شیخ کے سینے سے ایک چاند ابھرا اور اس کے سینے میں اتر گیا۔ وہ حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ اچانک سینے سے ایک درخت پھوٹنے لگا جو بڑا ہوتا گیا بلکہ ہوتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ تین بر اعظموں پر چھا گیا۔ اب اس درخت کو چار عظیم پہاڑوں نے سنبھالا ہوا ہے اور اس کی جڑوں سے چار بڑے دریا نکل رہے ہیں۔ پھر کئی شہر ہیں جو اس درخت کے سائے میں جنم لے رہے ہیں اور ان شہروں سے اذانوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
اسی سائے میں سر سبز میدان بھی ہیں، ہرے بھرے جنگلات، چشمے، ندیاں بلکہ دریا اور سمندر بھی، جن میں بڑے بحری جہاز اور کشتیاں چل رہی ہیں، پھر تیز ہوا چلنے لگی، درخت لہلہانے لگا۔ اس کا ہر پتہ ایک سمت اشارہ کرنے لگا، جہاں ایک شہر تھا۔ دنیا کا خوبصورت ترین شہر، ایسا شہر جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ وہ ہاتھ بڑھاتا ہے، اس انگوٹھی کو ہاتھ میں لیتا ہے اور پہن ہی رہا ہوتا ہے کہ آنکھ کھل جاتی ہے۔
جی ہاں! یہ ایک خواب تھا، جو دیکھا تھا سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے حکمران عثمان اوّل نے اور اس خواب کی تعبیر دیکھی دنیا نے۔
عثمان کی اولادوں نے 623 سال تک تین بر اعظموں پر راج کیا۔ جب بھی ان کی حکومت کا نام آتا ہے، کچھ نام فوراً ذہن میں آتے ہیں، مثلاً خود عثمان کا یا پھر استانبول فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کا، بلکہ اب تو لوگوں کو عثمان کے والد ارطغرل بھی یاد آ جاتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جو اس خاندان کا عظیم ترین حکمران تھا، جسے دشمنوں نے بھی ’’عالیشان‘‘ کا خطاب دیا، کم از کم ہمارے ہاں لوگوں کا خیال اس کی طرف نہیں جاتا، وہ تھا: سلیمان اوّل، جسے یورپ میں کہا جاتا ہے Suleiman the Magnificent یعنی سلیمانِ عالیشان، اپنے زمانے کا سب سے بڑا سلطان۔ یہی نہیں، اس کی ملکہ بھی سب سے طاقتور، سپہ سالار بھی اور تو اور اس کا معمار بھی، جو ایسی عمارتیں بنا گیا جو آج ساڑھے چار سو سال بعد بھی پوری شان و شوکت سے کھڑی ہیں۔
سلیمان کو ترک ’’سلیمان قانونی‘‘ کہتے ہیں، لیکن اپنی محبت کے لیے اس نے اپنے زمانے کے ہر اصول اور ہر قانون کو توڑا۔ اپنی کنیز سے محبت کی، اسے ملکہ بنایا اور پھر جو اس نے کہا، کر دکھایا۔
سلیمان اعظم نے جس جنگ میں شرکت کی، جیتی، لیکن کون سی جنگ تھی، جسے وہ چاہ کر بھی جیت نہیں پایا؟ بادشاہ بننے کے بعد پہلے سال ہی ایک بڑی جنگ لڑی اور 72 سال کی عمر میں آخری سانسیں بھی میدانِ جنگ ہی میں لیں۔ تو آئیے، جانتے ہیں سلیمان کی عالیشان کہانی!
