ڈپریشن
وہ آسیب نہیں ہے، مگر اکثر لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں، ایک وبا کی طرح، وہ دھیرے دھیرے، دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ کیا یہ کوئی بیماری ہے؟ نہیں، موسٹ گوگلڈ ڈزیزز میں تو یہ کہیں نہیں۔ پھر یہ ایک چلتے پھرتے بندے کو اپاہج کرنے کی دوسری بڑی وجہ کیوں ہے؟ ہڈی ٹوٹنے کی تو آواز آتی ہے، یہاں تو کوئی آواز نہیں۔ نہ کہیں سے خون نکلتا ہے کہ کچھ تو پتہ چلے ہوا کیا ہے، ہاں مگر سر میں عجیب سا درد ہوتا ہے۔ دل تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ بھوک نہیں لگتی۔ وقت بے وقت رونے کو جی کرتا ہے۔ اکیلا پن اور اداسی پاگل پن کی حد کو چھونے لگتی ہے۔ آپ کو بھی یہ عشق یا پاگل پن لگ رہا ہے نا۔ سب کو یہی لگتا ہے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ ان علامتوں والا ہر پانچ میں سے ایک شخص عشق تو کرتا ہے، مگر زندگی سے نہیں، موت سے۔
ایک خاتون کہتی ہیں:
میں روز مرتی اور روز جیتی تھی۔ نبض کاٹنے کی کوشش کی تھی۔
دوسری خاتون کہتی ہیں:
مجھے کوئی کہے گا بھی نہ کہ ٹرسٹ کرو محبت کرو کسی پر یقین ہی نہیں ہوتا۔
ایک صاحب کہتے ہیں:
میرا ہوتا ہے کہ کہیں نکل جاؤں۔ چکر سا آنے لگتا ہے۔
ایک اور خاتون کہتی ہیں:
دل کرتا ہے میں مر جاؤں اور اداس رہتا ہے، ڈپریشن والے بندے کو سننے والا ہی کوئی نہیں ہوتا۔
نوجوانوں سے بھرے اس ملک میں اُن کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں، ڈپریشن ہے۔ یہ خاموش قاتل کسی کو دکھائی نہیں دیتا، مگر جب سامنے آتا ہے، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ آپ جیسے نوجوانوں کو ڈپریشن نامی اس ہڈن تھریٹ کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔ آپ ضرور غور سے دیکھیے گا۔ وہ کہتے ہیں نا:
سب سے بڑی جنگیں ہمارے ذہن کے اندھیرے میں لڑی جاتی ہیں۔
ایم ڈی سائیکاٹرک اسپتال کراچی کے ڈاکٹر عبد الرحمان کہتے ہیں:
یہ آپ کے اور مجھ جیسے انسان میں ہی ہوتی ہیں۔ اگر میں نہ بتاوں سمپٹمس تو آپ بتا بھی نہیں سکتے کہ مجھے یہ بیماری ہے۔ ڈپریشن کی بیماری جو ہے ایک رف فارمولا لگا لیں تو ففٹی پرسنٹ جینیٹک ہے اور ففٹی پرسنٹ انوائرنمنٹ ہے۔
اب تو ڈپریشن ایسا ہی ہے جیسے سردی میں زکام۔ پہلے یہ میڈیکل ٹرم صرف سائیکیٹرک ہاسپٹلز میں سنی جاتی تھی۔ مگر اب، دنیا میں کوئی اِس سے محفوظ نہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک نوجوان نفسیاتی مسائل سے گزر رہا ہے۔ ہر نمبر سی جڑی ایک کہانی ہے، سسکتی زندگی کی کہانی، جہاں امید سائے میں گم ہو رہی ہے۔
ایک خاتون اس بارے میں بتاتی ہیں:
جو ہائی ٹائم تھا میرا ڈپریشن کا، جب میں نے سچ میں فیل کیا کہ میں مر سکتی ہوں، آئی یوزڈ ٹو فیل سو ان لوڈ مجھے ایسا لگنے لگ گیا تھا کہ میں کچھ بھی کرلوں گی نا تو آ وڈ نیور بی گڈ انف
ایک خاتون اس بات کو مزید بیان کرتی ہیں:
کینسر کے پیشنٹ کی ڈیتھ ایک بار ہوتی ہے، ڈپریشن کا مریض روز مرتا ہے، لوگوں کی باتوں نے مجھے اس قدر نفسیاتی بنا کر رکھ دیا تھا کہ میں نے سوچا کی مجھے اپنے آپ کو ختم کر ہی لینا ہے۔
کسی سے مدد مانگنا، کمزوری نہیں، بہادری ہے۔ چارلی میکَسی نے دا بوائے دے مول دا فوکس اینڈ دا ہارس میں یہ بات بڑے خوبصورت انداز میں لکھی:
سب سے بہادر بات کیا ہے جو آپ نے کبھی کہی ہے. لڑکے نے پوچھا، مدد، گھوڑے نے کہا، مدد مانگنے کا مطلب ہار ماننا نہیں ہے، ہار ماننے سے انکار کرنا ہے، آنسو کسی وجہ سے گرتے ہیں اور وہ آپ کی طاقت ہیں نہ کہ کمزوری۔
لیکن پاکستان میں یہ لفظ ایک اسٹگما ہے، بے عزتی ہے، ایک ایسا داغ اور کمزوری کہ لوگ مرنا تو گوارا کر لیتے ہیں، مگر اسپتال نہیں جاتے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی اپنے سے بھی کچھ نہیں کہتے۔ ہمت ہی نہیں ہوتی۔ اور جب اپنی دماغی کیفیت خود ہی سمجھ نہ آئے تو کوئی دوسرے کو کیا بتائے؟
سائکٹرسٹ ڈاکٹر نازیہ تنویر کہتی ہیں:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہے دوست ناصح، چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔
ایم ڈی سائیکاٹرک اسپتال کراچی کے ڈاکٹر عبد الرحمان کہتے ہیں:
آپ یہ ڈرتے ہیں کہ پتہ چل گیا کسی رشتہ دار کو تو میں میرا بیٹا یا بیٹی کسی کو پتہ چل گیا ذہنی بیماری کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ انسان پاگل ہے، ڈاکٹر کے پاس بھی جائیں گے، ذہنی بیماری کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ پاگل ہیں۔
ہنسی اور قہقہوں کے شور میں، ہمیں اکثر وہ خاموش جنگ دکھائی نہیں دیتی، جو ساتھ کرسی پر بیٹھا شخص لڑ رہا ہوتا ہے۔ ہم آج ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر لمحہ آن لائن شیئر کیا جاتا ہے۔ کیا حقیقت ہے کیا فریب، اب یہ جاننا ضروری نہیں۔ پھر اس مصنوعی زندگی سے حقیقی زندگی کا موازنہ، ڈپریشن کی پہلی سیڑھی نہیں، تو اور کیا ہے۔
عام اداسی وقت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔ مگر ڈپریشن کے مریض میں یہ گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے، اور علاج کے بغیر نہیں جاتی۔ پاکستان میں اندازاً 34 فی صد نوجوان نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جنہیں ڈپریشن اور اینگزائٹی کا سامان ہے۔ مگر جو علاج کرواتے ہیں، وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
ارلی ٹوئینٹیتھ سینچری میں دنیا بھر میں ایک فی صد سے بھی کم لوگ ڈپریشن کا شکار تھے۔ مڈل سینچری آتے آتے چھ فی صد لوگ ڈپریشن کے مریض بن گئے جن کی عمریں تیس سال سے کم تھیں۔ لیکن ہم یہاں تک پہنچے کیسے۔ ہم ان خطرناک نمبروں کو کیسے ایکسپلین کر سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کس طرح بڑے پیمانے پر ڈپریشن کے مریض پیدا کرنا شروع ہوگیا۔
ہم تھک سکتے ہیں، افسردہ ہوسکتے ہیں، یہ ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ مگر سوسائٹی ہمیں اداس ہونے کا موقع ہی کب دیتی ہے۔ وہ تو ہمیشہ پرفیکٹ ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پڑھائی میں پرفیکٹ، گھر میں پرفیکٹ، نیور اینڈنگ ایکسپیکٹیشنز اینڈ کونسٹنٹ کمپیریثن۔ پھر جب تنگ آکر اسکرین آن کرلیں تو سوشل میڈیا پر ایک آئیڈیل اور فلالیس لائف کا پریشر۔
یہ سب ہمیں تنہا اور کھوکلا کرتا جارہا ہے۔ بالکل اُس درخت کی طرح۔ جو باقی درختوں کے درمیان کھڑا تو ہے، لیکن اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ جو روشنی کے لیے اپنی سوکھی ہوئی شاخیں پھیلا رہا ہے مگر کون ہے جو اس کی مدد کو آئے۔
جدید دنیا کے ساتھ ہم بھی بدل رہے ہیں۔ یہ تبدیلی ہمارے دماغ سے ہی ممکن ہوئی ہے جو خود کو ڈھالنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اب دماغی صحت پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ ڈپریشن سے لڑنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔ سپورٹ گروپس اور کیمپینز کے ذریعے علاج اور بات چیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک مینٹل ہیلتھ پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپریشن کو سمجھنے اور علاج کرنے والے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایم ڈی سائیکاٹرک اسپتال کراچی کے ڈاکٹر عبد الرحمان اس بارے میں کہتے ہیں:
پورے پاکستان میں شاید پانچ سو چھ سو کے قریب سائیکٹرسٹ تھے۔ چلیں دو ہزار کر لیں ہزار نہیں تو۔ بیماری پانچ چھ کروڑ ہو گئے۔ دو ہزار لوگ پانچ چھ کروڑ کے لیے ناٹ انف۔ ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں اگر سب کو اویرنیس ہو بھی گئی۔ سب مریض اگر جان گئے ڈپریشن ہے تو ڈاکٹر نہیں ملے گا علاج کروانے کے لیےکراچی نفسیاتیی ہسپتال میں زیادہ تر مریض انگزائٹی اور ڈپریشن کے ہی ہوتے ہیں، سب سے کم اسکٹزوفرینک ہوتے ہیں، ہمارے پاس سائیکیٹرسٹ سائکولوجسٹ پوری ٹیم ہے، جو بہتر حل ہوتا ہے اس پر جاتے ہیں۔
ارے بھئی، یہ سب تمہارا وہم ہے، اور کچھ نہیں ہے۔ بس خوش رہا کرو، جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ جب بات مینٹل پرابلم کی بات آئے تو بڑے عجیب و غریب مشورے دیے جاتے ہیں۔ عام لوگ ہی نہیں اکثر ڈاکٹرز بھی ایسی بات کر دیتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ ہنسے یا روئے۔ کبھی عقیدہ درست کرنے اور نماز کی پابندی کا نسخہ دیا جاتا ہے۔ کبھی کرا دی کی کمزوری اور گناہ کا احساس دلایا جاتا ہے۔ لیکن ٹہرئے، ذرا ایک بات تو بتائیے، اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے، اس کی ہڈی ٹوٹ جائے، تو کیا تب بھی ڈاکٹر صاحب انہی مشوروں سے کام چلائیں گے؟
ہم اس دنیا میں اکیلے زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہاں سروائیول کے لیے ٹیم ورک اور ایک دوسرے پر انحصار لازمی ہے۔ اپنی مینٹل اسٹرگلز کو پہچاننا ضروری ہے۔ خدا نے ہمیں مشکلیں جھیلنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے اور ان مشکلات کو پہچاننا کمزوری نہیں۔ اس کے لیے ہمیں مل کر، خاموشی توڑ کر، ڈپریشن کے طوفان پر بند باندھنا ہوگا، اپنا نوجوان مستقبل بچانا ہوگا۔