سینیئر سیاست دان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو ہم نے ایک بار پھر پوڈ کاسٹ میں شرکت کی دعوت دی تاکہ ان کی سیاسی وابستگی، ملکی سیاست کے موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات پر خیالات جان سکیں۔ اس دوران کئی اور اہم امور بھی زیرِ بحث آئے جن میں عمران خان اور ۹ مئی فسادات سے متعلق ان کی آرا بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

محمد زبیر نے اپنی موجودہ سیاسی حیثیت کے بارے میں بتایا کہ وہ اب مسلم لیگ (ن) کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں خود کو پارٹی سے الگ کر لیا تھا۔ زبیر صاحب نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ فی الحال کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں، البتہ انہوں نے مستقبل میں کسی جماعت میں شمولیت یا اپنی پارٹی بنانے کے امکانات سے انکار نہیں کیا۔

عمران خان کی سیاسی کامیابیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے زبیر صاحب نے کہا کہ وہ اپنی ’’کامیاب حکمت عملی‘‘ کو تبدیل کرنے کے خواہاں نظر نہیں آتے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کی دلچسپی محض اقتدار حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ تاریخ میں اپنے کردار کو یادگار بنانے میں ہے۔

ملک میں جاری سیاسی کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے سابق گورنر نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی اور بر وقت انتخابات نہ کرانے کو اس صورتحال کا بنیادی سبب قرار دیا۔

زبیر صاحب نے ملک میں آزاد، شفاف اور منصفانہ انتخابات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اگلے 12 ماہ میں انتخابات ہونے چاہییں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ کبھی کبھی مفاہمت بہتر نتائج دیتی ہے۔

اپنے خلاف ہونے والی کردار کشی کی سازشوں کے بارے میں زبیر صاحب نے کہا کہ وہ اس معاملے میں کسی کو ذمّہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ تاہم، انہوں نے اشارہ کیا کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ تھے۔

انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے پس پردہ عوامل پر بھی روشنی ڈالی۔ زبیر صاحب کے خیال میں اس تحریک میں اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات بڑھنے کی وجوہات میں عمران خان کی کارکردگی، فارن پالیسی اور آئی ایس آئی چیف کی تقرری پر تنازع شامل تھے۔

زبیر صاحب نے نواز شریف اور جنرل باجوہ کی مبینہ ملاقات کے بارے میں اپنے پہلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ تصدیق نہیں کر سکتے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضروری تھی۔

اگر آپ پاکستانی سیاست کی باریکیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو یہ پوڈ کاسٹ مکمل دیکھیے۔ محمد زبیر کا تجزیہ آپ کو پاکستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کر دے گا۔

شیئر

جواب لکھیں