وہ بھی یہیں اسی حسین وادی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا کرتا تھا۔ گورا رنگ، لمبے بال کھڑا ناک نقشہ۔ کسی فلمی ہیرو جیسا۔ فیس بک پر اس کے ہزاروں فالوورز تھے۔ سب اس کی ماڈلنگ کے دیوانے تھے۔ آج بھی وہ اُس کے گرد کھڑے تھے۔ مگر تالیاں بجانے نہیں۔ اس کے تابوت کو زمین میں اتارنے کے لیے۔

نقیب کو زندگی میں ہیرو بننے کا بڑا شوق تھا۔ جس کے لیے وہ کراچی آیا اور دکان لی۔ وہ اس دکان سے اپنے کپڑوں کا برانڈ شروع کرنا چاہتا تھا۔ مگر نہیں جانتا تھا کہ مرنے کے بعد وہ محسود قوم کا ایسا ہیرو کہلائے گا کہ۔ جس پر ترانے بنیں گے، تحریک اٹھے گی۔ کیونکہ یہ رقص کرتے نوجوان اب کھلم کھلا ریاست کو للکار رہے تھے۔ آزادی اور انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے۔

لیکن میرا آرٹیکل نقیب اللہ محسود پر نہیں ہے۔ بلکہ آج میں آپ کو سناؤں گا اُس کی موت سے زندگی پانے والی تحریک۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی کہانی! لیکن ایک منٹ۔ کیا پی ٹی ایم واقعی پشتونوں کی جماعت ہے؟ پی ٹی ایم کے پیچھے کون ہے؟ کیا پی ٹی ایم واقعی فارن فنڈڈ ہے؟ پی ٹی ایم اتنی جلدی کیسے پاپولر ہوگئی؟ کیا پی ٹی ایم اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے یا پھر ٹی ٹی پی کا پولیٹکل ونگ؟ آپ بھی یہ سب جاننا چاہتے ہیں۔ بالکل بتاؤں گا۔

تو ہم وزیرستان کے علاقے مکین میں نقیب کے فیونرل میں تھے۔ یہ ٹھنڈا علاقہ پچھلی صدی سے خاصہ گرم رہا ہے۔ یہیں محسود قبائل برٹش ملٹری سے سینگ لڑائے ہوئے تھے۔ اسی جگہ بیت اللہ محسود نے ٹی ٹی پی بنا کر ملک اور فوج کے خلاف فدائین تیار کیے اور پھر آپریشن راہ نجات کا ہدف بھی یہی علاقہ بنا۔ بڑی تباہی ہوئی، بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔

لیکن 2018 کا مکین بالکل نیا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ جنازے میں نوجوانوں کے سر ہی سر تھے۔ انہیں میں ایک چھبیس سالہ نوجوان منظور پشتین بھی تھا جس نے وہیں اسلام آباد مارچ کا اعلان کر دیا۔ منظور نے چار سال پہلے جب محسود تحفظ موومنٹ شروع کی تو اسے حکومت اور فوج ہی کیا، پشتون بھی سیریس نہیں لیتے تھے۔ مگر اب اس کی تحریک کو خون مل چکا تھا اور پشتون قوم کو مزارے شریف کی سرخ ٹوپیوں کے ساتھ ساتھ احتجاج کا نیا رستہ بھی۔

وی او اے کے جرنلسٹ اسد شاہد کہتے ہیں:

جب نقیب اللہ محسود کا جنازہ ان کے آبائی علاقے میں ہوا تو پھر یہ لوگ ٹانک آئے اور پھر ٹانک سے انہوں نے ایک جلوس کا آغاز کیا اور کے بعد اس کا نام پشتون تحفظ موومنٹ رکھا گیا۔ اس سے پہلے کچھ لوگوں نے میڈیا والوں نے کہا تھا کہ یہ ایم ٹی ایم صرف ایک قوم اور علاقے تک محدود ہے اور انہوں نے بھی منظور پشتین کو مشورہ دیا تھا کہ یہ مسئلہ تو تمام پشتونوں کو ہے اس لیے اس موومنٹ کا نام پشتون تحفظ تحریک ہونا چاہئے۔

