وہ اپنے فوجی دستے محاذِ جنگ پر بھیجتا تو ہمیشہ ایک ہی جملہ کہتا،

میں تمہیں دشمن پر حملہ کرنے کا نہیں، بلکہ اپنی آزادی پر قربان ہونے کا حکم دیتا ہوں۔

وہ بلا کا ذہین تھا، شاطر، نڈر، چالاک اور ایک پھرتیلا فوجی کمانڈر۔ اس کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک تباہ حال ملک کا جرنیل تھا، لیکن جس محاذ پر لڑا، شکست نہیں کھائی۔ ہمیشہ کامیابی اور فتح نے اُس کے قدم چومے۔

ایسی قابض طاقتوں کو بھی ملک سے نکال باہر کیا، جو اپنے وقت کی سپر پاور کہلاتی تھیں۔ پھر جب سیاست میں قدم رکھا تو صدیوں پرانی تہذیب اور سماج کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اور تو اور، اس نے غیر ملکی طاقتوں کی غلامی قبول کرنے والے شاہی خاندان اور اُن کی اولادوں کو جلا وطن کر دیا۔ صرف یہ کہہ کر کہ میری دھرتی پر شکست خوردہ اور غلام ذہنوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

یہ ایسی زندگی کی کہانی ہے جس میں جنگی، سیاسی اور انقلابی معجزے ہیں۔ یہ ایک داستانِ حیرت ہے جو صرف سات سال کی عمر میں یتیمی کے دکھ سے شروع ہوتی ہے۔ اور ختم ہوتی ہے ملک کے سب سے طاقتور عہدے پر، وہ بھی موت کے ہاتھوں۔

اتنی خوبیاں اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود کروڑوں انسانوں کا یہ ’’ہیرو‘‘، کروڑوں کے لیے ولن بھی ہے۔ مخالفین تو اُسے ’’زیرو‘‘ سے کہیں نچلے درجے پر رکھتے تھے اور آج تک رکھتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں کہ اُس نے اپنا تاریخی ورثہ، قابلِ فخر روایات، شان دار ثقافت، مذہبی اور معاشرتی اقدار، سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ کچھ تو اور آگے بڑھتے ہیں، اُسے ’’غدارِ وطن‘‘ کہتے ہیں، جس نے مغرب کو خوش کرنے کے لیے اُن کی زبان، کلچر اور مذہب، سب بیچ ڈالا۔ لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ بہادر تھا، نڈر، جری اور جو سوچ لے، کر گزرنے والا۔

جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں سلطنتِ عثمانیہ کے جرنیل اور جدید ترکی کے بانی غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی، جنہیں ’’اتاترک‘‘ یعنی ترکوں کا باپ کہا جاتا ہے۔

مصطفی کمال پاشا اتاترک کون؟

یہ کہانی شروع ہوتی ہے 19 مئی 1881 سے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا ایک چھوٹا سا شہر تھا سالونیکا۔ وہی سالونیکا جو آج یونان کا حصہ ہے، ایک زمانہ تھا مسلمانوں کے پاس تھا۔ یہاں ایک مڈل کلاس گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن کسی بچے کی پیدائش پر گھر میں جو خوشی ہونی چاہیے، اِس گھر میں ویسی خوشیاں نہیں۔ بلکہ خوشیوں کے بیچ غم کی ایک دیوار سی کھڑی ہے۔ بچے کی ماں زبیدہ خانم اپنے ہاتھ بلند کر کے دعا کر رہی ہیں کہ ’’اے خدا! میری گود ہری رکھنا، میں اب کسی اور بچے کی موت کا دکھ نہیں جھیل سکتی۔‘‘

اصل میں زبیدہ خانم کے تین بچے چھوٹی عمر ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ اسی لیے ایک اور ننھے بچے کو گود میں دیکھ کر وہ انجانے خوف کا شکار تھیں۔ باپ کا نام علی رضا تھا، جس کا کوئی خاص کام نہیں تھا۔ کچھ عرصہ فوج میں گزارا، اب لکڑی کا کاروبار کر رہا تھا۔ گھرانے کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تھی، بس جیسے تیسے گزارا ہو رہا تھا۔

بہرحال، بچے کا نام رکھا جاتا ہے مصطفیٰ! جو بڑا ہوتا گیا، اور اس کے نام کے ساتھ القابات اور خطابات بھی لگتے چلے گئے۔ اس کے ہر خطاب کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے، جو ہم آج آپ کو سنائیں گے۔