ترکانِ عثمانی
ترک ایسی قوم ہے، جس کا دنیا کی تاریخ پر بہت گہرا اثر ہے۔ یہ مشرق میں دیوارِ چین سے لے کر مغرب میں آسٹریا تک اور شمال میں یوکرین سے جنوب میں یمن تک، مختلف زمانوں میں ان علاقوں پر راج کرتی آئی ہے۔ وہ علامہ اقبال کا شعر ہے نا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
تو دریائے نیل کے کناروں سے کاشغر کے دامن تک، یہ جتنا بھی علاقہ ہے، زیادہ تر کبھی نہ کبھی ترکوں کے پاس رہا ہے۔ اِن ترکوں کا ایک قبیلہ تھا، جس نے بعد میں تاریخ میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہاں تک کہ سن 1453 میں قسطنطنیہ بھی فتح کر لیا، یعنی موجودہ استانبول۔ فتحِ استانبول اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ماڈرن ہسٹری یعنی جدید تاریخ کا نقطۂ آغاز اسی سال کو سمجھا جاتا ہے، یعنی سن 1453 کو۔ یہ کارنامہ تھا عثمانیوں کا اور اسی عظیم خاندان میں 1520 میں ایک نیا حکمران بنا، 26 سال کا سلیمان۔ اس نے سب سے لمبے عرصے تک، پورے 46 سال تک حکومت کی۔ سلطنت کے بنیادی قوانین بنائے، یہی وجہ ہے ترکی میں اسے ’’سلیمان قانونی‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن مغرب اسے جانتا ہے ایک ہی نام سے: Suleiman the Magnificent یعنی سلیمان عالیشان، میرا سلطان!
ابتدائی زندگی
سلیمان نومبر 1494 میں ترکی کے ساحلی شہر طرابزون میں پیدا ہوا۔ سات سال کی عمر سے استانبول میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی، براہِ راست اپنے والد سے۔ پھر قرآن، ادب، تاریخ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ فوجی تربیت بھی حاصل کی۔ عثمانی خاندان کی ایک خاص بات تھی، وہ یہ کہ ہر سلطان کو ایک ہنر بھی سیکھنا پڑتا تھا، تو سلیمان نے سُنار کا کام سیکھا۔
سلیمان بادشاہ بننے سے پہلے کئی صوبوں میں کامیاب حاکم بھی رہا تھا۔ صرف 17 سال کی عمر میں سلیمان کو کریمیا کے ایک شہر کافا کا گورنر بنایا گیا تھا۔ پھر وہ بلقان کے شہر مانیسا کا حاکم بھی بنا۔ اس زمانے میں سلیمان کے والد سلیم اوّل ایک نئی حکمتِ عملی بنا رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر عثمانیوں نے مغرب میں فتوحات کرنی ہیں، تو انہیں پہلے مشرق میں امن قائم کرنا ہوگا۔ اس لیے سلیم نے ایران اور مصر کے خلاف جنگوں کا آغاز کیا۔ حکومت تو صرف آٹھ سال کی، لیکن اس میں بھی کئی شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلافت کو عثمانی خاندان میں لے آئے۔
جب سلیم دارالحکومت سے دُور میدانِ جنگ میں ہوتے، تو یہ سلیمان ہی تھا، جو استانبول میں اُن کا نائب ہوتا۔ اس لیے جب 30 ستمبر 1520 کو سلیمان تخت پر بیٹھا، تو پہلے سے ہی ایک کامیاب حاکم کی شہرت رکھتا تھا اور پھر عثمانیوں کے عروج کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔
سلیمان کی فتوحات
یہ وہ زمانہ تھا، جب کسی بادشاہ کی عظمت کا معیار صرف ایک ہی ہوتا تھا: اس کی جنگی کامیابیاں۔ سلیمان کو تو ورثے میں ہی بہت بڑی سلطنت مل گئی تھی۔ اس میں موجودہ ترکی بھی تھا اور اسلام کے تمام مقدس ترین مقامات بھی: مکہ، مدینہ اور بیت المقدس۔ پھر مصر بھی عثمانیوں کے پاس تھا اور یورپ میں یونان کے علاوہ رومانیہ، بلغاریہ، کروشیا، بوسنیا بھی۔ ایسا لگتا تھا عثمانی حکومت اب اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائے گی، لیکن سلیمان کے دور میں یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔
پہلے ہی سال یعنی 1521 میں اس نے بلغراد فتح کیا، وہ شہر جو آج سربیا کا دارالحکومت ہے۔ پھر کئی بڑے شہر اور ملک ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ سلیمان کے دور میں زمین پر حکومت کے علاوہ سمندروں میں بھی عثمانیوں کا راج قائم ہوا، بحیرۂ روم سے ریڈ سی بلکہ پرشیئن گلف اور عریبیئن سی میں بھی عثمانی بیڑوں کا اقتدار تھا۔ چاروں پہاڑ قفقاز، اطلس، طوروس اور بلقان بھی عثمانیوں کے پاس آئے اور چار دریا دجلہ، فرات، ڈینیوب اور نیل بھی۔ عثمان کا خواب اپنی تعبیر پا چکا اور یہیں سے شروع ہوا سلیمان کا خواب۔
سلطان سلیمان کا خواب
سلطان سلیمان، اس خدا کی قربت رکھنے والا جو عظمت اور قدرت کا مالک ہے، حقیقی بادشاہی بھی اس کی ہے اور دنیا کی حاکمیت بھی اُسی کی۔ سلطان سلیمان اس کا بندہ ہے، اس کی دی ہوئی قدرت سے بادشاہ بننے والا، زمین پر اس کا خلیفہ، جو اللہ کی بھیجی گئی مقدس کتاب پر عمل کرتا ہے اور اپنے تمام علاقوں میں اللہ کے احکامات کی تعمیل بھی کرواتا ہے۔ وہ اللہ کی مدد اور اپنی فوج کی دلیری کے ذریعے مشرق اور مغرب کی سرزمینوں کا فاتح، ظلِ الٰہی ہے، عرب اور فارس کے سلطانوں کا سلطان، عثمانی خاقانوں کا دسواں خاقان، ایک سلطان کا بیٹا سلطان۔ سلطان سلیمان خان۔ اُن کی سلطنت تاقیامت قائم رہے!
یہ ہے سلطان سلیمان عالیشان کا تعارف۔ جو اُن کے نام پر بنائی گئی سلیمانیہ مسجد میں لکھا ہے۔ ویسے وہ زمانہ تھا ہی عظیم بادشاہوں کا۔ ایک طرف سلیمان جیسا بادشاہ تھا تو دوسری طرف ایران میں صفویوں اور ہندوستان پر مغلوں کا راج شروع ہو چکا تھا۔ پھر مغرب میں یورپ بھی جاگ رہا تھا۔ ہولی رومن ایمپائر پر چارلس پنجم کا راج تھا۔ فرانس میں فرانسس اوّل اور انگلینڈ پر ہنری ہشتم کا۔ پھر یورپ مسلمانوں کے خلاف بڑی کامیابیاں بھی حاصل کر رہا تھا۔ اسپین سے مسلمان نکالے جا چکے تھے۔ فرانس میں خانہ جنگیاں ختم ہو چکی تھیں۔ آسٹریا کی جنگی طاقت بڑھ رہی تھی۔ جدید آتشیں اسلحے کا استعمال بھی شروع ہو چکا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپ متحد ہو رہا تھا، اس میں ایک نیا اعتماد آ رہا تھا، حد سے زیادہ اعتماد۔
جب سلیمان تخت پر بیٹھا اور اس کا نمائندہ سالانہ خراج لینے ہنگری پہنچا تو اسے قتل کر دیا گیا۔ اس حرکت کا مطلب صرف ایک ہی تھا: جنگ۔ اب سلطان کو ہر قیمت پر ہنگری میں داخل ہونا تھا، اور اس کا دروازہ بلغراد تھا۔ یہ شہر فتح کرنے میں دو عظیم عثمانی سلطان ناکام ہو چکے تھے۔ آخری بار تو محمد فاتح جیسا حکمران بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ چالیس سال ہو چکے تھے سلطنت عثمانیہ اور یورپ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے یورپ نے عثمانیوں کا غلط اندازہ لگایا۔ اب جواب دینا بہت ضروری تھا۔
فتحِ بلغراد
دریائے ڈینیوب کے کنارے آباد بلغراد ہنگری کا دروازہ تھا۔ یہ بات سلیمان بھی جانتا تھا اور یورپ بھی۔ سلیمان کا لشکر بلغراد پہنچا، شہر کا محاصرہ کیا اور صرف سات دن میں ہی اسے فتح کر لیا۔ اس زبردست کامیابی کی وجہ تھی عثمانیوں کی ٹیکنالوجی میں برتری۔ ان کی توپوں کی سامنے دنیا کا کوئی شہر نہیں ٹھیر سکتا تھا۔
