نومبر 1989 کا پہلا دن، جو میں کبھی نہیں بھولتا، میں 9 سال کا تھا، اسکول کا ہوم ورک کر رہا تھا مگر نظریں ٹی وی پر تھیں۔ جہاں نہرو کپ کا فائنل لائیو آ رہا تھا، نہ یہ پتہ تھا کہ ویسٹ انڈیز کتنی بڑی ٹیم ہے؟ ویوین رچرڈز کس بلا کا نام ہے؟ اور نہ یہ کہ میلکم مارشل کس پائے کا بالر ہے؟ میں تو بس اتنا جانتا تھا کہ یہ میچ پاکستان کو جیتنا چاہیے۔ تب آخری اوور آیا، ایک وکٹ گری اور پھر ایک دبلا پتلا سا لڑکا میدان میں آیا، میں نہ اس کا نام جانتا تھا، اور نہ کسی کو اس سے کوئی امید تھی۔ لیکن پھر جو ہوا، وہ تاریخ بن گیا۔ اس نے پہلی گیند پر ہی چھکا لگا دیا اور پاکستان جیت گیا! اور وہ لڑکا؟ میرا ہیرو بن گیا، نام تھا "وسیم اکرم"، میں اس کا اتنا بڑا فین بن گيا کہ اُس کی خاطر دوسروں سے لڑتا جھگڑتا کوئی اگر وقار یونس کو زیادہ اچھا بالر سمجھتا تو میں اس سے دوستی ختم کر لیتا، میں رائٹ ہینڈڈ بالر تھا، لیکن نقل وسیم اکرم کے بالنگ ایکشن کی کرتا تھا، اور ہاں! کبھی کبھی تو لیفٹ ہینڈڈ بیٹنگ بھی کر لیتا۔ صرف اور صرف وسیم بھائی کے لیے اور آج یہ آرٹیکل اپنے چائلڈ ہڈ ہیرو کے لیے لکھ رہا ہوں، ایک tribute کے طور پر، اُس وسیم اکرم کے لیے جس کے کیریئر میں کئی بڑی کامیابیاں ہیں، لیکن بہت ساری ناکامیاں بھی کئی ریکارڈز بھی ہیں تو کئی controversies بھی کرکٹ کا passion بھی ہے تو کئی ہارٹ بریکس بھی۔ وسیم اکرم ہماری زندگیوں میں کئی خوشیوں کی وجہ بھی بنے اور کئی دکھوں کی بھی تو آئیے آج آپ کو "سوئنگ کے سلطان" وسیم اکرم کی کہانی سناتا ہوں۔ کیونکہ یہ کہانی میں نے اپنی نظروں سے دیکھی ہے۔ ان کی جیت، ہار، خوشی اور غمی کو ساتھ ساتھ چلتے دیکھا ہے اور اب میں چاہتا ہوں آپ بھی پڑھیں۔ صرف رفتار پر۔

سوئنگ کا سلطان

وسیم اکرم کی کہانی پاکستان کے باقی کرکٹ اسٹارز سے بالکل مختلف ہے، یہ منفرد بھی ہے اور حیرت انگیز بھی کیونکہ وسیم کا کوئی جاننے والا کرکٹر نہیں تھا اور نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار کرکٹ کھیلتا تھا اور آپ تو جانتے ہوں گے کہ پاکستان میں جان پہچان کی کتنی اہمیت ہے؟ ہمارے ہاں تو چیئرمین کرکٹ بورڈ بھی سیاسی appointment ہوتا ہے، بلکہ میدانوں پر بھی خاندانوں کا راج رہا ہے۔ محمد خاندان سے اکمل فیملی تک، لیکن وسیم اکرم کا ایسا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔ انہوں نے تو بس دوسروں کو کرکٹ کھیلتے دیکھا اور خود کھیلنا شروع ہو گئے اور سیکھتے چلے گئے، آگے بڑھتے چلے گئے اور پھر صرف دو سال میں۔ جی ہاں! صرف دو سال میں وہ گلی کرکٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ تک پہنچ گئے، لیکن کیسے؟ یہ کہانی سننے والی ہے اور کیونکہ ایک پاکستانی کی کہانی ہے، تو اس میں آپ کو بہت سے رنگ ملیں گے، وسیم اکرم کے خاندان کا تعلق تھا امرتسر کے قریب ایک گاؤں سے تھا، پارٹیشن ہوا تو یہ خاندان ہجرت کر کے کامونکی اور پھر وہاں سے لاہور آ گیا۔

جہاں تین جون 1966 کو وسیم اکرم پیدا ہوئے، چار بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر یہ فیملی ماڈل ٹاؤن، لاہور میں رہتی تھی، بہت اچھی لائف گزارتی تھی لیکن وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، وہ بدلا، بہت تیزی سے بدلا اور ساتھ ہی وسیم اکرم کو بھی بدل گیا، ‏1977 میں، جب پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوا تو یہی سال تھا جس میں وسیم اکرم کے والدین میں علیحدگی ہو گئی، دس، گیارہ سال کا وسیم ماڈل ٹاؤن سے مزنگ شفٹ ہو گیا۔ اپنی نانی کے گھر ماڈل ٹاؤن سے مزنگ جانا زندگی کا ایک مشکل موڑ تھا کیونکہ یہاں کا لائف اسٹائل بالکل مختلف تھا، مشکلات بہت زیادہ تھیں۔ لیکن ایک چیز بالکل الگ تھی "گلی کرکٹ"۔ جی ہاں! مزنگ کی گلیوں میں کرکٹ ہی زندگی تھی، دن ہو یا رات، کھیلنے والے ہمیشہ تیار تو وسیم نے بھی یہاں کھیلنا شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصے میں انہوں نے پانچ لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنا لی، جس کا نام رکھا گیا "برٹش گورنمنٹ" کتنا عجیب نام ہے نا؟ لیکن غلط بالکل نہیں ہے، یہ ٹیم برٹش ایمپائر کی طرح بہت پاور فُل تھی، کم از کم اپنے علاقے میں تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر پاتا تھا۔ احمد پورہ اور وارث روڈ میں اِس ٹیم کے نام کا ڈنکا بجتا تھا اور پھر مزنگ کی انہی گلیوں میں وہ واقعہ پیش آيا جو وسیم اکرم کو پروفیشنل کرکٹ میں لے آیا، ہوا یہ کہ ایک دن 'برٹش گورنمنٹ' ایک گلی میں کھیل رہی تھی۔ قریب ہی سائیکل پر بیٹھا ایک شخص انہیں غور سے دیکھ رہا تھا، کھیل ختم ہوا تو وہ قریب آیا اور کہا تم لوگ اصل کرکٹ بال سے کیوں نہیں کھیلتے؟ وسیم کا جواب بالکل صاف اور سیدھا تھا "ہمارے پاس بال خریدنے کے لیے 50 روپے نہیں ہیں" جس پر اُس نے اِن بچوں کو اپنے کلب آنے کی دعوت دی اور ہاں! وسیم سے کہا "تم ایک اسپیشل کھلاڑی ہو، مجھے یقین ہے ایک دن تم کرکٹر بنو گے"۔

ٹیلنٹ کو گلیوں میں پہچاننے والے یہ سائیکل سوار تھے خالد محمود، پاکستان کسٹمز کے میڈیم پیس بالر اور جس کلب میں انہوں نے وسیم اکرم کو بلایا تھا، وہ تھا لدھیانہ جم خانہ کرکٹ کلب، اپنے زمانے میں لاہور کے مضبوط ترین کلبس میں سے ایک یوں وسیم اکرم کا کرکٹ سفر باقاعدہ شروع ہو گیا۔ خالد محمود ہر دن دوپہر ڈھائی بجے آتے اور دونوں 40 منٹ سائیکل پر سفر کر کے نیو چوبُرجی گراؤنڈ پہنچتے، جہاں وسیم اکرم گھنٹوں بالنگ پریکٹس کرتے اپنی صلاحیت، یہاں کی گئی محنت اور قسمت بھی، یہ سب مل کر وسیم کو لاہور جم خانہ تک لے آئی، جہاں ایک میچ میں وسیم نے انتخاب عالم، رمیز راجہ اور احمد رضا جیسے کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ لوگ دیکھنے لگے۔ ان کی نظریں اٹھنے لگیں کہ یہ کون آ گیا؟

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کو فاسٹ بالرز کی تلاش تھی، سرفراز نواز ریٹائر ہو چکے تھے، سلیم الطاف اور سکندر بخت جتوا نہیں پا رہے تھے، اور ہاں! عمران خان بھی تو انجری کی وجہ سے سائیڈ لائن تھے۔ تو تلاش بہت شدت سے ہو رہی تھی، اسی لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے لاہور میں ایک کیمپ آرگنائز کیا ، شہر کے ٹاپ 100 ٹین ایج پلیئرز کے لیے، جن میں وسیم اکرم کا نام بھی شامل تھا، کیمپ سے ایک دن پہلے خوشی کے مارے ساری رات انہیں نیند نہیں آئی اور پھر یہاں ایک دن وسیم اکرم کو بال پکڑائی گئی۔ انہوں نے پہلے رمیز راجہ کو آؤٹ کیا اور پھر اعجاز احمد کو بھی، پھر کیا تھا؟ وسیم کو کراچی میں ہونے والے ایک انڈر 19 کیمپ میں بھی بلا لیا گیا، یہاں پاکستان کے مشہور فاسٹ بالر خان محمد بھی تھے، جنہوں نے وسیم اکرم کو کئی ٹپس دیں، اُن کے بالنگ ایکشن اور رن اپ پر کام کیا اور پھر وہ دن آ گیا، جس کا انتظار تھا، کیمپ میں ایک دن جاوید میانداد آ گئے! وہ انجری کے بعد ریکور ہو چکے تھے اور اب انہیں ضرورت تھی نیٹ پریکٹس کی اور یہ کروائی وسیم اکرم اور دوسرے نوجوان بالرز نے جنہوں نے جاوید میانداد کو دو گھنٹے بالنگ کروائی اور یہاں جو اسپیل وسیم نے کیا، اس نے اُن کی زندگی بدل دی، زیادہ دن نہیں گزرے، دی کرکٹر میگزین میں پہلی بار وسیم اکرم کا نام چھپا اور پھر یہ نام ہر جگہ آتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ ایک دن والد نے بھی اخبار میں اپنے بیٹے کا نام دیکھ لیا، پاکستان کرکٹ بورڈ کی پیٹرنز الیون میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے ٹور پر تھی اور اِس ٹیم نے مہمانوں کے خلاف ایک ٹور میچ کھیلنا تھا۔ اس ٹیم میں وسیم اکرم کا نام شامل ہوا صرف اور صرف جاوید میانداد کی وجہ سے جاوید ٹیلنٹ کو بہت دُور سے پہچان لیتے تھے اور بعد میں وہ ٹیلنٹ خود کو ثابت بھی کرتا تھا تو ٹور میچ میں وسیم اکرم نے 50 رنز دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، یہ ایسی بالنگ تھی، جس کے بعد انہیں ڈائریکٹ نیشنل ٹیم میں بلا لیا گیا، جی ہاں! فرسٹ کلاس کا کوئی بڑا تجربہ نہیں تھا، لیکن پھر بھی وسیم اکرم انٹرنیشنل کرکٹ تک آ گئے۔

اور وہ دن تھا ‏23 نومبر 1984 اور میچ تھا فیصل آباد میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ون ڈے اُس دن کافی بارش ہوئی اور میچ صرف 20 اوورز تک محدود ہو گیا، پاکستان کی گرپ مضبوط تھی۔ نیوزی لینڈ کو آخری اوور میں 24 رنز کی ضرورت تھی اور بال وسیم اکرم کو دی گئی۔ جنہوں نے مسلسل چار چوکے کھا لیے پاکستان بڑی مشکل سے پانچ رنز سے جیت سکا، لیکن اس پرفارمنس پر وسیم اکرم کا دل ٹوٹ سا گيا، یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے، کوئی چھوٹی سی بات بھی ہو جائے تو بندہ سمجھتا ہے بس! اب سب کچھ ختم ہو گیا، وسیم اکرم بھی یہی سمجھے کہ یہ اُن کا پہلا اور آخری میچ تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تو صرف آغاز تھا کچھ ہی دنوں میں نیوزی لینڈ کے ٹور کے لیے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا اعلان ہوا تو اس میں بھی وسیم اکرم کا نام شامل تھا۔ اب انٹرنیشنل ٹور پر جانا ہو تو بندہ نروس ہو ہی جاتا ہے، وسیم اکرم نے گھبرا کر جاوید میانداد کو کال کی اور پوچھا کہ جاوید بھائی! نیوزی لینڈ جانے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی؟ میانداد نے لڑکے کی معصومیت کا پورا فائدہ اٹھایا اور شرارتی لہجے میں بولے" ایک لاکھ روپے تو لگیں گے بھئی"، یہ سنتے ہی وسیم کا تو رنگ اڑ گیا۔ گھبرا کر بولے "ابا تو اتنے پیسے کبھی نہیں دیں گے۔ سوری جاوید بھائی، میں اس ٹور پر نہیں چل سکتا"، یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور اس سے پہلے کہ رو پڑتے۔ میانداد کا زور دار قہقہہ گونجا، بولے "ابے بے وقوف! تم پیسے دو گے نہیں، پیسے لو گے!" وسیم کو پھر بھی یقین نہیں آیا "مجھے پیسے ملیں گے؟ وہ بھی پاکستان کے لیے کھیلنے کے؟" بہرحال، نیوزي لینڈ میں وسیم اکرم پہلے تو بینچ پر ہی بیٹھے رہے، نہ وارم اپ کھلایا گیا، نہ ون ڈے میچز اور پہلا ٹیسٹ بھی نہیں ہاں! دوسرا ٹیسٹ ہوا تو ان کا ڈیبیو ہو گیا۔

جنوری 1985 میں آکلینڈ کے میدان پر وسیم اکرم نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا اور صرف دو وکٹیں لیں اور یہ بھی سن لیں پاکستان یہ میچ ایک اننگز اور 99 رنز سے ہارا تھا، نیوزی لینڈ کو سیریز میں unassailable لیڈ مل چکی تھی اور وسیم اکرم کو کہہ دیا گیا کہ وہ اگلا میچ نہیں کھیلیں گے ٹوٹے دل کے ساتھ وسیم نے اپنے والد کو لاہور فون کیا اور بات کرتے کرتے رو پڑے لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ آخری ٹیسٹ کے لیے وکٹ کیسی تیار کی گئی ہے؟ یہ ایک گرین ٹاپ تھی، جسے دیکھ کر کپتان جاوید میانداد نے وسیم اکرم کو بلا لیا اور یہاں وسیم آتے ہی چھا گئے، پہلی اننگز میں 56 رنز دے کر پانچ وکٹیں دوسری اننگز میں وہ پاکستان کو میچ جتوا دیتے، اگر مارٹن کرو اور جیرمی کونی کی وہ پارٹنر شپ نہ ہوتی اور ہاں! Controversial امپائر Fred Goodall کی مہربانیاں بھی نہ ہوتیں، ہوا یہ کہ نیوزی لینڈ کے بیٹسمین لانس کیرنز میدان میں آئے تو ان کے سر پر ہیلمٹ نہیں تھا پاکستانی بالرز بہت ہی frustrated تھے، وسیم اکرم کو بالکل اچھا نہیں لگا کہ کوئی انہیں اتنا ہلکا سمجھے کہ ہیلمٹ پہننے کی زحمت بھی نہ کرے؟ اور پھر وسیم نے پہلی ہی گیند پر اُن کی غلط فہمی دور کر دی، ایک خطرناک باؤنسر مارا، کیرنز زمین پر گر پڑے، انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں ان کی کھوپڑی میں فریکچر بتایا گیا، لیکن نیوزی لینڈ کو اپنے امپائروں کا پورا ساتھ حاصل تھا اور بالآخر آخری وکٹ پر 43 رنز کی پارٹنر شپ کی وجہ سے وہ میچ جیت گیا۔ صرف اور صرف دو وکٹوں سے، لیکن جیرمی کونی کی ناٹ آؤٹ سنچری کسی کو یاد نہیں، لوگ یاد رکھتے ہیں تو وسیم اکرم کی بالنگ کو۔ جنہوں نے انٹرنیشنل اسٹیج پر اپنی آمد کا اعلان کر دیا تھا۔ ‏128 رنز دے کر 10 وکٹوں کے ساتھ، مین آف دی میچ ایوارڈ انہی کو ملا اور یہیں سے شروع ہوتا ہے "رائز آف سلطان"

