یہ ایک لیجنڈ کی کہانی ہے یا ایک لڑاکا آدمی کی؟ ملک کے لیے کچھ بھی کر جانے والے کی کہانی یا اس شخص کی جو سمجھتا تھا پوری دنیا اُس کے خلاف ہے؟ وہ نا انصافی کا شکار ہوا یا ریجنل bias اور جیلسی کا؟ یا اُس کے ساتھ جو بھی ہوا، اُس کے اپنے رویّے کی وجہ سے ہوا؟

یہ کہانی ہے پاکستان کے ایسے کپتان کی جو عبد الحفیظ کاردار اور عمران خان سے بالکل مختلف تھا۔ بلکہ یہ کہانی ایک کپتان کی ہے ہی نہیں، یہ تو ایک ’’بھائی‘‘ کی کہانی ہے، جو کھلاڑیوں میں سے ایک کھلاڑی تھا، خود آگے بڑھ کر کچھ کرنے والا، سب کو ساتھ لے کر چلنے والا، اُن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا، انہیں گلے لگانا والا۔

وہ خود کو دوسروں سے مختلف نہیں سمجھتا تھا، زبان کا سادہ اور صاف تھا۔ وہ فیصلے تھوپتا نہیں تھا، مل کر کرتا تھا۔ اور ہاں! جو بات بُری لگے، اس پر فائٹ کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اسٹریٹ فائٹر تھا۔ یہ کہانی ہے پاکستان کرکٹ کے ’’اسٹریٹ فائٹر‘‘ جاوید میانداد کی۔

وہ کہ جن کے بلّے سے پوری قوم کی امیدیں جڑی ہوتی تھی۔ وہ جن کے ایک شاٹ نے اتنا دم تھا کہ تاریخ کا دھارا ہی پلٹ دیا۔ پاکستان کرکٹ کو جیت کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ جاوید میانداد ہی تھے جنہوں پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ صرف میچ ہی نہیں ٹورنامنٹ بھی جیت سکتا ہے۔ لیکن!

جاوید میانداد نے زندگی میں کئی یادگار دن بھی تھے اور بدترین وقت بھی۔ جیسے کپتان بنے تو پوری ٹیم نے بغاوت کر دی۔ جن کھلاڑیوں کو انگلی پکڑ کر کرکٹ سکھائی، وہی اُن کے خلاف ہو گئے۔ اور انہوں نے جسے اپنا کپتان سمجھا، وہی اُن کے راستے میں کھڑا ہو گیا۔

یہ ایسے فائٹر کی کہانی ہے جس میں جوش بھی تھا، جذبہ بھی لیکن ساتھ ہی مایوسی بھی اور نا اُمیدی بھی۔ آئیں، آپ کو میانداد کی زندہ و جاوید کہانی کی طرف لے چلتے ہیں!

The Street Fighter

جاوید میانداد کی کہانی شروع ہوتی ہے 1957 میں رنچھوڑ لائن کی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے، جنہوں نے جاوید کو 'اسٹریٹ اسمارٹ' بھی بنایا اور اسٹریٹ فائٹر بھی۔ اُن کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا، جو کرکٹ کا دیوانہ تھا، خاص طور پر والد میانداد نور محمد اور ان کی یہی محبت تمام بچوں کے حصے میں آئے۔ چار میں سے تین بیٹوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ انہیں سب سے زیادہ امیدیں تھیں بڑے بیٹے بشیر سے، لیکن یہ سات بچوں میں پانچویں نمبر کا جاوید تھا، جو سب سے آگے نکل گیا۔

جاوید کو ایک ایڈوانٹیج ضرور تھا، والد نور محمد مسلم جم خانہ کے سیکریٹری تھے اور کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیدار بھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں ہونے والے ٹیسٹ میچز کے انتظامات بھی یہی ایسوسی ایشن کرتی تھی۔ تو چھوٹے بچوں کی طرح جاوید بھی ابا کے ساتھ چپک جاتا، ہر جگہ اُن کے ساتھ جاتا اور یوں مسلم جم خانہ جاوید کی زندگی کا ایک پارٹ بن گیا۔

ہفتے میں ایک دن جب KCA کا مسلم جم خانہ میں میچ ہوتا، تیرہ چودہ سال کا جاوید فیلڈنگ کرتا۔ اور زیادہ وقت نہیں لگا وہ جم خانہ کی ٹیم میں شامل ہو گیا۔ یہاں کبھی حنیف محمد، کبھی مشتاق یا صادق محمد بھی آتے تھے۔ انہیں دیکھ کر تو جاوید مختلف موڈ میں آ جاتا، وہ اپنی بیٹنگ سے انہیں امپریس کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر ایک دن آیا جب مشتاق محمد نے نور محمد صاحب سے کہا کہ آپ کا بیٹا ایک دن ضرور پاکستان کے لیے کھیلے گا۔ مشتاق محمد نے جاوید کو اپنا بیٹ بھی تحفے میں دیا۔ اُس رات جاوید اُس بیٹ کو سینے سے لگا کر سویا اور خواب میں خود کو پاکستان کے لیے کھیلتے ہوئے دیکھا۔

لیکن اس خواب کی تعبیر آسان نہیں تھی۔ وہاں تک پہنچنا بہت مشکل تھا، لیکن والد نے یہ کام فوراً شروع کر دیا، جاوید کے کرکٹ ethics بنانے میں سب سے اہم کردار اُنہی کا تھا۔ اُس میں زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی اور آگے سے آگے بڑھنے کی عادت بھی انہوں نے ہی ڈیولپ کی۔ اور ہاں! بہتر سے بہترین کھیلنے کی تڑپ بھی۔

جاوید نے قدم اٹھانا شروع کر دیے۔ پہلے سندھ انڈر 19 میں سلیکٹ ہوئے، پھر پاکستان انڈر 19 میں پہنچے۔ ‏73-74 میں سری لنکا اور انگلینڈ کے ٹوؤر کیے اور پھر فرسٹ کلاس ڈیبیو بھی ہو گیا۔ یہاں ایک ایسا موقع آیا، جس نے جاوید کو اپنے خواب تک پہنچا دیا۔

نومبر 1974 میں نیشنل انڈر 19 ٹورنامنٹ کا فائنل ہوا۔ جاوید نے پہلی اننگز میں 135 اور دوسری میں ناٹ آؤٹ 225 رنز بنائے۔ سندھ چیمپیئن بن گیا اور جاوید نظروں میں آ گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر عبد الحفیظ کاردار یہ میچ دیکھ رہے تھے۔ اگلے دن اخباروں میں اُن کا بیان چھپا:

جاوید find of the decade ہے!

Find of the Decade

اور پھر جاوید میانداد نے ایک ساتھ کئی مائل اسٹونز پار کر لیے۔ ون ڈے انٹرنیشنل ڈیبیو بھی کر لیا، انگلش کاؤنٹی میں کانٹریکٹ بھی لے لیا اور ورلڈ کپ میں بھی پہنچ گئے۔ لیکن ٹیسٹ ڈیبیو سے پہلے جاوید نے کچھ ایسا کیا جسے وہ اپنا ’’بیسٹ کرکٹنگ مومنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اپریل 1975 میں انہوں نے فرسٹ کلاس میں اپنی واحد ٹرپل سنچری بنائی۔ شاید انہیں پتہ نہیں تھا کہ انہیں پھر کبھی 300 رنز نصیب نہیں ہوں گے۔

وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ایک بار ٹرپل سنچری کے قریب پہنچے، لیکن اُن کے ساتھ دھوکا ہو گیا، جسے وہ اپنا دوست سمجھتے تھے، اپنا کپتان سمجھتے تھے، اسی نے ان کے ساتھ دھوکا کر دیا۔ کب اور کیسے؟ یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ فی الحال چلتے ہیں میانداد کے انٹرنیشنل ڈیبیو کی طرف، جو انہوں نے کیا ورلڈ کپ 1975 میں۔

جاوید میانداد نے اپنا پہلا ون ڈے 11 جون 1975 کو کھیلا، اٹھارہویں سالگرہ سے صرف ایک دن پہلے۔ پھر اکتوبر 1976 میں لاہور میں اپنا ٹیسٹ بھی کھیلا، وہ بھی بڑے ہی شاندار انداز میں۔ پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنا دی اور پھر تیسرے ٹیسٹ میں ہوم گراؤنڈ پر ڈبل ہنڈریڈ بھی۔ جاوید تاریخ کے سب سے کم عمر ڈبل سنچورین بنے۔ اپنی پہلی سیریز میں انہوں نے 126 کے ایوریج سے 504 رنز بنائے۔ جاوید نے اپنی آمد کا اعلان ہو چکا تھا!

لیکن۔ یہ خوشی زیادہ دن نہیں چلی۔ جاوید شہر سے باہر تھے۔ انہیں خبر ملی کا والد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔ جہاں پتہ چلا کہ والد کا انتقال ہو چکا ہے اور انہیں کل دفنا دیا گیا تھا۔ جاوید اپنے بہترین دوست، بہترین استاد، بہترین باپ کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ زندگی یکدم بدل گئی!

جاوید اس صدمے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اسے تیار ہونا پڑا۔ کیونکہ صرف دس دن بعد پاکستان کا اہم ترین ٹوؤر تھا۔ پورے decade کا اہم ترین ٹوؤر۔ پہلے آسٹریلیا جانا تھا اور پھر ویسٹ انڈیز۔ اب یہ والد کا صدمہ تھا یا آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے مشکل ٹوؤرز؟ میانداد وہاں کچھ خاص پرفارم نہیں کر پائے اور ٹیم سے نکال دیے گئے۔

میانداد کی واپسی

یہ 1978 تھا۔ 17 سال بعد کوئی پاک-انڈیا سیریز ہو رہی تھی۔ ایک ایسی سیریز جس کا ایک ٹیسٹ آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

یہ کراچی میں ہونے والا تیسرا ٹیسٹ تھا، یہاں پاکستان کو 164 رنز کا ٹارگٹ ملا۔ بہت چھوٹا سا ٹارگٹ لگتا ہے نا؟ لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا۔ وہ یہ کہ صرف ایک سیشن کا کھیل باقی بچا تھا، یہی کوئی بیس پچیس اوورز کا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آج کل کی طرح کرکٹ اتنی تیز نہیں تھی۔ لیکن جاوید ہر قیمت پر جیتنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے ہار کا آپشن ہی نہیں تھا۔ انہوں نے آصف اقبال کے ساتھ 97 رنز کی پارٹنر شپ اور آخر میں عمران خان نے تیز رفتار 31 رنز بنائے۔ پاکستان 25 ویں اوور میں جیت گیا۔ جی ہاں! 164 رنز کا ٹارگٹ حاصل کر لیا۔ مین آف دی میچ بنے جاوید میانداد، پہلی اننگز کی سنچری اور دوسری اننگز میں ناٹ آؤٹ 62 رنز کی وجہ سے۔

لیکن جب ٹیم پاکستان انڈیا کے جوابی ٹوؤر پر گئی، تو پاکستان یہ پرفارمنس رپیٹ نہیں کر سکا۔ یہ ہار ایسی تھی کہ پاکستان کرکٹ میں بڑا بحران پیدا ہو گیا۔ آصف اقبال نے کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ کپتانی جاوید میانداد کو مل گئی۔ صرف اور صرف 22 سال کی عمر میں۔ وہ پاکستان کی کرکٹ ہسٹری کے سب سے کم عمر کپتان بن گئے!

کپتان میانداد

جاوید میانداد کو کپتان بنانے کا فیصلہ بہت بڑا تھا۔ اور یہ فیصلہ کیا تھا ایئر مارشل نور خان نے۔ پاکستان ہاکی کو عروج پر پہنچانے کے بعد وہ اب کرکٹ چیف تھے اور اُن کا پہلا فیصلہ یہی تھا۔ بطور کیپٹن جاوید نے اسٹارٹ تو اچھا لیا، آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز جیتی لیکن جب آسٹریلیا کا ٹوؤر کرنا پڑا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔

‏1981-82 کا یہ ٹوؤر تھا ہی بڑا controversial۔ سیریز ہارنا تو ایک طرف، اور بھی بہت کچھ ہوا۔ جی ہاں، یہی وہ سیریز تھی جس میں میانداد اور ڈینس للی کا وہ بدنام جھگڑا ہوا۔ للی sledger تھے اور جاوید تو تھے ہی فائٹر، دونوں کے درمیان اَن بن چلتی رہتی تھی۔ اور پھر۔ للی کا صبر ٹوٹ گیا، وہ جاوید میانداد سے الجھ گئے اور دنیا نے یہ ugly moment دیکھا۔

جاوید میانداد اور ڈینس للی کا جھگڑا

دنیا کی نظریں اس پر تھیں لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ پیچھے کچھ اور چل رہا تھا۔ ٹیم کے کئی سینیئر کھلاڑی جاوید میانداد کے ساتھ کوآپریٹ نہیں کر رہے تھے اور پھر بغاوت ہو گئی!

پہلی بغاوت

پاکستان کرکٹ ٹیم میں کچھ کھلاڑی ایسے تھے جو جاوید کی کپتانی میں نہیں کھیلنا چاہتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ میانداد کپتانی deserve نہیں کرتے تھے۔ جونیئر ہونے کے باوجود وہ کپتانی کے اہل تھے اور میدان میں ثابت بھی کیا، لیکن مسئلہ جاوید کا تھا یا پھر پاکستان کا کلچر ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں سینیئرز کو اہمیت ملتی ہے۔ وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ’’کل کا بچہ‘‘ ہمارا کپتان بنے؟

تو مارچ 1982 میں بغاوت کا اعلان ہو گیا۔ سری لنکا کے پاکستان ٹوؤر سے پہلے ایک تحریری بیان سامنے آ گیا۔ جس پر سائن تھے: ماجد خان، ظہیر عباس، سرفراز نواز، وسیم باری، محسن خان، وسیم راجا، سکندر بخت، اقبال قاسم اور عمران خان کے۔ یعنی تقریباً سارے ہی اہم کھلاڑی میانداد کے خلاف ہو گئے۔ وہ چاہتے تو یہاں فائٹ کر سکتے تھے۔ وہ فائٹر تھے، لیکن کبھی ایسی لڑائی نہیں لڑی، جس سے پاکستان کا نقصان ہو۔ اور میانداد نے کپتانی چھوڑ دی۔

جب بورڈ نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں نیا کپتان کسے ہونا چاہیے؟ تو جاوید نے ایک ہی نام لیا: عمران خان۔ وجہ شاید یہ ہو کہ وہ سمجھتے تھے کہ بغاوت میں اصل کردار ظہیر عباس کا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں عمران خان کا بھی پورا پورا ہاتھ تھا۔

بہرحال، وقت کے ساتھ ساتھ جاوید اور عمران کے تعلقات میں دراڑ پڑتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہمیشہ ایک واضح دُوری نظر آئی۔ یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ تاریخ کے سب سے بڑے مومنٹ بھی دونوں میں ایک فاصلہ نظر آیا یعنی 1992 میں ورلڈ کپ جیت کر بھی۔ لیکن جاوید اور عمران کے تعلقات میں خرابی کی وجہ یہ بغاوت نہیں تھی۔ اصل واقعہ تو کچھ اور تھا، جس نے ظاہر کر دیا کہ عمران اور جاوید کا تعلق کچھ اور ہی ہے۔

ٹرپل سنچری نہیں

‏‏1982 میں انڈیا کی ٹیم پاکستان کے ٹوؤر پر آئی۔ یہ وہ زمانہ تھا عمران خان، ظہیر عباس اور جاوید میانداد اپنی پیک پر تھے، لیکن افسوس یہ سیریز اُن کی پرفارمنس کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے، نہ پاکستان کی جیت کے لیے۔ اِسے ہم یاد کرتے ہیں عمران خان کے ایک فیصلے کی وجہ سے۔ ایک ایسا فیصلہ جو controversial تھا، controversial ہے اور ہمیشہ controversial رہے گا۔

یہ نیاز اسٹیڈیم، حیدر آباد میں ہونے والا چوتھا ٹیسٹ تھا۔ پاکستان پہلے ہی سیریز میں ٹو-زیرو سے آگے تھا اور دونوں میچز بہت بڑے مارجن سے جیت چکا تھا۔ تب 14 جنوری 1983 کو حیدر آباد ٹیسٹ کا آغاز ہوا۔ پہلی اننگز میں جاوید میانداد نے مدثر نذر کے ساتھ مل کر رنز کے انبار لگا دیے۔ دونوں کی پارٹنر شپ پہلے 200، پھر 300 اور آخر 400 رنز بھی پار کر گئی۔ مدثر نے ڈبل سنچری بنائی اور دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو جاوید بھی 238 پر کھڑے تھے۔ اب اُن کی نظریں صرف ایک چیز پر تھیں: ٹرپل سنچری پر!

تب تک یہ کارنامہ صرف ایک پاکستانی نے کر دکھایا تھا، حنیف محمد نے۔ جاوید کہتے ہیں کہ میری نظریں تو حنیف محمد سے بھی آگے تھیں، میں گیری سوبرز کا 365 رنز کا ورلڈ ریکارڈ توڑنا چاہتا تھا۔ جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ اُن سے کپتان عمران خان نے اننگز ڈکلیئر کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی، نہ دوسرے دن کے اینڈ پر اور نہ ہی تیسرے دن۔ اس کا صاف مطلب یہی تھا: جاوید میانداد کو ہر ریکارڈ توڑنے کی کھلی چھوٹ ہے۔

تیسرے دن پہلے ڈرنکس بریک تک جاوید 280 رنز پر پہنچ چکے تھے۔ ٹرپل سنچری بس کچھ ہی رنز دور تھی کہ اچانک عمران خان نے پویلین سے ہاتھ ہلا دیا۔ انہوں نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا۔ جاوید میانداد کے الفاظ میں:

ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے سینے پر لات ماری ہو!

وہ غصے میں پویلین واپس آنے لگے، جب سنیل گاوسکر نے انہیں کہا کہ میں ہوتا تو کبھی ڈکلیئر نہ کرتا۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی کپتان ہوتا، یہ حرکت کبھی نہ کرتا۔

یہ سب اُس وقت ہوا جب جاوید کے خلاف بغاوت کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔ عمران خان نے ایسا کیوں کیا؟ جب بھی اُن سے پوچھا گیا، انہوں نے یہی کہا کہ وہ ذاتی ریکارڈز پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جاوید میانداد سے بھی یہ سوال بہت بار ہوا، وہ کہتے ہیں کہ صرف ریکارڈز کچھ نہیں ہوتے، لیکن کچھ حالات مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے عمران خان کے لیے اتنا کچھ کیا، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

لیکن ایک عجیب بات!

جاوید میانداد نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو، عمران خان کی اس حرکت سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ اُس دن کے بعد جب بھی میں نے 100 رنز بنائے، میری نظر سیدھا 300 پر گئی۔ بہت لمبی اننگز کھیلنے کا attitude وہیں سے آیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاوید کو پھر کبھی ٹرپل سنچری بنانے کا موقع نہیں ملا!

جاوید، عمران تعلقات

جاوید اور عمران پاکستان کرکٹ کے لیجنڈز ہیں۔ دونوں نے بہت کچھ ایک ساتھ دیکھا۔ پاکستان کی یادگار ترین کامیابیاں بھی اور بد ترین شکستیں بھی۔ لیکن دو مختلف بیک گراؤنڈز رکھنے والے یہ پلیئرز بالکل مختلف نظریات کے ماننے والے تھے، دونوں کی منزل ایک تھی، لیکن راستے بالکل الگ الگ۔

عمران خان لاہور کی ایلیٹ کلاس کے ممبر تھے۔ جاوید کراچی کی مڈل کلاس کے نمائندے۔ عمران خان جاوید میانداد سے تقریباً پانچ سال بڑے تھے۔ اُن کے انٹرنیشنل ڈیبیوز میں بھی چار سال کا فرق تھا لیکن کپتانی پہلے میانداد کو ملی۔ تو یہ لاہور کراچی رائیولری تھی؟ یا کچھ اور؟

وجہ جو بھی ہو، ہمیں یہ صاف نظر آتا ہے کہ سب کھلاڑی ایک طرف تھے اور دوسری طرف میانداد اکیلے، وہ تنہا تھے۔ انہیں آخری حد تک آزمایا گیا لیکن وہ کبھی نہیں جھکے۔ اِن تمام حرکتوں کے باوجود وہ ہمیشہ عمران خان کے قریب رہے۔ عمران خان ٹیم کے کمانڈر تھے تو جاوید ٹیکٹیکل ماسٹر مائنڈ۔ دونوں کا یہ تعلق کتنا عجیب تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔

ورلڈ کپ 1992 میں پاکستان ساؤتھ افریقہ کا اہم میچ ہوا۔ پاکستان بارش کی وجہ سے ہار گیا۔ عمران خان پویلین میں آئے تو غصے میں اپنا بلّا اٹھا کر پھینک دیا۔ ایک فوٹو گرافر اقبال منیر اِس لمحے کو capture کرنا چاہتے تھے لیکن وسیم اکرم نے انہیں روک دیا اور کہا کہ اِس وقت صرف ایک بندہ عمران خان کے قریب جا سکتا ہے، جاوید میانداد!

یہ تھا جاوید اور عمران کا love hate ریلیشن شپ۔ ورلڈ کپ ‏92 میں کیا ہوا؟ یہ تو ہم آپ کو بتائیں گی ہی۔ اس سے پہلے یہ شارجہ کہانی ضروری ہے کیونکہ ورلڈ کپ کی کہانی اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

شارجہ کہانی

‏80s میں شارجہ کرکٹ کا گڑھ بن چکا تھا۔ یہاں وہ وہ مقابلے ہوئے جو آج بھی یاد رکھے جاتے ہیں، جن میں سب سے شاندار مقابلہ تھا آسٹریلیشیا کپ 1986 کا پاک بھارت فائنل۔

پاکستان ایک اچھی ٹیم تو تھی، لیکن تب تک کوئی ٹرافی جیتی نہیں تھی جبکہ انڈیا 83 کا ورلڈ کپ جیت چکا تھا، 85 میں ورلڈ چیمپیئن شپ کے فائنل میں پاکستان کو ہی ہرا چکا تھا۔ اس لیے اب پاکستان کو کچھ کرنا تھا۔ جس کا موقع ملا 18 اپریل 1986 کو، آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں۔ وہاں میانداد نے ایسی اننگز کھیلی، جسے وہ اپنی ’’سنگل موسٹ امپورٹنٹ اچیومنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ اننگز تھی جس نے میانداد ہی کو نہیں پاکستان کرکٹ کو بھی بدل کر رکھ دیا۔

اس میچ میں پاکستان 246 رنز chase کر رہا تھا اور 110 رنز پر اس کے چار وکٹیں گر چکی تھیں۔ جب سلیم ملک آؤٹ ہوئے تو آسکنگ رن ریٹ 7 رنز پر اوور تک پہنچ چکا تھا۔ یہ 2016 نہیں، 1986 تھا، تب ریکوائرڈ رن ریٹ یہاں تک جانے کا مطلب ہوتا تھا: ہار!

لیکن میانداد ہار مارنے والے نہیں تھے، انہوں نے اپنا اینڈ تو پکا کر لیا۔ اوورز گزرتے گئے، دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرتی گئیں۔ لیکن وہ ڈٹے رہے، جمے رہے۔ یہاں تک کہ آخری پانچ اوورز رہ گئے، جن میں ضرورت تھی 51 رنز کی۔ یعنی دس سے زیادہ کا ریکوائرڈ رن ریٹ۔ اتنے رنز تو پاکستان سے آج بھی نہیں بنتے، لیکن آج اور کل میں ایک فرق تھا، تب میانداد کریز پر تھے۔

ایک چھکا لگا جاوید نے سنچری بھی مکمل کر لی لیکن اصل کام ابھی باقی تھا۔ آخری اوور میں 11 رنز کی ضرورت تھی جب وسیم اکرم اور ذوالقرنین دونوں آؤٹ ہو گئے۔ میانداد کے ایک چوکے کی وجہ سے دو گیندوں پر پانچ رنز بچے۔ تب انہوں نے توصیف سے کہا کہ گیند کو چھوتے ہی دوڑنا ہے۔ قسمت دیکھیں، توصیف احمد رن آؤٹ ہونے سے بال بال بچ گئے۔ بہرحال، اب آخری بال پر چار رنز درکار تھے۔

جاوید کا دماغ بہت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنے خاص انداز میں پوری فیلڈ کا جائزہ لیا، ہر فیلڈر کو گنا۔ پھر ایک گہرا سانس لی اور آنے والی گیند کے لیے تیار ہو گئے۔ قسمت دیکھیں: چیتن شرما نے بالکل وہی بال پھینکی جو جاوید نے دعاؤں میں مانگی تھی۔ ایک پرفیکٹ بال۔ پرفیکٹ ہائٹ اور پرفیکٹ جگہ پر۔ میانداد کا بلّا بجلی کی تیزی سے گھوما اور ہٹ لگتے ہی انہیں یقین تھا کہ یہ چھکا ہوگا۔ وہ شاٹ مارتے ہی دوڑ پڑے اور پھر کمنٹیٹر افتخار احمد کی آواز گونجی :

It’s a six … and Pakistan have won …

میانداد اور توصیف دیوانہ وار بھاگ رہے تھے۔ اور سینکڑوں تماشائی بھی میدان میں تھے۔ وہ سماں تھا کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جاوید میانداد 114 گیندوں پر 116 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ ایک ایسی اننگز جو کبھی نہیں بھلائی جا سکتی۔ جاوید کہتے ہیں:

یہ جیت اللہ کی طرف سے تھی۔ میں ہمیشہ دعا کرتا تھا کہ اللہ مجھ سے کچھ ایسا کروا دے کہ جو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یہ اننگز میرے لیے اللہ کا انعام تھی۔ وہ میچ ہی ایک فلم کی طرح تھا۔ دنیا کا بہترین فیلڈر چند فٹ سے اسٹمپس مس کر دے، آپ کرائسس میں پھنس جائیں، دوسرے اینڈ سے وکٹیں گر رہی ہوں، اور پھر آخری گیند آ جائے۔ اور چھکے کے ساتھ میچ ختم!

اس میچ نے میانداد کو مشہور کیا، شارجہ کو مشہور کیا، توصیف کو مشہور کیا اور ہاں! پاکستان کرکٹ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہی وہ مومنٹ تھا جس نے پاکستان کو ٹرانسفارم کیا۔ کرکٹ پاکستان میں سب سے بڑا کھیل بن گیا۔ کرکٹرز سپر اسٹارز بن گئے۔ اور اس کا کریڈٹ جاتا ہے صرف ایک کھلاڑی کو۔ جاوید میانداد کو!

اس جیت نے پاکستان کو unbeatable بنایا۔ وہ ویسٹ انڈیز کے ساتھ دنیا کی بہترین ٹیم بن گیا۔ لیکن ورلڈ چیمپیئن بننے سے پہلے ایک ایسی ہار ضرور آئی، جس نے سب کو رلا دیا۔ شارجہ کی جیت کو کوئی نہیں بھلا سکتا، تو لاہور میں ملنے والی اس یاد کو بھی کوئی بھول نہیں سکتا۔

ورلڈ کپ 87

ورلڈ کپ 1987 سب سے الگ اور سب سے جدا تھا، انگلینڈ سے باہر پہلی بار پاکستان اور انڈیا نے ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔ پاکستان بہت confident تھا کہ وہ ہوم گراؤنڈ پر جیت سکتا ہے۔ گروپ اسٹیج میں صرف ایک میچ ہارا، ٹاپ پر آیا اور سیمی فائنل پڑ گیا آسٹریلیا سے، وہ بھی لاہور میں، یقین تھا کہ جیتیں گے۔ لیکن قسمت دیکھیں، ہار گئے۔

اُس دن کوئی چیز پاکستان کے حق میں نہیں گئی۔ وکٹ کیپر سلیم یوسف کے زخمی ہونے سے آخری اوور میں 18 رنز کھانے تک، اور پھر چَیز کرتے ہوئے صرف 38 پر تین آؤٹ بھی۔ جاوید میانداد نے بڑی کوشش کی۔ 70 رنز بنائے لیکن پاکستان کو جتوا نہیں پائے۔ پاکستان 18 رنز سے ہار گیا۔ انہی 18 رنز سے جو سلیم جعفر نے آخری اوور میں کھائے تھے۔

یہ ہار کسی سے ہضم نہیں ہوئی۔ دل برداشتہ عمران خان نے تو کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ پاکستان کرکٹ کا پہلا بڑا ہارٹ بریک تھا۔ ایک ایسا میچ آج بھی فینز کو haunt کرتا ہے لیکن غم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وقت کے ساتھ بالآخر کم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کو بھی پانچ سال لگے۔ اور اس زخم کو بھی بالآخر مرہم مل ہی گیا۔ پاکستان ورلڈ چیمپیئن بن ہی گیا!

ورلڈ کپ 92

کرکٹ ورلڈ کپ 1992۔ تاریخ کا بہترین ورلڈ کپ۔ آسٹریلیا میں، کلرڈ کٹس، سفید گیند، ڈے اینڈ نائٹ میچز۔ کرکٹ کو نیا عروج مل رہا تھا اور پاکستان؟ وہ تو تھا ہی عروج پر!

لیکن ایک مسئلہ تھا پاکستان کا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ریکارڈ بالکل اچھا نہیں تھا۔ جو کمی تھی وہ سعید انور اور وقار یونس کے زخمی ہونے سے پوری ہو گئی۔ اور پھر عمران خان نے بھی ایک عجیب فیصلہ کیا: انہوں نے جاوید میانداد کو ٹیم سے نکال دیا۔

جی ہاں! جاوید ورلڈ کپ 92 کے پہلے اسکواڈ میں شامل نہیں تھے۔ ٹیم ان کے بغیر آسٹریلیا پہنچی، جہاں بیٹنگ لائن نہیں کسی میچ میں نہیں چلی۔ پاکستانی بیٹسمین آٹھ اننگز میں صرف ایک بار 200 رنز بنا سکے۔ صاف ظاہر تھا کہ میانداد کے بغیر بیٹنگ نہیں چلے گی۔ تب بورڈ نے اپنا کام کیا، عمران خان سے پوچھے بغیر ہی جاوید میانداد کو آسٹریلیا بھیج دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

پاکستان پہلے پانچ میں سے صرف ایک میچ جیتا، انگلینڈ کے خلاف بھی ہار جاتا لیکن بارش نے پاکستان کو ایک مفت کا پوائنٹ دے دیا۔ اور پھر سویا ہوا شیر جاگ گیا۔ پاکستان سب کچھ بھول کر کھیلا۔ جیتتا چلا گیا اور سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ جہاں پاکستان کو 263 رنز چیز کرنا تھے اور کرائسس سچویشن آ گئی۔ وہ سچویشن جس کے لیے جاوید میانداد ہوتے تھے۔ لیکن وہ اکیلے تھے۔

آخری پندرہ اوورز میں 8 سے زیادہ کا رن ریٹ ریکوائرڈ تھا، جب انضمام میدان میں داخل ہوئے اور پھر دنیا دیکھتی رہ گئی۔ انہوں صرف 37 گیندوں پر 60 رنزبنائے، میچ بن گیا اور پاکستان جیت گیا۔ جاوید میانداد 57 رنز ناٹ آؤٹ بنانے کے بعد جشن مناتے میدان سے باہر آئے!

اب پاکستان فائنل میں تھا۔ ایک مرتبہ پھر بالکل کسی فلمی اسکرپٹ کی طرح۔ لیکن کلائمیکس ابھی باقی تھا۔ فائنل میں 24 رنز پر پاکستان کے دو آؤٹ ہو گئے۔ یہاں جاوید میانداد اور عمران خان کریز پر تھے۔ ایک دوسرے سے بالکل مختلف دو کریکٹرز۔ دونوں کے تعلقات کیسے تھے؟ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کرکٹ history کی اس سب سے اہم پارٹنر شپ میں دونوں نے آپس میں شاید ہی کوئی بات کی ہو۔ نہ دونوں بات کر رہے تھے، نہ ہی نظریں ملا رہے تھے۔ لیکن دونوں نے کام ضرور پورا پورا کیا۔ ‏‏139 رنز کی پارٹنر شپ نے پاکستان کو بچا لیا۔ ‏249 رنز بنانے کے بعد وہ 22 رنز سے جیت گیا۔ پاکستان ورلڈ چیمپیئن بن گیا۔

جیت کا جشن چل رہا تھا اور یہاں بھی جاوید اور عمران ایک دوسرے سے دُور دُور نظر آئے۔ یہاں تک کہ میانداد عمران خان کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے، اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ عمران خان، جنہوں نے شاید ہی کبھی کرکٹ میدان پر کسی کو گلے لگایا ہو۔ مسکراتے ہوئے میانداد سے بغل گیر ہو گئے۔ لیکن یہاں بھی دونوں نے کوئی لفظ نہ بولا اور یہ love hate ریلیشن شپ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

لیکن ایک اور بدمزگی کے ساتھ۔ عمران خان کی آخری تقریر کئی لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ جاوید کو بھی نہیں بھائی۔ کیونکہ عمران خان نے کسی کھلاڑی کا شکریہ تک ادا نہیں کیا اور اپنی اور اپنے کینسر ہاسپٹل کی باتیں کر کے چلے گئے۔

بہرحال، جاوید میانداد کا ورلڈ کپ ختم ہوا۔ انہوں نے 9 اننگز میں 437 رنز بنائے، 62.43 کے ایوریج سے، پانچ ففٹیز کے ساتھ، جن میں سیمی فائنل اور فائنل کی تاریخی اننگز بھی شامل تھیں!

پھر کپتان، پھر بغاوت

عمران خان کے جانے کے بعد اب میانداد کا راستہ صاف تھا۔ وہ پھر پاکستان کے کپتان بن گئے۔ انگلینڈ میں بھی پاکستان کو جتوایا اور پھر نیوزی لینڈ میں بھی۔ لیکن وطن واپس آتے ہی ایک نئی خبر جاوید کی منتظر تھی۔ بورڈ انہیں ہٹا کر وسیم اکرم کو کپتان بنانا چاہتا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ کھلاڑی ایک بار پھر جاوید کی کپتانی میں نہیں کھیلنا چاہتے تھے اور اس بغاوت کے پیچھے بھی کہا جاتا ہے عمران خان تھے۔ انہوں نے اپنے influence کو استعمال کیا اور بورڈ حکام پر زور دیا کہ وہ وسیم اکرم کو کپتان بنائیں۔ وہی وسیم اکرم، جنہیں کبھی جاوید میانداد نے خود پک کیا تھا۔ انہیں ٹیم تک لائے حالانکہ ان کا کوئی فرسٹ کلاس کھیلنے کا تجربہ نہیں تھا۔ جاوید میانداد کہتے ہیں:

مجھے نہیں پتہ کہ عمران خان کے motives کیا تھے؟ لیکن وہ ٹیم کے ینگ ممبرز پر influence رکھتے تھے۔

بہرحال، جاوید میانداد کو نکالنے کا فیصلہ ہو گیا۔ لیکن انہوں نے فائٹ کیے بغیر کچھ نہیں دیا۔ ‏1993 میں زمبابوے کے خلاف سیریز سے پہلے جاوید کو میڈیکل ٹیسٹ کے لیے لاہور بلایا گیا۔ جہاں انہیں کئی گھنٹے انتظار کروایا گیا۔ اس پر میانداد اور بورڈ حکام میں زبردست جھگڑا ہوا۔ میانداد نے کہا:

نکالنا ہے تو نکالو، یہ میڈیکل ٹیسٹ کے اور دوسرے بہانے نہ بناؤ۔

معافی تلافی ہوئی، میڈیکل ٹیسٹ میں انہیں کلیئر قرار دیا گیا، باوجود اس کے کہ جاوید مکمل فٹ نہیں تھے۔ بہرحال، جاوید کو ٹریننگ کیمپ کے لیے بلا لیا گیا اور یہاں ایک نئی شرط آ گئی۔ سلیکٹرز نے کہا کہ وہ جاوید کو نیٹس میں بیٹنگ کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ نیٹ پریکٹس کرنے آئے تو سامنے وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید تھے۔ جو تقریباً ہر گیند باؤنسر پھینک رہے تھے۔ حال یہ تھا کہ بالرز بال پھینکنے کے بعد میانداد سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہے تھے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ انہیں اوپر سے ڈائریکشنز دی گئی ہیں۔ جاوید نے غصے میں آ کر ہیلمٹ اتار کر پھینک دیا اور بالرز کو چیلنج کیا کہ اب میرے سر پر مار کر دکھاؤ۔

بہرحال، زمبابوے کے خلاف سیریز جاوید میانداد کا آخری امتحان ثابت ہوئی۔ دسمبر 1993 میں لاہور ٹیسٹ اُن کا آخری ٹیسٹ بن گیا۔ 189 اننگز میں 8832 رنز، 52.57 ایوریج، 23 سنچریز۔ پاکستان کے لیے اپنے زمانے میں سب سے زیادہ رنز، سب سے زیادہ ایوریج، سب سے زیادہ سنچریز۔ اپنے پورے کیریئر میں میانداد کا ایوریج کبھی 50 سے نیچے نہیں آیا، اور وہ ایسا کرنے والے دنیا کے واحد بیٹسمین تھے۔

چھ اپریل 1994 کو جاوید میانداد نے کراچی پریس کلب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ رو پڑے۔ اور اگلے دن ملک بھر میں ان کے حق میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ شاید عوام کی یہی محبت تھی کہ جاوید میانداد ایک بار پھر ایکشن میں نظر آئے۔ دو سال بعد ورلڈ کپ 1996 میں!

آخری جلوہ

سمجھ نہیں آتی کہ آخر جاوید میانداد نے یہ ورلڈ کپ کیوں کھیلا؟ کیا چھ ورلڈ کپ کھیلنے کے ریکارڈ کے لیے؟ یا پھر کسی اور وجہ سے؟ وہ 39 سال کے تھے۔ ڈھائی تین سال سے ٹیم سے باہر تھے، لیکن پھر بھی سلیکٹ ہو گئے۔ خود لکھتے ہیں کہ مجھے لگتا تھا کہ میں ٹیم کا unwanted ممبر ہوں۔

بہرحال، ورلڈ کپ 96 میں پاکستان اور جاوید نے آخری میچ وہی تھا۔ انڈیا کے خلاف کوارٹر فائنل، جس میں پاکستان سے ہار گیا۔

اپریل 1986 میں جاوید میانداد کے چھکے کے بعد مارچ 1996 تک پاکستان نے انڈیا کے خلاف 24 میں سے 19 ون ڈے میچز جیتے لیکن اُس دن بنگلور میں وہ انڈیا کو نہیں ہرا سکا۔ جاوید میانداد کے ہوتے ہوئے بھی، جو 38 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے اور اُن کا کیریئر ختم ہو گیا۔

جاوید میانداد چھ ورلڈ کپ کھیلنے والے پہلے کھلاڑی تو بن گئے۔ بس اس کے علاوہ کچھ اور نہ کر سکے۔ ایک era تھا جو ختم ہو گیا!

میانداد کی legacy

جاوید میانداد نے بعد میں کچھ عرصہ پاکستان کے لیے کوچنگ بھی کی۔ کئی یادگار کامیابیاں بھی حاصل کیں، لیکن اصل میں وہ میدان کے آدمی تھے، میدان سے باہر بیٹھنا اُن کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے نہ کبھی کمنٹیٹر بن سکے، نہ کبھی اچھے تجزیہ کار۔ لیکن پاکستان میں انہیں ہمیشہ respectable سمجھا گیا، ایسا کرکٹر جو ملک کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا۔

وہ الگ بات، ملک سے باہر انہیں ہمیشہ controversial سمجھا گیا۔ خاص طور پر انڈیا، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں۔ جاوید کہتے ہیں:

اگر دوسرے مجھے controversial سمجھتے ہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے، میرا نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں غلطیاں ضرور کی ہوں گی، لیکن اگر مجھے دوبارہ زندگی جینے کا موقع ملا، تب بھی میں ایسے ہی زندگی گزاروں گا، جیسی ابھی گزاری۔

ان کا یہی aggression ہے، جو انہیں ایک فائٹر بناتا ہے اور یہ فائٹر میانداد ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔

شیئر

جواب لکھیں