یہ فروری 1989 ہے۔ ویلنٹائنز ڈے ایک روز پہلے ہی گزرا ہے۔ مگر سویت سولجرز کسی اور وجہ سے اپنی فیملیز کو دیکھ کر سرخ جھنڈیاں ہلا رہے ہیں۔ وہ دس سال بعد افغانستان میں موت کے منہ سے بچ کر ماسکو واپس آرہے ہیں۔ وہ اکیلے نہیں ہیں، ان کے ہزاروں ساتھی تابوت میں ہیں جو امریکی اسلحے اور اسٹنگر میزائلز کا نشانہ بنتے رہے۔ اُن واریرز کے ہاتھوں جن کے پاوں میں چپل تک نہ تھی۔

لیکن ٹھہریے! افغانستان میں سپر پاور کا قبرستان بننے کی یہ پیش گوئی 35 سال پہلے لاہور میں بیٹھا شخص کیسے کر رہا ہے۔ اُس کا خط اور مشورہ تو امریکی صدر ایزن ہاور کے لیے تھا، مگر تین دہائیوں بعد جمی کارٹر اور ریگن نے اس پر عمل کر دکھایا۔

مستقبل میں جھانکتے یہ کیسے خط تھے؟ اور ان میں آخر کون سا خزانہ چھپا تھا؟ یہ آپ کو ضرور بتائیں گے لیکن ہم تو حیران ہیں اُس خط لکھنے والے کو لے کر جو ’’فورچیون ٹیلر‘‘ بھی نہیں تھا۔ اس کی کہانیاں پڑھیں تو لگتا ہے وہ پچھلی صدی نہیں بلکہ آج کا کوئی باغی رائٹر ہے۔ وہ جولین اسانج اور ایڈورڈ اسنوڈن کی طرح حقیقت سے پردے اٹھاتا، پیشیاں بھگتتا اور جیل جاتا۔ مگر باز پھر بھی نہ آتا۔ وہ کبھی بینکسی بن کر نظام کے دوغلے پن کو سڑک پر رسوا کرتا تو کبھی ایگون شیلا کی عریاں paintings کی طرح اپنے قلم سے معاشرے کا لباس ایک ایک کرکے اتارتا چلا جاتا۔ وہ جو اپنے انداز سے جیا اور اپنے ہی انداز سے مرا، وہ کوئی اور نہیں بے باک قلمکار ’’منٹو‘‘ تھا۔ اردو ادب کا (ہنستے ہوئے) بے ادب رائٹر، جس کے جملے اسٹیٹس پر لگاتے تو سب ہیں مگر وہ کس پائے کا رائٹر تھا یہ بہت کم جانتے ہیں۔

ہوگا کوئی ایسا بھی کہ منٹو کو نہ جانے
رائٹر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے

غالب زندہ ہوتے تو یہ شعر چرانے پر شاید مجھے معاف کر ہی دیتے۔ مگر سعادت حسن منٹو ایسے نہیں تھے۔ کوئی ان کا لکھا بدل ڈالے تو وہ گالیوں سے طبیعت صاف کر دیا کرتے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ منٹو اگر اپنی قبر پر لگا کتبہ خود پڑھ لیتے، تو ان کی گالیوں سے رشتہ دار بھی نہ بچ پاتے۔ لیکن رشتہ داروں نے منٹو کا لکھا کتبہ کیوں بدل دیا، یہ بھی ہم آپ کو اسی کہانی میں بتائیں گے۔ کیونکہ ہم تو غیر جانبدار رہتے ہوئے منٹو کی زندگی کے تمام رنگ آپ کے سامنے بکھیرنے جا رہے ہیں۔ اختلاف کریں یا اتفاق! یہ آپ کا حق ہے، اور منٹو تو یہ حق پہلے ہی پڑھنے والوں کو دے دیا کرتے تھے۔ لیکن منٹو کو پڑھنا اور سننا واقعی بڑی ہمت کا کام ہے!

دل ایسی شے نہیں جو بانٹی جا سکے

یہ 1922 کا ہندوستان ہے۔ ضلع لدھیانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سمبرالہ میں ہلکے ہلکے بادل چھائے ہیں۔ موسم بہار جوبن پر ہے اور سورج ڈوبنے میں ابھی سوا گھنٹہ باقی ہے۔ رنگ برنگی پتنگوں سے آسمان بھرا ہوا ہے۔ بارہ سال کا دبلا پتلا سعادت اپنے گھر کی چھت پر کھڑا پتنگ اڑا رہا ہے۔ اچانک کسی جنگی جہاز کی طرح ایک پتنگ، اس کی پتنگ پر اٹیک کرتی ہے۔ اس نے بڑی مشکل سے باپ سے چھپ کر اور ماں سے لڑ کر اسے خریدا تھا۔

ابھی وہ اپنی پتنگ کٹنے کے خوف میں تھا کہ چھوٹی بہن تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ گئی۔ وہ ڈری سہمی آواز میں بولی، ’’پاجی! میاں جی آگئے نے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ سعادت کے ہاتھ سے پتنگ چھوٹ گئی اور وہ جان کی پروا کیے بغیر برابر والی چھت پر کود گیا۔ وہ ایسا کیوں نہ کرتا، وہ تو والد غلام حسن کی تصویر سے بھی ڈرتا تھا۔ کبھی وہ سوچتا کہ جج کا بیٹا ہونے سے تو بہتر تھا کہ وہ کسی موچی یا کمہار کی اولاد ہوتا۔ کم از کم پتنگ اڑانے یا کنچے کھیلنے پر مار تو نہ پڑتی۔ لوگ جب والد کی ایمان داری اور انصاف کی تعریفیں کرتے تو وہ چڑ جاتا۔ اسے لگتا تھا کہ جو آدمی اپنی بیویوں اور بچوں میں عدل نہ کر پائے وہ بھلا کسی کو کیا انصاف دے گا؟

غلام حسن کی ساری توجہ پہلی بیوی اور اس کے سات بچوں پر تھی۔ اور سعادت کی توجہ اس بات پر کہ اس کی ماں ایک بڈھے کی دوسری بیوی کیوں بن گئی؟ اسے اپنا سگا باپ سوتیلا دکھائی دینے لگا تھا۔

انسانی جذبات اسپرنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ جتنی قوت سے انہیں دبایا جائے وہ واپس بھی اسی شدت سے ابھرتے ہیں۔ ’’منٹو‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والے سعادت نے میاں جی کی ہر بات کو ضد اور انا کا مسئلہ بنا لیا۔ یہ باغیانہ سوچ آخر دم تک اس کے ساتھ رہی۔ اسے لیک آف کمیونیکیشن کہیں یا فنانشل پریشرز، شاید ازل سے لے کر آج تک ایک باپ اور بیٹے کے درمیان اٹز دا سیم اولڈ اسٹوری۔

والد نے دینی کتابیں لا کر دیں تو یہ عشق معشوقی کے رسالے پڑھنے لگا۔ باپ پانچ وقت کی نماز کے لیے سختی کرتا تو منٹو ایک آدھ نماز بھی چھوڑ دیتا۔ میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبر لانے کا دباؤ پڑتا تو یہ فیل ہو جاتا۔ آخر جب تھک ہار کر باپ نے یہ کہہ ڈالا، ’’بیٹا تم سے نہ ہو پائے گا۔‘‘

تب سعادت حسن منٹو نے دل میں کہا کہ کاش میاں جی آپ یہ پہلے ہی کہہ دیتے۔ اور وہ چوتھی اٹیمپٹ میں میٹرک پاس کر گیا۔ منٹو کی تھرڈ ڈویژن تو آ گئی مگر مستقبل کا مشہور افسانہ نگار، اردو کے پرچے میں فیل ہو گیا۔

اگر آپ کے اردو یا کسی اور پرچے میں زیادہ اچھے نمبر نہیں آتے تو پریشان نہ ہوں۔ مارک ٹوین اور چارلس ڈکنز سے لے کر منٹو تک دنیا کا ہر بڑا رائٹر اسکول کی پڑھائی میں اسٹرگل کرتا رہا ہے۔ تو منٹو کے لیے شاید ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہو رہا تھا۔ اسے زندگی میں آگے چل بہت سے درد سہنے تھے۔ ایک دنیا اسے برا کہنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔

شرارتی منٹو گھر میں بلی تو اسکول میں شیر تھا۔ اسے افواہیں پھیلانے اور دوستوں کو بیوقوف بنانے میں بڑا مزا آتا۔ کبھی کہتا کہ میرا پین گدھے کے سینگ سے بنا ہے تو کبھی شوشہ چھوڑتا کہ گرمیوں میں پولیس کو برف کے کوٹ پہنائے جا رہے ہیں۔ ایک دن یہ خبر لایا کہ تاج محل امریکہ والوں نے خرید لیا ہے اور وہ جلد اسے مشینوں سے اکھاڑ کر لے جائیں گے۔ منٹو نے ’’انجمن احمقاں‘‘ بھی بنائی جہاں ہم خیال دوست بڑی کری ایٹو گفتگو کیا کرتے۔

علی گڑھ سے نکالا گیا سعادت حسن منٹو جیسے تیسے امرتسر کے ایم اے او کالج پہنچ کیا۔ مگر کالج بدلا تھا، منٹو کا مزاج نہیں، یوں جناب ایف اے میں دو بار فیل ہو گئے۔ اس ناکامی کی وجہ کالج کا ماحول یا ہلکے ٹیچرز نہیں تھے، جیسے آج کل ہوا کرتے ہیں۔ اُس زمانے میں تو فیض احمد فیض جیسے قد آور لوگ کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ مگر منٹو کو تو پڑھنے کے بجائے ادبی لوگوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ کرنے اور گپیں لگانے کا شوق تھا۔

انہی دنوں منٹو نے پینا پلانا اور جوئے سے شغل فرمانا شروع کر دیا۔ امرتسر کے ہوٹل شیراز میں دوستوں کے ساتھ خوب محفل جمتی اور جام کے دور بھی چلتے رہتے۔ یہیں پر منٹو کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے اُس کی زندگی ایک سو اسی ڈگری تبدیل کر دی۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس نے منٹو کو اس کام پر لگا دیا جس کے لیے وہ بنایا گیا تھا۔

سعادت حسن منٹو نے بھی اس محسن کا ہمیشہ دل سے احترام کیا۔ ان کا نام تھا ’’باری علیگ‘‘۔ منٹو کہتے ہیں کہ آج میں جو کچھ ہوں باری صاحب کے دم سے ہوں، اگر امرتسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی تو چوری یا ڈاکے کے جرم میں کسی جیل میں گمنامی کی موت مرگیا ہوتا۔

جھوٹی دنیا کا سچا افسانہ نگار

منٹو کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی تھی کہ وہ خود بھی دنیا کو بتائے کہ وہ کیا سوچتا ہے؟ اس کے اندر خیالات کی آندھیاں بلکہ جھکڑ چلتے رہتے تھے لیکن اسے لگتا تھا کہ اظہار کے معاملے میں ابھی وہ کچا ہے۔

باری علیگ اخبار ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ منٹو میں چھپی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہوں نے اسے صحافت میں قدم رکھنے پر قائل کر لیا۔ اُن دنوں منٹو پر تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول پڑھنے کا جیسے جنون سوار تھا۔

باری علیگ نے اسے آئرش شاعر اور ڈرامہ نگار اوسکر وائلڈ اور فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کی کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہو سکے تو ان کا ترجمہ ہی کر ڈالو۔ منٹو تو جیسے اس کام کے لیے پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ میٹرک اور ایف اے میں بار بار فیل ہونے والے منٹو نے وکٹر ہیوگو کی کتاب ’’دا لاسٹ ڈے آف اے کنڈی منڈ مین‘‘ کا ترجمہ دس پندرہ دن میں مکمل کرلیا۔ باری علیگ نے ’’سر گزشت اسیر‘‘ کے نام سے جب یہ ترجمہ پڑھا تو انہیں یقین نہ آیا۔ ترجمے کے میدان کا نیا کھلاڑی اتنا پرفیکٹ ترجمہ کیسے کر سکتا ہے؟

یوں سعادت حسن منٹو ’’صاحب کتاب‘‘ ہو گئے اور پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ باری علیگ ’’مساوات‘‘ چھوڑ کر ایک اور جریدے ’’خلق‘‘ سے وابستہ ہوئے تو وہاں منٹو کا پہلا افسانہ ’’تماشا‘‘ شائع ہوا۔

منٹو اب نِت نئے تماشے دکھانے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آغا حشر کشمیری کے ڈراموں کا بھی بڑا چرچا تھا۔ منٹو نے ان سے متاثر ہو کر دوستوں کے ساتھ ایک ڈرامیٹک کلب کھول لیا۔

ایک دن وہ کسی ڈرامے کی ریہرسل کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک محسوس ہوئی۔ منٹو کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ دروازہ کھولا تو میاں جی شدید غصے میں کھڑے تھے۔ وہ دھڑ دھڑ کرتے اندر آئے اور وہاں رکھے ہارمونیم، طبلے اور جو ہاتھ میں آیا فرش پر مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

سعادت حسن منٹو اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے یہ سب خاموشی سے دیکھتا رہا۔ آوارہ مزاج منٹو نے میاں جی کے سامنے ایک لفظ نہ نکالا، یہی نہیں کبھی کسی تحریر میں بھی باپ کے خلاف کچھ نہ لکھا۔ جرمنی کا مشہور ادیب کافکا ایسی ہی حالات کا شکار تھا جس پر اس نے اپنے باپ کے خلاف صفحے کے صفحے کالے کردیے تھے۔

1935 میں منٹو بمبئی چلے آئے، وہ بمبئی جس کے بارے میں خود بھارتی کہتے ہیں، ’’اے دل ہے مشکل جینا یہاں۔ ذرا ہٹ کےذرا بچ کے، یہ ہے بمبئی میری جاں۔‘‘

بمبئی جیسے شہر میں جگہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کراچی کی طرح یہ ہمیشہ مقابلے کا شہر رہا ہے۔ یہی وہ شہر تھا جہاں منٹو جیسے آزاد پنچھی شادی کے پنجرے میں قید ہوئے۔ منٹو کی شادی کتنی دھوم دھام سے ہوئی اس پر بات کریں گے مگر پہلے کچھ بات ہو جائے منٹو کے بمبئی میں قدم جمانے کی۔

صحافی نوید صدیقی بتاتے ہیں کہ اکنامکلی، میرے خیال سے منٹو کا بیسٹ پیریڈ وہ تھا جب وہ بمبئی اور دہلی میں رہے۔ یہ معاشی طور پر ان کے لیے بہتر رہا۔ افسانوں میں تو مسائل کا سامنا رہا۔ ہر آدمی کا ایک فورٹے ہوتا ہے اور افسانہ مشکل ہوتا ہے۔ سوچتے رہیں یا اس سے افیکٹ ضرور ہوں۔

آپ اپنی فیلڈ کے کتنے بڑے طرم خان کیوں نہ ہوں بمبئی میں کوئی سوا سیر آپ سے ٹکرا ہی جائے گا۔ منٹو کو اس بات کا فائدہ ضرور حاصل تھا کہ بطور کہانی کار صحافتی اور فلمی حلقے انہیں پہچانتے تھے۔ ریڈیو کی دنیا بھی ان کےنام سے واقف تھی۔ یوں منٹو کو بمبئی میں زیادہ دھکے نہیں کھانے پڑے۔

ہفتہ وار میگزین ’’پارس‘‘ میں تنخواہ 40 روپے ماہانہ تھی لیکن رسالے کی کمائی اتنی تھی کہ مشکل سے منٹو کو دس پندرہ روپے ملتے۔ وہ ہفتہ وار ’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر بنے پھر ’’ہمایوں‘‘ اور ’’عالمگیر‘‘ رسائل سے وابستہ ہوئے۔

کشمیری خاندان کے اس نوجوان کی قلمی کارستانیوں کی گونج آہستہ آہستہ صحافتی حلقوں سے نکل کر فلمی دنیا میں پھیلنے لگی تھی۔ فلمی کمپنیوں، امپیریل اور سروج میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد ہندوستان سِنے ٹون کے لیے فلم اپنی نگریا کا اسکرپٹ لکھا۔ پھر منٹو بطور مکالمہ نویس فلمستان چلے جاتے ہیں، جہاں ان کی دوستی دادا مُنی نام سے مشہور اشوک کمار سے ہو جاتی ہے۔ اشوک، گلوکار کشور کمار کے بڑے بھائی تھے اور ان دنوں فلموں میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اشوک کمار نے بمبئی ٹاکیز خریدی تو منٹو بھی ان کے ساتھ چلے دیے۔

نوید صدیقی مزید بتاتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے کہ سعادت حسن منٹو نے جو فلمی کہانیاں لکھیں وہ بلاک بسٹر نہیں تھیں۔ قسمت ڈکیڈ کی کامیاب فلم کہلاتی ہے۔ دو تین میں سے ایک منٹو رائٹر تھے۔ معاشی طور پر فائدہ ہوا۔ ریڈیو کے لیے پلیز لکھے۔ وہاں نوکری تو رہی لیکن کمپائل ہونا اور چھپنا یہ بہت بعد میں ہونے لگے۔ لیکن ریڈیو کی چیز لانجیویٹی میں نہیں ہو پاتی۔

اب منٹو 100 روپے ماہانہ کما رہے تھے۔ یہ اس دور کی بڑی تنخواہ تھی اور منٹو کو لگتا تھا کہ اب دن پھرنے والے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب منٹو کی والدہ نے ان کے لیے ایک کشمیری لڑکی صفیہ کا انتخاب کیا۔ ہر سادہ دل ماں کی طرح انہوں نے سوچا کہ بگڑا بچہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ منٹو نے صفیہ کو کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ ماں نے رشتہ داروں کو دعوت نامے بھیجے لیکن ’’شرابی منٹو‘‘ سے تو کوئی ملنا گوارہ نہ کرتا تھا، شادی میں بھلا کیسے آتا۔ منٹو کی سگی بہن بمبئی میں ہوتے ہوئے بھی بھائی کی شادی میں شریک نہ ہوئیں۔

انیس سو چھتیس میں سعادت حسن منٹو کی شادی ہو جاتی ہے۔ صفیہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایک شرابی کی بیوی کہلائے۔ اس نے سارے جتن کر ڈالے مگر مہ نوشی کی عادت نہ گئی۔ اس کے باوجود صفیہ ہر مشکل میں اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی رہی۔ منٹو بظاہر لا ابالی تھے لیکن بہرحال ایک باپ کے جذبات بھی رکھتے تھے۔ بمبئی میں ان کے ہاں پہلا بیٹا عارف پیدا ہوا، جو بچپن ہی میں وفات پا گیا۔ منٹو کے لیے یہ غم بھلانا آسان نہیں تھا۔ اس حادثے نے میاں بیوی کو اور بھی قریب کر دیا۔

منٹو کے بارے میں ان کے بھانجے حمید جلال لکھتے ہیں کہ گھر والوں کے لیے ماموں جان بہت ہی مہربان تھے۔ وہ اپنی بیوی کی ساڑھیاں استری کرتے اور اس دور میں کھانا پکاتے جب مرد کچن میں قدم رکھنے کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ منٹو بیٹیوں کے ساتھ کھیلتے، بیوی کے بال بناتے اور اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھلاتے۔

سعادت حسن منٹو پر بننے والی فلم کی بھارتی رائٹر نندیتا داس لکھتی ہیں کہ انہیں بڑی حیرانی تھی کہ منٹو جیسے شعلہ بیان اور بے باک شخص نے کبھی بیوی کے سامنے آواز بلند نہیں کی۔ اپنی غلطی پر کئی بار بیوی سے معافی بھی مانگی۔ وہ اپنی کہانیاں پہلے صفیہ کو سناتے اور انہیں اپنے ساتھ مشاعروں میں بھی لے جاتے۔ حالانکہ اُس زمانے میں یہ بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

منٹو کی ضد تھی کہ بیوی انہیں نام سے پکارے جو اس دور میں گناہ کا درجہ رکھتا تھا۔ ان کی والدہ نہ مانیں تو صفیہ نے منٹو کو ’’سعد صاحب‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ منٹو نے نہ صرف اپنی تمام کتابوں کی رائلٹی صفیہ کے نام کر دی بلکہ اپنی کہانیوں کا معاوضہ وصول کرنے کا تمام اختیار بھی انہی کو دے دیا۔

1940 کی دہائی میں ہندوستان میں سیاست عروج پر تھی مگر منٹو کو اس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس بات کا خود انہوں نے اعتراف بھی کیا۔ لکھتے ہیں کہ لیڈروں اور دوا فروشوں کو میں ایک جیسا سمجھتا ہوں۔ دونوں دوسروں کے نسخے استعمال کرتے ہیں۔

حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب منٹو کمیونزم کی طرف مائل تھے لیکن منٹو جیسا پارہ صفت شخص بھلا ایک جگہ کہاں ٹک سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اس وقت کے سُرخوں سے خود کو دور کرنا شروع کر دیا۔ ان کے بارے میں منٹو کہا کرتے تھے، ’’مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ ہے۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے ہیں جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

بمبئی میں رہتے ہوئے منٹو نے ریڈیو کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا۔ 1940ء میں انہیں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازمت مل گئی مگر یہاں ن۔ م راشد، کرشن چندر اور اوپندر ناتھ اشک جیسے منجھے ہوئے لوگ بھی تھے۔ منٹو نے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے لیے 100 سے زائد ڈرامے لکھے۔ منٹو کام کے دھنی تھے اور مشین کی طرح کام کرتے تھے، انہیں یقین تھا کہ وہ دوسروں سے زیادہ اور اچھا لکھتے ہیں۔

تقریباً 20 سالہ ادبی زندگی میں منٹو نے 270 افسانے، 100 سے زیادہ ڈرامے، کئی فلموں کی کہانیاں، مکالمے، اور ڈھیروں شخصیات کے خاکے لکھ ڈالے۔ 20 افسانے تو انہوں نے صرف 20 دنوں میں اخبارات کے دفاتر میں بیٹھ کر لکھے۔

سعادت حسن منٹو جن دنوں دہلی ریڈیو اسٹیشن کے لیے کام کر رہے تھے ان کے پھڈے آئے روز ہوا کرتے۔ وہ نوکری بدل لیتے مگر کسی کے کہنے پر مسودہ نہ بدلتے۔ منٹو کے اس رویے کی وجہ سے اکثر لوگ انہیں گھمنڈی، بدتمیز اور مغرور سمجھتے۔ منٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سگریٹ کی راکھ جھاڑنے سے پہلے کہانی جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ منٹو کے لیے کوئی بھی ریڈیو یا اسکرین پلے آدھی بوتل کی مار تھا۔ منٹو کے حاسد بھی کہتے تھے کہ منٹو کے پیروں میں نہیں بلکہ قلم پر بلیاں بندھی ہوئی ہیں۔

پارٹیشن کا سفر

یہ 1947 کا سال تھا۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ تقسیم کا یہ نقشہ انسانی خون کے چھینٹوں سے رنگنے والا ہے۔ معاملات سیاسی قیادت کے کنٹرول سے باہر ہوتے چلے گئے۔ فسادات کی آگ ایسی بھڑکی کہ اسے بجھانا کسی کے بس میں نہ رہا۔ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلمان اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ بمبئی کی فضا بھی ان ہنگاموں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

سعادت حسن منٹو کی بیوی صفیہ اپنے عزیزوں سے ملنے لاہور گئی ہوئی تھیں جن کی واپسی ناممکن ہو چکی تھی۔ اُدھر اشوک کمار نے فلم ’’محل‘‘ کے لیے منٹو کی کہانی کے بجائے کمال امروہی کی کہانی پسند کر لی۔ منٹو اس بات سے انتہائی بد دل ہوئے۔

ایک روز منٹو اپنے قریبی دوست اور اداکار شیام سُندر چڈھا کے ساتھ شراب پی رہے تھے۔ نشے میں دھت شیام نے منٹو سے کہا کہ میرا بس چلے تو میں سب مُسلوں کو مار ڈالوں۔ اس پر منٹو کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے شیام کی طرف ناقابل یقین نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’میں بھی تو مسلمان ہوں، مجھے بھی مار ڈالو گے؟‘‘ شیام نے کہا، ’’بالکل! تمہیں بھی مار ڈالوں گا‘‘۔ پھر ایک قہقہہ لگا کر بولا، ’’سالے تم کون سے مسلمان ہو؟‘‘ جس پر منٹو نے جواب دیا، ’’اتنا تو ہوں کہ مارا جا سکوں۔‘‘

کہتے ہیں یہی وہ لمحہ تھا جب منٹو نے ممبئی سے لاہور کُوچ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ایک دن کسی کو بتائے بغیر پانی کے جہاز سے پاکستان چلے آئے۔ پاکستان آنے کے فیصلے کی منٹو نے کچھ اس طرح وضاحت کی:

میرے دوست پوچھتے ہیں میں پاکستان کیوں جا رہا ہوں؟ کیا میں ڈرپوک ہوں؟ لیکن وہ مِرے دل کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ میں پاکستان جا رہا ہوں تاکہ وہاں کی سیاسی حرام زدگیوں کا پردہ فاش کر سکوں۔ ہندوستان میں اردو کا مستقبل خراب ہے۔ ہندی چھا رہی ہے۔ میں اردو میں ہی لکھ سکتا ہوں۔

ذوالفقار امروہی کہتے ہیں:

بات یہ ہے کہ جو افسانہ نگار ہے وہ اپنے معاشرے کا ہی پراڈکٹ ہوتا ہے۔ وہ وہی لکھتا ہے جو اس کے سامنے ہوتا ہے۔ بہت سے رائٹرز سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہوتے ہیں۔ منٹو ایکسپوزر جتنا تھا وہ کریجیس آدمی تھی۔ وہ معاشرے کی گندگی سب کے سامنے لے آئے جو سب کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔

سعادت حسن منٹو کی پیش گوئیاں

پاکستان کے بارے میں منٹو نے کیا پیش گوئیاں کیں اور کیا وہ سچ ہوئیں، ہم فیصلے کا اختیار آپ کو دیتے ہیں۔ منٹو نے یہ باتیں کبھی اپنے مضامین میں لکھیں اور کبھی اپنی کرداروں کے منہ سے کہلوائیں۔ یزید نامی افسانے میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی ایک بات طے ہوگئی تھی کہ دونوں ملکوں میں جنگ ہوگی اور ضرور ہوگی۔ یاد رہے کہ منٹوکا انتقال 65 کی جنگ سے دس سال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اسی کہانی میں دو کردار آپس میں بات کررہے ہیں جس میں وہ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان آنے والے دریا بند کر سکتا ہے۔ کہانی کے مکالمے پڑھیے:

  • دریا بند کرنے والے ہیں؟ کون سے دریا بند کرنے والے ہیں۔
  • بختو دائی نے جواب دیا، ’’وہ جو ہمارے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں۔‘‘
  • جیناں کو یقین ہو گیا کہ دریا بند کیے جا سکتے ہیں۔

منٹو پاکستان بننے سے پہلے یہ سب دیکھ رہا تھا اور آج دنیا کے سامنے دریائے راوی سوکھا پڑا ہے۔ اس افسانے کا اختتام بھی ان کی اکثر کہانیوں کی طرح پڑھنے والوں کو چونکا دیتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار اپنے بیٹے کا نام ’’یزید‘‘ تجویز کرتا ہے، جس پر اس کی بیوی بوکھلا جاتی ہے۔ وہ اس سے پوچھتی ہے، ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس پر شوہر جواب دیتا ہے، ’’نام سے کیا فرق پڑتا ہے، ایک یزید نے پانی بند کیا تھا ہو سکتا ہے ہمارا یزید پانی کھول دے۔‘‘

منٹو کی تحریروں سے کہیں نہیں لگتا کہ وہ پاکستان بننے کا کھلا مخالف یا پُر زور حامی تھا۔ لیکن جس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کی آگ پھیلی اور لاکھوں انسان جل کر راکھ ہوئے اس کا دماغ یہ سب قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ منٹو نے بمبئی سے لاہور آنے کے تین ماہ تک کچھ نہیں لکھا، کیونکہ اس کا دماغ نئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں سخت مشکلات سے دوچار تھا۔

برطانوی اخبار دی گارڈین میں ’’منٹو کی پیش گوئیاں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں منٹو کے الفاظ یوں شائع ہوئے ہیں:

یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمانوں ہلاک ہوئے بلکہ یہ کہو کہ دو لاکھ انسانوں کو ذبح کیا گیا۔ اصل سانحہ یہ ہے کہ مرنے والے بے قصور مارے گئے۔ صرف بیوقوف ہی سوچ سکتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب کا شکار کیا جا سکتا ہے۔

مذہب کی بات چل نکلی ہے تو چلیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو کے ذاتی طور پر مذہب کے بارے میں کیا خیالات تھے۔ سچ پوچھیں تو منٹو نے مذہب یا دھرم کے بارے میں سنجیدگی سے کم ہی گفتگو کی ہے۔ خاص طور پر جہاں بھی خدا کا ذکر آتا منٹو کی خدا سے بے تکلفی اس حد تک بڑھ جاتی کہ مذہبی لوگوں کے لیے اسے برداشت کرنا خاصا مشکل ہو جاتا تھا۔

ٹیڑھی لکیر نامی افسانے میں منٹو ایک کردار کے منہ سے یہ کہلواتا ہے کہ اگر خدا کو انسان کی سی زندگی بسر کرنی پڑے تو اسے لگ پتا جائے۔

ان کے دوست چراغ حسن حسرت بیمار پڑ گئے تو منٹو نے اس موقع پر ایک انوکھی دعا تحریر کی، وہ کہتے ہیں:

خداوند، نہ تو کھاتا ہے نہ پانی پیتا ہے مگر ہم کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں۔ پانی بھی اور شراب بھی۔ تیرا ایک بندہ چراغ حسن حسرت، صحافت کا چراغ ہے۔ اُس کو پینے کی لت ہے، جس طرح مجھے ہے۔ نماز کبھی میں نے پڑھی ہے، نہ میرے محترم دوست نے۔ بہرحال ہم تیرے قائل ضرور ہیں، حسرت صاحب کو اگر تو نے بیس برس اور زندگی عطا فرما دی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ تیرا جغرافیہ لکھ دیں گے، جسے تو اپنے آسمانی اسکولوں میں بطور نصاب پڑھا سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ رائلٹی مجھے ملنی چاہیے۔

منٹو کی یہ عادت رہی کہ ہمیشہ 786 لکھ کر اپنی کہانی کا آغاز کیا کرتے لیکن غیر ارادی طور پر۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ روحانیت یقیناً کوئی چیز ہے، جو لوگ نماز، روزے، آرتی کرتن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں، ہم انہیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔

ایک وقت آیا کہ انہوں نے پوری طرح اپنی دنیا آپ پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کر لی۔ ان کا قلم وہ لکھنے لگا تھا جو ان کے گرد و پیش ہو رہا تھا۔ ان کے اپنے ملک میں اتنی کہانیاں جنم لینے لگی تھیں، خیالات میں ایسے ایسے المیے ہو رہے تھے کہ انہیں لکھنے کے لیے کسی اور نظریے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔

اپنے ایک مضمون میں سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں، اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے۔ حکومت مجھے کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لیے روزی کے دروازے بند تو کبھی کھولے جاتے ہیں۔ میں پہلے بھی سوچتا تھا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ میں ہوں کون؟

صحافی اور مصنف سہیل دانش کہتے ہیں:

کام وہ اتنا کر گئے کہ آپ سمجھ لیں کہ تین گنا۔ سو سال میں کوئی جو کام کر سکتا ہے وہ انہوں نے بیالیس برس میں کر لیا تھا۔ وہ اپنے ادیبوں کو مصوروں کو کالم نگاروں کو مرنے نہیں دیتے اور ہم پاکستان میں ان کو جینے نہیں دیتے۔

سعادت حسن منٹو کو خود بھی اس بات کا پورا احساس تھا کہ اپنے افسانوں کے ذریعے جن شعلوں کو وہ اپنی ننگی انگلیوں سے چھوتے ہیں ہر کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ تب ہی تو وہ خود لکھتے ہیں:

مجھ سے کوئی پوچھے منٹو تم کس جماعت میں ہو تو میں عرض کروں گا کہ میں اکیلا ہوں، جس دن میرا کوئی ثانی پیدا ہوا، میں لکھنا چھوڑ دوں گا۔

یہ کہنا پڑے گا کہ سعادت حسن منٹو نے تقسیم کے دوران جنم لینے والے المیے اور سانحات کو جس طرح اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے اس کی جگہ آج تک کوئی لے سکا اور نہ شاید آئندہ کوئی لے سکے گا۔

شیئر

جواب لکھیں