ابھی پاکستان بننے میں 27 سال باقی ہیں۔ لاہور سے تیس میل دُور امرتسر کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کا ایک کاشت کار خاندان گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر چہرے سے پریشانی صاف ظاہر ہے۔ گاؤں کے سیدھے سادے لوگ اِس دکھی خاندان کو حوصلہ دے رہے ہیں۔ مگر سب کے ہونٹوں پر ایک سوال بھی ہے ’’میاں صاحب! اے تے دسّو، اونٹھ کُھو ویچ کدھاں گر گیا جی؟‘‘ یعنی یہ بتائیں اونٹ کنویں میں کیسے گرا؟ یہ سن کر میاں صاحب کے افسردہ چہرے پر دُکھ اور نمایاں ہو جاتا۔ یہ تھے میاں محمد بخش جن کا اونٹ کنویں سے پانی نکالنے میں بھی کام آتا تھا اور ہل چلانے میں بھی۔ یعنی گھر سے کھیتی باڑی تک، ہر جگہ مدد گار تھا۔ اس کی موت کا مطلب تھا مالی پریشانیوں میں اور اضافہ۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

یہ چھوٹا سا واقعہ اس غریب خاندان کی قسمت بدلنے والا تھا۔ وہ بھی ایسی کہ اس خاندان کا ایک سپوت آگے چل کر نئی مملکت کا وزیر اعظم بنا۔

2017 میں بی بی سی کے نمائندے سے گفتگو میں جاتی امرا کے سر پنچ دلباغ سنگھ نے اونٹ مرنے کے واقعے کی تصدیق کی۔ میاں صاحب کے بڑے بیٹے تھے برکت علی، جو سب سے زیادہ پریشان تھے۔ نیا جانور خریدنے کے پیسے نہیں، اس لیے ایک فیصلہ کیا۔

اننت ناگ، کشمیر سے جاتی امرا آنے والے اس کشمیری خاندان کی نئی نسل اب ایک اور ہجرت کے لیے تیار تھی اور اس مرتبہ ان کی منزل تھی زندہ دلوں کا شہر: لاہور!

برکت علی اپنے بھائی محمد شفیع کے ساتھ لاہور پہنچے۔ جاتی امرا سے لاہور پہنچنے والے بھائیوں کا انتظار لوہے کی بھٹیاں کر رہی تھیں۔ مزدوری طے ہوتی ہے، ایک آنہ روزانہ۔ دن ہفتوں میں بدلتے رہے، وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا یہاں تک کہ 1947 کا وہ دن آ پہنچا، جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک بنا، پاکستان۔

لوہے کے کاروبار پر ہندوؤں کا قبضہ ختم ہو چکا تھا تب برکت علی اپنے چھوٹے بھائی محمد شریف کے ساتھ مل کر ایک بھٹی خرید لیتے ہیں، پھر دوسری، تیسری اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ یہ وہی محمد شریف ہیں، جن کے بیٹے کو آج دنیا میاں محمد نواز شریف کے نام سے جانتی ہے۔

پھر وہ وقت آیا کہ لاہور کے کاروباری حلقوں میں یہ بات عام ہو گئی کہ میاں شریف مٹی پر ہاتھ رکھتے ہیں تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے۔ لوہے کی یہ بھٹیاں بڑھتی رہی اور بالآخر اتفاق فاؤنڈریز میں بدل گئیں۔

میاں محمد شریف نے سوچا بھی نہیں تھا کہ لوہا بنانے والا خاندان سیاسی میدان میں بھی اپنا لوہا منوانے والا ہے اور اس کا سبب بنے گا ان کا پہلا بیٹا، جو دوسرے بچوں کے مقابلے میں ذرا سیدھا سادہ تھا بلکہ اس کا صابن تو خاصا سِلو تھا۔ جی ہاں، نواز شریف!

انیس سو اننچاس

قوم 25 دسمبر کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش منا رہی ہے، عین اُسی دن میاں شریف کے ہاں پہلے لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے، نام رکھا جاتا ہے، محمد نواز۔ خُوب صُورت نین نقش، گوری چٹّی رنگت، دیکھنے والوں کو یہ بچہ بہت بھولا بھالا اور معصوم لگتا۔

ایک بار تو یہی بھولی صورت کالج میں نواز کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بن گئی، یہاں تک کہ اُنہیں استاد کی ڈانٹ کھانی پڑ گئی۔ یہ واقعہ آپ کو آگے چل کر سُنائیں گے، مگر ابھی بات کرتے ہیں نواز شریف کے بچپن کی، جب وہ نوّے ریلوے روڈ لاہور یعنی گوال منڈی کے علاقے میں رہا کرتے تھے اور اندرونِ لاہور کے رنگوں میں رنگ چکے تھے

کہنے کو نواز نام کا یہ بچّہ منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوا، لیکن نوالہ سونے کا سہی، مگر اِس پر نظر شیر کی ہوتی ہے اور یہ شیر کوئی اور نہیں، میاں محمد شریف خود تھے۔ وہ بیٹے کے تمام تر لاڈ اٹھاتے، لیکن نظر بھی بڑی سخت رکھتے۔ خود نماز روزے کے پابند تھے، اسی لیے اپنے بچّے کی پرورش بھی دینی ماحول میں کرنے کی کوشش کی۔ میاں شریف انہیں ایک بگڑا امیر زادہ بچہ ہر گز نہیں بنتے دیکھنا چاہتے تھے۔

پہلے تو نواز کو نورانی قاعدہ اور ناظرہ قرآن گھر میں پڑھایا جانے لگا۔ ابا جی، نمازِ جمعہ کے لیے خصوصی طور پر چوک دال گراں کی جامع مسجد جاتے تو نواز کو ساتھ لے جاتے بلکہ بعض اوقات تو جمعے کے دن نواز اُسی مسجد میں نعتیں بھی پڑھنے لگے۔ مسجد کے پیش امام مفتی محمد حسین نعیمی کا میاں محمد شریف بڑا احترام کرتے۔ نواز شریف بھی اپنے والد کی طرح مفتی صاحب کی دل سے عزت کرتے۔

