاک چھان رہا تھا، لیکن اپنی ہر کوشش میں ناکام ہو گیا۔ تب امریکا کی طرف سے ایک امن معاہدہ ٹیبل کیا گیا، نام تھا: Geneva Accords۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو اس معاہدے پر دستخط کے حامی تھے لیکن ضیاء الحق شدید مخالف۔ پھر 14 اپریل 1988 کو اس معاہدے پر دستخط ہو گئے۔
اب ضیاء الحق شدید غصے میں تھے۔ انہوں نے امریکا کا غصہ جونیجو کو فارغ کر کے نکالنے کی کوشش کی لیکن اصل مسئلہ پاکستان نہیں افغانستان تھا جہاں وہ ایک پرو پاکستان اسلام پسند حکومت چاہتے تھے، اور یہ بات روس اور امریکا دونوں کو بالکل منظور نہیں تھی۔ امریکا، جو دس سالوں سے اُن کا ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ تھا، اب دشمن نمبر ون بن گیا تھا!
تحقیقات کا آغاز
محمد ضیاء الحق کی تدفین کے بعد طیارہ حادثے کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پاکستانی اور امریکی ایئر فورس کی ایک مشترکہ ٹیم بنائی گئی، جس کا کام تھا حادثے کی وجوہات کا پتہ لگانا۔ لیکن ایک منٹ۔ امریکی قانون کے مطابق بیرون ملک میں مارے جانے والے شہری کی موت کی تفشیش کرنا FBI کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایف بی آئی سے کوئی نہیں آیا۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ جب سفیر Oakley سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ تو انہوں نے کھا کہ اس وقت ایسا قانون نہیں تھا۔ یہ سن کر مجھے بھی حیرت ہوئی کیونکہ قانون تو 1984 میں پاس ہو گیا تھا۔
تحقیقات کے دوران امریکی ٹیم کی پوری کوشش تھی کہ واقعے کو حادثہ قرار دیا جائے لیکن اتنے شواہد جمع ہو چکے تھے کہ اب یہ شک یقین میں بدل رہا تھا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ قتل کا منصوبہ تھا۔
بہرحال، تحقیقات میں پتہ چلا کہ نہ جہاز کے انجن فیل ہوئے تھے، اور نہ ہی کوئی اور تکنیکی مسئلہ پیش آیا تھا۔ تو پھر یہ جہاز کیسے کریش ہوا؟
واقعے کے 30 گھنٹے کے اندر اندر گروپ کیپٹن ظہیر زیدی نے جائے وقوع سے تمام شواہد اکٹھے کر لیے تھے، جنہیں ٹیسٹنگ کے لیے PINSTECH اسلام آباد کی لیبارٹری بھیج دیا گیا۔ تحقیقات میں پتا چلا کہ حادثے کے نتیجے میں جہاز کے کارگو ڈور میں سوراخ ہو گیا تھا، جس میں فاسفورس اور Antimony جیسے دھماکہ خیز مواد کی باقیات ملی تھیں۔ اور صرف دروازے سے ہی نہیں، پائلٹ کی سیٹ کے قریب اور جہاز کے فرش سے بھی یہی کیمیکلز ملے۔ کریش سائٹ سے کچھ دُور ملنے والے آم کے چھلکوں اور گھٹلیوں کو بھی تجزیے کے لیے بھیجا گیا، تو پتا چلا کہ چھلکوں اور گھٹلیوں پر بھی Antimony، پوٹیشیئم اور کلورین جیسے کیمیکلز موجود ہیں۔
بورڈ آف انکوائری کی رپورٹ کے مطابق آم کی پیٹی میں موجود detonators کے پھٹنے سے جہاز میں ایک nerve gas ریلیز ہوئی، جس نے مسافروں اور پائلٹوں کو فوراً paralyze کر دیا
اس nerve ایجنٹ نے پائلٹوں کے اوسان خطا کر دیے ان کے ہاتھ جہاز کے کنٹرولز پر جم گئے۔ اور اسی وجہ سے جہاز رولر کوسٹر کی طرح اوپر نیچے ہونے لگا اور بالآخر زمین سے ٹکرا گیا۔
ویسے موساد پر بھی شک ظاہر کیا گیا۔ انڈیا میں امریکا کے سفیر John Gunther نے تو یہ تک کہہ دیا کہ جس طرح ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا۔ وہ اسرائیلی موساد کی کارروائی لگتی ہے۔ اُن کی اس بیان نے طوفان کھڑا کر دیا۔ John Gunther سے تمام سفارتی مراعات چھین لی گئی اور بعد میں انہیں mentally incompetent ڈکلیئر کر دیا گیا۔
ظہیر زیدی بھی یہ تمام شواہد اکٹھے کر کے اس لیے PINSTECH پہنچا سکے کیونکہ اس کے چیئرمین اُن کے رشتہ دار تھے۔ اس لیے ظہیر نے کسی کو بتائے بغیر یہ شواہد لیب ٹیسٹنگ کے لیے بھیجے۔ Joint investigation ٹیم کی لیب رپورٹ 16 اکتوبر 1988 کو صدر غلام اسحاق خان کے سپرد کی گئی لیکن 31 اکتوبر کو فیصلہ کیا گیا کہ یہ رپورٹ سامنے لانا مناسب نہیں۔
مڈ 90s میں زیدی نے فیصلہ کیا کہ ضیا کریش کی حقیقت ایک کتاب میں بے نقاب کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکی مصنف باب ووڈورڈ سے ملاقات بھی کی۔ لیکن وطن واپس پہنچنے سے پہلے ہی انٹیلی جینس ایجنسیوں کو سب پتہ چل چکا تھا۔ پاکستان آ کر انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
16 نومبر 1988