مصطفیٰ کی ماں بڑی مذہبی خاتون تھیں۔ وہ تو بچے کو اسلامی مدرسے میں داخل کروانا چاہتی تھیں مگر باپ علی رضا ذرا لبرل تھا۔ وہ چاہتا تھا مصطفیٰ کو کسی ماڈرن اسکول میں پڑھائے لیکن اسے موقع ہی نہیں ملا، ابھی مصطفیٰ سات سال ہی کا تھا کہ اُس کا انتقال ہو گیا۔ یہ اِس خاندان کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ زبیدہ خانم کے حالات ایسے نہیں تھے کہ مصطفیٰ کو کسی اچھے اسکول میں داخل کرواتیں۔ جب ایسے حالات ہوں تو بہنوں کو سب سے پہلے اپنے بھائی یاد آتے ہیں۔ تو زبیدہ خانم نے بھی مصطفیٰ کو اپنے بھائی کے پاس بھیج دیا۔ جہاں ننھے مصطفیٰ کا داخلہ ایک پرائمری اسکول میں کر دیا گیا، مگر اس بچے کا دل تو اسکول میں لگا ہی نہیں۔ ماموں کھیتی باڑی کرتے تھے، یہ دیکھ کر بچے سے کہا کہ اگر نہیں پڑھنا تو کھیتوں میں رکھوالی کا کام کرو۔ مصطفیٰ راضی تو ہو جاتا ہے، مگر اسے یہ کام اپنے شایانِ شان نہیں لگتا۔

خیر، وہ صبح گھر سے نکلتا تو اکثر اسے ایک نوجوان نظر آتا، جو کیڈٹ اسکول جاتا تھا۔ مصطفیٰ آرمی یونیفارم میں سوٹڈ بوٹڈ لڑکے کو حسرت سے دیکھتا اور ایک ہی بات سوچتا۔ آخر میں اس لڑکے جیسا کیوں نہیں بن سکتا؟ تب ایک دن مصطفیٰ ایک عجیب فیصلہ کرتا ہے، وہ خود ہی کیڈٹ اسکول پہنچ جاتا ہے۔ اسکول کے ہیڈ کلرک کے سامنے کہتا ہے کہ مجھے اسکول میں داخلہ دیا جائے کیونکہ میں فوجی بننا چاہتا ہوں۔ یہ اپنے زمانے کا ایک مہنگا اسکول تھا، غریب بچوں کے لیے یہاں پڑھنا آسان نہیں تھا۔ کلرک نے بہت سمجھایا، مگر مصطفیٰ ضد پر اڑا رہا بلکہ ہنگامہ مچا دیا کہ میں تو فوجی بن کر رہوں گا۔ شور سن کر ٹیچرز باہر نکل آئے، بلکہ پرنسپل بھی پہنچ گئے۔ وہ بچے کی تیز، چمکتی نگاہوں اور جذبے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر مصطفیٰ کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ تم اسی اسکول میں پڑھو گے، تمھیں کل وردی مل جائے گی۔

بس یہ وہ لمحہ تھا، جس سے کھیتوں میں کام کرنے والے بچے کی زندگی بدل گئی اور پھر اس بچے نے آگے چل کر اپنے ملک کو بھی 180 ڈگری کے زاویے پر بدل دیا۔ بہرحال، زیادہ دن نہیں گزرے، مصطفیٰ کی ذہانت سب پر ظاہر ہو گئی۔ وہ کلاس کا سب سے نمایاں بچہ بن گیا۔ ریاضی میں تو کوئی اس کا مقابلہ کر نہیں پاتا تھا۔ مشکل سے مشکل سوال زبانی حل کر لیتا۔ تقریری مقابلوں میں بھی سب سے آگے نظر آتا۔ اس کی نصابی اور غیر نصابی دونوں سرگرمیوں کو دیکھ کر ٹیچر نے خوش ہو کر مصطفیٰ کو نام دیا ’’کمال‘‘ کا، مطلب پرفیکٹ! یوں یہ بچہ مصطفیٰ سے مصطفیٰ کمال بن گیا۔

فوجی مصطفیٰ کمال پاشا

مصطفیٰ کمال 1905 میں اسٹاف کیپٹن کی حیثیت سے ترک فوج کا باقاعدہ حصہ بنا۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنتِ عثمانیہ بد ترین زوال کا شکار تھی۔ مختلف علاقے ایک، ایک کر کے الگ ہو رہے تھے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی، یونان اور روس جیسی طاقتیں بھیڑیوں کی طرح سلطنت کو بھنبھوڑ رہی تھیں۔ حکومت ایک طرف توجہ دیتی تو دوسرا دشمن کسی اور محاذ پر جنگ چھیڑ دیتا۔ حالات ایسے تھے کہ یورپی ملک طنزاً اسے Sick man of Europe یعنی ’’یورپ کا مردِ بیمار‘‘ کہتے۔

ان حالات پر بہت سے لوگ کڑھ رہے تھے، اور اپنی سی کوششیں بھی کر رہے تھے۔ ان میں ایک خفیہ انقلابی تنظیم تھی ’’وطن و حریت‘‘، مصطفیٰ اس میں شامل ہوئے۔ اور پھر ’’جمعیت اتحاد و ترقی‘‘ جیسی خفیہ تحریک کا حصہ بھی بنے۔ یہی وہ تنظیم تھی جو دنیا میں مشہور ہوئی ینگ ٹرکس (Young Turks) کے نام سے۔

تو حالات یہی تھے، جب مصطفیٰ کمال کو شام کے شہر دمشق بھیجا گیا۔ یہ علاقہ بھی تب سلطنتِ عثمانیہ میں تھا۔ تو یہاں مصطفیٰ نے بڑی بہادری دکھائی، ایک محاذ پر جہاں ترک فوجیں مسلسل پیچھے ہٹ رہی تھیں، اپنی چھڑی سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور کہا جو فوجی اس لکیر سے پیچھے ہٹا، اسے میں گولی ماروں گا۔

آہستہ آہستہ اُن کی بہادری کے قصے دارالحکومت استانبول تک پہنچنے لگے۔ وہاں کی سیاسی اور فوجی قیادت کی نظریں اب اِس نوجوان پر پڑ رہی تھیں۔ لیکن خلیفۂ وقت کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ نوجوان اُن کی سلطنت کا ہی خاتمہ کر دے گا۔

آخر مصطفیٰ کمال نے خلیفہ سے بغاوت کیوں کی؟ ایسی کیا مجبوری تھی؟ یہ آگے چل کر بتائیں گے، پہلے ذرا مصطفیٰ کمال کے جنگی کمالات دیکھیں۔

کمال کے جنگی کمالات

یہ 1911 ہے، اٹلی نے سلطنت عثمانیہ کے صوبے طرابلس پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ موجودہ لیبیا کا علاقہ ہے تو مصطفیٰ کمال اور ان کی فوج نے اس محاذ پر اٹلی کو بڑا نقصان پہنچایا، وہ الگ بات کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ پورا علاقہ ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

ابھی تو فرسٹ ورلڈ وار بھی شروع نہیں ہوئی تھی، لیکن سلطنتِ عثمانیہ کو پہلے ہی ایک بہت بڑی مشکل کا سامنا ہوا۔ ‏1912 میں بلقان کے صوبوں میں بغاوتیں شروع ہوئیں۔ سب نے عثمانیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔ آخرکار سلطنت یورپ میں اپنے زیادہ تر علاقوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی۔ جو تھوڑے بہت علاقے بچے، اُن کو بچانے میں مصطفیٰ کمال نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس پر انہیں بہت داد بھی ملی، بلکہ خلیفہ نے انہیں ’’پاشا‘‘ کا سرکاری خطاب دیا۔ یہ خطاب اُسے دیا جاتا تھا، جس نے جنگ میں کارنامے دکھائے ہوں۔ یوں سات سال کی عمر میں یتیم ہو جانے والا مصطفیٰ اب ’’مصطفیٰ کمال پاشا‘‘ بن چکا تھا۔

مصطفیٰ آگے سے آگے جا رہے تھے اور ملک پیچھے بلکہ بہت پیچھے۔ یہاں تک کہ وہ جنگ شروع ہو گئی، جس نے سلطنتِ عثمانیہ ہی نہیں دنیا کی تاریخ بدل دی۔ 1914 میں فرسٹ ورلڈ وار شروع ہو گئی۔

پہلی جنگِ عظیم

اس جنگ کا مقصد جو بھی تھا، ٹارگٹ جو بھی تھے لیکن سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، عثمانی سلطنت نے۔ ‏sick man of europe اب dead man بننے والا تھا۔ جب سلطنت کو ہر طرف سے حملوں کا سامنا تھا، تب اپنوں نے بھی بے وفائی کر دی۔ تمام عرب علاقے سلطنتِ عثمانیہ ہی کے پاس تھے، لیکن جنگِ عظیم میں انہوں تب غداری کی، جب خلیفہ کو اُن کی اشد ضرورت تھی۔ برطانیہ اور اتحادی فوج نے شریفِ مکہ سید حسین بن علی کی مدد سے تمام عرب علاقے سلطنت عثمانیہ سے چھین لیے، بلکہ اب تو ترک علاقے بھی خطرے کی زد میں آ گئے۔

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰؐ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
(علّامہ اقبال)

عربوں کی اِس ایک حرکت سے مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ ترکوں اور عربوں کے درمیان وہ نفرت پیدا ہوئی، جو شاید آج بھی ختم نہیں ہوئی۔

جنگِ عظیم کی فتحِ عظیم

استانبول دنیا کا ایک عجیب شہر ہے۔ شاید دنیا میں ایک ہی شہر ہوگا جو دو بر اعظموں کے بیچ میں ہے، یعنی transcontinental سٹی۔ اس کی historical significance اپنی جگہ، لیکن strategic اہمیت بھی بہت بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے فرسٹ ورلڈ وار میں برطانیہ اور فرانس کا سب سے بڑا ٹارگٹ تھا، استانبول پر قبضہ کرنا۔اور 1915 میں انہوں نے استانبول کے قریب جزیرہ نما گیلی پولی میں فوج اتار دی۔ فوج کیا تھی، ایک لشکرِ جرار تھا، تقریباً پانچ لاکھ فوجیوں کا۔ برطانیہ، فرانس اور اُن کی کالونیز کی تازہ دم فوجیں ایک طرف، اور مقابلے پر تباہ حال ترک فوج۔

ہاں! دونوں میں ایک فرق تھا، ترکوں کی کمان تھی مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں میں۔ پھر اپریل 1915 سے جنوری 1916 تک، یہ علاقہ گولیوں، توپوں کی گھن گرج سے گونجتا رہا۔ یہاں تک کہ کمال کی کمال فوج نے دشمن کو کھدیڑ کر رکھ دیا۔ 9 جنوری 1916 کو اتحادی فوج کو یہاں سے بھاگنا پڑا۔ برٹش ایمپائر کے 48 ہزار سے زیادہ فوجی اس جنگ میں مارے گئے اور فرانس کے 27 ہزار۔ یہ اتنا بڑا نقصان تھا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور یہ سلطنت عثمانیہ کی اتنی بڑی کامیابی تھی کہ مصطفیٰ کمال کو ’’جنرل‘‘ کا عہدہ مل گیا۔