منظور پشتین نے کہا ایک جلسے میں کہا:

یہ نعرہ غلط ہے کہ انقلاب لائے گا، انقلاب تو آ چکا ہے اور اس سیلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا، اس جذبات کو کوئی نہیں روک سکے گا۔

دبلے پتلے منظور نے پڑھی تو ویٹرنیری میڈیسن تھی مگر وہ تو کمال کا اوریٹر نکلا۔ اب اس تحریک میں صرف محسود نہیں، دنیا بھر کے پشتونز شامل ہورہے تھے۔ لائر اور ایکٹیوسٹ عاصمہ جہانگیر نے اپنی زندگی کا آخری خطاب بھی پی ٹی ایم جلسے سے کیا تھا۔

لائر اور ایکٹیوسٹ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا:

میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ مسئلہ صرف پشتونوں کا نہیں ، یہ مسئلہ ہر پاکستانی کا ہے۔

اور آج یہی لال مزاری ٹوپی علی امین گنڈاپور بھی پہنے گھوم رہے ہیں! کیوں؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔ لیکن منظور پشتین نے یہ ٹوپی کیوں پہنی اس کی اسٹوری بہت انٹرسنٹنگ ہے! جب وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے تھے تو ان کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کے پیسے پولیس والے نے چھین لیے تھے۔ منظور کو علم ہوا تو وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس کی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی۔ اب تو وزیرستان سے لے کر کراچی تک پشتین کیپ ایک فیشن سمبل بن چکی ہے۔ یہ ٹوپی اور رائز آف سوشل میڈیا نے جیسے تحریک کو پہیے لگا دیے۔

وار آن ٹیرر سے لے کر ڈرون اسٹرائک تک دہشت گرد مارنے کی خبریں تو سب تک پہنچتی رہی ہیں، مگر اب ملبے اور راکھ میں دبے بچوں اور عورتوں کے کولیٹرل ڈیمیج کے قصے مائیک پر سنائے جا رہے تھے۔ جس جس کے خاندان کا فرد نشانہ بنا تھا وہ اس تحریک سے جڑتا چلا گیا۔

سوات سے کوئٹہ تک اور لاہور سے کراچی تک کوچوں اور بازاروں میں جلسے ہونے لگے۔ پشتون کنزرویٹو معاشرے میں خواتین بھی سوشل ٹیبوز توڑ کر مظاہروں میں شریک ہو رہی تھیں۔
دا سنگ آزادی دا، پی ٹی ایم کا ترانہ بن گیا۔

یہ جلسے نان وائلنٹ تھے، نہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا نہ کوئی جلاؤ گھیراؤ۔ اسی دوران پی ٹی ایم کے معروف چہرے ’’محسن داوڑ‘‘ اور ’’علی وزیر‘‘ سیاست میں آکر قوم اسمبلی کے رکن بن گئے۔ شروع شروع میں پی ٹی ایم کے مطالبے فوج نے کھلے دل سے سنے۔ کور کمانڈر پشاور نے ایک تقریب میں کہا کہ منظور ہمارا بچہ ہے، غصے میں ہے تو بھی ہم اسے سنیں گے اور ہوا بھی یہی۔ فوج کے کئی افسروں نے پی ٹی ایم قیادت سے بات کی، مذاکرات کے لیے کمیٹیاں بنائیں۔ ان کی ڈیمانڈز کو جائز اور منظور پشتین کو فنٹاسٹک گائے کہا گیا۔ لیکن بہت جلد یہ رائے بدلنے والی تھی۔

واشنگٹن پوسٹ کے جرنلسٹ حق نواز کہتے ہیں:

2019 میں آرمی چیف باجوہ نے ایک اجلاس بلایا تھا کہ یہ پی ٹی ایم کے ساتھ کیا کیا جائے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے مگر ایک رٹائرڈ افسر نے کہا کہ نہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی بات کو سنا جائے۔ کیونکہ یہ لوگ عدم تشدد پر بات کر رہے ہیں دوسری بات ان کے مسائل ہیں یہ متاثرین کے بچے ہیں۔ یہ طالبان سے، دہشتگردوں اور فوج سے بھی مار کھا چکے ہیں.

