اسکول کی چھٹی میں ابھی ٹائم تھا۔ لیکن وہ ہاف ڈے لے کر جلدی گھر آ گئی۔ مما نے کہا تھا کہ آج اسٹوڈیو جانا ہے۔ وہ ایکسائٹڈ بھی تھی اور کچھ ڈری ہوئی بھی۔

یہ لندن کا ایک چھوٹا سا میوزک اسٹوڈیو تھا۔ وہاں ایک ساؤنڈ پروف کمرے میں نوجوان میوزک پروڈیوسر ہیڈ فونز لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے بہت سی نوبز والا بڑا سا مکسر اور کچھ میوزکل انسٹرومنٹس پڑے تھے۔ ویسٹرن میوزک میں نام کمانے والے میوزک کمپوزر بدو کو کیا معلوم تھا کہ وہ جس گانے کا آڈیشن لینے جا رہا ہے وہ صرف ایشیا نہیں پوری دنیا میں اس کی پہچان بن جائے گا۔ بدو نے مڑ کر دیکھا تو چونک گیا۔ دو چُٹیاں باندھے اسکول یونیفارم میں ایک لڑکی اپنی امی کے ساتھ کھڑی تھی۔ کیا! یہ بچی گانے کا آڈیشن دے گی؟ اس نے دل میں سوچا۔

آپ کو عامر خان کی سیکرٹ سپر اسٹار یاد ہے؟ جب اِنسیا، شکتی کمار یعنی عامر خان کو آڈیشن دینے گئی تھی تو کسی کو یقین نہیں آیا تھا کہ یہ بچی گا بھی سکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال یہاں بھی تھی۔ لیکن یہ لڑکی تو اتنی دھیمی آواز میں بات کر رہی تھی کہ بدو کے لیے بات سمجھنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جس لڑکی سے اونچی آواز میں بات نہیں ہو رہی وہ اونچے سُر کیسے لگائے گی؟

اس لڑکی کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ لندن کی آزاد فضاؤں میں رہ رہی ہے۔ وہ تو مشرقی لڑکیوں سے کہیں زیادہ مشرقی لگ رہی تھی۔ نہایت سادہ، معصوم، بھولی بھالی۔ گڑیا جیسی لڑکی۔ ہرنی جیسی بڑی بڑی روشن آنکھیں جن میں ذہانت کے سا تھ معصومیت جھلک رہی تھی۔ کوئی بات تو تھی جو سب کو اس کی طرف کھینچ رہی تھی۔

بدو نے کندھے اچکائے، اور فلم پروڈیوسر نے جو کہا وہ کرنے لگا۔ اس نے لڑکی کو گانے کی ٹیون اور بول سمجھائے اور پھر آڈیشن شروع ہو گیا۔ وہ گھریلو سی لڑکی راگ اور مرکیوں سے کچھ خاص واقف نہ تھی، وہ بس ویسے ہی گاتی چلی گئی جیسے گھر میں گاتی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ وہ آڈیشن میں پاس ہوئی یا فیل۔ کم از کم کمرے میں موجود لوگوں کے چہروں سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔

گانے کا آڈیشن مکمل ہوا اور وہ لڑکی پھر سے اپنی پڑھائی میں مگن ہوگئی۔ یہاں تک کہ اسے یہ یاد بھی نہ رہا کہ اس نے کبھی کوئی آڈیشن دیا تھا۔ مگر ایک روز اچانک اسے ایسی خبر ملی جس نے پورے گھر والوں کو 440 واٹ کا جھٹکا لگا دیا۔ اُس پندرہ سالہ اسکول گرل کی خوبصورت آواز۔ بلاک بسٹر انڈین مووی ’’قربانی‘‘ کے ٹائٹل سانگ کے لیے سیلیکٹ کر لی گئی تھی۔ اور پھر وہ آئی تو بات بن گئی۔

آج ہم آپ کو کوئین آف پوپ، نازیہ حسن کی زندگی کی کہانی سنائیں گے، جو اُس کی آواز کی طرح دلکش بھی ہے اور درد ناک بھی۔ وہ نازیہ جس نے گایا تو دل جیت لیے، مگر پھر ایسا لگا جیسے کسی نے اس کی زندگی کا فارورڈ بٹن دبا دیا ہو۔ وہ صرف 35 سال کی عمر میں بہت کچھ حاصل کر کے دنیا سے چلی گئی۔ اور وہ گانا تو اب آپ کو یاد آ ہی گیا ہوگا۔ بھلا کوئی بھول بھی کیسے سکتا ہے۔

آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے، آ ہاں بات بن جائے

فیروز خان اس فلم کے پروڈیوسر تھے اور انہیں نازیہ کے آڈیشن پر مجبور کیا تھا فلم کی ہیروئین زینت امان نے۔ مگر شیلا نے راجیش کو منایا کیسے اور پھر وہ نازیہ تک کس طرح پہنچی؟ یہ دلچسپ واقعہ آپ کو آگے چل کر سنائیں گے۔ پہلے کچھ اس سانگ کا ذکر ہو جائے، جو اب ہمارے کانوں میں بجنا شروع ہو چکا ہے۔

نازیہ اسکول سے گھر آئی تو والدہ منیزہ بصیر نے بتایا کہ چند روز بعد ممبئی جا کر گانا ریکارڈ کرانا ہوگا۔ نازیہ بہت ایکسائیٹڈ تھی لیکن والد بصیر حسن تیار نہ تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اگر نازیہ نے ایک بار شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا تو تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ نازیہ نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اپنی پڑھائی پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ بصیر حسین نے تھوڑی ہچکچاہٹ تو دکھائی، مگر پھر مان گئے۔ یہ مرحلہ تو گزر گیا، لیکن آگے چل کر نازیہ کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آیا جب نہ صرف بصیر حسین نے کھل کر مخالفت کی بلکہ اُس فیصلے کا پچھتاوا انہیں ساری زندگی رہا، وہ فیصلہ کیا تھا؟ یہ ہم آپ کو آگے بتائیں گے۔

تو جناب کچھ ہی دنوں بعد نازیہ اور اس کی والدہ ممبئی روانہ ہو چکے تھے۔ گانا اسی ٹیپیکل ردھم اور میوزک پر بنا جس کی جھلک بدو کے ہر گانے میں دکھائی دیتی ہے۔ پھر اس گانے کی ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ اور جب وہ ریلیز ہوا تو جیسے ہر طرف نازیہ کی دھوم مچ گئی۔ شہرت کے ایسے ڈنکے بجے جو بھارت سے لے کر پاکستان بلکہ پوری دنیا میں سنے جانے لگے۔ نازیہ ممبئی کے جس ہوٹل میں ٹھیری وہاں انڈین میڈیا کے نمائندوں کا تانتا بندھا رہتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس شوخ اور چنچل آواز نے اگلی کئی دہائیوں تک دنیائے موسیقی کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ بیالیس برس گزرنے کے بعد، پوپ میوزک پر اس جادوئی آواز کے اثرات، آج بھی موجود ہیں۔

بات بن گئی

قربانی 1980 میں ریلیز ہوئی تھی، مگر نازیہ کا گانا فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہو چکا تھا۔ بلکہ یوں کہیے، پاکستان اور بھارت میں تو بچے بچے کی زبان پر تھا۔ صرف ایک دن میں اس گانے کی ایک لاکھ کاپیاں ہاٹ کیک کی طرح ممبئی میں خرید لی گئیں۔ سات ماہ میں یہ سونگ ون ملین پلاٹینم کلب میں شامل ہو گیا جو انڈین میوزک انڈسٹری کا ریکارڈ ہے۔

اس گانے ہی کا کمال تھا کہ ’’قربانی‘‘ جب سینمیا اسکرین پر آئی تو 80 کی دہائی میں کھڑکی توڑ رش دیکھا گیا۔ 12 کروڑ بزنس کرنے والی فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں آشا بھوسلے، محمد رفیع اور کشور کمار نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ لیکن وہ نازیہ کا ہی گیت تھا جس نے خود اسے اور اس کی محسن زینت امان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

لیکن زینت امان، نازیہ تک کیسے پہنچیں اور انہوں نے ایک نئی لڑکی کی آواز کا رسک کیوں لیا؟ اس بارے میں دو واقعات سامنے آتے ہیں۔ نازیہ کی والدہ منیزہ بصیر نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ زینت امان سے ان کی دوستی تھی۔ ایک دن وہ لندن میں ان کے گھر ملنے آئیں اور گٹار دیکھ کر پوچھا کہ اسے کون بجاتا ہے؟ منیزہ بولیں، میرے بچے۔ نازیہ اسکول سے واپس آئی تو زینت امان نے جھٹ بولا کہ کچھ گا کر تو سناؤ۔ انٹروورٹ نازیہ نے اپنے مخصوص انداز میں شرماتے ہوئے ان کی یہ فرمائش پوری کر دی۔ یہاں زینت امان کو داد دینا بنتی ہے کہ انہوں نے نہ صرف نازیہ کا ٹیلنٹ فوراً پہچان لیا بلکہ اس کو دنیا کے سامنے لا کر دم لیا۔

صحافی، شاعر اور نغمہ نگار یونس ہمدم کے مطابق نازیہ حسن کی پوری فیملی لندن میں چھٹیاں گزار رہی تھی۔ زینت امان نے دوستوں کے لیے ایک پارٹی رکھی، اور فیروز خان کا تو وہاں ہونا لازمی تھا۔ زینت امان کی دوست منیزہ بصیر بھی نازیہ کے ساتھ محفل میں شریک ہوئیں۔ یہاں پارٹی میں نازیہ نے ایک گیت گنگنایا۔ فیروز خان کو اس کمسن گلوکارہ کی آواز نے اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے وہیں نازیہ کو گانے کی آفر کر دی۔ اور پھر وہ ہوا جو ساری دنیا نے دیکھا۔

شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد نازیہ اب ایک اسکول گرل نہیں رہی تھی۔ اب وہ پوپ میوزک سننے والے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن چکی تھی۔ وہ پہلی پاکستانی گلوکارہ تھی جسے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ پندرہ سال کی عمر میں یہ ایوارڈ لینے کا ریکارڈ آج تک نازیہ ہی کے پاس ہے۔ اس ایوارڈ کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے پانے میں عمریں بیت جاتی ہیں۔

فلم پروڈیوسرز، میوزیشینز اور ایڈورٹائزرز نازیہ کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ کونسرٹس کرانے کے لیے کمپنیاں نازیہ کے گھر کے چکر لگاتیں۔ دنیا نازیہ کے قدموں میں بچھی جا رہی تھی، لیکن وہ تو اس گلیمرس ورلڈ سے دور خود کو ایک سوشل ورکر کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔

بڑے دل والی چھوٹی سی لڑکی

نازیہ کی زندگی کا مقصد صرف دولت کمانا نہیں تھا۔ اسے اپنے وعدے کے مطابق پڑھائی مکمل کرنا تھی۔ یہی نہیں، وہ مجبور اور بے سہارا افراد، خاص کر بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ ماں سوشل ورکر تھیں تو بیٹی خدمت سے کیسے پیچھے رہتی۔ نازیہ نے تھر میں بچوں کے لیے فنڈز اکٹھے کیے اور لیاری میں موبائل ہسپتال بھی بنائے۔ اپنے آخری دنوں میں بھائی کے ساتھ مل کر نشے کے خلاف مہم شروع کی۔ جب وہ دنیا سے گئی تو گھر والوں نے نازیہ کے نام پر ایک فاؤنڈیشن قائم کی جو آج بھی کام کر رہی ہے۔

نازیہ کا ذکر ہو اور ڈیڑھ سال چھوٹے بھائی ذوہیب کا نام نہ آئے، یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ دونوں بھائی بہن جب بھی اسکرین پر آتے تو دیکھنے والے سب کچھ بھول جاتے۔ ایسا لگتا جیسے دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اور سچ بھی یہی تھا کہ نازیہ کے بعد ذوہیب کی شہرت کا سورج بہت جلد غروب ہو گیا۔

ذوہیب کے الفاظ ہیں کہ نازیہ انتہائی ذہین اور حساس لڑکی تھی۔ اسے لوگوں کی محرومیوں، خاص کر بے سہارا بچوں کا بہت خیال رہتا۔ چلیں اس کی ایک چھوٹی سی مثال بھی سن لیں۔

منیزہ بصیر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نازیہ ہمیشہ اپنی سالگرہ منایا کرتی تھی۔ لیکن جب 14ویں سالگرہ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو نازیہ نے عجیب بات کی۔ نازیہ بولی، ’’مما، میں اب بچی نہیں ہوں جو سالگرہ مناؤں۔ آپ پلیز یہ کیک اور تحفے بے سہارا بچوں کو دے دیں۔‘‘ سن دو ہزار میں اس کے چلے جانے کے بعد سے آج تک نازیہ کی سالگرہ ایسے ہی منائی جاتی ہے۔

ڈسکو دیوانے

اسّی کی دہائی نازیہ حسن کی زندگی کا سب سے خوبصورت دور کہا جا سکتا ہے۔ ایک طرف وہ تعلیم جاری رکھے ہوئے تھی تو دوسری طرف میوزک کی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک کامیابی سمیٹ رہی تھی۔ کبھی ڈینگری کبھی فراک، کبھی جمپ سوٹ تو کبھی لیدر جیکٹ میں وہ نوجوانوں کی پوسٹر گرل بن چکی تھی۔ نازیہ کو پرائیڈ آف پرفارمنس، بیسٹ فی میل پلے بیک سنگر اور گولڈن ڈسک سمیت بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

1981 میں نازیہ حسن کا البم ’’ڈسکو دیوانے‘‘ مارکیٹ میں آیا اور چھا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی پاکستانی گلوکارہ کے گانے کو برٹش چارٹس میں جگہ ملی۔ یہی نہیں بھارت، پاکستان، روس، انڈونیشیا، برازیل سمیت دنیا کے 14 ملکوں میں اس البم کی 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔

اس دوران نازیہ کولکتہ گئی تو ایئرپورٹ پر ایک لاکھ لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ ڈسکو دیوانے کا انگلش ورژن ’’ڈریمیر دیوانے‘‘ برطانیہ میں ریلیز ہوا۔ اس گانے کو 2012 میں بننے والی بالی ووڈ فلم ’’اسٹوڈنٹ آف دی ایئر‘‘ میں ری مکس کیا گیا۔ پی ایس ایل فور میں یہی گانا آئمہ بیگ نے ہزاروں افراد کے سامنے گایا، نازیہ کی جادو ئی شخصیت اور خوبصورت آواز کو پیش کیا گیا یہ بہترین ٹریبیوٹ تھا۔

صرف بارہ سال میں نازیہ ذوہیب نے پانچ البم پروڈیوس کر کے دنیا کو حیران کردیا۔

1981 میں ڈسکو دیوانے، بیاسی میں بوم بوم، تراسی میں ینگ ترنگ، ستاسی میں ہاٹ لائن اور بانوے میں آخری البم کیمرا کیمرا ریلیز ہوا۔ آنکھیں ملانے والے، ڈم ڈم ڈی ڈی، تیری میری ایسی دوستی، دل کی لگی نازیہ کے بہترین سانگز میں سر فہرست ہیں۔ لیکن نازیہ کا اپنا فیورٹ گانا ’’ٹاہلی دے تھلے‘‘ تھا جو انہوں نے پہلی بار پنجابی زبان میں گایا۔

کون کہتا ہے کہ میوزک کے ساتھ ساتھ پڑھائی نہیں ہو سکتی۔ نازیہ نے لندن کی رچرڈ امریکن یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کیا اور اکنامکس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ یہی نہیں، نازیہ نے لندن یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری بھی لی۔ 1999 میں وہ اقوام متحدہ میں خواتین کے بین الاقوامی لیڈرشپ پروگرام میں شامل ہوئیں لیکن صحت کے مسائل نے انہیں یہاں زیادہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بطور سیاسی تجزیہ کار بھی کام کرتی رہیں۔

بنگلور کا بدو

آپ نے ’’پے بیک‘‘ مووی دیکھی ہے، اس فلم کا مشہور ڈائیلاگ تھا کہ اگر آپ اوپر جاتے جائیں، تو بات ایک آدمی پر جا کر رکتی ہے۔ اور وہ آدمی تھا بِدو۔ وہی انڈین بورن برٹش میوزک پروڈیوسر جس نے پہلی بار نازیہ کا آڈیشن لیا تھا۔ بِدو وہ پروڈیوسر تھا جس نے پاکستان اور انڈیا میں پاپ میوزک کو نئی پہچان دی۔

بِدو کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ بنگلور سے لندن چلا آیا۔ وہاں جان لینن کا ڈریس دیکھ کر وہ بڑا مایوس ہوا۔ اسے گانے کا شوق تھا مگر سنگر نہ بن سکا الٹا شیف بن کر ہوٹل میں کام کرنا پرا۔ ایک اسٹوڈیو میں جاب شروع کی جہاں جاپانی بینڈ کے لیے میوزک کمپوز کی تو وہ ہٹ ہوگئی۔ بہت جلد بدو ڈسکو میوزک کا نمبر ون پروڈیوسر بن گیا۔

بدِو نے امریکی بینڈ دی کارپینٹرز کی طرز پر نازیہ ذوہیب کو لانچ کیا جس میں بہن بھائی سنگرز تھے۔ ڈسکو دیوانے کی زبردست کامیابی کے بعد تنیوں نے تین اور البمز ریکارڈ کیے۔ فلم ’’قربانی‘‘ کے دو سال بعد ایک اور بھارتی فلم ’’اسٹار‘‘ میں نازیہ، ذوہیب کے البم ’بوم بوم‘ کے گانے شامل کیے گئےجن کی میوزک بِدو نے بنائی تھی۔

کہتے ہیں نازیہ، بِدو کے ساتھ ہی زیادہ کام کرنا پسند کرتی تھی۔ وہ اسے اپنا مینٹور سمجھتی کیونکہ موسیقی کی دنیا میں نازیہ کی پہچان بنانے میں بِدو کا کردار سب سے اہم تھا۔ نازیہ کے گانوں میں بِدو کی منفرد ردھم اور میوزک اسٹائل الگ سے ہی پہچانا جاتا تھا۔ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ نازیہ نے بِدو کے لیے گانے سے صاف انکار کر دیا۔

مگر نازیہ نے اپنے محسن کے ساتھ ایسا کیوں کیا، کیا یہ احسان فراموشی تھی؟ وہ جو اس کا کیریئر بنانے والا تھا، جو بڑے سے بڑے بینڈ اور فلم پروڈیوسر کو خاطر میں نہ لاتا، نازیہ کا جواب سن کر سکتے میں آگیا۔ واقعہ یہ ہے کہ بِدو نے 1995 کی انڈین فلم کے لیے گانا ’’میڈ ان انڈیا‘‘ تیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ نازیہ اسے اپنی آواز دے۔ گانے کے بول کچھ ایسے تھے جس میں لڑکی کو ایک ایسے آئیڈیل کی تلاش تھی جو انڈین ہو۔ نازیہ ایک پاکستانی ہوتے ہوئے یہ سب نہیں کر سکتی تھی۔ بعد میں یہ گانا الیشا چنائے نے گایا۔

