لاہور کے راوی روڈ پر ایک کار ایکسیڈنٹ ہوا۔ کار سوار کافی زخمی ہو گیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر اُس کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ ایپینڈکس کا آپریشن، ڈیڈی کا انتقال، السر کی تکلیف اور اب یہ منحوس کار ایکسیڈینٹ۔ جو اس کی سیلف اسٹیم ہی نہیں چہرہ بھی زخمی کر چکا تھا۔
اور یہ کوئی معمولی چہرہ تو تھا نہیں۔ ایک زمانہ اس چہرے کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتا۔ اُسے دیکھ کر بازاروں میں بھگدڑ مچ جاتی، سڑکوں پر ٹریفک جیم ہو جایا کرتا۔ اس کی تصویریں کالج کی لڑکیاں کتابوں میں لیے پھرتیں اور اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتیں۔ لڑکے اس کا ہیئر اسٹائل اور looks کاپی کرتے، دیواروں پر اس کی تصویروں کے فریمز لگائے جاتے، ایڈورٹائزر اور فوٹوگرافرز کیمرا لیے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتے۔
اور یہ سب کیوں نہ ہوتا؟ وہ چہرہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو، وحید مراد کا چہرہ تھا۔
جی ہاں، وہی وحید مراد جو اپنی بڑی بڑی مخمُور آنکھوں سے جب کسی کو دیکھتے اور ٹپیکل اسٹائل میں بھنویں اچکاتے تو دلوں کی دھڑکن رک جاتی۔ وہ اُس دور کے نوجوانوں کے لیے شاہ رخ خان اور ٹام کروز تھے۔ اُن کے بولنے کا انداز، قیامت کی ڈریسنگ اور رومانوی اسٹائل میں کچھ ایسی کشش تھی کے ہیروئنز کے شوہر حسد کی آگ میں جلنے لگتے۔
پھر ایسا کیا ہوا کہ وحید مراد کی یہی اسٹرینتھ اُن کی سب سے بڑی ویکنیس بن گئی۔ جو 1965 سے پورے دس سال فلم انڈسٹری پر راج کر رہے تھے۔ انہیں ایک وقت اخبارات ’’چلا ہوا کارتوس‘‘ کہنے لگے! انیس سو اسی کے سورج نے انہیں کیوں ایک ناکام، مایوس اور جھنجلائے ہوئے شخص کے طور پر دیکھا؟
آج ہم آپ کو یہ سب بتانے والے ہیں کیوں کہ وحید مراد کی اپنی زندگی کسی فلمی کہانی سے کم نہیں۔ ایک ایسی فلم جہاں کامیابی ہیرو کے قدم تو چومتی ہے مگر ناکامی بھی پاوں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ اس کہانی میں عروج بھی ہے، زوال بھی مزاح بھی ہے، ڈرامہ بھی۔ اس میں ٹریجیڈی بھی ہے اور پھر کم عمر وفات کا romanticism بھی۔ تو پھر ہم چلتے ہیں واپس لاہور۔
ایکسیڈنٹ کے بعد وحید مراد کو کئی ہفتے آرام کرنا پڑا۔ زخم تو بھر گیا مگر حسین چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔ ایک ہیرو سے بھلا یہ کیسے برداشت ہوتا۔ وہ اپنے سات سالہ بیٹے عادل کو لے کر پلاسٹک سرجری کے لیے کراچی پہنچ گئے۔ اُن کی بیوی اور بیٹی دنوں امریکا میں تھیں۔
یہ سرجری بڑی اہم تھی۔ چند ماہ پہلے السر کے complicated operation کے بعد۔ جب وحید مراد پی ٹی وی کے سلور جوبلی شو میں شریک ہوئے، تو خاصے کمزور اور تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ انہیں یہ بھی سننے کو ملا کہ وہ بوڑھے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اور اب تو چہرے پر ایکسیڈنٹ کا نشان بھی نمایاں تھا۔
مگر شاید اس سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وحید مراد نے خود کو ایک ہی روپ میں freeze کر لیا تھا۔ انہیں بڑی فلمیں ملنا بند ہو چکی تھیں۔ نہ انہیں ٹاپ کی ہیروئنز کے ساتھ کام ملتا اور نہ ہی مرکزی کردار۔ ان کے contemporaryہیروز محمد علی اور ندیم اس دوڑ میں کہیں آگے نکل چکے تھے۔ انہیں جونیئر ایکٹرز شاہد اور غلام محی الدین کے ساتھ سائڈ رول کی آفر ہو رہی تھی۔ اب تو اُن کا ڈرائیور بدر منیر بھی پشتو فلموں کا سُپر اسٹار بن چکا تھا۔ وحید مراد پر ایسا وقت بھی آیا کہ انہیں کوئی اور کام نہ ملا تو وہ اپنے ڈرائیور کی پشتو فلم میں کام کرنے لگے۔