کھانوں کا شوق

ننھے نواز پر کچھ پابندیاں ضرور تھیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُنہیں کُھل کر بچپن جینے کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔ نواز شریف، عام بچّوں کی طرح دوست، یاروں کے ساتھ کھیلتے کودتے، موسیقی سنتے اور موقع ملنے پر چپکے چپکے فلمیں بھی دیکھ لیتے اور دوستوں کے ساتھ مَن پسند کھانے بھی کھاتے، لذیذ کھانوں کا یہ شوق تو آج پچھتر سال بعد بھی برقرار ہے۔

ایک معروف صحافی، جنہوں نے نواز شریف کو قریب سے دیکھا، کہتے ہیں کہ نواز شریف سیاسی معاملات میں تو سمجھوتا کر سکتے ہیں لیکن کھانوں پر ہرگز نہیں۔ ان کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور کا ایک قصہ بڑا مشہور ہے۔ ایک بار نواز شریف کو بریفنگ کے لیے جی ایچ کیو بلایا گیا، اس موقع پر سینڈوچز اور چائے دی گئی۔ بریفنگ چلتی رہی اور ساتھ ہی میاں صاحب سینڈوچز بھی کھاتے رہے۔ بریفنگ ختم ہوئی تو نواز شریف بولے، جی ایچ کیو کے سینڈوچز بڑے شان دار ہیں۔ ایسے سینڈوچز وزیر اعظم ہاؤس میں کیوں نہیں بنتے؟ میاں نواز شریف کا اتنا کہنا تھا کہ وہاں موجود لوگوں کو چُپ سی لگ گئی۔

صادق کی حلوہ پوری تو نواز شریف کو اتنی پسند تھی کہ اُن کی خصوصی ہدایت پر لاہور سے اسلام آباد منگوائی جاتی۔ لکشمی چوک کا ہریسہ اور گول گپے تو نواز شریف اُس وقت بھی کھاتے تھے، جب وہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے۔ پھر پائے کے اتنے شوقین کہ جب اسلام آباد سے لاہور آتے تو گوال منڈی کے پائے والے کو گھر پر بلواتے اور پھر گھرکے لان میں پورا خاندان مل کر ناشتا کرتا۔ ہریسہ نواز شریف کی پسندیدہ ڈش تھی اور اب تک ہے بھی، لیکن بقول ایک سینیئر صحافی، نواز شریف کہتے ہیں: ’’ہریسے کا مزہ تو ٹھنڈے موسم اور ڈرائی فروٹس کے ساتھ ہی آتا ہے‘‘۔

کھانے کے معاملے میں تو وہ نہ موقع دیکھتے، نہ محل۔ ترکی میں پاکستان کے سفیر تھے انعام الحق، انھوں نے بتایا کہ 99 میں وہاں ایک خوفناک زلزلہ آیا اور نواز شریف نے بطور وزیر اعظم ترکی کا دورہ کیا۔ یہاں ایک جگہ انھوں نے استانبول کے کباب کھانے کی فرمائش کر دی۔ انہیں سمجھایا گیا کہ یہاں غم کا ماحول ہے، اچھا نہیں لگے گا، لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر اگلے دن ان کی پسند کے کباب جہاز میں رکھوا دیے گئے۔ یہ کباب بنانے والا تو انہیں اتنا پسند آیا کہ بعد میں ایک ہفتے کے لیے اسے پاکستان میں سرکاری مہمان بھی بنایا۔

کرکٹ کا جنون

نوجوانی میں نواز شریف کو کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ بیٹ بال ہر وقت اُن کی گاڑی میں رکھا رہتا۔ یہی شوق اُنہیں فرسٹ کلاس کرکٹ تک لے گیا، بلکہ ایک بار تو قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی بھی کر ڈالی، بے شک زبردستی ہی سہی!

عمران خان اپنی کتاب ’’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں لکھتے ہیں:

1987ء کے ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان وارم اَپ میچ ہونے والا تھا۔ میچ سے کچھ دیر پہلے کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری شاہد رفیع میرے پاس آئے اور کہا کہ میاں نواز شریف ٹیم کی قیادت کریں گے۔ میاں صاحب اُس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ مَیں کپتانی سے دست بردار ہو گیا، لیکن مَیں سمجھ رہا تھا کہ نواز شریف بطور کھلاڑی ٹیم میں شامل نہیں ہوں گے۔ لیکن جب وہ ٹاس کے لیے میدان میں اُتر آئے، تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا، وہ اوپنر کے طور پر کھیلنے گئے۔ وہ الگ بات کہ بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہو گئے۔

یہ کرکٹ کا جنون ہی تھا کہ نواز شریف محکمہ ریلوے میں قلی بھرتی ہونے کو بھی تیار تھے۔ وجہ صرف ایک تھی کہ وہ ریلوے کی طرف سے کرکٹ کھیل سکیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر عام ہونے لگا کہ وہ گراؤنڈز میں چھکّے مار لیتے ہیں، بس شرط یہ ہونی چاہیے کہ بالنگ اور امپائرنگ اُن کے معیار کی ہو۔

باشاہوں والے شوق

نواز شریف کے بارے میں تو اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ پرانے بادشاہوں کی طرح اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ صحافی ظفر محمود لکھتے ہیں کہ جب نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے، تب ایک بار ہیلی کاپٹر سے اپنی بنائی سڑکوں کا معائنہ کر رہے تھے اور اُنہیں دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ ریسٹ ہاؤس پہنچنے پر ایک وزیر نے کہا کہ میاں صاحب آپ کے دَور میں اتنی سڑکیں بنیں، اتنی ترقی ہوئی کہ شیر شاہ سوری کے دَور میں بھی نہیں ہوئی ہوگی۔ نواز شریف یہ سن کر بڑے خوش ہوئے۔ پھر دوسرے وزیر سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے؟ اُس نے پہلے والے وزیر کی طرف اشارہ کر کے کہا، اِس نے بڑی بے وقوفانہ بات کی ہے۔ کہاں شیر شاہ سوری اور کہاں آپ کی شان دار کارکردگی؟ طوفانِ نوحؑ کے بعد اگر پنجاب میں ترقی ہوئی ہے، تو وہ آپ کا دَور ہے۔ نواز شریف اس پر کُھل کر ہنسے، پھر کہا۔ ’’آپ نے میچ جیت لیا ہے۔‘‘