30 اگست 1521، جمعے کا دن تھا، جب سلطان شہر میں داخل ہوا اور نمازِ جمعہ کی امامت کی۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی اب عثمانیوں کے قدم یورپ کے مرکز کی طرف بڑھنے لگے۔ یہ قدم بڑھانے سے پہلے سلطان کو ایک بڑے خطرے سے نمٹنا تھا، یہ تھا بلغراد سے ہزاروں کلومیٹرز دُور روڈس کا جزیرہ۔ اس پر فلسطین سے نکالے گئے Knights Hospitallers کا قبضہ تھا۔
ترکی، شام اور مصر یہ سب سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے، ان کے بیچوں بیچ نائٹس کا موجود ہونا بہت خطرناک۔ اس لیے سلیمان نے فیصلہ کر لیا: اب اگلا نشانہ ہوگا: روڈس۔
فتحِ روڈس
روڈس ہے تو بالکل ترکی کے ساحل کے قریب لیکن آج یونان کا حصہ ہے۔ سلیمان کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا، یہ جزیرہ ترکوں کے پاس نہیں تھا بلکہ اُن صلیبیوں کے پاس تھا جنہیں صلاح الدین ایوبی اور ان کے بعد کے ادوار میں فلسطین سے نکالا گیا تھا۔
اب نائٹس آف جون روڈس میں جم کر بیٹھے ہوئے تھے۔ بحیرۂ روم میں مسلمانوں کے بحری جہاز لوٹتے، بلکہ حاجیوں کے قافلوں پر بھی حملے کرتے اور ایسا نہیں کہ اس جزیرے کو فتح کرنے کی کوششیں نہیں ہوئیں۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا، لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔ لیکن سلیمان تو پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ ناممکن کو ممکن بنائے۔ اس نے بحری جہازوں کا ایک زبردست بیڑا بھیجا اور پھر ایک بہت بڑی فوج لے کر خود بھی روڈس پہنچ گیا۔
جون 1522 میں جزیرے کے مرکزی شہر کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ محاصرہ پانچ مہینے تک چلتا رہا، یہاں تک کہ دسمبر 1522 میں شہر نے ہتھیار ڈال دیے گئے۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم میں عثمانیوں کا راج شروع ہو گیا اور یہ راج اپنے عروج پر پہنچایا ایک ایڈمرل نے، جنہیں دنیا آج بھی یاد کرتی ہے بلکہ آج بھی ترکی بحریہ کا کوئی جہاز استانبول سے گزرتا ہے تو اس ایڈمرل کی قبر کو سلامی دیتا ہوا جاتا ہے۔
سلیمان کے اس بہادر ایڈمرل کا ذکر بعد میں کریں گے، اس سے پہلے چلتے ہیں سلطان سلیمان عالیشان کی ایک بہت بڑی کامیابی کی طرف۔
معرکۂ موہاچ
سلطان سلیمان نے بلغراد تو فتح کر لیا تھا لیکن اصل کام ابھی باقی تھا۔ مغرب میں عثمانیوں کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی ہنگری کی طاقتور ریاست۔ اس کے خلاف اپریل 1526 میں ایک عظیم لشکر جمع کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں ایک لاکھ فوجی تھے اور ساتھ ہی 300 توپیں بھی۔
یہ وہی دن تھے جب ہندوستان میں بابر کی فوج نے پانی پت میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ مغل سلطنت کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کی تاریخ بدل دی۔
بالکل انہی ایام میں عثمانی فوج ہنگری میں داخل ہوتی ہے اور مشرقی یورپ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ دریائے ڈینیوب کے کنارے موہاچ کے میدان میں لڑائی کا آغاز ہوتا ہے بلکہ لڑائی کیا تھی؟ بس ایک ٹکراؤ تھا، دو گھنٹے میں ہنگری کی فوج کا خاتمہ ہو گیا۔ ہنگری کا بادشاہ لوئی دوم صرف 20 سال کی عمر میں اپنی جان سے گیا اور ہنگری پھر کبھی اپنی پرانی عظمت حاصل نہیں کر پایا۔
