20 ستمبر 1996
رات گئے ایک جھنڈے والی گاڑی کلفٹن کے مڈ ایسٹ اسپتال کے سامنے آکر رکی۔ ایک گبھرائی ہوئی خاتون کار سے اتریں اور ننگے پاوں دوڑتی ہوئی کوریڈور میں داخل ہو گئیں۔ کہاں ہے میرا بھائی، بتاؤ کہاں ہے۔ اُن کے رونے اور چلانے سے پورا اسپتال لرز رہا تھا۔ سب خاموش تھے اور کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔ ہاتھ میں قرآن لیے وہ دوڑتی ہوئی ایمرجنسی میں آئیں۔ آنسو بھری آنکھوں میں انہیں اپنے مرحوم والد اور چھوٹے بھائی کا چہرہ دکھائی دینے لگا۔ پپا کے بعد شاہنو بھی چلا گیا۔ اور اب میر۔ نہیں نہیں۔ وہ ان خیالوں میں گم دیوانہ وار بھاگتی ہوئی ایک اسٹریچر کے سامنے آ کر ٹہر گئیں۔ وقت بھی جیسے وہیں تھم گیا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے انہوں نے سفید چادر ہٹائی اور چہرہ دیکھتے ہی ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
اسٹریچر پر اُس بھٹو کی لاش تھی، جو بے نظیر دور میں مارا جا چکا تھا۔ جی ہاں وہی مرتضی بھٹو، جو اپنی بہن کی حکومت میں انہی کی پولیس کے ہاتھوں، بلاول ہاؤس سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر قتل ہو گئے۔ لیکن کیا یہ صرف ایک پولیس مقابلہ تھا، یا پھر ایک سوچی سمجھی سازش؟۔ جس میں آج تک قاتل کا کوئی پتہ نہیں۔ مسلم ورلڈ کی پاور فل خاتون، اپنے بھائی کے قتل میں اتنا بے بس کیوں دکھائی دیں، کہ طاقت اور اقتدار ہوتے ہوئے بھی خود کو مظلوم کہنے لگیں۔
ایسا کیوں ہے کہ بھٹو خاندان میں ذوالفقار سے لے کر شاہنواز تک اور مرتضی سے لے کر بے نظیر تک۔ قتل کی پراسرار کہانیاں، زندوں کو تو مسند اقتدار پر بھٹاتی ہیں، مگر خود گمشدہ داستانیں بن جاتی ہیں۔ آج تاریخ کے اوراق سے دھول جھاڑ کر ذرا تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرتضی بھٹو کو قتل کس نے کیا؟
پہلے میں آپ سے کچھ کرداروں کا تعارف کرا دوں جن کا ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ بہت غور سے پڑھیئے گا۔ یہ ہیں ذیشان کاظمی۔ کراچی میں آپریشن کلین اپ کے چیمپئن اور انکاونٹر اسپیشلسٹ۔ ایک دور میں ان کے خوف سے لڑکوں نے جینز پہننا چھوڑ دی تھی۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔ ِان کا نام سن کر بدمعاش بھی علاقہ بدل لیتے۔ یہ تھے تو ایک ایس ایچ او مگر آئی جی بھی انہیں سلوٹ کیا کرتا۔ کیوں کہ یہ اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے خاص آدمی تھے۔ اے ایس پی شاہد حیات۔ ان کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے بغیر آپریشن کلین اپ ادھورا تھا۔ یہ بھی نصیر اللہ بابر کے خاص آفیسر تھے۔
یہ ہیں ایس ایچ او کلفٹن، حق نواز سیال، بڑی بڑی مونچھوں والے کمزور دل آفیسر۔ ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ بظاہر خطرناک دکھنے والے سیال کا دل چڑیا سے بھی چھوٹا تھا۔ پھر یہ اس آپریشن میں کیوں شریک تھے اور پھر بعد میں کس طرح مردہ پائے گئے یہ سب بھی آپ کو بتائیں گے۔
ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل تو کسی تعارف کے محتاج ہیں نہیں۔ یہ اپنے دور میں کراچی پولیس کو عروج پہ لے گئے۔ ایس ایس پی ساوتھ واجد درانی۔ اُس دور میں ان کے اور شعیب سڈل کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اور یہ بات مرتضی مرڈر میں کھل کر سامنے آگئی۔
صدر آصف علی زرداری، ان سے کون واقف نہیں۔ اُس وقت اِن پر قتل کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام لگا۔ جیل بھی گئے، پھر ضمانت ملی اور ابھی چند سال پہلے ہی اس کیس سے بری بھی ہو گئے۔ اصل میں مرتضی کے قتل سے چند روز پہلے وہ واقعہ ہوا جس سے وہ اسپاٹ لائٹ میں آ گئے۔ کیا تھا وہ واقعہ، چلیں زرا 90s میں چلتے ہیں۔
زرداری بمقابلہ مرتضی