ارے، وہ معصوم شکل اور استاد کی ڈانٹ تو پیچھے رہ گئی۔ گورنمنٹ کالج کے پروفیسر مشکور حسین یاد بتاتے ہیں کہ ’’نواز شریف ایف اے میں دو سال تک میرے طالب علم رہے۔ رنگ و رُوپ کے اعتبار سے وہ اردو کی کلاس کے نمایاں ترین طالب علم تھے۔ ان کے چہرے پر کِھلتی مسکراہٹ کبھی کبھی تیز ہو جاتی تو پڑھائی کے دوران مجھے بہت ڈسٹرب کرتی۔ مَیں انہیں ہلکا پھلکا وارن کرتا، لیکن اُن کی یہ عادت برقرار رہی۔ مَیں نے ایک دن زچ ہو کر اُنہیں کلاس میں کھڑا کر دیا اور پوچھا۔ ’’مسٹر!آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ کیوں ہنس رہے ہیں آپ؟‘‘ پروفیسر مشکور حسین کہتے ہیں نواز شریف کا جواب ایسا تھا کہ میرے ساتھ پوری کلاس بھی ہنس پڑی۔ انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا ’’سر!مَیں ہنس نہیں رہا۔ میری شکل ہی ایسی ہے۔‘‘

نواز شریف نے سینٹ اینتھنی اسکول سے میٹرک کیا تھا اور پھر گریجویشن گورنمنٹ کالج لاہور سے اور ایل ایل بی کی ڈگری پنجاب یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ تعلیمی کیرئیر بھی کرکٹ کیریئر کی طرح بس درمیانا سا رہا، یعنی اکثر سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوتے۔ لیکن پڑھائی کے بعد شریف خاندان کا یہ بچّہ کاروباری دنیا میں داخلے کے لیے تیار تھا۔ خاندان کی روایت بھی یہی تھی کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی بچے کاروبار چلانے لگتے، تو نواز شریف نے بھی بزںس سنبھال لیا۔ لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ شریف خاندان کی یہ بزنس ایمپائر جلد ہی تباہ و برباد ہونے جا رہی تھی۔

نواز کی کلثوم

پاکستان بنے پچیس سال گزر چکے ہیں، ملک دو حصّوں میں بٹ چکا ہے۔ مشرقی پاکستان اب بنگلا دیش ہے اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بول رہا ہے مگر نواز شریف اپنے کاروبار میں مست مگن ہیں۔ اسی عرصے میں شادی کے لیے اُنہیں مشہور گاما پہلوان کی نواسی کلثوم حفیظ پسند آ جاتی ہے۔

کلثوم کے والد ڈاکٹر تھے۔ کہتے ہیں شروع میں کلثوم کے گھر والوں نے نواز شریف کے رشتے سے انکار کیا، لیکن جب میاں محمد شریف خود چل کر اُن کے گھر پہنچے تو دونوں کشمیری خاندانوں میں یہ رشتہ ہنسی خوشی طے پا گیا۔ کلثوم حفیظ، نواز شریف سے صرف ایک سال چھوٹی تھیں۔ انھوں نے کلثوم صاحبہ کو کہاں دیکھا؟ شادی سے پہلے دونوں میں کوئی بات چیت، ملاقات ہوئی؟ اس بارے میں تفصیلات موجود نہیں مگر یہ طے ہے کہ یہ شادی نواز شریف کی پسند ہی سے ہوئی۔

بھٹو سے ٹاکرا

‏1972 آتے آتے شریف خاندان پاکستان کے 22 بڑے کاروباری خاندانوں میں شمار ہونے لگا۔ یہ وہی خاندان ہیں جن کے خلاف چیئرمین پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو الیکشن مہم چلا رہے تھے اور اِن امیر خاندانوں کی دولت عوام میں بانٹنے کے سیاسی وعدے کر رہے تھے۔ پھر مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ذوالفقار علی بھٹو پر سوشل ازم کا جنون بھی سوار ہے۔ اب فضا میں ’’ایشیا سُرخ ہے اور ایشیا سبز ہے ‘‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔ دینی اور ترقی پسند جماعتیں دو واضح حصوں میں بٹ چکی ہیں اور ملکی سیاست میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔

جنوری 1972، سیاسی افراتفری کے ماحول کے باوجود ملکی میں صنعتیں ترقی کر رہی ہیں۔ پاکستان ایشیا میں صنعتوں کی جنّت کہلاتا ہے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو بڑی فیکٹریاں اور صنعتیں حکومتی قبضے میں لے لیتے ہیں۔ یہ ایسی تاریخی غلطی تھی جس کی سزا پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ اِس ایک قدم نے مُلکی معیشت کی کمر ہی نہیں ہڈیاں پسلیاں بھی توڑ ڈالیں۔ اتفاق فاؤنڈری حکومتی قبضے میں جا چکی تھی یوں شریف خاندان بھی ایک ہی رات میں بادشاہ سے فقیر ہو گیا۔ اُس وقت کے کروڑ پتی نواز شریف صبح سو کر اُٹھے، تو کنگال ہو چکے تھے۔ یہیں سے نواز شریف اور بھٹو فیملی میں دشمنی اور نفرت کا آغاز ہوا اور یہی دشمنی آگے چل کر طویل اور نہ ختم ہونے والی سیاسی جنگ میں بدل گئی۔

ضیاء کی کرامات

پانچ جولائی 1977، جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے مارشل لا لگا دیا۔ یہی نہیں، ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ بھی بنوایا اور انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ اس انتہائی قدم کے بعد جنرل ضیاء الحق کو سیاسی منظر نامے پر ایسے چہروں کی تلاش تھی، جو پیپلز پارٹی کے خلاف ہر حد تک جانے کو تیار ہوں۔

شریف خاندان اس تاک میں تھا کہ کسی طرح نہ صرف اپنی فیکٹریاں حکومت سے واپس لے، بلکہ پیپلز پارٹی کو ایسا سبق سکھایا جائے جو اس کی نسلیں یاد رکھیں۔ یہیں میاں محمد شریف نے اپنے بیٹے کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ کوششیں رنگ لائیں اور میاں شریف کو اُس وقت کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی سے دوستی کا موقع مل گیا اور کچھ ہی عرصے میں 1981 میں نواز شریف صوبائی کابینہ کا حصہ بن گئے، اور جلد ہی پنجاب کی وزارتِ خزانہ کا قلم دان بھی ان کے پاس تھا۔

