آسمان میں جہاز اڑ رہا ہے۔ ابراہیم (بطور فرسٹ آفیسر جاوید ملک) اور معظم (بطور کیپٹن نور اللہ خان آفریدی) جہاز کو اڑا رہے ہیں۔

ابراہیم: سر، مجھے نہیں لگتا اسلام آباد میں لینڈ کرنا چاہیے، یہاں طوفانی لائن نظر آ رہی ہے۔
معظم: تم فکر نہیں کرو دوست، لینڈ تو ہم اسلام آباد میں ہی کریں گے۔

نور اللہ آفریدی (گنگناتے ہوئے): سانو نیر والے پل تے بلا کے،تے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔
جاوید ملک (قہقہ لگاتے ہوئے): ہاہاہاہا، کیا بات ہے سر۔

جاوید: سر پشاور کا ویدر بھی معلوم کر لوں۔ مجھے لگتا ہے ہمیں پشاور میں لینڈ کرنا چاہیے، اسلام آباد جانا ٹھیک نہیں لگ رہا۔
آفریدی: ناں ناں، اللہ مالک ہے۔

دونوں جھٹکا Feel کرتے ہیں، جہاز ایک ہزار فٹ نیچے چلا گیا۔

جاوید ملک ٹینشن میں چیخ کر کہتے ہیں: سر ہم ہزار فٹ نیچے آگئے ہیں، ہم تیزی سے زمین کے قریب جا رہے ہیں۔
جاوید ملک: سر گو اراؤنڈ سر، سر گو اراؤنڈ سر

نور اللہ آفریدی (ہکا بکا ہکا بکا): نوز نیچے کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔

بھوجا ایئر لائن حادثہ

یہ 20 اپریل 2012 کی شام ہے، اسلام آباد میں طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں، اِدھر کراچی میں 121 مسافر اسلام آباد جانے کے لیے طیارے میں، تیار بیٹھے ہیں۔ اِس میں چھ کریو ممبر بھی ہیں۔ یعنی ٹوٹل 127 لوگ کچھ پہلی بار سفر کر رہے ہیں تو فکر مند ہیں۔ مگر زیادہ تر مسافر بے فکر ہیں۔ لازمی بات ہے جہاز کے مسافروں کو ہمیشہ پائلٹ پر بھروسا ہوتا ہے اور پائلٹ کو خود پر۔ مگر ِاس طیارے کے پائیلٹس کو خود پر ضرورت سے زیادہ بھروسا تھا۔ یعنی over confidence۔

تو ملیے! یہ ہیں نور اللہ آفریدی، ایئر فورس سے رٹائرڈ ہیں، اٹھاون سال کے ہیں اور ٹین تھاؤسینڈ آرز فلائنگ ایکسپیرنس رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ترپن سال کے فرسٹ آفیسر جاوید ملک ہیں، یہ بھی ایئر فورس سے ریٹائرڈ ہیں اور تھری تھاؤسینڈ آرز کا فلائنگ ایکسپیرنس ہے۔

آپ سوچیں گے اچھا خاصہ تجربہ ہے بھائی تو پھر معظم اوور کنفڈینٹ کیوں کہ رہا ہے؟ تو چلیے حیران کیے دیتا ہوں۔ جو جہاز یہ اُڑانے جا رہے ہیں۔ اُسے اڑانے کا صرف 80 گھنٹوں کا ایکسپیرنس ہے۔ اس جہاز کی تفصیل میں آپ سے آخر میں شیئر کروں گا، لیکن ابھی موقع شیئر کرنے کا نہیں بلکہ کیئر کرنے کا ہے۔

کیونکہ اس جہاز میں سوار 127 لوگوں کا اسلام آباد میں بادلوں کے نیچے ایسی قوت سے سامنا ہونے والا ہے جو اِنہیں آسمان سے زمین پر پٹخ دے گی۔ مگر کسی نے کیئر نہیں کی۔ فائنلی ٹھیک شام 5 بجکر5 منٹ پر طیارہ اُڑان بھرتا ہے۔

ظاہر سی بات ہے ہم اور آپ پائلٹ تو ہیں نہیں، ناں ہی طیارہ اُڑانے کا ایکسپیرنس ہے، کہ چیزیں آسانی سے سمجھ لیں، تب ہی میں نے یہ کہانی سُنانے کے لیے ایگزی کیوشن اسٹائل ذرا تبدیل کیا ہے، تاکہ آپ کو سارا معاملہ آسانی سے سمجھ آ جائے، تو چلیے کاک پٹ میں چلتے ہیں، آج کی کہانی کاک پٹ سے جانیں گے۔

اُس دن ہوا کیا تھا؟ وہ صرف مجھے یا فرسٹ آفیسر کو پتہ تھا، مگر ایک تیسرا بھی تھا جو یہ سب ریکارڈ کر رہا تھا، جی ہاں! بلیک باکس۔ بھوجا ایئر فلائٹ 231 کے بلیک باکس سے حاصل ہونے والی ریکارڈنگ اور تحقیقات کی روشنی میں آج آپ دیکھ سکیں گے کہ اُس روز کیا ہوا تھا؟ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر پھر۔

شام چھ بج کر پانچ منٹ پر لاہور آٹومیٹک ٹرمینل انفارمیشن نے ہمیں خراب موسم کا بتایا۔ بلکہ طوفان کی وارننگ دے دی، میں نے تمام مسافروں سے سیٹ بیلٹ باندھنے کا کہہ دیا۔

ری ایکٹمنٹ PA سسٹم کے ذریعے

لیڈیز اینڈ جینٹلمین، میں ہوں آپ کا کیپٹن نور اللہ خان آفریدی۔ میرا آپ سے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام آباد میں ہمیں موسم خراب ملے گا، ممکن ہے جہاز میں جھٹکے بھی لگیں، آپ سب سے گزارش ہے کہ سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے، گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہاں جا کر دیکھتے ہیں موسم کیسا ہے، جب ہم وہاں پہنچیں گے تو ہو سکتا ہے بارش بھی ملے۔ تھوڑی دیر میں ہم لاہور کے اوپر ہوں گے۔

ابراہیم: سر، ساڑھے آٹھ بجے طوفان کی وارننگ جاری کی گئی ہے لاہور سے۔
معظم: آہ، قسمت میں میری، چین سے جینا لکھ دے۔

ابراہیم: سر، کیوں ناں ہم آلٹرنیٹ روٹ دیکھیں؟ ہمارے پاس لاہور فرسٹ اور پشاور سیکنڈ آلٹرنیٹ ہے۔
معظم: آپ یہ سوچیے کہ ہم اسلام آباد میں لینڈ کیسے کرائیں؟ ہمم،؟ سانوں نیر والے پل تے بلا کے تے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔
ابراہیم:ہاہاہاہا، واہ! کیا بات ہے سر۔

ابراہیم: سر، اگر الٹرنیٹ روٹ لینا پڑا تو پشاور کا ویدر بھی لے لوں۔
معظم: ناں نا نا، اللہ مالک ہے۔ ہم اسلام آباد میں ہی لینڈ کرینگے۔

Sorry for interruption، لیکن اللہ بھی اُس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتا ہے۔ ابھی تک جس خطرے کے بارے میں نور اللہ آفریدی سُن رہے تھے، اب وہ اُنہیں نظر آنے لگا تھا، کیونکہ ویدر ریڈار پر خطرے کی سکویل لائن دکھائی دے رہی تھی، دراصل یہ ایک طوفانی لائن تھی، جس کا مطلب تھا کہ اس پٹی میں طوفان آ رہا ہے، جہاز اس کے قریب لے جانا خطرناک ہوگا، وہ اب بھی روٹ تبدیل کر سکتے تھے مگر۔ آگے کیا ہوا یہ واپس کاک پٹ میں چل کر دیکھتے ہیں۔

معظم ریڈار سسٹم پر طوفانی لائن دیکھتے ہوئے کہتے ہیں: Oh ho ho, it’s all over, man
ابراہیم: سر اِس کا مطلب ہے ہم طوفان کے کافی قریب ہیں۔
معظم: اتنا بھی قریب نہیں ہے۔ ہمم یہ طوفانی بادل ہیں، لیکن ابھی فاصلہ۔
ابراہیم: لیکن سر یہ پرابلم میں ڈال سکتا ہے، کیا ہم ایسے ہی طوفان کی طرف بڑھتے رہیں؟
معظم: ایک کام کرتے ہیں، ایک چکر لگا کر آتے ہیں، کال کر کے پوچھو ویسٹ کی طرف کوئی گیپ ہے؟

ویٹ، یہاں مجھے آپ کو سمجھانا پڑے گا کہ کیپٹن نور اللہ آفریدی کیا کوشش کر رہے ہیں؟ دراصل وہ طوفانی لائن جو اسلام آباد ایئر پورٹ سے کچھ ہی فاصلے پر دکھائی دے رہی ہے، وہ اُسے کراس کرنا چاہ رہے ہیں مگر تلاش کر رہے ہیں اُس لائن کے درمیان وہ گیپ، جس میں سے وہ طیارہ گزار سکیں۔

ابراہیم: سر کنٹرولر کے مطابق ساؤتھ کی طرف ایک گیپ نظر آ رہا ہے، مگر وہ صرف ساٹھ ڈگری کا ہے۔
معظم: نہیں نہیں، یہ بہت چھوٹا گیپ ہے، لیکن ٹرائی کرنے میں کیا جاتا ہے۔

یہ نور اللہ خان آفریدی کی بہت بڑی غلطی ہے، اُنہیں لگتا ہے کہ وہ اصولوں کے خلاف جا کر اُس طوفان کے درمیان چھوٹے سے گیپ سے نکل جائیں گے۔ شاید وہ نکل بھی جائیں، اگر اُن پر وہ حملہ نہ ہو، جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے، وہ کامیاب کیسے ہوں گے بھائی؟ جب وہ اِس طیارے کے ہنگامی حالات میں استعمال کرنے والے فنکشنز سے واقف ہی نہیں ہیں، وہ تو ایزی ہو گئے ہیں۔ ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔ بلکہ اب تو وہ انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم کے تحت جہاز لینڈ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، انسٹرومنٹ لینڈنگ سسٹم دراصل ریڈیو سگنلز اور لائٹ کا وہ سسٹم ہے جو خراب موسم یا وزیبلیٹی کم ہونے کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پائلٹ کو پتہ چلتا ہے کہ جہاز کس سمت اور زاویے میں رن وے پر اتارنا ہے۔

معظم اور ابراہیم: ہاہاہاہاہا۔
معظم: یہ سب تمہاری امی کی وجہ سے ہو رہا ہے، ہاہاہاہاہا۔
معظم: دیکھو ہم خواہ مخواہ اتنا گھبرا رہے تھے، ہم آسانی سے لینڈ کر جائیں گے یار۔۔۔

یہ جملہ بولتے ہی کڑکتی بجلی کی طرف دیکھا۔ جہاز کی ونڈ اسکرین پر بارش کے قطرے گرنے لگے۔

ابراہیم: یہ تو بالکل ہمارے سر پر ہے۔
معظم: ہاں ہم طوفان سے 15 میل دور ہیں، 2500 فٹ کی بلندی سے نیچے اتر رہے ہیں۔ مگر وہ گیپ کہاں گیا؟ لگتا ہے وہ گیپ تو ختم ہو گیا جس کے درمیان سے ہمیں گزرنا تھا۔

معظم نے غلطی سے آٹو پائلٹ بند کر دیا۔

معظم: آہ یہ میں نے کیا کر دیا۔
ابراہیم: سر آپ نے آٹو پائلٹ بند کر دیا۔

معظم واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نہیں دبانا تھا، دبا دیا، ہاہاہاہا۔

نہیں یہ ہنسی مذاق نہیں تھا، اصل میں اب یہ طوفان کے بالکل قریب آ چکے تھے، سامنے اندھیرا چھا گیا اور کپتان آفریدی حواس کھونے لگے، اِسی میں اُنہوں نے غلطی سے آٹو پائلٹ بند کر دیا، مگر فوراً ہی دوبارہ آن کر دیا۔

اب فلائٹ 213 رن وے پر اترنے کے لیے اپنا آخری موڑ لیتی ہے۔ جیسے ہی فرسٹ آفیسر جاوید ملک نے لینڈنگ گیئر کھولے، طیارے کو ہیڈ ونڈ کا سامنا کرنا پڑا، اچانک جہاز کی اسپیڈ بہت تیز ہو گئی۔

ابراہیم: یہ کیسے ہو گیا؟ آٹو تھراٹل نے کام کیوں چھوڑ دیا؟ اسپیڈ تو 190 ناٹ تھی یہ، یہ 220 کیسے ہو گئی، سر ہم بہت تیز جا رہے ہیں۔
معظم: کیا، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

یہ بالکل ہو سکتا ہے، پائلٹ کی لا علمی کی وجہ سے، اب سمجھیے گا، طیارہ تیزی سے نیچے آ رہا تھا اور اس کی رفتار بڑھ گئی تھی، کیونکہ طیارے کو ہیڈ ونڈ کا سامنا کرنا پڑا تھا، اب آپ کہیں گے اِس میں پائلٹ کی کیا لا علمی ہے؟ تو وہ یہ ہے جناب کہ جب طیارہ خطرناک موسم اور طوفانی ہواؤں سے گزر رہا ہو، تو پائلٹ کو اپنی مرضی سے تھراٹل کنٹرول کرنا چاہیے ناں کہ آٹو تھراٹل آن کر دیا جائے۔ دراصل آٹو تھروٹل طیارے کے انجن اور اسپیڈ کو کنٹرول کرتا ہے اور نارملی دیکھا جائے تو ہیڈ ونڈ سے گزرنے میں طیارے کی رفتار کم ہوتی ہے۔ مگر یہاں اُلٹا اس لیے ہوا کیونکہ پائلٹ نے اسپیڈ کو آٹو تھراٹل پر رکھا ہوا تھا۔

ابھی پائلٹس یہی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اسپیڈ کیوں بڑھ گئی ہے، کہ اتنے میں سر پر ایک اور حملہ ہوتا ہے۔ جی ہاں! کلاؤڈ برسٹ۔

صرف چند سیکنڈز میں جہاز 1000 فٹ نیچے آ جاتا ہے، یہ جہاز کلاؤڈ برسٹ سے کچھ اس طرح گزرتا ہے کہ جب بادلوں میں جمع پانی ایک زوردار آواز اور تیز ہوا کے ساتھ برس پڑے، جس سے طیارہ اچانک نیچے آگیا۔ اب فلائٹ 213 ہچکولے کھاتی ہے۔

کپتان اور فرسٹ آفیسر نے طیارے کی رفتار واپس 170 ناٹس کر دی تھی، حالانکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ کلاؤڈ برسٹ سے گزارنے کے لیے اُنہیں طیارے کی رفتار بڑھانے کی ضرورت تھی۔ کپتان اور فرسٹ آفیسر بوکھلا گئے، اِس صورتحال سے کیسے نمٹنا ہے؟ وہ نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ طیارہ تیزی سے نیچے آرہا تھا اور وہ رن وے کی سینٹرل لائن سے بھی ہٹ چکے تھے۔

جہاز کا آٹو پائلٹ ڈسکنٹ ہوگیا، اب کنٹرول مکمل پائلٹس کے ہاتھ میں تھا، لیکن کنٹرول کرنا کیسے ہے؟ دونوں نہیں جانتے تھے، جیسے کہ میں نے بتایا کہ وہ آٹو تھروٹل کے مکمل استعمال سے بھی واقف نہیں تھے، جہاز تیزی سے زمین کی طرف آ رہا تھا۔ دوسری طرف کنٹرول ٹاور طیارے کی ہنگامی صورتحال سے لا علم تھا، وہاں سے طیارے کی لینڈنگ کے لیے نارملی رابطہ کر کے کہا گیا کہ کنٹرول ٹاور سے رابطہ کریں۔

معظم: Please Deal with the Channel, Deal with the Channel

یہ خطرے کی آخری گھنٹی تھی جو جہاز میں بجنا شروع ہوگئی جس کا مطلب ہے کہ جہاز زمین سے انتہائی قریب آگیا ہے۔ اوپر اٹھایئے۔ کپتان آفریدی بار بار جہاز کی نوز اوپر کی طرف اٹھا رہے تھے۔ مگر انہوں نے رفتار اور انجن کی طاقت کو کنٹرول کرنے کے لیے طیارے کو اب تک آٹو تھراٹل سے نہیں ہٹایا تھا۔

ابراہیم: سر گو آراؤنڈ، سر گو آراؤنڈ۔

اور یوں بھوجا ایئر لائن کی فلائٹ 213 ایئر پورٹ سے 8 کلومیٹر دور راولپنڈی کے گاؤں حسین آباد کے کھیتوں میں اتری، پچھلے لینڈنگ گیئر نے زمین کو چھوا، چند سیکنڈز ہی آگے بڑھے اور طیارہ ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

اس طیارے کے ساتھ ہی بھوجا ایئر لائن بھی ایسی زمیں بوس ہوئی کہ پھر نہ اٹھ سکی۔ 127 لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچا، مگر کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست۔

بھوجا ایئر لائن: شروع سے آخر تک

1993 سے پہلے تک آسمانوں پر صرف پی آئی اے کی ہی اجارہ داری تھی، اصلاحات کے بعد 12 نجی ایئرلائنز کو پاکستان میں بزنس کی اجازت ملی، جن میں ایک بھوجا ایئر لائن بھی تھی، لیکن چند سالوں میں یہ ایئرلائن قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی، پہلے 2000 میں بھوجا ایئر کو یو اے ای سے نکالا گیا اور پھر پاکستان کی سول ایوی ایشن نے بھی گڈ بائے کہہ دیا۔

دس سال تک بھوجا ایئر لائن بند رہی۔ اب اس کے پاس کوئی جہاز بھی نہیں تھے۔ مگر گیارہویں سال، یعنی 2011 میں بڑے جوش و خروش سے اعلان کیا گیا کہ بھوجا ایئر واپس آ رہی ہے۔ بھوجا ایئر لائن نے تین طیارے بوئنگ 737-200 خریدے، اب غور کیجئے، یہ وہ طیارے تھے جو جنوبی افریقہ کی جانب سے ریٹائر کر دئیے گئے تھے۔ جن میں سے ایک 1985 میں برٹش ایئرویز کے لیے بنایا گیا تھا اور یہ ری فربشڈ طیارہ 26 سال بعد پاکستان میں رجسٹرڈ ہوا اور یہ وہی بد قسمت طیارہ تھا۔ جو 127 لوگوں کی آخری سواری بنا۔ کہا جاتا ہے کہ اس طیارے کے پاس ’’ایئر وردی نیس سرٹیفیکیٹ‘‘ ہی نہیں تھا، الزام لگایا جاتا ہے کہ سول ایوی ایشن نے انڈر دی ٹیبل معاملات طے کر کے اس طیارے کو ایئر وردی نیس کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔

20اپریل 2012 کو بھوجا ایئر لائن نے اپنی شام کی سروس کا آغاز ہی اسی طیارے کے ساتھ کیا تھا، البتہ انتظامیہ نے اس روز نشستوں کی گنجائش 100 سے بڑھا دی 118 کر دی تھی۔ البتہ جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک غیر حاضر کریو ممبر کاک پٹ میں بیٹھا تھا، جس سے نور اللہ آفریدی مڑ مڑ کر مذاق کر رہے تھے۔

بعد میں سیمولیشن کے ذریعے بتایا گیا کہ زمین کے قریب جا کر بھی پائلٹ دوبارہ جہاز کو اوپر اٹھا سکتا تھا۔ ہاں واقعی کیوں کہ طوفان سے تو جہاز نکل چکا تھا۔ خیر! اِس کی ساری انویسٹی گیشن میں پائلٹس کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ لیکن آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پائلٹ اکیلا ذمہ دار نہیں تھا۔ وہ کاک پٹ میں مذاق کر رہا تھا۔ مگر آسانی سے کندھے جھاڑ کر بچ نکلنے والا کرپٹ سسٹم، آپ کا اور میرا آج تک مذاق اڑا رہا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں