دوپہر کا وقت، سناٹے کا عالم، آمنہ اسکول سے گھر آ چکی تھی لیکن دونوں بیٹیاں ابھی تک نہیں پہنچی تھیں۔ اچانک دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ آمنہ نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو دیکھا بیٹیاں بری طرح ہانپ رہی ہیں۔

وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بڑی مشکل سے گھر پہنچی تھیں۔ ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ اُن کی گلی میں شور سا بلند ہوا۔ خوفناک آوازیں دھیرے دھیرے گھر کے نزدیک ہونے لگیں۔ آمنہ اپنی بیٹیوں کو لے کر پچھلے کمرے کے کونے میں چھپ گئی۔ دل تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ سرد موسم میں تینوں پسینے میں شرابور تھیں اور پھر دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ ٹوٹ گیا۔

ہر طرف ہر ہر مہادئیو اور جے شری رام کی آوازیں تھیں۔ ماں بیٹیوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ درجنوں ہندو بلوائی تین نہتّی مسلمان عورتوں پر حملہ آور ہوئے اور کچھ دیر بعد وہاں راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔

یہ گجرات میں ہونے والے فسادات کی صرف ایک جھلک تھی۔ اس کے تانے بانے ملتے تھے اس وقت کے وزیر اعلی اور آج کے وزیر اعظم ’’نریندر مودی‘‘ سے۔ فسادات میں ڈھائی ہزار سے زائد مسلمان قتل کیے گئے، بستیوں کی بستیاں جلادی گئیں۔ مسلمانوں کے گھر، دکانیں، کاروبار سب کچھ تباہ کر دیا گیا۔ سیکڑوں خواتین درندگی کا شکار ہوئیں۔ لیکن مودی کو اطمینان نہ ہوا، اپنے بھکتوں سے کہہ دیا کہ، مزا نہیں آیا۔

بی بی سی نے اپنی ڈاکیومنٹری: India: The Modi Question میں گجرات فسادات کا ذمہ دار نریندر مودی کو قرار دیا۔ تب مودی کو ایک نیا نام ملا ’’گجرات کا قصائی‘‘۔ یہ ڈاکیومنٹری مودی کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جسے انڈیا میں دیکھنے پر پابندی ہے۔

نریندر مودی کی مخالفت میں بہت کچھ کہنے کو ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انڈیا پر سب سے طویل عرصے تک راج کرنے والا مودی محنت کرنا جانتا ہے۔ ٹرین اسٹیشن پر چائے بیچنے سے لے کے بھارت کا سب سے طاقتور آدمی بننے تک، اس کی راہ میں جو آیا اس نے کچل دیا۔ وہ جو کہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ مودی کے عزائم کے سامنے کوئی قانون، کوئی سیکولر نظریہ کوئی ایتھکس، کچھ نہیں ٹھہرتا۔ دھن کا ایسا پکا ہے کہ ستر ورشوں سے ایک طرف جانے والے بھارت کو دونوں ہاتھ سے پکڑ کر موڑ دیا۔

مودی آج تاریخ بدلنے والا ہے۔ نہرو کے بعد وہ پہلا شخص ہوگا جو تیسری بار راجیہ سبہا کے سنگھاسن پر راج کرے گا۔ کچھ تو ہے مودی میں کہ اس نے پوری دنیا میں بسنے والے ذات پات میں بٹے ایک ارب سے زائد ہندووں کو ایک جھنڈے تلے جمع کردیا۔ مودی کے جھنڈے کا رنگ زعفرانی ہے، یعنی کیسری۔ سنکسرت میں کیسری رنگ غروب آفتاب اور آگ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور یہ قربانی۔ روشنی اور نجات کی علامت ہے۔ لیکن اس جھنڈے کو غور سے دیکھیں تو اس پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خون کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔

اپنی ماں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا مودی بڑا ہو کر ہزاروں لوگوں کا قاتل کیسے بن گیا؟ یہ آج ہم آپ کو بتائیں نریندر مودی کی کہانی میں۔ مودی کی کہانی جاننے کے لئے آپ کو انیس سو ساٹھ کی دہائی میں جانا ہوگا۔

نریندر مودی کا بچپن

آزادی کے تین سال بعد 17ستمبر 1950میں پیدا ہونے والا مودی، اپنے چھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ 80گز کے مکان میں رہنے والے اس خاندان نے اتنی غربت دیکھی کہ مودی کو خود سے چڑ ہونے لگی۔ والد دامودر مودی کے پاس اسکول کی فیس بھرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ یوں مودی پڑھ نہ سکا۔

دامودر اپنے بچوں کو دھرم کی شکشا ضرور دیتے اور اس کا سب سے زیادہ اثر لیا مودی نے۔ وہ شروع سے تنہائی پسند تھا۔ اس کی فطرت میں ایک عجیب سے بے چینی تھی۔ اداکاری کا شوق تھا لیکن اسٹیج پر کردار صرف ہیرو کا پسند تھا۔ اگر یہ رول نہیں ملتا تو وہ کام کرنے سے انکار کر دیتا۔ مودی نے ایک بار اسکرپٹ میں لکھے ڈائیلاگز بولنے کے بجائے عورتوں کے حقوق پر تقریر کر ڈالی۔ دیکھنے والے حیران رہ گئے، کیونکہ پہلے کسی نے کبھی ایسی بات نہیں کی تھی۔

یہیں لکشمن راؤ انعام دار بھی موجود تھے۔ وہ آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سیوک سنگھ کے رہنما تھے۔ وکیل صاحب کے نام سے مشہور لکشمن نے بھانپ لیا کہ لڑکے میں کچھ spark ہے، اور یہ آگے جا کر یقیناً کچھ کرے گا۔ انہوں نے مودی سے ایک چھوٹی سی ملاقات کی، جو مودی کی زندگی میں بڑا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ آر ایس ایس کا نظریہ دل میں اتر گیا اور مودی پندرہ سال کی عمر میں اداکاری سے سیاست میں آ گیا۔

سیاست کے میدان میں مودی کا سفر کیسا رہا؟ اس میں کیسے عروج اور زوال آئے؟ اس بارے میں بعد میں بتائیں گے، پہلے چلتے ہیں مودی کی کچھ پرسنل لائف کی طرف۔

سنیاسی مودی

شام کا وقت ہے۔ مودی چھت پر اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پتنگ اڑا رہا ہے۔ اس نے پرہلاد کو چرخی پکڑنے کو کہا، پرہلاد نے منع کیا تو مودی نے اسے ایک ہاتھ لگا دیا۔ پرہلاد کا کہنا ہے کہ مودی غصے کا تیز ہے اور اسے آج بھی بھائی سے ڈر لگتا ہے۔

عرصہ ہو گیا ان دونوں کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ مودی اپنے خاندان کو ایک فاصلے پر رکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سترہ سال کی عمر میں مودی کی زبردستی شادی کرائی گئی لیکن مودی کو اپنی بیوی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یوں یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی۔ مودی نے گھر چھوڑ کر سنیاسی بننے کا فیصلہ کیا۔ کبھی اِس شہر تو کبھی اس شہر بھٹکتا رہا۔ لیکن پھر وہ سنیاسی بھی نہ بن سکا۔

کچھ وقت ہمالیہ میں سادھوؤں کے درمیان بھی گزارا۔ یہاں تک کہ گجرات واپس آ گیا۔ وہاں اس کی ملاقات سوامی آتماستھان آنند جی مہاراج سے ہوئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میاں ابھی جوان ہو۔ اتنی کم عمری میں دنیا ترک کرنے کا فیصلہ ٹھیک نہیں۔ ان چکروں میں نہ پڑو۔ مودی نے سادھو کی بات مان لی اور احمد آباد چلا آیا۔

دو سال پہلے اچانک چلا جانے والا مودی، اچانک ایک دن گھر لوٹ آیا۔ گھر والے اسی دہلیز پر دیکھ کر حیران تھے۔ وہ کچھ دیر تو ساتھ بیٹھا لیکن پھر باہر نکل گیا۔ گھر والے سمجھے باپ سے ملنے جا رہا ہوگا۔ لیکن مودی کے قدم تو کسی اور طرف تھے۔ وہ آر ایس ایس کے مقامی دفتر جا رہا تھا۔ جہاں آر ایس ایس کے وکیل صاحب اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اب مودی باقاعدہ آر ایس ایس میں شامل ہو گیا اور زندگی کی گاڑی سیاست کی شاہراہ پر دوڑنے لگی۔

سیاسی سفر کا آغاز

یہ سن 1971 تھا، مشرقی پاکستان میں حالات بہت خراب تھے۔ پاکستان کے دونوں بازو آپس میں جھگڑ رہے تھے اور ان کے بیچ تھی اندرا گاندھی کی حکومت۔ تب ہندو انتہا پسندوں کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ تھا: بنگالیوں کی مدد کی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آر ایس ایس کے کارکنوں کو فوج میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔

اس مطالبے کے حق میں بڑے مظاہرے ہوئے۔ ان میں نوجوان مودی نے بھی شرکت کی۔ ان مظاہروں میں گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ مودی بھی گرفتار ہو کر دلّی کی مشہور تہاڑ جیل بھیجا گیا۔ جیل سیاسی کارکن کا سسرال تصور کی جاتی ہے۔ گرفتاری کے بعد آر ایس ایس میں مودی کی اہمیت اور بڑھ گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔

پھر سن 1974 میں احمد آباد میں طلبا نے اپنے حقوق کے لیے ہڑتال کی۔ احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان میں بھی مودی آگے آگے تھا۔ یہ احتجاج اتنا بڑھا کہ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن کے خلاف تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ اندرا سرکار لرز کر رہ گئی! اور گجرات میں کانگریس حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔

پچیس جون 1975 کو اندرا گاندھی نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ احتجاج کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پچیس سالہ مودی بھلا کیسے خاموش رہتا؟ وہ بھی آگے آگے تھا۔ ایمرجنسی میں اخبارات پر سنسر شپ لگی تو آر ایس ایس نے کانگریس کے خلاف پمفلٹس بانٹنے شروع کر دیے۔ یہی نہیں خفیہ پیغامات بھی پہنچائے جاتے جس کی ذمہ داری مودی کے سر تھی۔ پولیس اسی دیوانہ وار ڈھونڈ رہی تھی لیکن ماضی کا اداکار کبھی سردار تو کبھی سادھو کا روپ دھار کر انہیں چکمہ دے جاتا۔

وہ خفیہ طور پر اندرا سرکار کے خلاف کام کرتا رہا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مودی کو آر ایس ایس کے رہنماؤں سے تعلقات قائم کرنے میں بڑی مدد ملی۔ بالآخر ایمرجنسی 21 مارچ 1977 کو ختم ہوئی، الیکشن ہوئے اور انڈیا میں پہلی بار نان کانگریس گورنمنٹ بنی۔

جنتا دَل کے مرار جی ڈیسائی نئے وزیر اعظم بنے۔ ان کی کابینہ میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن آڈوانی جیسے بڑے لیڈر بھی شامل تھے۔

اس نئی حکومت میں نریندر مودی کو بھی ایک ذمہ داری ملی۔ اسے گجرات میں ایمرجنسی کے اثرات کی تاریخ لکھنے کو کہا گیا۔ نریندر نے اس پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا: سنگھرش ما گجرات۔ گجراتی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب بڑی مشہور ہوئی اور بعد میں اس کا ہندی ترجمہ بھی ہوا۔

بہرحال، نئی حکومت بننے کے بعد نریندر مودی کا گجرات اور دلّی آنا جانا شروع ہو گیا۔ وکیل صاحب اسے سیاسی ٹریننگ دیتے رہے اور 1978 میں انہی کے کہنے پر مودی نے دلی یونیورسٹی سے بی اے کر لیا۔

ادھر ڈیسائی حکومت زیادہ عرصے نہ چل سکی۔ جنوری 1980 میں انڈیا میں پھر چناؤ ہوا اور اندرا گاندھی دوبارہ وزیر اعظم بنیں۔

یہ وہ وقت تھا جب مودی کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ اُسی سال 6 اپریل کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئی جو مودی کا آخری ٹھکانہ بنی۔

1981 میں کچھ ایسا ہوا جو مودی کو سیاسی لیڈر بنا گیا۔

یہ ریاست تامل ناڈو میں پیش آنے والا ایک واقعہ تھا۔ آٹھ سو سے زیادہ دلت ہندوؤں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ آر ایس ایس کے لیے ہندو جذبات بھڑکانے کا یہ بہترین موقع تھا۔ دلتوں کے مسلمان ہونے کے خلاف ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں۔ گجرات میں جو جلوسوں کی قیادت مودی کے ذمہ تھی۔ یعنی اب وہ کارکن نہیں باقاعدہ لیڈر بن چکا تھا۔

اندرا گاندھی کا قتل

اکتیس اکتوبر 1984، سیالکوٹ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسرا ون ڈے جاری ہے۔ پاکستانی کیپٹن ظہیر عباس نے ٹاس جیتا اور مہمان ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ مدثر نذر دونوں اوپنرز کو آؤٹ کر چکے ہیں کہ اچانک آل انڈیا ریڈیو سے کمنٹری آنا بند ہو گئی اور سیڈ میوزک بجنے لگا۔ ریڈیو پاکستان پر بھی یہی صورت حال تھی اور پھر اچانک وہ خبر آ گئی۔ اندرا گاندھی کو قتل کردیا گیا۔

اس قتل کے بعد ملک میں نئے الیکشن ہوئے۔ کانگریس کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور وہ بھاری اکثریت سے جیتی جبکہ بی جے پی کو صرف دو سیٹیں ملیں۔ تب بی جے پی لیڈرز نے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے آر ایس ایس سے مدد مانگی۔ وہاں سے ذہین اور باصلاحیت لوگوں بی جے پی میں شامل ہوئے۔ انہی میں سے ایک نریندر مودی بھی تھا۔

مودی نے گجرات میں بی جے پی کو مضبوط کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ وہ جلد ہی بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہیں سے اُس پولیٹیکل کیریئر کا آغاز ہوا، جس نے بھارت کو ہمیشہ کے لیے تقسیم کر دیا۔

ہندوستان مزید تقسیم

کہتے ہیں جب کسی قوم کو یکجا کرنا ہو تو مذہب سے بہتر اور کوئی شے نہیں۔ لیکن جب کسی قوم کو توڑنا ہو، تب بھی مذہب سب سے بہترین ہتھیار ہے۔ ہندوستان میں یہی ہوا۔

ملک میں 1984 سے ایک تحریک چل رہی تھی: رام جنم بھومی کی آزادی کی تحریک۔ جو آر ایس ایس نے بجرنگ دَل، وشو ہندو پریشد، شیو سینا اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر شروع کی تھی۔ ان کا کہنا تھا ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے بلکہ شہر کی بابری مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں پہلے رام مندر تھا، اس لیے مسجد کو ختم کیا جائے گا اور یہاں رام مندر دوبارہ بنایا جائے گا۔

بابری مسجد سے رام مندر تک

سومناتھ مندر کی تعمیر تو آزادی کے فوراً بعد ہو گئی تھی۔ لیکن اب بی جے پی کا نشانہ تھی بابری مسجد، جس کی جگہ وہ رام مندر بنانا چاہتی تھی۔ رتھ یاترا تو ایودھیا پہنچنے سے پہلے ختم ہو گئی۔ لیکن آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی۔

ہندوستان ایک بار پھر تقسیم ہو گیا۔ پھر پانچ اگست 2020 کو مندر کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اور سنگِ بنیاد سے لے کر افتتاح تک ہر مرحلے کو انجام دیا نریندر مودی نے۔ اس بارے میں ہم آگے جا کر بات کریں گے لیکن ابھی مودی کی اس زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں جو 1992 سے 2024 تک رہی۔ اس زندگی بہت کچھ ہوا، ایسا جو بہت زیادہ controversial تھا۔

پہلے مندر، پھر سرکار

رام مندر بنانے کے لیے جتنے نعرے لگے، ان میں سے ایک تھا ’’پہلے مندر، پھر سرکار‘‘۔ بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی رام مندر بننے کا پہلا قدم تو اٹھا لیا گیا اور پھر زیادہ وقت نہیں لگا کہ بی جے پی کو سرکار بھی مل گئی۔

یہ سن 1995 تھا جب ریاست گجرات میں الیکشن ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پہلی بار اکیلے کسی الیکشن میں حصہ لیا اور بڑی کامیابی حاصل کی۔ مودی 1987 میں باقاعدہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور اس الیکشن کے بعد انہیں بی جے پی کا جنرل سیکریٹری بنا دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد تو پارٹی کی طاقت بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ 1996 میں نہ صرف ہریانہ اور چندی گڑھ میں بی جے پی بڑی پاور بن کر ابھری بلکہ 1998 میں ہماچل پردیش میں بھی حکومت بنا لی۔

نریندر مودی کا سیاسی قد بڑھتا جا رہا تھا لیکن حیرت کی بات دیکھیں، ملک بھر میں پارٹی مضبوط ہو رہی تھی لیکن مودی کی اپنی ریاست میں بی جے پی کمزور ہو رہی تھی۔

سن 2000 میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو بی جے پی گجرات میں بری طرح ہار گئی۔ اس کی وجہ تھی مودی اور گجرات کی بی جے پی قیادت میں اختلافات۔ یہی وجہ تھی کہ مودی کو دلّی بلا لیا گیا تھا لیکن قدرت مودی کے لیے کام کر رہی تھی۔

‏1998 میں سمندری طوفان، 2000 میں احمد آباد کا سیلاب اور 2001 میں بھوج کا خوفناک زلزلہ، ان تین قدرتی آفات نے گجرات حکومت کی چولیں ہلا دیں۔ کیشو بھائی پٹیل کی حکومت امدادی کارروائیوں میں بری طرح ناکام رہی، جس کی وجہ سے انہیں ’’مسٹر ڈیزاسٹر‘‘ کہا جانے لگا۔ تب بی جے پی قیادت نے ایک فیصلہ کر لیا۔

پہلی مودی سرکار

یہ یکم اکتوبر 2001 تھا، نریندر مودی دلّی میں تھے۔ اُن کے فون کی گھنٹی بجی۔ لائن پر تھے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی۔ انہوں نے شام کو ملاقات کے لیے بلایا۔ اس ملاقات میں مودی کو گجرات جانے کا حکم دیا گیا۔ یوں پٹیل کی جگہ مودی وزیر اعلیٰ بن گئے۔

یہ پہلی مودی سرکار تھی، جس کا پہلا چیلنج تھا نئے الیکشن۔ جی ہاں! اگلے ہی سال پھر الیکشن تھے، جس میں جیتنے کے لیے بڑی کامیابی کی ضرورت تھی۔ لیکن مودی کی تیاری پوری تھی۔ ایک ایسا طریقہ، ایسا پیٹرن جو ان کے ہر الیکشن میں نظر آتا ہے، یعنی الیکشن سے پہلے کوئی بڑا واقعہ۔

سانحہ گودھرا

وہ 27 فروری 2002کی ایک صبح تھی۔ نریندر مودی کو گجرات اسمبلی کا رکن بنے صرف دو دن ہوئے تھے۔ ریاست کے شہر گودھرا کے ریلوے اسٹیشن پر معمول کی گہما گہمی تھی۔ سابرمتی ایکسپریس پلیٹ فارم سے روانہ ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد ایک ہجوم، جو نجانے کہاں سے آیا تھا؟ ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیتا ہے۔ پھر ریل گاڑی اچانک رک جاتی ہے، شاید کسی نے زنجیر کھینچ دی۔ اب ٹرین پر دونوں طرف سے پتھراؤ ہونے لگا، اور پھر اچانک بوگیوں کو آگ لگانے کا نعرہ لگا۔ کچھ ہی دیر میں چھ بوگیوں سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔

یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً ہوا کہ مسافر نکل بھی نہ سکے۔ حملے میں 59 لوگ اپنی جان سے گئے جن میں زیادہ تر ہندو یاتری تھے، جو ایودھیا سے احمد آباد واپس آ رہے تھے۔ اسی ایودھیا سے جہاں 10 سال پہلے بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔

پولیس نے واقعے کی تحقیقات کیں، 103 لوگوں کو گرفتار کیا اور الزام مسلمانوں پر لگا۔ پھر تو وہ آگ لگی کہ کیا گودھرا اور کیا احمد آباد؟ پورا گجرات ہی جل اٹھا۔ مسلمانوں پر تو وہ قیامت ٹوٹی کہ آج بھی سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

گجرات فسادات کا مونٹاج

بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کے بعد مودی کی شہرت ایسی ہو گئی کہ 2005 میں امریکا نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن گجرات میں جو کچھ ہوا، اس نے مودی کا کام بگاڑا کم اور سنوارا زیادہ۔ ہندو انتہا پسند اس کام سے بڑے خوش تھے، ملک کی بدلتی ہوئی سیاست کا ہر قدم مودی کے حق میں ہوتا چلا رہا تھا۔

لوگ مودی کو خدا ماننے لگے تھے۔ اس لیے جب دسمبر 2002 میں گجرات میں الیکشن ہوئے تو بی جے پی نے 182 میں سے 127 سیٹیں جیت لیں۔ مودی دوسری بار وزیر اعلیٰ بن گئے بلکہ 2007 میں تیسری بار بھی انہی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس ہیٹ ٹرک کے بعد اب مودی کی نظریں وزیر اعلیٰ سے آگے وزیر اعظم کی کرسی پر تھیں۔

پردھان منتری نریندر مودی

وہ جو کبھی ریلوے اسٹیشن پر چائے لے کر عوام کے پیچھے دوڑتا تھا۔ اب اس کے پیچھے عوام کا سیلاب تھا۔

مئی 2014 میں انڈیا میں جنرل الیکشنز ہوئے۔ لوک سبھا کی 543 میں سے 282 سیٹوں پر جیتی بھارتیہ جنتا پارٹی۔ اس کا نعرہ تھا ’’اچھے دن آئیں گے‘‘ اور وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار تھا نریندر مودی۔ لیکن Ghost of Godhra مودی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ سی این این پر کرن تھاپر کو دیے گئے انٹرویو میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بہت کچھ ظاہر کر گیا۔

اس کے بعد تو نریندر مودی نے فیصلہ کر لیا، وہ کبھی ایسا انٹرویو نہیں دیں گے، جس میں انہیں سوالات کا پہلے سے پتہ نہ ہو، مثلاً وہ انڈیا ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’آپ کی عدالت‘‘ میں گئے۔ وہاں جو کچھ ہوا، وہ دیکھنے کے قابل تھا۔

یہ تو ’’آپ کی عدالت‘‘ لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے دن ایڈیٹوریل ڈائریکٹر انڈیا ٹی وی قمر وحید نقوی نے استعفا دے دیا۔ انہوں نے کہا یہ پورا پروگرام فکس تھا اور مودی کی پروپیگنڈا مشین کا حصہ تھا۔ پروگرام میں مودی سے کوئی سخت سوال نہیں پوچھا گیا بلکہ حاضرین میں بھی مودی کے بھکت بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے نعرے بھی لگائے۔ یوں انڈیا میں میڈیا کی ایک قسم نے جنم لیا، جسے نام دیا گیا: گودی میڈیا۔ ایسا میڈیا جس نے ہندو انتہا پسندوں کی محنت کو دن دوگنی، رات چوگنی ترقی دی۔ انہی کی مدد سے خوف کی سیاست، نسل پرستی کی سیاست، جنگو ازم کی سیاست ایک سیاسی ٹیکنیک بن گئی۔

بہرحال، سیاست میں یہ سب بکتا ہے اور نریندر مودی بیچنے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ ‏26 مئی 2014 کو اس نے وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا اور بھارت بدل گیا! وہ انڈیا جو کبھی نان الائنڈ موومنٹ چلاتا تھا، اب Chest-Thumping اس کا نیا سیاسی کلچر بن گیا۔ اور war mongering نیا attitude۔ اور ملک سے باہر اس کا پہلا نشانہ بنا پاکستان۔ ‏2019 میں الیکشن جیتنے کے لیے مودی نے پھر وہی طریقہ استعمال کیا، جو کبھی گجرات میں کیا جاتا تھا۔

گھس کر ماریں گے!

نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاک-بھارت تعلقات خرابی کی انتہا کو پہنچ گئے۔ ہر پاپولسٹ رہنما کی طرح، مودی کا بھی خاص طریقہ واردات ہے: اپنی بات کم اور دشمن کی بات زیادہ۔ تو پہلا ہدف بنے انڈین مسلمان اور پھر پاکستان۔

انتہا پسند ہندو حلقوں میں تو پاکستان دشمنی بہت پرانی بات ہے اور مودی نے اس دشمنی کو بڑا کیش کروایا۔ پہلی بار وزیر اعظم بنا تو پاکستان سے ہر سطح پر بات چیت ختم کر دی۔ ملک میں مسلمانوں کے اندر بھی لاوا پک رہا تھا۔ خاص طور پر کشمیر میں، جہاں حالات بہت خراب ہو رہے تھے۔ ستمبر 2016 میں اُڑی میں انڈین فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا۔ 18 فوجی جان سے گئے۔ بھارت نے الزام لگایا پاکستان پر۔

پھر فروری 2019 میں پلواما میں نیم فوجی اہلکاروں پر حملہ ہوا، چالیس اہلکاروں کی جان گئی۔ اس مرتبہ بھی ذمہ دار قرار دیا گیا پاکستان کو بلکہ اس بار تو مودی سرکار نے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا۔ ‏26 فروری 2019 کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بالاکوٹ کے قریب بمباری کر دی۔ دعویٰ کیا کہ دہشت گردوں کا ایک ٹھکانہ تباہ کیا ہے، حالانکہ وہاں چند درختوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

بہرحال، رات کے اندھیرے میں کیے گئے اس حملے کا جواب پاکستان نے اگلے روز دن کے اجالے میں دیا اور کہا کہ ہم نے بھارت کے دو لڑاکا طیارے مار گرائے ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان کی حدود میں آ کر گرا اور پائلٹ گرفتار کر لیا گیا۔

پھر ایک ہیلی کاپٹر انڈیا کی فوج نے اپنے ہی ہاتھوں بھی مار گرایا۔ یوں اس واقعے نے پوری دنیا میں انڈیا کی دفاعی صلاحیتوں کا پول کھول دیا۔ رسوائی اپنی جگہ۔ پاکستان پر جوابی حملہ کرنے کی جرات بھی نہیں بچی اور ایسا ہو جائے تو پھر بدلہ مظلوموں سے لیا جاتا ہے۔

کچھ مہینوں بعد، اگست 2019 میں کشمیر کی وہ حیثیت ختم کر دی، جو اسے قانوناً حاصل تھی۔ انڈیا کے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا گیا۔ یوں کشمیر متنازع علاقہ نہیں رہا بلکہ بھارت کی کالونی بن گیا۔ یوں پاکستان اور بھارت کے جو رہے سہے تعلقات تھے، وہ بھی ختم ہو گئے اور نریندر مودی اور اُن کی پارٹی کا minorities کا دشمن ہونے کا داغ اور گہرا ہو گیا۔

بھارت میں جمہوریت ختم؟

نریندر مودی انڈیا میں اپنی مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم بنیں گے اور اسے دیکھتے ہوئے کئی نئے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ مودی تیسری بار الیکشن جیتے تو بھارت کا آئین بدل کر اسے ایک ہندو ملک بنا دیں گے کیوں کہ ہندو انتہا پسند ہمیشہ سے بھارت کی سیکولر آئینی حیثیت ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اس کام میں جو کوئی مودی کے ساتھ ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے نہیں چوکتا۔ مثلاً امیت شاہ، مودی کا دایاں بازو، ان کی حکومت کے وزیر داخلہ۔ پھر آتے ہیں آدتیہ ناتھ، انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ۔ کہا جاتا ہے کہ مودی کے بعد یہی انڈیا کے وزیر اعظم ہوں گے، سنیے کیا کہہ رہے ہیں:

جہاں مسلم آبادی 10 سے 20 فیصد ہے، وہاں اکا دکا فسادات ہوتے ہیں۔ جہاں 20 سے 30 فیصد ہے، فسادات سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن جہاں 35 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں وہاں غیر مسلموں کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں۔

یونین منسٹر Sadhvi Niranjan Jyoti صاف صاف کہہ گئیں کہ آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ آپ کو رام زادوں کی حکومت چاہیے یا **** زادوں کی۔ ساکشی مہاراج، رکن پارلیمنٹ بی جے پی کہتے ہیں جن کی چار بیویاں اور چالیس بچے ہیں ملک میں بڑھتی آبادی کے ذمہ دار وہ ہیں، ہندو نہیں۔ ونے کٹیار بی جے پی رہنما ہیں، فرما رہے ہیں کہ مسلمان کو تو اس ملک میں رہنا ہی نہیں چاہیے، انہیں پاکستان یا بنگلہ دیش چلے جانا چاہیے۔ اور رامن سنگھ، چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ریاست میں گائے کی قربانی نہیں ہو رہی، پچھلے پندرہ سال سے ریاست میں ایسا ہو رہا ہے! جو مارے گا، اسے لٹکا دیں گے۔

ایسے درجنوں نہیں سینکڑوں بیانات ہوں گے جو ان لوگوں نے دیے ہیں جو نریندر مودی کی پارٹی کا حصہ ہیں اور بہت اہم حصہ ہیں۔ تو جو الفاظ مودی کی زبان سے اب نہیں نکلتے، وہ ان کے ذریعے نکل رہے ہیں۔ خوف کی سیاست اپنے عروج پر ہے، بھارت بدل نہیں رہا، بھارت بدل چکا ہے۔

بدلتی دنیا، بدلتا بھارت

یہ ایک بدلتی دنیا ہے۔ پاپولزم نے دنیا کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ مشرق میں نریندر مودی سے لے کر مغرب میں ڈونلڈ ٹرمپ تک، ہر جگہ ایسے پاپولسٹ لیڈرز چھائے ہوئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ملک کی اکانمیز کے لیے انہوں نے بہت کچھ کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کی سیاست جمہوریت کے آفاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ اُن کی نسل پرستانہ اور نفرت پر مبنی سوچ نے اپنے ملکوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ امریکا سے انڈیا تک یہی کہانی ہے اور اس کہانی کا ہر کردار نفرت کے قابل ہے۔

شیئر

جواب لکھیں