اگلی منزل وزیر اعلیٰ ہاؤس

نواز شریف جنرل جیلانی کے انتہائی فرمان بردار بچے بن کر ان کے آگے پیچھے پھرتے بلکہ اکثر انار کا جوس خود گلاس میں بھر کر اُنہیں پیش کرتے۔

پیپلز پارٹی کو حکومت سے باہر رکھنے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔ محمد خان جونیجو وزیرِ اعظم اور نواز شریف پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنا دیے گئے۔ پیپلز پارٹی سیاست سے غائب ہو گئی اور نواز شریف کے لیے میدان اب کُھلا تھا۔

سنجیاں گلیاں اور اکیلا مرزا یار

یہ وہی زمانہ تھا، جب صوبائی کابینہ کے اپنے لوگ ڈھکے چھپے الفاظ اور سرگوشیوں میں نواز شریف کو’’پیراشوٹر‘‘کہہ کر پکارتے تھے۔ خاص طور پر پنجاب کے زمین دار طبقہ کو، یعنی ’’پنجابی چودھراہٹ‘‘ کو نواز شریف ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے، لیکن مارشل لائی ڈنڈے کے سامنے سب خاموش تھے۔

بہرحال، اس ’’پیرا شوٹر‘‘ کی اگلی منزل تھی اسلام آباد کا وزیر اعظم ہاؤس۔ مگر وہ اب صرف پیراشوٹر نہیں رہا تھا، ضیاء الحق نے نواز شریف کی کھل کر مدد کی، جتنا بجٹ چاہیے تھا ملتا رہا، پنجاب میں سڑکیں بن رہی تھیں، خاص طور پر گاؤں کو شہروں سے جوڑنے کے منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا تھا۔ پنجاب کی ستر فی صد دیہی آبادی آہستہ آہستہ نواز شریف کو جاننے بلکہ لیڈر ماننے لگی تھی۔ فصلوں کو شہروں تک پہنچانے کا کام آسان ہوتا گیا اور ساتھ ہی کسانوں کی زندگیاں بھی آسان ہونے لگیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری قبضے میں لی گئی فیکٹریاں مُلکی خزانے پر بڑا بوجھ بننے لگیں، الٹا حکومت پر قرضے چڑھنے لگے، تب اُنہیں مالکان کو واپس لوٹانے کا فیصلہ ہو گیا۔ اتفاق فاؤنڈری سمیت دوسری فیکٹریاں ایک بار پھر شریف خاندان کو واپس مل گئیں۔ یہ نواز شریف کی ایسی فتح تھی، جس پر وہ خود ہی نہیں، اُن کے والد میاں محمد شریف بھی آخری دم تک فخر کرتے رہے۔

بطور وزیر اعلیٰ پنجاب، پانچ سال تک ہر ترقیاتی منصوبے پر نواز شریف کے نام کی تختیاں لگتی رہیں اور یہی تختیاں، اُنہیں تختِ لاہور سے تخت اسلام آباد تک لے جانے والی تھیں۔ لیکن ابھی اس منزل تک پہنچنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔

نواز بمقابلہ بے نظیر

دس اپریل 1986، بے نظیر بھٹو وطن واپس پہنچیں تو لاہور میں اُن کا تاریخی استقبال کیا گیا، جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ ضیاء الحق کو اپنا سیاسی مستقبل خطرے میں دکھائی دینے لگا، مگر نواز شریف کو نہیں۔ وہ سیاست کے میدان میں اپنے پاؤں جما چُکے تھے۔

ماضی کا بھولا بھالا، سیدھا سادہ نوجوان اب تیز طرار سیاست دان بن چُکا تھا۔ اور تو اور انھوں نے تو مذہب کارڈ استعمال کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ خود کو رائٹ وِنگ یعنی مذہبی جماعتوں کا نمائندہ کہتے۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی باتیں کرتے، یہی وجہ رہی کہ نواز شریف کو جب بھی ضرورت پڑی، مذہبی پارٹیوں نے ان کا ساتھ دیا۔

پھر سیاست میں ایک زبردست موڑ آیا اور وہ بھی بالکل اچانک!

سترہ اگست 1988 ء کو جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ جانے سے پہلے ضیاء الحق اپنی ہی بنائی گئی جونیجو حکومت کو فارغ کر چکے تھے۔ تب نواز شریف خود کو ضیاء الحق کا گدی نشیں ثابت کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔ یہاں تک کہ وہ ضیاء الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہنے لگے اور خود پر مذہبی شخصیت کا رنگ بھی چڑھا لیا بلکہ بعد میں تو وہ خود کو ’’امیر المومین‘‘ کہلوانے پر بھی غور کرنے لگے تھے۔

انیس سو اٹھاسی میں مقبول ترین سیاسی رہنما تھیں بے نظیر بھٹو۔ انتخابات کی تیاریاں شروع ہوئیں تو فوج نہیں چاہتی تھی کہ اقتدار بے نظیر کے پاس جائے تب اسٹیبلشمینٹ کی مدد سے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ بنایا گیا۔ اگرچہ اُس کی سربراہی سندھ کے سب سے بڑے جاگیردار غلام مصطفیٰ جتوئی کے پاس تھی، لیکن تب تک نواز شریف پنجاب میں اپنی جڑیں گہری کر چکے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے پیپلز پارٹی کی 93 کے مقابلے میں صرف 53 نشستیں حاصل کیں، مگر نواز شریف کے لیے یہ مہنگا سودا نہیں تھا کیونکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے پنجاب فتح کر لیا تھا۔ یوں نواز شریف اپنی سیاسی حیثیت منوانے میں کام یاب ہو گئے اور وزیرِاعلیٰ پنجاب کا تاج ایک بار پھر اُن کے سر سج گیا۔ یعنی وفاق میں بے نظیر، تو پنجاب میں نواز شریف کا راج !

زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت پر بدترین کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہو گئے۔ صرف دو سال بعد 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے، بدنامِ زمانہ آرٹیکل 58 ٹو-بی کا استعمال کیا اور اسمبلی توڑ کر بے نظیر کو گھر بھیج دیا۔ یہ وہی دن تھے، جب آصف علی زرداری ’’مسٹر ٹین پر سینٹ‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔

صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اب وزارتِ عظمیٰ کی کرسی نواز شریف کے لیے تیار کی جا رہی ہے، اور نواز شریف کو اسی دن کا تو انتظار تھا۔

نواز شریف کون کا پہلا حصہ

انیس سو نوّے کے انتخابات ہوئے، نواز شریف کو اسٹیبلشمینٹ کی پوری پوری حمایت حاصل تھی۔ ان کے اسلامی جمہوری اتحاد کو قومی اسمبلی کی 106 اور پیپلز پارٹی کو صرف 44 سیٹیں ملیں۔

نواز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ گئے، مگر وہ جانتے تھے صدر کسی بھی وقت اسمبلی توڑ کر اُنہیں بھی چلتا کر دے گا۔ اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر سے واپس لینے کی ترکیبیں لڑانے لگے۔ غلام اسحاق خان کا دماغ گھوم گیا، دونوں میں اختلافات بڑھتے گئے اور یوں ڈیڑھ سال ہی گزرے تھے کہ غلام اسحاق خان نے یہ اسمبلی بھی توڑ دی۔

انیس اپریل انیس سو ترانوے کے دن نواز شریف حکومت برطرف ہو گئی۔ یہی وہ دن تھے جب نواز شریف کے ایک صراحی دار گردن والی، سُرتال کی ملکہ سے پیار کی باتوں کے قصے بھی مشہور ہوئے، اس پر آگے چل کر بات کریں گے، ابھی چلتے ہیں 1993 کے انتخابات طرف۔

ایک بار پھر الیکشنز ہوئے اور کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 89 اور نواز شریف کی مسلم لیگ کو 73 سیٹیں ملیں۔ بے نظیر ایک بار پھر وزیرِاعظم کی کرسی پر بیٹھیں۔ یہ نواز شریف کے لیے وہ کڑوی گولی تھی، جو وہ کسی صُورت نگلنے کو تیار نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کی برتری معمولی سی تھی، نواز شریف کو لگا کہ وہ بے نظیر حکومت کا با آسانی شکار کرلیں گے۔ انھوں نے حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی تیاری شروع کر دی۔ ارکان کی خرید و فروخت کی گئی، جن ارکانِ اسمبلی کو خریدا جا رہا تھا، اُنہیں چھانگا مانگا ریسٹ ہاؤس میں رکھا جاتا۔ یوں ہر طرف ’’چھانگا مانگا‘‘ کی اصطلاح گونجنے لگی، مگر جب تحریک عدم اعتماد آئی تو نواز شریف کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

بے نظیر اس وار سے تو بچ گئیں، لیکن اپنوں کے وار سے نہیں بچ پائیں۔ ان کی پارٹی ہی کے بندے صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑ دی اور دو سال حکومت کرنے کے بعد 1996ء میں بے نظیر بھٹو حکومت کو پھر گھر جانا پڑ گیا۔

اس بات کا ایک ہی مطلب تھا کہ نواز شریف کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کے دروازے پھر کھلنے والے ہیں۔

دل پھینک نواز شریف

نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے، تو ایک گلوکارہ کو گاڑی میں بٹھاتے، اُنہیں مَری کی سیر کرواتے اور ’’وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے، شگفتہ شگفتہ بہانے تیرے‘‘ جیسی مقبول غزل بھی سنتے۔ یہی نہیں بلکہ اپنی آواز میں بھی اُنہیں گانے بھی سنایا کرتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مری کی سڑک پر ریلنگ لگانے کا ٹھیکا بھی اُسی خاتون کی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ ایک چڑیا والے صحافی نے بھی اس دوستی کی تصدیق کی، بلکہ انکشاف کیا کہ مَری کی چیئر لفٹ کا ٹھیکا بھی اُسی گلوکارہ کے لیے دیا گیا۔

ویسے حال ہی میں جب نواز شریف لندن میں رہ رہے تھے تو ایک اور خاتون کے ساتھ پیار بھری بیٹھکوں کی سر گوشیاں سنائی دی تھیں۔ اِن سرگوشیوں سے آگے چل کر پردہ اُٹھائیں گے، لیکن پہلے بات کریں 1997 کے انتخابات کی۔

نواز شریف کی جماعت نے 1997 کے انتخابات میں گویا جھاڑو پھیر دی۔ ان الیکشنز میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کو صرف 18 سیٹوں تک محدود کر دیا جبکہ مسلم لیگ کی سیٹیں 73 سے بڑھ کر 137 تک پہنچ گئیں۔ نواز شریف نے اُس دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکے بھی کیے، جس کا ذکر آج بھی ان کی تقریروں میں ملتا ہے اور بار بار ملتا ہے۔

دو تہائی اکثریت سے جیت کر نواز شریف خود کو سیاست کا بے تاج بادشاہ سمجھنے لگے۔ اب کوئی مائی کا لعل ان کے راستے میں آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ اپنے راستے کے تمام کانٹے انھوں نے ایک ایک کر کے نکال پھینکے۔ کیا صدر، کیا آرمی چیف اور کیا چیف جسٹس، جو نواز شریف کے راستے میں آیا، گھر گیا۔ پہلے صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لیا، پھر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو استعفے پر مجبور کیا، چیف جسٹس پاکستان سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کی بھی چھٹی کروا دی۔

جنرل جہانگیر کرامت کا قصور یہ تھا کہ اکتوبر 1998 میں انہوں نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی تھی کہ ریاستی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سیکورٹی کونسل بنانا چاہیے۔ نواز شریف حکومت نے سمجھا کہ جنرل صاحب کے ارادے ٹھیک نہیں۔ چنانچہ ان سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ یہ جمہوریت پسند کہلائے جانے والے جنرل خاموشی سے مان بھی گئے۔

سجاد علی شاہ واحد جج تھے جنہوں نے 1993 میں نواز شریف حکومت کی بحالی کا فیصلہ دینے والے ججوں سے اختلاف کیا تھا۔ وہ اُس دن سے نواز شریف کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے۔ جب بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت آئی تو بے نظیر بھٹو نے، شریف مخالف جج سمجھتے ہوئے سجاد علی شاہ کو نیچے سے اٹھا کر چیف جسٹس بنا دیا، مگر انہیں کیا پتا تھا کچھ عرصے بعد ان کا پالا نواز شریف سے دوبارہ پڑنے والا ہے!