16 ستمبر 1996، مرتضی اپنے گارڈز کے ساتھ اسلام آباد سے کراچی کی فلائٹ میں بیٹھے تھے۔ لیکن ایک منٹ، یہ بتا دوں کہ ہم یہاں ان کی بنائی تنظیم الذوالفقار کی ہائی جیک اسٹوری نہیں سنا رہے، ویسے وہ کہانی آپ بعد میں رفتار پر پڑھ سکتے ہیں۔ اُس روز فلائٹ میں ایک ایسا شخص بھی تھا، جسے بیٹھا دیکھ کر مرتضی کے گارڈز کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ سارے راستے اسے بری طرح گھورتے رہے۔ ایئرپورٹ سے باہر آ کر ہر کوئی اپنی منزل کو چل دیا۔ مگر مرتضی اینڈ کمپنی کا تو کچھ اور ہی پلان تھا۔ اُن کی گاڑی اُسی شخص کے پیچھے چل پڑی۔ کار کچھ دور گئی تھی کہ شاہراہ فیصل پر مرتضی کی گاڑی نے اوورٹیک کر کے راستہ بلاک کر دیا۔ گارڈز اترے، گاڑی کو گھیرا اور اس شخص کو باہر نکال لیا۔ مرتضی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، مگر جب وہ باہر آیا تو اس میں پستول نہیں استرا تھا اور اگلے ہی لمحے اُس شخص کی آدھی مونچھ اڑا دی گئی۔ اس کے بعد مرتضی اینڈ کمپنی قہقہے لگاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے اور چلتے بنے۔
وہ کہتے ہیں نا کہ ’مچھ نہیں تے کچھ نہیں۔ پاکستان میں ویسے بھی موچھیں رعب اور مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ غصہ تو بنتا تھا۔ وہ صاحب گھر پہنچے اور فون اٹھا کر چیف منسٹر کو بے بھاؤ کی سنائیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کون ہے جو یوں سی ایم کی طبیعت صاف کر رہا ہے۔ تو جان لیجئے یہ مرتضی کے بہنوئی اور ڈی فیکٹو پرائم منسٹر، آصف علی زرداری تھے۔ سب گواہ ہیں کہ سالے بہنوئی کے درمیان کبھی نہیں بنی۔
مرتضی بھٹو ایک جلسہ میں کہتے ہیں:
اس کا باپ تھا ہاکو، اور وہ ہے ڈاکو۔
ایک جگہ کہتے ہیں:
یہ حکومت اب ہمارے پاس ہے، یہ حکومت نہیں، علی بابا اور 40 چوروں کی ہے۔
سینیئر صحافی عامر ضیاء کہتے ہیں:
مرتضی کی ایک اور عادت بھی تھی کہ جب وہ اپنا گاڑیوں کا کیولکیڈ لے کہ گھومتے تھے تو اس پہ نیلی بتی لگا لیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ شاہ اس زمانے میں سی ایم ہوتے تھے تو ان کے گھر کے سامنے سے سائرن بجاتے ہوئے لے کہ جاتے تھے۔ تو وہ پرووک کر رہے تھے۔
ہارورڈ اور آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ مرتضی خود کو بھٹو کا جانشین سجھتے تھے، مگر حقیقت میں اُن کی شہرت ایک ٹیررسٹ پرنس سے زیادہ نہیں تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ اور ان کے بھائی پریشر میں آ کر ملک چھوڑ گئے، مگر بے نظیر اور نصرت بھٹو گرفتاری کے بعد بھی ڈٹی رہیں اور پھر ایک وقت آیا کہ بے نظیر مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ ویسے بھی بھٹو بے نظیر کو نہرو کی بیٹی سے کہیں بہتر سمجھتے تھے اور وہ حقیقت میں کس طرح والد کی کاپی ثابت ہوئیں یہ آپ اس آرٹیکل میں پڑھ سکتے ہیں۔
بے نظیر نے سیاست اور مفاہمت کا راستہ اپنایا تو مرتضی نے مزاحمت کا۔ بہن پرچی پر یقین رکھتیں تو مرتضی برچھی پر۔ بھائی نے تو ملک نہ آنے اور سیاست سے دور رہنے کا مشورہ نہ مانا مگر ان کے بیٹے ذوالفقار جونیئر اور بیٹی فاطمہ بھٹو نے پھوپھو کی بات کو آج تک گرہ سے باندھا ہوا ہے۔ ویسے اگر مفاہمت، سیاست کی سب سے بڑی کوالیفیکیشن ہے تو یہاں آصف زرداری اپنی بیگم سے کہیں آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جو اپنے آبائی شہر نوابشاہ میں ضلعی کونسل کی سیٹ ہار کر ریئل اسٹیٹ کا کام شروع کر چکے تھے، بے نظیر سے شادی کے بعد ایم این اے اور پھر کنگ میکر بن گئے۔ یہی نہیں، وہ دو دفعہ صدر بننے والے ملک کے پہلے سیاستدان بھی ہیں۔ پرزن اور پاور کے درمیان مفاہت کے بادشاہ نے تین دہائیاں کیسے گزاریں، اس پر ہمارا یہ آرٹیکل ضرور پڑھیے گا۔
17 سال ایگزائل میں گزارنے کے بعد مرتضی نے دمشق میں بیٹھے بیٹھے دھماکہ کردیا۔ یہ اعلان تھا پاکستان میں پیپلز پارٹی شہید بھٹو بنا کر الیکشن لڑنے کا۔ واپسی کی پہلی کوشش ناکام ہوئی اور طیارے کا رخ موڑ دیا گیا۔ دوسری اٹیمپٹ میں انہیں ڈرامائی انداز میں جہاز سے اترتے ہی نصرت بھٹو کی آنکھوں کے سامنے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ نومبر 1993 کی بات ہے۔ نصرت بھٹو نے تو ایک پولیس اہلکار کو تھپڑ بھی جڑ دیا تھا، مگر وہ انہیں گرفتاری سے نہ بچا سکیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ کیوں رچایا گیا؟ کچھ تو کہتے ہیں کہ نواز شریف اور خفیہ اداروں نے پیپلز پارٹی کی پاپولیرٹی کم کرنے کے لیے مرتضی کی واپسی ممکن بنائی۔ بعض کے نزدیک نصرت بھٹو نے اپنی پرائم منسٹر بیٹی کو لاعلم رکھتے ہوئے فوج اور صدر کو مفاہمت کا خفیہ پیغام پہنچایا۔ اگر یہ باتیں سچ مان لی جائیں تھیں تو بھی یہ کوشش، ناکام منصوبوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ تھی۔
