مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے

فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر

کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اُس کے

جب فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق قلم کی سیاحی سے خوفزدہ تھا، اُس وقت احمد فراز نے یہ نظم محاصرہ لکھی، ایک مشاعرے میں پیش کی اور اُنہیں بھی اٹھا لیا گیا۔

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اٹھالو

 اٹھانے والوں سے کچھ جدا ہے اسے اٹھالو

کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو لہولہان دیکھا تو مجھے احمد فراز کی یہی نظم محاصرہ یاد آ گئی، کیونکہ لاہور کی ہی سڑک تھی، سال تھا 1977 اور تاریخ 9 اپریل، جنرل الیکشن کے بعد بھٹو اپنی کامیابی پر حیران تھے اور اپوزیشن والے پریشان، بھٹو کو جتوانے کیخلاف اُسوقت کی یوتھ سڑکوں پر تھی، دوسری طرف ’’میں نے مانوں‘‘ کی ضد اسوقت بھی عروج پر تھی، ضیا الحق نے اسٹریٹ فائرنگ کا حکم دیا اور احتجاج کرنے والے اسٹوڈنٹس میں سے دو جاں بحق اور نو زخمی ہوئے۔

یہ ماضی یاد آیا تو میں سوچنے لگا کہ آج تو جمہوری دور ہے، ہاں! وہی جمہوری دور جس میں حکمران اپنے لیے آئین کو 26ویں مرتبہ توڑ مروڑ سکتا ہے اور اپنے خلاف اُٹھنے والی آواز کو آج بھی دبا دیتا ہے، تو کیا بدلا ہے؟

احمد فراز نے کہا تھا:

اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے

 تو جسے خبر نہیں، چلیے اُسے خبردار کرتے ہیں کہ تاریخ کیا سکھاتی ہے، تاکہ کوئی اسٹوڈنٹ پاور کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کرے، پاکستان بنانے سے لیکر حسینہ واجد کی حکومت گرانے تک ایوب خاں کا تخت پلٹنے سے لیکر عمران خان کو ہیرو بنانے تک سرحد کے اس پار ہو یا اس پار، اسٹوڈنٹس ہر خطے میں، ہرانقلابی دور میں فائر اسٹاٹر رہے ہیں۔

ایک منٹ، ایک منٹ یہ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو یاد دلا دوں کہ کچھ دن پہلے ہم نے یوتھ ڈائیلاگ کا اعلان کیا تھا اور آپ کو یعنی نوجوانوں کو بلایا تھا، جو سلیکٹ ہوئے تھے ہم نے ان کی رائے کو بھی اس آرٹیکل کا حصہ بنایا ہے، کیونکہ ہمارا ماضی، ہمارے حال سے کچھ جدا نہیں ہے۔ میں آرٹیکل میں آپ کو ماضی یاد دلاتا رہوں گا، اور نوجوان حال بتائیں گےAnd Believe me، اس فارمولے سے ہم فیوچر میں جھانک بھی سکتے ہیں اور سنوار بھی، خیر شروع کرتے ہیں۔

Power of Students

سال 1945 تھا، دسمبر میں ہونے والے انتخابات سر پر تھے اور مسلم لیگ کی عزت داؤ پر، کیونکہ یہ الیکشن پاکستان کے نام پر لڑنا تھا، مسلم لیگ کو کسی بھی حال میں ثابت کرنا تھا کہ وہی مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے، ایسی صورت میں ایک ہی قوم تھی جو اسے سُرخرو کر سکتی تھی، جی ہاں! قومِ یوتھ اور یہاں ہوتا ہے پہلی بار اسٹوڈنٹ پاور کا استعمال! مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان آگے بڑھے اور طلبہ سے مخاطب ہوئے کالجز اور یونیورسٹیز سے باہر نکلیں اور پورے ہندوستان میں پھیل کر مسلم لیگ کی انتخابی مہم کا ساتھ دیں، پھر کیا تھا،  یہ 15 سے 25 سال کے نوجوان ہی تھے جنہوں نے گلی گلی کوچے کوچے مسلم لیگ کا منشور پہنچایا، جلوس جلسے ریلیاں نکالیں اور مسلمانوں کا لہو گرمایا، انتخابی نتائج دیکھ کر نہ صرف کانگریس بلکہ انگریز بھی حیران رہ گئے، آل انڈیا مسلم لیگ نے تیس یعنی مسلم Constituencies کی تمام نشستیں جیت لی تھیں، یہ بات الگ ہے کہ اکثریت ہونے کے باوجود پنجاب میں حکومت کم ووٹ لینے والوں نے اتحاد کرکے بنائی، نہیں نہیں، میں 2024 الیکشن کی بات نہیں کر رہا، 1945 میں بھی یہی ہوا تھا۔

ایک تصویر ہے جس میں قائداعظم طلبہ کے ساتھ زمین پر بیٹھے انہیں موٹیویٹ کر رہے ہیں، کیونکہ قائد سمجھتے تھے کہ پاکستان کے نام پر الیکشن جتوانے والے اسٹوڈنٹس پاکستان بنانے کی بھی پاور رکھتے ہیں، مگر باغی بھی یہی نوجوان بنتے ہیں،  اب غلط کہیے یا صحیح، مگر اُس دن، نومولود پاکستان میں پہلی دراڑ ڈالنے والا بھی ایک اسٹوڈنٹ ہی تھا۔

قائداعظم نے جلسے سے خطاب میں اعلان فرمایا تھا:

جلسے سے خطاب، قومی زبان اردو ہوگی۔

قائداعظم ڈھاکہ میں خطاب کر رہے تھے، اعلان کیا کہ پاکستانیوں کی قومی زبان اردو ہوگی، اعلان ہوتے ہی حمایت میں تالیاں بجیں تو ساتھ ہی مخالفت میں شور بھی اٹھا اور یہ تنقید کرنے والا کوئی اور نہیں، ڈھاکہ یونیورسٹی کا 28 سالہ اسٹوڈنٹ اور مسلم لیگ کا سرگرم کارکن شیخ مجیب تھا، جس نے اپنے گروہ کے ساتھ اس اعلان پر اس قدر نعرے بازی کی کہ پولیس اِن لڑکوں کو گھسیٹتی ہوئی پنڈال سے باہر لے گئی اور یہیں سے آغاز ہوا بنگالی قوم پرست سیاست کا، پھر جنوری 1948 میں ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ بنائی گئی اور مجیب الرحمان کو اس کا سیکریٹری بنا دیا گیا۔ آرگنائزیشن میں شامل ہونے والے باقی طلبہ میں وہ بھی تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا، کہا جاتا ہے یہ لوگ ماضی میں بھی خواجہ ناظم الدین کی مخالفت اور حسین شہید سہروردی کی حمایت کیا کرتے تھے، بہرحال! بنگالی زبان کی تحریک زور پکڑنے لگی، کانگرس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ فروری 1948 میں کانگرسی رکن، دھریندر ناتھ دتہ نے بنگالی زبان کے لیے اسمبلی میں ایک ترمیم پیش کی۔ جواب میں لیاقت علی خان نے کہا، پاکستان دس کروڑ مسلمانوں کے مطالبے پر وجود میں آیا ہے اور ان دس کروڑ کی قومی زبان اردو ہے، ضروری ہے کہ قوم کی زبان بھی ایک ہی ہو اور یہ زبان اردو کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

 ہاں مگر ہماری سرکاری زبان گوروں کی عطا کردہ ہے، ویسے تو  اور بھی بہت سی باقیات انہی کی ہیں، خیر زبان کا معاملہ اپنی جگہ، مگر آنے والی دہائیوں میں مشرقی پاکستان کے ساتھ جو زیادتیوں کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے نتیجے میں پاکستان کا بازو کٹ کر الگ ہو گیا، 1971 میں کیسے بنگلہ دیش بنا اس پر ہم نے آرٹیکل لکھے ہیں آپ پڑھ سکتے ہیں۔

مگر امپورٹنٹ یہ ہے کہ پاکستان بنانے والے اسٹوڈنٹس تھے تو مشرقی پاکستان میں زیادتیوں کے خلاف اُٹھنے والے بھی اسٹوڈنٹس ہی تھے، اور پھر بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کو اقتدار سے رَفو چکر کرانے والے بھی اسٹوڈنٹس ہی تھے۔

ایوب بمقابلہ اسٹوڈنٹس

ابھی پاکستان صرف دس سال کا ہی تھا کہ کچھ مخصوص حلقوں نے نظر لگا دی صدر اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لا لگاکر جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا، نیا ملک تھا، نئے لوگ تھے، مگر ایوب خان کو ایک قوت سے خطرہ تھا، وہ جنہوں نے ابھی دس سال پہلے ہی ہند پر کمند ڈال کر دنیا کے نقشے پر پاکستان کو ابھارا تھا، وہ جنہیں قائداعظم نے ملک کی بنیادیں قرار دیا تھا۔ وہ جنہیں مہدی حسن نے کلیم عثمانی کے لفظوں میں اصل داستاں کہا تھا، ایوب کو خطرہ تھا کہ کہیں وہی پاسبان اس کے اقتدار کی بنیادیں نہ ہلا دیں، جی ہاں، ! وہ اسٹوڈنٹس ہی تھے، جن سے نمٹنے کے لیے اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک سال بعد ایوب خان نے طلبہ تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے دیا، یہ پہلی بار ہوا تھا اور اسٹوڈنٹس کے اندر جیسے لاوا پک رہا تھا، اسی دور میں ایوب خان نے تین سالہ ڈگری کورس کے نام سے تعلیمی پالیسی بنائی، جس میں طلبہ کو سیاست سے الگ کرنے کے لیے باقاعدہ ایک اور گیم کھیلا گیا، سات نکاتی اس پالیسی کے پانچویں نکتے میں لکھ دیا کہ طلبہ تنظیمیں سیاسی ایکٹیوٹی کا حصہ نہیں بنیں گی، یوں سمجھ لیجیۓ کہ اُس وقت کا حاکم کولونیل ماسٹرز کے راج کو اپنی میراث سمجھ رہا تھا، مگر انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکر آنے والے نئی غلامی نا منظور کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اگست 1961 میں طلبہ نے ڈھاکہ میں وزیر تعلیم فضل القادر چوہدری کا جلسہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا، ویسے تو اپنا کراچی ہی ہمیشہ سے فائر اسٹارٹر رہا ہے مگر آگے چل کر آپ کو پتہ چلے گا کہ پنڈی میں چلنے والی گولی سے ڈھاکہ میں دھماکا کیسے ہوا؟ اور پھر ایک اسٹوڈنٹ کی لاش نے بھٹو کو کیسے ہیرو بنادیا؟ دراصل اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایوب کو کئی نوجوانوں کی جانیں لینا پڑیں، 1962 میں حسین شہید سہروردی کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا، ڈھاکہ سمیت پورے ہی بنگال کے طلبہ بھڑک اٹھے، ستمبر شروع ہوا اور حاکم وقت ستمگر بن گیا، 17 سے 22 ستمبر تک ڈھاکہ، جیسور اور چٹاگانگ میں اسکول کالجز کے طلبہ کے جلوسوں پر پولیس نے فائرنگ کرکے 2 جانیں لے لیں اور 400 کو زخمی کر دیا، یہ سب کچھ ہورہا تھا اور ایوب خان یورپ میں موسم کے مزے اڑا رہا تھا۔

60 کی اُس دہائی میں پاکستان نے صرف 65  کی جنگ نہیں لڑی، بلکہ ملک کے اندر ایک جنگ پہلے سے جاری تھی، طلبہ بمقابلہ ایوب، بڑا جرنل بنا پھرتا تھا، جو بچوں سے لڑتا تھا، ہاں واقعی! آپ واقعات گنتے جائیں، 8دسمبر کو پولیس نے کراچی میں طلبہ کے جلوس پر فائرنگ کرکے ایک اسٹوڈنٹ کو شہید کیا اور بہت سے زخمی ہوئے، پھر 11 دسمبر کو پشاور میں فائرنگ کرکے ایک طالب علم کو مار ڈالا، 65 کی جنگ کی وجہ سے طلبہ تنظیم نے بریک لگائی مگر تاشقند معاہدے کے بعد طلبہ باہر نکلے تو پھر سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی، 13 جنوری 1966 کو لاہور میں چار طلبہ کو پولیس نے گولیاں مار کر شہید کر دیا، احتجاج پنجاب بھر میں پھیل گیا، لاہور میں کرفیو لگ گیا، یہ طلبہ کا خون ہی تھا جو ایوب مخالفت میں بھڑکتی آگ کا ایندھن بن رہا تھا، مگر جنرل سمجھ نہیں پا رہا تھا، ایک کے بعد ایک طالب علم کو موت کی نیند سلائے جا رہا تھا، پھر وہ ہوا جس نے ایوب اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔

7نومبر1968

جیسے کہ میں نے کہا تھا کہ پنڈی میں چلنے والی گولی نے ڈھاکہ میں دھماکا کیا، راولپنڈی کی سڑک پر ایک طالب علم عبدالحمید پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوکر خون میں لت پت پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا، گولی چلنےسے پہلے یہ ہوا تھا کہ طلبہ کا ایک گروپ طور خم سے واپس پنڈی آ رہا تھا، پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ پہنچتے ہی پولیس نے اُنہیں روک لیا، اور الزام لگایا کہ وہ لنڈی کوتل کی باڑہ مارکیٹ سے سامان اسمگل کر رہے ہیں، پولیس نے اُن کا سامان ضبط کر لیا، طلبہ مشتعل ہوئے، ہنگامہ شروع ہوا، اور پولیس نے گولی چلا دی، جس سے طالب علم عبدالحمید شہید ہو گیا اور کچھ ہی دیر بعد اُس مقام کے قریب پہنچ کر ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر کرتے ہوئے اپنا گریبان پھاڑ کر کہا، مارنا ہے تو مجھے مارو، میرے نوجوان کو کیوں مار رہے ہو، یہاں تک کی کہانی تو قدرت اللہ شہاب نے بتائی، مگر اِس سے آگے کی کہانی بھٹو دور کے ساتھی معراج محمد خان نے سنائی۔ وہ 2012 میں روزنامہ نئی بات میں ایک انٹرویو دے رہے تھے جس نے ٹویسٹ پیدا کر دیا، اُنہوں نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو تو ایوب خان کی ہیبت سے بہت ڈرتے تھے، وہ باہر نکل کر یوں تقریر کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے، خان صاحب بتاتے ہیں کہ ایسے میں ہم نے ایک منصوبہ بنایا، جس میں ن لیگ کے پرویزرشید جو اُس وقت گورڈن کالج میں پڑھتے تھے اُنہیں بھی شامل کرلیا۔ پھر اعصام نامی اپنے ایک دوست کو جو کسٹم میں ہوتا تھا اطلاع دی کہ کالج کا ایک ٹرپ باڑہ سے کچھ سامان خرید کر واپس آ رہا ہے، وہ اُن لڑکوں کو پکڑ کر دو چار تھپڑ لگادے۔ باقی ہم سنبھال لیں گے، کسٹم آفسر نے ویسا ہی کیا، معراج محمد خان بتاتے ہیں، کہ جب طلبہ اور پولیس میں ہنگامہ شروع ہوا تو میں نے بھٹو سے کہا اب سڑک پر آ کر تقریر کرو، اور بھٹو اس تقریر کے بعد طلبہ کے ہیرو بن گئے۔

دوسری جانب ایوب خان کی کابینہ کے رکن ایس ایم ظفر اپنی کتاب تھرو دی کرائسس میں لکھتے ہیں اگر کسٹم حکام طلبہ کا ضبط کیا ہوا مال دینے میں دیر نہ لگاتے تو بات اتنی نہ بڑھتی۔ خیر! اس واقعے کے بعد جتنی تیزی سے مغربی پاکستان پروٹیسٹس کی لپیٹ میں آ رہا تھا ڈھاکہ میں بھی اسٹوڈنٹس احتجاج کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، طلبہ تنظیموں نے مل کر آل پاکستان اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بنا ڈالی، جس کے ایکشنز مشرق سے مغرب تک پھیل گئے، ایوب ایڈمنسٹریشن کو ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرنا پڑگئے راولپنڈی میں کرفیو لگا دیا گیا، ایوب مخالف طلبہ تحریک آؤٹ آف کنٹرول ہو چکی تھی، اگر آپ رفتار کے مستقل پڑنے والے ہیں تو تاریخ اچھی طرح سمجھتے ہوں گے کہ جب جب آمر کو قابو کیا جاتا ہے تو وہ کسی بدکے ہوئے بیل کی طرح ادھر ادھر ٹکریں مارنا شروع کر دیتا ہے، یہی اُس وقت بھی ہوا، مشرق سے مغرب تک پاکستان میں طلبہ نشانے پر تھے، 1968 میں صرف نومبر اور دسمبر میں 69 طلبہ شہید، ڈیڑھ ہزار زخمی اور 6ہزار سے زائد گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دئیے گئے، مگر طلبہ تحریک نہیں رُکی، اب ان کا نعرہ تھا امریکی سامراج نا منظور، آسان کر دیتا ہوں۔ اُس وقت بھی امریکی غلامی نامنظور کا نعرہ لگا تھا، خیر! طلبہ تحریک ایوب کے اقتدار کو پہلے ہی کھوکھلا کر چکی تھی، سیاستدانوں نے تو بس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا دیا اور ایوب کا تخت الٹ گیا، اب آپ ایک چیز نوٹ کیجئے، یہاں طلبہ میں یونٹی تھی، حالانکہ مشرقی پاکستان میں زیادتیوں کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے تھے مگر پورے ملک کی یوتھ ایک تھی۔ کیا آج ہم ایک ہیں؟

ضیاء بمقابلہ یوتھ

انسان اپنے ماضی سے سیکھتا ہے، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ضیاء الحق نے بھی سیکھا، اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز یعنی اپنی یوتھ کے حمایتی بنیں گے، مگر صرف اس کے جو اُن کے مارشل لاء کا ساتھ دے گا اور کئی پروفیسرز اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق نے جمعیت کا بڑا ساتھ دیا، دوسری طرف پی ایس ایف کو کس طرح نشانہ بنایا، یہ آپ ہمارے آرٹیکل نجیب کون میں پڑھ سکتے ہیں، جس طرح زبان اور امتیازی سلوک پر بنگالی قوم پرست تنظیم نے جنم لیا تھا ویسے ہی کراچی میں مہاجر اسٹوڈنٹس اکٹھے ہو رہے تھے، شروع میں تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ففٹی پر گھومنے والا یہ لڑکا کیا کر رہا ہے، مگر اپنے گھر سے لیکر دوست تک گلی محلے سے لے کر شہر بھر تک اس کا پیغام جنگل میں آگ کی طرح پھیلا اور ایک نئی اسٹوڈنٹ تنظیم اے پی ایم ایس او وجود میں آئی، یہاں ایک سبق ملتا ہے، یہ جو پندرہ سے 25 سال کا ذہن ہوتا ہے نا، یہی 30 سے 50 سال والوں کو مجبور کرتا ہے کہ اپنے بلیف پیٹرن توڑیئے اور ساتھ دیجیے کسی نئے کا، کسی تبدیلی کا، ہاں بالکل! بہت سے گھروں میں عمران خان کو ووٹ دینے کے لیے یوتھ نے ہی اپنے والدین کو مجبور کیا۔

خیر ہم واپس ضیا دور میں چلتے ہیں، جیسے کہ میں نے کہاکہ ضیا کی پلاننگ ماضی سے کچھ الگ تھی اُس نے اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی نوجوان سے مقابلہ کرنے کے لیے اُنہیں توڑ دیا تھا رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر، جی ہاں! یہ وہ دور تھا جب یوتھ ایک دوسرے کے لیے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہو گئی تھی اور میرے خیال میں اس کے بعد سے آج تک ایک نہیں ہو سکی، اگر یہ کہا جائے کہ یوتھ ایکٹیوزم کی جڑیں کاٹنے والا ضیا تھا، تو غلط نہ ہو گا، اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے والے ضیا الحق نے فائنلی، فروری 1984 میں طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی کہ نہ طلبہ سیاست میں ہوں گے نہ آواز اٹھائیں گے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کی سوچ اَبھی کی نہیں تھی، پروفیسر عزیز الدین لکھتے ہیں، کہ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے پنجاب میں طلبا کو درس دیا گیا تھا کہ تعلیم حاصل کرکے ملازمت کریں۔ عزت سے روٹی کمائیں اور سیاست کی طرف نہ جائیں، جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ طلبہ اپنے شہر اور ملک میں کم اور اپنی حالت سدھارنے میں زیادہ دلچسپی لینے لگے، لگ رہا ہے ناں جیسے آج کی ہی بات ہو۔

اقتدار سے چمٹے سیاستدان ہوں یا عدالت کے میزان صحافی ہوں یا مولوی صاحبان سب ہی ہوئے ایک دربار کے غلام یہ ضیا دور کی بات کر رہا ہوں، باقی آپ جو سوچ رہے ہیں وہ بھی غلط نہیں ہے، خیر! اسی لیے تو احمد فراز نے کہا تھا:

میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا

 جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے

 مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی

 جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

، مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پر دہرا نقاب رکھتا ہے

میں آج کے دور کی بات کروں تو یوتھ ایکٹیوزم کی اجازت نہیں، کیوں؟ سڑک پر آنے والے طلبہ کو ڈنڈے مار کر خاموش کرادیا جاتا ہے؟ کیوں؟ آج جمہوری دور ہوتے ہوئے بھی طلبہ تنظیموں سے پابندی نہیں ہٹائی جاتی؟ کیوں آج لوکل باڈیز الیکشن نہیں کرائے جاتے؟

نوجوانوں کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی پاور انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں، میں نے آج کے اس آرٹیکل میں پاکستانی یوتھ کو ایک ایسا محاصرہ دکھانے کی کوشش کی ہے جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں پر انہیں دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ان کی آنکھوں پر ڈیوائڈ اینڈ رول کی پٹی باندھ دی گئی ہے، انہیں مذہب، مسلک، لسانیت کے نام پر ڈیوائڈ کر دیا گیا ہے، یاد رکھیے خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے، یوتھ کو یہ محاصرہ توڑ کر آگے آنا ہو گا، لیڈ کرنا ہو گا۔

احمد فراز محاصرہ میں کہتے ہیں:

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم

مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

شیئر

جواب لکھیں