‏1997 میں نواز شریف کے سجاد علی شاہ سے بڑے اختلافات پیدا ہو گئے، حیرت کی بات بھی نہیں تھی۔ سجاد علی شاہ از خود نوٹس لینے کے بڑے شوقین تھے، ایک بار تو نواز شریف کو بھی عدالت طلب کر لیا۔

‏‏28 نومبر 1997کو نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات کی سماعت کر رہے تھے، فل بینچ اجلاس تھا کہ لیگی کارکن عدالت کے باہر جمع ہونے لگے۔ کچھ دیر نعرے لگتے رہے، اور پھر وہ عدالت کے اندر داخل ہو گئے۔ انہیں خدشہ تھا نواز شریف کو سزا سنا کر نااہل نہ کر دیا جائے۔ تب یہ مشہور تھا کہ سجاد علی شاہ فیصلہ لکھ کر ساتھ لائے ہیں۔ مظاہرین کا شور سننے پر چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر سے کہا "تھینک یو شاہ صاحب" اور عدالت برخاست کر دی۔ بعد میں عدالت دو واضح حصوں میں بٹ گئی اور سپریم کورٹ کے ایک دھڑے نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت سمجھتی تھی بے نظیر بھٹو نے ان کا حق مارتے ہوئے ایک جونیئر جج کو ان کے اوپر لا بٹھایا تھا۔ یوں سجاد علی شاہ کی چھٹی ہو گئی۔

نواز شریف اب confident ہو کر حکومت کر رہے تھے۔ سمجھ رہے تھے کہ اس بار اپنی مدت پوری کر کے رہیں گے، لیکن بقول چوہدری شجاعت، ’’یہاں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک دستہ ہی کافی ہوتا ہے‘‘ یہ کیسے ہوا؟ اس بارے میں بات کرنے سے پہلے نواز شریف کے اس دور کے کچھ بڑے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔

ایٹمی دھماکے نواز شریف کا واقعی ایک بڑا فیصلہ تھا۔ امریکا نے ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے لالچ، دھونس دھمکی ہر حربہ آزمایا مگر نواز شریف اپنے فیصلے پر اڑے رہے وہ آج بھی اسے اپنا بڑا کارنامہ بتاتے ہیں، عمران کے 'ایبسولوٹلی ناٹ' کے جواب میں ان کا دعویٰ ہے کہ اصل 'ایبسولوٹلی ناٹ' تو 28 مئی 1998 کے ایٹمی دھماکے ہیں۔

نواز شریف نے اُس وقت قوم کے جذبات کا بھی خوب استعمال کیا۔ قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کے تحت نو سو اٹھانوے ملین روپے جمع کیے۔ اس میں سے صرف ایک سو ستر ملین روپے قرض اتارنے کے لیے استعمال ہوئے، باقی کہاں گئے؟ آج تک کوئی نہیں جانتا۔

اس سے پہلے ان کی 1992 والی یلو کیب اسکیم بھی پر بھی سوالات اٹھے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اسکیم میں بھی لوگوں نے بڑا مال بنایا تھا۔

دوسرے دور میں نواز شریف کی خود کو طاقت ور ترین سمجھنے کی غلط فہمی بھی جلد دُور ہو گئی۔

بمقابلہ پرویز مشرف

کارگل جنگ کے معاملے پر اُن کے اپنے ہی لگائے ہوئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے اختلافات ہو گئے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر بھارت سے کارگل جنگ چھیڑی۔ اس لیے انھوں نے پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں، اور انہیں اس وقت برطرف کیا، جب وہ سری لنکا کے دورے سے واپسی پر جہاز میں سوار تھے۔

نواز شریف نے اس دوران ایک اور کام کیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو ملک کا نیا چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر دیا۔ یہ کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ن لیگ کے ایک اہم رہنما بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاء الدین بٹ کی بطور آرمی چیف تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے اس وقت کے سیکریٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخار وزارت دفاع جا رہے تھے۔ اس دوران انہیں فون آیا کہ وہاں نہ جائیں، فوج آ گئی ہے، انہیں جنرل عزیز کے پاس جانے کو کہا گیا۔ وہ وہاں پہنچے تو ان سے کہا گیا کہ جب تک ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی، آپ تشریف رکھیں۔ اس کا مطلب تھا وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ!

اس دوران پی ٹی وی پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور پرویز مشرف کی برطرفی کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ جب میاں صاحب کو پتا چلا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے وزیر اعظم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے، تو نواز شریف جنرل ضیاء الدین بٹ پر برہم ہوئے، بولے: کہاں ہے آپ کی اتھارٹی؟

جنرل ضیاء الدین کو خود اندازہ نہیں تھا کہ فوج مشرف کے ساتھ اس طرح کھڑی ہو جائے گی اور نئے آرمی چیف کا حکم ماننے سے انکار کر دے گی۔ جب پی ٹی وی پر جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف لگانے کا اعلان ہوا تو شہباز شریف اور چوہدری نثار نے سر پکڑ لیا کہ میاں صاحب نے یہ کیا کر دیا؟

کچھ واقعات ایسے بھی ہیں، جو اشارہ کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کو اندازہ ہو گیا تھا کہ نواز شریف کسی بھی وقت انہیں فارغ کر سکتے ہیں کیونکہ کارگل جنگ کی وجہ سے اب کوئی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ انتظار تھا تو اس بات کا، کہ پہلے وار کون کرتا ہے؟

جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام کرنے والے ان ہی کے ایک ساتھی نے بتایا کہ سری لنکا جانے سے پہلے پرویز مشرف نے کچھ قریبی ساتھیوں کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کوئی اعلان ہو تو انہوں نے کیا کرنا ہے؟ لیکن انہیں یہ امید نہیں تھی کہ ان کا طیارہ ملک میں اترنے سے روکا جائے گا۔

بہرحال، بارہ اکتوبر 1999 کا دن نواز شریف کی بھیانک سیاسی یادوں میں ایک اور یاد کا اضافہ کر گیا۔ اس بار حکومت تو گئی گئی، لانڈھی جیل کے خوف ناک مچھر بھی نواز شریف کا خون چُوسنے کے لیے دانت تیز کیے بیٹھے تھے۔ نواز شریف کے خلاف یوں تو کئی کیسز بنے اور ختم ہوئے لیکن ایک کیس ایسا ہے جس کی گونج آج 28 سال بعد بھی کبھی کبھار سنائی دے جاتی ہے، اور یہ ہے مشہور زمانہ حدیبیہ پیپر مل کیس۔

‏90ء کی دہائی میں شریف خاندان پر جعلی ناموں سے غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس کھلوانے کا الزام لگا، جس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں اس پر ابتدائی تحقیقات ہوئیں لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔

طیارہ سازش کیس

پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس بھی چلایا، جس میں انہیں دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن کچھ عرصے بعد ہی سزا معطل کر دی گئی اور ایک ڈیل کے ذریعے شریف خاندان کو سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا۔

یوں ایک بار پھر ثابت ہوا کہ نواز شریف کی پاک فوج کے سربراہوں سے کبھی نہیں بنی۔ نواز شریف کا پہلا ٹاکرا جنرل جہانگیر کرامت سے ہوا ، دوسرا جنرل آصف نواز جنجوعہ، تیسرا جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ، چوتھا جنرل پرویز مشرف اور پانچواں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ۔ جنرل راحیل شریف اگرچہ اپنی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو گئے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف سے ایکسٹینشن چاہتے تھے، اگر وہ مان جانتے تو شاید ان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔

نواز شریف کے معاملات تو اس حد تک خراب رہے کہ جب 8 جنوری 1993ء کو آرمی چیف جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، تو اس وقت بعض لوگوں نے کہا آرمی چیف کا قتل ہوا ہے، اور انگلیاں نواز شریف کی طرف بھی اٹھائی گئیں۔ وہ الگ بات ہے جب تحقیقات ہوئیں تو ڈاکٹروں نے آصف نواز کی موت کو ہارٹ اٹیک ہی کی قرار دیا۔

نواز شریف کے بارے میں یہ عام کہا جاتا ہے کہ انہیں خود بم کو لات مارنے کی عادت ہے۔

نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد صدر پرویز مشرف پوری طرح معاملات اپنے قابو میں کر چکے ہیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ انہیں آئین میں ترمیم کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔ ق لیگ کنگ پارٹی کی صورت میں انہیں ہر طرح کا سیاسی سہارا دے رہی ہے۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں ملک سے باہر ہیں اور پرویز مشرف دعویٰ کرتے ہیں کہ دونوں پر سیاست کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔

یہاں بے نظیر اور نواز شریف کو محسوس ہوا جب تک بڑی سیاسی جماعتیں مل کر کوشش نہیں کریں گی ملک میں ڈکٹیٹر شپ چلتی رہے گی۔ چودہ مئی دو ہزار چھ، لندن میں دونوں بڑی پارٹیوں میں 36 نکاتی معاہدہ ہوا، جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے عہد کیا کہ وہ فوجی حکومت سے ڈیل نہیں کریں گے، نہ فوجی حکومت میں شامل ہوں گے۔ یہ بھی عہد کیا گیا کہ 1973ء کا آئین 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے والی شکل میں بحال کیا جائے گا۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ آئندہ نہ وہ کسی فوجی حکومت میں شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت طلب کریں گی۔ صوبائی خود مختاری اور سویلین بالا دستی قائم کرنے پر زور دیا گیا۔ یوں سمجھیے کہ ایک طرح سے یہ ان غلط کاموں کا اعتراف تھا جو دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ماضی میں کرتی آئی تھیں
لیکن۔۔۔۔۔

دو ہزار سات میں وکلا تحریک نے پرویز مشرف کی حکومت کی چُولیں ہلا دیں۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل کرلی تاکہ انہیں وزیر اعظم بنا کر اپنی صدارت بچا لیں۔ بے نظیر جلاوطنی ختم کر کے واپس وطن آگئیں تو نواز شریف کے لیے بھی راستے آسان ہو گئے۔ نومبر 2007 میں نواز شریف بھی ملک واپس آگئے لیکن بے نظیر بم دھماکے میں شہید ہو گئیں اور نواز شریف ہی وہ واحد سیاسی رہنما تھے جو واقعے کے بعد اسپتال پہنچے تھے۔

دو ہزار آٹھ میں انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، مگر اس بار بھی تختِ لاہور شریف خاندان ہی کے پاس رہا۔ بے نظير کے بعد پیپلز پارٹی کی باگ ڈور آصف زرداری کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے صرف پاکستان کھپے کا نعرہ ہی نہیں لگایا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنائی۔ بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت کر کے مفاہمت اور دوستی کی سیاست کا آغاز کر چکی تھیں یوں نواز شریف اور آصف زرداری میں قربتیں ہونے لگیں۔

ماضی کے سخت حریف اب ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے لگے، ایک ساتھ بیٹھکیں ہونے لگیں، جو اب تک جاری ہیں۔ دو ہزار چودہ میں عمران خان کے دھرنوں کے دنوں میں بھی نواز شریف اور آصف زرداری کی دوستی کا مظاہرہ دنیا نے دیکھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے بجائے پیپلز پارٹی نواز حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ نواز شریف بھی 90 کی دہائی کے امیر المومنین کے خول سے باہر آ چکے تھے۔ اب تو پیپلز پارٹی جیسی لبرل جماعت ان کی حمایت میں موجود تھی۔

دو ہزار تیرہ میں ایک بار پھر قسمت نواز شریف پر مہربان ہوئی، مسلم لیگ نون نے الیکشن کا میدان مار لیا اور با آسانی حکومت بنالی۔ ابھی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ہی چل رہا تھا کہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔

یہ 17جون 2014ء تھا ، لاہور میں ادارہ منہاج القرآن پر پولیس نے چھاپا مارا۔ مزاحمت ہوئی، تو پولیس نے گولیاں چلا دیں۔ ‏14 جانیں چلی گئیں، 80 لوگ شدید زخمی ہوئے۔ ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ سڑکوں پر آگئے۔ عمران خان جو پہلے ہی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف میدان میں تھے، انہیں نئی طاقت مل گئی۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے پوری طاقت سے حکومت کے خلاف دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ایک امتحان ابھی ختم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا چیلنج نواز حکومت کے سامنے پہاڑ کی طرح کھڑا ہو جاتا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مُلک میں دہشت گردی، خود کش حملے اور بجلی کا بحران خوفناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ نواز شریف حکومت بڑی حد تک ان مسائل پر قابو پانے میں کام یاب رہی، لیکن اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف میں اندر ہی اندر اختیارات کی جنگ بڑھتی چلی گئی۔ ڈان لیکس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

