چین کی ایشیا پیسفک اسپیس کارپوریشن (APSCO) کے تعاون سے پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن ’’آئی کیوب قمر‘‘ چاند کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے۔ پاکستان نے جو مشن بھیجا ہے، کچھ لوگ اسے اسپیس ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان کے لیے ایک بڑی ’’خوش خبری‘‘ کہتے ہیں جبکہ کچھ اسے ’’خوش فہمی‘‘ قرار دیتے ہیں۔ آج کی پوڈ کاسٹ میں ہم بات کریں گے ابصار احمد صاحب کے ساتھ، جو ایرو اسپیس انجینیئر ہونے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ISST) میں لیکچرار بھی ہیں۔

اس پوڈ کاسٹ میں جب ذکر آیا کہ پچھلے سال ہمارے پڑوسی بھارت نے بھی اپنا مشن ’’چندریان تھری‘‘ چاند پر بھیجا تھا، تو ہم نے سوال رکھا کہ بھارت نے جو مشن بھیجا اور پاکستان نے جو مشن اب بھیجا ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ ہمارے مہمان نے اس کا تفصیلی جواب دیا۔

ابصار احمد نے بتایا کہ پاکستان کے پاس زمین کے مدار میں صرف 6 سیٹلائٹ ہیں جبکہ ہندوستانی سیٹلائٹس کی تعداد تقریباً 124 ہے۔ گفتگو کے دوران جن دیگر اہم امور پر بات ہوئی ان میں پاکستان کے بجٹ میں ایرو اسپیس اور اس سے متعلقہ یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کے خدشات شامل ہیں۔

پوڈ کاسٹ کے دوران ایسے سوالوں بھی ہوئے جو ہر خاص و عام کے ذہن میں ابھر رہے ہیں، مثلاً یہ کہ ہم اسے پاکستان سے لانچ کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر غیر معمولی اخراجات آتے ہیں؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں؟

ہمارے مہمان نے خلائی تحقیق میں پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے چند تجاویز بھی پیش کیں جن میں مزید سرمایہ کاری، تعلیم اور سرکاری و نجی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ ہمارے مہمان پُر امید ہیں کہ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو ایک دن پاکستانی سرزمین سے ہم خود اپنے جھنڈے تلے مشن شروع کر سکیں گے اور یہ بات ہمارے لیے باعث فخر ہو گی۔

شیئر

جواب لکھیں