شہر کی تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک۔ ہر شخص خوف زدہ ہے۔ لیکن وہ؟ بالکل بھی نہیں! آس پاس جو ہوتا رہے، اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ تھا ہی ایسا لا پروا، لا ابالی اور ہاں! بہت ہی زیادہ جذباتی بھی جو اپنے سارے جذبات نکالتا تھا کرکٹ میدانوں پر دنیا کی کوئی طاقت اُسے کرکٹ سے دُور نہیں کر سکتی تھی۔ یہاں تک کہ باپ کی مار بھی نہیں!

تو انہی دنوں اُس کے بھائی نے ایک برانڈ نیو موٹر سائیکل خرید لی۔ جسے دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں ایک دن میچ کھیلنے جا رہا تھا۔ نجانے کیا سوجھی؟ بھائی سے وہ موٹر سائیکل مانگ لی نہ اُسے اندازہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور نہ بھائی کو آنے والے خطرے کا علم تھا چابی ملتے ہی نئی بائیک چلانے کا جنون سوار ہو گیا۔ خوشی میں بغیر کچھ کھائے پیے ہی گھر سے نکل گیا۔ گھومتے گھامتے جب عائشہ منزل پہنچا تو بھوک ستانے لگی ایک ڈھابے پر کچھ کھانے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔ پیٹ پوجا کے بعد باہر نکلا تو دیکھا دو لڑکے اُس کی موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اِس سے پہلے کہ وہ انہیں کچھ بولتا۔ پیچھے بیٹھے لڑکے نے شرٹ کے نیچے سے کچھ نکال لیا ایک چمکتا دمکتا نائن ایم ایم پستول۔ دیکھتے ہی اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

وہ جذباتی تھا، لا اُبالی تھا۔ دنیا سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ باپ سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔ لیکن یہ منظر دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ بھائی کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ لیکن اس نے اگنور کر دیا اور پھر؟

پھر اپنی عادت سے بالکل ہٹ کر ایک قدم اٹھایا اور آگے بیٹھے لڑکے کے ہاتھ پر موٹر سائیکل کی چابی رکھ دی ایک فیصلے نے اُس کی جان ہی نہیں بچائی۔ دنیا کی تاریخ بھی بدل دی کیونکہ کچھ ہی مہینوں بعد ہم نے اُس لڑکے کو انٹرنیشنل کرکٹ میں دیکھا۔ ایک aggressive کھلاڑی کے طور پر اُس کے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک اسٹار میں ہونا چاہیے۔ ٹیلنٹ، پاور اور ہاں! خوبصورتی بھی۔ وہ فاسٹ بھی تھا اور furious بھی اور بعد میں اُس کا ایسا charisma بنا کہ عمران خان کے بعد پاکستان میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔

کئی لوگ تو اسے عمران خان کے بعد پاکستان کرکٹ ہسٹری کا سب سے بڑا اسٹار کہتے ہیں اور یقین مانیں! غلط نہیں کہتے کیونکہ اُس کا امپیکٹ ہی ایسا تھا۔ وہ آج بھی ایک اسٹار ہے۔ ہمارا اسٹار مین ’’صاحبزادہ محمد شاہد خان آفریدی‘‘۔

تو یہ کہانی ہے ’’لالا کی کہانی‘‘ جو شروع ہوتی ہے اُن کی تیز ترین سنچری سے بھی کہیں پہلے اور چل رہی ہے آج تک اُن کی ریٹائرمنٹ کے کئی سالوں بعد بھی اور جیسی 'لالا' کی بیٹنگ تھی نا، ان کی زندگی کی کہانی میں بھی اُتنے ہیups & downs ہیں، مشکلات ہیں، امتحانات ہیں، تنازعات ہیں اور ہاں! بہت سا ایسا potential بھی جو میدانوں میں استعمال نہیں ہو سکا۔ بہت سے رنز جو اُن کا بلّا اگل نہیں پایا۔ بہت سی ایسی وکٹیں جو اُن کی بالنگ لے نہیں سکی اور سب سے بڑھ کر بہت سی politics بھی جو کرکٹ میں بھی ہوئی اور آگے بھی ہوگی تو چلیے 'لالا لینڈ' میں۔

لالا لینڈ

شاہد آفریدی 1975 میں خیبر ایجنسی میں پیدا ہوئے۔ جی ہاں! اُن کے اپنے الفاظ میں اُن کا برتھ ایئر 1975 ہی ہے، 1980 نہیں۔ خیر، as a cricketer شاہد آفریدی مکمل طور پر کراچی کی پروڈکٹ ہیں انہوں نے فیڈرل بی ایریا کی گلیوں میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا۔ اُس زمانے میں جب کہا جاتا تھا راتوں کو کراچی میں صرف دو لوگ جاگتے ہیں کرکٹر اور ٹھگ۔ تو حالات جیسے بھی ہوں، شہر کراچی میں کرکٹ کبھی نہیں مری۔ بدترین حالات میں بھی یہ ہمیشہ زندہ رہی۔ تو یہاں شاہد آفریدی اپنے مزاج کے عین مطابق ایک فاسٹ بالر ہی تھے لیکن بالنگ ایکشن ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے کوچ نے انہیں اسپنر بنا دیا۔ ہاں! بیٹنگ کا کیڑا شروع سے ہی تھا اور جب بھی موقع ملتا اِس کیڑے کو مارتے ضرور تھے۔

ایک دفعہ ایک کلب گیم میں ساتویں نمبر پر آ کر سنچری بنا دی کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سراج الاسلام بخاری وہیں موجود تھے۔ بیٹنگ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ میچ کے بعد شاہد کو اپنے پاس بلایا اور کہا بڑے لمبے چھکے مارتے ہو، واقعی انڈر 14 ہو؟ یعنی شاہد آفریدی کی عمر پر شک ہی رہا ہے، ہمیشہ سے۔

خیر، پڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا لالا کو۔ چھٹی کلاس میں اپنے والد سے کہا مجھے پرائیوٹ اسکول سے نکال کر کسی سرکاری اسکول میں ڈال دیں۔ اس فرمائش کا نتیجہ آپ کے خیال میں کیا نکلا ہوگا؟ بالکل ٹھیک سمجھے۔ ابّا سے ٹھیک ٹھاک مار پڑ گئی۔ بڑے بھائی طارق آفریدی نے انہیں بچایا اور انہی کی وجہ سے شاہد سرکاری اسکول بھی پہنچ گئے۔ یہاں دو چیزیں اُن کے کام کی تھیں۔ ایک تو پڑھائی سخت نہیں ہوتی تھی۔ دوسرا کھیلنے کے لیے بڑا میدان موجود تھا۔ تو زیادہ دن نہیں لگے شاہد اسکول کی فائنل الیون میں پہنچ گئے۔ جس میں زیادہ تر لڑکے نویں اور دسویں کلاس کے تھے۔ بس ایک شاہد تھے جو چھٹی میں پڑھتے تھے۔

اب کرکٹ ہی ان کا سب کچھ تھا۔ اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سب کچھ صبح میدان میں ہارڈ بال، شام میں محلے میں ٹیپ بال اور رات کو گلیوں میں نائٹ کرکٹ اور یہی دن تھے جب پاکستان 1992 کا ورلڈ کپ بھی جیت گیا۔ پورے پاکستان کی طرح شاہد کا کرکٹ بخار بھی اور تیز ہو گیا۔

اب وہ کھلی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنے لگے۔ کہتے ہیں میں پورا میچ visualize کرتا تھا۔ دیکھتا تھا کہ میں اسٹیڈیم میں آ رہا ہوں۔ تماشائی میرے نام کے نعرے لگا رہے ہیں اور میں چھکے مار رہا ہوں۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ میں نیا عمران خان ہوں۔ اس خواب کی تعبیر میں کچھ وقت ضرور لگا۔ وہ بھی بہت ہی مشکل حالات میں 1996 میں کراچی اسٹاک مارکیٹ کریش ہوگئی اور شاہد آفریدی کے والد کو بہت بڑا نقصان ہو گیا۔ اُن کا سب کچھ بکھر گیا۔ اُس گھر میں جہاں پیسوں کی بات تک نہیں ہوتی تھی۔ اب سب مالی طور پر پریشان تھے۔ والدین اور بھائیوں کو اس حالت میں دیکھ کر شاہد بھی پریشان ہو گیا۔ پہلی بار اُس کے دل میں مستقبل کا خوف پیدا ہوا۔ کیا اسے کہیں اچھی جاب ملے گی؟ کیا وہ گھر والوں کو ان حالات سے نکال پائے گا؟ تب ڈر کے مارے اُس کے دل سے دعا نکلی:

یا اللہ! مجھے تو صرف کرکٹ کھیلنا آتی ہے۔ مجھے اسی میں کامیابی دے دے تاکہ میں اپنے گھر والوں کے دن بدل سکوں!