نصرت بھٹو بہن بھائی کی لڑائی میں خود کو نیوٹرل کہتی رہیں۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ ایرانی نژاد کرد خاتون نے ہمیشہ اولاد نرینہ کا ہی ساتھ دیا۔ انہوں نے تو اس مسئلے کا معصومانہ حل بھی بتا دیا تھا۔ بے نظیر پرائم منسٹر رہے اور مرتضی کو چیف منسٹر بنا دے۔ مگر بے نظیر کے لیے یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔
ہواؤں کا رخ بدل رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی قبلہ اب ستر کلفٹن نہیں، بلکہ دو کلومیٹر دور بلاول ہاؤس تھا۔ ویسے ستر کلفٹن کی بھی عجیب تاریخ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ایم آر ڈی تحریک اور پھر مرتضی کی آخری پریس کانفرنس تک، یہ مزاحمت کا گڑھ بنا رہا۔ مگر آج وہاں صرف خاموشی ہے۔ ضیاء دور میں بے نظیر نے والدہ کے ساتھ اسیری کے تین سال بھی یہیں گزارے تھے۔
خیر واپس چلتے ہیں۔ مرتضی دہشت گردی کے کیس میں جیل کے اندر تھے اور جیالے آپے سے باہر۔ اُدھر لاڑکانہ میں پولیس نے مرتضی کے حامیوں پر گولیاں برسا دیں۔ نصرت بھٹو طیش میں آکر اپنی ہی بیٹی پر برس پڑیں۔ اب وہ اُنھیں بے نظیر کی بجائے 'مسز زرداری' کہنے لگی تھیں۔ انہیں نواز شریف اور ضیاء الحق سے ملانے لگی تھیں۔ بلکہ آگے چل کر انہوں نے بے نظیر حکومت کو ضیاء سے بدتر قرار دیا۔ بے نظیرسے بھلا یہ سب کیسے ہضم ہوتا۔ انہوں نے اپنی پاورز استعمال کرتے ہوئے، نصرت بھٹو کو پارٹی چئیرمین شپ سے الگ کیا اور خود سیٹ سنبھال لی۔ مرتضی، بے نظیر پر اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان سے ڈیل کا الزام لگایا کرتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کی والدہ خود اپنے بیٹے کے لیے انہیں حلقوں سے رابطے میں رہیں۔ دباؤ بڑھنے پر چند ماہ بعد بے نظیر نے مرتضی کو رہا کر دیا۔ اب یہ کوئی ڈیل تھی یا پریشر۔ لیکن مرتضی کا رویہ جیل سے باہر آ کر مزید جارحانہ ہو گیا۔ انہی دنوں مرتضی کا ایک کارکن علی محمد ہانگرو جیل میں طبیعت بگڑنے سے چل بسا۔
اس بارے میں مرتضی بھٹو نے کہا تھا:
میں وہ عیسائی یا ہندو نہیں جسے تم تھپڑ مارو تو وہ دوسرا گال آگے کر دے۔ کوئی ہمیں تھپڑ مارے گا تو ہم ٹانگیں توڑ دیں گے اس کی۔
جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
جب یہ یہاں پہ آ گئے اور ورکنگ شروع ہوئی تو کچھ تنازعات پی پی پی اور ان کے مابین شروع ہوئے۔ مرتضی کو الیکشن میں جیت یقینی تھی انہوں نے منصوبہ جو بنایا تھا وہ کیپچر کرتے جا رہے تھے اور خطرہ یہ تھا کہ جب الیکشن ہو گا تو پی پی والے مرتضی کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور بی نظیر کو تنہا کر دیا جائے گا۔ جب یہ منصوبہ سامنے آیا تو فیصلہ ہوا کہ وہ اسٹرکچر پتا چلنا چاہیے ہے جو پی پی پی کے اندر ہے۔ ایسے میں انہوں نے یہ کیا کہ ہم اس کو ایکسپوز کسی طرح کریں۔ 95 میں پہلی بار اس وقت کی انٹیلیجنس کی طرف سے انفورمیشن آئی کے اس وقت کی جو وزیر اعظم ہیں بے نظیر بھٹو، ان کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور عمل اس پہ وہ بندا کرے گا جو بے نظیر کی سکیورٹی ٹیم میں ہو گا۔
علی سنارا
یہاں اینٹری ہوتی ہے علی سنارا کی۔ یہ ایک انتہائی دلیر مگر جذباتی جیالا تھا۔ بھٹو کا پیروکار تھا، بے نظیر کا سیکیورٹی آفیسر تھا۔ جب ضد پر آتا تو بھری میٹنگ میں سی ایم سندھ کو اڑا کر رکھ دیتا۔ ویسے سوچتا ہوں وزیر اعلی عبداللہ شاہ ہو یا قائم علی شاہ، سندھ میں بے چارے سی ایم کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے۔ سارے فیصلے تو قیادت نے کرنے ہوتے ہیں۔ تو مرتضی کی واپسی کے بعد علی سنارا اُن کا رائٹ ہینڈ بن گیا۔
اسی بنا پر اب اسے ہر حال میں گرفتار کرنا ضروری تھا۔ مرتضی کی پارہ صفت طبیعت کا تو سب ہی کو علم تھا۔ اسی لیے یہ کام بہت ہوشیاری سے ہونا تھا۔ جس کے لیے انتخاب ہوا ہماری اسٹوری کے پہلے کردار ذیشان کاظمی کا۔ کاظمی نے اپنے انفارمرز کے زریعے سونارا کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
جرنلسٹ مبشر فاروق مزید کہتے ہیں:
کئی مہینے تو یہ سرچنگ چلتی رہی۔ سرچنگ کے بعد پتا چلا کے وہ بندا تو ستر کلفٹن سے باہر نہیں آتا۔ ہاں کبھی کبھی، اس کا کوئی دوست یار چھٹی پہ جا رہا ہو، اس کا گھر خالی ہو، تو وہ اس سے چند دنوں کے لیے گھر لے لیتا ہے۔ تو وہ اپنی وائف کو بلا لیتا تھا اور اس کے ساتھ چند دن گزارتا تھا۔ رات تقریباً دو سوا دو کا ٹائم ہوگا۔ جب چھاپا ہوا تو جس فلیٹ کی اطلاع تھی پولیس غلط فہمی میں اس کے سامنے والے فلیٹ میں گھس گئی۔ شور سن کے علی سونارا نے فون ستر کلفٹن ملا دیا۔ مرتضی سے اس کی بات ہوئی اس نے مرتضی کو بتایا کہ مجھے شور شرابے کی آواز آئی ہے مجھے شک ہے کہ پولیس آ گئی ہے۔ اتنے میں پولیس نے اس کا دروازہ توڑ دیا۔
تھانے آ کہ کاظمی نے اپنے "اسٹائل" سے انٹروگیشن شروع کی۔ کھوکراپار تھانا سونارا کی چیخوں سے گونجتا رہا۔ مگر اس نے کچھ نہ اگلا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کاظمی کے ماتھے پہ فکر کی لکیریں گہری ہوتی جا رہی تھیں۔
مرتضی کا غصہ
اُدھر سونارا کا فون ڈس کنیکٹ ہوتے ہی مرتضی آپے سے باہر ہو گئے۔ فوراً اپنے پرانے ساتھی عاشق جتوئی کو فون ملایا اور حالات سے آگاہ کیا۔ وہ بھی وہیں آگئے۔ مرتضی نے گارڈز کو ساتھ لیا اور اپنی لال پجیرو میں بیٹھ کر سی ائی اے سنٹر پہنچے۔ تھانوں پر حملہ کر کے ساتھیوں کو چھڑانا تو مرتضی کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہاں بھی مرتضی کی ٹیم نے اندر گھستے ہی پولیس آفیسرز پر بندوقیں تان لیں۔ شاید تاریخ میں یہ پہلی بار تھا کہ آپریشن کلین اپ میں ظلم کے پہاڑ توڑنے والی سندھ پولیس، ایک ایم پی اے کی بندوق کے سامنے بے بس کھڑی تھی۔ پورے تھانے کی تلاشی لی گئی لیکن سنارا نہ ملا۔ جاتے جاتے مرتضی نے کہا کہ اگر سنارا کو کچھ ہوا تو تم میں سے ایک بھی نہیں بچے گا۔ اگلے روز مرتضی بھٹو کی 42 ویں سالگرہ تھی، جب کراچی میں سندھ اسمبلی اور جم خانہ کے نزدیک دو دھماکے ہوئے۔ نصیر اللہ بابر نے الزام مرتضی بھٹو پر لگایا کہ وہ سونارا کی گرفتاری کا غصہ شہریوں پہ اتار رہے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں:the last straw that broke the camel’s back۔ تو سمجھیں اس واقعے پر پولیس کی بس ہو گئی۔ ستر کلفٹن کے پاس چار بکتر بند گاڑیاں پارک ہو گئیں۔ مرتضی اپنے دوستوں کو پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وہ کسی بھی روز گرفتار ہو سکتے ہیں۔ بےنظیر کی طرف سے نصیر اللہ بابر کو آرڈرز تھے کہ مرتضی کے گارڈز کو ایسے وقت اریسٹ کیا جائے، جب مرتضی ساتھ نہ ہوں۔ پولیس اور خفیہ اداروں کو کو شک تھا کہ ان کے ساتھی انڈین اور افغان ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔اب یہاں آپ کو چین آف کمانڈ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ پرائم منسٹر کے آرڈرز انٹیریر منسٹر کو پہنچتے اور وہ یہ آرڈرز ڈی آئی جی کراچی اور پھر ضلع کے ایس ایس ایس پی تک پہنچاتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈی آئی جی شعیب سڈل اب بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر مرتضی کے گارڈز کو گرفتار کرنے کا حکم کس نے دیا؟۔
صحافی مبشر فاروق کہتے ہیں:
یہ نہیں تھا کہ کام ہو رہا ہے اور اوپری سطح تک نا پتا ہو۔ جنرل نصیر اللہ بابر تو وزیر داخلہ تھے۔ ایسا تھوڑی ہے کہ ان کے علم میں نہ ہو اور ان کی اجازت کے بغیر کچھ ہو رہا ہو۔
20 ستمبر 1996
آج ستر کلفٹن میں خوب رونق لگی تھی اور کیوں نہ لگتی۔ غنوہ بھٹو نے آج زولفقار جونیئر کی چھٹی سالگرہ منانی تھی۔ ویسے وہ پیدا تو یکم اگست کو ہوئے تھے مگر اُس روز کسی وجہ سے سیلیبریشن نہ ہوسکی تھی۔ مرتضی گھر سجانے میں مصروف تھے مگر شہر کے حالات دیکھتے ہوئے انہوں نے دو بجے صحافیوں کو بلا لیا۔ کم اون ڈیڈی آج تو چھوڑ دیں۔ فاطمہ نے ضد کی تو وہ مسکرا کر اپنی بیٹی کا گال تھپتھپاتے ہوئے زندگی کی آخری پریس کانفرس کرنے پہنچ گئے۔
پریس کانفرنس میں کہتے ہیں:
میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور مجھے گرفتار کریں۔ اگر انہیں بعد میں سیاسی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد شام پانچ بج کر چالیس منٹ پر مرتضی سرجانی میں ایک پروٹسٹ میٹنگ سے خطاب کے لیے نکل گئے۔ ان کے کانوائی میں چار گاڑیاں تھیں۔ 70 کلفٹن سے نکلتے ہی گاڑی شاہراہ ایران پر آئی۔ سڑک کے دونوں جانب پولیس نے بلاکیڈ لگایا ہوا تھا۔ پولیس کہتی ہے کہ انہیں مرتضی کے گارڈز کے لائیسنس چیک کرنے تھے۔ ایک سرے پر ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال، اے ایس پی شاہد حیات اور اے ایس پی رائے طاہر تھے۔ دوسرے سرے پر ایس ایچ او گارڈن شبیر قائم خانی اور ایس ایچ او نیپئر آغا جمیل اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔مرتضی کے قافلے کا رخ دو تلوار کی طرف تھا۔ پولیس نے روکنا چاہا مگر وہ انہیں ڈوج کر کے تیزی سے نکل گئے۔ ویسے ہی جیسے اکثر سڑک پر بس والے ٹریفک پولیس کو چکما دے کر نکل جاتے ہیں۔ سرجانی پہنچ کر انہوں نے حکومت کے خلاف ایک اور دھواں دار تقریر کر ڈالی۔
20 ستمبر 1996 کو میر مرتضیٰ بھٹو کی سرجانی ٹاؤن کراچی میں آخری تقریر میں کہتے ہیں:
تاریخ میں ہے کہ جو عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا ہے اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ایک بے غیرت پیپلز پارٹی مرد مومن زرداری اور فرضند گٹر عبداللہ شاہ سن لو۔ اگر تم میں جان ہے بیغیرتوں۔ آؤ مجھے گرفتار کرو، آؤ مجھے مارو۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مرتضی نے پولیس کو اس طرح بائی پاس کیا تھا جیسے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب واپسی پر انہیں روکنا پولیس کی انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ اس دوران ڈی آئی جی شعیب سڈل کے گھر ٹیلی فون بجنے لگتا ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ ان کا گھر مرتضی کے گھر کے بالکل سامنے تھا اور وہ کچھ دیر پہلے اپنے دوست کے ساتھ واک کر کے گھر آئے تھے۔ کال نصیر اللہ بابر کی تھی۔ انہوں نے کراچی بلاسٹ کی رپورٹ مانگی۔ سڈل نے فون رکھا اور واجد درانی کو ملایا۔ یہ وہ ہی واجد درانی تھے جو اس وقت پولیس ٹیم کو ہیڈ کر رہے تھے۔ سڈل نے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں ۔ تو انہوں نے بتایا کہ وہ ان کے گھر سے دو سو میٹر دور پولیس چوکی پر ہیں۔ شعیب سڈل نے حیران ہو کر پوچھا، آپ وہاں کیا کر رہے ہیں۔ درانی نے انہیں پوری بات سمجھائی۔ شعیب سڈل بولے درانی تم بہت بڑی غلطی کرنے جا رہے ہو، یہ اس طرح نہیں ہوگا۔ لیکن درانی بولے سر آپ بے فکر رہیں، مرتضی مجھے جانتے ہیں، میں سنبھال لوں گا۔ ویسے حیرت ہے کہ شعیب سڈل خطرہ بھانپ کر بھی اطمینان سے گھر بیٹھے رہے۔ خیر۔ درانی نے فون رکھا اور مرتضی کا انتظار ہونے لگا۔ درانی نزدیک ہی ایک چوکی میں بیٹھ کر دونوں ٹیمز کو سپروائز کر رہے تھے۔
ساڑھے آٹھ پونے نو بجے کے قریب مرتضی کا قافلہ دو تلوار سے 70 کلفٹن کی طرف آیا۔ پولیس کا دعوی تھا کہ ٹیم نے چار میں سے پہلی گاڑی کو جانے دیا۔ مگر پتہ چلا کہ مرتضی تو پچھلی گاڑی میں تھے۔ پولیس کے مطابق گاڑی رکتے ہی مرتضی بھٹو نے شیشہ نیچے کر کے پوچھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اتنی دیر میں گارڈز بھی اپنی گاڑیوں سے اتر کر ان کے نزدیک آگئے اور ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ اسی دوران پہلے فائر کی آواز گونجی۔ پھر کیا تھا، پولیس اور گارڈز کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی اور پورا کلفٹن لرزنے لگا۔
اس بارے میں جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
مرتضی کے کچھ گارڈز تھے جو کھلے میں بیٹھے تھے، تو انہوں نے کیے ہوائی فائر۔ تو ایسے موقع پہ جب پولیس نے کسی مسلح ٹیم کو روکا ہوا ہو اور وہ فائر مارے تو آپ کو پتا ہے کہ پھر۔ تو فائرنگ اس کے بعد شروع ہو گئی۔ تو فائرنگ کرنے والوں میں ایک ذیشان تھا اور دوسرا سولین انفارمر جو میں نے آپ کو بتایا۔ بیسکلی یہ چار گارڈز چند دن پہلے ایک گھنٹے کے لیے کڈنیپ ہوئے تھے اور پھر واپس آ گئے تھے۔ اب وہ کڈنیپنگ کے دوران کیا ہوا وہ نہیں بتانا چاہتا۔
ابھی یہ سب چل ہی رہا تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ جب فائرنگ رکی تو مرتضی شدید زخمی حالت میں تھے اور ان کے آٹھ ساتھی ہلاک ہو چکے تھے۔ اِدھر اُدھر بکھر جانے والی پولیس فورس اندھیری سڑک پر کھڑی گاڑیوں کے پاس پہنچی۔ شاہد حیات اور حق نواز سیال بھی زخمی تھے جب کہ سڑک پر گزرنے والا ایک ٹیکسی ڈرائیور گولی لگنے سے مر چکا تھا۔ رائے طاہر نے زخمی مرتضی بھٹو کو گاڑی سے باہر نکالا اور موبائل میں ڈال کر مڈایسٹ اسپتال روانہ ہوگئے۔ لیکن یہاں میں ایک بات ضرور کلیئر کرنا چاہوں گا۔ یہ تمام باتیں یا تو پولیس ورژن ہے یا پھر واقعے کے بعد پہنچنے والے کیمرا مین اور صحافیوں کی رپورٹس۔ کیونکہ اس وقت نہ تو سی سی ٹی وی کیمرے تھے اور نہ پولیس کے علاوہ کوئی آئی وٹنیس۔ بعد میں جب اس واقعے کا ٹربیونل بنا تو کیمرا مین نے بتایا کہ لاشیں اور زخمی کافی دیر تک وہیں تھے اور پولیس ان سے لاتعلق رہی۔
جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
میجر طارق رحیم کو مرتضی نے خود مرڈر کیا تھا جب تیارہ اغوا ہوا تھا پی آئی اے کا۔ کیونکہ میجر طارق رحیم ہیرو تھے پاکستانی قوم کے اور ان کی جو باڈی تھی وہ پچپن منٹ تڑپی تھی۔ تو اس میں یہ ہڈن پوائنٹ بھی تھا کہ مرتضی کو بھی وہ ہی تکلیف ملنی چاہیے، کہ یہ بھی پچپن منٹ بعد ہسپتال پہنچیں۔ تو ان کا کام یہ تھا کہ مرتضی کو تھوڑی دیر سڑک پہ پڑے رہنے دیا۔ تھوڑا سا بھنگڑا ڈالا اس کے گرد اس کے بعد پچپن منٹ تو ہسپتال پہنچانے میں لگے۔
یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ مرتضی چار گولیاں لگنے کے باوجود نہ صرف ہوش میں تھے بلکہ خود اٹھ کر اسٹریچر پر لیٹے تھے۔ اسپتال کے بستر پر بیٹھے ہوئے ان کی تصویر کئی دن اخباروں میں لگتی رہی۔ ایک گولی ان کی شہ رگ کے قریب لگی تھی جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکل کا سامنا تھا اور یہی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔ پولیس رپورٹس کے مطابق انہیں نو بج کر بیس منٹ پر ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔
سینئر صحافی سہیل دانش کہتے ہیں:
بنیادی نگلجنس یہ تھی کہ ان کو جب گولی لگ گئی تھی۔ وہاں پہ جس جگہ میں اندر لے کہ گئے ہیں جس ہسپتال کے اندر وہاں تو خون کو روکنے والی ادویات بھی نہیں تھی اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔ آپ وہاں کیوں نہیں لے گئے جناح ہسپتال، آغا خان ہسپتال۔
فوٹوگرافر عظیم عباس بتاتے ہیں:
میں جب اندر گیا تو جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ مرتضی اسٹریچر پہ لیٹا ہوا تھا۔ میں اندر گیا میں نے ایک ہی کلک کیا۔ وہ کچھ کہ رہے تھے اصل میں ان سے بولا نہیں جا رہا تھا ان کے گلے میں گولی لگی ہوئی تھی نا تو وہ کہ نہیں پا رہے تھے کیونکہ وہ پولیس وولیس آگے کھڑی تھی۔ پولیس والے کہنے ابھی نہیں تم جاو پھر وہ مجھے پکڑنے آنے لگے۔ تو پھر میں بھاگ کہ میڈیکل اسٹور میں چلا گیا۔ پھر میں واپس آفس آیا اور تصویر بنائی۔ بہر حال پھر وہ اخبار میںجب صبح تصویر پبلش ہوئی تو تقریباً تین بجے تک نا قومی اخبار چھپتا ہی رہا۔ اتنا چھپا کہ ہمارے مالک کے وارے نیارے ہوگئے۔ انہوں نے مجبوری میں جاکہ مشینیں روکیں کہ یار اس سے زیادہ کریں گے تو مشینیں خراب ہو جائیں گی۔
ایک گھنٹے بعد مرتضی کی اہلیہ غنوی اور بیٹی فاطمہ بڑی مشکل سے اسپتال پہنچے کیونکہ پولیس نے علاقہ سیل کر دیا تھا۔ مرتضی ہسپتال میں تقریباً تین گھنٹے موت سے جنگ لڑتے رہے۔ پونے بارہ بجے، بھٹو خاندان کا سپوت دم توڑ گیا۔ ان کی ڈیتھ کو بارا بج کر پچیس منٹ پر رپورٹ کیا گیا۔
سینیئر صحافی عامر ضیاء بتاتے ہیں:
پولیس کا کارڈن تھا باہر بہت زیادہ اور صحافیوں کو روکا ہوا تھا تو اتفاق سے میں نے گاڑی پارک کی اور دھکا دیتا ہوا اندر چلا گیا۔ وہ پتا نہیں مجھے ڈاکٹر سمجھے تو دے الاوڈ می ٹو گو۔ غنوا صاحبہ وہاں پہ موجود تھیں۔ انہوں نے بڑا قوت برداشت کا مظاہرہ کیا تھا وہاں پہ۔ پھر ایک توقعہ یہ کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم خود تشریف لائیں گی وہاں پہ۔ ہمیں مڈنائٹ کے بعد بتایا گیا کہ وہ نہیں آئیں گی۔ تو ساری بھیڈ چھٹ گئی اور کچ پولیس والے رہ گئے مڈ ایسٹ کے سامنے۔ ایک دم شور مچا کہ پرائم منسٹر آ گئی ہیں۔ تو انہوں نے کوشش کی کہ ہمیں ہٹا دیں۔ تو ہم جم گئے اپنی جگہ کہ نہیں ہٹ رہے۔ تو ہم نے دیکھا بے نظیر صاحبہ ننگے پاوں آئیں، ہاتھ میں قرآن تھا بہت رو رہی تھیں۔ تو پورا ایک ڈرامیٹک سین تھا۔ بےنظیر صاحبہ بہت رو رہی تھیں جب کہ غنوا صاحبہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر بتایا کہ پولیس کے صرف دو افسران حق نواز سیال اور شاہد حیات ٹانگ میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ حیرت ہے کہ نسبتاً کم زخمی پولیس آفیسرز کو تو لیاقت نیشنل اور آغا خان لے جایا گیا، مگر مرتضی بھٹو کو مڈایسٹ لے جانے پر اکتفا کیا گیا جہاں سہولتیں بھی ناکافی تھیں۔
سینئر صحافی دانش کہتے ہیں:
جب چیزوں پہ مٹی ڈالنی ہوتی ہے نہ تو پھر ایوڈنس کو مٹا دیا جاتا ہے۔ جب بے نظیر بھٹو کی اسیسنیشن ہوئی تو وہاں پہ ایک گھنٹے کے بعد وہ جگہ جہاں پہ خون بکھرا ہوا تھا، جہاں یہ سارا کچھ بمب بلاسٹ ہوئے تھے لوگ مرے تھے، وہ سڑک صاف کر دی گئی۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا، ہم جب پہنچے تو پانی پانی تھا سڑک کے اوپر۔
بھٹو کے جانشین تو دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا رازدار ابھی زندہ تھا۔ اور اب یہ راز بڑی اہمیت اختیار کر چکے تھے۔ سنارا یاد ہے نا؟ پولیس نے ہر حربہ آزما لیا تھا مگر کامیاب نہ ہوئے تھے۔ لیکن شاید مرتضی کی موت سارے حربوں پہ بھاری تھی۔
جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
جب یہ مرتضی والا واقعہ ہو گیا تو اس کے کوئی گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا بعد ذیشان کاظمی تھانے آ گئے۔ پہلے تو انہوں نے لاک کروایا کے لاک کردو اور کوئی پرندہ بھی پر نہ مارے۔ پھر یہ ایس ایچ او کے کمرے میں آ کہ بیٹھ گئے۔ روزنامچہ کو بلایا۔ پھر ذیشان نے وہ روزنامچہ کھولا اور دو صفحے پھاڑ دیے۔ اور روزنامچہ سے بولا کہ یہ اینٹری بعد میں کرنا پہلے یہ اینٹری کر لو کہ میں انسپکٹر ذیشان کاظمی جو ہے بغرض تفتیش تھانے میں فلاں وقت سے فلاں وقت تک موجود ہوں۔ یہ چیز نہیں آنی چاہیے ہے کہ میں غیر حاضر تھا۔ علی سونارا سے جب پوچھا تو وہ اس ہی طریقے سے بیھیو کر رہا تھا۔ تو ذیشان نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ پی ٹی وی لگاتے ہیں نا۔ بتایا کہ بھئی مرتضی تو مرگیا ہے۔ وہ تو یقین ہی نہیں کر رہا تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ ذیشان نے کہا سی این این دکھاؤ ۔ سی این این جب لگا اور سی این این اس نے دیکھا تو اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ وی کی شیپ میں ایسے اٹھائے اور رکھ کہ سینے پہ مارے۔ پھر وہ دھاڑیں مار مار کہ روتا رہا۔ تو تقریباً پندرا بیس منٹ تک وہ روتا رہا، ذیشان نے سب کو اشارہ کیا کہ کوئی بات نہ کرے۔ پھر جب اس کا رونا کم ہوا تو اس نے سر اٹھا کہ کہا کہ صاحب اب جب میرا باپ مر گیا ہے تو میں چھپا کہ کیا کروں گا۔ تم پوچھو جو پوچھنا ہے۔ تو پھر تو یہ کیفیت تھی کہ انکشافات دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور بیچ بیچ میں ذیشان کاظمی جو ہے چیخیں بھی مارتا تھا کیونکہ اس میں بعض ایسی باتیں آتی تھیں جو پی پی پی کہ متعلق تھیں۔ تو وہ کہتا تھا یہ ہضف کرو میری نوکری کا سوال ہے۔ تو ہم کہتے تھے بھائی ہضف کر دیں گے لکھنے تو دو۔ اور رات تک ایسا تھا کہ پی پی پی کہ اندر جو را کنکشن تھا اور جو انڈیا سے ٹریننگ لے کہ لوگ آئے تھے وہ سب بتا دیے۔ پولیس کے اندر بہت تھے ابھی بھی کئی ایسے اہلکار ہیں جو الزولفقار کے لیے کام کرتے تھے اور جنہوں نے انڈین آرمی کے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت حاصل کی ہے۔ وہ لوگ ایکسائز میں بھی ہیں وہ کسٹم میں بھی تھے۔
سونارا کے منہ سے نکلے الفاظ سونے کی طرح قیمتی تھے۔ اصولاً یہ انٹروگیشن کئی مہینوں تک جاری رہتی مگر اس دن کے بعد سے کاظمی کے سر پر موت منڈلانے لگی تھی۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ فیروز آباد کے علاقے سے ایک بوری بند لاش برآمد ہوئی جو انکاونٹر اسپیشلسٹ ذیشان کاظمی کی تھی۔ یوں سونارا کی انویسٹیگیشن کو بھی بریک لگ گئے۔ ویسے یہ ساری رپورٹس انٹیریر منسٹر نصیر اللہ بابر کو مل چکی تھیں۔ ایجنسیوں نے فیصلہ کرلیا کہ پیپلز پارٹی میں موجود باغیوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے گا۔ جن کے نام سونارا نے لیے انہیں راستے سے ہٹایا جائے گا۔ لیکن پھر پلین بدل گیا۔
جرنلسٹ مبشر فاروق کہتے ہیں:
اس وقت جو اسٹیبلشمنٹ تھی اور پی پی پی کہ اندر بھی ایک لابی تھی تو انہوں نے یہ ساری چیزیں دیکھیں اور پھر یہ فیصلہ ہوا کہ اگر یہ چیزیں ہوتی ہیں تو پی پی پی بدنام ہو جائے گی۔ ان کی مقبولیت میں فرق پڑے گا۔ پھر اس کا فائدہ کس کو ہو گا؟ اس کا فائدہ تو ایم کیو ایم کو ہوگا۔ تو ایسے یہ سندھ کی پہلی بڑی اور پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن جاتی۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ اگلے جو الیکشن ہوں گے اس میں جو وزیر اعظم آئے گا، وہ تو الطاف حسین کا نمائندہ ہو گا۔ تو یہ تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بڑی خطرناک بات تھی۔
اب تو آئے دن آوازیں آتی ہیں کہ خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل ہو گئی۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا کہ ڈیلیں سیاستدانوں سے نہیں بلکہ دہشت گردوں سے کی جاتی تھیں۔
جرنلسٹ مبشر فاروق مزید کہتے ہیں:
ان کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی۔ اس ڈیل میں یہ ہوا کہ انہیں کچھ مشن دیے جائیں گے اور وہ پاکستان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہ کریں تو ان کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں ہو گی۔ تو اس نقصان کہ نتیجے میں کیونکہ یہ سارے انڈر ورلڈ کے سیٹ اپ میں آ چکے تھے اور پھر بہت گند کیا انہوں نے۔ پھر اس گند کو صاف کرنے کے لیے ایک گندے آدمی کو بلانا پڑا شعیب خان کو۔ جس نے پھر بہت قتل و غارت کی کراچی میں۔
پردہ اٹھا لیا گیا
یہ انوکھا واقعہ تھا جس کی تین ایف آئی آر درج کی گئیں۔ پہلی ایس ایچ او سیال نے۔ دوسری مرتضی کے ساتھی نور محمد نے اور تیسری غنوی بھٹو نے۔ واقع کے بعد سیال ایک روز گھبرائے ہوئے شعیب سڈل کے پاس آئے اور کہنے لگے، سر اب وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ اور ہوا بھی یہی۔ مرتضی مرڈر کے ٹھیک ایک ہفتے بعد، سخت ترین سیکیورٹی کے باوجود وہ اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ ان کی کنپٹی پر انہی کی پستول کی گولی کا نشان تھا۔ کسی نے اسے خود کشی کہا تو کسی نے پراسرار قتل۔ ایک اور اہم آئی وٹنس مارا گیا۔ بے نظیر نے اپنے بھائی کے قتل کی انوسٹگیشن کے لیے اسکاٹلینڈ یارڈ کی ایک ایکس ٹیم کو بلایا۔ ٹیم آنے کے چار روز بعد فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کو ڈزولو کر دیا۔ لا اینڈ آرڈر کی خرابی اور ان کے بھائی کے قتل کو برطرفی کی بنیاد بنایا گیا۔ انویسٹیگیٹرز نے سوال اٹھایا کہ کرائم سین کیوں صاف کر دیا گیا؟ سو سے زائد گولیاں چلیں مگر سارے خول کہاں غائب ہو گئے؟ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ واقعہ پولیس کی سازش ہے اور جائے واردات پہ ایک اور شوٹر تھا جس کا کوئی ذکر نہیں۔ وہ کون تھا؟ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
سینیئر صحافی عامر ضیاء کہتے ہیں:
مجھے یاد ہے بے نظیر صاحبہ نے ایک بڑا مشہور جملہ کہا تھا کہ kill a bhutto to get a bhutto..
مرتضی قتل کیس کی تفتیش کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بھی بنا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد اس کو ہیڈ کر رہے تھے جو 90s میں اپنے دبنگ فیصلوں کے لیے مشہور تھے۔
کمیشن نے ثبوت نہ ہونے پر ہر پولیس آفیسر کو بری کر دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر قتل کی ہدایات آئی ہیں تو وہ بہت اوپر سے آئی ہیں۔ مگر اوپر کون تھا؟ یہ کبھی پتہ نہ چل سکا۔ جسٹس ناصر بھی ناکام ہو گئے۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب Songs of Blood and Sword میں لکھا ہے کہ آصف علی زرداری کسی حد تک ان کے والد کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ غنویٰ بھٹو کے خیال میں صرف بے نظیر ہی اس آپریشن کی اجازت دے سکتی تھیں۔
آصف زرداری ہر پیشی پر یہی کہتے رہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔ جب وہ صدر بنے تو سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ اس سے اگلے سال واجد درانی اور پولیس مقابلے میں شریک تمام افسران بری کر دیے گئے۔ بلکہ سسپکٹڈ افسروں کا تو گریڈ بمپ کردیا گیا۔ وہ بھی بری ہونے سے پہلے، یہ اوارڈ بھلا کیوں ملا؟ سوچنے والی بات ہے۔
اپنی آٹو بائیوگرافی ڈاٹر آف دی ایسٹ میں بے نظیر اپنے بھائی کے قتل کا الزام اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر پر لگاتی ہیں۔ بے نظیر لکھتی ہیں کہ ان کے بھائی کی موت ایک ایسے وقت ہوئی جب اُن دونوں کی صلح ہو چکی تھی۔ کیا یہی صلح مرتضی کے قتل کی وجہ بنی؟ اس کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے۔ لیکن کارکن آج بھی یہی نعرہ لگاتے ہیں، ’جو قتل ہوا وہ بھٹو ہے۔‘