میوزک سے دوستی

کیا نازیہ موسیقی کی دنیا میں حادثاتی طور پر آئی تھی؟ ہرگز نہیں۔ موسیقی سے لگاؤ تو اس کی فطرت کا حصہ تھا۔ بچپن ہی سے اچھی آواز اور خوبصورت ساز اس کی کمزوری تھے۔ ایک سنگر تو اسے بچپن سے اتنا پسند تھا کہ جب نازیہ کو اس کے ساتھ گانے کا کہا گیا تو گھبراہٹ میں اس کے گلے سے آواز ہی نہ نکلی۔ وہ سنگر کون تھا؟ یہ ہم آپ کو کچھ دیر میں بتائیں گے، مگر فی الحال ہم بات کر رہے ہیں کہ نازیہ نے پاپ میوزک کا رخ کیسے کیا۔

جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ نازیہ کی امی منیزہ سوشل ورکر تو تھیں ہی انہیں خود بھی میوزک کا بڑا شوق تھا۔ وہ ہر مہینے دو چار بار کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان سے موسیقی سیکھا کرتیں اور نازیہ بھی ساتھ ہوتی۔ رفتہ رفتہ نازیہ موسیقی کی طرف راغب ہونے لگی۔ جب اسکول گئی تو میوزک کی کلاسز بھی لینا شروع کر دیں۔

نازیہ میوزک کی طرف آنے کا کریڈٹ موسیقار سہیل رعنا کو دیا کرتی تھیں۔ نازیہ نے کیریئر کا آغاز 1975 میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے بچوں کے پروگرام ’’کلیوں کی مالا‘‘ سے کیا، جہاں انہوں نے اپنا پہلا گانا ’’دوستی‘‘ گایا۔ کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ محض دس سال کی بچی اتنا اچھا گا سکتی ہے۔

سہیل رعنا نازیہ کو یاد کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ ان کے پروگرام میں ایسے دو، تین بچوں میں شامل تھی جو ہمیشہ نگاہوں میں رہتے۔ وہ جو بھی دھن بناتے نازیہ فوراً یاد کر لیتی۔ سہیل رعنا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ نازیہ ایک انتہائی ذہین اور بہت ہی پیاری بچی تھی۔

نازیہ نے کئی گیت خود لکھے، اپنے بھائی ذوہیب حسن کے ساتھ مل کر دھنیں بھی خود ترتیب دیں۔ گانا پاپولر ہونے میں نازیہ کا رول کہیں زیادہ تھا، مگر ایک معاملے میں وہ بے بس تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی مرضی کی ٹیون نہیں بنا سکتی تھی۔ آخرکیوں؟ یہ آپ کو آگے چل کر بتائیں گے مگر چلیں پہلے آپ کو اس گلوکار سے ملواتے ہیں جن کے ساتھ گانے کا کہا گیا تو نازیہ کا جیسے دل دھڑکنا بھول گیا۔

1986 میں نازیہ کی آواز کا جادو پاکستان کے ساتھ بھارت میں بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ نازیہ کو بالی ووڈ فلم "میں بلوان" میں گانے کی پیشکش ہوئی۔ موسیقار بپی لہری تھے۔ نازیہ ریکارڈنگ کے لیے پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ میل سنگر کشور کمار ہوں گے۔ کشور کمار!!!! یہ نام سنتے ہی نازیہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ تو انہیں بچپن سے سنتی آئی تھی۔ وہ تو ان کی آواز کی دیوانی تھی۔ نازیہ کو لگا کہ وہ کشور کمار کے ساتھ نہیں گا پائے گی۔ اتنی دیر میں کشور آ گئے، اور آتے ہی نازیہ کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔ نازیہ کی جان میں جان آئی۔ اسے یوں لگا جیسے کشور اسے برسوں سے جانتے ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد نازیہ نے بڑی آسانی سے ’’ہلا گلا کریں ہم‘‘ اور ’’راک اینڈ رول‘‘ ریکارڈ کروا دیے۔ نازیہ کو لگتا تھا کہ یہ گانے سپر ہٹ ہوں گے مگر سننے والوں کا اپنا ہی مزاج ہے۔ ان گانوں کو وہ رسپانس نہ ملا جس کی توقع تھی۔

آگ کا دریا

اسی کی دہائی وہ گولڈن پیریڈ تھا جب شہرت کی دیوی نازیہ ذوہیب پر جی جان سے مہربان تھی۔ لیکن یہ سب کچھ بہت آسان نہیں تھا۔ یہ تو ایک آگ کا دریا تھا جس میں نازیہ کو ڈوب کر جانا پڑ رہا تھا۔ بہن بھائی کی جوڑی پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں روپوشی کی زندگی گزارنا پڑی۔ ان کا جینا مشکل ہو گیا اور اپنے ہی ملک کی زمین تنگ ہونے لگی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس پر آگے چل کر بات کریں گے مگر پہلے یہ جان لیں کہ وہ آخر کون تھا جو نہ صرف نازیہ کی بنائی بعض دھنیں تبدیل کر دیتا بلکہ جب چاہتا انہیں سرے سے مسترد کر دیتا۔

نازیہ نے اس راز سے بھی خود ہی پردہ اٹھایا۔ دراصل گیت لکھنا نازیہ کا کام تھا اور دھنیں نازیہ ذوہیب ایک دوسرے کے مشورے سے بناتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ نازیہ کو کوئی ٹیون بہت اچھی لگتی، اسے یقین ہوتا کہ لوگ اسے پسند کریں گے مگر ذوہیب اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہ اسے مسترد کر کے نئی ٹیون بنا لیتا اور نازیہ بھی تھوڑے سے احتجاج کے بعد ہتھیار پھینک دیتی۔ دراصل دونوں کے درمیان یہ طے تھا کہ آخری فیصلہ ذوہیب کا ہوگا اور پھر چھوٹے بھائی کا خیال تو وہ بچپن سے رکھتی آئی تھی۔

اور اب یہ بھی جان لیجیے کہ آخر وہ کیا بات تھی جس نے پاپ سنگرز بہن بھائی کی اس جوڑی کو نہ صرف مصیبت میں ڈال دیا بلکہ ان کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ گئیں۔ پاکستان میں نازیہ ذوہیب کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم شروع ہوئی اور دونوں پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیے گئے۔

یہ جنرل ضیا کا دور تھا۔ جب پی ٹی وی پر بہن بھائی ایک ساتھ ناچتے گاتے تو مذہبی حلقے شدید برا مناتے۔ ان پر الزام لگا کہ دونوں بہن بھائی اسلامی قدروں کو پامال کر کے مغربی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ اُن پر بے حیائی پھیلانے اور رشتوں کا احترام ختم کرنے کے الزام لگے۔ بات صدر ضیا تک پہنچی۔ وہ خود کو مرد مومن کہلانا شروع ہو چکے تھے۔ آرٹ پر بھی مرضی کا رنگ چڑھانے کی کوششیں جاری تھیں۔ یوں اس دور کی مشہور اور مقبول آوازوں کا نہ صرف پی ٹی وی بلکہ ریڈیو پاکستان پر بھی گلہ گھونٹ دیا گیا۔

کچھ ہی عرصے بعد جنرل ضیاء الحق کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بہن بھائی کی اس جوڑی کو اسلام آباد بلایا، کیمروں کے سامنے نازیہ ذوہیب سے ملاقات کی، انہیں لمبا چوڑا لیکچر دیا اور کچھ عرصہ بعد ان پر لگی پابندیاں ہٹا دی گئی۔ اس کے بعد دونوں بہن بھائیوں نے گایا اور خوب گایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پی ٹی وی کا کوئی بھی میوزیکل شو نازیہ کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا تھا۔

ان زبردست کامیابیوں کے بارے میں جب نازیہ حسن سے پوچھا گیا کہ ان کا راز کیا ہے؟ تو نازیہ کے اپنے الفاظ تھے:

ہم تو معصومیت کے ساتھ اپنے دل کی بات مان رہے ہیں، دل سے اٹھنے والی آواز کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، اور لوگ پسند کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور میں لبرل پالیسیوں کی وجہ سے نازیہ ذوہیب کو پوری طرح ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ملا۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ ان کے لیے سارے راستے ہموار ہو چکے تھے، اب تو مشکلات کے نئے باب کھلنا شروع ہوگئے تھے۔

شعیب منصور نے ’’میوزک 89‘‘ شروع کیا تو میزبانی کے لیے بہترین چوائس نازیہ ذوہیب تھے۔ اس پروگرام میں وائٹل سائنز سمیت دیگر بینڈز اور سنگرز کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ پروگرام کا پرومو پی ٹی وی پر چلا تو جیسے تہلکہ مچ گیا، نوجوان بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ جس رات یہ شو نشر ہوا اس کے اگلے روز ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ شو بند کرنے کے مطالبے ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ایک مذہبی جماعت نے پروگرام کو واہیات قرار دے کر احتجاجی جلوس بھی نکالا۔ ان ہی دنوں ذوہیب نے معین اختر کو ایک انٹرویو دیا جس نے گویا آگ لگا دی۔ ذوہیب نے نازیہ کے ٹیلنٹ، ذہانت، فن اور شخصیت کی بے حد تعریف کی۔ بہن کو اپنا محسن، دوست اور رہنما قرار دیا۔ یہاں تک کہہ ڈالا کہ نازیہ اگر بہن نہ ہوتیں تو میں ان سے شادی کر لیتا۔

پھر کیا تھا، مخالفین تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھے۔ ذوہیب کی اس بات کو بے ہودگی اور بے شرمی قرار دے کر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ پابندی لگانے اور ملک بدر کرنے کے مطالبے زور پکڑنے لگے۔ ذوہیب کا انٹرویو بعض اخبارات اور میگزینز نے مرچ مصالحہ لگا کر چھاپ دیا۔ ایسی ایسی ہیڈلائنز لگائی گئیں کہ بہن بھائیوں کے خلاف پہلے سے ابلتا لاوا مزید شدت سے ابلنے لگا۔ یہ شور اتنا بڑھا کہ نازیہ ذوہیب کو کچھ عرصہ روپوشی کی زندگی گزارنا پڑی۔

اب تک نازیہ شادی کے سوال کو ڈوج کرتی آئی تھیں لیکن یہاں نازیہ کی زندگی میں ایک اہم موڑ آیا اور انہوں نے کئی نوجوانوں کے دل توڑتے ہوئے اچانک شادی کا فیصلہ کر لیا۔ یہ شادی لو میرج تھی یا ارینجڈ، یہ کامیاب رہی یا ناکام، یہ سب آپ کو بتائیں گے مگر ابھی یہ جان لیں کہ نازیہ کا رشتہ کیسے طے ہوا؟

دل کی لگی

میوزک کی اس پری کے لیے رشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ لاکھوں دیوانوں کے دل نازیہ کے لیے دھڑکتے تھے۔ بڑے بڑے پیسے والے رشتے کے خواہش مند تھے۔ ماں باپ کی طرف سے بھی کوئی پابندی نہیں تھی، وہ چاہتیں تو آسانی سے اپنے لیے کسی مغربی نوجوان کا انتخاب کر لیتیں۔ لیکن نازیہ نے اپنے شریک حیات کے لیے گھر والوں کی پسند کو قبول کیا۔ یوں 30 مارچ 1995 میں وہ معروف پاکستانی بزنس مین مرزا اشتیاق بیگ کی دلہن بن گئیں۔

یہ شادی کیسے ہوئی؟ اشتیاق بیگ کہتے ہیں کہ یہ محبت کی شادی تھی۔ نازیہ ان کی بہن آفرین بیگ کی دوست تھیں۔ خاندانوں کا ملنا ملانا رہتا اور نازیہ سے ملاقاتوں کے بعد دونوں نے شادی کا ارادہ کیا۔

نئی زندگی کا آغاز کرتے ہی نازیہ اپنے سسرال کراچی لوٹ آئیں۔ یہاں ان کے لیے ایسا گھر بنایا گیا تھا جہاں دنیا کی ہر آسائش موجود تھی۔ یہ گھر شاہی محل سے کسی طور کم نہ تھا۔ مرزا اشتیاق بیگ کے بقول آج بھی وہ گھر ویسے کا ویسا ہے اور ہر شے اپنی جگہ پر ویسے ہی موجود ہے جیسے نازیہ کے وقت میں تھی۔

نازیہ اپنے شوہر کے ساتھ یورپ گھوم رہی تھیں، دیکھنے میں سب اچھا تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ دونوں میاں بیوی ریل کی پٹری کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی دور تھے۔ ہاں، شادی کے بعد ایک چیز ایسی ہوئی جسے نازیہ نے خود معجزہ قرار دیا، وہ معجزہ کیا تھا؟ یہ کچھ دیر میں آپ کو بتائیں گے، مگر سچ تو یہ ہے کہ جس دن نازیہ حسن اور اشتیاق بیگ کی جوڑی بن رہی تھی اس دن ایک جوڑی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ رہی تھی۔ یہ تھی دنیا کے مشہور پاپ سنگرز نازیہ ذوہیب کی جوڑی جس کے ٹوٹنے کا موسیقی کے شائقین کو آج تک رنج ہے۔

دیکھا جائے تو زندگی کا یہ سفر نہ نازیہ کو راس آیا اور نہ نازیہ کے کروڑوں مداحوں کو جو اس کی خوبصورت آواز اور شخصیت کے دیوانے تھے۔ ذوہیب کے لیے تو نازیہ کی شادی شہرت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی، ذوہیب نے اپنا کیرئیر جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکامی شاید ان کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔ دوسری طرف نازیہ کی ازدواجی زندگی کچھ ایسے مسائل میں الجھ گئی جس کی کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔ دونوں خاندانوں میں ٹکراؤ بڑھنے لگا اور کچھ خبریں میڈیا میں آنے لگیں۔ نازیہ کی امی کا خیال تھا کہ اشتیاق بیگ نے انہیں گانے سے روکا، یہی بات ذوہیب بھی اکثر انٹرویوز میں کہتے نظر آئے۔ ذوہیب کا آج تک یہی کہنا ہے کہ نازیہ نے شادی کے بعد ایک اذیت ناک زندگی گزاری۔

ذوہیب کے مطابق ان کے والد بصیر حسین پہلے دن سے اس رشتے کے مخالف تھے اور پوری زندگی ان کا یہی مؤقف رہا۔ سوال تو یہ ہے کہ یہ رشتہ کیا صرف منیزہ بصیر کی خواہش پر ہوا؟ ذوہیب نے اشتیاق بیگ پر نازیہ کو قید رکھنے اور زہر دینے تک کے الزامات لگائے۔ بقول ذوہیب، نازیہ کو اس کے شوہر نے اُس وقت طلا ق بھجوائی جب وہ بستر مرگ پر تھیں، اور طلاق کے بعد صرف پانچ دن زندہ رہیں۔ ذوہیب آج تک اپنی بہن کی موت کا ذمہ دار اشتیاق بیگ کو سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف اشتیاق بیگ ذوہیب کی باتوں کو سفید جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ذوہیب نے میوزک کیرئیر تباہ ہونے پر یہ سارے الزامات لگائے۔ اشتیاق کہتے ہیں کہ انہوں نے نازیہ کو طلاق نہیں دی تھی اور وہ آخری دم تک ان کی بیوی تھیں۔ دونوں گھرانوں کی یہ لڑائی اتنی بڑھی کہ معاملہ عدالتوں تک پہنچ گیا، مرزا اشتیاق بیگ نے جھوٹے الزام لگانے پر ذوہیب کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا۔

شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ موسیقی کی اس شہزادی کی لاش لندن کے سرد خانوں میں پانچ ماہ پڑی رہی؟ تدفین میں رکاوٹ کون تھا؟ اس سے آپ کو آگاہ کریں گے مگر فی الحال آپ کو بتاتے ہیں کہ نازیہ حسن کو زہر دینے کے الزامات میں صداقت ہے بھی یا نہیں۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اگست 2021 کو نازیہ کی موت سے متعلق اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔ اس میں لکھا گیا کہ نازیہ حسن کی موت قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ نہ انہیں زہر دیا گیا اور نہ ہی قید میں رکھا گیا۔ نازیہ کے والدین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کی موت سے پہلے اشتیاق بیگ طلاق دے چکے تھے، لیکن برطانوی حکام نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں لکھا کہ نازیہ مرتے دم تک اشتیاق بیگ کی بیوی تھیں۔ دونوں نے ایک ہی ایڈریس شیئر کیا تھا اور یہ مکان آج بھی اشتیاق بیگ کی ملکیت ہے۔

اب ذکر اس معجزے کا جس پر دونوں میاں بیوی بھی حیران تھے کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟

شادی سے پہلے 1992 میں نازیہ میں اوویرین کینسر کی تشخیص ہوئی، ان کی سرجری ہوئی جس کے بعد ڈاکٹروں نے نازیہ کو بتا دیا تھا کہ ان کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اشتیاق بیگ نے ایک انٹرویومیں بتایا کہ نازیہ کو ماں بننے کی شدید خواہش تھی۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ 7 اپریل 1997 کو ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عریز حسن رکھا گیا۔ یہ بات کسی معجزے سے کم نہ تھی۔

لیکن اب نازیہ کے پاس وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ نازیہ جب کینسر سے لڑ رہی تھیں تو انہیں محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ انہی دنوں ایک برطانوی میگزین نے ان کا مختصر سا انٹرویو شائع کیا جس کا ایک جملہ پڑھنے والوں کی آنکھیں نم کر گیا۔ نازیہ نے کہا، ’’موت تو ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے، لیکن مجھے لگتا ہے میرا ابھی مرنے کا وقت نہیں تھا۔‘‘

لنگ کینسر ڈائیگنوز ہونے کے بعد نازیہ کی طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تھی۔ نازیہ اپنے انتقال سے تین روز پہلے لندن کے ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئیں اور 13 اگست سن 2000کو محض 35 سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئیں۔

نازیہ کے گھر والوں نے اشتیاق بیگ پر بیوی کو سلو پوائزن دینے کے الزامات لگائے۔ برطانوی حکام نے لاش کے پوسٹ مارٹم اور فرانزک کا فیصلہ کیا۔ پانچ ماہ تحقیقات ہوتی رہیں اور پھر 9 جنوری 2001 کو نازیہ کی لاش گھر والوں کے حوالے کی گئی جسے لندن میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

جب نازیہ دنیا سے گئیں تو ان کا اکلوتا بیٹا عریز حسن دو، ڈھائی سال کا تھا۔ عریز سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا انہیں اپنی ماں کے بارے میں کچھ یاد ہے؟ اس سوال پر عریز حسن کا جواب تھا۔ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ ایک بار وہ مجھے چڑیا گھر لے کر گئی تھیں۔ میری والدہ کو ’’گولڈن وائس‘‘ اور ’’پائینیئر آف پاپ میوز‘‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، مگر جس چیز کی وجہ سے وہ میرے لیے سب سے اہم ہیں وہ یہ ہے کہ وہ میری ’’ماں‘‘ ہیں۔

نازیہ کے بارے میں کسی نے کہا کہ وہ زندہ تو صرف پینتیس سال رہیں لیکن 75 سالوں جتنا کام کر گئیں۔ وہ ایک ایسی حسین روح تھی جو دنیا سے جانے کے بعد آج بھی چاہنے والوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں