ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند کر لیں، آج تصور ہی تصور میں میں آپ کو ایک یادگار سفر پر لے جاؤں گا، ایک ایسے سفر پر جس کے لیے لوگ عمر بھر کی جمع پونجی لٹا دیتے ہیں، جس سفر کے لیے انسان زندگی بھر انتظار کرتا ہے، ایسا سفر کہ اورنگزیب، صلاح الدین ایوبی اور سلیمان قانونی جیسے فاتح بھی اس کی خواہش اپنے سینے میں لیے دنیا سے چلے گئے۔
تو سیٹ بیلٹ باندھ لیں اور سفر کی دعا پڑھ لیں، کیونکہ کراچی سے جدہ کی فلائٹ ٹیک آف کرنے والی ہے۔ جہاز جدہ ائیرپورٹ پر ٹچ ڈاؤن کرتا ہے، آپ باہر نکلتے ہیں اور مکہ جانے والی بس میں بیٹھ جاتے ہیں، بس میں خاموشی چھائی ہوئی ہے اور پھر، اچانک سے بریک لگتے ہیں اور ڈرائیور اعلان کرتا ہے کہ حرم آ چکا ہے۔
یہ آواز کانوں سے ٹکرانے کی دیر ہے، آپ کا بس نہیں چل رہا کہ بیت اللہ کی طرف دوڑ لگا دیں، آپ فٹا فٹ کمرے میں سامان رکھتے ہیں اور تلبیہ پڑھتے ہوئے حرم کا رخ کرتے ہیں۔ مگر یہ کیا؟ جس گھر کو دیکھنے کے لیے آپ اتنا لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں، اب اُس گھر پر نظر ڈالنے کی ہمت نہیں ہو رہی؟ آپ گھبرا کر تھوڑی دیر کے لیے مطاف کے صحن میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنا فون نکال لیتے ہیں، اپنے میسجز چیک کرتے ہیں اور پھر، کینڈی کرش کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔
کیوں لگا نا جھٹکا؟
لیکن سچ یہی ہے، ہر سال لاکھوں پاکستانی اربوں روپے خرچ کر کے حرمین کا سفر تو کرتے ہیں، لیکن وہاں پہنچ کر ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ کوئی سیلفیاں کھینچتا نظر آتا ہے تو کسی کے سر پر البیک کا جنون سوار ہو جاتا ہے۔ کوئی بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے تو کوئی مدینے کا سونا خریدنا چاہتا ہے۔
ممتاز مفتی اپنی کتاب 'لبیک' میں بتاتے ہیں کہ وہ اپنے دوست قدرت اللہ شہاب کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے کعبہ سے واپسی پر ہوٹل جاتے ہوئے قدرت اللہ نے کہا کہ ممتاز! اس شہر میں بڑی احتیاط کرنا، یہاں شیطان بڑی آسانی سے ورغلاتا ہے، ممتاز مفتی نے کہا کہ بھلا اس مقدس مقام پر شیطان کیسے آ سکتا ہے؟
قدرت اللہ بولے: ارے یہاں تو ابلیس خود ڈیوٹی دیتا ہے، یہ مقام ہے ہی ایسا خطرناک! خیر، آج ذرا ہوٹل دوسرے راستے سے جاتے ہیں یہ کہہ کر انہوں نے رستہ بدل لیا، رستے میں وہ ایک جگہ رک گئے، ممتاز مفتی بتاتے ہیں کہ وہاں کا منظر دیکھ کہ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ ایک بازار تھا جہاں طرح طرح کی دکانیں سجی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے میں بھول گیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں، بھول گیا کہ میں ایک حاجی ہوں۔
اور پھر اچانک میری نظر بازار کی چھت پر پڑی، جہاں ابلیس بیٹھا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
حج اور عمرہ ایک مالی عبادت ہے، اور معیشت کا اصول ہے کہ جب کسی چیز کی قیمت بہت بڑھ جائے تو آٹو میٹکلی یا تو اس کی ڈیمانڈ پر نیگیٹو امپیکٹ پڑتا ہے ، یا پھر اس کے آلٹر نیٹو کا استعمال بڑھ جاتا ہے، سولر پینلز کا ٹرینڈ تو آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے۔
اب حرمین کا کوئی رپلیسمنٹ تو ہے نہیں، تو وہ آپشن تو بند ہو گیا لیکن قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور بدترین معاشی حالات کے باوجود زائرین کی تعداد ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں تو روپیہ بہت تیزی سے گرا ہے اور مہنگائی بہت بڑھی ہے، لیکن حج اور عمرے کی قیمتیں اُس حساب سے نہیں بلکہ اُس سے کئی گُنا زیادہ بڑھی ہیں۔
پندرہ سال پہلے ریال بائیس تئیس روپے کا تھا اور حج دو لاکھ کا، لیکن آج وہی حج چودہ پندرہ لاکھ سے کم میں نہیں ہوتا یعنی ریال کی قیمت تو تین سے چار گنا بڑھی ہے لیکن حج سات سے آٹھ گنا مہنگا ہو چکا ہے۔
حج اور عمرہ کی تربیت دینے والے صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