خانہ جنگیوں نے کئی مسائل پیدا کیے اور سلطان کو ایک مرتبہ پھر 1529 میں ہنگری آنا پڑا لیکن فیصلہ کر لیا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیں گے۔ یہ فیصلہ تھا آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پر حملے کا۔ سلطان سلیمان نے کئی جنگیں لڑیں، بہت ساری جیتیں، لیکن یہ وہ جنگ تھی، یہ وہ شہر تھا جسے فتح کرنے کا ارمان عمر بھر اس کے دل میں رہا۔ اور سلیمان کیا؟ بعد میں آنے والے حکمران بھی سر توڑ کوشش کے باوجود کبھی ویانا کو فتح نہیں کر سکے۔ اس جنگ میں ہوا کیا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
محاصرۂ ویانا
موہاچ کی جنگ میں ہنگری کا بادشاہ لوئی دوم مارا گیا تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے سلطان سلیمان نے ایک مقامی نواب جان زاپولیا کو ہنگری کا نیا بادشاہ بنایا لیکن ہولی رومن ایمپائر کے فرڈیننڈ اول کی نظریں پہلے سے ہنگری پر تھیں۔ اس نے زاپولیا کو ہرا دیا اور ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کو ختم کروانے کے لیے سلطان سلیمان 1529 میں ایک بار پھر ہنگری آیا۔ صرف چھ دن کے محاصرے میں دارالحکومت بوڈا پر قبضہ کیا، زاپولیا کو پھر حکمران بنایا اور فیصلہ کر لیا کہ فرڈینینڈ کو سبق سکھا کر رہیں گے۔
اب سلطان کے قدم تھے ویانا کی طرف، یورپ کے بالکل بیچ میں موجود شہر کی طرف لیکن یہ وقت بالکل مناسب نہیں تھا، محاصرہ ستمبر 1529 کے بالکل آخری دنوں میں شروع ہوا اور جلد ہی سردیوں کا آغاز ہو گیا۔ مشکلات بڑھتی چلی گئیں، یہاں تک کہ دو ہفتے چار دن بعد محاصرہ اٹھا لیا گیا، ویانا فتح نہیں ہو سکا۔ اور جو شہر سلطان سلیمان عالیشان کے ہاتھ نہ لگے، وہ کسی کو بھی نہیں مل سکتا۔
سلطنتِ عثمانیہ نے ویانا پر قبضے کی بڑی کوششیں کیں لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عثمانی طوفان کی موجیں ویانا کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ گئیں۔
سلیمان عالیشان ایران میں
مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ تبھی کامیاب ہوئی، جب مشرق کی طرف سکون ملا۔ یہاں عثمانیوں کا سب سے بڑا دشمن تھا ایران۔
1534 میں سلطان سلیمان نے بھی ایران کے خلاف ایک جنگی مہم شروع کی۔ تب شاہ اسماعیل کی وفات ہو چکی تھی اور اس کا بیٹا طہماسپ حکمران تھا۔ تو پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی صفوی ایران عثمانیوں کا مقابلہ نہیں کر پایا بلکہ عثمانیوں نے دارالحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا۔ بغداد بھی خالی چھوڑ کر بھاگ گئے، سلیمان کی فوجیں فاتحانہ انداز میں شہر میں داخل ہوئیں یوں عثمانیوں کی حکومت دریائے دجلہ تک پہنچ گئی تھی۔
عثمان کا خواب اپنی تکمیل کو پہنچا۔ دجلہ، فرات، نیل اور ڈینیوب سب عثمانیوں کے پاس تھے اور یہی نہیں اب تو بحیرۂ روم پر بھی سلیمان کا راج تھا جسے قائم کرنے میں بڑا کردار تھا ایڈمرل خیر الدین پاشا باربروسا کا۔
عظیم بادشاہ، عظیم ایڈمرل