اور یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ کچھ ہی دن بعد شاہد کا نام پاکستان انڈر 19 کے ویسٹ انڈیز ٹور میں آ گیا جہاں شاہد نے جان لڑا دی۔ بہترین کھیل دکھایا اور ایک دن صبح سویرے کوچ ہارون رشید نے بتایا کہ شاہد! تمھارا نام پاکستان کرکٹ ٹیم میں آ گیا ہے! شاہد آفریدی سمجھے کہ شاید مذاق ہو رہا ہے لیکن جب details مانگی گئیں۔ ٹریول پلان بتایا گیا اور پیپر ورک شروع ہوا تو اندازہ ہو گیا، یہ مذاق نہیں ہے۔ ایسا ہو چکا ہے! یہ دعا کی طاقت تھی اور شاہد آفریدی کہتے ہیں اُس کے بعد میں کبھی اِس طاقت کو نہیں بھولا۔

یہاں آپ کے ذہن میں سوال آ رہا ہوگا کہ شاہد آفریدی اچانک پاکستانی ٹیم میں کیسے آ گئے؟ ہوا یہ کہ ٹیم پاکستان کینیا میں تھی۔ جہاں کینیا کرکٹ کے 100 سال پورے ہونے پر ایک فور نیشنز ٹورنامنٹ ہو رہا تھا اور وہاں پہنچتے ہی مشتاق احمد زخمی ہو گئے۔ اب پاکستان کو فوراً ایک لیگ اسپنر کی ضرورت تھی اور یہیں پر نام آیا انڈر 19 کے پلیئر شاہد آفریدی کا۔ جب 'لالا' کو بتایا گیا کہ ویسٹ انڈیز سے کراچی جانا ہے۔ وہاں سے کچھ سامان لے کر نیروبی کی فلائٹ پکڑنی ہے تو اُن کے دل میں جو پہلا ری ایکشن پیدا ہوا۔ وہ تھا ڈر کا۔ اب کیا ہوگا؟ پریشر کیسے ڈیل کروں گا؟ وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق کے ساتھ کیسے کھیلوں گا؟ پھر اس ڈر کا سامنا کرنے کے لیے ایک لمبے سفر کا آغاز ہوا۔ باربیڈوس سے گیانا، گیانا سے لنڈن، لنڈن سے دبئی، دبئی سے کراچی اور صرف ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد پھر دبئی کے ذریعے نیروبی۔ ذہن میں کئی سوال لیے دل میں کئی خوف لیے یہ تھکا ہارا لڑکا نیروبی پہنچ گیا۔ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک اسٹار ٹیم میں موجود تھا۔

پہلا امپریشن

پاکستانی ٹیم میں جو سب سے پہلے شاہد آفریدی سے امپریس ہوا۔ وہ کوئی اور نہیں خود کپتان وسیم اکرم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب شاہد آفریدی پہلی بار نیٹ سیشن میں آیا تو بالنگ میں ہی دن گزر گیا۔ سورج ڈھل رہا تھا جب اس کی بیٹنگ کا وقت آیا، وہ آیا اور آتے ہی چھا گیا۔ مجھے اور وقار یونس کو بڑے شاٹس مارے۔ ہم سمجھے کہ بس تکے لگ رہے ہیں۔ اس لیے لمبا رن اپ لیا اور فل پیس کے ساتھ اپنی اصل بالنگ دکھانا شروع کر دی لیکن لڑکے نے تو ہماری بالنگ کو گھاس ہی نہیں ڈالی۔ ہم جتنی تیز بالنگ کرواتے، وہ اتنی تیزی سے مارتا۔ دن ڈھل رہا تھا۔ روشنی کم تھی۔ لیکن وہ ایسے شاٹ مار رہا تھا جیسے اس کی آنکھوں میں نائٹ وژن ہو۔

اگلے دن جب بیٹنگ سیشن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے شاہد آفریدی کو نیٹ میں بلایا گیا اور وہ وہیں سے شروع ہو گیا، جہاں پچھلے دن رُکا تھا۔ بلکہ نیکسٹ ڈے تو وہ نیکسٹ گیئر میں تھا۔ یہاں وسیم اکرم نے ایک لفظ کہا لڑکے میں ’’پھڑک‘‘ ہے۔ یعنی اسپارک ہے۔ لیکن ٹورنامنٹ کا پہلا میچ ہونے سے پہلے ایک اطلاع آئی۔ وسیم اکرم کے والد کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے۔ انہیں فوراً پاکستان واپس جانا پڑا۔ لیکن جاتے جاتے وہ اسٹینڈ ان کیپٹن سعید انور کو ایک بات کہہ گئے کہ لڑکے کو اوپر کھلانا اور پھر لاہور میں وسیم اکرم نے جو سنا انہیں یقین نہیں آیا۔ شاہد آفریدی نے وہ کر دیا۔ جو آج تک کوئی نہیں کر پایا تھا اور انہیں کیا؟ ہمیں بھی یقین نہیں آیا تھا۔ کسی کو بھی نہیں آیا تھا کیونکہ وہ اننگز ہی ایسی تھی۔ وہ ایک طوفان تھا!

نیروبی میں طوفانی اننگز

فور نیشنز ٹورنامنٹ میں پاکستان کا پہلا میچ کینیا سے ہوا۔ جو شاہد آفریدی کا ڈیبیو تھا۔ انہوں نے دو وکٹیں لیں لیکن اُن کی بیٹنگ نہیں آئی۔ دوسرا میچ ہوا ورلڈ چیمپیئن سری لنکا کے خلاف ایک ایسی ٹیم جس کے سامنے لوگ کانپتے تھے۔ سنتھ جے سوریا، رمیش کالووتھارنا، ارونڈا ڈی سلوا، چمندا واس اور مرلی دھرن، یہ نام ہی کافی تھے۔

جب میچ سے پہلے شاہد آفریدی کو بتایا گیا کہ وہ کل ون ڈاؤن کھیلیں گے تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔ ایک طرف یہ پریشانی کہ کرکٹ میں نہیں چلا تو گھر کا کیا ہوگا؟ اور دوسری طرف یہ پریشانی کہ کل کیا ہوگا؟ اُس رات شاہد کو ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ نجانے کب آنکھ لگی اور پھر؟ پھر وہی خواب! وہ میدان میں چھکے لگا رہے ہیں۔ لمبے لمبے چھکے، جے سوریا، مرلی دھرن اور کمار دھرما سینا کو۔ آنکھ کھلی تو انہوں نے ایک ہی دعا کی کہ بس، اِس خواب کی تعبیر مل جائے اور تعبیر کا وقت بھی جلد ہی آ گیا!

ویسے تھوڑی دیر کے لیے سوچیے آپ کی عمر صرف 16 سال ہے۔ ارے نہیں نہیں 16 نہیں اصل میں 20 سال۔ خیر، اس عمر کو چھوڑیں، تو آپ اپنی پہلی انٹرنیشنل اننگز کھیلنے کے لیے میدان میں آئے ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ first impression is the last impression، 'لالا' کا پہلا امپریشن ہی ایسا تھا، اس ایک لمحے کا امپیکٹ، اُس کی intensity اتنی تھی کہ شاہد آفریدی کا پورا کیریئر اُس ایک اننگز کے اوپر کھڑا نظر آتا ہے، ان کا سارا ایگریشن، سارے جذبات، ایموشنز، فیلنگز، سب کچھ اس ایک اننگز میں نکلا۔

شاہد آفریدی خود بتاتے ہیں کہ جب میں میدان میں اترا تو میں نے پہلی گیند کو روکا تھا اور دوسری پر چھکا لگایا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا؟ مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔ جے سوریا کو اُس دن 10 اوورز میں 94 رنز پڑے۔ مرلی دھرن کو 73 اور دھرماسینا کو 7 اوورز میں 48۔ ان میں سے زیادہ تر شاہد آفریدی نے مارے تھے۔ بالکل اپنے خواب کے مطابق۔ جب شاہد یہ اننگز کھیل کر ڈریسنگ روم میں واپس آئے تو انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کیا کر ڈالا ہے؟ رمیز راجہ نے بتایا کہ لڑکے! تم نے ورلڈ ریکارڈ بنا دیا ہے! پوچھا کون سا ریکارڈ؟ جواب ملا تیز ترین سنچری کا ریکارڈ۔ اپنے وقت کی تیز ترین ون ڈے سنچری، صرف اور صرف 37 بالز، چھ چوکے اور 11 چھکے!

وہ اسمارٹ فونز اور بریکنگ نیوز کا زمانہ نہیں تھا۔ 1996 تھا اور شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ یہ سیریز پاکستان میں لائیو نہیں آئی تھی۔ جی ہاں! پاکستان میں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ہزاروں کلومیٹرز دُور نیروبی میں کیا غدر مچا ہوا ہے۔ عوام کو تو تب پتہ چلا جب اگلے دن اخباروں میں خبر چھپی کہ ایک نوجوان بلے باز نے تیز ترین سنچری بنا دی ہے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سب کی زبان پر ایک ہی نام تھا شاہد آفریدی! اور ایک ہی سوال تھا آخر کون ہے یہ شاہد آفریدی؟ ایک طوفان یا زلزلہ یا سونامی، جو بھی تھا، نام تھا شاہد خان آفریدی۔

اس نے نہ اپنی پہلی اننگز سمجھ کر کوئی دباؤ لیا، نہ یہ سوچا کہ دوسرے اینڈ پر سعید انور جیسا بیٹسمین کھڑا ہے، ان کا ہی لحاظ کر لوں۔ نہ یہ دیکھا کہ سامنے والا دنیا کا بہترین آل راؤنڈر سنتھ جے سوریا ہے اور نہ کرکٹ لیجنڈ مرلی دھرن کو پہچانا۔ وہ اسے بھی ایک فرسٹ کلاس بلکہ ایک کلب میچ سمجھ کر کھیلتے رہے اور وہ کر دیا جو تب تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس تاریخ کو، 4 اکتوبر 1996 کو شاہد آفریدی نے کرکٹ کو ہی بدل دیا۔ ان کے بقول پشتو میں کہتے ہیں کہ شکار جتنا بڑا ہوگا، اس کا ذائقہ بھی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ تو اُس دن شاہد آفریدی نے اپنی پہلی ہی مہم پر ورلڈ چیمپیئن کا شکار کیا اور وہ شکار واقعی بڑا ہی مزے کا تھا۔

شاہد آفریدی اپنی کتاب "گیم چینجر" میں لکھتے ہیں کہ میرے لیے یہ اننگز صرف ایک لمحہ تھا۔ ایک تیزی سے گزر جانے والا منظر۔ مجھے اُس وقت سنچری کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی اپنے پسندیدہ کرکٹ اسٹارز کے ساتھ کھیلنے کی تھی۔ لیکن جب پاکستان واپس پہنچا تو اندازہ ہوا کہ میں نے کیا کر ڈالا ہے۔ ہزاروں لوگ کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ گلشن اقبال کے اس پٹھان لڑکے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے، جس نے اچانک ایک ورلڈ ریکارڈ بنا ڈالا تھا۔ لوگوں کی محبت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میں نے واقعی کوئی کارنامہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نہ اُس سنچری نے کچھ بدلا، نہ ڈریسنگ روم میں ملنے والی شاباش نے۔ لیکن پاکستان آنے والی فلائٹ سے اترنا تھا کہ سب کچھ بدل گیا۔ میرا گیم، میری زندگی، میری فیملی کا مستقبل اور سب سے بڑھ کر زندگی کے حوالے سے میری اپنی سوچ بھی۔ شاہد آفریدی کی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ کب کا ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن دلوں پر آج بھی اسی اننگز کی حکمرانی ہے۔

کڈ ڈائنامائٹ

‏fastest ہنڈریڈ نے شاہد آفریدی کے حوالے سے دو چیزیں ہمیشہ کے لیے بدل دیں ایک perception، دوسری expectations۔ لوگ بھول گئے کہ شاہد آفریدی تو ایک بالر ہیں، لیکن اب وہ اُن سے ایک ہی چیز کی ڈیمانڈ کر رہے تھے، طوفانی بیٹنگ اور ہر بال پر چھکا۔ اس امید پر پورا اترنا شاہد آفریدی کیا، دنیا کے کسی بلے باز کے بس کی بات نہیں۔ لیکن پاکستانیوں نے اس بالر کو دنیا کا بہترین بیٹسمین سمجھ لیا۔ ایک عام فین ہی نہیں، کپتان اور سلیکشن کمیٹی کو بھی یہی امید تھی۔ رزلٹ یہ نکلا کہ ٹیم میں شاہد آفریدی کی انٹری بھی بیٹنگ کی وجہ سے ہوتی اور باہر بھی اسی بنیاد پر ہوتے۔

بہرحال، شاہد آفریدی کو پہلی بار لائیو دیکھا گیا پاکستان میں۔ جب زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز ہوئی۔ ایک ون ڈے میں انہوں نے 37 بالز پر ففٹی بھی بنائی۔ لاہور جھوم اٹھا۔ لیکن پھر وہی ہوا جو ہونا بھی چاہیے تھا۔ شارجہ میں اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں شاہد کا بلّا نہیں چلا۔ بلکہ بالنگ بھی نہیں نظر آئی، یہاں تک کہ آسٹریلیا کا "وہ" ٹور آ گیا۔ جس نے شاہد آفریدی کو شاہد آفریدی بنایا۔

دسمبر 1996 میں ٹیم پاکستان آسٹریلیا پہنچی۔ جہاں کارلٹن اینڈ یونائیٹڈ سیریز ہونا تھی۔ ایک ٹرائی اینگولر ٹورنامنٹ جس میں پاکستان اور آسٹریلیا کے علاوہ ویسٹ انڈیز بھی تھا۔ یہاں ہمیں پہلی بار شاہد آفریدی کی بالنگ کا جادو دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے ٹورنامنٹ میں 11 وکٹیں لیں اور ایک ففٹی ملا کر 159 رنز بھی بنائے۔ پاکستان نے یہ سیریز جیتی اور شاہد آفریدی بنے مین آف دی سیریز۔۔۔۔ آسٹریلیا کے اخباروں نے انہیں ایک نام دیا ‘‘کڈ ڈائنامائٹ‘‘۔ جی ہاں! روی شاستری کے ’’بوم بوم‘‘ سے کہیں پہلے۔ یہ نام تھا آفریدی کا۔ ویسے روی شاستری کا نام لیتے ہی انڈیا یاد آ گیا۔ تو چلیں، ایسا کرتے ہیں انڈیا ہی چلتے ہیں۔

لالا انڈیا میں

‏‘‘لالا‘‘ نام کا یہ طوفان انڈیا کے ساحلوں سے پہلی بار ٹکرایا تھا اسی سال یعنی 1997 میں۔ 1997 ایک خاص سال تھا۔ انڈیا کی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی گئی اور اس موقع پر ایک شاندار ٹورنامنٹ بھی رکھا گیا۔ انڈیپنڈینس کپ۔ اس میں چار ملکوں نے حصہ لیا۔ پاکستان اور انڈیا کے علاوہ نیوزی لینڈ اور ورلڈ چیمپیئن سری لنکا۔

شاہد آفریدی کا نام اُن سے کہیں پہلے انڈیا پہنچ چکا تھا۔ سب کی نظریں اس لڑکے پر تھیں۔ وہ کیسا ہے؟ کیسا دِکھتا ہے؟ کیسے کھیلتا ہے؟ کیا واقعی اتنے لمبے چھکے مارتا ہے؟ سب کی نظریں 'لالا' پر تھیں۔ لوگ اسے چاہتے تھے اور وہ؟ وہ بالی ووڈ اسٹارز سے ملنا اور تاج محل دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاں! اس سے بڑی بھی ایک خواہش تھی پاکستان انڈیا کو ہرائے۔ لیکن ایک مسئلہ تھا ٹیم پاکستان میں نہ وسیم اکرم تھے، نہ وقار یونس اور نہ ہی مشتاق احمد۔ آدھی پونی ٹیم نیوزی لینڈ سے اپنا پہلا میچ ہار گئی لیکن انڈیا میں لالا کی پہلی جھلک دیکھنے والی تھی۔

موہالی میں انہوں نے 46 بالز پر 59 رنز بنائے۔ چار چوکوں اور دو چھکوں کے ساتھ۔ نیکسٹ میچ تھا گوالیار میں، سری لنکا کے خلاف، 29 گیندوں پر 52 رنز، 9 چوکے اور دو چھکے اور پھر میچ ہوا انڈیا سے، ورلڈ کپ 1996 کوارٹر فائنل کے بعد انڈیا میں دونوں ٹیموں کا پہلا میچ ایسا مقابلہ جو کوئی کبھی نہیں بھولتا۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں:

جب میں بیٹنگ کرنے کے لیے میدان میں اترا تو تماشائیوں نے بہت شور مچایا۔ اتنا شور میں نے زندگی میں کبھی نہیں سنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا زمین ہل رہی ہے اور سچ یہ ہے کہ میں ڈر گیا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش بال آئے اور دُور سے ہی گزر جائے۔ اُس دن گرمی سے دماغ چکرا رہا تھا اور شور کی وجہ سے دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

اس لیے زیادہ دیر نہیں لگی، شاہد آفریدی آؤٹ ہو گئے، صرف پانچ رنز بنا کر۔ ‏19 واں اوور شروع ہوا تو انہیں ایک نیا آرڈر ملا سعید انور کو رنر چاہیے، شاہد دوبارہ میدان میں آئے اور وہ تاریخی اننگز دیکھی، 194 رنز، 22 چوکے اور پانچ چھکے۔ بدترین حالات میں سعید انور کی بہترین اننگز، اپنے وقت کی سب سے بڑی ODI اننگز۔ اب میدان میں مکمل خاموشی تھی، اتنی خاموشی کہ سوئی پھینکنے کی آواز بھی آ جائے۔

پاکستان جیت گیا! اور وہی 50 ہزار تماشائی جو کچھ دیر پہلے خاموش تھے، اب پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ لیکن شاہد آفریدی کا انتظار لمبا ہوتا جا رہا تھا، ان کی نیکسٹ ہنڈریڈ کب آئے گی؟ سب کی نظریں انہی پر تھیں اور پھر وہ موقع بھی آ گیا، 1998 میں۔ اور مزے کی بات انڈیا کے خلاف تب تک انڈیا کے خلاف 19 اننگز میں شاہد آفریدی کی دو ففٹیز تھیں۔ ہوم گراؤنڈ کراچی پر 56 گیندوں پر 72 رنز ان کی سب سے بڑی اننگز تھی، اب اسے ہنڈریڈ میں بدلنا تھا اور اس کا موقع آیا ٹورنٹو میں جہاں شاہد آفریدی نے کھیلی، 94 بالز پر 109 رنز کی اننگز۔ انڈیا کو اندازہ ہو گیا کہ لڑکے میں دم ہے! اور یہ دم بعد میں انڈیا کی سرزمین پر بھی نظر آیا۔

