ایک بادشاہ تھا، بڑا ہی شوقین۔ ایک بار محفل سجائی اور ایک گلوکارہ کو بلا لیا۔ اُس سے اتنے گانے گوائے، اِتنے گوائے کہ موسیقاروں کے ہاتھ، سننے والوں کے کان اور گلوکارہ کی زبان شل ہو گئی۔ تھک ہار کر انہوں نے ہاتھ جوڑ لیے اور کہا، ’’عالم پناہ! چاہے کوئی انعام نہ دیں، سامان بھی واپس نہ کریں، لیکن سانس تو لینے دیں۔‘‘

کچھ یہی حال آج کل کرکٹ میں بالرز کا ہے۔ اُن کی تو وہ درگت بن رہی ہے کہ اب وہ بھی کہہ اٹھے ہیں، ’’بھائی! سانس تو لینے دو!‘‘

انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل 2024، دنیا کی سب سے بڑی لیگ کا 17واں سیزن ہے۔ اِس میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس پر یہی کہا جا سکتا ہے، ’’یہ کیا کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے، شکر ہے میں اندھا ہوں۔‘‘

آئی پی ایل یا یہ سیزن دیکھ کر ہمارا سوال تو یہی ہے:

  • یہ کیا ہے؟
  • کون سی کرکٹ ہے یہ؟
  • ایسی کرکٹ سے فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟
  • اور یہ سب کر کے ایز اے گیم کرکٹ کی ڈیولپمنٹ پر کیا فرق پڑے گا؟

بالرز کا ڈراؤنا خواب

انڈیا ہمیشہ سے بیٹنگ کی جنت رہا ہے۔ لیکن اب تو جنت الفردوس بن چکا ہے۔ اس کی انڈین پریمیئر لیگ دنیا کی سب سے بڑی اور شاندار لیگ ہے۔ لیکن اس لیگ کا ایک ’’مینو فیکچرنگ فالٹ‘‘ ہے، یہ کہ میچز ہوں گے ہائی اسکورنگ۔

اس کی جھلک ہمیں پہلے میچ میں ہی نظر آ گئی تھی۔ پہلا سیزن۔ پہلا میچ اور برینڈن میک کولم نے 73 بالز پر 158 رنز مار دیے تھے اور پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ گئے تھے۔ اس کے بعد سے آئی پی ایل نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر گزرتے سیزن کے ساتھ آئی پی ایل صرف بیٹسمین کا کھیل بنتا چلا گیا۔

‏2011 تک آئی پی ایل میں فی اوور ایوریج 8 سے بھی کم رنز بنتے تھے لیکن آج یہ ایوریج 9.4 پر پہنچ چکا ہے، دنیا کی کسی بھی دوسری لیگ سے زیادہ۔ اور وہ دن دُور نہیں، جب یہ ایوریج ڈبل فگرز میں پہنچ جائے گا۔

پہلے کوئی ٹیم 200 رنز بناتی تھی، تو حیرت ہوتی تھی۔ اسے وننگ اسکور سمجھا جاتا تھا لیکن 2018 تک یہ عام بات ہو گئی۔ اور اب؟۔ اب تو یہ حال ہے کہ 200 رنز بنانے پر کہتے ہیں، ’’ لو! یہ بھی کوئی رنز ہوئے؟ اب اسے ڈیفینڈ کیسے کریں گے؟‘‘

یہ زوال کیوں؟

یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے بہت سارے فیکٹرز ہیں۔ ایک، ایک کر کے بات کرتے ہیں۔

کرکٹ میں بالز بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے، ’’کوکا بورا‘‘۔ اس کی بالز ہی انڈین پریمیئر لیگ میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ‏2019 میں کمپنی نے اپنی بال ساخت اور سلائی میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ وہ بھی چھپ چھپا کے۔ لیکن آپ دیکھیں، 2019 سے ہی بالرز کا حال بد سے بد تر ہوتا گیا ہے۔ انہیں بال سے جو تھوڑی بہت مدد ملتی تھی، وہ بھی ختم ہو گئی۔ ایک تو یہ چکر ہوا۔ پھر ایک اور اہم فیکٹر ہے بیٹ کا۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پیچھے جانا پڑے گا۔

یہ ہیں ساؤتھ افریقہ کے مشہور کرکٹر بیری رچرڈز۔ ‏1970 میں یہ آسٹریلیا کا ڈومیسٹک سیزن کھیلے تھے۔ میچ میں انہوں نے صرف ایک دن میں 325 رنز بنائے تھے اور یہ تاریخی اننگز انہوں نے کھیلی تھی اس بیٹ سے، جو اُن کے سیدھے ہاتھ میں نظر آ رہا ہے۔ اور یہ الٹے ہاتھ میں کیا ہے؟ یہ ہے 2015 میں ڈیوڈ وارنر کا بلّا۔ لگ رہا ہے ایک ہاتھ میں چاقو ہے تو دوسرے میں راکٹ لانچر اور حیرت کی بات دونوں بیٹس کا وزن تقریباً برابر ہے: 2 پونڈز 10 اونس۔

کلہاڑوں کا راج

ایک زمانہ تھا کرکٹ میں چھکا مارنے کے لیے پرفیکٹلی ٹائم کرنا پڑتا تھا۔ بُری بال کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس کام کے لیے اسپیشلسٹ ہوتے تھے، ہارڈ ہٹرز، پنچ ہٹرز۔ آج ہٹر تو چھوڑیں، قصائی بھرتی کیے ہوئے ہیں ٹیموں نے۔ بلے کی موٹائی اور ڈولوں کی اونچائی یہ سارا کام کر دیتی ہے۔ خراب گيند کا انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اب تو مس ہٹ بھی چھکا ہے۔ ایک واقعہ یاد آ گیا۔

2016 میں پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن تھا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل اسٹارز کے ساتھ ایک ہی نیٹ پر پریکٹس کا۔ تب ایک پریکٹس سیشن میں ہمارے لوکل پلیئرز آندرے رسل کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ بھئی۔ نہ فٹ ورک، نہ پوزیشن، نہ بیٹ کا اینگل اور نہ ہی کوئی دوسرا فیکٹر۔ وہ کسی چیز کی پروا کیے بغیر صرف ایک چیز کی پریکٹس کر رہے تھے۔ یہ کہ کسی بھی بال پر چھکا کیسے مارا جائے؟ کیونکہ۔ اب کرکٹ صرف یہی رہ گئی ہے!

کرکٹ کی اس ماڈرن چھکے مار مینٹیلٹی کو سپورٹ کیا اور بہت سے فیکٹرز نے۔ ایک تو ہے چھوٹی باؤنڈریز۔ آپ کو یاد ہوگا ایک زمانہ تھا جب آسٹریلیا میں باؤنڈری لائن پر rope بھی نہیں لگائی جاتی تھی۔ تب 90 میٹرز یعنی تقریباً 296 فٹ سے چھوٹی باؤنڈری کم ہی ملتی تھی۔ لیکن آج؟۔ آج تو ظلم یہ ہے کہ پچاس-پچپن میٹر کی باؤنڈری لائنز عام ہیں۔ چاہے آئی پی ایل ہو، پی ایس ایل ہو یا پھر انٹرنیشنل کرکٹ۔

تو جب ہاتھ میں ایسا بلّا ہو۔ فیلڈنگ ریسٹرکشنز بھی ہوں اور باؤنڈری لائن اتنی سی ہو تو کون بے وقوف ہوگا جو نہیں مارے گا؟ میرے خیال میں تو پورے میدان میں صرف ایک ہی بے وقوف رہ گيا ہے: بالر۔ جی ہاں! وہ بالر۔ جو کبھی کرکٹ کا لاڈلا تھا، لیکن آج اُس سے سب کچھ چھین لیا گيا ہے۔ مرضی کی فیلڈنگ بھی اور مرضی کی بال بھی۔

ون ڈے کرکٹ میں اب دونوں اینڈز سے الگ الگ بال استعمال ہوتی ہے۔ یعنی آخری اوورز میں ریورس سوئنگ کا تھوڑا بہت جو چانس ہوتا تھا، وہ بھی ختم۔ کیسے؟ کیونکہ 50ویں اوور میں جو بال ہوگی، وہ 24-25 اوورز پرانی ہی ہوگی نا؟

ایسا نہیں کہ سب یہ تماشا چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔ آج سے 10 سال پہلے مہندر سنگھ دھونی نے کہا تھا کہ بہتر یہی ہے کہ بالنگ مشینیں لگا دیں۔ اور یہ انہوں نے تب کہا تھا جب انڈيا جیتا تھا۔ اکتوبر 2013 میں آسٹریلیا کے خلاف 351 چیز کر کے۔ لیکن ایم ایس دھونی سمجھ گئے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟

کرکٹ کا توازن ختم

ویسے ایک اور پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ پہلے کرکٹ میں وکٹ گرنا ایک ایونٹ تھا۔ نائنٹیز کے عظیم فاسٹ بالرز کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر سے لے کر گلین میک گرا، کرٹلی ایمبروز، ایلن ڈونلڈ، کورٹنی واش اور بہت سارے نام اور بھی ہیں۔ لیکن اب جو نام آ رہے ہیں، بڑا نام کما رہے ہیں، وہ صرف بیٹنگ کے ہیں۔ اب تو یہ حال کر دیا ہے کہ وکٹیں بھی زمین میں اتنی مضبوطی سے گاڑی جاتی ہیں کہ 150 کلومیٹرز پر آور کی بال بھی اسے اپنی جگہ سے نکال نہ سکے۔

آپ کو ورلڈ کپ 2019 میں انگلینڈ اور بنگلہ دیش کا میچ یاد ہے نا؟ جوفرا آرچر کی وہ بال جو ٹاپ آف دی آف اسٹمپ لگی تھی۔ بیٹسمین بولڈ ہوا اور بال اسٹمپس سے ٹکرانے کے بعد پیچھے ڈائریکٹ باؤنڈری لائن پار کر گئی تھی۔ اندازہ لگائیں وکٹوں کو کتنی زور سے گاڑا گیا ہے اور باؤنڈری کتنی چھوٹی ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ کارٹ ویلنگ اور فلائنگ اسٹمپس دیکھے زمانے ہو گئے ہیں۔

ریکارڈ توڑ آئی پی ایل 2024

تو اِن تمام حرکتوں کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ آئی پی ایل 2024 میں لگتا ہے کرکٹ کا جنازہ پڑھا جا رہا ہے۔ اس سیزن میں اب تک 34 اننگز ایسی آئی ہیں، جن میں 200 سے زیادہ رنز بنے۔ سب سے زیادہ رنز بلکہ سب سے بڑے رن چَیز کا ریکارڈ بھی دو، تین بار ٹوٹ چکا ہے۔ اب تو لگ رہا ہے کسی بھی دن 300 رنز کا ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے گا۔

ہم نے پچھلے سیزن میں 20 مرتبہ 200 یا اس سے زیادہ رنز بنتے دیکھے تھے، جو خود بھی ایک ریکارڈ تھا۔ لیکن آئی پی ایل 2024 میں تو ابھی سیزن چل رہا ہے، بہت سارے میچز باقی ہیں لیکن یہ ریکارڈ ٹوٹ کر پاش پاش ہو چکا ہے۔

رنز کی بہتی گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ دھوئے ہیں۔ بلکہ نہایا ہے سن رائزرز حیدرآباد۔ اُن کی حیدرآبادی بریانی میں پتہ نہیں کون سا مصالحہ لگایا گیا ہے، سمجھ نہیں آ رہی! ایسا لگتا ہے ان کے بیٹسمین چھکا لگانے کا نہیں، گیند پھاڑنے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ تو وڈیو گیم میں ہی ہوتا تھا، وہ بھی چیٹ کوڈ لگا کر۔

خود دیکھیں، ایس آر ایچ نے پہلے ممبئی انڈینز کے خلاف ریکارڈ 277 رنز بنائے۔ پھر کچھ ہفتوں کے بعد آر سی بی کے خلاف 287 رنز مار دیے۔ سب سے بڑے ٹوٹل کا ریکارڈ گیارہ سال تک بچا رہا، لیکن پھر صرف 19 دن میں ٹوٹ گیا۔ اِس میچ میں تو حد ہی ہو گئی تھی۔ آر سی بی نے بھی جواب میں 262 رنز ٹھوک دیے، یعنی صرف چالیس اوورز میں 549 رنز بنے۔

اگر ایسی بیٹنگ کسی ون ڈے میں ہو جائے تو سمجھیں 50 اوورز میں تقریبآً 700 رنز بن جائیں۔ یہ دیکھ کر تو حیدرآباد کے کپتان پیٹ کمنز نے بھی کہا، ’’کاش میں بیٹسمین ہوتا‘‘۔ یہی نہیں۔ ایس آر ایچ نے لکھنؤ کے خلاف ایک میچ میں 165 رنز ٹارگٹ دسویں اوور میں پورا کر دیا۔ وہ بھی بغیر کوئی وکٹ دیے۔ اور تو اور ایک بہت unexpected ٹیم نے سب سے بڑے رن چَیز کا ریکارڈ توڑ دیا۔ پنجاب کنگز نے کولکاتا نائٹ رائیڈرز کا 262 رنز کا ٹارگٹ چَیز کیا۔

یہ حالات دیکھ کر بالر کون بننا چاہے گا؟ کوئی بھی نہیں۔ کچھ بالرز کو بھی سانس لینے دو اور دیکھنے والوں پر بھی رحم کرو۔

ہمیں مقابلہ چاہیے

بھائی! کرکٹ کھیل ہے گیند اور بلّے کا۔ اُن کے بیچ مقابلے کا۔ میں یہاں زور دے رہا ہوں لفظ "مقابلے" پر، "کمپٹیشن" پر کیونکہ جب تک تگڑا مقابلہ یا کم ازکم برابری کی ٹکر نہیں ہوگی۔ وہ چارم نظر نہیں آئے گا جس کی وجہ سے لوگ کرکٹ دیکھتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں۔

نہیں نہیں۔ ریورس گیئر لگانے کی ضرورت نہیں۔ کرکٹ کو وہ زمانہ بھی نہیں چاہیے، جب پورے دن میں بھی بیٹسمین 19 رنز بناتے تھے۔ ہم کرکٹ کو ماڈرن بنانے کے بالکل خلاف نہیں۔ بس التجا یہ ہے کہ تھوڑی سی مقابلے کی ہوا بنائیں۔

کوئی میچ تو ایسا ہو، جس میں بالرز بھی پرفارم کرتے ہوئے ملیں۔ فاسٹ بالر کرکٹ کا گلیمر ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی بال پھینکنے والوں کو اتنا سیلبریٹ نہ کیا جاتا۔ عمران ملک سے لے کر ماینک یادَو تک، سب کو اتنا fame نہ ملتا۔ لیکن اگر کھیل کا بیلنس ایسا ہی بگڑا رہا، تو یہ بالرز بھی ختم ہو جائیں گے بلکہ وہ بیٹنگ بھی ختم ہو جائے گی، جو ہم ہمیشہ سے دیکھتے آئے ہیں۔ کرکٹ کی کلاسیکل بیٹنگ۔

دیکھیں بھئی، آرٹ، آرٹ ہوتا ہے۔ کرکٹ میں بیٹنگ ایک آرٹ ہے، اسے آرٹ رہنے دیں۔

کرکٹ کا خاتمہ

آج آئی پی ایل کی مارا ماری میں ویراٹ کوہلی جیسا بلے باز اسٹرائیک ریٹ کے طعنے سن رہا ہے۔ بالکل بابر اعظم اور محمد رضوان کی طرح۔ ویراٹ آئی پی ایل میں سب سے کم ڈاٹ بالز کا پرسنٹیج رکھتے ہیں، 40 پرسنٹ سے بھی کم۔ لیکن اس کے باوجود انہیں طعنے پڑ رہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس تماشے نے کرکٹ کی کلاسیکل بیٹنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔

شولڈر والی گیم ختم ہو گئی بھائی، صرف cheeky شاٹ رہ گئے۔ بابر اعظم کے جس کوَر ڈرائیو پر ہمارے فینز رال ٹپکاتے ہیں۔ آج کی ٹی ٹوئنٹی میں اس شاٹ کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اب تو وی میں مارنے والے اولڈ اسکول ہٹر بن گئے۔ اور آگے پیچھے مارنے والے مہان بن گئے۔

یہ کوہلی کی نہیں آندرے رسل کی لیگ ہے، جس کے 55 پرسنٹ رنز چھکوں کی شکل میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئے بچوں پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ کوئی بالر نہیں بننا چاہے گا۔ زیادہ دیر ہو گئی تو کوئی اگر کوئی کرکٹ کو بیلنس ٹھیک بھی کرنا چاہے گا، تو نہیں ہوگا۔

آل راؤنڈرز کا دی اینڈ

صاف نظر آ رہا ہے کہ آئی پی ایل میں تو آل راؤنڈرز کا دی اینڈ ہی ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس میں امپیکٹ پلیئر ہوتے ہیں۔ یعنی آپ سبسٹیٹیوٹ لے سکتے ہیں۔ تو آل راؤنڈر کھلانے کی ضرورت کیا ہے؟ بالنگ کرتے ہوئے ایک بالر لے لیں اور بیٹنگ کرتے ہوئے اس کی اس کی جگہ ایک بیٹسمین کھلا لیں۔ اس ایکسٹرا بیٹسمین ہی کی وجہ سے یہ تباہی مچی ہوئی ہے۔ رنز کے انبار لگے ہوئے ہیں اور بالر کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔

پھر اسپن بالرز کا حال بھی دیکھیں۔ بہت تیزی سے اسپنرز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو اُس دن سے ڈر لگ رہا ہے جب امپیکٹ پلیئر کا قانون انٹرنیشنل کرکٹ آ جائے گا۔ یقین کریں اس دن کرکٹ کا آخری دن ہوگا۔

توازن نہیں منافع؟

یہ سب کیوں کیا گیا؟۔ شاید کرکٹ کو کمرشلائز کرنے کے لیے۔ کیونکہ ایک میچ میں زیادہ سے زیادہ 20 وکٹیں گریں گی۔ یہ تو ٹوٹل 20 ایونٹس ہوئے۔ اگر چھکے کو ایونٹ بنایا جائے گا، باؤنڈریز کو بنایا جائے گا تو یہ تو بہت ساری لگ سکتی ہیں۔

ہر باؤنڈری پر اسپانسر لانے والے بیٹسمین کو ہیرو بناؤ۔ بالر کو گھاس مت ڈالو۔ ماحول ایسا بناؤ، حالات ایسے create کرو کہ رنز کے انبار لگ جائیں۔ اور یہ سب نئی نسل کے لیے کیا گیا ہوگا۔ جس زمانے میں باسکٹ بال جیسا تیز کھیل اپنی پاپولیرٹی بچانے کے لیے جتن کر رہا ہے۔ آج کی جنریشن کا اٹینشن اسپین پتہ ہے نا آپ کو؟

آج تو یہ حال ہے کہ باسکٹ بال جیسا تیز کھیل بھی اپنی مقبولیت بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ۔ ایک تو پورا میچ دیکھنے جتنی اٹینشن نہیں اور دوسرا اس میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام ایبل کونٹیٹ نکالنا مشکل ہے۔ جب باسکٹ بال کو لالے پڑے ہوئے ہیں تو کرکٹ کون دیکھے گا؟

اس لیے جو انسٹاگرام ایبل choose کیا گیا ہے: چھکے!

یار سوچو اگر فٹ بال میں ایک میچ میں بیس، بیس گولز ہونے لگیں تو کیا ہوگا؟ کیا فٹ بال کا چارم باقی رہے گا؟ تو یہ long term میں فٹ بال کے لیے فائدہ مند ہوگا یا نقصان دہ؟ جب فٹ بال کے لیے نقصان دہ ہے تو کرکٹ میں یہ چیز کیسے فائدہ دے سکتی ہے؟

اس لیے بھائیو! ہم پر رحم کرو۔ ہمیں سانس لینے دو۔

شیئر

جواب لکھیں