جنرل باجوہ نقیب قتل کے تین ماہ بعد وزیرستان پہنچ گئے۔ ایک تصویر میں وہ نقیب کے بچوں کو گود میں لیے والد حاجی خان محمد سے تعزیت کرتے اور انصاف کے لیے بھرپور مدد کا وعدہ کرتے دکھائی دیے۔ سابق سپہ سالار نے اسی روز وزیرستان کے لیے دو میگا پراجیکٹس کا اعلان بھی کر دیا۔ یوں پولیس آفیسر راؤ انوار کے جعلی مقابلے پر عوامی مہر کے بعد عسکری مہر بھی لگ گئی۔ اُدھر سراج الحق اور عمران خان نہ صرف پی ٹی ایم جلسوں میں شریک ہوئے بلکہ اپنے خطاب میں ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔

چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا تھا:

یہ جو راؤ انوار ہے اس نے نقیب اللہ کا ہی قتل نہیں کیا اوروں کا بھی قتل کیا ہے، میں بھی آپ کے ساتھ مل کر ڈھونڈوں گا۔

کو چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف زرداری کہتے ہیں:

راؤ انوار وہ بہادر بچہ ہے ایم کیو ایم سے بچ گیا۔

راؤ انوار تو مل گیا مگر ٹھیک پانچ سال بعد عدالت نے نقیب قتل کے اس ملزم کو۔ سولہ ساتھیوں سمیت۔ ثبوت نہ ہونے پر بری کر دیا۔ نقیب کے والد کو عسکری دلاسہ بھی انصاف نہ دلا سکا اور وہ یہ غم لیے دنیا سے چلے گئے۔

راؤ انوار نے کہتے ہیں:

جھوٹے کیس کا آج انجام ہوگیا۔ یہ بالکل جھوٹا کیس تھا۔ اس کو ایک گولی لگی، اس کا نام نقیب اللہ تھا ہی نہیں، نسیم اللہ تھا۔ اس کا غلط فوٹو میڈیا پر چلوایا گیا۔ اس کے ہمارے پاس اصلی آئی ڈی کارڈز ہیں۔ وہ اشتہاری آدمی تھا۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(ڈاکٹر کلیم عاجز)

ویسے خان صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ راؤ انوار نے ان ہی کے دور میں۔ کسی جیل میں نہیں۔ بلکہ سندھ سرکار کی آشرباد سے اپنے ملیر کینٹ کے گھر میں قید کاٹی تھی۔ ایکٹیوسٹ جبران ناصر نے رہائی کے فیصلے پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس مسخ شدہ انصاف پر زیادہ حیران نہ ہوں، اس نظام میں ہر ادارہ ایک لاش کی طرح سڑ رہا ہے۔

راؤ کی رہائی، پی ٹی ایم کو نئی بلندیوں پر لے آئی۔ کاش کہ پہلے ہی کوئی منصفانہ حل ڈھونڈ لیا جاتا اور بات آگے نہ بڑھتی۔ پی ٹی ایم اپنی ڈیمانڈز پر زور دینے لگی۔ یہ ڈیمانڈز تھیں پشتون علاقوں سے فوج کی واپسی، مسنگ پرسنز کی ریکوری، بارودی سرنگوں کا خاتمہ، پشتونوں سے برابر کا سلوک اور فوجی چیک پوسٹ کا صفایہ۔

سابق آرمی برگیڈئر محمود شاہ کہتے ہیں:

یہ کیا چیز ہے کہ آپ آرمی کو یہاں سے ہٹا دیں؟ کیا آئین پاکستان نہیں ہے؟ اس کے مطابق وہ اس کو استعمال کرتا رہتا ہے۔ آپ کیا ملک کو ڈکٹیٹ کرنا چاہتے ہیں کہ چیک پوسٹیں ہٹائیں یہ ہٹائیں وہ ہٹائیں؟

سابق ترجمان پاکستان آرمی آصف غفور نے کہا:

جب پی ٹی ایم شروع ہوئی تو محسن داوڑ سے میری اپنی ملاقات ہوئی اور اچھی بات چیت ہوئی۔ تین ڈیمانڈز تھیں ان کی۔ پہلی کہ مائنز ہیں۔ صحیح ڈیمانڈ تھی۔ لیکن ان بارودی سرنگوں کو صاف کرتے ہوئے 101 فوجی بھی شہید ہوئے۔

دوسری ڈیمانڈ تھی چیک پوسٹ: کدھر تھے یہ لوگ اس وقت جب ان کے گلے کٹ رہے تھے؟ اور وہاں پر فٹ بال کھیلا جا رہا تھا؟ کدھر تھے یہ محسن داوڑ اور منظور پشتین؟ آج جب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں تو یہ پشتون تحفظ کی بات آ گئی۔ تیسری ان کی ڈیمانڈ تھی مسنگ پرسنز کی یہ لسٹ لیکر آئے۔ وہ لسٹ ابھی کم ہو کر 2500 رہ گئے۔

لیکن پھر خرقمر کا واقعہ ہوگیا۔

May 26, 2019

یہ شمالی وزیرستان کے علاقے بویا کی ایک چیک پوسٹ تھی۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر پی ٹی ایم کارکنوں کا جلوس لے کر دھرنا دینے جا رہے تھے کہ چوکی پر فوجیوں سے جھڑپ ہوگئی۔ گولیاں چلیں اور لاشیں گر گئیں۔ آئی ایس پی آر نے تین افراد کی ہلاکت اور پانچ فوجیوں سمیت 15 افراد کے زخمی ہونے کی خبر دی۔ ترجمان پاک فوج نے ایک ٹوئیٹ میں پی ٹی ایم کو صفوں میں موجود شرپسند لوگوں سے خبردار کیا۔

Raftar Bharne Do

اس واقعے کے فوری بعد علی وزیر اور پھر محسن داوڑ بھی گرفتار ہو گئے۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ جنہیں افغان ایجنٹ کہا جا رہا تھا، انہی کے پاس وزیر اعلی کے پی 25 لاکھ کا چیک لے کر پہنچ گئے۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ اصل کیژوئلٹیز زیادہ تھیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کو بھی رہا کر دیا گیا۔ مگر اس واقعے کے بعد بیٹل لائنز ڈرا ہو چکی تھیں۔

پی ٹی ایم کے ممبرز کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں مگر یہ بات تو طے ہے کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے تھے۔ میڈیا پر پی ٹی ایم جلسے دکھانے پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن جس طرح پانی خود ہی اپنا راستہ بناتا ہے ویسے ہی موبائل فونز سوشل میڈیا پر جلسے لائیو دکھانے لگے۔ شہرت کی ہواؤں میں اونچا اڑتے ہوئے پی ٹی ایم لیڈرز کھلے عام فوج اور آئی ایس آئی کو للکارنے لگے۔ نعروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم کے جلسوں میں افغانستان کے جھنڈے بھی لہرانے لگے۔

پی ٹی ایم کے بانی منظور پشتین نے کہا:

ریاستی اداروں سن لو اگر ایسے ہی ملک کو چلانا ہے تو پھر ہم آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ ہم مزید اس طرح اپنی ماؤں بہنوں کا سامنا نہیں کر سکتے۔

پی ٹی ایم کے سیکریٹری زبیر شاہ آغا نے کہا:

لوگوں کو قتل کیا جاتا تھا، ایک طرف دہشتگردوں کا بیانیہ اور ایک ریاستی بیانیہ تھا۔ لیکن جو پشتون مر رہے تھے ان کا مقدمہ کسی نے سامنے نہیں رکھا۔ لاکھوں گھروں کو مسمار کیا گیا۔ کاروبار اور مارکیٹوں کو گرایا گیا۔

سابق آرمی برگیڈئر محمود شاہ کہتے ہیں:

تمیہں پشتونوں کا نمائندہ کس نے بنایا؟ تم تو لوفر آدمی ہو۔ یہ اسلام آباد چلے گئے تو ان کی گاڑی میں سے افغانستان کے جھنڈے نکلے تھے۔ یہ افغانستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔

پی ٹی ایم کے بانی منظور پشتین نے کہا:

یہاں اس پاکستان میں کسی نے بھی آج تک یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے جلسے میں فلسطین اور کشمیر کا جھنڈا کیوں ہے؟ یہاں کے جلسوں میں امریکا اور برطانیہ تک کے جھنڈے ہوتے ہیں۔ افغانستان سے کس حد تک دشمنی کریں گے؟ پوری دنیا کے جھنڈے آپ کو قبول ہیں افغانستان کا جھنڈا آپ کو قبول نہیں۔

انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری کہتی ہیں:

آپ افغانستان کے جھنڈوں کی بات کرتے ہیں تو پشتون جو سرحد کے اس پار اور اُس پار ہیں تو ان کو ریاستی پرسپیکٹو میں دیکھنا چاہئے۔ جیسے بلوچ ہیں۔ ایران میں بھی بلوچ ہیں اور جگہوں پر بھی ہیں۔ It’s about ethnicity۔

وہ نعرے ریاست کی بہتری کیلیے ہوتے ہیں نہ کہ ریاست کے خلاف۔ جو شخص ریاست کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے سب کہتے ہیں کہ وہ ریاست مخالف ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ریاست مخالف وہ محکمہ ہے جو با رہا امن پسند لوگوں پر جنگ مسلط کرتا ہے۔

کیا پی ٹی ایم فارن فنڈڈ ہے؟

ایک طرف پی ٹی ایم والے آزادی اور پشتونستان کے نعرے لگا رہے تھے تو دوسری طرف ان پر غداری، لسانی تفریق اور غیر ملکی ایجنٹس کی مہریں لگ رہی تھی۔ اب تک یہ سارا کھیل سوشل میڈیا پر کھیلا جا رہا تھا۔ ففتھ جنریشن وار فیئر میں پشتون تحفظ موومنٹ کا مقابلہ پاکستان زندہ باد اور پاکستان تحفظ موومنٹ جیسے اکاؤنٹس کر رہے تھے۔ مگر پھر پہلی بار۔ فوج نے پی ٹی ایم کو ملک دشمن اور فارن فنڈڈ قرار دے ڈالا۔

سابق ترجمان پاکستان آرمی آصف غفور نے مزید کہا:

ہمارے پاس تفصیلات ہیں کتنا پایسا ہے آ پ کے پاس۔ لیکن یہ پہلے آپ کو بتائیں۔ کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ 22 مارچ 2018 کو این ڈی ایس نے ان کو احتجاج جاری رکھنے کے لیے کتنے پیسے دیئے اور یہ پیسے کہاں ہیں؟ اسلام آباد میں جو سب سے پہلا ان کا دھرنا تھا۔ اس کے لیے را نے ان کو کتنے پیسے دیئے؟ 8 اپریل 2018 کو قندھار کا انڈین کونسلیٹ ہے اس میں منظور پشتین کا کون سا رشتہ دار تھا اس کونسلیٹ میں گیا جس میں اس کی ملاقات ہوئی۔ اس میں کتنے پیسے دیئے اور وہ پاکستان کہاں سے آئے؟

چیرمین پی ڈی اے محسن داوڑ کہتے ہیں:

فلور آف دی ہاؤس پر میں نے اسے چیلنج کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ثبوت لے آئیں۔ لیکن اس چیلنج کا پھر جواب نہیں دیا گیا۔ الزامات تو لگانا آسان ہے۔ یہ اب سے نہیں کب سے لگ رہے ہیں۔ جن نے بھی ان کو اپوز کیا ہے ان کو چیلنج کیا ہے۔ ان کے خلاف پھر اسی قسم کے فتوے لگائے ہیں۔ اگر ان کے پاس کچھ ہے۔ ابھی بھی تو وہ لائیں سامنے۔ دنیا کو دکھائیں۔ کیسز بنائیں عدالتوں میں رکھیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے جرنلسٹ حق نواز اس بارے میں کہتے ہیں:

پی ٹی ایم کے لوگ کبھی بسوں میں بھر بھر کر نہیں لائے جاتے۔ جیسے دوسری جماعتوں کے جلسوں میں ایم این ایز گاڑیاں بھر بھر کر لاتے ہیں۔ ان کے جلسوں میں خود جاتے ہیں۔ چندہ ان کا اپنا ہوتا ہے۔ یورپ اور بیرونی ممالک میں جو پشتون ہیں وہاں سے لوگ بھی ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

لیکن یہ دعوے نئے نہیں۔ غداری سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ تو ایوبی دور سے جاری ہے۔ کبھی جی ایم سید، تو کبھی باچا خان، کبھی بھٹو تو کبھی بگٹی اور اب عمران خان۔ خیر۔ منظور پشتین نے جمرود میں پشتون جرگے کا اعلان کر دیا۔ اس پر منتظمین کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ پشاور ہائی کورٹ نے جرگے کی اجازت تو دے دی لیکن پھر 6 اکتوبر 2024 کو حکومت نے ریاست مخالف بیانیے کو جواز بنا کر پی ٹی ایم پر پابندی لگا دی۔

وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کہتے ہیں:

پاکستان کے جھنڈے کو نظر آتش کیا، پاکستان کی ایمبسیز پر حملے کئے۔ پی ٹی ایم کا رابطہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بھی تھا۔ دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ رابطے بھی تھے۔

جرنلسٹ رافیع اللہ کاکر کہتے ہیں:

پاکستان میں اب یہ الزامات مضحکہ خیز بن گئے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق تو نہیں ہے کہ جو بھی ریاست یا ریاستی اداروں کے ساتھ جن کا سیاسی اختلاف آ جائے ان پر یہ الزامات لگتے رہتے ہیں۔ آج جو اقتدار میں ہیں ماضی میں ان پر بھی یہ الزامات لگتے رہے ہیں۔

کیا پی ٹی ایم اسٹیبلشمنٹ کی B ٹیم ہے؟

جہاں کچھ لوگ پی ٹی ایم پر فارن فنڈڈ ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہیں بہت سارے افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے۔ کیونکہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں علی وزیر اور محسن داوڑ نے بھی ووٹ دیا تھا۔

چیرمین پی ڈی اے محسن داوڑ کہتے ہیں:

عدم اعتماد کے ساتھ پی ٹی ایم کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ میں اور علی وزیر اگر پارلیمنٹ میں تھے تو ہم آزاد حیثیت میں تھے ہم پی ٹی ایم کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔ ہاں مگر ہمارا تعلق تھا۔ پی ٹی آئی اور اس وقت کی ملٹری لیڈرشپ جو تھی ان کا جو تعلق تھا اس میں تھوڑا بگاڑ آیا اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ جب میں خرقمر سے نکلا تو میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ ایک تو آپ نے ہمیں مارا پھر آپ کی لیڈرشپ نے اس کو ڈیفینڈ بھی کیا یہ پہلے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ تھوڑی سی ندامت اور پشیمانی تو ہونی چاہئے۔ ورنہ خاموشی اختیار کر لے۔ اس قتل عام کو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے بے شرمی سے ڈیفینڈ کیا۔ ہمیں تو ایک موقع ملا تھا کہ ہم اپنے ساتھیوں کے قتل کا بدلہ لیں۔ تو ہم نے لیا۔ ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ باجوہ اور عمران خان کی آپس میں ناراضگی ہے۔

وائس آف امریکہ کے جرنلسٹ اسد شاہد کہتے ہیں:

اگر آپ کو یاد ہو تو 2018 کے انتخابات کے فوراً بعد علی وزیر اور محسن داوڑ نے عمران خان کو ووٹ بھی دیا تھا۔ کیونکہ عمران خان کو اُس وقت ایک ایک ووٹ کی ضرورت تھی تو انہوں نے اس لیے ووٹ دیا تھا۔

ویسے کیا حسین اتفاق ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ عمران خان سے بدلہ لینے کے لیے اسی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ بنے جس پر وہ پشتونوں کے ساتھ زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پابندی کے بعد اب پی ٹی ایم کا مستقبل کیا ہے؟

سابق آرمی برگیڈئر محمود شاہ مزید بتاتے ہیں:

زیرو۔ باتیں کرتے ہیں کہ ایک ہی افغان۔ افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ ممالک ہیں۔ ایک لائن اس میں کھینچی گئی ہے جسے بارڈر کہتے ہیں جو یہ اقوام متحدہ میں ایکسپٹڈ ہے۔ اس کو متنازعہ بنانے کے لیے یہ جو کوشش کر سکتے ہیں وہ پی ٹی ایم ابھی کر رہی ہے اور میرے خیال میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ پشتون خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں اور پاکستانی ہیں۔

وائس آف امریکہ کے جرنلسٹ اسد شاہد کہتے ہیں:

پی ٹی ایم نے اگر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جرگہ انہوں نے کیا تھا اور اس جرگے میں انہوں نے تمام لوگوں کو شامل کیا تو پھر تو مستقبل تابناک ہے۔ اچھا ہے۔ اگر انہوں نے عمران خان کی طرح سولو فلائٹ لی تو پھر میرے خیال میں مستقبل ٹھیک نہیں ہو گا۔

واشنگٹن پوسٹ کے جرنلسٹ حق نواز مزید کہتے ہیں:

مستقبل ابھی ریاست غصے میں ہے۔ اس سوچ کو جس طرح آپ نے طالبان کے سوچ لوگوں کو دیا تو اس سوچ کو آپ اسلحے کی زور پر ختم نہ کر سکے اب اس سوچ کو آپ نے جوابی سوچ سے ختم کرنا ہو گا۔ اسی طرح جو پشتونوں میں جو احساس ہے وہ نہیں کہ ہم نے ملک سے الگ ہونا ہے۔ لیکن اسی ملک کے اندر ہمیں کیوں وہ حقوق نہیں مل رہے جو دوسرے لوگوں کو مل رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ان لوگوں کو ختم کر دیں لیکن تحریکیں اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔

آپ نے بروس ہوف مین کا نام سنا ہے۔ امریکہ میں انہیں کاؤنٹر ٹیررازم کا فادر کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی مقامی سپورٹ سے ہی جنم لیتی ہے اور یہ سپورٹ صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہے جب مقامی آبادی کی بات سنی جائے، ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ کسی ریاست کے لیے ملیٹنٹس کی لائف لائن کٹ کرنے کا یہ آخری چانس ہوتا ہے۔

ماضی کی غلطیاں ٹھیک کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتا۔ اس کے لیے ذمہ داری لینا ہوتی ہے، غلطیاں نہ دہرانے کا عہد کرنا ہوتا ہے۔ امید اور اعتماد کے ذریعے ہی مستقبل بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کیا ہم ان سب باتوں کے لیے تیار ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں