نومبر 2018 کی بات ہے۔ شام کے پانچ بج رہے تھے دنیا کا امیر ترین شخص جیف بیزوس اپنے گھر کے ڈائننگ ٹیبل پر اکیلا بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے سامنے رکھے کپ کی کافی بھی (پڑے پڑے) ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اچانک اس کا فون بجا۔ اس کے دوست کا واٹس ایپ میسج آیا تھا۔

عورتوں سے بحث کرنا کسی سوفٹ وئیر کے لائسنس اگریمنٹ کو پڑھنے کے جیسا ہوتا ہے۔ آخر میں سب کو ’’Agree‘‘ ہی کلک کرنا پڑتا ہےـ

ویسے تو یہ ایک مذاق تھا لیکن بیزوس کے لیے نہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے اس کے گھر میں سب ٹھیک نہیں چل رہا تھا۔ لیکن اب تک یہ بات باہر کسی کو معلوم نہیں تھی۔ خیر، بات آئی گئی ہو گئی۔ اور پھر ٹھیک دو ماہ بعد بیزوس اور ان کی اہلیہ کی جانب سے ایک ٹویٹ آیا:

ہم اپنے سارے دوستو اور چاہنے والوں کو ایک اہم پیش رفت کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔ بہت سی کوششوں اور سوچ بچار کے بعد ہم دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔ اب ہم میاں بیوی نہیں بلکہ دوستوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔

ابھی سب اس خبر کو ہی ڈائجسٹ کر رہے تھے کہ اس ٹویٹ کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی نیوز پبلیکیشن نیشنل انکوائرر کی ایک خبر نے تہلکہ مچا دیا۔ خبر میں بتایا گیا کہ بیزوس کی طلاق کی وجہ ان کا لورین سینچیز نامی نیوز رپورٹر کے ساتھ ’’ایکسٹرا میریٹل افیئر‘‘ ہے۔ مگر بات یہی ختم نہیں ہوئی۔ نیشنل انکوائرر نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کے پاس جیف بیزوس کے وہ گندے میسجز اور عریاں تصاویر بھی موجود ہیں جو انہوں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود لورین کو بھیجیں۔

بیزوس کا گھر تو ٹوٹ ہی چکا تھا مگر اب اس کی عزت بھی خطرے میں تھی۔ وہ حیران تھا کہ اس کے اپنی گرل فرینڈ کو بھیجے گئے انتہائی پرائیویٹ میسجز نینشل انکوائرر تک کیسے پہنچے؟ تحقیقات شروع ہوگئیں۔ دو دن تک دنیا کی ایڈوانس ترین ڈیجیٹل فورنسک کمپنی ایف ٹی آئی بیزوس کا آئی فون ایکس کھنگالتی رہی۔ انہیں بیزوس کے فون میں کوئی ایسا میل وئیر نظر نہیں آیا جس پر شک کیا جا سکے۔

مگر یکم مئی 2018 کا ایک ویڈیو میسج تھا جسے لے کر انوسٹیگیڑز بہت پریشان تھے۔ کیوں کہ اس ویڈیو کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد سے جیف بیزوس کے فون سے روزانہ سینکڑوں ایم بی ڈیٹا کسی نامعلوم مقام پر ٹرانسفر کیا جانے لگا تھا۔ اور یہ ویڈیو جیف بیزوس کو بھیجی تھی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان المعروف ’’ایم بی ایس‘‘ نے۔

مگر محمد بن سلمان نے جیف بیزوس جیسے طاقتور ترین شخص کا فون ہیک کرنے کا رسک آخر لیا کیوں؟

محمد بن سلمان کون؟

سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز آل سعود کے 18 بیویوں سے 37 بیٹے اور 27 بیٹیاں تھیں۔ آج ان بیٹے بیٹیوں اور ان کی اولادوں کو ملا کر عبدالعزیز کا خاندان تقریباً بیس ہزار شہزادے شہزادیوں پر مشتمل ہے۔

صرف لوگ نہیں اس خاندان کے پاس پیسہ بھی بہت ہے۔ آج آلِ سعود کا شمار دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ صرف کنگ سلمان کی اپنی نیٹ ورتھ ہی 18 بلین ڈالر ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق 1996 میں سعودی حکومت کی جانب سے عبدالعزیز کے اپنے بچوں کو ہر مہینے (جی، ہر مہینے) 2 لاکھ 70 ہزار ڈالر، پوتے پوتیوں کو 27 ہزار ڈالر اور پڑ پوتے اور نواسیوں کو 13 ہزار ڈالر تک کی رقم جیب خرچ کے طور پر دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس رائل پوکٹ منی کی کل سالانہ ویلیو تقریباً 2 ارب ڈالر ہے۔

عبدالعزیز کے انتقال سے لے کر آج تک بادشاہت ان کے اپنے بیٹوں میں ہی چل رہی ہے۔ اور ابھی عبدالعزیز کے دو بیٹے پرنس مقرن اور پرنس احمد بھی حیات ہیں لیکن۔ عبدالعزیز کے پچیسویں بیٹے سلمان کا چھٹا بیٹا ’’محمد‘‘ کس طرح اپنے دو انکلز اور ہزاروں شہزادوں کو پھلانگتا ہوا سعودی تخت تک آ پہنچا ہے؟ یہ کہانی کسی ہالی وڈ مووی سے کم نہیں۔

بادشاہ بننے سے پہلے شاہ سلمان 50 سال تک ریاض کے گورنر کے طور پر کام کرتے رہے اور یہی وہ تقرری تھی جس سے ان کے تعلقات اور انفلیوینس میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

ایم بی ایس شاہ سلمان کی دوسری بیوی فہدہ کے پہلے بیٹے تھے۔ ان کی پہلی شادی سلطانہ بنت ترکی السدیری سے ہوئی۔ سلطانہ سے پانچ بیٹے فہد، سلطان، احمد، عبدالعزیز فیصل اور ایک بیٹی حاسہ ہوئی۔ یہ وہی حاسہ بنت سلمان ہیں جن کو 2019 میں فرانس کی ایک عدالت نے اپنے باڈی گارڈ کے ذریعے ایک پلمبر کو پٹوانے اور حبس بے جا میں رکھنے پر سزا بھی سنائی۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ اشرف عید نامی ایک پلمبر حاسہ کے اپارٹمنٹ کا باتھ روم ٹھیک کرنے پہنچا۔ کام کے دوران اس نے اپنے موبائل سے باتھ روم کی کچھ پکچرز لیں۔ ان میں ایک پکچر میں باتھ روم کے آئینے میں حاسہ کا ریفلکشن نظر آ رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا، شہزادی کا دماغ گھوم گیا۔ باڈی گارڈ بلوایا اور اشرف عید کی بقر عید کر دی۔ اس کیس میں شہزادی کو دس ہزار یورو جرمانہ بھی کیا گیا۔

شادی کے کئی سالوں بعد سلطانہ بنت ترکی کو گردوں کی بیماری ہو گئی جس کی وجہ سے وہ اکثر علاج کے لیے سعودیہ سے باہر رہنے لگیں۔ اسی دوران شاہ سلمان نے فہدہ بنت فلاح سے دوسری شادی کرلی۔ پست قامت فہدہ سے سلمان کے گھر 6 مزید بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سے سب سے پہلی اولاد تھے محمد بن سلمان۔

دو شادیوں کے باوجود شاہ سلمان اپنی پہلی بیوی کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ ایم بی ایس کی اماں جانتی تھیں کہ اگر انہیں اپنے بیٹوں کا فیوچر محفوظ بنانا ہے تو انہیں زیادہ سے زیادہ اپنے باپ کے قریب رکھنا ہوگا۔ اسی لیے وہ سلمان کی پہلی بیوی سلطانہ کی ناپسندیدگی کے باوجود اپنے بیٹوں کو ہر دوسرے دن کھانے کے بہانے باپ سے ملنے بھیج دیا کرتیں۔

محمد بن سلمان بچپن سے ہی کچھ الگ تھے۔ ان کے انگریزی کے ٹیچر بتاتے ہیں کہ جب میں محمد کو پڑھانے جاتا تو وہ بیٹھ کر پڑھنے کے بجائے گارڈز کا واکی ٹاکی لے کر کھیلنا شروع کر دیتا۔ لیکن کسی کی ہمت ہی نہیں تھی کہ صرف ۱۱ سال کے محمد کو کچھ بھی کہ سکے۔

خیر، سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ایم بی ایس بھی ہزاروں شہزادوں میں سے ایک شہزادے کے طور پر زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر نئی صدی شروع ہوتے ہی موت نے سلمان کا گھر دیکھ لیا۔

سال دو ہزار ایک اور دو ہزار دو میں شاہ سلمان کی پہلی بیوی کے دو بیٹے فہد اور احمد 46 اور 44 سال کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔ بتایا گیا کہ موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی، لیکن ہارٹ اٹیک کی وجہ کیا بنی؟ یہ آج تک ایک معما ہے۔

ان پے در پے سانحوں نے محمد بن سلمان کی سیاسی زندگی میں جان ڈال دی۔ شاہ سلمان تو پہلے بھی اپنی تمام اولاد میں ایم بی ایس کو سب سے زیادہ چاہتے تھے لیکن جب غم کی اس گھڑی میں محمد بن سلمان اپنے باپ کا سہارا بنے تو یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ محمد کو پسند کرنے کی ایک وجہ اور بھی تھی، اور وہ یہ کہ مغربی تعلیم اور کلچر نے سلمان کے باقی بیٹوں کو بہت متاثر کر دیا تھا۔ جبکہ سلمان خود کو ایک روایتی سعودی مرد تصور کرتے تھے۔ ایک ایسا شخص جو زمین پر بیٹھ کر ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے۔ اور محمد میں انہیں اپنا عکس نظر آ رہا تھا۔

مسٹر ایوری تھنگ

محمد بن سلمان ایم بی ایس کا بچپن بھی باقی شہزادوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ میں گزرا۔ لیکن جوانی باقی ہائی پروفائل شہزادوں سے بالکل مختلف تھی۔ جہاں باقی شہزادے لندن، پیرس، مناکو میں چھٹیاں گزارنے جاتے وہاں ایم بی ایس سعودی عرب کے صحراؤں میں ہی اپنی محفلیں سجاتے۔

نہ مغرب کی کسی یونی ورسٹی میں پڑھا، نہ کوئی ملٹری ایکسپیریئنس حاصل کیا اور نہ ہی بزنس کے میدان میں کوئی کمپنی وغیرہ چلائی۔ لیکن پھر بھی ان کے والد انہیں اپنے ہی دوسرے زیادہ کوالیفائیڈ اور ایکسپیرینسڈ بیٹوں پر ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اور شاید یہی پسند اور تعلق ایم بی ایس کو کراؤن پرنس کی کرسی تک لے گیا۔ اس پسند کے باوجود ایم بی ایس کا سفر بالکل بھی آسان نہیں تھا اور اس بارے میں ہم آپ کو اگلے چند منٹوں میں بتائیں گے لیکن پہلے کچھ ذکر ڈپٹی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کا۔

2015 میں بادشاہت سنبھالنے کے بعد شاہ سلمان نے پہلے تو اپنے چھوٹے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ہی اپنا ولی عہد بنایا۔ یہ وہی پرنس مقرن تھے جنہوں نے سعودی انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے نواز شریف اور پرویز مشرف کی 10-year ڈیل کروائی تھی۔ مگر پھر صرف تین ماہ بعد ہی، انہیں ہٹا کر اپنے بھتیجے اور وزیر داخلہ محمد بن نائف کو ولی عہد بنا لیا۔

عبدالعزیز کے سب سے چھوٹے بیٹے احمد بن عبدالعزیز کے زندہ ہوتے ہوئے بادشاہت کا اگلی نسل میں منتقل کیا جانا ایک بہت ہی بڑا قدم تھا۔ مگر اس سے بڑی خبر تھی محمد بن سلمان کی نائب ولی عہد کی حیثیت میں نامزدگی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عبدالعزیز کے کسی بیٹے نے اپنے ہی بیٹے کو بادشاہت کی لائن میں کھڑا کر دیا تھا۔

آزاد منش شہزادہ

امریکی سفیر جوزف ویسٹ فال ایک مزے دار واقعہ سناتے ہیں۔ 2015 کی بات ہے ایک دن وہ کراؤن پرنس محمد بن نائف سے ملنے جدہ پہنچے تو ایرپورٹ پر ہی ایک ہیلی کاپٹر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ مگر وہ ہیلی کاپٹر محمد بن نائف نہیں محمد بن سلمان کا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایم بی ایس آپ سے ملنا چاہتے ہیں پہلے آپ وہاں جائیں گے اور اس کے بعد کراؤن پرنس کے پاس۔

امریکن سفیر حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ خیر، وہ ہیلی کاپٹر سوار ہوگئے۔ کافی دیر اڑنے کے بعد ہیلی کاپٹر نے ایم بی ایس کے محل پر لینڈ کیا اور وہاں میٹنگ شروع ہوئی اور پھر میٹنگ چلتی گئی، چلتی گئی، چلتی گئی۔ یہاں تک کہ کراؤن پرنس محمد بن نائف کے ساتھ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔ میسج کلئیر تھا ایم بی ایس اپنے کزن کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کے پاس زیادہ طاقت ہے لیکن محمد بن سلمان کے لیے امریکی سفیر کافی نہیں تھا۔ ان کی نظریں اووَل آفس میں بیٹھے باراک اوباما پر تھیں۔ اور یہ موقع بھی انہیں اسی مہینے مل گیا۔

اوباما سے ملاقات

انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود سعودی بادشاہوں کا وائٹ ہاؤس میں زیادہ آنا جانا نہیں تھا۔ اس چیز کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں صرف دو بار سعودی فرمانروا امریکی صدر کے مہمان بنے ہیں۔

2011 کے عرب اسپرنگ اور پھر شام میں بھرپور حمایت نہ ملنے کی وجہ سے سعودی حکمران اوباما انتظامیہ سے بہت زیادہ خوش نہیں تھے۔ مگر نوجوان ایم بی ایس کو یقین تھا کہ وہ اپنی گرم جوشی سے اس برف کو پگھلا سکتے ہیں۔

یہی امیدیں لیے وہ اپنے والد شاہ سلمان کے ساتھ 5 ستمبر کو وائٹ ہاؤس پہنچے۔ اووَل آفس میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر نے شاہ سلمان پر انسانی حقوق، فریڈم اف ایکسپریشن اور خواتین کی ازادی جیسے معاملات پر بات کی۔ شاہ سلمان نے اوباما کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ سعودی سوسائٹی کی کلچرل ویلیوز سے واقف نہیں، اسی لیے ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مگر پھر ایک اور میٹنگ ہوئی جس میں صرف اوباما، قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس، شاہ سلمان اور ایم بی ایس موجود تھے۔ یہاں شاہ سلمان خود پیچھے ہٹ گئے اور ایم بی ایس کو آگے کر دیا۔

تیس سالہ محمد بن سلمان نے بات کرنا شروع کی۔ لہجہ اور اعتماد ایسا کہ سامنے امریکا کا صدر نہیں کوئی بچپن کا دوست بیٹھا ہو۔ معیشت سے لے کر مذہب، معاشرے سے لے کر مستقبل تک ہر چیز پر بولے۔ وہ اوباما کے سامنے ایک نئے سعودی عرب کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ ایک ایسا سعودی عرب جہاں کی معیشت صرف تیل پر نہیں چلے گی، جہاں کی عورتیں گھر میں نہیں بیٹھیں گی، جہاں صرف حج اور عمرے نہیں راک کونسرٹس بھی ہوا کریں گے۔ اوباما حیران تھے کہ یہ تیس سالہ لڑکا کیا باتیں کر رہا ہے؟ صدیوں پرانی قبائلی اور بدو سوسائٹی میں کس طرح ایسا انقلاب لایا جا سکتا ہے؟

اگلے دن محمد بن سلمان امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مہمان بنے۔ ابھی گفتگو چل رہی تھی کہ ایم بی ایس اچانک کھڑے ہوئے اور کیری کے ڈرائنگ روم میں رکھے پیانو کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ کیری حیران پریشان ایم بی ایس کو دیکھ رہے تھے۔ وہابیوں کا بیٹا اور پیانو؟

مگر پھر پیانو بجنا شروع ہوا۔ جیسے جیسے ایم بی ایس کی انگلیاں پیانو کی کیز دبا رہی تھیں، ویسے ہی امریکی حکام اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا رہے تھے۔ یہ سب کچھ ان کے لیے ناقابل یقین تھا۔ یہ انداز بالکل نرالا تھا۔

مگر ایم بی ایس کے انداز نرالے نہیں خطرناک بھی تھے۔ اسی میٹنگ کے دوران باتوں باتوں میں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو مسکراتے ہوئے کہا کہ مصری حکمران سیسی اس وقت تک اقتدار میں ہے جب تک میں چاہتا ہوں۔ جس دن میں نے فیصلہ کر لیا اس دن سیسی کا اقتدار ختم۔

ایسا بے باک پن تو امریکی صدر میں بھی نہیں تھا۔ جان کیری حیران تو تھے ہی لیکن ایم بی ایس کے سیاسی عزائم سن کر وہ پریشان بھی ہو گئے۔ نائب ولی عہد ایک انتہائی اہم اور بڑے مسلم ملک کے سربراہ کو ہٹانے کی بات اس طرح کر رہے تھے جیسے کوئی اپنے گھر کا ڈرائیور یا خانساماں ہٹاتا ہے۔

محمد بن سلمان ایم بی ایس کا یہی کھلنڈرا پن تھا جس نے اگلے چند سالوں میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے مڈل ایسٹ کو تباہی کے دہانے تک لے گیا۔ اس بارے میں بھی ہم آپ کو تفصیل سے بتائیں گے لیکن پہلے تھوڑا ذکر ایم بی ایس کی خاندانی زندگی کا۔

ایران کے خلاف محاذ

عرب ایران دشمنی صدیوں پرانی ہے۔ کبھی یہ فرقہ واریت کی شکل میں سامنے اتی ہے تو کبھی سیاست لیکن سچ یہ ہے خسرو سے لے کر خمینی تک ایرانیوں اور عربوں کی کبھی بنی نہیں۔ پھر بھی اتنے اختلافات، سازشوں اور ٹینشنز کے باوجود سعودیہ اور ایران کبھی جنگی میدان میں براہ راست ایک دوسرے کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اب تک یہ لڑائی پراکسیز کے ذریعے لڑی جا رہی تھی۔

2015 میں شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالتے ہی ایم بی ایس نے اس چھپن چھپائی کے کھیل کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے مینٹور محمد بن زید کو ساتھ ملایا، امریکہ کو آگاہ کیا اور یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا۔

محمد بن سلمان ایم بی ایس نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جزیرہ عرب میں ایک اور حزب اللہ کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہماری ریڈ لائن ہے۔ یمن کے مفلوک الحال قحط زدہ مسلمانوں پر ان کے اپنے پڑوسی ہی آگ برسانے لگے۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ مگر حوثی باغی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ابھی یہ جنگ چل ہی رہی تھی کہ ایم بی ایس نے ایران کے خلاف ایک اور محاذ کھول دیا۔

2016 کا دوسرا دن تھا، دنیا نے آنکھ کھولی تو خبر ملی کہ سعودی عرب میں چوالیس افراد کو ایک ساتھ پھانسی دے دی گئی ہے۔ سزائے موت دیا جانا سعودیہ میں ایک عام سی بات تھی لیکن 44 افراد ایک ساتھ۔ یہ پچھلے چھتیس سالوں میں سب سے بڑی اجتماعی پھانسی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ لیکن کچھ لوگ مملکت کی شیعہ اقلیت سے بھی تھے، اور ان میں سے ایک تو بہت مشہور تھا، شیخ نمر النمر۔

نمر ویسے تو ایک دھان پان سا شخص تھا لیکن جب اس کی زبان چلتی تو بڑے بڑے سورماؤں کے کلیجے پھٹ جاتے۔ ایسی گرج چمک اور شعلہ بیانی کہ یقین نہیں اتا تھا کہ یہ آواز اسی جسم سے نکل رہی ہے۔ پتلی سی سفید داڑھی اور سر پر عمامہ پہنے نمر جب کسی بھی موضوع پر تقریر شروع کرتا تو بات بالآخر گھوم پھر کر شاہی خاندان اور سعودی حکمرانوں پر آ جاتی۔

عرب اسپرنگ اور سوشل میڈیا کے عروج نے نمر کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ سعودی عرب کی آبادی کے تقریباً دس فیصد لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے اور ان کی اکثریت ملک کے مشرقی صوبے میں رہتی ہے۔ النمر بھی مشرقی صوبے کے ایک چھوٹے سے گاؤں عوامیہ سے تھے، اور اس علاقے کے لوگوں کا شاہی خاندان سے پرانا آکڑا تھا۔

ایران اور شام سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد النمر گاؤں واپس آئے اور ایک مقامی مسجد میں امام بن گئے۔ ویسے تو نمر ایک زمانے سے شیعہ حقوق کے لے آواز اٹھا رہے تھے لیکن ان کی فالوؤنگ بہت زیادہ نہیں تھی۔ ایک سفارتی کیبل میں امریکنز نے انہیں مقامی سیاست کا ایک سیکنڈری پلئیر قرار دیا تھا لیکن پھر بہار آ گئی۔

میں تیونس سے اٹھنے والے اس طوفان کی بات کر رہا ہوں جس نے تین سال تک پورے مڈل ایسٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور انہی طوفانی ہواؤں نے عوامیہ کے اس چھوٹے سے مبلغ کو شہرت کے اسمان پر پہنچا دیا۔ عمران خان کی کیا ہم کوئی غلام ہیں والی تقریر یاد ہے، نمر نے بھی ویسی ہی تقریریں شروع کر دیں۔ جس جگہ بھی وہ حکومت کرتے ہیں، بحرین، یمن، مصر، یا کسی بھی جگہ - ناانصافی کرنے والا حکمران نفرت کا نشانہ بنتا۔ انہوں نے کہا:

جو کوئی بھی ظالم کا دفاع کرتا ہے وہ اس کے ظلم میں اس کا شریک ہے، اور جو مظلوم کے ساتھ ہے وہ اس کے انعام میں شریک ہے جو اللہ سے ملتا ہے۔

انہوں نے سعودی قیادت کو غصہ دلایا جب انہوں نے شاہی خاندان پر حملہ کیا، ان کے اراکین کو شیعہ تاریخ کے وِلن سے تشبیہ دی اور انہیں ’’جابر حکمران‘‘ قرار دیا جنہیں گرایا جانا چاہیے۔ مزید کہا:

ایک کراؤن پرنس مرتا ہے، اس کی جگہ ایک نیا کراؤن پرنس اجاتا ہے! ہم کیا ہیں، کیا ہم ان کے لیے ایک مرغیوں کا فارم ہیں؟

ایک اور تقریر میں انہوں نے چیختے ہوئے کہا:

ہم آل سعود کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم انہیں حکمران کے طور پر قبول نہیں کرتے!

آخر نمر کی آواز آل سعود تک پہنچ گئی۔ 2012 میں نمر کی گرفتاری کے کے لیے پولیس ان کے گاؤں پہنچ گئی۔ چھاپے اور گرفتاری کے دوران صورت حال ٹینس ہو گئی۔ اسی دوران کہیں سے گولی چلنے کی آواز آئی۔ اگلے لمحے نمر زمین پر گرا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگ میں گولی لگ چکی تھی۔

موبائل فون کا زمانہ ہے کسی نے مولوی کی خون میں لپٹی تصویر کھینچی اور سوشل میڈیا پر پھیلا دی۔ پھر کیا تھا سچویشن اور خراب ہو گئی لیکن سعودی حکام فیصلہ کر چکے تھے۔ عدالت نے انہیں حکمران کے ساتھ غداری، فرقہ واریت، اور پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں موت کی سزا سنا دی۔ نمر کا سر کچلنا اب ناگزیر تھا۔

آل سعود کو شک تھا کہ نمر اکیلا نہیں یہ در اصل مڈل ایسٹ میں کھیلی جانے والی ایرانی گریٹ گیم کا ایک مہرہ ہے اور اس کی ڈور تہران سے ہلائی جا رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ چار سال گزرنے کے باوجود نمر کی سزا پر عمل نہیں ہو رہا تھا۔ خطرہ تھا کہ اگر پھانسی ہو گئی تو ردعمل العوامیہ نہیں تہران سے آئے گا۔

لیکن اب ریاض میں تبدیلی آ چکی تھی۔ ایک نیا حکمران ایک نئی سوچ کے ساتھ اقتدار کی مسند پر بیٹھ چکا تھا۔ ایم بی ایس کو سعودیہ کی روایتی خاموش سفارت کاری بالکل پسند نہیں تھی۔ وہ دوستی اور دشمنی دونوں کھلے عام کرنا چاہتے تھے۔ اور 2 جنوری 2016 کو نمر کو پھانسی دے کر انہوں نے تہران کو واضح پیغام دے دیا۔

ادھر پھانسی ہوئی، ادھر تہران میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ’’آل سعود کی موت‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہزاروں لوگ سعودی سفارتخانے پر حملہ اور ہو گئے۔ کھڑکیاں اور فرنیچر توڑ ڈالے اور عمارت کو آگ لگا دی۔ مختصراً سمجھیں وہ جناح ہاؤس والا حال کر دیا۔

سعودیوں کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ ایران کے سفیر کو ملک سے نکال باہر کیا ادھر ایران نے بھی وہی جواب دیا۔ بات اب پراکسیز سے آگے بڑھ چکی تھی۔ ایران اور سعودیہ آمنے سامنے اچکے تھے۔

پھانسیوں کے چند دن بعد، ایم بی ایس نے اکانومسٹ میگزین کو انٹرویو دیا، اس انٹرویو میں انہوں نے مملکت کے فیوچر پلانز کے بارے میں تفصیل سے بات کی ساتھ ہی النمر کی پھانسی کا بھی دفاع کیا اور کہا کہ یہ ایک قانونی عمل کا نتیجہ ہے حکمران اس میں کیا مداخلت کر سکتے ہیں۔

لیکن اس انٹرویو سے نکلنے والی سب سے بڑی خبر سیاسی نہیں معاشی تھی۔ ایم بی ایس نے اعلان کیا کہ سعودی حکومت نے ’’آرامکو‘‘ کے شئیرز فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سعودی نوجوان کی حیثیت سے ان کے کچھ خواب ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ باقی سعودی نوجوانوں کے بھی کچھ خواب ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اور باقی نوجوان مل کر ان خوابوں کی تعبیر کے لیے آپس میں مقابلہ کریں۔

خواب؟ مقابلہ؟ دنیا حیران تھی۔ ایسے الفاظ شاہی خاندان کے کسی فرد کے منہ سے پہلے کبھی نہیں سنے گئے۔ خیر، ایم بی ایس دنیا کو اپنے خواب تو سنا رہے تھے لیکن ان خوابوں کی تعبیر یقینی بنانے والا اقتدار اب بھی ان سے دو قدم دور تھا۔ وہ شاہ سلمان کے بیٹے تو تھے لیکن ولی عہدی کا منصب اب تک ان کے چچا محمد بن نائف کے پاس تھا۔ اور پھر ایم بی ایس نے خوابوں کی تعبیر شروع کر دی۔

سال 2007ء

ذرا اس ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں لوگوں کو دیکھیے۔ بائیں ہاتھ پر تو ایم بی ایس ہیں لیکن کیا آپ دائیں ہاتھ پر نظر آنے والے شخص کو جانتے ہیں؟ یہ شاہ سلمان کے ستاون سالہ بھتیجے اور ولی عہد محمد بن نائف ہیں۔ اب ذرا ایم بی ایس کی حرکتیں دیکھیے۔ وہ اپنے کزن کے سامنے جھکے جا رہے ہیں، ہاتھ چوم رہے ہیں، پیروں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ ویڈیو دیکھ کر تو لگ رہا ہے جیسے چھوٹا بھائی بڑے بھائی سے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہا ہو، ہیں نا؟ مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔

ذرا محمد بن نائف کے الفاظ پر غور کیجیے:

میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا، حمایت کا اعلان کرتا ہوں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو! میں ہر برے اور اچھے وقتوں کے لیے آپ کی حمایت اور بیعت کا اعلان کرتا ہوں۔

محمد بن نائف اپنے کزن محمد کے حق میں دست برداری کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ اعلان کیمروں کے سامنے کیا یا پھر کروایا جا رہا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ایم بی این سے ایم بی ایس تک ولی عہدی کا ٹرانسفر زور زبردستی کروایا گیا۔

اب یہ جیسے بھی ہوا مگر یہی وہ موقع تھا جہاں سے محمد بن سلمان نے باضابطہ طور پر سعودی عرب کا اقتدار سنبھال لیا۔ وہ محمد بن سلمان جنہیں مغرب میں ایم بی ایس اور سعودیہ میں ’’مسٹر ایوری تھنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔

بیس مئی 2017 کو امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب کے تین روزے دورے پر ریاض پہنچے۔ اوباما کو ٹھنڈ کرانے والے شاہ سلمان ٹرمپ کے لیے ائیر پورٹ پر ریڈ کارپٹ بچھائے کھڑے نظر آئے۔ ٹرمپ کو کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ شاہ سلمان کے ذاتی محل میں ٹھہرایا گیا۔ مگر یہ ’’ون سائڈڈ لو افئیر‘‘ نہیں تھا۔

ٹرمپ نے ایز پریذیڈنٹ پہلے سرکاری دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کر کے اور پھر ہاتھ میں تلوار اٹھائے سعودی لیڈرز کے ساتھ ناچتے ہوئے دنیا کو صاف پیغام دے دیا تھا کہ یہ دورہ سفارتی کے ساتھ ساتھ ذاتی نوعیت کا بھی ہے اور اس ذاتی تعلق کی وجہ تھی ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی ایم بی ایس سے دوستی۔ خیر کشنر کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔

سعودیہ اور امریکی تعلقات کی برف مئی کی گرمی میں پگھل چکی تھی اور اب آل سعود اور ال ٹرمپ کے درمیان گرم جوشی کا دریا ٹھاٹے مار رہا تھا۔ ٹرمپ کے اس دورے پر ان سے ملاقات کے لیے سعودیہ کے پڑوسی بھی ریاض پہنچے ہوئے تھے اور ان میں قطر کے امیر تمیم بن ثانی بھی موجود تھے۔ ان کی ٹرمپ کے ساتھ میٹنگ بھی کروائی گئی لیکن ان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ امریکی وزیر ٹلرسن کے ساتھ ارینج کیے گئے لنچ میں پہنچے تو انہیں امریکی اور سعودی وزرائے خارجہ سے بہت دور کچن کے دروازے کے پاس بٹھا دیا گیا۔ یہ رویہ سفارتی آداب کے بالکل خلاف تھا۔ وہ حیران تھا کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ لیکن پھر دو دن بعد ان کی حیرانی دور ہو گئی۔

قطر مخالف مہم

23 مئی 2017، قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کا عنوان تھا، امیر قطر کا نیشنل گارڈ کی گریجویشن تقریب سے خطاب۔ ویسے تو امیر قطر ہر سال اس گریجویشن میں شرکت کرتے تھے لیکن اس بار وہاں سے آنے والی خبر نے سب کو حیران کر دیا۔

36 سالہ نوجوان امیر نے اپنے خطاب میں پڑوسی سعودیہ اور پرانے دوست امریکا کی دھجیاں اڑادیں انہوں نے کہا کہ قطر میں موجود یو ایس بیس علاقے میں فوجی اثر رکھنے کا امریکہ کا واحد موقع ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی انہوں نے یہ بھی کہا کہ قطر اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی قانونی مشکلات ان کا وائٹ ہاؤس میں قیام مختصر کر سکتی ہیں۔

ٹرمپ جیسے لا ابالی اور جذباتی صدر پر ایسے براہ راست حملے، اور وہ قطر جیسی مُنی سی ریاست کے سربراہ کی جانب سے دنیا حیران تھی، چے پدی چے پدی کا شوربہ۔

مگر اس خبر سے صرف دنیا نہیں امیر قطر خود بھی حیران تھے کیوں کہ انہوں نے اس بار نیشنل گارڈ کی گریجویشن سے کوئی خطاب کیا ہی نہیں تھا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر خبر کو تمام قطری میڈیا سے ہٹوا دیا گیا۔ اور آفیشل بیان جاری کیا گیا کہ یہ خبر ہیکرز کی کارروائی تھی اور امیر قطر نے کہیں ایسا کوئی خطاب کیا ہی نہیں۔ اور اس بات کی گواہی گریجویشن تقریب میں موجود درجنوں غیر ملکی ڈپلومیٹس بھی دے رہے تھے۔

لیکن کارروائی کرنے والے کارروائی کر چکے تھے۔ پوری گیم پہلے سے سیٹ تھی۔ خبر ڈیلیٹ کرنے اور تردید کے باوجود چند ہی منٹوں میں سعودی اور اماراتی میڈیا نے اسمان سر پر اٹھالیا۔ ایک سعودی اخبار نے ہیڈ لائن لگائی۔ قطری امیر کا پڑوسیوں پر ایرانی خنجر سے وار۔ میڈیا وار کا آغاز ہو گیا لیکن اس محاذ پر قطر کو شکست دینا مشکل تھا اور بالآخر 5 جون کو سعودیہ، یو اے ای، بحرین اور مصر نے قطر سے تمام سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

سعودیہ اور قطر کے درمیان ٹینشن کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے 2013 میں بھی دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات کچھ ہفتوں کے لیے ختم کر دیے تھے۔ لیکن اس بار بات سفارتی محاذ سے آگے جاچکی تھی۔ اس بار قطر کے زمینی، فضائی اور سمندری راستوں کا بلاکیڈ بھی کر دیا گیا۔ قطر کے سامنے کم و بیش تیرہ مطالبات رکھے گئے تھے جن میں سے سب سے اہم یہ تھے:

  1. ایران کے ساتھ تعلقات کم کیے جائیں۔
  2. الجزیرہ نیوز نیٹ ورک بند کیا جائے۔
  3. ترکی کا فوجی اڈا ختم کیا جائے۔
  4. حماس اور اخوان سمیت دیگر انتہا پسند تنظیموں کو قطر میں کوئی جگہ نہ دی جائے۔

تین لاکھ لوگوں کی اس امیر مگر چھوٹی سی ریاست کے لیے یہ سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ پوری دنیا کو یقین تھا کہ قطر زیادہ دیر اس بلاکیڈ کو سہہ نہیں سکے گا۔ ایم بی ایس نے بیان دیا:

قطر کو پیچھے تو ہٹنا پڑے گا۔ اب یہ ان پر ڈپینڈ کرتا ہے کہ وہ کتنی جلدی سیکھتے ہیں۔

لیکن پھر اس چھوٹی سے ملک نے ایک ایسا کام کیا جس کی کسی کو امید نہیں تھی۔ قطر ڈٹ گیا۔ تیرہ میں سے ایک بھی ڈٰیمانڈ نہیں مانی بلکہ دنیا کے سب سے بڑے اسپورٹنگ ایونٹ ’’فٹبال ورلڈ کپ‘‘ کی تیاریاں اور زور شور سے شروع کر دیں۔ اور پھر تقریباً ساڑھے تین سال بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑا۔

جنوری 2021 میں بغیر کوئی شرط منوائے قطر کا بلاکیڈ ختم کر دیا گیا۔ مگر یہ ایم بی ایس کے کیرئیر کا آخری یو ٹرن نہیں تھا۔ ابھی انہیں اور بھی بہت سے یوٹرن لینے تھے اور ویسے بھی عمران خان نے کہا تھا نا کہ یوٹرنز تو ایک لیڈر کی بڑی خوبی ہوتے ہیں، یوٹرنز تو اچھے ہوتے ہیں۔

مصلح قوم محمد بن سلمان

17 ستمبر 2017 کا دن تھا۔ امریکی صحافی بین ہبرڈ اپنے ریاض ہوٹل کی لابی میں بیٹھے تھے کہ انہیں ایک ٹیکسٹ موصول ہوا:

Make sure you’re around a computer/tv/twitter after 9:30 pm tonight.

یہ میسج انہیں ایک قریبی دوست نے بھیجا تھا۔ بین خبر کی کھوج میں بے چین ہو گئے فوراً پوچھا کہ کیا کوئی اشارہ مل سکتا ہے؟ جواب آیا کہ کچھ ہونے والا ہے، یعنی کچھ بھی! بین کے دماغ میں بہت سے خدشات اٹھنے لگے لیکن بالآخر ان کا دماغ دو چیزوں پر جا کر رک گیا:

شاہ سلمان اپنے بیٹے محمد کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
یا پھر
سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ختم ہونے والی ہے۔

بین نے جلدی جلدی دونوں ایونٹس سے متعلق چھوٹی چھوٹی خبریں پہلے سے تیار کرلیں تاکہ نیوز بریک ہونے کی صورت میں وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کو تفصیلات بھیج سکیں۔ پھر جیسے ہی ساڑھے نو بجے تو سرکاری سعودی نیوز چینل پر ایک خبر بریک ہوئی، جون 2018 سے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ختم کرنے کا اعلان ہو گیا۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس اجازت کا مقصد لاکھوں سعودی خواتین کے دل جیتنا یا پھر ’’وومن امپاورمنٹ‘‘ ہوگا؟ شاید وہ بھی ہو، لیکن سب سے بڑا مقصد ان بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور میڈیا نمائندوں کی نظر میں امیج بلڈنگ کرنا تھا جو اگلے چند ہفتوں میں ہونے والی فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض آنے والے تھے۔

پھر وہ دن آ گیا۔ رٹز کارلٹن ہوٹل کے ساتھ ہی بنے کنونشن سینٹر میں ہزاروں لوگ جمع تھے اور سب کی نظریں اسٹیج پر بیٹھے محمد بن سلمان پر تھیں۔ ایم بی ایس اسٹیج پر آئے اور 500 بلین ڈالرز سے بننے والے ’’نیوم پراجیکٹ‘‘ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے جیب سے دو فون نکالے ایک پرانے زمانے والا نوکیا اور دوسرا لیٹسٹ آئی فون اور کہا:

یہی فرق آج کی دنیا اور ’’نیوم‘‘ میں ہوگا۔

نیوم لاطینی لفظ ’’نیو‘‘ یعنی نیا اور عربی لفظ مستقبل کے ’’میم‘‘ کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔ یعنی نیا مستقبل۔ ایم بی ایس کی پریزنٹیشن دیکھ کر لگ رہا تھا کہ نیوم کا صرف انفرا اسٹرکچر نہیں، لوگ بھی نئے ہوں گے، ہر کوئی خوب صورت اسمارٹ، ذہین، خوش اور بے انتہا مال دار۔ بس یوں سمجھیے زمین پر جنت ٹائپ ماحول بنانے کا ارادہ تھا۔

محمد بن سلمان ایم بی ایس کی دعوت پر پہلی بار سعودیہ آنے والے لوگ تو انگشت بدندان تھے لیکن سلطنت کے معاملات پر نظر رکھنے والے پرانے تجزیہ کار جانتے تھے کہ تخت پر بیٹھنے والا ہر نیا بادشاہ اپنے ساتھ کچھ نئے خواب بھی لاتا ہے جن میں سے اکثر کبھی پورے نہیں ہو پاتے۔

ابھی دس سال پہلے ہی شاہ عبداللہ نے معیشت اٹھانے اور بیرونی سرمایہ کاروں کی آسانی کے لیے چھ اکنامک سٹیز بنانے کا اعلان کیا تھا۔

سوالات سب کے ذہنوں میں تھے مگر زبانیں خاموش تھیں مگر پھر اس سرمایہ کاری کانفرنس کے دوران ایم بی ایس نے ایک سیاسی اعلان بھی کر دیا۔ ایک ایسا اعلان جس نے جس نے ریاض سے لے کر واشنگٹن تک سب کو حیران کر دیا:

ہم اگلے تیس سال کسی انتہا پسند نظریہ کو ڈیل کرتے ہوئے ضائع نہیں کریں گے، انتہا پسندی کا خاتمہ آج اور ابھی ہوگا۔ ہم ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے، ہمیں ماڈریٹ اسلام کی طرف واپس جانا ہوگا۔ ایسا اسلام جس میں دنیا کے تمام لوگوں کے لیے گنجائش ہو چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا کلچر سے ہو۔

جہاں مغربی میڈیا نے اسے انقلابی اعلان قرار دیا وہیں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہزاروں سعودی فنڈڈ مدارس میں بیٹھے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس پریشان تھے۔ اگر وہابی ازم کا پراجیکٹ بند ہو گیا تو ان کا کیا ہوگا؟

ابھی دنیا روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے ان اعلانات کو ڈسکس ہی کر رہی تھی کہ اس کانفرنس کے چند دنوں بعد ہی دو ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے سعودیہ اور باہر کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

لبنان کے نوجوان وزیر اعظم سعد حریری ابھی چند دن پہلے ہی سعودی انویسٹر کانفرنس میں شرکت کر کے واپس بیروت پہنچے تھے کہ 3 نومبر کو انہیں ایم بی ایس کے دفتر سے کال آئی۔ کراؤن پرنس ان کے ساتھ صحرا میں ویک اینڈ گزارنا چاہتے ہیں۔ لبنان کا حریری خاندان سعودی فنڈنگ اور حمایت کی وجہ سے ایک زمانے سے آل سعود کا وفا دار رہا ہے، تو سعد کیسے منع کر سکتے تھے؟ بیگ پیک کیا اور دوبارہ ریاض پہنچ گئے۔

جب وہ ریاض پہنچے، تو انہیں ان کے پروٹوکول کے مطابق ایک موٹر کیڈ میں ان رہائش گاہ تک پہنچا دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ انتظار کریں۔ پوری شام گزر گئی لیکن کوئی خبر نہ آئی۔ رات کے ایک بجے کال آئی کہ آپ کو ملاقات کے بارے میں کل بتایا جائے گا۔

اگلی صبح آٹھ بجے سے پہلے کال آئی، کہ وہ فوراً ایم بی ایس کے محل پہنچیں۔ خیر حریری جینز، جوتے، اور ایک آرام دہ شرٹ پہن کر ایم بی ایس کے محل پہنچ گئے کیونکہ انہیں تو صحرا جانے کا بتایا گیا تھا۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو حالات واقعات اور جذبات سب بدلے ہوئے تھے۔ بین ہبرڈ اپنی کتاب ’’ایم بی ایس‘‘ میں لکھتے ہیں:

محل میں داخل ہوتے ہی شاہی گارڈز نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور حریری کے ساتھ آنے والے باقی افراد کو گاڑیوں سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

سعد اور ان کے دو محافظوں کو اندر لے جایا گیا، اور ان سب کے موبائل فونز، ہتھیار، اور بیلٹس اتار لیے گئے۔ پھر حریری کو اکیلے ایک اور کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ٹھاکر جیسے دو ریاستی اہلکار۔ ٹھاکر یاد ہے نا؟ بس ویسے ہی دو اہلکار ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے حریری کو گالیاں دینا شروع کر دیں، گریبان پکڑا دھکے دیے۔

حریری حیران تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے وہ تو اپنے دوست ایم بی ایس کے ساتھ ویک اینڈ پکنک منانے آیا تھا۔ یہاں تو اس کا سافٹ وئیر اپڈیٹ کیا جا رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے کہ پھر ان دو اہلکاروں میں سے ایک نے اس کے سامنے اپنی ڈیمانڈ رکھ دی:

ابھی اور اسی وقت وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو جاؤ ورنہ مزید خراب برتاؤ کے لیے تیار ہو جاؤ۔

حریری کے معاونین کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ کبھی بدسلوکی نہیں ہوئی۔ خیر جو بھی ہوا، حریری نے ہار مان لی لیکن وزیر اعظم ٹریک سوٹ میں استعفا دیتا تو اور سوالات کھڑے ہوتے۔ اس لیے ان کے ساتھ آنے والے ایک شخص کو گھر بھیجا گیا تاکہ ان کا کوئی سوٹ لایا جائے۔ حریری کے ہاتھ میں ایک پرچہ دیا گیا جس میں ایک اسٹیٹمنٹ لکھا ہوا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے پی ٹی آئی والے نو مئی کے بعد نیشنل پریس کلب میں پڑھ رہے تھے۔

اور پھر 4 نومبر 2017 کی دوپہر کو وہ اچانک لبنانی جھنڈے کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے ہوئے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور تقریر پڑھنا شروع کی۔ تقریر میں ایران اور حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ایران کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی، عرب دنیا اٹھے گی اور ان ہاتھوں کو کاٹ ڈالے گی جو اسے نقصان پہنچانے میں لگے ہیں۔ اور پھر انہوں نے عظیم تر قومی مفاد میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔

ان کے پارٹی کے لوگ اس لیے حیران تھے کہ آج سے پہلے سعد نے کبھی اس طرح کی زبان ایران اور حزب اللہ کے خلاف استعمال نہیں کی تھی۔ اور پوری دنیا اس لیے حیران تھی کہ لبنان کا وزیر اعظم ریاض میں بیٹھ کر کیوں مستعفی ہو رہا ہے؟ لیکن ایم بی ایس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی کیا کہ رہا ہے۔

اگلا نشانہ

4 نومبر 2017 کا دن تھا۔ ولید بن طلال سمیت درجنوں شہزادوں اور سینکڑوں کاروباری شخصیات کو کالز موصول ہوئیں۔ انہیں بتایا گیا کہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کچھ کاروباری معاملات کے سلسلے میں ان سے ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں ملنا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کا بلاوا تھا کوئی کیسے انکار کر سکتا تھا، سب فٹافٹ پہنچ گئے۔ مگر پھر جو ہوا وہ شاید اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔

جیسے ہی وہ وہاں پہنچے تو ان کے موبائل فونز ان سے لے لیے گئے، آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں اور ہوٹل کے فائیو اسٹار کمروں میں بند کر دیا گیا۔ ان پر الزام تو ریاست کے وسائل کے ناجائز استعمال یا پھر کرپشن کا لگایا گیا مگر ہر کوئی جانتا تھا کہ اصل مقصد ان تمام طاقتور شہزادوں کو ’’سیدھا‘‘ کرنا تھا۔ انہیں بتانا تھا کہ ایم بی ایس از دا نیو باس ان ٹاؤن اور اس کے ساتھ کوئی گڑبڑ برداشت نہیں ہوگی۔

محمد بن سلمان ایم بی ایس کے سارے کام ہی نرالے ہوتے ہیں شہزادوں کے لیے جیل بھی بنائی تو فائیو اسٹار۔ خیر شہزادوں کو سیدھا کرنے کا یہ کام توقعات سے زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور پھر بالآخر 83 دن بعد معاہدہ ہو گیا اور معاملات طے ہو گئے۔ لیکن اس معاہدے میں طے کیا ہوا؟ یہ ان شہزادوں اور سعودی حکومت کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

مگر صرف یہ شہزادے ہی ایم بی ایس کے راستے کی رکاوٹ نہیں تھے۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اور مہرے بھی تھے جنہیں راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔

جمال خشوگی کا قتل

جمعہ 7 ستمبر کا دن تھا۔ ایمریٹس ائر لائن کی فلائٹ اٹینڈنٹ حنان علاتر نے نیویارک لینڈ کرتے ہی اپنی یو ایس سم موبائل میں لگائی اور واٹس اپپ پر اپنے نئے نویلے دلہا کو میسج کیا:

جمال میں ہوٹل کے راستے میں ہوں، تم کہاں ہو میری جان؟

حنان علاتر کی جمال خشوگی سے ابھی تین مہینے پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔ مگر جمال کے کام اور حنان کے فلائٹ شیڈولز کی وجہ سے یہ شادی شروع سے ہی مشکلات کا شکار تھی۔ اس بار بھی اگلے ہی دن جمال کو کام کی وجہ سے واشنگٹن ڈی سی جانا پڑا۔ مگر حنان نہیں جانتی تھیں کہ یہ مختصر ملاقات ان کی اپنے شوہر سے آخری ملاقات ثابت ہوگی۔

لیکن جمال کے سر پر صرف کام نہیں ایک اور خاتون بھی سوار تھیں۔ جمال خشوگی خدیجہ چنگیز نامی ایک ترک خاتون سے تیسری شادی کرنا چابتے تھے۔ مگر انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس تیسری شادی کا ارادہ انہیں موت کی وادی میں لے جائے گا۔

59 سالہ جمال خشوگی پچھلی تین دہائیوں سے سعودی عرب میں صحافت کر رہے تھے۔ اس پورے ٹائم میں انہیں اسٹیبلشمنٹ اور شاہی خاندان کی بھرپور سپورٹ حاصل رہی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے متعلق ایسی ایسی خبریں بھی بریک کیں جن کا کوئی عام سعودی صحافی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن 2017 میں ولی عہد بننے والے ایم بی ایس ایک نیا سعودیہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس نئے سعودیہ میں پرانی اسٹیبلشمنٹ اور پرانے دوستوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی نے یہ پیغام واضح الفاظ میں جمال تک پہنچا دیا۔ اب سے ان کے ٹویٹ کرنے، لکھنے اور میڈیا سے بات کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔

چند ہی ہفتوں میں دہائیوں کا وفا دار غدار بن گیا۔ کچھ سنا سنا لگ رہا ہے نا؟ اسٹیبلشمنٹ ہر جگہ کی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ خیر پابندیوں سے تنگ اکر جمال خشوگی اسی سال سعودیہ سے امریکا شفٹ ہوگئے۔ وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھنے لگے۔ ان کے کالم ناراض مگر خاموش پرانی سعودی اسٹیبلشمنٹ کی آواز بن گئے۔ اور ان تمام کالمز کا نشانہ تھے نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان۔

یاد ہے ہم نے آپ کو شروع میں امیزون کے مالک جیف بیزوس کا فون ہیک ہونے کی کہانی سنائی تھی؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس تفصیلی وجہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔ اگر آپ کو یاد ہے تو ٹھیک ورنہ آگے بڑھنے سے پہلے شروع کے اقتباسات دوبارہ پڑھ لیجیے۔

تو قصہ کچھ یوں ہے کہ 1877 میں شروع ہونے والا واشنگٹن پوسٹ، ڈیجیٹل میڈیا کی آمد کے بعد سخت مالی مشکلات کا شکار تھا۔ اخبار کے مالکان نقصان کر کر کے تھک چکے تھے اور بیزوس امیزون سے کما کما کر۔ پھر کیا تھا؟ 136 سال پرانی پبلیکشن کا 250 ملین ڈالر میں سودا ہوگیا اور جمال خشوگی بیزوس کے واشنگٹن پوسٹ میں مسلسل ایم بی ایس مخالف کالمز لکھ رہے تھے۔

اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بیزوس کا فون کیوں ہیک کیا گیا۔ خیر اگے بڑھتے ہیں۔ جمال خشوگجی خدیجہ چنگیز سے شادی کرنا چاپتے ہیں مگر یہ شادی ہونے کے لیے حنان علاتر سے شادی ٹوٹنا ضروری تھی۔ خشوگی نے دس سال پرانی دوست اور چند ماہ پرانی بیوی کو طلاق دے دی۔

اس طلاق کا باضابطہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے وہ 28 ستمبر کو استنبول کی سعودی قونصلیٹ گئے۔ مگر انہیں بتایا گیا کہ ان کا ڈاکومنٹ اس وقت تیار نہیں ہے، 2 اکتوبر کو آ جائیں ڈاکومنٹ مل جائے گا۔ سی سی ٹی وی کے مطابق 2 اکتوبر کو دن ۱ بج کر 14 منٹ پر جمال خشوگی سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوئے اور پھر کبھی باہر نہ آ سکے۔

جمال خشوگی کو شک تھا کہ ان کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو سکتی ہے اسی لیے وہ اپنی منگیتر کو اپنے فونز کے ساتھ ساتھ ترک صدر اردگان کے مشیر کا نمبر بھی دے کر گئے تھے کہ اگر وہ واپس نہ آئیں تو وہ فوراً انہیں مطلع کر دے۔

گھنٹے دنوں اور ہفتوں میں بدل گئے۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک ساری دنیا میں شور مچ گیا۔ خشوگجی کہاں گیا؟ اور پھر ترک انٹیلی جنس نے قونصلیٹ کے اندر کی خفیہ ریکارڈنگز میڈیا کو لیک کرنا شروع کر دیں۔ جو گفتگو سامنے آئی وہ خوفناک تھی:

کیا قربانی کا جانور آ گیا؟

ہاں آ گیا ہے!

یار یہ باڈی تو بہت بھاری ہے، اس کے ٹکڑے کرنے پڑیں گے!

اب شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ 3 ہفتے تک نہ نہ کرنے کے بعد بالآخر سعودی سرکار کو ماننا پڑا کہ جمال خشوگی کو قونصلیت میں قتل کر دیا گیا ہے۔

دو اکتوبر کو جمال خشوگی کے آمد سے چند گھنٹے پہلے تین مختلف فلائٹوں سے 15 ممبران کی کلنگ ٹیم استنبول پہنچ چکی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق محمد بن سلمان کے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ سے تھا۔ پھر دو اکتوبر کو جمال خشوگی کے قتل کے چند ہی گھنٹوں بعد وہ پندرہ کے پندرہ افراد ترکی کی سرزمین چھوڑ چکے تھے۔ سب حیران تھے۔ کسی نے پوچھا کہ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ تو کسی نے بولا کہ کوئی اتنا بے وقوف کیسے ہو سکتا ہے؟

جون 2017 سے اپنی گڈ پبلسٹی پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والے محمد بن سلمان کا امیج تین ہفتوں میں تباہ ہو گیا۔ موڈرنائزیشن، ریفارم اور تبدیلی کے سب نعرے خشوگی کے جسم پر چلنے والے چین سا کے شور میں دب کے رہ گئے۔

آپ محمد بن سلمان سے اتفاق کر سکتے ہیں، سوچ سمجھ کر اور احتیاط کے ساتھ اختلاف بھی کر سکتے ہیں، لیکن انہیں اگنور نہیں کر سکتے۔

جارج برنارڈشا نے کہا تھا کہ جو اپنا دماغ نہیں بدلتے وہ کچھ نہیں بدلتے۔ محمد بن سلمان آج کل اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پچھلے 8 سالوں میں ایم بی ایس نے بہت سی خطرناک غلطیاں کی لیکن اب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھنا جان چکے ہیں۔ ترکی، ایران، شام سمیت سارے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات بنانے سے لے کر امریکا کو انکھیں دکھانے تک، پرانے ذرائع امدن چھوڑ کر نئے شہر بسانے تک، ایم بی ایس مڈل ایسٹ نہیں پوری دنیا کے لیے ایک گیم چینجر بن چکے ہیں۔

ادھر وائٹ ہاؤس میں بھی ایک بار پھر ان کے پرانے دوست کی آمد آمد ہے۔ تو ایک بات تو پکی ہے کہ 2025 کا ایم بی ایس 2017 کے محمد بن سلمان سے نہ صرف کہیں زیادہ میچور بلکہ پاورفل بھی ہوگا۔

شیئر

جواب لکھیں