جس فلم انڈسٹری پر وہ چھائے ہوئے تھے، اب وہی انہیں نظر انداز کر رہی تھی۔ چہرے کی سرجری سے ایک رات پہلے 23 نومبر کو وحید مراد نے بیٹے کی سالگرہ منائی، اسے بہت سے تحفے دیے اور اپنے کمرے میں سونے چلے گئے۔ اگلے روز جب دن چڑھے کمرے کا دروازہ نہ کھلا تو اسے توڑنا پڑا۔ اندر وحید مراد فرش پر اوندھے منہ پڑے تھے، ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہو چکا تھا۔
1983 میں اپنے انتقال سے دو سال پہلے انور مقصود کو انٹرویو دیتے ہوئے وحید مراد تھوڑا جذباتی ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں نہ رہا تو میری فلم کا گانا میری لائف اسٹوری ہوگا۔
لیکن وحید صاحب! آپ کا اندازہ بالکل غلط تھا۔ بھلا دل میں اتر جانے والوں کو بھی کبھی موت آیا کرتی ہے۔ چالیس برس بعد وحید مراد آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں تبھی آج ان کا ذکر کر رہے ہیں۔ اور یقین نہیں آتا تو یامین بھائی سے پوچھ لیجیے، جن کے سر کے سارے بال سفید ہو چکے ہیں مگر ان سے بڑا فین شاید ہی کوئی اور ہو۔ ان کی کراچی میں پان کی تین دکانیں ہیں۔ مگر سب سے پرانی دکان پر وحید مراد کا پوسٹر پچھلے چالیس سال سے لگا ہوا ہے۔ یامین بھائی نے یہ پوسٹر ریگل سے خریدا تھا، جب وہ بیس سال کے تھے۔ اُس وقت وہ پان نہیں لگاتے تھے بلکہ بال بنایا کرتے تھے، وہ اپنے چچا کی دکان پر ہیئر ڈریسر تھے۔ وحید مراد کٹ بناتے بناتے اُن پر ایسے عاشق ہوئے کہ اپنی الگ دکان کھول لی۔ مگر جس روز یامین بھائی کو اپنے ہیرو کی موت کی خبر ملی تو قینچی ہاتھ سے گر پڑی۔ انہوں نے نہ صرف دکان بیچ دی بلکہ پروفیشن ہی بدل ڈالا۔
وحید مراد نے مختصر زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا۔ مگر یہ دکھ ضرور ہے کہ اگر وہ وقت اور حالات دیکھتے ہوئے اپنا مزاج تھوڑا سا بھی بدل لیتے تو اور بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ چلیں ان کی زندگی کی کہانی ان کے والد سے شروع کرتے ہیں۔
وحید مراد کا بچپن
نثار مراد پیشے سے وکیل تھے مگر انہیں بچپن سے ہی سینیما بہت پسند تھا۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ وہ جب 19 سال کے ہوئے تو بمبئی چلے گئے اور ایک فلم ڈسٹریبیوشن کمپنی جوائن کر لی۔ وہاں رہتے ہوئے انہیں راجستھان کی ایک کرسچن نرس پسند آ گئی۔ نرس مسلمان ہوئیں، شیریں نام رکھا اور شادی کر کے نثار صاحب کے ساتھ کراچی چلی آئیں۔ یہاں 20 اکتوبر 1938 کو ان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام وحید مراد رکھا گیا۔
اسکول جانے کا وقت آیا تو مری کے مشہور لارنس کالج میں وحید مراد کا داخلہ ہو گیا۔ اکلوتا بیٹا ہزار میل دور اکیلے رہے گا؟ ماں باپ سے یہ بھلا کیسے برداشت ہوتا، وہ وحید مراد کو واپس کراچی لے آئے۔ یہاں صدر کے Marie Colaco اسکول میں داخلہ کرا دیا۔ 1954 میں وحید مراد نے میٹرک کرنے کے بعد S.M. Arts College سے بی اے مکمل کیا۔
Cinematic Debut
نثار مراد اب کراچی میں فلموں کے بڑے ڈسٹریبیوٹر بن چکے تھے۔ ان کے گھر فلم انڈسٹری کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ یہ ماحول دیکھ کر وحید مراد کو بھی فلم میکنگ کا شوق ہوا۔ فلم اسٹڈیز کے لیے University of California میں داخلہ ہوا مگر ایک بار پھر ماں باپ کی محبت آڑے آ گئی۔ نثار مراد نے بیٹے کو کراچی میں تعلیم جاری رکھنے کا کہا اور ساتھ ہی فلم پروڈکشن کمپنی کھولنے میں مدد دی۔
آپ کو اندازہ ہو رہا ہوگا کہ وحید مراد کی پرورش کافی عیش اور آرام میں ہوئی تھی۔ ان کا رہن سہن، لباس اور کسی حد تک مزاج بھی ایک ہائی کلاس فیملی کے ’’پیپمپرڈ چائلڈ‘‘ جیسا تھا۔ ان کی اپنی اسپورٹس کار تھی جس میں وہ کالج جایا کرتے تھے۔ پھر 22 سال کی عمر میں فلم پروڈکشن کمپنی کے مالک بھی بن گئے۔ انگلش لٹریچر، کرکٹ اور موسیقی کا شوق شروع سے ہی تھا۔ فرینڈ سرکل بھی وسیع تھا جس میں لڑکیوں کی بڑی تعداد تھی۔
تو وحید مراد کی کمپنی ’’فلم آرٹس‘‘ 1960 میں بنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی پہلی دو پروڈکشنز میں انہوں نے ادا کاری نہیں کی۔ وہ ساتھ ساتھ کراچی یونیورسٹی سے English Literature میں Masters کرتے رہے۔ ذرا سوچیں، ایک وہ دور تھا جب وحید مراد جیسا اسٹوڈنٹ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا چھوڑ کر کراچی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ کیا دور تھا وہ!
وحید مراد اسکول کالج کے ڈراموں میں چھوٹی موٹی ایکٹنگ کیا کرتے تھے۔ مستقبل کے اس سپر اسٹار نے ابھی تک ایکٹنگ کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا۔ 1962 میں وحید مراد کو فلم ’’اولاد‘‘ میں short role کی آفر ملی جو انہوں نے قبول کرلی۔ فلم ہٹ ہو گئی جس کے بعد وحید مراد نے ’’دامن‘‘ اور ’’ممتا‘‘ میں بھی کام کیا۔ مگر وہ اب تک کسی فلم کے ہیرو نہیں بنے تھے۔
فلم اسٹار درپن کے نخروں سے وحید مراد کی فلمیں لیٹ ہونے لگی تھیں جس کی انہیں بڑی پریشانی تھی۔ یہاں زیبا نے انہیں وہ مشورہ دیا جس سے ان کی کایا پلٹ گئی۔ زیبا بولیں کہ ویدو تم خود ہیرو کا رول کیوں نہیں کرتے؟ یوں اپنی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں وحید مراد پہلی بار ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ فلم ان کے جگری دوست پرویز ملک نے ڈائریکٹ کی تھی۔ ایک اور دوست سہیل رعنا نے میوزک دی جبکہ مسرور انور نے گیت اور مکالمے لکھے۔
ہیرا اور پتھر ریلیز ہوتے ہی کامیاب ہو گئی اور وحید مراد اسٹار بن گئے۔ فلم کی ہیروئن زیبا تھیں جنہوں نے ’’ویدو‘‘ کو پروڈیوسر سے ہیرو بننے کا قیمتی مشورہ دیا تھا۔ لیکن آپ حیران ہوں گے کہ ایک وقت ایسا آیا جب زیبا ہی نہیں ٹاپ کی دوسری ہیروئنز نے بھی وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ابھی آپ کو بتاتے ہیں۔
Wary Husbands
دراصل وحید مراد کی مقبولیت بہت سے شوہروں کے لیے ایک درد سر بن چکی تھی۔ زیبا نے ادا کار محمد علی سے شادی کے بعد ان کے علاوہ کسی بھی ہیرو کے ساتھ کام کرنا بند کر دیا۔ یوں انڈسٹری کی یہ مشہور جوڑی ٹوٹ گئی۔ زیبا 9 فلموں میں وحید مراد کے ساتھ ہیروئن آئیں جن میں سے بیشتر باکس آفس پر کامیاب رہیں۔ اُدھر شبنم کے شوہر روبن گھوش کو وحید مراد کی ’’بولڈنیس‘‘ پسند نہ تھی۔ انہوں نے اپنی بیوی کو چاکلیٹی ہیرو کے ساتھ کام کرنے سے روک دیا۔ وحید مراد کا رومینٹک اسٹائل ادا کارہ نشو کے شوہر انعام درانی کی آنکھوں میں بھی کھٹکنے لگا تھا۔ یوں نشو نے بھی میرج لائف بچانے کے لیے وحید مراد کے ساتھ کاسٹ ہونے سے انکار کر دیا۔ ویسے یہ سارے مسائل شوہروں کے تھے، ہیروئنز ہمیشہ وحید مراد کے ساتھ کام کرنے میں comfortable رہیں۔
Chocolate Hero
اب ذرا یہ کھوج لگاتے ہیں کہ یہ چاکلیٹی ہیرو کا ٹائٹل آیا کہاں سے؟ وحید مراد کو یہ ٹائٹل 1960 میں ہی مل چکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ وہ ایک رومینٹک ہیرو تھے اور رومینس کی دنیا میں چاکلیٹ محبت، موڈ اور ذائقے کی علامت ہے۔
وحید مراد کے نام کے ساتھ چاکلیٹی ہیرو لگائے جانے کی ایک وجہ ان کا Complexion بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا رنگ سانولا تھا۔ اس دور میں کسی کے رنگ کو جج کرنا ’’ریس ازم‘‘ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے ہو سکتا ہے چاکلیٹی ہیرو کہلانے کی وجہ وحید مراد کا tanned complexion ہو۔
اپنے ایک انٹرویو میں وحید مراد نے کہا تھا کہ انہیں اپنے سانولے رنگ سے انکار نہیں مگر چاکلیٹ سے ملانا تو بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، نہ صرف ساری زندگی بلکہ موت کے بعد بھی ان کے نام کے ساتھ ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ لگا رہا۔ یہاں تک کہ ان کی قبر کے کتبے پر بھی آج یہی الفاظ درج ہیں۔
TEAM OF FOUR
وحید مراد کے دوست ان کی بڑی اسٹرینتھ تھے۔ یہ چاروں دوست مل کر بولی وڈ میں قیامت ڈھا رہے تھے۔ ہدایت کار پرویز ملک سے وحید مراد کی دوستی گریڈ فور میں ہوئی جو کالج اور اس سے بھی آگے تک برقرار رہی۔ امریکا سے فلم میکنگ سیکھ کر کراچی آتے ہی پرویز ملک نے اپنے دوست کی پہلی چار فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ دوسرے دوست سہیل رعنا کالج میں وحید مراد کے ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ اردو کے شاعر رعنا اکبر آبادی کے بیٹے تھے اور وحید مراد کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے تھے۔ دونوں میں میوزک کا شوق بھی کامن تھا۔ وہ میوزک اسٹڈی کر رہے تھے جب وحید مراد نے پہلی بار انہیں اپنی فلم کی میوزک دینے پر آمادہ کیا۔ چوتھے دوست مسرور انور ریڈیو سے وابستہ تھے جب ان کو فلموں میں گیت لکھنے کا موقع ملا۔ وہ سہیل رعنا کے ریفرنس سے وحید مراد کی کمپنی فلم آرٹس کا حصہ بنے۔
اب ذکر فلم ارمان کا جس نے وحید مراد کو اسٹار سے سپر اسٹار بنا دیا۔ سینما ہاؤس میں مسلسل 75 ہفتے لگی رہنے والی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کے گانے آج بھی پاپولر ہیں۔ اس فلم میں پاکستانی ایک ایسے پڑھے لکھے ہیرو کو دیکھ رہے تھے جو خوش شکل بھی تھا اور خوش لباس بھی۔ وہ اسکرین پر گاتے ہوئے ایک مجسمے کی طرح کھڑا نہیں رہتا… بلکہ ڈانس کرتا اور بے تکلفی سے جھومتا نظر آتا۔ رومینٹک سینز میں ہیرو ہیروئن کے بیچ اتنی قربت اور بے تکلفی پہلے کبھی نہ تھی۔ اور ترپ کا پتّا یہ کہ کالج کے لڑکے لڑکیاں اس ہم عمر ہیرو سے بے حد متاثر تھے، اس سے ریلیٹ بھی کرتے تھے۔
اس فلم کے بعد وحید مراد کا ہئیر اسٹائل، بول چال اور اداؤں کی تو دھوم مچ گئی، وہ ایک فیشن سمبل بن گئے جنہیں نوجوان کاپی کیے بغیر نہ رہ سکے۔ فلم انڈسٹری کا پہلا پوپ سانگ ’’کو کو کورینا‘‘ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ احمد رشدی کی آواز، سہیل رعنا کی میوزک اور وحید مراد کی ادا کاری نے اس گانے کو امر کر دیا۔
ان دنوں ایک بڑے مزے کا واقعہ ہوا۔ پورا لالی وڈ سیلاب متاثرین کے لیے چندہ اکٹھا کرنے سڑک پر آگیا۔ وحید مراد بھی ساتھ ساتھ تھے۔ جب سب لکشمی چوک پہنچے تو مداحوں کے ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔ اُس وقت ایک ایسا واقعہ ہوا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ ایک نوجوان اور انتہائی خوش شکل خاتون آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وحید مراد کے بالکل سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔ وہ چند لمحے تو سر ترچھا کیے بڑی بڑی آنکھوں سے انہیں دیکھتی رہیں پھر ہاتھ اپنے گلے کی طرف لے گئیں۔ قیمتی ہار اتارا اور وحید مراد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ آس پاس کھڑے لوگ ہی نہیں فلمی ستارے بھی بت بنے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اور شاید دل ہی دل میں وحید مراد کی قسمت پر رشک بھی کر رہے تھے۔
MARRIAGE D’AMOUR
تو جناب ایک نہیں، پورے ملک کی لڑکیاں وحید مراد کی دیوانی تھیں، اور وہ خود کراچی کے صنعت کار ابراہیم میکر کی صاحبزادی سلمی پر عاشق تھے۔ یہاں حقیقت میں ایک فلمی سین ہوا۔
ایک روز وحید مراد اپنا حال دل سنانے سلمی کی ڈانسنگ کلاس جا پہنچے۔ لڑکیاں اپنے فیورٹ ہیرو کو اندر آتا دیکھ کر بیہوش ہوئی جا رہی تھیں، مگر وحید مراد کی مخمُور آنکھیں تو کسی اور کی تلاش میں تھیں۔ سلمی ڈانس ریہرسل کے لیے یہاں آیا کرتی تھیں۔ وہ پریکٹس کر ہی رہی تھیں کہ وحید مراد ان کی کلاس کے پاس آ کر ٹھہر گئے اور خاموش کھڑے انہیں دیکھتے رہے۔ وقت جیسے تھم سا گیا۔ سلمی نے جب مڑ کر انہیں دیکھا تو وحید مراد نے انہیں اشارے سے پاس بلایا۔ سلمی ساری لڑکیوں کے بیچ سے گزرتی ہوئی وحید مراد کے پاس آئیں جو اچانک بولے، ’’سلمی، مجھ سے شادی کرو گی؟‘‘۔
کلاس میں ایک شور مچ گیا تالیاں بجنے لگیں مگر سلمی ہکا بکا کھڑی ان کا منہ تکتی رہیں، کچھ نہ بولیں۔ وحید مراد انہیں الجھن میں ڈال کر وہاں سے چلے گئے لیکن چند ہی روز بعد شادی کا باقاعدہ پیغام آگیا۔ سلمی ان کی والہانہ جرات پر تو پہلے ہی نثار تھیں، وہ جھٹ اقرار کر کے سلمی میکر سے سلمی مراد بن گئیں۔
1964 میں ہونے والے اس شادی کی ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ تقریب میں پرفارم کرنے والوں میں ندیم بھی شامل تھے، جی ہاں فلم اسٹار ندیم۔ جو اُن دنوں گلو کاری کے میدان میں قدم جما رہے تھے۔ وہ اپنے اصلی نام نذیر بیگ سے جانے جاتے تھے۔ صرف 3 سال بعد وہ ندیم بن کر آئے اور فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔ وہ نہ صرف وحید مراد کی ٹکر کے ہیرو بن گئے، بلکہ ان سے بھی کہیں آگے نکل گئے۔
معروف ادا کار خود کہتے ہیں کہ جب میں فلموں میں نہیں آیا تھا تب سے انہیں جانتا ہوں میری ملاقات تھی، میں نے خود لائنوں میں لگ کر شہر کراچی میں ان کی فلمیں دیکھی ہیں۔
سلمیٰ اور وحید مراد کے گھر شادی کے پانچ سال بعد عالیہ کی پیدائش ہوئی۔ ان کی ایک اور بیٹی بھی ہوئی جو بہت جلد اللہ کو پیاری ہو گئی۔ یہ سلمیٰ اور وحید مراد کے لیے بڑی آزمائش کا وقت تھا۔ چند سال بعد ان کا بیٹا عادل دنیا میں آیا۔ اپنے والد کی طرح وحید مراد بھی بچوں کو ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ فلمی مصروفیت سے فارغ ہو کر انہیں بچّوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا۔
ایک بار وحید مراد اسکول کی چھٹی میں عالیہ کو لینے پہنچ گئے۔ سپر اسٹار کو دیکھتے ہی پرستاروں کا ایسا ہجوم اکٹھا ہوا کہ کانونٹ اسکول کی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ بعد میں انہوں نے عالیہ کے ذریعے گھر پر یہ پیغام پہنچایا کہ پلیز وحید مراد صاحب! آئندہ اسکول آنے کی زحمت نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
Road to fame
وحید مراد میں کبھی مشہور امریکی سنگر ایلوس پریسلے کی ڈانس موومنٹس نظر آتیں تو کبھی وہ بھارتی ادا کار دیو آنند کا ماڈرن پرسونا دکھائی دیتے۔ اب پاکستانی ادا کار ان کے سامنے بوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’ارمان‘‘ پاکستانی فلم انڈسٹری ہی نہیں وحید مراد کی زندگی میں بھی ایک مائل اسٹون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم نے جہاں انہیں پاپولیرٹی دی تو وہیں 15 سال اسی کردار میں پھنس کر وہ اپنا کیرئیر ختم کر بیٹھے۔
ارمان کے بعد وحید مراد کی 7 فلمیں آئیں جن میں ’’انسانیت‘‘ اور ’’دیور بھابھی‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ وحید مراد کی اپنی پروڈیوس کی ہوئی فلم ’’احسان‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی مگر زیادہ کامیابی نہ سمیٹ سکی۔ پھر ایک ایسی فلم آئی جس نے چاروں دوستوں کی کری ایٹو پارٹنر شپ ہمیشہ کے لیے ختم کر دی۔ ’’دوراہا‘‘ نام بھی بڑا ہی ذو معنی تھا۔ اس میں شمیم آرا پہلی بار وحید مراد کی ہیروئن بنیں۔ انتہائی دلکش موسیقی کے باوجود فلم ایورج سے آگے نہ بڑھ سکی۔
کراچی سے لاہور ہجرت
کراچی میں فلم میکنگ کا آغاز تو 1955 میں ہو گیا تھا لیکن زور 1960کی دہائی میں پکڑا۔ اب کراچی لاہور کی ٹکر پر آگیا تھا جس میں بڑا کردار وحید مراد کا تھا۔ انہوں نے ایک فلم پروڈیوسر کے طور پر 11 میں سے 8 فلمیں کراچی ہی میں بنائیں۔ اُن دنوں وحید مراد کی بیشتر فلمیں سائٹ ایریا کے Eastern Film Studios میں شوٹ ہوا کرتی تھیں۔ افسوس کہ بلاک بسٹر فلمز پروڈیوس کرنے والا یہ تاریخی اسٹوڈیو اِن دنوں ٹیکسٹائل مل کا گودام بنا ہوا ہے۔
70 کی دہائی شروع ہونے تک خاصی فلمیں لاہور شفٹ ہو گئیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے پچھلے دس سال میں کئی پرائیویٹ ٹی وی چینلز یا تو لاہور میں ہی کھلے یا جو کراچی میں تھے وہ لاہور شفٹ ہو گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ وجوہات کیا تھیں؟ اس پر بات کبھی اور صحیح۔
تو جناب 70 کی دہائی میں پنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ 1971 میں پہلی بار ایک ہی سال میں پنجابی فلمیں، اردو فلموں پر بازی لے گئیں۔ یہی کچھ آج کل ایف ایم ریڈیو چینلز پر بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے، جہاں اردو سانگز کم اور پنجابی سانگز زیادہ سنائی دیتے ہیں۔
لاہور میں رنگین فلمیں بن رہی تھیں کیوں کہ ملک کی واحد کلر پراسسنگ لیبا رٹری لاہور میں ہی تھی۔ کراچی میں Film Studios کے آپشن بھی محدود تھے اور Technicians کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں کراچی کے بہت سے ادا کار، ہدایت کار، موسیقار اور پس پردہ گلو کار بھی لاہور کو اپنا مسکن بنانے پر مجبور ہو گئے۔
ہواؤں کا رخ دیکھتے ہوئے1973 میں وحید مراد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہو گئے کیونکہ اس وقت تک کراچی میں فلمی سرگرمیاں تقریباً بند ہو چکی تھیں۔
Evolving Cinema Industry
70s میں انڈین فلموں کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی ’’ملٹی اسٹارنگ‘‘ کا رواج ہو گیا۔ ہر بڑی فلم میں دو یا تین ہیروز کی موجودگی عام ہو گئی۔ رولز مختصر ہو گئے اور مرکزی کردار محدود ہو گیا۔ یوں وحید مراد دوسرے اسٹارز کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اب آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ 1978 کے بعد وحید مراد جیسا کامیاب ادا کار بھی اپنی پوزیشن برقرار نہ رکھ سکا؟
سب سے پہلے تو اس دور میں اردو فلموں کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی سنسر شپ، وی سی آر کی آمد اور پنجابی فلموں کی پذیرائی نے اردو سنیما کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اردو فلموں کے اس بدترین دور کا خمیازہ پوری انڈسٹری کے ساتھ ساتھ وحید مراد کو بھی بھگتنا پڑا۔
وحید مراد نے 1962 سے لیکر 1983 تک 124 فلموں میں ادا کاری کی جن میں 116 اردو اور 8 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی 2 فلمیں انتقال کے بعد ریلیز ہوئیں۔ وحید مراد نے بطور فلم ساز 11 فلمیں پروڈیوس کیں اور 3 فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں جبکہ ایک فلم ’’اشارہ‘‘ کو ڈائریکٹ کیا۔
چاکلیٹ ہیرو کا زوال
1978میں وحید مراد عمر کی 40 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ ایک رومینٹک ہیرو جس کے فالورز زیادہ تر ینگسٹرز ہوں، یہ ایک بڑا چیلنجنگ دور ہوا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی عمر ہوتی ہے جب ایکٹر اور fans دونوں ہی نوجوانی کی دہلیز سے نکل کر بڑھاپے کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی اسٹار کے لیے اپنے image کو reinvent کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
وحید مراد پرفارمنس کے لحاظ سے versatile ثابت نہیں ہوئے۔ محمد علی اور ندیم اس میدان میں ان سے کہیں آگے تھے۔ وحید مراد کا لائیٹ رومانٹک کرداروں میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ ٹریجڈی اور اموشنل سینز میں ان کی ادا کاری لا جواب تھی۔ لیکن ایکشن فلموں میں وہ مس فٹ نظر آتے۔ ایک رومینٹک ہیرو، اگریسو اور فائٹنگ رول کرتا ہوا عجیب سا دکھتا۔ ان کے فنی رولز بھی بڑے لمیٹڈ سے تھے۔
مگر ایسا کیوں تھا؟ دراصل وحید مراد کا سب سے نمایاں پہلو ان کی شخصیت ہی تھی۔ وہ اسکرین پر ایک معقول، پڑے لکھے، خوش گفتار اور خوبرو ہیرو نظر آتے تھے۔ ان کی یہی پرکشش personality ان کا سب سے بڑا اثاثہ تھی ورنہ ادا کاری کی range میں وحید مراد اپنے contemporaries سے پیچھے دکھائی دیتے تھے۔
ایک کامیاب ایکٹر کے لیے خود کو reinvent کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے کردار اور ادا کاری کا انداز بھی بدلنا پڑتا ہے۔
وحید مراد اپنے کیریئر میں تجربہ کرنے سے ڈرتے رہے۔ اس ڈیفینسو اسٹریٹیجی کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیٹ سیونٹیز کے بدلتے ٹرینڈز کے سامنے وہ بے بس نظر آئے۔ اب محمد علی کو ہی دیکھیں، ستر میں وہ ایک مشہور ہیرو تھے۔ لیکن فلم ’’انسان اور آدمی‘‘ میں انہوں نے طلعت حسین کے والد کا رول کر ڈالا۔ ذرا نہ ہچکچائے! فلم نہ صرف سپر ہٹ رہی بلکہ محمد علی کو بہترین ادا کار کا award بھی ملا۔
وحید مراد اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بوڑھا بننے پر راضی نہ ہوئے۔ پورے بیس سالہ کیرئیر میں وہ اپنے ہی حسن کے دیوانے بنے رہے۔ ہاں 1978 کی ایک فلم "شیشے کا گھر" میں انہوں نے ایک نیگیٹو رول کرنے کی ہمت تو کی But that was too little, too late۔
ویسے وحید مراد کو اپنے فلمی کیرئیر میں کامیابی کے لیے کچھ زیادہ اسٹرگل بھی نہیں کرنی پڑی تھی۔ وہ ایک ویل آف فیملی سے تھے۔ ایک ایسا نوجوان جو 21 سال کی عمر میں فلم بنانے لگا، 23 سال میں ایکٹنگ کرنے لگا اور 26 سال میں ہیرو بن گیا۔ یہی نہیں، اگلے 12 سال تک وہ سپر اسٹار بن کر چھایا رہا۔ اتنی کامیابیاں جب آسانی سے مل جائیں تو انہیں برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہمیں اس بات پر ضرور غور کرنا ہوگا کہ وہ آخری پانچ سال پریشان اور کشمکش کا شکار کیوں رہے؟ مانا کے وحید مراد کو اس دور میں معیاری کردار آفر نہیں ہو رہے تھے۔ اور شاید رومینٹک رول کی عمر بھی نکل چکی تھی۔ لیکن وحید مراد ایک پڑھے لکھے، انٹیلیجنٹ فلم پروڈیوسر بھی تو تھے۔ وہ کہانیاں لکھوا سکتے تھے، فلمیں بنا سکتے تھے۔ اور اگر ادا کاری کا اسکوپ نہیں تھا تو دوسرے ادا کاروں کے ساتھ فلمیں پروڈیوس کر سکتے تھے۔ یہی سب کام تو وہ کیریئر کے شروع میں بھی کر رہے تھے مگر انہوں نے یہ سب نہ کیا۔
سرحد پار ہمیں راج کپور کی مثال ملتی ہے جو کامیاب ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہونے سے پہلے ایک مشہور ایکٹر بھی تھے۔ جب ان کی عمر اور وزن تیزی سے بڑھتا گیا تو وہ ہیرو بننے کے بجائے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بن کر انڈسٹری پر چھائے رہے۔ لیکن وحید مراد نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے ان کے ڈگمگاتے کیرئیر کو سہارا ملتا۔ وہ ایک کے بعد ایک غیر معیاری فلموں میں کام کرتے رہے۔ اسی کی دہائی کی بیشتر فلمیں ایسی ہیں جو وہ نہ ہی کرتے تو بہتر تھا۔ اس دور میں وحید مراد کو دیکھ کر ’’بھولی ہوئی داستان‘‘ نہ سہی، لیکن ’’گزرے ہوئے خیال‘‘ کا گمان ضرور ہوتا۔
راحت کاظمی، عثمان پیرزادہ، آصف رضا میر اور فیصل رحمان کی فلموں میں انٹری کے بعد وحید مراد کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ انہی دنوں صحت کے مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا۔ گھریلو جھگڑے بھی ہونے لگے۔ ایک نازک مزاج، آرام طلب اور خود پسند شخص کی پرسنل اور پروفیشنل زندگی میں یہ ایک بڑا شفٹ تھا۔ اب ان کے اعصاب بھی جواب دینے لگے تھے۔ وہ جو سونے کا چمچہ منھ میں لے کر پیدا ہوئے تھے بھلا زمانے کے تھپیڑے کیسے برداشت کرتے۔ ان کی زندگی ان کے ایک مشہور گانے ’’کیا پتہ زندگی کا، کیا بھروسا ہے کسی کا‘‘ کی عملی تصویر بن چکی تھی۔
یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں تھا جن کے ذکر کے بغیر وحید مراد کی داستان ادھوری رہے گی۔ وحید مراد نے اپنے کیریئر میں 370 گانے پکچرائز کرائے۔ ان میں سے 130 گانے احمد رشدی کی آواز میں تھے۔ ویسے تو مہدی حسن اور مسعود رانا نے بھی وحید مراد کے گانے گائے لیکن احمد رشدی کی آواز میں جو نغمگی، شوخی اور شرارت تھی اس نے وحید مراد کے romantic image کو چار چاند لگا دیے تھے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ایکٹر اور پلے بیک سنگر کی اس کامیاب ترین جوڑی نے دنیا سے جانے کے لیے بھی ایک ہی سال کا انتخاب کیا۔ 11اپریل 1983 کو احمد رشدی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ اس پر وحید مراد کا reaction تھا، ’’آج میری آواز چلی گئی‘‘۔ ٹھیک 7 ماہ بعد وحید مراد بھی دنیا سے چلے گئے۔