سلطان کا عروج

نیوزی لینڈ کے ٹور کے بعد ٹیم پاکستان آسٹریلیا پہنچی جہاں سڈنی ایئرپورٹ کے لاؤنج میں ٹیم کا انتظار کر رہے تھے "عمران خان" وہی عمران خان، جن سے کچھ سال پہلے وسیم اکرم نے قذافی اسٹیڈیم میں آٹو گراف لیا تھا۔ لیکن قسمت کا پلٹنا دیکھیں کہ آج وہی عمران خان خود وسیم اکرم کا نام لے رہے تھے اور ہاتھ ملاتے ہی کہا "نیوزی لینڈ میں اچھی بالنگ کی تم نے"، اور یہی وہ دن تھا، جب وسیم اکرم عمران خان کی نگرانی میں آ گئے اور جو پہلا مشورہ انہوں نے وسیم اکرم کو دیا۔ وہ تھا اپنے فاسٹ بالنگ مسلز پر کام کرو وسیم نے پوچھا، فاسٹ بالنگ مسلز؟ یہ کون سے مسلز ہوتے ہیں؟ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا "سر کے بالوں سے لے کر پیر کی انگلیوں تک۔ سارے مسلز"۔ تو یہ تھا عمران خان کا فلسفہ!۔

بہرحال، آسٹریلیا کے بعد ٹیم شارجہ گئی اور وہاں سے بالآخر وطن واپس آئی، یہاں مزنگ میں تو لگتا تھا عید کا دن ہے۔ پورا محلہ ہی وسیم اکرم کے گھر آیا ہوا تھا، اب تک انہوں نے جو کچھ کمایا تھا، اس سے 1974 ماڈل کی ٹویوٹا کرولا خرید لی یہ گاڑی گلی میں کھڑی ہوتی تھی۔ لیکن کوئی اسے چھونے کی ہمت بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ یہ "وسیم اکرم" کی گاڑی تھی، وہ وسیم جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتا تھا، بہرحال، یہ تو اسٹارٹ تھا۔ ابھی تو وسیم کو بہت آگے جانا تھا، بہت کچھ کرنا تھا اور بہت سے یادگار مومنٹس کا حصہ بننا تھا۔ جن میں سے پہلا مومنٹ آیا اپریل 1986 میں۔ جس نے پاکستان کرکٹ کو ہی بدل دیا۔

وہ ایک چھکا

اُس زمانے کی شارجہ کرکٹ بڑی ظالم ہوتی تھی۔ صحرا میں، جہاں سورج سوا نیزے پر ہوتا تھا۔ فلڈ لائٹس بھی نہیں تھی یعنی میچ ہوں گے تو تپتی ہوئی دھوپ میں ہوں گے اور اُس دن تو گرمی کے ساتھ گرما گرمی بھی بڑی تھی۔ کیونکہ یہ آسٹریلیشیا کپ کا فائنل تھا اور پاکستان کا سامنا تھا ورلڈ چیمپیئن انڈیا سے میچ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا۔ مقابلہ سخت ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ آخری لمحات آ گئے۔ وسیم اکرم بتاتے ہیں کہ جاوید میانداد کو آخر میں ایک longer بیٹ کی ضرورت تھی۔ ایسے بیٹ ٹیم میں صرف میں ہی استعمال کرتا تھا تو میں نے میانداد کو اپنا بیٹ دے دیا، پھر کیا ہوا؟ سب جانتے ہیں، جاوید میانداد نے آخری بال پر چیتن شرما کو چھکا لگایا اور پاکستان کو جتوا دیا، وسیم اکرم کہتے ہیں "مجھے اپنا بیٹ کبھی واپس نہیں ملا۔ جاوید بھائی کم از کم دس مرتبہ تو اسے نیلام کر ہی چکے ہوں گے"۔

اگلا سال ورلڈ کپ کا تھا۔ پاکستان فیورٹ تھا اور ورلڈ چیمپیئن بننے کا اس سے بہتر چانس مل نہیں سکتا تھا کیونکہ ورلڈ کپ کے میچز پاکستان اپنے ہی ملک میں کھیل رہا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا وقت سے پہلے نہیں، نصیب سے زیادہ نہیں پاکستان سیمی فائنل میں ہار گیا۔ شارجہ کی خوشی کے بعد ہمیں لاہور کا غم بھی ملا خوشیاں دھندلا گئیں۔ مایوسی اتنی تھی کہ عمران خان نے انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا، ایک پل میں سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا اور پھر ایک لمبا انتظار، تقریباً پانچ سال انتظار کرنا پڑا اگلے ورلڈ کپ کے لیے۔ لیکن اس سے پہلے پاکستان نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور وسیم اکرم نے بھی اور کئی مزے کے واقعات بھی ہوئے، جیسا کہ 1988 کے ویسٹ انڈیز ٹور پر۔

ٹاکرا ورلڈ نمبر ون سے

یہ وہ زمانہ تھا جب ویسٹ انڈیز ورلڈ نمبر ون ٹیم تھی، دنیا کے خطرناک ترین بالر بھی ان کے پاس تھے اور بیٹسمین بھی، جن میں سب سے بڑا نام تھا ویوین رچرڈز کا وہ چیونگم ایسے چباتے تھے جیسے سامنے کھڑا بالر اُن کا شکار ہو، نہ ویو جیسا کونفیڈنس کسی میں تھا اور نہ ہی swag، وہ ہیلمٹ بھی نہیں پہنتے تھے، یعنی بالرز کو دعوت دیتے تھے کہ باؤنسر مار کر دکھا تو یہاں تیسرے ٹیسٹ میں وسیم اکرم نے ویوین رچرڈز کو ایک باؤنسر مار دیا، وہ بھی ایسا کہ اُن کا کیپ گر گیا وسیم اکرم چوڑے ہو گئے۔ ویو کے قریب گئے اور بے دھڑک انہیں ایک گالی دے دی۔ ویو کو یہ بالکل پسند نہیں آیا کہ کوئی شیر کی کچھار میں آ کر اسے للکارے۔ فوراً بولے"گالی مت دینا، ورنہ جان سے مار دوں گا"۔ وسیم رن اپ کے لیے واپس گئے اور کپتان عمران خان کو بتایا کہ ویو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ کیا کروں؟ عمران نے کہا "دیکھیں، آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں ہوں نا؟ دوبارہ باؤنسر کرواؤ اور ایک اور گالی دینا!"، وسیم نے ایک "اچھے بچے" کی طرح کپتان کی بات مانی اور دوبارہ یہی حرکت کی۔

جب دن کا کھیل ختم ہوا تو وسیم کو ڈریسنگ روم میں بتایا گیا کہ باہر کوئی ان سے ملنے آیا ہے باہر دیکھا تو ویو رچرڈز کھڑے تھے۔ بغیر شرٹ کے، بلّا کندھے پر اور ہاں! زور زور سے چیونگم چباتے ہوئے وسیم کی تو سٹی گم ہو گئی، فوراً اندر بھاگے عمران خان کو بتایا کہ ویو آ گیا ہے، وہ بالکل سیریئس تھا۔ وہ مجھے مار دے گا، عمران خان سچویشن کو انجوائے کرنے لگے۔ صاف کہہ دیا بھائی! پنگا تم نے لیا تھا، اب بھگتو بھی، خود اب وسیم کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، وہ ویو کے پاس آئے، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی کہ اب ایسا نہیں کروں گا، ویوین رچرڈز نے کہا یہ آخری وارننگ ہے! خیر، یہ تو اُن کا مذاق تھا۔ لیکن ویو کو اُس دن اندازہ ہو گیا تھا کہ لڑکے میں دم ہے اور اگر کوئی شک تھا بھی تو کچھ ہی دنوں میں ختم ہو گیا۔

نہرو کپ 1989 میں جی ہاں! وہی میچ جس کا شروع میں ذکر کیا تھا، یہ ٹورنامنٹ سمجھیں اپنے زمانے کا منی ورلڈ کپ تھا، نیوزی لینڈ کے سوا تمام بڑی ٹیمیں انڈیا آئی تھیں لیکن فائنل ہوا پاکستان اور ویسٹ انڈیز میں، یعنی اپنے زمانے کی سب سے مضبوط اور طاقتور ٹیموں کے بیچ جب پاکستان کو آخری تین گیندوں پر چار رنز کی ضرورت تھی، تب وسیم اکرم میدان میں آئے تھے اور مزے کی بات، عمران خان نے انہیں کہا سنگل لینا، باقی مجھ پر چھوڑ دو۔ پیچھے کوئی اور بیٹسمین نہیں ہے وسیم اکرم بالکل یہی کرتے۔ لیکن آخری لمحے میں انہوں نے اپنا پلان بدل لیا، انہوں نے دل کی بات مان لی ویوین رچرڈز کی بال پرفیکٹ لینتھ پر آئی، بالکل وسیم کے آرک میں اس لیے اُن سے رہا نہیں گیا، بلّا زور دار انداز میں گھمایا اور چھکے کے ساتھ میچ ختم کر دیا۔

وسیم بتاتے ہیں کہ جب میں میدان سے واپس آ رہا تھا تو عمران خان کی نظریں مسلسل مجھ پر تھیں۔ وہ مجھے گھور رہے تھے لیکن وسیم کو پروا نہیں تھی۔ وہ پاکستان کو ایک یادگار کامیابی دلا چکے تھے، ایک ایسی کامیابی جس نے پاکستان کے ورلڈ چیمپیئن بننے کی بنیاد رکھ دی تھی جی ہاں! ڈھائی سال بعد تقریباً اسی ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تھا، ایسے کہ فائنل میں وسیم اکرم مین آف دی میچ بنے اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا۔

ورلڈ کپ 1992

‏1992 میں پاکستان کا ورلڈ کپ جیتنا کرکٹ ہسٹری کی سب سے آئیکونک اسٹوری ہے۔ بلکہ سمجھیں ایک فلمی کہانی ہے، ایک ایسی ٹیم جسے کوئی گھاس نہیں ڈال رہا تھا۔ جو ایک کے بعد دوسرے سیٹ بیک کا سامنا کر رہی تھی۔ اس کی تیاری بھیانک تھی۔ وہ چھ میں سے صرف ایک وارم اپ میچ جیتی نہ وقار جیسا بالر اس کے ساتھ تھا اور نہ جاوید میانداد جیسا بیٹسمین اور تو اور کپتان عمران خان بھی شولڈر انجری کا شکار تھے۔ ورلڈ کپ کا جتنا بُرا اسٹارٹ سوچا جا سکتا ہے نا؟ پاکستان نے اتنا بُرا اسٹارٹ لیا، ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 10 وکٹوں سے ہارا اور پھر اگلے امپورٹنٹ میچ میں انگلینڈ کے خلاف صرف 74 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا۔ پاکستان بُری طرح ہار جاتا، اگر بارش بچانے نہ آتی۔ لیکن قسمت پھر بھی نہیں بدلی، انڈيا سے ہارا، ساؤتھ افریقہ سے ہارا اور اب ہارنے کے لیے کچھ نہیں بچا پھہ زخمی، تھکی ہاری اور ٹوٹی پھوٹی ٹیم جو ٹوٹلی آؤٹ آف فارم تھی، اور اب آؤٹ آف ورلڈ کپ بھی ہونے والی تھی تب ایک اہم میچ کھیلنے کے لیے کھیلنے کے لیے ٹیم پرتھ پہنچی، جہاں مقابلہ تھا میزبان اور فیورٹ آسٹریلیا سے اور یہیں پر وقت بدل گیا، حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے، وسیم اکرم کہتے ہیں کہ پرتھ میں ایک صبح ناشتے پر اخبار پڑھ رہا تھا۔ کہ یہ ہیڈ لائن نظر آئی "میں چاہتا ہوں وسیم اکرم تیز بالنگ کرے۔ وائیڈ اور نو بال کی پروا کیے بغیر۔ صرف اور صرف تیز!" یہ بیان تھا عمران خان کا، جنہوں نے وسیم سے کہا اگر تم فاسٹ بالر ہو، تو فاسٹ بالنگ کر کے دکھاؤ! اور وسیم نے اس میچ میں واقعی تیز بالنگ کروائی، پانچ وائیڈز اور چار نو بالز کیں لیکن پھر بھی صرف 28 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان 48 رنز سے میچ جیت گیا۔

ایک امید مل گئی، پاکستان سری لنکا کو ہرا کر نیوزی لینڈ پہنچا، جہاں اس کا ٹکراؤ تھا آخری لیگ میچ میں میزبان نیوزی لینڈ سے۔ جو اب تک ایک میچ بھی نہیں ہارا تھا اور پاکستان یہ میچ بھی جیت گیا اور سیمی فائنل میں پہنچ گیا، جہاں جو ہوا، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، یہ کہانی ہم ہزاروں بار سن چکے ہیں ، ہزاروں مرتبہ اس میچ کی جھلکیاں دیکھ چکے ہیں جس نے پاکستان کو ایک نیا اسٹار دیا، انضمام الحق کی صورت میں ان کی طوفانی بیٹنگ پاکستان کو ورلڈ کپ فائنل تک لے آئی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ۔

آخری مقابلہ

ایم سی جی، ایک ایسا میدان جس نے تاریخ کے پہلے ٹیسٹ کی میزبانی کی تھی، پہلا ون ڈے بھی یہیں ہوا اور اب پاکستان بھی اپنا پہلا ورلڈ کپ فائنل یہیں کھیل رہا تھا، لیکن یہ کیا؟ صرف 24 پر دو آؤٹ ہو گئے؟ جاوید میانداد ایک بہت کلوز ایل بی ڈبلیو کال پر بچے۔ عمران خان کا کیچ بھی ڈراپ ہو گیا ایسا لگ رہا تھا قسمت آج پاکستان کے ساتھ ہے، آخری 10 اوورز میں پاکستان نے تیزی سے بیٹنگ کی انضمام الحق نے 42 اور وسیم اکرم نے 19 گیندوں پر 33 رنز بنائے لیکن وسیم کا بڑا کنٹری بیوشن ابھی باقی تھا۔

‏250 چیز کرتے ہوئے انگلینڈ کا حال اتنا اچھا نہیں تھا، پھر بھی 138 رنز پر اس کے چار آؤٹ تھے اور 16 اوورز کا کھیل باقی تھا اور 112 رنز کی ضرورت تھی، یہاں میچ کا ٹرننگ پوائنٹ آ گیا، ڈرنکس بریک میں وسیم اکرم نے عمران خان کو کنوینس کیا کہ وہ بالنگ انہیں دیں کیونکہ اب وکٹ لینا ضروری ہے اور پھر وسیم نے وہ دو گیندیں کیں۔ جو آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں، اسکرین پر لکھا آیا 87 ہزار 182۔ کسی بھی کرکٹ میچ میں سب سے زیادہ اٹینڈنس کا نیا ریکارڈ اور ان سب لوگوں نے پھر دیکھیں دو جادوئی گیندیں ایلن لیمب کو ایک unplayable بال ملی۔ وسیم اکرم تک کہتے ہیں مجھے یقین نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا؟ اب اگلے بیٹسمین تھے کرس لوئس ۔ جنھیں ایک لینتھ بال ملی، جو اتنی تیزی سے اور اتنی زیادہ اندر آئی کہ ایسا لگا کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے۔ جاوید میانداد نے کہا "یہ بال صرف بریڈمین ہی کھیل سکتا تھا"، زیادہ دیر نہیں لگی۔ انگلینڈ کی آخری وکٹ بھی گر گئی، جو عمران خان نے لی، حق بھی انہی کا تھا، پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا، کھلاڑی سجدے میں گر گئے اور یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا، یہ پاکستان میں اٹھارواں روزہ تھا، اور وقت تھا عصر کی نماز کا اور قوم رب کے حضور شکر کے طور پر سجدے میں گر گئی، یہ صرف ایک جیت نہیں تھی، یہ خود پر یقین کی کہانی تھی۔ یہ 1987 کے زخموں کے لیے مرہم تھا۔ جسے رکھنے میں وسیم اکرم کا بہت اہم کردار تھا، وہ فائنل کے مین آف دی میچ بنے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ Nothing fails like success، پاکستان کرکٹ ٹیم کا اور وسیم اکرم کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا تھا۔

کیونکہ اس ورلڈ کپ کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ وسیم اکرم کپتان بھی بنے۔ سب کے فیورٹ پلیئر بھی بنے اور ناپسندیدہ ترین کھلاڑی بھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا دن بھی دیکھا اور سب سے بُرا دن بھی۔ نشے کی لت بھی لگائی اور پھر اسے چھوڑا بھی۔ جیون ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں جان دیتے بھی دیکھا اور ایک نئی جیون ساتھی کے ساتھ سفر کا آغاز بھی کیا۔ انہوں نے سب کچھ ختم ہوتے بھی دیکھا اور اسے دوبارہ تعمیر بھی کیا وسیم اکرم کی زندگی میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ان کی آگے کی کہانی اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔

اب پاکستان ورلڈ چیمپیئن تھا اور وسیم اکرم؟ وہ دنیا کے بہترین فاسٹ بالر اب ہر کوئی پاکستان سے کھیلنا چاہتا تھا۔ وسیم اکرم کو بالنگ کرتے دیکھنا چاہتا تھا، سوائے انگلینڈ کے جس کے ذہن پر ایک ہی چیز سوار تھی۔ بدلہ! ورلڈ کپ فائنل کی ہار کا بدلہ۔ وہ بھی ہر قیمت پر میدان کے اندر تو پاکستان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن میدان سے باہر تو کیا جا سکتا تھا؟ تو انگلینڈ نے ایسا ہی کیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم پر ایک نیا الزام لگا دیا "بال ٹیمپرنگ" کرنے کا، یہ الزام نیا نہیں تھا لیکن وسیم اکرم کو بہت زور سے لگا۔ انہوں نے کہا کہ وقار اور میں نے انگلینڈ میں ہزاروں اوورز کروائے ہوں گے، کاؤنٹی کرکٹ کھیلی ہے۔ کسی امپائر نے، کسی ٹیم نے ہم پر کبھی ایسا کوئی الزام نہیں لگایا۔ یہ الزام صرف تب لگتا ہے جب پاکستان انگلینڈ کو ہراتا ہے، لیکن وسیم اکرم کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ہنگامہ تو بس ٹریلر ہے۔ فلم تو پردے کے پیچھے چل رہی ہے، جہاں عمران خان کے بعد پاکستان کرکٹ میں ایک نیا بحران پیدا ہو رہا تھا۔ وسیم اکرم کی زندگی کی کہانی میں وہ سب کچھ ہے، جو مجھ وسیم اکرم کے فینز نہيں سننا چاہتے، لیکن ان کہانیوں کے بغیر وسیم کی کہانی مکمل بھی نہیں ہوتی۔

میوزیکل چیئرز کا کھیل

‏13 سال تک صرف دو لوگ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ عمران خان اور جاوید میانداد لیکن اُن کے بعد میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہونے والا تھا۔ کیونکہ یہی دو کھلاڑی اب کنگ میکر بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف آٹھ سال کے عرصے میں 14 کپتان بدلے جی ہاں! ہم نے اتنے وزیر اعظم نہیں بدلے، جتنے کچھ ہی سالوں میں کرکٹ کپتان بدل دیے۔ یعنی پاکستان نے اپنے آپ کو ہی پیچھے چھوڑ دیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وسیم اکرم بھی اس گیم کا حصہ بن گئے، جانے یا انجانے میں ہوا یہ کہ 1993 کے اسی انگلینڈ ٹور پر عمران خان نے پوری ٹیم کی دعوت کی، لیکن دو کھلاڑیوں کو نہیں بلایا، جاوید میانداد اور رمیز راجہ کہا جاتا ہے کہ کھچڑی وہیں پکنا شروع ہو گئی تھی اور زیادہ دن نہیں گزرے وسیم اکرم کو کپتان بنا دیا گیا، عمران خان کی backing کے ساتھ۔ یعنی انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاوید میانداد کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔

خیر، اب وسیم اکرم کپتان تھے۔ بقول لوگوں کے عمران خان کے اصل جانشین وہی تھے، لیکن یہ پاکستان ہے باس! یہاں اتنی امیدیں، اتنی expectations تو ملک چلانے والوں سے نہیں۔ سیاست دانوں اور جرنیلوں سے نہیں۔ جتنی قوم کو کرکٹ ٹیم سے ہیں اور زیادہ دن نہیں گزرے وسیم اکرم کو بھی اچھی طرح اندازہ ہو گیا، خود کہتے ہں "ویوین رچرڈز، سچن تنڈولکر اور برائن لارا کو بالنگ کرنا یا شین وارن، میلکم مارشل اور مرلی دھرن کے سامنے بیٹنگ کرنا اتنا مشکل نہیں تھا، جتنا مشکل قوم کی امیدوں پر پورا اترنا تھا۔ جتنا مشکل ٹیم میں موجود ہلچل کو سنبھالنا تھا، جتنا مشکل انتظامی جوڑ توڑ کو دیکھنا تھا۔ کیونکہ آپ کو سیاست میں دلچسپی ہو یا نہ ہو، لیکن سیاست کو آپ میں بڑی دلچسپی ہوتی ہے"۔ تو ایز اے کیپٹن وسیم اکرم کا دوسرا ٹور ہی تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک نیا فیصلہ کر ڈالا۔ وقار یونس کو وائس کیپٹن بنا دیا اور اس فیصلے کے ساتھ ہی ورلڈ چیمپیئن پاکستان کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا، ٹیم کھیل اچھا رہی تھی۔ جیت بھی رہی تھی لیکن اندر ہی اندر دو سینٹرز آف پاور بن چکے تھے۔ وسیم اکرم آج بھی کہتے ہیں کہ وقار کا گروپ اُن سے زیادہ تگڑا تھا۔

بدترین دورہ

پاکستان میں وائس captaincy ہمیشہ سے ایک problem رہی ہے۔ یہ کپتان کو سپورٹ تو کیا دے گی؟ الٹا اُس کے لیے ایک threat بن جاتی ہے، جس طرح عمران خان اور جاوید میانداد میں ہمیشہ ایک rivalry رہی، بالکل ویسے ہی اب اُن کے شہزادوں میں طاقت کی جنگ شروع ہو چکی تھی، وسیم اکرم عمران خان کے پسندیدہ تھے اور جاوید میانداد وقار کے گروپ میں تھے، وسیم اپنی کتاب 'سلطان' میں لکھتے ہیں کہ 93 کے ویسٹ انڈیز ٹور میں انہیں بڑی مشکل ہوئی، جاوید اور وقار دونوں نے ایز کیپٹن انہیں وہ respect نہیں دی، جو وہ deserve کرتے تھے، ٹیم میٹنگز ہوتیں تو دونوں سیریئس نہ لیتے۔ پریکٹس سیشن ہو یا کہیں جانا ہو، وہ ہر جگہ سب سے لیٹ آتے یہ حالات دیکھ کر وسیم اکرم گھبرا گئے اور جب بندہ گھبراتا ہے تو کون یاد آتا ہے؟ جی ہاں! عمران خان، تو وسیم نے عمران خان صاحب کو لندن کال ملائی، جنہوں نے ایک خطرناک مشورہ دیا، ٹیم ڈسپلن توڑنے پر وقار اور میانداد دونوں پر فائن لگاؤ اور وسیم اکرم نے یہ بات مان بھی لی۔ حالانکہ ماننی نہیں چاہیے تھی، تو انہوں نے دونوں سینیئر کھلاڑیوں پر پانچ پانچ سو ڈالرز جرمانہ لگا دیا۔ جو بعد میں وسیم اکرم کو بہت مہنگا پڑا کیونکہ اس کے بعد ٹیم میں ایک ٹرائیکا بن گئی۔ ایک طرف وسیم اکرم تھے، جنھیں جاوید میانداد ٹیم میں لائے تھے، وہ اب کپتان تھے۔ دوسری طرف وقار یونس تھے، جنھیں کبھی وسیم اکرم نے discover کیا تھا۔ اور اب ٹیم میں نیا سینٹر آف پاور وہی تھے اور آخر میں تھے جاوید میانداد، جو اپنا پرائم گزار چکے تھے لیکن اب کنگ میکر بننے کی کوشش کر رہی تھے۔ تو تینوں کے درمیان ایک کولڈ وار چل رہی تھی، جس نے آگے کئی controversies کے دروازے کھولے۔ جن پر ہم آگے چل کر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے اُس واقعے کا ذکر، جس نے وسیم اکرم کو ہلا کر رکھ دیا۔

یہ 1993 تھا، پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے ٹور پر پہنچی گریناڈا میں ٹیم کا stay ایک بیچ ریزورٹ میں رکھا گیا، بہت ہی خوبصورت جگہ تھی اور پاکستانی کھلاڑیوں سے رہا نہیں گیا۔ آتے ہی وسیم، وقار، مشتاق اور عاقب سب بیچ پر پہنچ گئے، کچھ ہی دیر بعد دو انگلش خواتین نے بھی انہیں جوائن کر لیا، محفل چل ہی رہی تھی کہ ایک خاتون نے پاکستانی پلیئرز کو جوائنٹ آفر کر دیا۔ کھلاڑیوں نے پہلے تو کہا کہ ہم سگریٹ نہیں پیتے، لیکن پھر سوچا ایک دو سُٹے لگانے میں کیا ہے؟ یہ جس نے بھی کہا تھا نا۔ اس کی سوچ کو سلام ہے! تو اس سے پہلے کہ انہیں صورتِ حال کا ٹھیک سے اندازہ ہوتا۔ سادہ کپڑے پہنے کچھ پولیس والے پہنچ گئے۔ اور پاکستانی کھلاڑیوں کے بقول چھوٹتے ہی بندوقیں تان لیں۔ اچانک یہ آفت نازل ہونے پر سب ڈر گئے، گھبراہٹ میں وسیم اکرم بھی گر پڑے۔ اُن کا سر sunbed سے ٹکرایا اور اس سے خون نکلنا شروع ہو گیا، پولیس نے کھلاڑیوں کی تلاشی لی۔ اُن کی جیبوں سے کچھ نہیں نکلا لیکن خواتین کے بیگز کے قریب سگریٹوں کے کچھ ٹوٹے پڑے مل گئے۔ evidence مل گیا تھا۔ پولیس سب کو پکڑ کر تھانے لے آئی، وسیم اکرم کہتے ہیں مجھے آج بھی شک ہے کہ پولیس اچانک اور عین وقت پر وہاں کیسے پہنچ گئی؟ کیا ہوٹل میں کسی ٹیم ممبر نے ہمیں دیکھ لیا تھا اور پولیس کو بلا لیا تھا؟ وسیم اکرم کے اس شک سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹیم پاکستان کا ماحول کیا ہو گیا تھا؟ اور اندر ہی اندر کیا چل رہا تھا؟

خیر۔ وسیم، وقار، مشتاق اور عاقب کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا، بعد میں چارجز بھی ڈراپ ہو گئے لیکن خبر پھیل چکی تھی۔ ویسٹ انڈیز سے لے کر پاکستان تک، وسیم اکرم اور کھلاڑیوں کو جو بدنامی ملی، جو دھول اُڑی، وہ آج تک نہیں بیٹھ سکی، پھر پاکستان اِس ٹور پر بہت بُری طرح ہار بھی گیا۔ وسیم اکرم اِسے اپنے کیریئر کا بدترین ٹور کہتے ہیں، لیکن ابھی تو "پارٹی" شروع ہوئی تھی۔ جی ہاں! پاکستان کرکٹ پارٹی!

اندر اور باہر

وسیم اکرم عمران خان کی مدد سے کپتان تو بن گئے تھے۔ لیکن اُن کی کپتانی کا اسٹارٹ بہت ہی برا رہا، کیپٹنسی کا تجربہ تو ویسے ہی نہیں تھا۔ پھر گیم اسٹریٹجی، فیلڈ پلیسمنٹ، بالنگ چینجز، میچ کے ڈائنامکس کو سمجھنا اور اپلائی کرنا اور ان سب کے بعد خود بھی پر فارم کرنا۔ وسیم اکرم جسمانی ہی نہیں ذہنی طور پر بھی تھک گئے، پھر ٹیم کی طرف سے سپورٹ بھی نہیں مل رہی تھی۔ نوجوان کیپٹن پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور پھر وہ ہو گیا۔ جو پاکستان میں ہمیشہ ہوتا رہتا ہے، وسیم اکرم زخمی ہو کر ایک ٹور سے باہر ہوئے، وقار یونس کیپٹن بنے اور پھر وقت بدل گیا، حالات بدل گئے، واپس آئے تو ٹیم ڈائنامکس کچھ اور ہی تھیں۔ اب وسیم اکرم کی کپتانی کو ڈائریکٹ خطرہ تھا
کہا جاتا ہے کہ وقار کے علاوہ مشتاق احمد، عاقب جاوید، رمیز راجہ، سلیم ملک، انضمام الحق، باسط علی، سعید انور اور راشد لطیف، کوئی بھی وسیم اکرم کی کپتانی کے فیور میں نہیں تھا۔


حالات اور خراب ہو گئے جب صدر پاکستان نے کرکٹ بورڈ ہی تحلیل کر دیا اور معاملات چلانے کے لیے ایک ایڈہاک کمیٹی بنا دی، جس نے آتے ہی وسیم اکرم کو کپتانی سے ہٹا دیا اور سلیم ملک کو نیا کیپٹن بنا دیا۔ یہ ایسی move تھی، جس نے پاکستان کرکٹ ہی کو بدل دیا۔ پازیٹو نہیں negative way میں عمران خان نے وسیم اکرم کو مشورہ دیا کہ وہ سلیم ملک کی کپتانی میں نیوزی لینڈ کے ٹور پر نہ جائیں۔ لیکن وسیم نے پہلی بار اپنے گرو کا کہنا نہیں مانا، وہ نیوزی لینڈ گئے اور کمال کر دیا۔ ‏1994 کے اس ٹور پر انہوں نے صرف تین ٹیسٹ میچز 25 وکٹیں لیں، جن میں کیریئر بیسٹ بالنگ بھی شامل تھی۔

وسیم اکرم کہتے ہیں ایموشنلی میں ٹیم سے بالکل detached رہا، کسی وکٹ پر کوئی celebration نہیں کی اور خود کو سلیم ملک اور اُن کے ساتھیوں سے بالکل دُور رکھا، ہو سکتا ہے پہلی بات ٹھیک ہو، لیکن celebrate کرنے والی بات تو ہمیں سچ نہیں لگتی کیونکہ ہم نے تو وسیم اکرم کو فل celebrate کرتے دیکھا۔ تو انہوں نے ایسا کیوں کہا کہ وہ سب سے الگ تھلگ تھے؟ شاید اس کی وجہ یہ کہ یہی وہ ٹور تھا جس میں پہلی بار میچ فکسنگ کا پینڈورا باکس کھلا تھا۔ پاکستان جیت رہا تھا۔ بہت شاندار کامیابیاں حاصل کر رہا تھا، لیکن کبھی کبھی ایسا ہارتا کہ یقین نہیں آتا تھا۔ جیسا کہ اس ٹور کے بدنام زمانہ پانچویں ون ڈے میں، جہاں کرائسٹ چرچ میں پاکستان نے صرف 145 رنز بنائے اور بری طرح ہار گیا بعد میں جب تحقیقات ہوئیں تو ہر کھلاڑی پر شک کیا گیا۔ یہاں تک کہ وسیم اکرم پر بھی۔

میچ فکسنگ کا پینڈورا باکس

اب ایسا نہیں کہ وسیم اکرم کو میچ فکسنگ کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ اُن کی کپتانی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا، جس پر اُن کے کان کھڑے ہو گئے۔ یہ 14 اپریل 1994 تھا۔ شارجہ میں آسٹریلیشیا کپ چل رہا تھا۔ پاکستان انڈیا کے خلاف میچ کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک وسیم اکرم کو ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ کہا تم کل کا میچ ہارو گے۔ وسیم اکرم نے پوچھا تم کون؟۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایسی ہی کال کوچ انتخاب عالم کو بھی آئی تھی۔ مینجمنٹ کے کان کھڑے ہو گئے، کوئی بڑی گڑبڑ لگ رہی تھی، بہرحال، ٹیم نے جان لڑا دی اور میچ جیت لیا لیکن خطرے کی بُو آ چکی تھی، اور یہ خطرہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔

آج بھی 1994 کو پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا بدنام سال سمجھا جاتا ہے۔ صرف دو سال پہلے ٹیم پاکستان یونائیٹڈ تھی۔ دنیا کو ہراتی تھی، اب اس کی ہر ہار پر شک پیدا ہو رہے تھے۔ صرف دو سال کے دوران، 1994 سے 1996 تک بہت سے میچز ہوئے، جن کے راز بعد میں کھلے۔ مائٹیز آف دی نائنٹیز بدنام ہو کر رہ گئے، لیکن جس میچ نے وسیم اکرم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ کوئی اور تھا۔ وہ تھا ورلڈ کپ 1996 کا کوارٹر فائنل۔

بنگلور کا سانحہ

ورلڈ کپ 1996 پاکستان اور انڈیا میں ہوا تھا، یعنی پاکستان کو اپنے ٹائٹل کو ڈیفنڈ کرنے کا موقع اپنی ہی سرزمین پر ملا، تب تک پاکستان کرکٹ کے حالات بھی بدل چکے تھے۔ وسیم اکرم کو ایک بار پھر کیپٹن بنا دیا گیا تھا۔ اور واقعی یہ اُن کے لیے ایک گولڈن چانس تھا۔ ٹیم بھی بہترین تھی، کوارٹر فائنل تک پہنچ بھی گئی، لیکن یہاں مقابلہ پڑ گیا انڈیا سے یعنی clash of the titans ہو گیا! اور یہی وہ میچ تھا، جہاں سے وسیم اکرم اور پاکستان کی قسمت نے پلٹا کھا لیا، میچ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے اعلان کیا گیا کہ وسیم اکرم تو زخمی ہیں۔ وہ میچ نہیں کھیلیں گے لیکن اچانک کیسے؟ کیوں؟ اصل میں ہوا یہ تھا کہ آخری گروپ میچ میں وسیم کو سائیڈ strain ہو گیا تھا اور یہ خبر چھپا دی گئی تاکہ ناک آؤٹ میچ سے پہلے ٹیم کا مورال ڈاؤن نہ ہو اور انڈیا کا کونفیڈنس بڑھ نہ جائے۔ اس امید پر کہ میچ تک وسیم اکرم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور جب میچ سے پہلے بتایا گیا کہ وسیم اکرم نہیں کھیلیں گے تو سب حیران رہ گئے، یہاں تک کہ ٹیم کے کھلاڑی بھی میچ میں وسیم اکرم کی جگہ عامر سہیل نے کپتانی کی اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا۔ ورلڈ کپ ہاتھ سے نکل گیا۔ کروڑوں دل ٹوٹ گئے اور وسیم اکرم کا بھی، اُس رات کیا ہوا؟ سب کا اپنا اپنا ورژن ہے، لیکن وسیم اکرم بتاتے ہیں کہ وہ رات کو اپنے کمرے میں خاموشی سے بیٹھے تھے کہ اچانک کسی نے دروازہ بجایا، کھولا تو سامنے اعجاز احمد کھڑے تھے۔ جنہوں نے کہا خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے آؤ، وہ وسیم کو عامر سہیل کے کمرے کے باہر لے گئے، اندر ایک میٹنگ چل رہی تھی، کئی کھلاڑی شریک تھے، جن میں سے بقول وسیم اکرم کے، انہوں نے عامر سہیل اور راشد لطیف کی آواز پہچان لی عامر سہیل کہہ رہے تھے کہ اس ہار کا الزام وسیم اکرم پر لگا دیتے ہیں اور اُس کے نہ کھیلنے کے فیصلے کو میچ فکسنگ سے جوڑ دیتے ہیں اور پھر ہوا بھی یہی۔ مشہور کر دیا گیا کہ وسیم اکرم نے میچ فکس کیا۔ انہوں نے زخمی ہونے کا ڈراما کیا اور یوں ٹیم پاکستان اپنا کپتان اور بیسٹ پلیئر نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئی۔ اس الزام میں کتنی سچائی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا۔ یوں وہ گھن چکر شروع ہوا کہ آج تک سب کے سر چکرائے ہوئے ہیں۔ کون فکسر تھا؟ کون نہیں؟ کیا وسیم اکرم بھی فکسر تھے؟ آج تک جتنے منہ ہیں، اتنی باتیں ہیں، سب کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا جھوٹ، حقیقت کیا ہے؟ شاید کوئی نہیں جانتا۔ کمیشن کا کیا بنا؟ یہ تو بتائیں گے ہی، ابھی جانتے ہیں کہ ورلڈ کپ 96 کے بعد کیا ہوا؟ تب ہم نے ایک نیا وسیم اکرم دیکھا، بیٹسمین وسیم اکرم۔

فاتحِ شیخوپورہ

وزڈن کو کرکٹ کی بائبل کہا جاتا ہے۔ ورلڈ کپ 96 کے بعد اس میگزین میں عمران خان کا ایک آرٹیکل چھپا، جس میں وسیم اکرم کی بیٹنگ اسکل کو criticize کیا گیا تھا کیونکہ عمران خان وسیم اکرم کو ایک آل راؤنڈر سمجھتے تھے، لیکن وہ مکمل طور پر ایک بالر بن چکے تھے اور جب خان صاحب کچھ کہیں تو وسیم بھائی بہت سیریئس لے لیتے ہیں، انہوں نے اگلی سیریز میں ہی وہ کر ڈالا جو کبھی نہیں کیا تھا، 257 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیل ڈالی، ٹرپل سنچری بھی بنا لیتے، اگر دوسرے اینڈ سے وکٹیں نہ گر جاتیں، یہ آٹھویں نمبر پر آنے والے کسی بھی بیٹسمین کی سب سے لمبی اننگز تھی، وسیم اکرم نے اننگز میں سب سے زیادہ 12 چھکوں کا نیا ورلڈ ریکارڈ بھی بنایا اور آٹھویں وکٹ پر 323 رنز کی پارٹنرشپ کا ریکارڈ بھی، یہ بہت بڑی اچیومنٹ تھی، اور عمران خان کے criticism کا بھرپور جواب بھی، لیکن یہ اننگز، یہ کارنامے، یہ اچیومنٹ سب اوور شیڈو ہو گئی، میچ فکسنگ کی انوسٹی گیشن کی وجہ سے، جب سب کچھ کرنے کے بعد بھی لوگ آپ پر شک کریں تو بہت برا ہوتا ہے، وسیم اکرم ڈپریشن میں چلے گئے اور شاید اسی کی وجہ سے انہیں diabetes بھی ہو گیا، ایک ایسی بیماری جس نے انہیں ہلا کر رکھ دیا، لیکن چیمپیئن وہ ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہو، وسیم اکرم نے خود کو سنبھالا۔ نہ صرف اس بیماری کو شکست دی، بلکہ خود پر ہونے والی ہر تنقید کا جواب بھی دیا اور شاید ہر داغ دھو ڈالتے، لیکن پھر وہی بات "قسمت"۔ پاکستان 1999 کا ورلڈ کپ بھی نہیں جیت سکا۔

1999 ایک عجیب سال

1999 پاکستان کے لیے ایک عجیب سال تھا۔ atomic power بننے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے میں پہلے تو کشیدگی بڑھی، پھر اچانک حالات معمول پر آ گئے، دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا اور ان حالات میں سب سے پہلے دونوں ملکوں کرکٹ یاد آتی ہے، تو 99 میں پاکستان کو انڈیا کا ایک ٹور کرنے کا موقع ملا۔ ایک یادگار ٹور، جس کا ایک، ایک میچ بلکہ ہر، ہر بال آج تک یاد کی جاتی ہے۔ چنئی میں پہلا ٹیسٹ ہوا، جو پاکستان صرف 12 رنز سے جیتا، اس میچ میں وسیم اکرم اور ثقلین مشتاق کی بالنگ دیکھنے والی تھی، وسیم کی ایک بال کو تو لوگ بال آف دی سنچری سمجھتے ہیں، بھائی! وال کو بریچ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آپ کو میجیکل ڈلیوری درکار ہوتی ہے اور یہ میجک وسیم اکرم کے پاس تھا۔

بہرحال، دوسرا ٹیسٹ بھی بڑا یادگار تھا، دلّی میں انیل کمبلے نے اننگز میں 10 کی 10 وکٹیں لے لیں اور انڈیا جیت گیا۔ سیریز برابری پر ختم ہوئی، پھر ایشین ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے میچ میں پاکستان نے کلکتہ میں انڈیا کو ہرایا۔ اب ورلڈ کپ سے پہلے وسیم اکرم کی الیون ساتویں آسمان پر اڑ رہی تھی، پاکستان کے پاس سب کچھ تھا، وسیم اکرم، وقار یونس جیسے بالرز، سعید انور جیسا اوپنر، شاہد آفریدی جیسا ہٹر، انضمام الحق، سلیم ملک اور محمد یوسف جیسے مڈل آرڈر، بیٹسمین، عبد الرزاق اور اظہر محمود جیسے آل راؤنڈرز، ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے اسپنرز اور سب سے بڑھ کر شعیب اختر جیسا طوفانی بالر، پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ آئی اور آتے ہی چھا گئی، ویسٹ انڈیز اور اسکاٹ لینڈ کو تو ہرایا ہی۔ اگلے میچز میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو بھی اڑا کر رکھ دیا، ایسا لگتا تھا وسیم الیون کو کوئی نہیں ہرا پائے گا اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان آخری گروپ میچ میں بنگلہ دیش سے ہار گیا اور پھر سپر sixes میں ساؤتھ افریقہ اور انڈیا سے بھی، جی ہاں! یہ One minute down, next minute up اُس زمانے میں بھی ہوتا تھا، بہرحال، پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا، جہاں نیوزی لینڈ کو ہرا کر ورلڈ کپ فائنل میں بھی آ گیا۔

‏20 جون 1999 کا دن۔ ہر پاکستانی فین سمجھ رہا تھا کہ پاکستان تو ورلڈ چیمپیئن بن چکا، فائنل تو بس ایک formalityہے، ہم تو آسٹریلیا کو گروپ میچ میں بھی ہرا چکے تھے، وہ فائنل کیسے جیتے گا؟ اور پھر؟ پھر وہ ہو گیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، وہ میچ آج بھی پاکستانی فینز کے خوابوں میں آتا ہے، وسیم اکرم نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی کا سب سے غلط فیصلہ، ٹیم صرف ‏132 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی، اس کے بعد کیا بچتا تھا؟ پاکستان فائنل ہار گیا۔ وسیم اکرم کا ورلڈ کپ ٹرافی کے سامنے جھکا سر دیکھ کر آج بھی دکھ ہوتا ہے اور یاد ہے کیا ہوتا ہے؟ جب ورلڈ کپ آتا ہے تو بہت بڑی تبدیلی لاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، اتنی بڑی ہار کے بعد میچ فکسنگ کی باتیں ایک بار پھر شروع ہو گئیں اور تحقیقات کا آغاز ہو گیا، ایک نئے کمیشن کے ساتھ۔

میچ فکسنگ تحقیقات

جسٹس محمد قیوم کمیشن نے آناً فاناً سب نئے پرانے کھلاڑیوں کو بلانا شروع کر دیا، ایک کے بعد ایک سے بیان لیا گیا، وسیم اکرم سمیت ٹوٹل 70 کھلاڑیوں اور آفیشلز کے بیان ریکارڈ ہوئے اور پھر رپورٹ ریلیز کرنے کی تاریخ کا اعلان ہو گیا۔

12 اکتوبر 1999، یہ دن کی سب سے بڑی خبر ہوتی اگر اُس روز جنرل پرویز مشرف نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے، رپورٹ delay ہونے کے بعد بالآخر مئی 2000 میں پبلش ہوئی اور ایک طوفان برپا کر دیا، اُس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے ٹور پر تھی، سیریز کا تیسرا ٹیسٹ ہونے والا تھا، ۔لیکن میچ سے صرف ایک دن پہلے یہ رپورٹ ریلیز کر دی گئی، یعنی موقع محل کی تمیز ہمیں تب بھی نہیں تھی۔

خیر، فیصلہ ہو گیا سلیم ملک اور عطا الرحمٰن پر لائف بین لگا۔ وقار یونس، مشتاق احمد، انضمام پر جرمانے لگے اور ہاں! وسیم اکرم کو بھی جرمانہ لگا، لیکن ساتھ ہی ان کے کپتان بننے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ یہ بہت بڑی خبر تھی۔ وسیم اکرم کیا سوچ رہے ہوں گے؟ اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسے 1994 میں نیوزی لینڈ میں ہوا تھا، بالکل ویسے ہی ویسٹ انڈیز میں بھی وسیم اکرم نے وہی کیا۔ اپنے کیریئر کی بہترین بالنگ ‏2000 کے ٹور کا بد نام زمانہ "اینٹیگا ٹیسٹ" رپورٹ ریلیز ہونے کے اگلے دن شروع ہوا تھا، جس میں وسیم اپنی peak پر نظر آئے۔

جی ہاں! پاکستان یہ میچ ہار گیا کیونکہ ویسٹ انڈیز 11 نہیں، 13 کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ کھلاڑی تھے امپائرز۔ وہ نہ ہوتے تو ویسٹ انڈیز ایک وکٹ سے میچ نہ جیت پاتا وسیم اکرم اپنی کتاب 'سلطان' میں لکھتے ہیں یہ میچ میری قسمت کی طرح تھا، کچھ نہ کرنے کے باوجود میں مجرم بنا دیا گیا اور سب کچھ کرنے کے بعد بھی میچ ہار گیا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ نقصان ہو چکا تھا، اور کوئی چیز اسے repair نہیں کر سکتی تھی، وسیم اکرم کے دامن پر اتنا بڑا داغ لگا، جو آج تک دھل نہیں پایا، اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود۔ اس کے بعد وسیم اکرم کی ٹیسٹ کرکٹ صرف ایک ڈیڑھ سال ہی چلی، سری لنکا اور انگلینڈ کا ایک ٹور کیا اور پھر جنوری 2002 میں بنگلہ دیش کے خلاف آخری ٹیسٹ۔ جہاں پہلے دن اپنا تیسرا اوور پھینکتے ہوئے وسیم اکرم انجرڈ ہو گئے اور یہ آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ وسیم اکرم دوبارہ کبھی ٹیسٹ کرکٹ میں نظر نہیں آئے، 104 میچز میں 23 کے ایوریج سے 414 وکٹوں کے ساتھ ان کا ٹیسٹ کیریئر مکمل ہوا، پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں لینے والے بالر کی حیثیت سے، لیکن! ون ڈے کرکٹ ابھی باقی تھی، جو تقریباً ایک سال اور چلی ورلڈ کپ 2003 تک۔

کیریئر ختم

وسیم اکرم کا انٹرنیشنل کیریئر پاکستان کرکٹ کے one of the lowest moment کے ساتھ ختم ہوا، لیکن کیوں؟ ٹیم تو تب بھی اچھی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئی؟ اس پر سے وسیم اکرم خود پردہ اٹھاتے ہیں، لکھتے ہیں:

ورلڈ کپ 2003 میں پاکستان کا پہلا میچ آسٹریلیا کے خلاف تھا۔ میچ سے ایک دن پہلے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ توقیر ضیا خود ٹیم سے ملنے ساؤتھ افریقہ آئے۔ پہلے کچھ نیک خواہشات کا اظہار کیا اور پھر اچانک اُن کی ٹون بدل گئی۔ کھلاڑیوں سے کہا اگر نہیں جیتے تو میرے پاس ثبوت ہیں کہ کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔

یعنی ٹیم کے مورال کو ڈاؤن کرنے میں جو کمی رہ گئی تھی۔ وہ چیئرمین صاحب کی اِس بات سے پوری ہو گئی۔ پاکستان آسٹریلیا سے ہارا اور پھر ہارتا ہی چلا گیا۔ زمبابوے کے خلاف آخری گروپ میچ میں بارش نے فیصلہ کر دیا۔ پاکستان کا ورلڈ کپ اور وسیم اکرم کا کیریئر ختم۔ وہ 356 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں سب سے زیادہ 502 ون ڈے وکٹوں کے ساتھ کرکٹ چھوڑ گئے، وسیم اکرم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں ٹوٹل 916 وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ فرسٹ کلاس میں 1042 اور لسٹ اے میں 881۔ دونوں فارمیٹس میں 24 سے بھی کم کے ایوریج اور ٹوٹل 31 فائیفرز کے ساتھ ایسا فاسٹ بالر شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملے۔

کرکٹ ختم، کہانی زندہ

وسیم اکرم کی کرکٹ تو ختم ہو گئی۔ لیکن اُن کی کہانی اب بھی چل رہی ہے اور ہاں! controversies بھی اپنی کتاب 'سلطان' میں وسیم اکرم نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کوکین کے عادی ہو گئے تھے اور یہ لت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اس کے بغیر وہ چل نہیں سکتے تھے۔ بالآخر بیوی ہُما مفتی کو اِس کا پتہ چل گیا۔ انہوں نے وسیم اکرم کا علاج کروایا۔ وہ کئی مہینے تک لاہور کے ایک rehab سینٹر میں بھی رہے۔ لیکن جب چمپیئنز ٹرافی 2009 کے لیے کمنٹری کرنے ساؤتھ افریقہ گئے۔ تو وہاں دوبارہ نشہ شروع کر دیا۔ شاید آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتے اگر زندگی کا سب سے بڑا دھچکا نہ لگتا۔ جیون ساتھی ہما ہمیشہ کے لیے وسیم اکرم کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ ہما کو دل کی ایک نایاب بیماری تھی، اُن کی صحت بگڑتی جا رہی تھی۔ چمپیئنز ٹرافی ختم ہونے کے کچھ ہی دن بعد ان کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، انہیں ایئر ایمبولنس سے سنگاپور لے جانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن راستے میں طبیعت بگڑ گئی، ایمرجنسی میں جہاز چنئی میں اتارا گیا، جہاں 26 اکتوبر 2009 کو ہما کا انتقال ہو گیا۔ وسیم اکرم کی زندگی ایک بار پھر دوراہے پر آ گئی اور یہاں انہوں نے فیصلہ کر لیا، نشے کو کبھی ہاتھ نہیں لگائیں گے اور ہاں! ہما کی خواہش کے مطابق کراچی شفٹ ہو گئے، بچوں کے ننھیال میں، تب بھی وسیم اکرم خبروں میں آتے رہتے تھے، مختلف اسکینڈلز کی صورت میں اور پھر انہی خبروں کے بیچ 2013 میں اچانک یہ خبر آئی کہ وسیم اکرم نے اپنی آسٹریلین گرل فرینڈ شنیرا سے شادی کر لی ہے۔ آج دونوں کی ایک بیٹی عائلہ بھی ہے۔

وسیم بتاتے ہیں کہ جب عائلہ سات سال کی تھی تو ایک بار اُس نے پوچھا۔ آپ کے کتنے فالوورز ہیں؟جب میں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ دکھایا تو وہ حیران رہ گئی، چھ ملین فالوورز؟ اُس کی آنکھوں میں کئی سوال دکھائی دیے، آخر ڈیڈی کون ہیں؟ اُن کی اسٹوری کیا ہے؟ اور کیا وہ اتنے فالوورز جسٹیفائی بھی کرتے ہیں؟ تو یہ وڈیو عائلہ کے لیے ہے اور اُس لڑکے کے لیے بھی جس نے نومبر 1989 کی اُس شام وسیم اکرم کو چھکا لگا کر میچ جتواتے دیکھا تھا۔

شیئر

جواب لکھیں