باہر کی جنگ، اندر کی جنگ

ہر محاذ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والا مصطفیٰ، خود اپنے اندر بھی ایک جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ اندر کی جنگ تھی عثمانی سلطانوں کے خلاف، جن کے کردار سے مصطفیٰ بہت پریشان تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ خلیفہ چلا ہوا کارتوس ہے، اُن کا زمانہ گزر چکا۔ ان کا یہ غصہ اتنا واضح تھا کہ انہیں حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر استانبول میں جیل بھی کاٹنا پڑی۔ خلیفہ پریشر میں تھا، لیکن فوج نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ملک کو مصطفیٰ کمال جیسے جرنیل کی ضرورت ہے، مجبوراً انہیں رہا کرنا پڑا۔

لیکن انہوں نے جیل ہی میں فیصلہ کر لیا تھا، طے کر لیا تھا کہ اب ملک کو بدلنے کا وقت آ گیا ہے، ترکی کو نئے راستے پر ڈالنا ضروری ہو گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک اب خلافت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا! یہ کوئی نئی آواز نہیں تھی، یہ تو کافی عرصے سے اندر ہی اندر اٹھ رہی تھی۔

یہ 1886 تھا، جب سالونیکا میں ’’جمعیت اتحاد و ترقی‘‘ کے نام سے ایک تحریک بنی۔ یہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہو رہی تھی، مصطفیٰ بھی اس سے بہت متاثر ہوئے۔ ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ یہی ینگ ٹرکس کے نام سے مشہور ہوئے، تو انہوں نے ترکی کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے کام شروع کیا۔ ملک میں constitutional reforms کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ملک کو خلافت نہیں، جمہوری آئین کے مطابق چلایا جائے۔

اب مصطفیٰ کمال جنگی محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی active تھے، لیکن علانیہ نہیں، خفیہ طور پر۔ اس کام میں انور پاشا، طلعت پاشا، عصمت انونو اور جمال پاشا جیسے لوگوں نے مصطفیٰ کمال کی بڑی مدد کی۔ پہلی جنگِ عظیم نے بھی اس کے لیے راہ ہموار کی، خاص طور پر جنگ کے بعد خلیفہ کے ایک فیصلے نے۔

اصل میں یونان، عرب، افریقہ اور روس، ہر محاذ پر جنگ نے سلطنت عثمانیہ کی چولیں ہلا دی تھیں۔ استانبول بچانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ برطانیہ، اٹلی، یونان، فرانس اور دوسرے اتحادی ملکوں کی فوج نے گھیرا تنگ کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ 30 اکتوبر 1918 کو ترکی نے اتحادیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے کو تاریخ میں ’’معاہدۂ مدروس‘‘ کہا جاتا ہے اور اس میں عثمانی خلیفہ نے امن کے نام پر ہر شرط مان لی۔ یہاں تک کہ یہ شرط بھی کہ ترکی اتحادی فوج کے تمام قیدی واپس کردے گا، لیکن کوئی ترک قیدی واپس نہیں کیا جائے گا اور جو اس معاہدے کو نہیں مانے گا، سلطنت اُس کے خلاف لڑے گی۔ اتنا شرم ناک اور ذلت آمیز معاہدہ؟ اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ کہ سلطان نے اس معاہدے کو قبول کر لیا۔

اب مصطفیٰ کمال پاشا کو استانبول بلایا گیا اور ذمہ داری دی گئی کہ وہ اس معاہدے پر عمل کروائیں، ترک فوج سے ہتھیار واپس لے کر لڑائی بند کروائیں، اور جو مزاحمت کرے اس کا بھی خاتمہ کریں۔ مصطفیٰ کمال وہاں سے تو ’’ہاں‘‘ کہہ کر نکل گئے، لیکن اُن کے اندر ایک لاوا پک رہا تھا۔ کوئی بھی غیرت مند ترک ہوتا، یہ معاہدہ ماننے کو تیار نہ ہوتا۔ اس لیے مصطفیٰ کمال اناطولیہ پہنچے اور بجائے فوج سے ہتھیار لینےکے، نئے سرے سے منظم کرنا شروع کر دیا۔ فوج تو ویسے ہی خلیفہ کے خلاف بھری بیٹھی تھی، مصطفیٰ کمال کے آنے کے بعد اب سب کا ایک ہی مقصد تھا: خلیفہ سے نجات حاصل کرنا۔

اعلانِ آزادی

یہ 22 جون 1919 تھا۔ فوج مصطفیٰ کمال کے ہر حکم کو مان رہی تھی۔ تب انہوں نے ایک اعلان کیا، جسے تاریخ میں ’’اماسیہ سرکلر‘‘ کہا جاتا ہے۔ صاف صاف کہہ دیا گیا:

غیر ملکی طاقتوں کو ترکی سے نکال دیا جائے گا، ان سے اپنے سارے علاقے واپس لیے جائیں گے۔ خلیفہ ملک اور قوم کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں، اِس لیے قوم اٹھے اور فوج کا ساتھ دے۔ معاہدہ مدروس کو ترک قوم کی تذلیل قرار دیا گیا۔

یہ صرف ایک اعلان نہیں تھا، ہر ترک کے دل کی آواز تھی۔ عوام کے دلوں میں مصطفیٰ کمال کی محبت اور پڑھ گئی اور ساتھ ہی لڑنے مرنے کا جذبہ بھی۔ آٹھ جولائی 1919 کو مصطفیٰ کمال نے عثمانی فوج سے استعفا دیا اور اب ایک عام آدمی کی طرح سیاست اور جنگ دونوں کے میدان میں کود پڑے۔ خلیفہ انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیتا ہے، مگر فوج اور پولیس کا کوئی اہلکار اس کی ہمت نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اناطولیہ میں عثمانی فوج کے کمانڈر تک مصطفیٰ کمال کو اپنا لیڈر ماننے کا اعلان کر دیتے ہیں۔

ایک طرف عوام اور فوج کا غصہ ہے تو دوسری طرف خلیفہ ملک میں الیکشن کے ذریعے من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ دو سال میں دو الیکشنز کروا کر بھی وہ نتائج نہیں آتے، جو خلیفہ چاہتے تھے۔ ہر طرف مصطفیٰ کمال کے حمایت یافتہ لوگ جیت رہے تھے۔ یہ خلیفہ کے لیے کھلا پیغام تھا، انہوں نے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا اور اسمبلی ہی توڑ دی۔

پھر قابض یورپی طاقتوں اور خلیفہ کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا، ایک اور ذلت آمیز معاہدہ۔ دس اگست 1920 کو ’’معاہدۂ سیورے‘‘ پر دستخط ہوئے۔ جو پچھلے معاہدے سے بھی دس ہاتھ آگے کی چیز تھا۔ اب تو پورے ترکی کی بندر بانٹ شروع ہو گئی تھی۔ شام، فلسطین، لبنان سمیت تمام عرب علاقے عثمانیوں سے چھین لیے گئے۔ فرانس اور برطانیہ نے انہیں ریوڑیوں کی طرح آپس میں بانٹ لیا۔ مغربی ترکی کے زیادہ تر علاقے یونان کو دے دیے گئے۔ مشرقی حصے آرمینیا کو اور استانبول کا تمام علاقہ انٹرنیشنل custody میں دے دیا گیا۔

اندازہ کیجیے کہ آج اُن ملکوں کی تعداد چالیس ہے، جو کبھی سلطنت عثمانیہ کے صوبے تھے لیکن اب یہ حال تھا کہ ترکی کے نام پر اناطولیہ کا بنجر اور بیابان علاقہ تھا اور بلیک سی کی چھوٹی سی ساحلی پٹی، بس!

غصہ نہیں نفرت

معاہدہ سیورے ہوا اور بات غصے سے نکل کر نفرت تک پہنچ گئی۔ اس آگ نے فوج میں ایک نئی روح پھونک دی، اس نے معاہدے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ مصطفیٰ کمال نے اکیلے ہی اتحادیوں کے خلاف آزادی کا پرچم اٹھا لیا۔ یہ جنگ اب آزادی کی جنگ تھی اور خلیفہ کے خلاف کھلا اعلانِ بغاوت تھا۔

اس بغاوت کا مرکز انقرہ تھا، ایک چھوٹا سا شہر۔ یہاں 1920 میں مصطفیٰ کمال نے ایک عارضی اسمبلی بنائی، اجلاس ہوا اور وہ خود صدر منتخب ہوئے۔

اگلے سال ترکوں نے یونانیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ جنگ تھی اہم ساحلی شہر ازمیر کی، جس پر یونانیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ایک زبردست جنگ کے بعد ترک فاتح بنے۔ یہ جنگ جنگ سقاریہ (Battle of the Sakarya) کہلاتی ہے، اور ترک جنگِ آزادی میں ٹرننگ پوائنٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہی جنگ تھی جس کے بعد مصطفیٰ کمال کو ایک نیا لقب ملا، اب وہ ’’غازی مصطفیٰ کمال پاشا‘‘ بن چکے تھے۔ یہ غازی کا خطاب انہیں عوام نے دیا تھا۔

اب ترکی میں مصطفیٰ کمال کی بہادری کے ڈنکے بجنے لگے۔ ترکی کیا؟ جہاں جہاں مسلمان بستے تھے، وہاں مصطفیٰ کمال کا نام تھا۔ اب نہ مصطفیٰ کمال سے بڑا کوئی سیاسی رہنما تھا اور نہ ہی فوجی لیڈر۔

ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
(علّامہ اقبال)

اور کیوں نہ ہوتا؟ اُس زمانے میں مسلم دنیا کا حال تو دیکھیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور وسط ایشیا سے لے کر افریقہ تک۔ کون سا مسلم ملک تھا جو آزاد تھا؟ یورپ نے ہر جگہ مسلمانوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ ان کے خلاف جیتنا تو الگ بات، مسلمانوں کے لیے تو مغرب سے لڑنا بھی مشکل تھا۔ مسلمان صدیوں سے اُن کے خلاف کوئی جنگی کامیابی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ تب مصطفیٰ کمال اٹھتے ہیں اور مغربی افواج کو ایسی شکست دیتے ہیں کہ وہ پھر کبھی ترک سرزمین پر قدم نہیں رکھ پاتی۔ لیکن۔۔۔۔

مصطفیٰ کمال کے مخالف کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ ان کی رائے میں یونانی فوج نے برطانیہ کے کہنے پر ازمیر کا شہر خالی کیا۔ یورپی طاقتیں خود چاہتی تھیں کہ مصطفیٰ کمال ہیرو بنے، ترکوں میں مقبول ہوں کیونکہ وہ ان کے سیاسی نظریات کے بارے میں جانتی تھیں۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ ترکی کو ایسا ملک بنا دے گا جہاں مذہب اور سیاست الگ الگ ہوں گے۔

اس دعوے کا کوئی تاریخی اور documented ثبوت تو نہیں ہے، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ مصطفیٰ کمال ماڈرنزم یعنی جدیدیت کے بڑے حامی تھے۔ ان کا نظریہ، جسے چھ تیر کہا جاتا تھا، یہ تھے:

  1. ری پبلک ازم
  2. پاپولزم
  3. سیکولر ازم
  4. ریفارم ازم
  5. نیشنل ازم
  6. اسٹیٹ ازم

مصطفیٰ کمال کی پوری سیاسی اپروچ ان چھ نکات سے واضح تھی۔ سکس ایروز (Six Arrows) میں ہر ایک کا مطلب تھا ایک تبدیلی، ایک بہت بڑی تبدیلی۔ ان میں سب سے نمایاں تھا سیکولر ازم۔ اس کی حمایت میں مصطفیٰ کمال کہتے تھے جس معاشرے میں آزادی نہیں ہوگی، وہاں موت اور تباہی ہوگی۔

بہرحال، ‏1922 میں عالم یہ تھا کہ ترکی میں بیک وقت دو حکومتیں تھیں: ایک استانبول میں جہاں خلیفہ وحید الدین موجود تھے اور ایک انقرہ میں جہاں مصطفیٰ کمال کا راج تھا۔ برطانیہ کے سامنے خلیفہ کی حالت وہی تھی جو ہمارے ہاں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تھی۔ لیکن بات یہاں تک کیسے پہنچی؟ یہ بتانے سے پہلے چلتے ہیں مصطفیٰ کمال کی پرائیوٹ لائف میں آنے والی ایک تبدیلی کی طرف۔

ناکام کمال

جنوری 1923 میں مصطفیٰ نے اپنی ایک دور پار کی رشتہ دار اور جدید تعلیم یافتہ لڑکی ’’لطیفہ خانم‘‘ سے شادی کی۔ لیکن یہ شادی دو سال بھی نہیں چل پائی اور دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ شادی ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ مصطفیٰ کے پاس گھریلو زندگی کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ پھر مصطفیٰ کمال کی ایک اور خاتون ’’فکریہ خانم‘‘ سے بھی دوستی تھی۔ شاید اُن کی دوستی ہی تھی، جو لطیفہ خانم کی برداشت سے باہر ہو گئی۔ اور جب طلاق کے بعد فکریہ نے مصطفیٰ سے شادی کرنا چاہی، تو انہوں نے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ فکریہ نے اُسی دن خودکشی کر لی۔ سیاسی اور فوجی میدانوں پر کامیابیاں حاصل کرنے والا مصطفیٰ، اپنی پرائیوٹ لائف میں ناکام ثابت ہوا۔

مصطفی کمال پاشا کا مبارک سال

بہرحال، 1923 مصطفیٰ کمال کے لیے بہت ہی مبارک سال تھا۔ اسی سال تھا جس میں اسے بہت بڑی سیاسی کامیابی ملی۔ ‏24 جولائی 1923 کو یورپ کے اتحادیوں نے مصطفیٰ کمال سے معاہدہ کر لیا۔ اسے تاریخ میں ’’معاہدۂ لوزان‘‘ (Treaty of Lausanne) کہتے ہیں۔ یورپ اس لیے مجبور ہوا کیونکہ معاہدۂ سیورے پر عمل درآمد نہیں ہوا اور ترکوں نے جنگِ آزادی شروع کر دی، جہاں مصطفیٰ کمال کی کامیابیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اسی لیے اتحادی طاقتوں کو معاہدے پر مجبور ہونا پڑا، انہوں نے ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا۔ جس کا مطلب سلطنت عثمانیہ ختم!

‏‏29 اکتوبر 1923 کو مصطفیٰ کمال ترکی کے صدر بن گئے، اور پھر ایسے قدم اٹھائے جو آج بھی متنازع سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور controversial کام تھا خلافت کا خاتمہ کرنا۔ تین مارچ 1924 کے دن مصطفیٰ کمال نے خلافت کا عہدہ ہی ختم کر دیا یعنی صرف سلطنتِ عثمانیہ ہی نہیں، بلکہ خلیفہ کی مذہبی حیثیت کا بھی خاتمہ۔ خلیفہ کسی بھی صورت میں مصطفیٰ کمال کو قبول نہیں۔ شاید اس لیے کیونکہ انہیں آگے بھی کچھ کرنا تھا، جن کا ردِ عمل ضرور آتا اور خلیفہ جیسا کوئی بھی عہدہ عوام کو اُن کے خلاف استعمال کر سکتا تھا۔ اس لیے نہ صرف خلافت کا عہدہ ختم کیا گیا، بلکہ آخری خلیفہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلا وطن کر دیا گیا۔ اور اُن کے تمام اختیارات انقرہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کو دے دیے گئے۔

اس فیصلے کا ردِ عمل آیا، اور بہت سخت آیا، قتل کی ایک سازش بھی پکڑی گئی۔ کہتے ہیں جب اس منصوبے کے مرکزی ملزم کو پیش کیا گیا تو مصطفیٰ نے اپنا پستول اس کے حوالے کیا اور کہا یہ لو! اور ہمت ہے تو مار ڈالو۔ ملزم کی ہمت نہیں ہوئی اور بعد میں اس منصوبے کے تمام کرداروں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ویسے دنیا بھر کے مسلمان چاہتے تھے کہ کم از کم خلیفہ کا عہدہ تو برقرار رہے، کیونکہ یہ تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی نشانی تھی مگر مصطفیٰ کمال نہیں مانے۔ یہاں تک کہ قریبی ساتھی بھی اُن کے خلاف ہو گئے لیکن مصطفیٰ کمال نے مذہب کو ریاست کے معاملات سے مکمل طور پر نکال دیا۔ اور ترکی بنا مسلم دنیا کی پہلی سیکولر ریاست۔

مصطفی کمال کا ماڈرنزم

مصطفیٰ کمال پندرہ سال تک ترکی کے صدر رہے۔ انہوں نے ملک کو پوری طرح بدل دیا، خاص طور پر تعلیم کے نظام کو۔ مدرسوں کی جگہ جدید اسکول کھولے، ’’ہر بچہ پڑھے گا‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے پورے ملک میں تعلیم مفت کر دی۔ کو-ایجوکیشن کی بنیاد رکھی، لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھنے لگے۔ ‏1924 میں جہاں صرف دس فیصد ترک پڑھے لکھے تھے، صرف پندرہ سالوں میں ان میں ڈھائی گُنا اضافہ ہوا۔

پھر ایک قدم اور آگے بڑھے، 1925 میں ملک میں تمام روایتی لباسوں پر بھی پابندی لگا دی۔ کون کیا پہنے گا؟ اور کیا نہیں؟ یہ بھی حکومت نے طے کیا۔ ترکی میں ہی ترکی ٹوپی پہننے پر پابندی لگ گئی اور جبہ و دستار پہننا بھی بند۔ مغربی لباس پہننے کو قانون بنا دیا۔ خواتین کا پردہ ختم کر دیا گیا، انہیں بھی مغربی لباس پہننے کو کہا گیا۔ خواتین کو برابر کے حقوق ملے۔ ‏1926 میں شرعی عدالتیں ختم کر دیں اور ایک نیا عدالتی نظام قائم کیا۔

اتاترک کو روکنے والا اب کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اور خطرناک فیصلے کرنا شروع کر دیے۔ ملک میں عربی لکھنے، پڑھنے اور بولنے پر تو پابندی لگا ہی دی تھی، لیکن 1928 میں ترکی زبان کا رسم الخط بھی تبدیل کر دیا۔ اب وہ عربی کے بجائے latin alphabets میں لکھی جانے لگی۔ اِس فیصلے کی بڑی مخالفت ہوئی، یہ ایک فیصلہ ترکوں کو اپنی صدیوں کی روایت اور تہذیب سے الگ کر رہا تھا۔ لیکن مصطفیٰ کمال کہاں کسی کی سننے والے تھے؟ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے نئے alphabets بنائے، خود اسکولوں میں جاتے، بچوں کو نیا رسم الخط سکھاتے۔ پھر ترکی کو دوسری زبانوں کے اثرات سے پاک کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا۔ عربی اور فارسی کے الفاظ چن چن ترکی زبان سے نکال دیے گئے۔ پھر اسلامی کیلنڈر ختم، عیسوی کیلنڈر رائج ہو گیا۔ جمعے کے بجائے اتوار کی چھٹی۔ یہی نہیں، ملک میں نئی مساجد بنانے پر بھی پابندی لگا دی، قرآن مجید کی اشاعت پر بھی پابندی۔ یہاں تک کہ صوفی سلسلوں پر بھی پابندی یعنی مولانا رومی کے مزار پر درویشوں کا رقص بھی بند۔

مصطفیٰ کمال علانیہ کہتے تھے کہ یہ سب کام ترقی کے عمل کو سست کر دیتے ہیں۔ ہر وہ قدم جو ترکی کو ’’ماڈرن‘‘ بنانے کے لیے انہوں نے ضروری سمجھا، اٹھایا، صحیح، غلط ہر step۔ یہاں تک کہ 1935 میں آیاصوفیا مسجد کو میوزیم بنانے کا اعلان کر دیا۔ یہ وہی آیاصوفیا ہے، جسے 1453 میں سلطان محمد فاتح نے مسجد بنایا تھا جب انہوں نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ یوں مصطفیٰ کمال کے ایک فیصلے سے آیاصوفیا میں نمازیں اور اذانیں بند ہو گئی، تقریباً پانچ سو سال بعد۔

آخر مصطفیٰ کمال یہ سب کیوں کر رہے تھے؟ کیونکہ وہ مذہب کو ترقی کے راستے میں دیوار سمجھتے تھے، اس لیے رسومات، روایات اور عقائد کا خاتمہ کرنے کے لیے ہر حد تک گئے۔ ملک میں تو مصطفیٰ کمال کا نام تھا، لوگوں نے اُن کے کارنامے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر انہیں مخالفت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ لیکن ملک سے باہر، باقی اسلامی دنیا میں انہیں بڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مصطفیٰ کمال کے جنگی کارناموں پر طویل نظمیں لکھنے والے علامہ اقبال نے انہیں ’’تُرکِ ناداں‘‘ کہا:

چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ
علّامہ اقبال

لیکن اتاترک نے عالمِ اسلام کو بالکل صاف جواب دے دیا:

عالمِ اسلام؟ کیا یہ وہی عالمِ اسلام نہیں جس نے جنگِ عظیم میں ترکوں کے دشمنوں سے ہاتھ ملایا اور ترکی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی؟ کیا اسی عالمِ اسلام نے ہماری پیٹھ پر وار نہیں کیا تھا، جب ترکی دشمنوں کے نرغے میں تھا؟ آج اسے یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ ترکی کے معاملات پر منہ کھولنے کی جرات بھی کرے؟

ترک عربوں کی بغاوت نہیں بھولے تھے۔ شاید اس بغاوت کا ہی نتیجہ تھا کہ اتاترک نے ترکی کو مشرق سے کاٹ دیا، ان کی ہر ہر نشانی، ان کی زبان، ان کا رسم الخط، روایات سب چھوڑ دیے اور ترکی کو جوڑ دیا مغرب سے۔ ترکی نے خود کو ایک ویسٹرن country بنا لیا۔ کیا مصطفیٰ کمال کو ردِ عمل میں اتنا آگے جانا چاہیے تھا؟ ہم تو یہی سمجھتے ہیں اس کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ترک ایسا نہیں سمجھتے تھے۔

‏‏‏24 نومبر 1934 ترک قومی اسمبلی نے مصطفیٰ کمال پاشا کو ’’اتاترک‘‘ کا خطاب دیا یعنی ترکوں کا باپ، یا بابائے ترک قوم۔ ان کی وہی حیثیت ہو گئی جو پاکستان میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی ہے۔

مصطفیٰ کمال اتاترک پندرہ سال ترکی کے صدر رہے۔ اس دوران ملک کا معاشی ہی نہیں، سماجی، سیاسی اور معاشرتی حلیہ بھی بدل دیا بلکہ اس دوران وہ خود بھی بہت بدل گئے۔ بہت زیادہ شراب نوشی کرنے لگے، چین اسموکر تو ویسے ہی تھے، صحت بُری طرح متاثر ہوئی، یہاں تک کہ جگر مکمل طور پر خراب ہو گیا اور 10 نومبر 1938 کو 57 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پہلے اُن کی تدفین انقرہ کے ایک میوزیم میں کی گئی اور پندرہ سال بعد نومبر 1953 میں اُن کی باقیات کو ایک نئے شاندار مقبرے میں منتقل کر دیا گیا۔

آج مصطفیٰ کمال کو گئے ہوئے تقریباً 70 سال ہو چکے ہیں۔ دنیا ہی نہیں، خود ترکی بھی ان کے بتائے ہوئے رستے سے کافی دُور ہو چکا ہے۔ نئی صدی اتاترک کے دیس میں اسلام کی صدی بن گئی۔ اُن کا سب سے بڑا مخالف، اسلام پسند طبقہ، ملک پر دہائیوں سے حکمران ہے۔

کیا مصطفیٰ کمال اپنے ہی ملک ميں ناکام ہو گئے؟ اُن کی اصل legacy کیا ہے؟ ایک عظیم جرنیل یا ایک مذہب بیزار آدمی کی؟ ایک غیر معمولی سیاست دان کی یا ایک ڈکٹیٹر کی؟ مخالفین تو یہی کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال کی حکومت جمہوریت نہیں بلکہ آمریت ہی تھی۔ ہر اختیار اُن کے ہاتھ میں تھا، وزیر اعظم بھی اُن کی مرضی سے بنتا۔ جو مخالفت کرتا، یا تو پھانسی چڑھتا یا جلا وطنی اُس کا مقدر بنتی۔

آج جہاں انہیں ہیرو ماننے والے بہت سے لوگ ہیں، وہیں زیرو قرار دینے والے بھی بے شمار ہیں۔ کسی کے بھی سیاسی نظریے سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن یہ بات سب مانیں گے کہ ترکی دنیا میں آج جس مقام پر کھڑا ہے، اس میں غازی مصطفیٰ کمال کے کمالات کا بڑا کمال ہے۔

شیئر

جواب لکھیں