سلیمان عالیشان کے دور کا ذکر ہو اور خیر الدین باربروسا کی بات نہ ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ عثمانی فوج کا ایک غیر معمولی جرنیل تھا جس کا سمندروں پر راج تھا۔
خیر الدین اور اس کے بھائیوں نے سقوطِ غرناطہ کے بعد اسپین سے نکلنے والے مسلمانوں کی بہت مدد کی۔ اسپین سے کئی ٹاکرے بھی ہوئے، یہاں تک کہ الجزائر میں حکومت بنا لی۔ بعد میں اِن بھائیوں میں سے ایک خیر الدین باربروسا سلطنتِ عثمانیہ کا کپتانِ دریا بنا یعنی بحری فوج کا سربراہ۔
خیر الدین نے عثمانیوں کو بڑی کامیابیاں دلائیں اور بحیرۂ روم میں اس کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس نے 1538 میں یورپ کی مشترکہ فوج کو پریویزا کے مقام پر بہت بڑی شکست دی اور عثمانی بحریہ کو دنیا کی طاقتور ترین نیوی بنا دیا۔
ایک طرف زمین پر سلطان سلیمان کی فتوحات چل رہی تھیں، تو دوسری طرف سمندروں پر خیر الدین کا راج تھا۔ عثمانی سلطنت کو عظمت کی نئی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ جب عروج اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، تو وہی زوال کا نقطہ آغاز بھی ہوتا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال بھی اندر ہی اندر شروع ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ تھی، ایک عورت۔ سلطان سلیمان کی پسندیدہ بیوی: خرم سلطان۔
عظیم بادشاہ، عظیم ملکہ
خرم اصل میں عثمانی حرم کی ایک کنیز تھی، جو بعد میں اتنی طاقتور بنی کہ اس کے ایک اشارے پر ملک کے فیصلے ہونے لگے۔ اسی لیے تو کسی نے کہا تھا: یہ صرف سلیمان کا نہیں، بلکہ سلیمان اور خرم کا دور تھا۔ اس زمانے میں ایک کنیز اور ایک بیٹے کی پالیسی تھی، یعنی اگر کسی کنیز سے سلطان کا بیٹا پیدا ہوا تو وہ تمام تر وقت اسی ایک بیٹے کو دے گی۔ لیکن خرم سے سلطان کا ایک نہیں پانچ بیٹے پیدا ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ سلطان خرم سے کتنی محبت کرتا تھا۔
بالآخر 1536 میں سلیمان نے خرم سے شادی کر لی۔ جب سلیمان کی انگلی کا ایک اشارہ دنیا کے کئی ملکوں کی قسمت کا فیصلہ کرتا تھا، تب خرم دنیا کے طاقتور ترین بادشاہ پر اثر رکھتی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ خرم ہی تھیں، جن کی وجہ سے سلطان نے اپنے ولی عہد مصطفیٰ اور وزیر اعظم ابراہیم پاشا کو سزائے موت دی۔ سلطان نے ایسا کیوں کیا؟ تاریخ دان لکھتے ہیں کیونکہ خرم چاہتی تھی کہ نیا بادشاہ اس کی اولاد سے بنے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کہانی مغل بادشاہ جہانگیر اور ان کی ملکہ نور جہاں کی داستان جیسی ہے۔ بالکل ویسا ہی اثر و رسوخ اور سلطان پر ویسی ہی گرپ۔ ایسا نہیں کہ سلطان سلیمان عالیشان کوئی کمزور شخصیت تھی۔ بالکل نہیں، لیکن جہاں وہ ایک جنگجو تھا، وہیں محبت کرنے والا دل بھی رکھتا تھا۔ شاعری بھی کرتا تھا اور خرم سلطان کے لیے یہ اشعار بھی لکھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے وہ اس سے کتنی محبت کرتا تھا۔
اے میری سلطنت، اے میری حکمراں، اے میری چاندنی
میری دوست، میری محبت، مرا اعتماد، میری ہستی
میری بہار، میرا پھول، میری مسکراتی پنکھڑی
میرا قسطنطنیہ، میرا اناطولیہ، میری دھرتی
میرا بدخشاں، میرا بغداد، تم میرا خراسان
میری خوبصورت بالوں والی محبوبہ
حسینوں میں سب سے حسین
میری نگاہوں کا مرکز
میں کہ دلِ مضطرب اور چشمِ نم کا محبی
میں ہمیشہ تیری تعریف کے گیت گاتا رہوں گا
خرم سے سلطان سلیمان کی محبت اپنی جگہ، لیکن اس محبت کی قیمت بہت بھاری تھی، جو بعد میں سلطنت نے چکائی۔ ایک تو حرم کا اثر بہت بڑھ گیا۔ اتنا زیادہ کہ سلطنت کے فیصلے حرم کرتا۔ یوں کمزور سے کمزور سلطان آنے کی بنیاد پڑ گئی جو بالآخر سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا باعث بنی۔
عظیم سلطان، عظیم معمار
ویسے ایک اور فرد کا ذکر کیے بغیر سلطان سلیمان عالیشان کا ذکر ادھورا رہے گا۔ وہ ہیں معمار سنان پاشا، ایک عظیم ماہرِ تعمیرات۔ وہ بنیادی طور پر ایک فوجی تھے، روڈس اور بلغراد کی جنگوں میں شامل تھے اور موہاچ کے معرکے میں بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پچاس سال کی عمر میں انہیں سرکاری معمار بنایا گیا۔ اس کی وجہ تھی فوجی کیریئر میں ان کا تجربہ: وہ پُل بنانے میں بہت ماہر تھے۔
آرکیٹیکٹ کی حیثیت سے سلیمان سب سے پہلے جو کام کیا وہ تھی: شہزادہ مسجد۔ یہ سلیمان نے اپنے شہزادے محمد کی یاد میں بنائی تھی۔ یہ مسجد سلیمان کو بہت اچھی لگی، اتنی اچھی کہ انہوں نے سنان کو ایک اور مسجد بنانے کا حکم دے دیا۔ اپنے ہی نام پر بنائی گئی مسجد: سلیمانیہ مسجد۔ یہ ایک شاندار عبادت گاہ ہے، ساڑھے چار سو سال تک استانبول کی سب سے بڑی مسجد رہی۔ تقریباً 48 میٹر اونچا گنبد اور ساتھ ہی 76 میٹر بلند مینار۔ اپنے زمانے میں تو یہ ایک شاہکار تھی، لیکن سنان نے صرف یہی مسجد نہیں بنائی، اللہ نے انہیں بہت لمبی عمر عطا کی، تقریباً سو سال۔ اس میں انہوں نے ایدرنہ (Edirne) شہر کی سلیمیہ مسجد بھی بنائی، جو سلیمانیہ مسجد سے بھی بڑا شاہکار ہے۔ سنان خود کہتے تھے کہ شہزادہ مسجد میں نے تب میں جب میں شاگرد تھا، سلیمانیہ تب بنائی جب میں ہنر مند تھا اور سلیمیہ مسجد تب جب میں استاد تھا۔
بہرحال، سنان کی بنائی گئی سلیمانیہ مسجد کے دامن میں ہی سلطان سلیمان عالیشان کی قبر ہے۔ زندگی بھر جنگ کے میدانوں میں گزارنے والا، 13 بڑی جنگیں لڑنے والا سلطان مرا تو بھی میدان جنگ میں ہی تھا۔
سلطان سلیمان عالیشان کا آخری سفر
ویانا کی ناکامی سلطان کے ذہن پر سوار ہو چکی تھی۔ وہ ایک بار پھر ویانا پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کے لیے میدان ہموار کرنا ضروری تھا۔ آخری بار ویانا کی مہم میں جس نے بڑا مسئلہ کھڑا کیا تھا، وہ تھا سیگتوار (Szigetvár) کا قلعہ۔ اس پر چڑھائی کرنے کے لیے سلیمان مئی 1566 میں لشکر کے ساتھ نکلے۔ شاید سلطان کو اندازہ نہ ہو لیکن یہ اُن کا آخری سفر تھا، وہ اپنے محبوب شہر استانبول کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائے۔ لیکن 72 سال کی عمر اور بیماری کے باوجود سلطان سلیمان نے اس جنگ پر جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ لشکر اگست میں سیگتوار کے قلعے تک پہنچا اور محاصرہ شروع کر دیا، جو تقریباً ایک مہینے جاری رہا۔ عثمانیوں نے بہت نقصان اٹھایا، قلعے میں موجود ہزار فوجیوں نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔ اتنی بہادری سے کہ آج تک قلعے کے حاکم نکولا زرنسکی (Nikola Zrinski) کی بہادری کے نغمے گائے جاتے ہیں۔ عثمانیوں نے قلعہ فتح تو کر لیا، لیکن بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانے کے بعد، بلکہ سب سے بڑا نقصان اٹھانے کا بعد۔ جب قلعے پر آخری حملہ چل تھا، توپوں کی گھن گرج جاری تھی، عین اس وقت سلطان سلیمان اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔
یہ پانچ اور چھ ستمبر 1566 کی درمیانی رات تھی، جب میدانِ جنگ سے کچھ دُور شاہی خیمے میں سلطان کا انتقال ہو گیا۔ وزیر اعظم محمد پاشا نے یہ خبر چھپا کر رکھی، جب تک ولی عہد سلیم نے اقتدار نہیں سنبھال لیا۔
ویسے یہ بھی عجیب جنگ تھی، دونوں سپہ سالاروں سلیمان عالیشان اور نکولا زرنسکی کی موت ہوئی۔ ایک اپنے خیمے میں طبعی موت مرا تو دوسرے نے میدان میں لڑتے ہوئے جان دی۔ ایک کو سخت بیماری اور زیادہ عمر ہونے کے باوجود میدان میں موجود ہونے پر یاد کیا جاتا ہے۔ تو دوسرے کو اپنا ایک، ایک سپاہی وطن کے لیے قربان کرنے پر داد دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس جگہ پر ایک یادگار موجود ہے، جسے Hungarian-Turkish Friendship Park کہا جاتا ہے۔ یہاں سلیمان اور نکولا دونوں کی علامتی قبریں بنائی گئی ہیں۔
بہرحال، سلطان تو 72 سال کی عمر میں چلے گئے، لیکن ان کی چھوڑی گئی سلطنت صدیوں تک قائم رہی۔ یہ تھی اپنے زمانے کی سب سے بڑی سلطنت، رقبے کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی۔ سلطنت کے پاس عباسیوں کا دارالحکومت بغداد بھی تھا تو منگولوں کا مرکز تبریز بھی۔ عظیم شہر دمشق اور قاہرہ بھی تو نائٹس کا جزیرہ روڈس بھی اور سب سے بڑھ کر دارالحکومت تھا استانبول جیسا عظیم شہر تھا۔ اس کی آبادی اس زمانے میں بھی سات لاکھ تھی۔ وہ یورپ ہی ہی نہیں دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اسی شہر کے دامن میں آج سلطان سلیمان عالیشان بھی دفن ہیں۔ شہر کی سب سے اونچی پہاڑی پر قائم سلیمانیہ مسجد کے پہلو میں۔
سلیمان کی میراث
بادشاہت میں ایک بہت بڑی خرابی ہوتی ہے۔ سارے اختیارات صرف اور صرف ایک آدمی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ ان اختیارات کا غلط استعمال ہوگا اور سلیمان سے بھی یہی ہوا۔ ہو سکتا ہے اس کی غلطی بھی نہ ہو۔ بادشاہت کا نظام ہی ایسا ہے، اس کے تقاضے ہی کچھ ایسے ہیں، اس کی بنیاد ہی اتنی کمزور ہوتی ہے کہ بادشاہ کو ہر طرف خطرہ محسوس ہوتا ہے اور جب نظام کو خطرہ لاحق ہو تو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھ سکتا ہے۔ سلیمان شاہ نے بھی اٹھایا۔ غداری اور بغاوت کے الزام میں اپنے دو بیٹوں مصطفیٰ اور بایزید اور ایک قابل وزیر اعظم ابراہیم پاشا کو قتل کروا دیا۔
یہ نظام تو ایسا ہی ہے، جس پر شبہ ہو، اسے اٹھا لو، دبا لو، مار دو۔ اور یہی خرابیاں ہمیں سلیمان کے دور میں بھی نظر آتی ہیں۔ اس لیے اگر سلیمان کا کمپیریزن کسی سے کرنا چاہیے تو صرف اور صرف بادشاہوں سے ہونا چاہیے۔ تبھی ہمیں سلیمان کا قد بہت اونچا نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساڑھے چار سو سال بعد بھی ہم سلیمان عالیشان کو یاد کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بادشاہ کی حیثیت سے!