الیکشنز کے نتیجے میں بے نظیر وزیر اعظم بن گئیں اور ان سے ضیا کی موت کی تحقیقات کروانے کی امید شاید کسی کو بھی نہیں تھی۔ دی اکنامسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا:
I don’t regret the death of Zia
ہاں! عوام کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے فتح بندیال کمیشن بنایا گیا، جو ایک سی ایس پی آفیسر تھے۔ حالانکہ یہ معاملہ آئی ایس آئی یا ایم آئی کے ڈومین میں آتا تھا۔ بہرحال، اس کمیشن کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اور جب ڈیفنس منسٹر سرور چیمہ سے پوچھا گیا کہ ضیا کا کریش کا ذمہ دار کون ہے؟ تو انہوں نے بڑا عجیب جواب دیا تھا۔
نواز شریف کی آمد
چلیں، بے نظیر تو بے نظیر تھیں، انہیں بھلا ضیاء الحق کی موت میں کیا دلچسپی تھی؟ لیکن 1992 میں تو ضیا کے منہ بولے بیٹے کی حکومت آ گئی۔ جی ہاں نواز شریف کی بات کر رہا ہوں۔ پھر محمد ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق سے بھی نواز شریف کے بہترین تعلقات تھے
تب اعجاز کے دباؤ پر نواز شریف نے شفیع الرحمٰن کمیشن بنایا۔ کچھ سال بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر لی، جس میں اشارہ کیا گیا کہ اس واقعے میں کچھ فوجی عناصر ملوث تھے لیکن یہ رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں لائی گئی۔
ایک منٹ۔ جنرل درّانی کو تو نہیں بھولے نا؟ وہی جنہوں نے ضیا کو 16 کالز کی تھیں۔ کئی اشارے ان کی طرف بھی تھے، لیکن وہ تو ضیاء الحق کے ملٹری سیکریٹری تھے! ضیا کے جانے کے ساتھ ہی ان کے زوال کا آغاز ہونا تھا۔ پھر وہ کیوں ملوث ہوں گے؟
ایسے بہت سے سوالات لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں لیکن جواب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا
کہا جاتا ہے کہ درّانی کے عزائم فوج میں پروموشن سے کہیں بڑے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ضیا کے بعد انہیں فوجی ترقی نہیں ملی لیکن 2006 سے 2008 تک انہیں امریکہ میں پاکستانی سفیر ضرور بنا دیا گیا۔ اور تو اور آج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں انعامات ملتے جا رہے ہیں۔ کس بات کے؟ یہ ہمیں بھی نہیں پتہ۔
جب بھی کسی جہاز کو حادثہ پیش آتا ہے تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ موت کیسے ہوئی؟ یقیناً سی 130 کے مسافروں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہوگا۔ یہ کوئی عام لوگ تو نہیں تھے، پاکستان کے طاقتور ترین لوگ تھے لیکن CMH ملتان میں ڈاکٹروں کو پوسٹ مارٹم سے روک دیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ فوج کے ٹاپ رینکس سے حکم آیا تھا کہ کوئی پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا۔
لیکن ابھی اور سنیے۔ تھوڑی دیر پہلے آپ کو بتایا تھا کہ نواز شریف نے تحقیق کے لیے شفیع الرحمن کمیشن بنایا تھا۔ اس کمیشن نے ملتان جا کر ملبے پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جب وہاں پہنچے تو منظر دیکھ کر اُن کے ہوش اڑ گئے۔ آنے سے پہلے انہیں بتایا گیا تھا کہ تمام شواہد لیب میں موجود ہیں لیکن پہنچنے کے بعد پتہ چلا وہ تو سب غائب ہو چکے ہیں۔ یعنی یہاں دال میں کچھ کالا نہیں، بلکہ پوری دال ہی کالی تھی۔
جہاز کے ملبے کا غائب ہو جانا، ملٹری سیکیورٹی کو بائی پاس کر کے nerve ایجنٹ اسمگل کرنا، آرمی چیف کو ایک فضول سے ایونٹ میں بلانے کے لیے خوب اصرار کرنا اور کمیشن رپورٹس کو دبانا۔ یہ سب اس بات کی تصدیق کر رہا تھا کہ اس حادثے میں بھرپور انٹرنل involvement ہے۔
ضیاء الحق کی موت بلکہ قتل کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا یقینی جواب تو آج بھی کوئی نہیں دے سکتا، یا یوں کہہ لیں کہ کوئی دینا افورڈ نہیں کر سکتا۔
ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر فاطمہ جناح اور پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹو کے سرِ عام قتل تک، ہر واقعے کے بعد پوری کوشش کی گئی کہ ہر ثبوت مٹا دیا جائے اور عوام سے اُن کا سچ جاننے کا اختیار چھین لیا جائے۔ یہی ضیاء الحق کے ساتھ بھی ہوا۔
پاکستان کی تاریخ کا طاقتور ترین جرنیل کا اس طرح قتل ہوا کہ آج سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی اسے قتل نہیں کہتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی بات تو ہوتی ہے لیکن ضیا کے قتل کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا؟