‏1999 پاکستان کرکٹ کے لیے بہت اہم سال ہے، آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ وہ سال تھا جب پاکستان کرکٹ اپنے عروج پر پہنچی، پاکستان اور انڈیا کے درمیان پچھلے ایک سال میں بہت کچھ ہو چکا تھا ایٹمی تجربات، کارگل جنگ، پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ، dictatorship کا آغاز، دونوں ملکوں کے تعلقات بدترین موڑ پر اور پھر، اچانک برف پگھلنے لگی، ‏13 سال بعد ٹیم پاکستان کوئی ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے انڈیا گئی، انڈیا میں رائٹ ونگ اس ٹور کے سخت خلاف تھا، دلّی میں اسٹیڈیم کی پچ کھود دی گئی تاکہ پاکستان نہ کھیل سکے، بمبئی میں بی سی سی آئی ہیڈ کوارٹر پر اٹیک ہوا، پاکستانی ٹیم پر حملے کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن ایک بات یاد رکھیں خبروں کی دنیا الگ ہوتی ہے اور ریئل ورلڈ الگ اور ہم نے دیکھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے آنے کے بعد اس ریئل ورلڈ میں کیا ہوا؟ ٹور کا آغاز ایسے میچ سے ہوا جسے آپ پاکستان کرکٹ history کے one of the best میچز میں سے ایک کہہ سکتے ہیں، یہ میچ چنئی میں کھیلا گیا تھا، جہاں پاکستان پہلی اننگز میں 238 رنز پر آل آؤٹ ہوا جواب میں انڈیا نے 16 رنز کی لیڈ حاصل کی، میچ اب برابر کھڑا تھا، پاکستان کو کچھ نیا کرنا تھا اور یہ کیا شاہد خان آفریدی نے وہ تڑپنے پھڑکنے والا لڑکا، چھ گھنٹے تک کریز پر کھڑا رہا، 21 چوکے لگائے اور تین چھکے بھی اور 191 بالز پر 141 رنز کی اننگز کھیل گیا، پاکستان کے ٹوٹل 282 رنز میں سے آدھے رنز اُس کے تھے آخر میں پاکستان یہ میچ صرف 12 رنز سے جیتا، اس یادگار جیت کے بعد اگلا میچ وہی تھا، انیل کمبلے کا فیمس 10 وکٹوں والا، سیریز برابر ہو گئی، برابر ہونی بھی چاہیے تھی۔

لیکن یہ تو وہ سب ہے جو آپ کے، میرے، سب کے سامنے ہوا، پاکستان کرکٹ میں مسئلہ یہ ہے کہ آدھی جنگ میدان سے باہر ہوتی ہے، پردے کے پیچھے ہوتی ہے اور وہ زیادہ بڑی لڑائی ہوتی ہے، اس سیریز سے پہلے بھی ایک لڑائی ہوئی تھی، جب کوچ جاوید میانداد نے شاہد آفریدی کو کھلانے سے انکار کر دیا، کوچ کی recommendation پر سلیکشن کمیٹی نے لالا کو اسکواڈ میں شامل نہیں کیا لیکن وسیم اکرم کو یہ لڑکا اتنا پسند تھا کہ وہ سب سے لڑ گئے، انہوں نے کہا شاہد انڈیا جائے گا، سلیکٹرز نے کہا نہیں! تو وسیم نے جواب دیا تو میں ریزائن دے دوں گا اور یہ دھمکی کام کر گئی، پھر آفریدی نے کپتان کے سامنے خود کو ثابت بھی کیا، لیکن وسیم اکرم کہتے ہیں کہ بطور کپتان شاہد آفریدی سے زیادہ مجھے کسی نے پریشان نہیں کیا، جب وہ میدان میں ہو تو کوئی مائی کا لعل ڈریسنگ روم سے اٹھ کر واش روم نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ کسی بھی میچ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پلٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ گیم چینجر تھا اور رہے گا۔

گیم چینجر

‏99 کی ٹیم، جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے والی ٹیم، ٹو ڈبلیوز کی ٹیم، سعید، لالا، انزی، رزاق، اظہر، معین اور ہاں! شعیب اختر کی ٹیم، اپنے عروج کی طرف گامزن تھی، کہ اچانک اُس کی ٹکر ہو گئی، پاکستان ورلڈ چیمپیئن بننے کے بالکل قریب پہنچا اور ورلڈ کپ اُس سے چھین لیا گیا، وسیم اکرم سے لے کر شاہد آفریدی تک، سب کا سر جھک گیا، وقت بدل گیا، دنیا بدل گئی اور شاہد آفریدی بھی، اس ورلڈ کپ 1999 میں کیا ہوا؟ اس کے بعد میچ فکسنگ کا پینڈورا باکس کیسے کھلا،؟ نائن الیون سے لے کر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل تک کیا کچھ ہوا؟ اور ان حالات میں شاہد آفریدی جیسےwild horse کو کس نے کنٹرول کیا؟ کس نے شاہد کو 'بوم بوم' بنایا؟ بدترین حالات میں پاکستان نے یادگار کامیابیاں کیسے حاصل کیں اور کس طرح ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپیئن بنا؟ لالا نے یہ سب کچھ بنتے اور پھر ٹوٹتے بکھرتے بھی دیکھا، عروج میں بھی اپنا حصہ ڈالا اور زوال میں بھی اپنا کردار ادا کیا، میدان کے اندر بھی اور میدان سے باہر بھی، بال ٹیمپرنگ saga سے لے کر کپتانوں کے خلاف بغاوت تک، 'لالا' کا اپنا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ سیاست کے میدان کے اگلے عمران خان بنیں گے؟

ورلڈ کپ 1999

اور اینٹی کلائمیکس ہو گیا، پاکستان ورلڈ کپ 99 کا فائنل ہار گیا، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا، بالآخر پھٹ پڑا، اب تک میچ فکسنگ پر جو باتیں ہو رہی تھیں، ڈھکے چھپے ہو رہی تھیں، دبے لفظوں میں ہو رہی تھیں، لیکن اب روکنے والا کوئی نہیں تھا، زبانیں بند کرنے کے لیے تحقیقات شروع ہو گئیں اور زیادہ دن نہیں لگے، فیصلہ بھی ہو گیا، ٹیم کے دو کھلاڑیوں پر لائف بین لگا دیا اور بہت سے کھلاڑیوں پر جرمانہ لگا، صرف اِس لیے کیونکہ اُن کے خلاف پکے ثبوت نہیں تھے، لیکن جو کھلاڑی اِس گند میں سے صاف نکل گئے، ان میں ایک تھے شاہد خان آفریدی، جی ہاں! ‏'لالا' میں آپ 10 برائیاں نکال سکتے ہیں، ان کے attitude پر اعتراض کر سکتے ہیں، چاہیں تو انہیں ایک mediocre پلیئر بھی کہہ لیں، لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ 'لالا' نے کبھی فکسنگ کی ہے، اس معاملے میں اُن کا ریکارڈ بالکل کلین ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ بہت ہی بڑی بات ہے، کیوں؟ کیونکہ پاکستان کرکٹ کی history ہے، کہ کھلاڑی چاہے کسی پنڈ سے اٹھ کر آیا ہو یا اپر مڈل کلاس کا ہو، فکسنگ کا داغ سب کے دامن پر لگا، یا کم از کم اس پر چھینٹے تو ضرور آئے تو ایسی ٹیم میں اگر کوئی بالکل نیٹ اینڈ کلین ہو، تو یہ واقعی بہت بڑی بات ہے۔

بہرحال، جسٹس قیوم کمیشن کے فیصلے سے پاکستان کرکٹ کو بڑا نقصان پہنچا، لیکن یہ تو صرف پہلا دھچکا تھا، ابھی تو کچھ ایسا ہونے والا تھا کہ دنیا بدل جانی تھی، پاکستان بھی اور پاکستان کرکٹ بھی۔

یہ 8 مئی 2002 کا دن تھا، نیوزی لینڈ پاکستان کے ٹور پر تھا، کراچی ٹیسٹ کے لیے کھلاڑی صبح سویرے پرل کانٹی نینٹل میں ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکا ہو گیا، لوگ محفوظ کمروں کی طرف بھاگے اور شاہد آفریدی؟ وہ باہر کی طرف فضا میں بارود کی بُو تھی، 'لالا' نے اپنے سامنے لوگوں کو مرتے دیکھا اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ اب نہ پاکستان پہلے جیسا رہے گا اور نہ ہی پاکستان کرکٹ زیادہ دن نہیں لگے، ایک دھماکا پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی ہوا، جب وقار یونس کو کپتان بنا دیا گیا، شاہد آفریدی کے الفاظ میں وقار یونس ایک بہترین بالر لیکن ایک terrible کیپٹن تھے، وہ ٹیم کو متحد نہیں رکھ سکے اور نہ ہی ڈریسنگ روم politics کو ختم کر پائے، ٹیم کاغذ پر تو دنیا کی بہترین ٹیم لگتی تھی، لیکن حقیقتاً اس میں unity نام کی کوئی چیز نہیں تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ورلڈ کپ 2003 کے پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہو گیا، وسیم اور وقار کا era ختم ہو گیا، شاہد آفریدی کا دور شروع ہو جاتا، لیکن نہیں! انہیں ٹیم سے نکال دیا گیا۔

لالا کی واپسی

ٹیم پاکستان میں شاہد آفریدی کی واپسی تقریباً ایک سال بعد ہوئی اور وہ بھی کیا کم بیک تھا! مزا آ گیا!، یہ پاک انڈیا سیریز کا دوسرا ون ڈے تھا، جو راولپنڈی میں کھیلا گیا، یہاں شاہد آفریدی نے بنائے صرف 58 گیندوں پر 80 رنز، 10 چوکوں اور 4 چھکوں کے ساتھ۔

یہ ٹور تھا تو بڑا ہی یادگار، لیکن پاکستان جیت نہیں پایا۔ ٹیسٹ سیریز بھی ہارا اور ون ڈے بھی، نتیجہ یہ نکلا کہ کوچ جاوید میانداد کی نوکری چلی گئی اور شاہد آفریدی کے لیے راستہ صاف ہو گیا، یاد ہے نا؟ بتایا تھا کہ جاوید میانداد شاہد آفریدی کو پسند نہیں کرتے تھے، اب اسے شاہد آفریدی کی luck کہیں یا کچھ اور نئے کوچ بنے باب وولمر، آفریدی ایک wild horse تھے، انہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں تھا، ہر کوچ نے اُن کا گیم بدلنا چاہا، لیکن نہ 'لالا' نے بدلنا تھا، نہ بدلے، لیکن باب وولمر ذرا مختلف تھے، اسی لیے تو انہیں پاکستان تاریخ کا بہترین کوچ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے ٹیم کو سمجھا، کھلاڑیوں کو سمجھا اور ہاں! شاہد آفریدی کو بھی، وولمر کے ساتھ شاہد آفریدی نے وہ تاریخی ٹور بھی کیا، 2005 کا انڈیا ٹور۔

پاکستان کا ٹور انڈیا 2005

پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ ریلیشنز اب اپنے عروج پر تھے، ‏2005 میں پاکستان نے انڈیا کا جوابی ٹور کیا، ایک بہت ہی یادگار ٹور، پاکستان کے لیے بھی اور شاہد آفریدی کے لیے بھی دلّی میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ تو 'لالا' نے نہیں کھیلا لیکن کلکتہ ٹیسٹ میں ان کی واپسی ضرور ہو گئی، دوسری اننگز میں وہ ٹاپ اسکورر رہے، لیکن پاکستان کو جتوا نہیں سکے، تیسرا ٹیسٹ بنگلور میں ہوا، اُس بنگلور میں جس سے پاکستان کی بڑی خوبصورت یادیں جڑی ہیں، لیکن، یہ کیا؟ لالا کو فرسٹ بال ڈک ملا، یونس خان کی ڈبل سنچری اور انضمام الحق کی 184 رنز کی کیپٹن اننگز نے پاکستان کو بچایا اور 570 رنز تک پہنچایا، انڈیا نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، وریندر سہواگ کی ڈبل ہنڈریڈ اور ٹوٹل 449 رنز کے ساتھ اننگز ختم۔

اب پاکستان کو کچھ کرنا تھا اور بہت جلد کرنا تھا اور جب بات جلدی کی ہو تو شاہد آفریدی سے بہتر کوئی نہیں، انہوں نے 34 بالز پر 58 رنز کی اننگز کھیلی، تیز ترین ففٹی کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا، بس دو بالز سے رہ گیا، پاکستان نے 261 رنز بنائے اور اننگز ڈکلیئر کر دی، انڈیا کو 383 رنز کا ٹارگٹ ملا اور یہاں شاہد آفریدی بال سے بھی چل گئے، وی وی ایس لکشمن، سارو گانگلی اور سچن تنڈولکر، انڈیا کے تین مہان بیٹسمین آؤٹ کیے، 17 اوورز میں صرف 13 رنز دے کر پاکستان 168 رنز سے جیتا، بنگلور امر ہو گیا! لیکن ایک منٹ، ابھی ون ڈے سیریز باقی ہے۔

کانپور کا میدان

پاک انڈیا ون ڈے سیریز 2005، انڈیا پہلے دونوں میچز جیتا اور پاکستان اگلے دونوں چھ میچز کی سیریز اب دو-دو سے برابر تھی اور پانچواں میچ ہوا کانپور میں جہاں جو جیتتا، ناقابلِ شکست ہو جاتا، ‏250 چیز کرتے ہوئے پاکستان نے شاہد آفریدی کو اوپنر بھیجا تب لالا کی تین ون ڈے سنچریاں تھیں، لیکن پہلی ورلڈ ریکارڈ سنچری کے بعد ہم نے کبھی انہیں اُس موڈ میں نہیں دیکھا تھا اور یہ دن نصیب ہوا کانپور کو انڈیا کے خلاف، انڈیا میں اور 'لالا' کو اس طرح بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھنا، زندگی میں اور کیا چاہیے؟ اپنی تیسری ہی بال پر شاہد آفریدی نے بالاجی کو ایک چھکا لگایا اور پھر؟ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، انیل کمبلے کا سواگت کیا تین چھکوں اور ایک چوکے کے ساتھ صرف 20 گیندوں پر ففٹی کراس! بالر سمجھ رہے تھے کہ بس بہت بنا دیے، اب 'بے صبرا' آفریدی جلدی آؤٹ ہو جائے گا، لیکن نہیں! وہ 'لالا' کا دن تھا، انہوں نے ہنڈریڈ بنائی، صرف 45 بالز پر، اپنے وقت کی سیکنڈ fastest ہنڈریڈ، یعنی تیز ترین سنچریز میں ٹاپ دونوں پوزیشنز لالا کے پاس آ گئیں، میچ پاکستان جیت گیا، مین آف دی میچ لالا بنے اور یہیں پر روی شاستری نے وہ جملہ کہا بوم بوم آفریدی! لالا کو ایک نیا نام مل گیا، لیکن انہیں 'بوم بوم' بنانے والا ایک دن اچانک انہیں چھوڑ گیا۔

مشکل وقت

شاہد آفریدی کو زندگی کا سب سے بڑا غم پہنچا 2007 میں، ورلڈ کپ 2007 میں پاکستان کی ہار اور کوچ باب وولمر کی وفات پاکستان کرکٹ ہل کر رہ گئی، شاہد آفریدی کہتے ہیں یہ میرے کیریئر کا سب سے tough time تھا اور پھر ورلڈ کپ کی ہار ایک اور کپتان کھا گئی، ٹیم اب نئے ہاتھوں میں تھی، شعیب ملک نئے کپتان تھے، اس بھیانک ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کی پہلی سیریز ہوئی، سری لنکا کے خلاف پہلے میں ون ڈے پاکستان 236 چیز کر رہا تھا اور 137 رنز پر پانچ وکٹیں گر چکی تھیں، باقی 18 اوورز میں 99 رنز درکار تھے، یہاں شاہد آفریدی آئے اور ماحول بدل دیا، انہوں نے 34 گیندوں پر 73 رنز بنائے، ملنگا بندرا کو ایک اوور میں 32 رنز بھی لوٹے، یہ اننگز تھی باب وولمر کے لیے اور ساتھ ہی ایک نئے شاہد آفریدی کی آمد کا اعلان بھی تھی، کیونکہ اب نیا زمانہ آ چکا تھا، ٹی ٹوئنٹی کا زمانہ۔

ٹی ٹوئنٹی کا زمانہ

ٹی ٹوئنٹی دنیا کے لیے نئی چیز تھی لیکن جو کراچی میں کھیلا ہو، وہ اس فارمیٹ کو اچھی طرح جانتا ہے، شاہد آفریدی کی تو آنکھیں چمک اٹھیں، یہ فارمیٹ تو سمجھیں بنا ہی اُن کے لیے تھا، تو سال 2007 میں ٹی ٹوئنٹی کا پہلا ورلڈ کپ کھیلا گیا اور شاہد وہاں اپنی فل فارم میں نظر آئے، خاص طور پر بالنگ میں، صرف 15 کے ایوریج سے 12 وکٹیں لیں، بیٹنگ میں بھی تقریباً 200 کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیلے، پاکستان فائنل میں پہنچ گیا اور یہاں پھر، اینٹی کلائمیکس ہو گیا۔

پاکستان ہار گیا، شاہد آفریدی مین آف دی ٹورنامنٹ بنے، لیکن اس ٹرافی کی انہیں کوئی خوشی نہیں تھی، لالا کو تو ورلڈ کپ چاہیے تھا، کسی بھی قیمت پر اور پھر 2009 آ گیا، ایسا سال جس نے پاکستان کرکٹ کو بدل دیا، ہمیشہ کے لیے مارچ میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، پاکستان کرکٹ کا سر شرم سے جھک گیا اور اسی جھکے سر کے ساتھ ٹیم 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلنے گئی اور پھر دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان کرکٹ زندہ ہے اور زندہ رہے گی، یہ ورلڈ کپ تو تھا ہی شاہد آفریدی کا نیوزی لینڈ کے خلاف میچ اور اس کا یہ مومنٹ تو آج بھی سب کو یاد ہوگا۔

یہ شاندار کیچ، ٹورنامنٹ میں پاکستان کی قسمت بدل گیا، پاکستان جیت گیا اور پھر جیتتا ہی چلا گیا، سیمی فائنل میں بھی لالا اپنی پیک پر دکھائی دیے، ون ڈاؤن آئے اور 34 بالز پر 51 رنز کی اننگز کھیلی اور پھر میچ ٹرننگ بالنگ اسپیل بھی کروایا، لالا نے ہرشل گبز اور اے بی ڈی ولیئرز کی بڑی وکٹیں لیں اور پاکستان کو فائنل میں پہنچا دیا اور پھر لارڈز کا لارڈ بن گیا، سری لنکا کے خلاف فائنل میں 139 چیز کرتے ہوئے پاکستان کے 63 پر دو آؤٹ تھے، کسی کو سنبھل کر کھیلنا تھا اور یہ کام کیا شاہد آفریدی نے، جی ہاں! وہ بندہ جو لا اُبالی سمجھا جاتا تھا، اُس نے پاکستان کے لیے سب سے بڑی اور ذمہ دارانہ اننگز کھیل ڈالی۔ ‏40 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 54 رنز اور پاکستان جیت گیا!، شاہد آفریدی فائنل کے پلیئر آف دی میچ بنے۔

لاہور اٹیک کے صرف تین مہینے بعد پاکستان کرکٹ ساتویں آسمان پر تھی اور جب بھی ایسا ہوتا ہے، سمجھیں اب ٹیم زمین پر گرنے کے لیے بھی تیار ہے اور زیادہ دن نہیں لگے، ٹیم میں ایک full blown بغاوت ہو گئی، جس کا مین کریکٹر تھے شاہد خان آفریدی۔

بغاوت اور کپتانی

سال 2009 پاکستان کرکٹ کے لیے ایک یادگار سال، لیکن میدان کے اندر میدان کے باہر تو یہ بدترین سال تھا، کیونکہ یہی سال تھا جس میں یونس خان کے خلاف تقریباً پوری ٹیم نے بغاوت کر دی تھی، جی ہاں! ورلڈ چیمپیئن کیپٹن کے خلاف، بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کئی کھلاڑیوں نے قرآن مجید پر قسم کھائی کہ وہ یونس خان کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے، لیکن کیوں؟ کیونکہ یونس خان کا مزاج ذرا سخت تھا، کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے شاہد آفریدی تھے، یونس خان تک یہی کہتے ہیں، لیکن 'لالا' کا کہنا مختلف ہے، وہ کہتے ہیں اِس بغاوت کے پیچھے ایک اہم بیٹسمین تھے، نام تو انہوں نے نہیں لیا، لیکن میں بتا دیتا ہوں، لالا کا اشارہ محمد یوسف کی طرف تھا، جب یوسف سے پوچھا جاتا ہے تو وہ مصباح الحق کا نام لیتے ہیں، لیکن یہ قرآن مجید لانے والا کارنامہ کس کا تھا؟ یہ تھے شعیب ملک۔

خیر، شاہد آفریدی کہتے تو یہی ہیں، لیکن اس بغاوت والے معاملے پر اُن کا دامن صاف نہیں ہے، کیونکہ وہی تھے جنھوں نے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ سے ملاقات کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ پلیئرز کیا چاہتے ہیں اور یہی ملاقات ہے جس کی وجہ سے یونس خان کہتے ہیں کہ بغاوت کے پیچھے اصل ہاتھ شاہد آفریدی کا تھا، افسوس کی بات بتاؤں؟ یہ سارا ڈراما چیمپیئنز ٹرافی 2009 کے بیچوں بیچ ہوا، جی ہاں! اتنے بڑے ٹورنامنٹ کے درمیان، تبھی تو ٹیم پاکستان جو تین مہینے پہلے ٹی ٹوئنٹی کی ورلڈ چیمپیئن بنی تھی، چیمپیئنز ٹرافی میں ہار گئی، لیکن ٹیم کو ٹرافی ملے نہ ملے، نیا کپتان ضرور مل گیا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے ٹور کے لیے کپتان بنے محمد یوسف، ٹیم ہاری، بہت بُری طرح ہاری اور پہلے تینوں ٹیسٹ ہاری اور پھر سارے ون ڈے بھی، لیکن آخری ون ڈے میں زخمی یوسف کی جگہ کپتانی کی آفریدی نے اور پھر وہ کام کیا، جو شاید دنیا میں کوئی نہ کرتا، انہوں نے بال ٹیمپرنگ کی، وہ بھی کھلم کھلا بال چبا کر۔ شاہد آفریدی کہتے ہیں میں نے یہ حرکت sheer desperation میں کی، جس کے لیے میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اس حرکت پر افسوس ہوتا ہے۔ میں بس چاہتا تھا ہم کسی طرح جیت جائیں اور یہ میری بہت بڑی غلطی تھی، لیکن ایک منٹ، ایک منٹ، اپنی کتاب "گیم چینجر" میں انہوں نے کچھ اور بھی لکھا ہے، یہ کہ ہر کھلاڑی بال ٹیمپرنگ کرتا ہے، میری غلطی بس اتنی تھی کہ میں چھپا نہیں سکا۔

واہ! کیا بات ہے لالا کی! اس حرکت پر دو میچز کا بین لگا اور پھر؟ پھر انہیں پاکستان کا کیپٹن بنا دیا گیا، جی ہاں! یہ پاکستان ہے اور یہاں، ایسے ہی ہوتا ہے۔

کیپٹن لالا

بطور کیپٹن شاہد آفریدی کا پہلا مکمل ٹور تھا ایشیا کپ 2010، ایک زبردست ٹورنامنٹ، وہ بیٹنگ میں اپنی peak پر نظر آئے، ٹورنامنٹ میں ایک نہیں، دو سنچریز بنائیں، سری لنکا کے خلاف 76 گیندوں پر 109 رنز اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف 53 بالز پر سنچری، یہ 'لالا' کی آخری بڑی اننگز تھی، اُن کی آخری سنچری اور پھر وہ تقریبآً چھ سال تک انٹرنیشنل کرکٹ میں رہے، لیکن ہمیں کوئی سنچری نظر نہیں آئی، ہمیں پہلے والا 'لالا' پھر کبھی نظر نہیں آیا اور زیادہ دن نہیں گزرے، وہ بھیانک ٹور آ گیا، جب پاکستان کرکٹ کی head on ٹکر ہو گئی!۔

فکسنگ کا بھوت

‏2010 میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ سیریز ہوئی، کہاں؟ انگلینڈ میں، جی ہاں! پاکستان نے ابھی یو اے ای کو اپنا گھر نہیں بنایا تھا، اس عجیب فیصلے کے ساتھ ایک غریب فیصلہ بھی کیا گیا، شاہد آفریدی کو ٹیسٹ کیپٹن بنا دیا گیا، پہلی اننگز 15 گیندوں پر 31 رنز، وہ بھی اُس وقت جب پاکستان کے 83 پر پانچ آؤٹ تھے اور دوسری اننگز چار گیندوں پر 2 رنز، میچ ختم اور ساتھ ہی ٹیسٹ کیریئر بھی ختم, جی ہاں! شاہد آفریدی نے as captain اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا، وہ جس طرح دوسری اننگز میں آؤٹ ہوئے، وہ تو 'لالا' کے اپنے اسٹینڈرڈ سے بھی بہت گرا ہوا تھا، لیکن بعد میں جو کچھ ہوا، اُس سے سمجھ آ گئی کہ شاہد آفریدی کو ہوا کیا تھا؟ جی ہاں! اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل، انگلینڈ کا یہی ٹور تھا، جہاں بعد میں وہ تماشا ہوا، جس نے پاکستان کرکٹ کو بہت بڑا نقصان پہنچایا، شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ میں نے فکسر مظہر مجید کو پہلی بار ایشیا کپ 2010 میں دیکھا تھا اور ٹیم مینجمنٹ کو بتایا تھا کہ یہ بندہ مشکوک ہے۔ کھلاڑیوں کو اس سے دور رکھیں۔ لیکن ٹیم میں میری نہیں سنی گئی اور جب انگلینڈ میں بھی یہی بندہ نظر آیا تو میں نے ٹیسٹ ٹیم چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا، غصے میں، فرسٹریشن میں، تب پاکستان نے سلمان بٹ کو نیا ٹیسٹ کیپٹن بنایا اور کچھ ہی دن بعد دنیا کو پہ چل گیا، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آ گیا، شاہد آفریدی ٹیم کے لمیٹڈ اوورز کیپٹن تو تھے ہی، بتاتے ہیں میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ اب لوگوں کو فیس کیسے کروں گا؟ یہ 'لالا' ہی تھے جنھوں نے اسکینڈل کے بعد آن اینڈ آف دی فیلڈ اُس عذاب کا سامنا کیا، ان گھورتی ہوئی نظروں کو دیکھا، الٹی سیدھی باتیں سنیں، غلطی کسی اور کی تھی اور میدان میں بھگت کوئی اور رہا تھا۔

انڈر پریشر پاکستان ون ڈے سیریز کے پہلے دونوں میچز ہار گیا، اب فرسٹریشن اپنی پیک پر تھی، جب ٹیم پاکستان نے آخری زور لگایا، اگلے دونوں میچز جیت گیا، سیریز برابر ہو گئی، بس آخری دھکے کی ضرورت تھی، صرف ایک میچ، جیت جائیں تو دنیا کو پتہ لگے گا کہ سب پاکستانی بکاؤ نہیں ہیں، وہ میدان پر جان لڑانے والے کھلاڑی ہیں، پاکستان کو ایک جیت کی ضرورت تھی، اپنی عزت کے لیے، وقار کے لیے پاکستان آخری ون ڈے ہار گیا اور ٹیم سر جھکائے ملک واپس آ گئی، شاہد آفریدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں عمران خان کو as captain اختیار دیا گیا تھا، ٹیم انہوں نے بنائی اور سب کچھ حاصل کر کے بھی دکھایا۔ اور مجھے؟ مجھے ٹیم میں اسپاٹ فکسرز دیے گئے، جھوٹ بولنے والے، چور اور ڈاکو، دبانے والا کرکٹ بورڈ اور کیڑے نکالنے والے کوچ۔

یہ پاکستان کرکٹ کا سب سے ڈارک پیریڈ تھا اور لالا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پاکستان کو اندھیروں سے نکال کر لائیں گے، ‏2011 ورلڈ کپ کا سال تھا اور شاہد آفریدی اپنی بہترین فارم میں تھے، ورلڈ کپ سے پہلے سری لنکا کے خلاف ایک ون ڈے میں انہوں نے کمال کر دیا، 75 رنز بھی بنائے اور پانچ وکٹیں بھی لیں، یوں دو بار یہ کارنامہ کرنے والے تاریخ کے پہلے کھلاڑی بن گئے اور زیادہ دن نہیں لگے، لالا اور اُن کی ٹیم ورلڈ کپ 2011 میں تھی.

ورلڈ کپ 2011

تاریخ کے بہترین ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں سے ایک، جس کے میزبانوں میں پاکستان بھی تھا، لیکن یہ میزبانی پاکستان سے چھین لی گئی، اسپاٹ فکسنگ بھی لوگ بھولے نہیں تھے، تب ایک لولی لنگڑی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے آئی، جسے کوئی ریٹ نہیں کر رہا تھا، خود پاکستان والے بھی نہیں، لیکن ٹیم آفریدی نے کمال کر دیا، ایک نہیں، دو نہیں تقریباً سارے ہی میچز جیتتے ہوئے کوارٹر فائنل میں پہنچ گئی، یہ "تقریباً" میں نے اس لیے کہا کیونکہ پاکستان ایک میچ ہارا تھا، نیوزی لینڈ سے، بہرحال، پاکستان کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا، جہاں مقابلہ تھا ویسٹ انڈیز سے، یہاں شاہد آفریدی نے لیں چار وکٹیں اور پاکستان 10 وکٹوں سے جیت گیا، اب سب جاگ گئے، ماحول بن گیا، گانے آ گئے، کیونکہ اب مقابلہ تھا انڈیا سے ‏30 مارچ 2011 اور میدان موہالی اس سے بڑا میچ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا، پورا sub continent سمجھیں رک سا گیا، تھم سا گیا اور پھر، جتنا بڑا میچ تھا پاکستان نے اس سے بھی بڑی غلطیاں کیں، سچن تنڈولکر کے ایک، دو نہیں چار کیچز چھوڑے۔ یہاں تک کہ شاہد آفریدی نے کیچ کر کے بتایا کہ پکڑنا کیسے ہے، پاکستان میچ میں واپس تو آیا، لیکن صرف کچھ دیر کے لیے، ‏261 رنز کا ٹارگٹ آسان نہیں تھا، پھر وکٹیں بھی گرتی گئیں، پچاس گیندوں پر 77 رنز کی ضرورت تھی، جب شاہد آفریدی بھی آؤٹ ہو گئے، اُن کا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب خواب ہی رہ گیا، بلکہ اُس کے بعد تو وہ کوئی ٹرافی نہیں جیت پائے، نہ ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی اور نہ ہی چیمپیئنز ٹرافی، لالا کا دامن ہمیشہ خالی رہا، لیکن ایک منٹ، ورلڈ کپ 2011 سے اپنی ریٹائرمنٹ تک انہوں نے پاکستان کرکٹ کو کئی مومنٹس ضرور دیے۔

لالا کے جلوے

یہ 2013 تھا، پاکستان ویسٹ انڈیز کے ٹور پر تھا، جہاں شاہد آفریدی نے وہ کیا، جو شاید کبھی کوئی نہیں کر پائے، پہلے تو انہوں نے 55 گیندوں پر 76 رنز کی زبردست اننگز کھیلی۔۔ وہ بھی اُس وقت جب پاکستان کے 47 پر پانچ آؤٹ تھے، یوں پاکستان کی بیٹنگ لائن کو totally collapse ہونے سے بچا لیا اور پھر، بالنگ میں وہ کیا، جو کبھی کوئی اسپن بالر نہیں کر سکا، انہوں نے صرف 12 رنز دے کر 7 وکٹیں لے لیں، یہ آج بھی کسی بالر کے سیکنڈ بیسٹ ODI بالنگ فگرز ہیں۔

اور ہاں! لالا کے آخری جلووں میں وہ بھی تو تھا۔ جی ہاں! ایک ایسا مومنٹ جو پاکستان کرکٹ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، یہ دن تھا 2 مارچ 2014 کا، مقام، میرپور ڈھاکا اور میچ تھا پاکستان اور انڈیا کا، پاکستان 246 رنز چیز کر رہا ہے اور 44 ویں اوور میں محمد حفیظ کی وکٹ گر گئی، جب شاہد آفریدی میدان میں enter ہوئے، دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرتی گئیں، یہاں تک کہ آخری اوور آ گیا، ایک اوور 10 رنز اور سعید اجمل پہلی بال پر کلین بولڈ، اب صرف ایک بال پاکستان کے لیے میچ ختم کر سکتی تھی، آخری بیٹسمین جنید خان نے ایک قیمتی رن لیا اور 'لالا' کو آشون کے سامنے کر دیا، اب باقی تھیں چار گیندیں اور 10 رنز اور یہ بات سمجھ لیں لالا آخر تک انتظار نہیں کرتا، انہوں نے اگلی بال پر چھکا لگایا اور پھر نیکسٹ بال؟ اس پر شاٹ لگا تو دل اچھل کر حلق میں آ گیا، کیمرا آسمان کی طرف تھا اور ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی، کروڑوں دل زور زور سے دھڑکنے لگے، ایسا لگا یہ صدیوں کا انتظار ہے اور پھر آواز آئی it’s six, Shahid Afridi you beauty۔

اس مومنٹ کو، فیلنگ کو، ہم الفاظ میں بیان کر ہی نہیں سکتے، کوئی پاکستانی نہیں کر سکتا، وہ صرف فیل کرنے والی چیز تھی بس، ایک ایسا مومنٹ جو کوئی کبھی نہیں بھولے گا، شاہد آفریدی بھی نہیں، دو دن بعد لالا نے بنگلہ دیش کو بھی دھو دیا، 327 چیز کرتے ہوئے 225 پر پانچ آؤٹ تھے، 52 بالز پر ضرورت تھی 102 رنز کی، یہاں سے کون جیت سکتا تھا؟ اور لالا میدان میں داخل ہوئے اور بتایا کہ کیسے جیتا جاتا ہے، انجرڈ لالا نے 25 بالز پر 59 رنز بنائے، 7 چھکے اور 2 چوکے اور پاکستان آخری اوور میں تین وکٹوں سے میچ جیتا اور بنگلہ دیشی فینز رو پڑے، شاہد آفریدی کا کیریئر ایک ہی چیز کی وجہ سے مشہور تھا اپنے چھکوں کی وجہ سے کئی یادگار چھکوں کے بیچ اُن کا ایک چھکا ایسا بھی تھا، جو آج تک controversial ہے، یہ تھا 153 میٹرز کا، نہیں، 158 میٹرز کا، ارے نہیں، نہیں 160 میٹرز کا، بلکہ آج تک پتہ نہیں چلا کہ یہ چھکا تھا کتنا لمبا؟ کیونکہ اُس میدان میں یہ ٹیکنالوجی تھی ہی نہیں، لیکن 'لالا' کے فینز کہتے ہیں یہ کرکٹ ہسٹری کا سب سے لمبا چھکا تھا، تھا تو واقعی بہت بڑا، لیکن کیا واقعی biggest six تھا؟ یہ کوئی نہیں جانتا، ہاں! یہ بات ہے کہ میدان پرتھ کا ہو یا جوہانسبرگ کا، یہ لالا کے بڑے چھکوں میں سے ایک ضرور تھا، ویسے جس ریکارڈ کو لالا نے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا، وہ بھی ٹوٹ گیا۔‏2014 نئے سال کی پہلی صبح کا سورج طلوع ہوا اور شاہد آفریدی کو ایک آواز آئی۔ "چاچو! آپ کا ریکارڈ ٹوٹ گیا!"

نیوزی لینڈ کے ایک unknown سے پلیئر کوری اینڈرسن نے 36 بالز پر ہنڈریڈ بنا کر نیا ورلڈ ریکارڈ بنا دیا، شاہد آفریدی نے کہا ریکارڈ تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں، لیکن میری خواہش تھی کہ میرا یہ ریکارڈ کبھی نہ ٹوٹے، حقیقت یہ ہے کہ اُس دن 'لالا' ختم ہو گیا تھا، اس کے بعد ان سے کوئی ریکارڈ نہیں بنا، بڑے بڑے ٹورنامنٹ آئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2014 ہو یا ورلڈ کپ 2015 اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016 کی آخری کیمپین، اُن میں نہ شاہد آفریدی نے کوئی فائیفر لیا اور نہ کوئی سنچری بنائی، جی ہاں! اپنے کیریئر کے اینڈ تک!۔

کیریئر کا اختتام

پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی کھلاڑی اپنے عروج پر کرکٹ چھوڑے، آخر کیوں؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، پاکستان میں کرکٹرز بہت زیادہ پڑھے لکھے بیک گراؤنڈ سے نہیں آتے، دنیا میں کہیں بھی نہیں آتے، لیکن بورڈ انہیں گروم کرتا ہے، تیار کرتا ہے۔ میدان کے لیے بھی اور میدان کے باہر کی دنیا کے لیے بھی، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں کھلاڑیوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے میدان میں پرفارمنس، ان کا روزگار صرف کھیل ہے بس! یہی ان کی روزی روٹی ہے، اس لیے کیریئر کو کھینچتے رہتے ہیں، شاہد آفریدی نے بھی ایسا ہی کیا، ‏2014 اُن کے لیے پرفیکٹ سال تھا، لیکن انہوں نے فیصلہ نہیں لیا، یہ ورلڈ کپ 2015 تھا، جو اُن کے ون ڈے کیریئر کو ختم کر گیا، جیسی بھیانک پرفارمنس پاکستان کی رہی، ویسی ہی لالا کی تھی، یہی نہیں، پھر 2016 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی کھیل گئے، نتیجہ مختلف نہیں نکلا اور اس کے بعد شاہد نے بالآخر ریٹائرمنٹ لے لی، پکی والی!، جی ہاں! وہ مشہور تھے ریٹائرمنٹ لینے اور پھر واپس لینے میں بھی، لیکن 2016 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد پھر ایسا کبھی نہیں ہوا، ساتویں بار ریٹائرمنٹ لینے کے بعد شاہد آفریدی نے پھر واپس نہیں لی، یوں 27 ٹیسٹ، 398 ون ڈے اور 99 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کے ساتھ لالا کا کیریئر ختم ہوا۔

گیارہ ہزار سے زیادہ انٹرنیشنل رنز اور تقریباً ساڑھے پانچ سو وکٹوں کے ساتھ اور ہاں! ون ڈے انٹرنیشنلز میں سب سے زیادہ چھکوں کے ساتھ بھی شاہد آفریدی نے زندگی میں بہت کچھ achieve کیا اور بہت کچھ وہ نہیں کر سکے، اس میں صرف اُن کا قصور نہیں، پاکستان میں کرکٹ کو جیسے چلایا جاتا ہے، یہاں تو ڈان بریڈمین بھی آ جائیں تو نہیں سنبھل سکتے۔

تنازعات اور وراثت

پاکستان کا کوئی کھلاڑی ہو اور اس کی controversy نہ ہو؟ ایسا ممکن نہیں، شاہد آفریدی نے اپنے حصے کی کونٹروورسیز بھی بہت لیں، آسٹریلیا میں بال چبانے سے لے کر ایک میچ میں پچ خراب کرنے تک، ٹیم میں سیاست سے لے کر گالیوں کے طوفان تک، کچھ لوگوں کی نظر میں وہ شعیب اختر کی طرح کرکٹ کا بیڈ بوائے تھا، جینٹل مینز گیم کے دامن پر داغ لگانے والا کھلاڑی لیکن اُس زمانے میں، جس میں کئی بڑے نام فکسنگ میں پھنسے، صرف دو کھلاڑی ایسے تھے، جن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا، یہی دو بیڈ بوائز شعیب اختر اور شاہد آفریدی اور جہاں تک بات ہے کہ شاہد آفریدی کی legacy کیا ہے؟ وہ آپ آج پاکستان کرکٹ میں دیکھ سکتے ہیں، کرکٹ کو پاکستان میں مزید پاپولر بنانے بلکہ افغانستان میں بھی مشہور کرنے میں شاہد آفریدی کا بنیادی کردار ہے۔ پاکستان کرکٹ میں جہاں ہمیشہ پنجاب کا راج تھا، آج کا پشتون راج شاہد آفریدی کی وجہ سے ہی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کرکٹ کو خیبر پختونخوا اور افغانستان میں فروغ دینے والی سب سے بڑی فورس وہی تھے، ان کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یووراج نے ایک بار کہا تھا میں چھ چھکے لگا کر بھی اتنا پاپولر نہیں ہوا جتنا آفریدی پاپولر ہے، لیکن ایک منٹ، اس کہانی کی ایک اور سائیڈ بھی ہے، جہاں کچھ لوگ دیوانوں کی طرح شاہد آفریدی کو پسند کرتے ہیں تو وہاں ایسے بھی ہیں جنہیں 'لالا' ایک آنکھ نہیں بھاتے، وہ انہیں بس ایک دل بہلانے والا پلیئر سمجھتے ہیں، جو وکٹ پر آتا ہے، آٹھ دس گیندیں کھیلتا ہے، ایک دو چھکے بھی مار لیتا ہے اور پھر ایک گیند پر کیچ دے کر واپس چلا جاتا ہے، وہ شاہد آفریدی کو غیر ذمہ داری کی مثال اور لا پروائی کی انتہا سمجھتے ہیں، ایک ایسا کھلاڑی جو تمام عمر گزر جانے کے بعد بھی لڑکا بنا رہا لیکن، مزے کی بات بتاؤں، یہی تو 'لالا' کی مقبولیت کا "راز" تھا، ان کی انہی حرکتوں میں ہر نوجوان کو اپنا reflection نظر آتا تھا اور وہ اسی لیے انہیں پسند بھی کرتا تھا، لیکن ہر بال کو میدان سے باہر پھینکنے کا جنون شاہد آفریدی کا کیریئر تباہ کر گیا اور انہیں فالو کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کا بھی، چلیں، یہ تو وہ ہیں جو شاہد آفریدی کو اُن کی کرکٹ کی وجہ سے پسند یا نا پسند کرتے ہیں۔ لیکن لالا زیادہ اَن پاپولر ہوئے، ریٹائرمنٹ کے بعد، اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ شاہد آفریدی کے اندر وہ سب کچھ ہے، جو ایک سیاست دان میں ہوتا ہے۔

اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

مجھے محبت ہے تو ایک چیز سے، پاکستانی سیاست۔ لیکن مجھے نفرت ہے سیاست دانوں سے۔

انہوں نے اپنی کتاب میں بلال بھٹو زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی آفرز کا ذکر کیا، جو سب کی سب آفریدی نے ٹھکرا دیں۔ بلکہ سیاست دانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہیں سے اُن کی شہرت کو بڑا نقصان پہنچا، کیونکہ عمران خان کی فالوونگ بہت زیادہ ہے، کرکٹ میں تو تھی ہی، سیاست میں تو وہ اور بھی آگے نکل گئے۔ اور اُن کے ماننے والے اپنے کپتان پر تنقید بالکل برداشت نہیں کرتے۔ وہ ہاتھ دھو کر شاہد آفریدی کے پیچھے پڑ گئے اور آج بھی ہر جگہ اُن کی مخالفت کرتے ہیں، شاہد آفریدی کہتے ہیں کہ میرے کوئی سیاسی ambitions نہیں ہیں اور یہ بات سچ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا اِس وقت کوئی political ambition نہیں۔ مگر میں politics کا بہت سیریئس فین ہوں۔ اس کام کو پبلک سروس سمجھتا ہوں لیکن کوئی ایک پارٹی بھی ایسی نہیں جسے میں جوائن کر سکوں، شاہد آفریدی جو بھی کہیں، ہم آپ کو ابھی سے بتا رہے ہیں کہ لالا کا فیوچر سیاست میں ہے، کیوں؟ کیونکہ شاہد آفریدی بالکل پاکستان جیسے ہیں غیر یقینی، Unpredictable اور Uncertain، کبھی کبھی چلنے والا اور کبھی تو ایسا چلنے والا کہ چلانے والا بھی حیران رہ جائے۔

شیئر

جواب لکھیں