کرکٹ ورلڈ کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟ جی ہاں! پاکستان کی کپتانی کرنا۔ لیکن ہماری کرکٹ ہسٹری میں ایک کھلاڑی ایسا بھی آیا، جس نے کپتانی کا حق ادا کر دیا، نام تھا عمران خان!
لیکن کیا واقعی پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے بڑا اور اچھا کپتان کوئی نہیں؟ آج اسی سوال کا جواب ڈھونڈیں گے اور دیکھیں گے، کون ہے پاکستان کرکٹ کا عظیم کپتان؟ عمران خان یا مصباح الحق؟
ارے، ارے، ناراض نہ ہوں۔ ہم کیا کریں؟ پاکستان کرکٹ ہسٹری کے دو سب سے کامیاب کپتان یہی ہیں۔ اسی لیے ہمیں کمپیریزن بھی انہی دونوں کا کرنا پڑے گا۔ اور جو رزلٹ آئے گا، شاید آپ کو جان کر حیرت ہو، تو چلیں شروعات کرتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنا آسان کام نہیں۔ جیفری بائیکاٹ نے کہا تھا، probably the toughest job in world cricket۔ اور انہوں نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ کیونکہ پاکستان کا کپتان ایک نہیں، کئی جنگیں لڑتا ہے۔ اپنے آپ سے بھی، کھلاڑیوں سے بھی، بورڈ سے بھی اور مخالف ٹیموں سے بھی۔
عمران خان اس پورے پروسس سے گزرے اور ہر محاذ جیتا: پہلے اپنے ساتھ جنگ لڑی۔ ڈیبیو پر کسی کو انسپائر نہیں کر پائے۔ رزلٹ یہ نکلا کہ ٹیم سے باہر کر دیے گئے۔ تین سال تک ایک میچ بھی نہیں کھلایا گیا۔ واپس آئے اور پھر نکال دیے گئے۔ اور یہاں آغاز ہوا عمران کی پہلی لڑائی کا، اپنے آپ سے جنگ کا۔ انہوں نے خود کو بنایا۔ ایک میڈیم پیس بالر سے خود کو ایک فاسٹ بالر میں بدلا۔ ایک mediocre بیٹسمین سے ایک مستند بلے باز بنے اور ایک مرتبہ پھر ٹیم میں واپس آئے، ڈیبیو کے پانچ سال بعد اور خود کو ثابت کر کے دکھایا۔ ان کی جگہ ایسی پکی ہوئی کہ پھر کوئی انہیں نکال نہیں پایا۔ لیکن اس کے ساتھ زندگی کی دوسری جنگ شروع ہو گئی: کھلاڑیوں سے جنگ۔
یہ جنگ تو عمران خان نے اس کامیابی سے جیتی کہ کئی سینیئر کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے بھی کپتان بن گئے۔ بطور کیپٹن عمران خان کی ٹیم پر گرپ ایسی تھی کہ جو اُن کی بات نہ مانتا، ٹیم سے باہر ہوتا۔ وہ اپنی من مرضی کی ٹیم کھلاتے اور کسی کی نہ سنتے، کئی ورلڈ کلاس پلیئرز کا کیریئر صرف عمران خان کی وجہ سے بنا۔ پھر بورڈ سے بھی عمران کی زبردست ٹکر رہی، یہ جنگ بھی انہوں نے ہی جیتی۔
یہ تمام محاذ جیتنے کے بعد عمران خان کی آخری جنگ ہوئی مخالف ٹیموں سے۔ اور کوئی ٹیم ایسی نہیں تھی جس کے خلاف عمران خان نے کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ انڈیا کو انڈیا میں ہرایا، انگلینڈ کو انگلینڈ ہرایا۔ ’’مائٹی ویسٹ انڈیز‘‘ کو بھی تقریباً ہرا ہی دیا تھا، لیکن ان سب سے بڑھ کر کارنامہ یہ تھا کہ وہ جاتے جاتے ورلڈ کپ بھی جیت گئے۔
اسی لیے تو عمران خان لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنے۔ وہ خوابوں کے شہزادے تھے، بالکل ویسے، جیسا لوگ انہیں دیکھنا چاہتے تھے یا پھر جیسا وہ خود بننا چاہتے تھے۔ ایک aggressive، حکم چلانے والا، اپنی بات منوانے والا، ایک کامیاب اور ہاں! خوبصورت کپتان۔
عمران خان کی کہانی تو ایسی ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی کا اسکرپٹ خود لکھا ہو۔ اسی لیے انہیں کہا جاتا، ’’دی گریٹ خان‘‘۔
اس نام اور اسی شہرت کو لے کر عمران خان سیاست کے میدان میں بھی آئے۔ بہت سے لوگ اُن کے حامی بنے۔ کچھ خلاف بھی ہو گئے۔ لیکن افسوس کی بات: سیاسی اختلاف کی وجہ سے لوگ اُن سے کرکٹ کا کریڈٹ بھی چھیننے لگے، اُن کے کیریئر کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے لگے۔
خیر، اُن کے ماننے یا نہ ماننے سے فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان ایک اچھے کپتان تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہاں! یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے علاوہ سب سے اچھا کپتان کون تھا؟ اس سوال کا جواب بہت آسان بھی ہے، اور بہت مشکل بھی۔ اسٹیٹس دیکھیں تو بالکل آسان لگتا ہے۔
مصباح الحق پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ کیپٹن ہیں۔ وہ تو عمران خان سے بھی زیادہ ٹیسٹ میچز جیت چکے ہیں۔
لیکن اصل جواب تب ملے گا جب ہم تھوڑا سا deep جائیں گے۔ دونوں کپتانوں کی کہانیوں میں جائیں گے۔ تو آئیے شروع کرتے ہیں 1970s سے۔
کپتان کہانی
1970 کی دہائی کا آغاز پاکستان کے لیے بہت مایوس کُن تھا۔ قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ قوم کی نفسیات کو بہت گہرا صدمہ پہنچا۔ نیشنز پرائیڈ ختم ہو چکی تھی۔ زندگی میں جب کچھ کھو جائے اور اُس کا ازالہ بھی ممکن نہ ہو، تو کچھ لوگ سب کچھ بھلانے کے لیے نشہ کرنے لگتے ہیں۔
بحیثیتِ قوم پاکستانیوں کو بھی ایک ایسے ہی نشے کی تلاش تھی۔ اور پھر نشہ مل گیا!۔ کرکٹ قوم کی راہِ فرار بن گیا۔ میدان جنگ کی شکست کو بھلانے کے لیے قوم نے کرکٹ کا میدان دیکھ لیا اور جلد ہی کرکٹ ٹیلی وژن پر لائیو بھی آنے لگا۔
یہ کھیل گھر گھر پہنچا، لوگ اپنے بچوں کے نام کھلاڑیوں پر رکھنے لگے اور زیادہ وقت نہیں لگا کرکٹ ’’ایلیٹ‘‘ کا نہیں، عوام کا کھیل بن گیا۔ اسے عوامی کھیل بنانے میں جس کھلاڑی کا سب سے بڑا کردار تھا، وہ تھے: عمران خان۔
شروع کے دنوں میں وہ کچھ زیادہ امپریس نہیں کر پائے۔ ابتدائی 4 میچز میں نے صرف 97 رنز بنائے اور 5 وکٹیں لی تھیں۔ لگتا تھا پڑھائی اور کرکٹ ساتھ نہیں چل پائے گی۔ بہرحال، عمران خان نے گریجویشن کیا اور انگلینڈ سے پاکستان آ گئے اور آتے ہی چھا گئے۔
1976 کے بعد وہ ٹیم پاکستان کا ایسا حصہ بن گئے کہ کوئی انہیں نکال نہیں سکتا تھا۔ 1982 میں بالآخر کپتان بن گئے اور پھر اگلے 10 سال پاکستان کرکٹ کا گولڈن پیریڈ رہا۔
عمران خان نے پاکستان کرکٹ کو بدل کر رکھ دیا، لیکن عمران خان کے بعد دوسرے کامیاب ترین کپتان مصباح کی کہانی بالکل مختلف ہے۔
اگر کسی کو اپنی زندگی کا اسکرپٹ خود لکھنے کا موقع ملے، تو وہ مصباح جیسی زندگی کبھی نہیں لکھے گا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ بہت مشکل زندگی ہے! صرف حالات ہی دیکھیں تو مصباح کو عمران خان سے ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی کپتان سے زیادہ ٹف حالات ملے۔
عمران خان نے جب کپتانی سنبھالی تھی تو پاکستان کرکٹ اچھے مقام پر کھڑی تھی۔ کوئی بڑا کرائسس نہیں تھا، کوئی بہت بڑا مسئلہ سامنے نہیں تھا۔ نئے زمانے کے ساتھ نیا ٹیلنٹ سامنے آ رہا تھا اور گیم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ کرکٹ ٹیم گیم ہے۔ پوری ٹیم اچھا کھیلتی ہے تبھی جیتتی ہے، پاکستان ٹیم ورک کے ذریعے جیت رہا تھا۔
لیکن مصباح کو ایسی کوئی سہولت نہیں ملی۔ جب انہوں نے کپتانی سنبھالی تو حالات بدترین تھے۔ بلکہ اس سے زیادہ خراب حالات ہو ہی نہیں سکتے۔
ایک تو 2010 میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل آیا۔ اس نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا دیں۔ ایک ٹیلنٹڈ کپتان اور دو اہم ترین فاسٹ بالرز پر لمبی پابندیاں لگیں۔ اہم پلیئرز تو گئے سو گئے۔ جو دنیا بھر میں پاکستان کو بدنامی ملی، اس کا تو ازالہ ہو ہی نہیں سکتا اور یہ تو کچھ بھی نہیں، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی تو بند تھی۔
2009 میں دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر اٹیک کر دیا تھا۔ اُس کے بعد تو کوئی پاکستان آنے کو تیار ہی نہیں تھا، یعنی میدان بھی ویران۔ پھر ملک میں سیکیورٹی حالات بھی بہت خراب تھے۔ بلکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بھیانک دور تھا۔
ایک کے بعد دوسرا بحران، معیشت بدترین حالت میں تھی اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی! اِن حالات میں جب اسپاٹ فکسنگ کا اسکینڈل بھی آیا تو سمجھیں پاکستان کرکٹ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ تب مصباح ٹیم میں نہیں تھے۔ 2009-10 کے بھیانک آسٹریلیا ٹؤر کے بعد بہت سے کھلاڑی نکالے گئے۔ ان میں سے ایک مصباح بھی تھے۔ تب اُن کی عمر تقریباً 37 سال تھی اور لگتا یہی تھا کہ بس کیریئر ختم ہو گیا۔
ڈیبیو کے بعد آٹھ سالوں میں مصباح 19 ٹیسٹ، 58 ون ڈے اور 31 ٹی ٹوئنٹی کھیل چکے تھے۔ اس سے زیادہ اور کیا کھیلتے؟ یہ ریٹائرمنٹ کا وقت تھا لیکن یہاں انہیں out of nowhere ایک ٹاسک مل گیا، زندگی کا مشکل ترین ٹاسک، ایک ڈوبتی ہوئی ٹیم کو بچانے کا ٹاسک۔
نومبر 2010 آ گیا اور مصباح کو ٹیسٹ کیپٹن بنا دیا گیا اور پھر دنیا بدل گئی!
جیسے عمران خان نے کچھ ہی سالوں میں پاکستان کو دنیا کی نمبر ون ٹیم بنا دیا تھا، مصباح نے بھی وہی کیا۔ لیکن انداز عمران خان سے بالکل مختلف تھا۔
قائدانہ انداز کا فرق
مصباح عمران خان سے بہت مختلف کریکٹر تھے۔ تھے وہ بھی میانوالی کے اور نیازی بھی تھے۔ لیکن ذرا وکھری ٹائپ کے۔ مثلاً عمران خان aggressive کیپٹن تھے لیکن مصباح احتیاط اور سنبھل کر چلنے کا دوسرا نام۔ ایک بہت بولڈ کریکٹر تو دوسرا بہت reserved۔ سمجھیں ایک John Wick تو دوسرا Bruce Wayne۔
عمران خان کے playing اسٹائل میں بہت ہائی رسک مووز ہوتیں جس کا ہائی ریوارڈ بھی ملتا تھا۔ لیکن مصباح low key رہتے اور ہمیشہ strategic موو لیتے۔ رسک بھی calculated۔ لیکن ہاں! کبھی کبھی aggressive بھی ہو جاتے۔
مثلاً آسٹریلیا کے خلاف مصباح کی اپنی تیز ترین سنچری اور سری لنکا کے خلاف ایک ٹیسٹ میں 5.25 کے رن ریٹ سے 300 پلس کا رن چیز۔ تو مصباح کبھی کبھی یہ جھلک بھی دکھلاتے، کیوں؟ کیونکہ عمران ہو یا مصباح، دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔ پاکستان کو جتوانا! اور نتیجہ زیادہ مختلف نہیں تھا، کم از کم ٹیسٹ میں تو ایسا ہی تھا۔ ویسے دونوں کے اسٹیٹس دیکھیں تو صحیح اندازہ ہوگا۔
عظیم کپتان: اعداد و شمار کی نظر سے
عمران خان نے ٹوٹل 48 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی کپتانی کی۔ 14 جیتے اور 8 ہارے، باقی سب ڈرا ہوئے۔ جب وہ ریٹائر ہوئے تو پاکستان کے کامیاب ترین کپتان تھے۔ اور یہ ریکارڈ کوئی نہیں توڑ پایا، نہ جاوید میانداد، نہ وسیم اکرم، نہ ہی کوئی اور۔ یہاں تک کہ مصباح آ گئے!
مصباح الحق نے سب سے زیادہ 56 میچز میں پاکستان کی قیادت کی اور سب سے زیادہ 26 میچز بھی انہوں نے ہی جیتے۔ جی ہاں! عمران خان اور جاوید میانداد سے تقریباً ڈبل۔ تبھی تو مصباح پاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب کپتان ہیں۔
ویسے اگر ون ڈے فارمیٹ پر نظر ڈالیں تو یہاں عمران خان نے بطور کیپٹن 139 میچز کھیلے۔ 77 جیتے اور 57 ہارے۔ اُن کا آخری ون ڈے انٹرنیشنل وہی تھا، جو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا: ورلڈ کپ 1992 کا فائنل۔ یہاں پاکستان جیتا اور عمران خان نے کرکٹ کو الوداع کہہ دیا، پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان کی حیثیت سے۔
ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں کو ملا کر دیکھیں تو عمران خان نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ میچز میں کپتانی کی۔ یہ تعداد 187 میچز بنتی ہے۔ اِن میں سے 89 جیتے اور 67 ہارے۔ جبکہ 26 میچز ڈرا ہوئے۔ یہ 89 میچز جیتنے کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ پایا۔ یہاں تک کہ عمران خان کے نائب جاوید میانداد بھی نہیں۔
ارے ہاں! عمران خان کو جاوید میانداد جیسے وائس کیپٹن کا ساتھ بھی تو حاصل تھا۔ ایک شارپ مائنڈڈ، اسٹریٹ اسمارٹ میانداد۔
لیکن مصباح اپنی ٹیم میں ایک آؤٹ سائیڈر تھے۔ ان کے پاس ایسا کوئی نائب نہیں تھا۔ انہیں تو عمارت ڈھیر ہو جانے کے بعد نئی بلڈنگ کھڑی کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ پھر مصباح پر کھیل کر خود کو ثابت کرنے کا دباؤ بھی تھا۔ کیونکہ اُن کی عمر زیادہ تھی، انہیں ٹیم میں ایز اے پلیئر بھی اپنی جگہ ثابت کرنی تھی۔
پھر شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی بھی تو ٹیم میں تھے، وہ تو لمیٹڈ اوورز میں کیپٹن بھی تھے۔ یہ بھی ایک added پریشر تھا۔ لیکن مصباح نے سب کا مقابلہ کیا، اپنا بھی اور دنیا کا بھی۔ اور یہ سب انہوں نے 37 سال کی عمر کے بعد کیا۔
اُس وقت تو لوگ انہیں نجانے کیا کیا کہتے تھے۔ لیکن آج ہم جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جس عمر میں لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں، اِس عمر میں مصباح نے کپتانی شروع کی۔ وہ بھی پاکستان جیسی ٹیم کی کپتانی۔
پھر صرف ٹیم کو سنبھالا ہی نہیں، کامیابیاں بھی حاصل کیں، خاص طور پر ٹیسٹ میں تو پاکستان کو دنیا کی نمبر ون ٹیم بنا دیا، بالکل عمران خان کی طرح۔ بلکہ ایک ایڈوانٹیج تو ایسا ہے، جو کسی کو حاصل نہیں۔ مصباح نے کبھی ہوم گراؤنڈ پر کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔
جی ہاں! مصباح کے دور میں پاکستان ایک میچ بھی پاکستان میں نہیں کھیل پایا تھا۔ اس کی ہوم سیریز بھی یو اے ای میں ہوتی تھیں اور یہیں پر مصباح الیون نے آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی بڑی ٹیموں کے خلاف کلین سویپ کیے۔ اور پھر وہ کارنامہ بھی کر دکھایا، جو کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ جو عمران خان بھی نہیں کر پائے تھے: مصباح نے ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں ہرا دیا۔
ٹیسٹ سے ہٹ کر دیکھیں تو مصباح الیون نے انڈیا کو انڈیا میں اور ساؤتھ افریقہ کو ساؤتھ افریقہ میں ون ڈے سیریز ہرائی تھی۔ اور پاکستان کو ایشیا کپ جتوانے والے آخری کپتان بھی مصباح ہی تھے۔
ہاں! ان کی کامیابیاں عمران خان، وسیم اکرم اور انضمام الحق سے کم ہیں لیکن ٹیم پاکستان میں جو stability مصباح لائے تھے۔ وہ ہم سالوں سے ڈھونڈ رہے تھے۔ اُن کے پانچ سالوں میں نہ کوئی controversy پیدا ہوئی، نہ کوئی بغاوت اور نہ ہی ٹیم میں کوئی پھوٹ پڑی۔
مصباح عزت سے ٹیم میں آئے اور عزت سے گئے۔ تو آخر عوام کے ذہنوں میں مصباح کا ایسا امیج کیوں بن گیا؟ کہیں اس کی وجہ ورلڈ کپ تو نہیں؟
ورلڈ کپ اور انڈیا فیکٹر
اب صرف دو ہی وجہ بچتی ہیں: ایک ورلڈ کپ اور دوسرا انڈیا فیکٹر۔
عمران خان نے اپنے کیریئر کا خاتمہ کیا ورلڈ کپ کے ساتھ لیکن مصباح کی قسمت اتنی اچھی نہیں تھی۔ وہ کبھی ورلڈ کپ نہیں جیت سکے۔ 2007 میں انہیں بہترین موقع ملا تھا، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں مصباح ہی تھے جو پاکستان کو جیت کے بہت قریب لائے۔ لیکن صرف ایک گیند اور ایک غلط شاٹ نے انہیں مجرم بنا دیا۔ پاکستان ورلڈ کپ ہار گیا!
قسمت دیکھیں کہ 2011 میں انڈیا کے خلاف پھر وہی سچویشن آ گئی۔ یہ ورلڈ کپ سیمی فائنل تھا، جہاں پاکستان 261 چیز کر رہا تھا۔ 103 رنز پر تین وکٹیں گریں تو مصباح میدان میں اترے۔ ایک اینڈ پر جمے رہے، آخر تک کھڑے رہے لیکن پاکستان کو جتوا نہیں سکے۔
76 بالز پر 56 رنز کی یہ اننگز مصباح کو بہت مہنگی پڑی کیونکہ لوگوں نے ہار کا الزام انہی پر لگایا۔ پاکستان کا ایک اور ورلڈ کپ ڈریم ٹوٹ گیا۔
مصباح نے اس داغ کو دھونے کی بڑی کوشش کی۔ وہی کپتان تھے جب پاکستان آخری بار انڈیا کے ٹؤر پر گیا تھا اور 2-1 سے جیت کر واپس آیا تھا۔
موسمی کرکٹ فینز کہتے ہیں کھلاڑی وہی جو انڈیا سے جیتے، باقی سب اناڑی ہیں لیکن مصباح یہ کر کے بھی اپنا قد اونچا نہیں کر سکے۔
ان کے مقابلے میں عمران خان کا دور تو انڈیا کے خلاف کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ان کی captaincy میں پاکستان نے انڈیا سے 15 ٹیسٹ میچز کھیلے اور کوئی نہیں ہارا۔ 24 ون ڈے کھیلے، 19 جیتے اور صرف چار ہارا۔ یہ تھا عمران خان کا انڈیا کے خلاف شاندار ریکارڈ۔ اسی کی وجہ سے تو پاکستان عمران خان کا دیوانہ تھا۔ ان کی فالوؤنگ بڑھتی آگے جا کر ’’کلٹ فالوؤنگ‘‘ بن گئی۔ اور مصباح کی فالوؤنگ؟ رہنے ہی دیں، انہیں بہت بُری طرح ٹرول کیا گیا، بلکہ آج تک کیا جاتا ہے۔
عمران خان پر تو کرکٹ کیریئر میں کبھی تنقید نہیں ہوئی۔ وہ میڈیا ڈارلنگ تھے۔ ان کی ہار کو بھی کبھی ہار نہیں سمجھا گیا، بلکہ کہا گیا کہ دوسری ٹیم زیادہ اچھا کھیل گئی اس لیے پاکستان ہار گیا۔ لیکن مصباح کا زمانہ بہت بے رحم تھا۔ سوشل میڈیا کا عروج شروع ہو چکا تھا، تنقید کا حق اب سب کو مل چکا تھا اور تقریباً سبھی کا فیورٹ ٹارگٹ تھا: مصباح!
انہیں ’’ٹُک ٹُک‘‘ کہا گیا اور نجانے کیا کیا نام رکھے گئے۔ لیکن مصباح نے کبھی ری ایکشن نہیں دکھایا۔ وہ ’’کیپٹن کُول‘‘ تھے اور آخر تک ایسے ہی رہے۔
ویسے ایک بات ہے: اگر 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہار کا مجرم مصباح تھا تو یاد رکھیں کہ عمران خان کی کپتانی میں پاکستان 1987 کا ورلڈ کپ ہارا تھا۔ تو آخر کس بنیاد پر مصباح گریٹ کیپٹن یا عظیم کپتان نہیں؟
لے دے کر بس ایک ہی چیز رہ جاتی ہے: انڈیا فیکٹر۔
مصباح کے کریڈٹ پر انڈیا کے خلاف دو ورلڈ کپ میچز میں دو ناکامیاں ہیں۔ ایسی ناکامیاں جن کا داغ بڑی کوشش کے باوجود وہ دھو نہیں پائے۔ یا وجہ کچھ اور ہے؟ وجہ دونوں کے attitude میں فرق ہے یا مصباح خود کو پریزینٹ کرنے کا آرٹ نہیں جانتے تھے؟ یا پھر وہ عمران خان کی طرح نہیں دکھتے تھے، وہ انسٹا گرام ایبل نہیں تھے؟
آپ بتائیں آپ کو کیا لگتا ہے؟