ریٹ آف ایکسچینگ، کچھ حد تک ٹیکسز، ایک اور جو اس میں اہم فیکٹر ہے وہ ہے بائنگ پاور آف پیپل، لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے، جس وجہ سے چیزیں ہماری ریچ سے بابر ہوئی ہیں، ایک مثال دی جاتی تھی کہ پیپسی پہلے بھی ایک ریال کی تھی اور آج بھی ایک ریال کی ہے تو اب ایسا نہیں ہے اب وہ ڈھائی تین ریال کی ہے۔
لیکن 2023 میں آل ٹائم ہائی قیمتوں کے باوجود حاجی حضرات نے پچھلے تمام سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے، سعودی منسٹری کے مطابق، 13.5 ملین لوگوں نے اس سال عمرہ کیا۔ یعنی پچھلے سال سے 58 فیصد زیادہ لوگ، خصوصاً پاکستانیوں کی بات کریں تو صرف جنوری سے لے کر رمضان کے آخر یعنی اپریل تک 8 لاکھ پاکستانیوں نے عمرہ کیا۔
آپ نے ٹرینڈ دیکھا؟ جیسے جیسے ریال کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے، ویسے ویسے پاکستان سے آنے والے لوگوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن عمرہ چارٹس پر نمبر ون ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ بہتری کے بجائے مزید تباہی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
رفتار کے بانی فرحان ملک کہتے ہیں:
کتنے لوگ عمرہ کرتے ہیں پھر بھی کیا حال ہے ہمارے معاشرے کا، طواف تو دور جاہلیت میں ابو جہل اور ابو لہب بھی کرتے تھے۔ اسی گھر کا طواف کرتے تھے نا، ہمارے ملک میں جو کام زیادہ ہونے لگ جائے نا اس سے تم گھبرا جاؤ، قربانوں کو دیکھو ایک کروڑ کا بیل، جو راتوں رات کام بہت زیادہ ہونا شروع ہوجائے نا، اس میں خیر کم ہی ہوتی ہے، کیونکہ ایک بیمار معاشرہ ایک اوور آل جہالت کا شکار معاشرہ، بڑا مشکل ہے کہ اس میں بہت ہی ابنڈنٹ خیال آنا شروع ہوجائیں آل آف آ سڈن۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے مہنگے سفر پر جانے سے پہلے ہمارے زائرین کی نیت ہوتی کیا ہے؟ کیا ہمارا بنیادی مقصد شاپنگ، کھانا پینا یا سیر و تفریح ہے یا پھر اپنے رب کی تلاش؟
ظاہر ہے وہاں انسان کا مقصد روحانیت حاصل کرنا، اپنے رب کی قربت پانا ہوتا ہے۔ وہ جگہ عبادت کی ہے، وہاں اس لیے جاتے ہیں تاکہ دنیا کی ہر جھنجھٹ سے بچ کر بس خالق کائنات کے ہو کر رہیں۔ لیکن جب وہاں جا کر آپ کو کسی اور ہی چیز کی فکر ہو گی، تو وہی ہو گا جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، لوگ دھڑا دھڑ عمرے کرتے جائیں گے لیکن معاشرے میں رتّی برابر تبدیلی نہیں آئے گی۔
فرحان ملک مزید بتاتے ہیں:
سادگی میں روحانیت ملتی ہے، جب آپ کے سینسز overwhelmed ہوں گے۔ یار آج طواف کرنے کے بعد نا ال بیک کھانا ہے یار ال بیک کھاؤں گا آج، اب آپ جب مکہ اور مدینہ منورہ جار ہے ہیں تو آپ کے ذہن میں صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ کے گھر کا طواف کرنا ہے، آپ کو کھجوریں بھی لینی ہیں، زمزم بھی لینا ہے، ال بیک بھی کھانا ہے، مندی بھی کھانی ہے، تو آپ کی بینڈوڈتھ ہے دماغ کی وہ بینڈوڈتھ ڈیوائڈ ہوچکی ہے، کیا یہ سارے کام آپ دبئی میں نہیں کر سکتے؟ لیکن دبئی میں آپ عمرہ کرسکتے ہیں؟
سیاحت کے لیے پاکستانیوں میں ترکی، تھائی لینڈ اور دبئی بہت پاپولر ہیں، اگر leisure ٹرپ پر ہی جانا ہے تو آپ ترکی کیوں نہیں جاتے؟
صدیق خاندوانی نے کہا:
عمرہ ویزا کا حصول بڑا آسان ہے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ عمرہ، سب سے سستا ویزا عمرہ ہے، دنیا میں سب سے سستا ویزا عمرہ ویزا ہے، آپ کمپئیر کریں تھائی لینڈ کو یا ترکی کو، تو وہاں ایک پورا پروسس ہے اگر آپ شینجن یا US ویزا ہولڈر نہیں ہیں تو پھر آپ کو ایک پورے پروسس سے گزرنا پڑے گا، ان کے جو authorized ٹریول ایجنٹس ہیں ان کے پاس جانا پڑے گا، درخواست دینے پڑے گی، وہ یقینی طور پہ اس کے مقابلے میں مہنگا بھی ہے اور مشکل بھی۔
حج و عمرہ ہمیشہ سے اتنا آسان نہیں تھا، ایک وقت تھا جب حاجی اونٹ پہ بیٹھ کر تپتی گرمی میں صحرا پار کرتے تھے، رشتے داروں سے ایسے ملتے تھے جیسے اب کبھی دوبارہ نہیں مل پائیں گے، کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ رستے میں کیا ہو گا؟ کیا ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جائیں گے یا ریتلے طوفان کی زد میں آ کر شہید ہو جائیں گے؟ اللہ کا گھر اور آقا کی آرام گاہ دیکھنے کے لیے ایسا جذبہ ہوتا تھا کہ ہر مشکل چھوٹی لگتی تھی۔ لوگ جدوجہد کر کے جاتے تھے، قربانی دے کر جاتے تھے، ایثار کا جذبہ سب سے نمایاں ہوتا تھا، اب تو بس ٹریول ایجنٹ کی فیس بھرو اور ہر انتظام اس کے ذمے۔
حج اور عمرہ ٹور آپریٹر احتشام نے بتایا:
آپ نے ائیر پورٹ پہنچنا ہے بس کراچی کے، وہ بھی نہیں کر سکتے تو ہم آپ کو ان ڈرائیو کر وا دیں گے، باقی ساری سروسز ہم دیتے ہیں، یہاں کی فلائٹ دی وہاں کا ویزا دیا، وہاں کا پک اینڈ ڈراپ دیا پک اینڈ ڈراپ میں بس ہے ٹرین ہے، پرائیوٹ کار ہے سب دیتے ہیں، پھر وہاں کی اکاموڈیشن ہے، زیارات ہیں پھر واپسی، ساری چیزیں دیتے ہیں، پہلے سفر پیدل تھا، پھر اونٹ پہ پھر پانی کے جہاز پہ، پھر اب ہوائی جہاز کے ذریعے سے یعنی پہلے سفر مہینوں میں تھا پھر دنوں میں آیا پھر اب گھنٹوں میں ہے، دین مشقت کے ساتھ ہی ہے، اس ہی لیے فرق تو آیا ہے۔
فرحان ملک کہتے ہیں:
قرآن کی ایک آیت ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو جہاد کرتا ہے میں اس کو اپنا رستہ دکھا دیتا ہوں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پہلے یہ سٹرگلز فیزیکل اور مٹیریل تھیں، لوگ مر جاتے تھے سفر کے دوران اب یہ سٹرگل مینٹل اور ایموشنل ہیں، اسٹرگل وہ ہی ہے، ہم سمجھ رہے ہیں اسٹرگل ختم ہو گئی، تو اب وہاں اسٹرگل ہو گی کہ موبائل یوز نہ کرو، اب وہاں اسٹرگل ہوگی کہ ال بیک کی لائنوں میں دو گھنٹے نہ لگا دوں روضہ رسول ﷺ پہ گزار دوں وہ دو گھنٹے، ہر زمانے کی اپنے حساب سے اسٹرگل ہوتی ہے، اور یقین کریں میں سمجھتا ہوں یہ بالکل جہاد اصغر اور اکبر والی مثال ہے۔ کہ اپنے آپ سے لڑنا، اپنے نفس سے لڑنا زیادہ مشکل کام ہے، تو اس بات کا خیال کرنا کہ یار میں بور ہو رہا ہوں مطاف میں کینڈی کرش کا ایک راؤنڈ کھیل لوں، بہت عبادت ہوگئی، یہ روکنا بڑی اسٹرگل ہے، اسپیشلی جب آپ کی زندگی پب جی اور یہ گیم کھیلتے گزری ہے، اب یہ اگر کسی نے روک لیا اپنے آپ کو تو اسے وہ ہی ثواب ملے گا جو چالیس سال پہلے پیدل آنے والے کو ملتا تھا۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
اس میں آدمی اپنے آپ کو بھول گیا اور اپنے رب کو بھول گیا، اپنے آپ کو جانے گا وہ رب کو پہچانے گا اور اس کے گھر جب جائے گا تو اس کا فوکس ڈوائڈڈ نہیں ہو گا۔ جب ہم کرنے کے کام نہیں کریں گے تو پھر وہ کام کریں گے جو نہیں کرنے، یہ جو اپنے اندر کی ڈسٹریکشن ہے نا اپنے اندر میں لیک آف فوکس ہونا، یہ آدمی کی زندگی میں بھی ریفلیکٹ کرتا ہے اور اتنے اہم سفر میں بھی ریفلیکٹ کرتا ہے،
میں اکثر بات کرتا ہوں کہ طاقتور ترین مغل بادشاہ نہیں جا پاتے تھے لیکن آج میں اور آپ جا رہے ہیں، تو اس بلاوے کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا،روحانیت اور خلوت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، روحانیت حاصل کرنے اور اللہ سے تعلق بہتر بنانا ہی مکہ مدینہ آنے کا مقصد ہے، لیکن آس پاس کا شور بازار، ان سب ڈسٹریکشنز میں اس کیفیت سے لطف اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے،
فرحان ملک کہتے ہیں:
حضور ﷺ حرا کیوں جاتے تھے، بیکاز مکہ ایک ٹریڈ سینٹر تھا، ہسل بسل تھا، تو اللہ کے نبی ﷺ مکہ سے 3 سے 4 کلومیٹر دور جاکہ غار میں بیٹھ جاتے تھے، نگاہیں ان کی بیت اللہ پہ ہی ہوتی تھیں، وہ جو سوراخ ہے وہاں سے سیدھا لائن آف سائٹ بنتا ہے مکہ کا، اب تو خیر بلڈنگز آ گئی ہیں، لیکن خیر وہ ایک ڈسٹینس پہ ہٹ جاتے تھے، کیونکہ وہ روحانیت کی تلاش کر رہے تھے، اور خلوت میں روحانیت ملتی ہے، بھیڑ میں روحانیت نہیں ملتی، اسی طرح سادگی میں روحانیت ملتی ہے۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
میں عمرہ پر کیوں جا رہا ہوں؟ میں یہ ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کیوں خرچ کررہا ہوں، تو جب لکھتا ہے نا آدمی تو اسکے دماغ میں چیزیں رجسٹر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، تو میں یہ پیسے کیوں خرچ کرہا ہوں، میں گھر میں کوئی فرنیچر خرید لیتا میں اس کی جو ہے وہ ترکی چلا جاتا، میں تھائیلینڈ چلا جاتا دبئی ٹور کرلیتا پاکستان ٹو کرلیتا، I am spending there to go there. What is the basic reason?
میں بار بار بات کرتا ہوں کہ اویئرنیس دی جائے، آپ لوگ I think you are doing your best کہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ بھئی تم اپنے روحانی مقصد کو حاصل کرو، جس مقصد کے لیے اتنا خرچ رہے ہو گھر باڑ چھوڑ رہے ہو سب کچھ کر رہے ہو۔
یہ بیت المقدس ہے جو دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لیے ایک مقدس شہر ہے۔ یہودیوں کا مقدس ترین مقام بھی یہاں پر ہے اور مسیحیوں کا بھی، اور مسلمانوں کا قبلۂ اول بھی یہیں پر ہے۔ شہر کی ایک، ایک عمارت، بلکہ ہر اینٹ اور ہر پتھر بھی اپنی ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ لیکن آج بھی آپ ٹیمپل ماؤنٹ سے Church of the Holy Sepulcher اور مسجد اقصیٰ تک، جہاں جائیں گے، ایسا لگے گا آپ 2024 میں نہیں بلکہ سن ایک ہزار چوبیس میں ہوں۔
لیکن کیوں؟ اسرائیل تو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کے جدید ترین ملکوں میں سے ایک ہے، کیا وہ یروشلم کو دنیا کا موسٹ ماڈرن سٹی نہیں بنا سکتا؟ کیا وہاں دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل نہیں بنا سکتا؟ دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر نہیں کر سکتا؟
بالکل! کر سکتا ہے۔ لیکن اس سے یہاں آنے کا جو مقصد ہے، وہ فوت ہو جائے گا۔یہ بات انہیں تو سمجھ آ گئی۔ لیکن شاید ہمارے لیے سمجھنا مشکل ہے۔
دیکھیں مکہ مدینہ جانے کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہے کہ ایک spiritual awakening سے گزرنا، وہاں جانے سے پہلے یہ نیت ضروری ہے کہ میں اپنی زندگی بدل کر آؤں گا، یہ ضروری ہے کہ آپ ہر چیز سے بے خبر ہو جائیں اور صرف عبادت میں مگن ہو جائیں، عمرے کی عبادت ہے بھی بالکل مختلف، نماز جیسی باقی عبادات کے لیے انسان پاک صاف ہو، خوب تیار ہو، خوشبو لگائے، مگر طواف کی ایک عجیب requirement ہے، نہ آپ خوشبو لگا سکتے ہیں نہ آپ بال کاٹ سکتے ہیں بس ایک درویش کی طرح جسم پہ سفید کپڑا لپیٹا اور نکل گئے بیت اللہ کے گرد دیوانوں کی طرح چکر لگانے.
فرحان ملک کہتے ہیں:
مجھے یہ اکثر لگتا ہے کہ یہ جو عمرہ ہے، جو طواف ہے، یہ ایک مجنونانہ عبادت ہے، کہ اللہ تعالیٰ expect کرتے ہیں کہ تم مجنون کی طرح میرے گھر کے چکر لگاؤ، کوئی خیال نہ کرو کہ تمہارے بال مٹی میں اٹے ہوئے ہیں، کوئی خیال نہ کرو کہ تم میں سے بد بو آر ہی ہے، بس دیوانوں کی طرح بس چکر لگاؤ، اور جب آپ ایک دفعہ مطاف میں ہوتے ہیں تو ادھر ے دھکے پڑ رہے، ادھر سے دھکے پڑ رہے، پورا کانسیپٹ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہے آپ کے پرائڈ کو آپ کے ایگو کو مسلنا چاہتا ہے کہ میں بڑا ہوں، یہ گھر بڑا ہے، تم چھوٹے ہو تمہاری انا چھوٹی ہے تمہاری existence چھوٹی ہے، اب اس گھر کے اندر جب آپ طواف کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے سر پہ ایک ٹاور کھڑا ہے جو کہتا ہے کہ نہیں، میں اس گھر سے بڑا ہوں معاذ اللہ اب جب آپ اس گھر سے باہر نکلتے ہیں تو سامنے سے ایسی کی یخ ٹھنڈی ہوائیں آر ہی ہوتی ہیں اور دنیا کے بہترین کھانے اور دنیا کے بہترین برینڈز اور دنیا کے بہترین مالز آپ کا wait کر رہے ہوتے ہیں.
جب آپ کا ذہن عبادت کے علاوہ بازاروں میں الجھ جائے ہوٹل میں آرام کرنے اور طرح طرح کے کھانے کھانے میں ہو تو اللہ سے قربت مشکل ہی پیدا ہوتی ہے، اور جو لوگ حقیقتاً اس قربت کو، اس روحانیت کو تلاش کرنے آتے ہیں، کبھی کبھی انہیں بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے.
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
ادھر مجھے ایک کپل ملا جو چیک آؤٹ کر رہا تھا میں ان کے پیچھے ہی بیٹھا تھا اور مجھے ان کا ادب والا انداز بڑا اچھا لگا، میں اس کے پاس گیا میں نے کہا کہ مے آئی ہیلپ یو سر تو کہنے لگا میں نے چیک آؤٹ کرنا ہے، تو میں نے کہا کہ آپ کو کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں آپ ایسے ہی چیک آؤٹ کر سکتے ہیں، یہ ایکسپریس چیک آؤٹ ہے، پھر اس نے پوچھا کہ آر یو شیخ؟ تو میں نے کہا کہ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں میں حج ٹرینر ہوں وہ کہتا ہے، you know why i came here doctor? I came here in the search for spirituality. I Tried to search for it in Haram makkah, i didn't find it. Then i went to Arafah I went to Mina i was in muzdalifah you know i was trying to search the spirituality that i heard from the experts but i'm still in search Dr can you help me and can you give me some points because i am going to madina so can you give me some to dos so i can get the spirituality.
تو سب سے پہلے میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور سوچا جو اتنے لاکھوں لوگ آتے ہیں ان کے بارے میں سوچا کہ کیا ہر شخص اس کی طرح ایمان کے اس درجے پہ ہے؟ اور جب میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے چھ مہینے پہلے اسلام قبول کیا، اس کو اس قدر فکر ہے حرمین آنے کے بعد کہ جو میں نے پہلے بات کی تھی روحانیت کی تلاش.
میں نے ایک شخص کو خانہ کعبہ کے سامنے موبائل پر پب جی گیم کھیلتے دیکھا لیکن یہ اکیلے نہیں ہیں، یہ تو بس ریکارڈ ہو گیا، ورنہ ایسے بہت سے ہیں جو یہاں بھی گیم کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں، بڑے ہی بد نصیب ہیں بےچارے، لوگ یہاں ایک بار حاضری دینے کی حسرت لیے دنیا سے گزر جاتے ہیں، لیکن دوسری طرف یہ ہیں کہ حاضر ہوتے ہوئے بھی غیر حاضر ہیں،
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
بد قسمتی میں نے اپنے سامنے یہ مناظر دیکھے، کہ لوگ اپنے اسمارٹ فون میں، بیت اللہ شریف جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ کو دیکھنے سے بھی انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، انسان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، زندگی بھر میں نے اور آپ نے کیا نیت کی ہے کہ منہ میرا بیت اللہ کی طرف، وہ بیت اللہ ان کے سامنے ہوتا ہے اور وہ اسمارٹ فونز میں گیم کھیل رہے ہوتے ہیں، کیا ہی درد ناک منظر ہوتا ہے میرے نزدیک کہ حرم میں سیلفیز لی جا رہی ہیں۔
معروف سیاح محمد عمر بتاتے ہیں:
حرم کو چھوڑ دو مسجد میں لوگ خطبے کے دوران موبائل یوز کر رہے ہوتے ہیں، آپ طواف کر رہے ہیں اور لوگ سامنے وڈیوز بنا رہے ہیں، اور ضروری ہے کہ وڈیو بنانی ہے کہ میں طواف کر رہا ہوں، یار میں طواف کر رہا تو خوشی سے کر رہا ہوں نا، جب میں نے نماز پڑھنا شروع کردی تو میرے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں ہے ابھی، اور وہاں پہ جب موبائل بیچ میں آ جاتا ہے نا، پھر کام خراب ہو جاتا ہے۔
فرحان ملک کہتے ہیں:
God bless the mobile phone… آپ طواف کر رہے ہوں گے اور لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وڈیو کال کر رہے ہیں، یار کس نے، کون ہے جس نے آج تک بیت اللہ نہیں دیکھا ہوا، اور تمہارے فون سے جو بیت اللہ دکھایا گیا ہے اس میں کون سی چیز ایسے مختلف نظر آ رہی ہے؟ ہر کوئی وڈیو کال کرتا ہے اور طواف کرتے ہوئے، you think it's more important to make a video call? اگر آپ کی priorities میں اس وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ وڈیو کال کرنا ہے جب اللہ تعالیٰ آپ سے expect کرتا ہے کہ دیوانہ وار میرے گھر کے چکر لگاؤ، دیوانوں کی طرح بھاگو، اور اس وقت آپ اپنے معشوق اور محبوب سے ہٹ کر سائٹ seeing کروا رہے ہیں اپنے گھر والوں کو ؟ there's something seriously wrong with you… اور دوسرا مسئلہ کیا ہوتا ہے، آپ بات کر رہے ہیں، اور جو گھر والے وڈیو کال پہ ہیں انہوں نے بھی اپنا کیمرہ آن کیا ہوا ہے، عورت وہ جس حال میں بیٹھے ہیں اس حال میں ان کی تصویر آ رہی ہے، اب کسی کی نظر غلطی سے اگر پڑ رہی ہے تو آپ ان کو سب دکھا رہے ہیں، مطلب کچھ تھوڑی سی عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
نجانے کیوں اب لگتا ہے کہ لوگوں کا ثواب کا concept ہی بدل رہا ہے، کچھ لوگ تو اپنی خواہشات کو مذہبی تڑکا لگا کر اس سے ثواب حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
Its really amazing for me ke why people are coming here؟
آپ خود دیکھیں اب تو سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے، وہ وہاں پہ اپنی شادی کو plan کر رہے ہیں، دیکھیں ایک تو ہے کہ نکاح کر لیا مسجد نبوی میں حکومت کی اجازت سے، لیکن وہ جی عروسی لباس میں دلہن کو تیار کر کے لے آؤ اور فوٹو سیشن چل رہا ہے وہاں پر، یہ تو یہ آپ شاید یہ سن کہ حیران ہوں گے کہ اپنے cloths کی اور برقعے کی برینڈنگ جو ہے نا مسجد الحرام میں ہو رہی ہے، اپنی نفسانی خواہشوں کے لیے مکہ کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اپنی سفلی خواہشوں کے لیے لوگ یہ سب کر رہے ہیں۔یہی نہیں۔ ۔یہاں تو لوگ ثواب کے لیے بھی اپنی ضد ساتھ لیے پھرتے ہیں، میں نے کچھ سوچ لیا اور کسی بھی قیمت پر اسے حاصل کر کے رہوں گا، چاہے اس کے چکر میں ثواب کے بجائے الٹا گناہ ہو، چاہے معاملہ حجر اسود کو بوسہ دینے کا ہو یا دربار رسولؐ میں حاضری کا۔
فرحان ملک کہتے ہیں:
اللہ کے نبیﷺ اگر چاہتے بوسہ دینا تو یوں ہٹتے نا صحابہ، اللہ کے نبی نے کیا کیا؟ دور سے بوسہ دے دیا، یہاں ہمارے اللہ کے ولی ماؤں بہنوں کے جسموں کا تقدس پامال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مکے مار کر اس پتھر کو بوسہ دینے جاتے ہیں، اللہ کے نبیﷺ کی حدیث ہے کہ ایک مومن کی جان بیت اللہ کی حرمت سے زیادہ ہے، اور ہم دوسرے احرام میں مسلمانوں کو ٹھڈے مار کہ ایک پتھر کو بوسہ دینے جاتے ہیں، How messed up is it… اور یہ ہی حال آپ مدینہ میں دیکھتے ہیں کہ جب روضہ رسولﷺ پہ حاضری ہوتی ہے، اب وہ جالی کہ اندر جھانک رہے ہوتے ہیں نا لوگ، اگر آپ رسول اللہﷺ کے دربار میں ہوتے تو آپ اچک اچک کے گھور گھور کے دیکھ رہے ہوتے رسول کریمﷺ کو، صحابہ آپ کو جوتے لگاتے، اور مسجد نبوی کی حرمت، کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب دنیا لپیٹی جائے گی تو بیت اللہ حاضر ہو گا مسجد نبوی کو سلام پیش کرنے۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
یعنی کتنے ادب کا مقام ہے کہ شاعر کہتے ہیں کہ یہاں ہوا کو بھی حکم ہے کہ ادب سے چلے مسجد نبوی میں، کہ جی وہاں تمہاری آواز اوپر نہ ہو، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی میں میں اپنے باپ کے قاتل کو پاؤں تو اس کو قتل نہ کروں، یعنی کتنے ادب کا مقام ہے وہ، تو وہاں پر آپ دیکھیں تو آپ حیران و پریشان ہو جائیں، لا حول ولا قوة إلا باللہ، کہ جہاں آدمی نظریں نہ اٹھائے وہاں یہ آپﷺ کی آرام گاہ کے سامنے، بار ہا سعودی حکومت منع کرتی ہے علما منع کرتے ہیں، اہل علم منع کرتے ہیں لیکن لوگ اس میں وڈیو کالز میں اپنی وائف کو لیے ہوئے ہیں، عورتوں کو لیے ہوئے ہیں، وہ بڑی بڑی اسکرینز پہ آدمی کہہ رہا ہے ان سے کہ سلام عرض کر دو، ایک صاحب کو میں نے دیکھا کہ بیت اللہ سے چمٹے ہوئے ہیں اور موبائل فون کو لگایا ہوا ہے اور کسی خاتون سے کہ رہے ہیں، میں بیت اللہ سے لگا ہوا ہوں تم بھی چمٹ کے دعا کر لو.