ڈان لیکس

یہ 6 اکتوبر 2016 کا دن تھا ، روزنامہ ڈان میں معروف صحافی سیرل المائڈا نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کی خبر دی۔ اس میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس خبر میں ایسا تاثر دیا گیا تھا کہ فوج کالعدم تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے۔ فوج نے اس کا بہت برا منایا۔ اس نے محسوس کیا کہ جان بوجھ کر حکومت ایسی کوشش کر رہی ہے جس سے فوج کا عالمی سطح پر امیج خراب ہو۔ ڈان لیکس کا یہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا کہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو عہدے سے ہٹنا پڑ گیا۔

حکومت نے اپنے طور پر اس کی تحقیقات کرائیں لیکن آئی ایس پی آر کی طرف سے انہیں مسترد کر دیا گیا۔

پانامہ لیکس

سونے پہ سہاگا پاناما پیپرز کا اسکینڈل بھی سامنے آ گیا۔ ان پیپرز میں نواز شریف کے بیٹوں کی کئی بے نامی کمپنیاں سامنے آئیں یوں عمران خان کو نواز شریف پر وار کرنے کا ایک اور سنہری موقع مل گیا۔ انھوں نے دھرنوں کے ذریعے حکومت کا ناک میں دم کر دیا۔ نواز شریف اور اسٹیبلشمینٹ کی جنگ میں نظر آ رہا تھا کہ اس بار بھی جیتے گا وہی، جو ہمیشہ سے جیتتا آیا ہے۔ آخر معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا اور پھر نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آگیا، جو بعد میں تا حیات نااہلی میں بدل گیا۔

نواز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعظم ہاؤس سے نکلنا پڑ گیا، لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت برقرار رہی۔ نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعروں کے ساتھ سیاسی ماحول تو گرما رہے تھے، لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ہوائیں اب اُن کے خلاف چل پڑی ہیں اور یہ جلدی رُکنے والی نہیں ہیں۔

2018 الیکشن

اس بار، الیکشن میں طاقت کے تمام مراکز کا جھکاؤ پوری طرح نواز شریف کے نئے سیاسی مخالف عمران خان کی طرف تھا۔ ایک نئے سیاست دان کو آزمانے کی تیاری ہو رہی تھی اور پھر وہی ہوا، جو ہمارے یہاں روایت رہی ہے۔ عمران خان وزیرِ اعظم کی کرسی پر بیٹھ گئے اور نواز شریف کا مقدر ایک بار پھر جیل ٹھہری۔ نواز شریف ایک سیل میں اور قریب ہی ایک دوسرے سیل میں ان کی سیاسی وارث بیٹی مریم نواز قید تھیں۔ نواز شریف لندن میں اپنی بیمار بیوی کلثوم نواز کو چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، یہ کہہ کر کہ وہ مقدمات کا سامنا کریں گے۔ انہی دنوں جیل میں ہی نواز شریف کو کلثوم نواز کے انتقال کی دکھ بھری خبر سنائی گئی۔

چار سال بعد لندن میں واپسی پر بھی انہوں نے اس دن کا تذکرہ کیا۔ کلثوم نواز کی موت کو ایسا دکھ کہا جسے وہ کبھی نہیں بھلا سکتے۔ پھر اچانک نواز شریف کی زیادہ طبیعت خراب ہونے کی خبریں پھیلنے لگیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو سارا الزام حکومت پر آئے گا۔ آخر نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا اور ایک عدالتی حکم کا سہارا لے کر 19 نومبر 2019ء کی صبح نواز شریف کو لندن بھیج دیا گیا۔

عمران خان کی حکومت ختم ہو چکی اور پی ڈی ایم حکومت نے ان کی جگہ لے لی لیکن نواز شریف لندن میں ہیں۔ جہاں ایک خاتون ہر دوسرے تیسرے دن نواز شریف کی مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر پہنچ جاتیں، خوبصورت اور پُرکشش تھیں، نواز شریف بھی اُنہیں آنے سے منع نہیں کرتے تھے حالانکہ اہلِ خانہ کو یہ پیار بھری بیٹھکیں بالکل پسند نہیں تھیں۔ پھر گھر کے ایک فرد نے اس خاتون پر اپارٹمنٹ کے دروازے بند کر دیے۔ اِن سرگوشیوں کے بارے میں نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی سے پوچھا گیا، پہلے تو وہ خُوب ہنسے پھر صرف ایک لفظ کہا’’rubbish‘‘

اکیس اکتوبر 2023 ملک میں نگراں حکومت قائم ہے اور نواز شریف لاہور پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں وہ مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کرتے ہیں۔ لگتا ہے ہوائیں پھر اُن کے حق میں چلنے لگتی ہیں کیونکہ آج کی تاریخ تک تا حیات نااہلی سمیت ان کی تمام سزائیں اور کیسز ختم ہو چکے ہیں اور نواز شریف اب چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

تینوں دور حکومت ملائیں تو نواز شریف نو سال وزیر اعظم رہے، پھر جیل کاٹنے کی ٹوٹل مدت 732 دن بنتی ہے۔ موٹرویز، ہائی ویز، سی پیک، ایٹمی دھماکے، میٹرو بسیں، بجلی گھر، پیلی ٹیکسی اسکیم، یوتھ لون اسکیم ان کے نمایاں کارنامے سمجھے جاتے ہیں لیکن ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ جیسے ناکام بلکہ بدنام پروگرام پر بھی نواز شریف کا نام لکھا ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگا کر ’’بوٹ‘‘ کو سیلوٹ کا الزام بھی آج نواز شریف ہی پر لگتا ہے۔

لیکن ایک بات ایسی ہے، جو ان کے بارے میں سب سے زیادہ بولی اور سنی جاتی ہے: ’’کھاتا ہے، پر لگاتا بھی ہے‘‘۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی میں ناکامیاں زیادہ ہیں یا کامیابیاں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے!

نواز شریف کون کا آخری حصہ
شیئر

جواب لکھیں