محمد عمر مزید کہتے ہیں:
میں نے بچوں کو مزدلفہ میں کارڈز کھیلتے ہوئے دیکھا۔
ایک اور بات، بلکہ بہت دکھ کی بات یہ ہے کہ اب لگتا ہے بھیک مانگنا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے، ظاہر ہے عوام تو اپنے رول ماڈلز یعنی حکمرانیوں کے نقش قدم پر ہی چلتے ہیں، ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک سے باہر گرفتار ہونے والے 90 فیصد گداگروں کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے، اور سعود یہ میں تو پاکستانیوں بھکاری اتنے بڑھ گئے جنوری میں ایک پارلیمانی کمیٹی بنانی پڑی، جس کا ہدف تھا کہ عمرہ اور حج ویزا پر جانے والے بھکاریوں کو پکڑا جائے۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
جب بھی کوئی مانگنے والی آواز کان میں آتی ہے نا، تو آپ یقین مانیں وہ میری قوم کے کسی شخص کی نظر آتی ہے مجھے، بہت سے اور بھی ہوتے ہیں، لیکن آپ دیکھیں جہاں سو کے مجمع میں 95 ایک ہی قوم کے لوگ ہوں، تو پھر پانچ یا چھ فیصد کہاں نظر آتا ہے؟ جہاں آپ لنگر کی لائنز دیکھیں وہاں پاکستانی، یعنی انہوں نے تو ایک مافیا اس طرح سے اسٹیبلش کیا ہوا ہے کہ انہوں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے شلوار کرتا پہنا ہوا ہے اور آپ ذکر کر رہے ہیں حرم میں، تو انہوں نے آپ کو مارک کیا ہوا ہے، اور آ کر کہیں گے کہ جی میں اپنی بیوی کے ساتھ عمرے پر آیا تھا، اور جی میرا پاسپورٹ چوری ہو گیا اور میرے پیسے گر گئے، اور جی مدد کریں، مجھے کھانا دلادیں، میرا بچہ بیمار ہے مجھے دوائی دلا دیں، اس کے لیے آقاﷺ کی ایک حدیث کوٹ کرتا ہوں کہ ایک وقت آئے گا کہ تین طبقات رہ جائیں گے جانے والے، ایک وہ جو صرف اپنی فیم کے لیے اپنی مشہوری کے لیے کہ عمرہ حج کر لیا واہ واہ، کیا بات ہے، دوسرا وہ جو بزنس کے لیے جائے گا، اس کا مقصد یہاں سے کچھ لے جانا وہاں سے کچھ لانا ہو گا، اور ایک تیسرا طبقہ وہ ہے جو وہاں جا کے بھیک مانگے گا۔
آپ نے خرگوش تو دیکھا ہو گا۔ وہ کیا کرتا ہے؟ بل کھو دے گا اندر جائے گا اور وہیں رہنا شروع ہو جائے گا، اور آپ کی لگائی گئی فصل کو اندر ہی اندر کھانا شروع کر دے۔
ہمارے کچھ پاکستانی بھائی خرگوشوں سے بہت انسپائرڈ ہیں، اسی لیے خرگوش ویزا کو دن بدن شہرت ملتی جا رہی ہے۔
یہ لوگ عمرہ یا حج کے ویزے پر فلائٹ میں بیٹھتے ہیں، اور سعود یہ جا کر کسی بل میں چھپ جاتے ہیں، جیسے ڈنکی لگتی ہے نا؟ بالکل ویسے ہی۔ بس ڈنکی میں جان کا خطرہ ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا کوئی خطرہ نہیں ٹریول ایجنٹ کی فیس دو، عمرہ ویزا لو، سعود یہ پہنچ جاؤ اور پھر وہاں جا کر نوکریاں کرو، یا بھیک مانگو، آپ کی مرضی!
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
جیسے جو آپ نے اصطلاح استعمال کی خرگوش ویزا، کہ جی باغوں میں انہیں کام کرنا ہے جون جولائی اگست میں تو یہاں سے جاتے ہیں لوگ، اسی طرح بڑی تعداد میں بھکاری جار ہے ہیں، بڑی تعداد میں یہ جو جیب کترے جار ہے ہیں، اچھا سر یہ عمرہ ویزا پر یہ سب ہوتا ہے؟ جی جی اصل میں دیکھیں عمرہ ویزا کا حصول بڑا آسان ہے، تو جتنی آسانی ہوئی تو لوگوں نے اس کو غلط استعمال کیا، ان کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا ٹور آپریٹرز کی طرف سے کہ آپ کام بھی کر سکتے ہیں کہ نہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ جی سعودیہ چلے جائیں اور وہاں جا کر کام کریں یعنی اتنی شرمندگی ہوتی ہے مجھے کہ جب آئی لینڈ ایٹ دی سعودیہ ائیرپورٹ کہ جی عمرہ ویزا ہولڈر ہے، اور احرام کے بجائے اس کو ایلے میلے کپڑوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے وہاں پر، کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ آپ عمرہ ویزا پہ ہیں اور احرام نہیں پہنا ہوا۔
یہ انٹرویوز لیتے ہوئے میں بار بار حیران ہو رہا تھا، لیکن یہاں پہنچ کر تو میں بھی سوچنے لگا کہ حد ہو گئی، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ کوئی مسلمان اس سے زیادہ نہیں گر سکتا؟ لیکن آگے جو بات ہوئی، اس نے ثابت کیا کہ چند لوگ دنیا کی لالچ میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد پاورٹی لیول سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ان کے لیے صرف دو وقت کی روٹی سب کچھ ہوتی ہے ابراہیم، اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فقر انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے، تو پھر یہ بڑا المیہ ہے کہ چاہے وہ پراسٹیٹیوشن ہو، یہ ہمارے علم میں آئیں باتیں کہ اتنا تک قوم گر گئی کہ جی علم میں آیا کہ عمرہ ویزا پہ بھی یہ کام ہوتا رہا ہے۔
جب اس ڈاکومنٹری کا ٹاپک مجھے اسائن ہوا تھا تو اُسی وقت میرے ذہن میں ایک خاکہ تیار ہو گیا تھا، وہ کہتے ہیں نا "the first step to solving a problem is recognizing there is one"۔ تو اسی کے تحت میں نے مختلف ایکسپرٹس کے انٹرویوز لیے اور سمجھا کہ مسئلہ آخر ہے کیا، غلطی ہوتی کدھر ہے؟ ہم کیا کیا کوتاہیاں کرتے ہیں اور عمرہ کے لیے جانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ مسئلہ تو سامنے آ گیا، لیکن عمرے کے سفر کو ایک لائف چینجنگ سفر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی بہت ضروری ہے
فرحان ملک کہتے ہیں:
ابراہیم یو آر آ فٹ گائے، جب آپ جم جاتے ہیں تو ٹرینر کہتا ہے کہ وارم اپ کرو ورنہ مسل انجری ہو جائے گی، آپ اتنے پیسے خرچ کر کے جار ہے ہیں، اس سے پہلے کوئی وارم اپ تو کرو بھائی، اس سے پہلے ذرا موبائل یوز کم کر دو تاکہ وہاں جا کے ٹھرک کم ہو تمہیں کہ میں وڈیو کال کر لوں تھوڑا سا ٹرین کریں اپنے آپ کو اپنے رویے کو، تھوڑا کھانا پینا سادہ کرلیں کہ وہاں ڈوپامین لینے کی ٹھرک کم ہو تو آپ اپنے آپ کو ٹرین کریں تاکہ جب آپ پہنچیں تو آپ کی باڈی گرم ہو آپ روحانی طور پر گرم ہوں، سو یو گیٹ ان دی گروو رائٹ اوے آپ حرم کی زمین پہ قدم رکھیں اور پریکٹس ہو آپ کی۔
صدیق خاندوانی کہتے ہیں:
عمرہ سے پہلے بہت سارے کرنے کے کام ہیں، اور عمرہ کے بعد بھی بہت سارے کرنے کے کام ہیں، تو عمرے سے آدمی بہت ساری انسپیریشن لےسکتا ہے اپنی زندگی کے لیے۔ جہان سے ایمان والوں کو ایمانی جلا ملتی ہے، تو میں تو کہوں گا کہ زندگی گزارنے کے بنیادی فن کو سیکھے، یہ عمرہ سیکھنے کی ہم بات کر رہے ہیں نا، جب عمرے کا ارادہ کر لے نا آدمی تو تھوڑی دیر اپنے ساتھ بیٹھ جائے کہ یار میں کیوں جا رہا ہوں، میرا مقصد اس کو لکھے، میرا مقصد اللہ کو حاصل کرنا ہے رسول اللہﷺ کی قربت کو حاصل کرنا ہے، ہر چیز کی ایک قیمت ہے میں اپنے جذبات خواہشات کو قربان کروں گا تو میں اللہ کے قریب ہوں گا، جیسا میں نے کہا کہ ایک ٹائم ٹیبل بنا کر جائیں تو یہ وہ کرنے کے کام ہیں، آگاہی، سمجھنا، عبادت کی روح کو سمجھنا، اپنے وقت کو بازاروں میں یا کسی اور ایکٹوٹی میں گزارنے سے بچنا اور واپسی پہ جس کام کا ارادہ کیا ہے اس کو پریکٹس کرنا۔
جانے سے پہلے آپ کو ممتاز مفتی کے کچھ الفاظ ضرور سنانا چاہوں گا، جو انہوں نے حج کے بعد مکہ معظمہ سے حاجیوں کی واپسی پر لکھے تھے:
جب کوئی وداع ہونے والا دروازے سے باہر نکلتا تو وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتا اور کہتا ہے مجھے چھوڑ کے نہ جاؤ، مجھے ساتھ لے چلو۔ اس گھر کی جدائی کا غم مت کھاؤ، وہ تو خالی ہے۔ میں تمھارا راستہ دیکھ رہا ہوں، تمھارا منتظر ہوں، تمھارے ساتھ جانے کا خواہاں ہوں۔ مجھے ساتھ لے چلو۔
لیکن کوئی اُس کی جانب نہ دیکھتا، کوئی اُس کی بات نہ سنتا۔ کوئی اُس کی طرف توجہ نہ دیتا۔ اُن سب کی نظریں تو پتھر کے اُس گھر پر تھیں۔ وہ اُس سے جدا ہونے کے غم میں نڈھال تھے۔
وہ مکان میں کھوئے ہوئے تھے، اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ مکین کو بھول چکے تھے اور مکین حیرت اور بے بسی سے اُن کا منہ تک رہا تھا۔