اس کی جادوئی انگلیوں میں وہ فائر تھا، جسے کسی ایمپلی فائر کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کسی پیڈل اور پروسیسر کے بغیر بھی سننے والوں کا دماغ گھما سکتا تھا۔ وہ سب اُسے ایک سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے، مگر وہ تو بنا ہی سانچے توڑنے کے لیے تھا۔ وہ ایک باغی تھا یا راک اسٹار؟ موڈی میوزیشین یا کوئی درویش؟ اس پر کبھی میوزک کی آمد ہوتی تو کبھی وہ ایسٹرونومی میں کھویا رہتا۔ کوئی مرضی کا میوزک نہ بجائے تو بنے بنائے البمز جلا دیتا۔ آڈیئنس ہوٹ کرے تو گٹار توڑ دیتا۔ اسے آگ لگانے لگتا۔
وہ ایک اسٹار تھا جو کبھی ابھرتا، کبھی ڈوبتا رہا۔ اس نے کیریئر داؤ پر لگا دیا مگر اپنی میوزک پر کمپرومائز نہیں کیا۔ آج اسے لوگ پاپ میوزک کا جمی ہنڈرکس کہتے ہیں، مگر وہ تو اس سے بھی آگے کی چیز تھا۔ وہ اپنی فیلڈ کا چے گویرا، آئنسٹائن، جون ایلیا، فیض، منٹو، پکاسو اور شاید ان سب کا کامبی نیشن تھا۔ آج دنیا اسے ’’عامر زکی‘‘ کے نام سے جانتی تو ہے، مگر پہچانتی نہیں ہے۔
جی ہاں وہی عامر زکی، جس نے بچپن میں گٹار اٹھایا تو مڑ کر نہیں دیکھا۔ کلاسیکل ہو یا راک، جیز ہو یا بلیوز، ٹاپ کے میوزیشینز آج بھی اسے میوزک کا دیوتا سمجھتے ہیں۔ رضوان خان کہتے ہیں:
He was not even the 10 percent of… musician he was on rock. He was a monster on rock. And still he became an icon, just imagine.
اسد احمد بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:
At that point Amir Zaki was a Randy Rhodes kind of guy, full shredder. I mean he could just. He could play Malmsteen at that time. You know it was.. Guy I missed the guy…
اس کے میوزک سے فینز کی دھڑکنیں تیز ہو جایا کرتی تھیں، اُس کی اپنی دھڑکنیں اتنی جلدی کیوں تھم گئیں؟ کچھ تو کہتے ہیں کہ وہ 24 سال میں ہی مر گیا تھا، 49 برس میں تو بس اسے دفنایا گیا۔ وہ جتنی خاموشی سے آیا تھا اتنی ہی خاموشی سے چلا گیا۔
مگر وہ خود کہاں گم ہو گیا؟ وہ تو دنیا میں اپنی میوزک سے تہلکہ مچانے آیا تھا۔ اسے تو ابھی بہت سے ورلڈ ٹوؤرز کرنا تھے۔ اسٹیج پر اپنی میجیکل پرفارمنس سے آڈینس کو گرمانا تھا۔ وہ صرف ’’سگنیچر‘‘ ہی نہیں، ایسی درجنوں البمز بنانے آیا تھا۔ لیکن کیوں اس کی میلوڈیز انگلیوں میں ہی تڑپتی رہ گئیں؟
وہ پاکستان میں پاپ میوزک کا پراسرار راک اسٹار تھا یا ایک misplaced genius۔ آج ہم اس راز سے پردہ اٹھانے لگے ہیں۔ یہ کہانی پڑھ کر ہو سکتا ہے آپ کو گٹار سے عشق ہو جائے یا پھر۔ نفرت!
The Unsung Guitar Hero
یہ جولائی 1987 ہے۔ کراچی کے بوہری بازار میں ہمیشہ کی طرح چہل پہل ہے۔ بس اسٹاپ کے پاس ایک کار صبح سے پارکنگ میں کھڑی ہے۔ شام ہو چکی ہے اور ہیئر ڈریسر پریشان ہے۔ کون بےوقوف دکان کے سامنے گاڑی لگا کر اتنی لمبی شاپنگ پر چلا گیا ہے؟
ٹھیک ساڑھے چھ بجے صرف سڑک ہی نہیں پورا کراچی زور دار دھماکے سے لرز اٹھتا ہے۔ اب وہاں نہ ہیئر ڈریسر ہے نہ دکان، نہ ہی کوئی عمارت۔ ہر طرف آگ اور دھواں ہے۔ ابھی پولیس اور ایمبولینس پہنچی ہی تھیں کہ سو گز دور دوسری کار دھماکے سے ہوا میں اڑتی ہے۔ یہ افغانیوں کا جواب تھا، سِول وار میں پاکستانی انوالومنٹ کے خلاف۔
اسی ہفتے ’’دی اسکریچ‘‘ نامی بینڈ ایک گانا بناتا ہے۔ یہ ینگسٹرز کا ایک بینڈ تھا جو ملک کے حالات سے پریشان تھے۔ سانگ کا ٹائٹل تھا، ’’دا بومب‘‘۔
اُس دور میں یوٹیوب تو تھا نہیں کہ اِدھر ویڈیو پوسٹ کی اور ادھر ہزاروں لوگوں تک پہنچ گئی۔ نہ اُس وقت اسپاٹیفائی اور ساؤنڈ کلاوڈ تھے۔ وہ تو ٹیپ ریکارڈر اور کیسٹس کا زمانہ تھا۔ چندریگر روڈ پر بیٹھے ایک اخبار کے انٹرٹینمنٹ رپورٹر نے ہیڈ فونز لگائے اور اپنے سونی واک مین میں ’’دا بومب‘‘ کا ٹریک پلے کیا۔ ابھی وہ گانا سن ہی رہا تھا کہ اس میں بجتا سولو سن کر اس کی ٹوپی اڑ گئی۔
یار یہ کون چھپا رستم ہے جو ایرک کلپٹن اور مارک نوپ فلا جیسی گٹار پلیئنگ کر رہا ہے۔
وہ سگریٹ بجھا کر اُس کی تلاش میں نکل پڑا اور اُس وقت کے انٹرکونٹیننٹل ہوٹیل اور آج کے پی سی پہنچ گیا۔ روشنیوں میں جگمگاتے پول کے کنارے وائٹل سائنز کو پرفارم کرنا تھا، مگر وہ نہ آئے۔ اب وہاں دی اسکریچ پرفارم کر رہے تھے۔
ایک دبلا پتلا خوبصورت نوجوان فینڈر گٹار پکڑے غضب ڈھا رہا تھا۔ سامنے بیس بائیں سال کے لڑکے لڑکیاں ویسٹرن میوزک پر بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔ شو کا آخری نمبر آیا اور ختم ہو گیا۔ اور پھر اسی گٹارسٹ، عامر زکی، کا سولو اسٹارٹ ہوا۔ بالکل بیک ٹو دے فیوچر کے مارٹی کی طرح۔ وہ خود بتاتے ہیں:
چھ سات سال کا تھا میں تو کارڈ بورڈ باکسز آتے، ربر بینڈ لگا کر مختلف پچز پر لگاتا۔ ایٹ دیٹ ٹائم آئی ڈڈنٹ نو۔
عامر کی پیدائش سعودی عرب کی تھی اور وہ بچپن سے ہی کچھ مختلف تھا۔ چپ چاپ رہنے اور گہری بات کرنے والا لڑکا۔ جب وہ نو سال کا ہوا تو اس نے ڈرم پلے کیا۔ پھر سیگزوفون اور اس کے بعد بیس گٹار اٹھا لیا۔ تیرا سال کی عمر تک اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ گٹار بجانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔
اس کے والد ایک بزنس مین تھے جن کا ووڈ کا وسیع کاروبار تھا۔ کے ڈی اے سوسائٹی میں ان کا عالیشان بنگلہ تھا۔ والد کے پاس جیز اور بلیوز میوزک کی ایک بڑی کلکشن تھی۔ مگر والدہ کو کلاسیکل میوزک پسند تھا۔ عامر اُن دونوں کا پرفیکٹ کامبینیشن بن گیا۔
جیز اور کلاسیکل میوزک کی تلاش میں وہ گوعن کرسچن کمیونٹی تک جا پہنچا۔ یہ میوزیشینز ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں نائٹ کلبز میں بجایا کرتے تھے جو 1977 کے بعد دکھائی دینا بند ہو گئے۔ ان پر تفصیل سے کبھی اور بات کریں گے۔
تو عامر دن میں سولہ سولہ گھنٹے پریکٹس کرتا رہتا اور پھر رات کو اپنی اسپورٹس بائیک پر بیٹھ کر کنسرٹ کرنے نکل جاتا۔ میوزک پروڈیوسر عمران علی بتاتے ہیں:
ہم تو مذاق میں کہتے تھے کہ اسے پول پر چڑھا دے بجلی کی تاریں بھی بجادے گا۔ جس چیز پر تار لگی ہوئی ہے نا کوئی بھی تار لگا دیں وہ میوزک نکال دے گا۔ He was that talented۔
پی ای سی ایچ ایس کے گھر میں عامر کا کمرہ ایرک کلپٹن اور نوپ فلا کے پوسٹرز سے بھرا ہوا تھا۔ میوزک کے بعد اس کا دوسرا عشق اس کی ’’کیٹس‘‘ تھیں۔
عامر گٹار کا اتنا شوقین تھا کہ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے لکڑی کے کئی گٹارز کرافٹ کیے۔ گھر میں اکثر اوزار اور لکڑی کے پیسز بکھرے رہتے۔ اور یہ صرف شوپیس گٹار نہیں تھے، عامر انہیں خود اسٹیج اور اسٹوڈیو میں بجایا کرتا۔ آگے چل کر عامر زکی نے ایک ’’بیٹ گٹار‘‘ بھی بنایا۔ وہ مذاق میں کہتا کہ یہ گٹار بجایا بھی جا سکتا ہے اور اس سے کرکٹ بھی کھیلی جاسکتی ہے۔
آج کے بچوں کی طرح عامر بھی اسکول اور کالج کی پڑھائی سے بھاگتا۔ اس کے سوالات ٹیچرز کو پریشان کردیتے۔ عامر کے پاس بریٹینیکا کی ایک بڑی کلکشن تھی اور وہ اکثر ہسٹری اور ایسٹرونومی کی بکس میں ڈوبا رہتا۔ اس بارے میں وہ خود بتاتے ہیں:
مجھے اپنا اسکول اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ بڑی غلط ہسٹری پڑھاتے تھے اور میں گھر میں بریٹینکا پڑھتا تھا۔ وہ مجھے کسی لارڈ کے بارے میں بتا رہے تھے اور میرے پاس ریفرنسز تھے۔ پھر انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔
عامر کی گٹار پلیئنگ رفتہ رفتہ پورے شہر میں مشہور ہو رہی تھی۔ اس نے اپنا پہلا کونسرٹ پی اے سی سی میں کیا جس پر ڈان اخبار نے فل پیج اسٹوری چھاپی۔ اُن دنوں ملک میں عالمگیر اور شہکی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ عالمگیر کو لائیو پرفارمنس کے لیے ایک گٹارسٹ کی ضرورت تھی۔ یوں سترہ سال کی عمر میں عامر پہلی بار ورلڈ ٹوؤر پر گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں پی ٹی وی پر ساتھ پرفارم کرتے دکھائی دیتے۔ عالمگیر تو جیسے عامر کا دیوانہ تھا۔
Perfectionist
لیکن اس البیلے گٹارسٹ کی منزل تو کہیں اور تھی۔ 1993 تک عامر کی میوزک نالج اور پلیئنگ فلالیس ہو چکی تھی۔ بڑے بڑے میوزیشینز اس کے ساتھ پلے کرنے سے گھبراتے۔ صرف اس کی ویو لینگتھ میچ کرنا ہی مسئلہ نہیں تھا، عامر کے موڈ سوئنگز، اور تنقید برداشت کرنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:
میں کوئی harsh بات نہیں کہنا چاہتا مگر یہ کہ کاپی پر کام چل رہا تو جب آپ کسی کو کاپی کرتے ہیں تو اپنی بات نہیں کہہ سکتے۔ آٹھ دس بیس پندرہ سال اکیلے میں لگائیں گے اور پھر لسنر کو پہنچائیں گے تو وہ اسٹائل بن جاتا ہے۔
جب عامر نے پہلی البم ریکارڈ کی تو اسے فیلڈ میں 13 سال ہو چکے تھے۔ اس نے دوبارہ بینڈ بنانے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اسے اپنے ڈرمر اور بیسسٹ سے پرابلم ہونے لگی۔ اور یہ بینڈ بھی پہلے کی طرح ختم ہو گیا۔ عامر اس بارے میں بتاتے ہیں:
ایسے میوزیشینز نہیں تھے جو وہ پارٹ بجاتے جو میں بجاتا تھا بیس اور ڈرم پر۔ اس کی وجہ سے دو البمز رکارڈ کی۔ ایک جلا دی تھی اور ایک کہیں پھینک دی تھی۔ وہ ساؤنڈ بن ہی نہیں رہی تھی۔ اس کی وجہ تھی کہ گھر پر وہ کچھ اور سنتے تھے اور میں کچھ اور سنتا تھا۔ ٹیسٹ کا میٹر تھا۔
جس زمانے میں پاکستانی میوزیشینز اور لسنرز راک اور کلاسیکل سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، عامر جیز اور بلیوز میں مہارت حاصل کر رہا تھا۔ Although he was a great rock guitarist۔
90 کی دہائی کا میوزک
نائنٹیز پاکستان میں میوزک کا گولڈن پیریڈ تھا۔ نازیہ زوہیب سے لے کر وائٹل سائنز تک، اور اسٹرنگز سے لے کر جنون اور آواز تک ملک میں پوپ میوزک کا ایکسپلوژن دیکھنے میں آیا۔ علی حیدر، حدیقہ کیانی، فخر عالم، سجاد علی اور ابرار الحق کے گانے گلی گلی بج رہے تھے۔ صرف دو سال کے اندر ملک بھر میں 25 ملین کیسٹس اور سی ڈیز فروخت ہوئیں۔ لوگ یہ میوزک یوٹیوب یا اسپاٹیفائے پر مفت نہیں بلکہ پیسے خرچ کر کے سن رہے تھے۔ البمز شارٹ ہوئیں تو لوگ کاپیاں بنا کر مارکیٹ میں بیچنے لگے۔
اُس ایک دہائی میں جتنے کنسرٹس ہوئے، جتنا میوزک پروڈیوس ہوا پھر کبھی نہ ہو سکا۔ اسٹوڈیو سے لے کر اسٹیج تک بہت سے ساؤنڈ ٹریکس کی ریکارڈنگ اور لائیو پلیئنگ میں عامر زکی کا رول ہوتا۔ عمران علی بتاتے ہیں:
دیکھا جائے تو پاکستان اور انڈیا میں جتنا گٹار بج رہا ہے، وہ سب اس کی فالوئنگ ہے۔ ایکسپلور سارا اس نے کیا۔ عامر زکی کا فالو اپ ہے سارا۔ گٹار کا انٹروڈکشن پاکستان میں وہ عامر زکی ہے۔
عامر زکی وائٹل سائنز میں
1994 میں عامر زکی کو ملک کے سب سے بڑے پاپ گروپ وائٹل سائنز سے آفر آتی ہے۔ اسے لیڈ گٹارسٹ رضوان کی جگہ لینا تھی۔ بینڈ کے لیڈر روحیل حیات اپنی میوزک کو نیکسٹ لیول پر لے جانے کا پلان کر رہے تھے، لیکن یہ سب ایک منجھے ہوئے گٹارسٹ کے بغیر ناممکن تھا۔ عامر کے لیے یہ ایک بڑا بریک تھرو ثابت ہوا۔ اس کے گٹار سولوز نے وائٹل سائنز کے ہٹ نمبرز اعتبار اور تیرے لیے کو پھر سے زندہ کر دیا تھا۔
اب عامر ایک بار پھر لائم لائٹ میں تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک کنسرٹس کر رہا تھا۔ اپنی جادوئی پلیئنگ کے ساتھ وہ وائٹل سائنز کی میوزک کو کسی اور ہی ڈائریکشن میں لے گیا۔ اب وائٹل سائنز کا ببل گم پوپ، ایک raw اور exciting territory میں داخل ہو رہا تھا۔
اگر آپ میوزک فین ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وائٹل سائنز پر برٹش راک بینڈ پنک فلوئڈ کی چھاپ تھی۔ ایک بار یو کے ٹور پر پنک فلوئڈ کے کنسرٹ میں عامر زکی نے گٹارسٹ ڈیوڈ گلمر کے پلیئنگ اسٹائل کو کریٹیسائز کیا، جو روحیل کو اچھا نہیں لگا۔ اور یہیں سے عامر اور روحیل میں ڈیفرنسز پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ زکی وائٹل سائنز ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا بہترین میوزیشین تھا، اور یہ بات خود جنید بھی کہتا۔ نغمہ نگار اور گٹارسٹ اسد الحفیظ کہتے ہیں:
ایک دفعہ اسلام آباد سے کراچی فلائٹ میں ساتھ تھے تو باتوں باتوں میں عامر زکی کا ذکر نکلا۔ وہ بتانے لگے کہ جب وہ اپنے بینڈ کے لوگوں سے بات کرتے تھے تو کہتے تھے کہ اگر مجھے میوزیشین بننا ہے تو عامر زکی جیسا بننا ہے۔
مگر لائف کا یہی تو ستم ہے۔ کسی کے حصے میں ٹیلنٹ آتا ہے تو کسی کے نصیب میں fame۔ خیر، اب ایک نیام میں دو تلواروں کا رہنا ناممکن تھا۔ اب یا تو روحیل رہتا یا زکی۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ ایک بار وائٹل سائنز عامر کو رائلٹی اور پرافٹ میں برابر کا حصہ دینے پر راضی نہ ہوئے۔ زکی چلا گیا، مگر اس کے بعد وائٹل سائنز بھی زیادہ عرصے نہ چل پائے۔ یوں کچھ ہی عرصے میں ملک کا سب سے مشہور بینڈ، خاموشی سے ختم ہو گیا۔ وائٹل سائنز پر بنے ڈرامے دھندلے راستے میں یہی سیچوئیشن دکھائی گئی تھی۔
شادی اور علیحدگی
شاعری اور میوزک کی تاریخ میں بریک اپس نے آرٹ کے بڑے بڑے شاہکار پروڈیوس کیے ہیں۔ اڈیل، ٹیلر سوئفٹ اور بوب ڈیلن کے شہرہ آفاق نمبرز، ہارٹ بریک کا ہی نتیجہ تھے۔ 22 سال کی عمر میں عامر زکی نے شادی کرلی تھی، لیکن صرف دو سال ہی گزرتے تھے کہ دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ اب عامر کی میلوڈیز گٹار کی تاروں سے نہیں بلکہ دل سے نکل رہی تھیں۔ یہی وہ دور تھا جب عامر نے ’’میرا پیار تم ہی ہو‘‘ پروڈیوس کیا جو آج تک اس کی پہچان ہے۔
لوگوں نے فاسٹ بیٹ پر sad سونگ پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ عامر نے اس گیت میں اپنی ایکس وائف کے لیے دل کھول کر رکھ دیا۔ اس گانے میں میوزک سے لے کر ڈرم اور لیرکس سے لے کر گٹار سارے عامر نے ہی پلے کیے۔
1995 میں عامر زکی نے البم ’’سگنیچر‘‘ ریلیز کی جو اسے ایک کلٹ فالوؤنگ تک لے گئی۔ ایف ایم ریڈیو ہو یا ریستوراں، ٹیلی وژن ہو یا ہوائی جہاز اس البم کا میوزک ہر جگہ سننے کو ملتا۔ میوزک اسٹائل اتنا منفرد تھا کہ کوئی بھی سنتا تو کہہ اٹھتا کہ یہ عامر زکی کا بجایا ہوا ہے۔ عمران علی کہتے ہیں:
اس کی میں نے ایسی ایسی چیزیں سنی ہوئی ہیں میرے پاس ایسی چیزیں آج بھی پڑی ہیں ایسا ایسا کام موجود ہے کہ آپ یقین نہ کریں کہ کوئی بندہ ایسی سوچ بھی رکھتا ہے۔ بہت کم سنا ہے دنیا میں جو اس کا میوزک سنا ہے، میں نے جتنا عامر زکی کو سنا ہے۔
A Tortured Artist
کسی بینڈ میں عامر کے موڈ اور میوزک کو ہینڈل کرنے کی تاب نہ تھی۔ وہ موسیقی کے سفر میں تنہا تو تھا ہی مگر وائٹل سائنز فیاسکو اور بریک آپ نے اسے مزید ڈپریسڈ کر دیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے میوزک میں شارٹ کٹ کے بجائے پیوریٹی اور پرفیکشن ازم پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے پوپ میوزک کے ڈائنو سورز اور میڈیوکر جنگل سنگرز کو ویسٹرن میوزک کاپی کرنے پر کھلم کھلا کرٹیسائز کرنا شروع کر دیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا:
Like the band of gypsy you know, exact rip off was Pappu Yar Tang na kar. Salman amazes me you like to form a union and accountability with Imran Khan but you should pay some money to Hendrix foundation. I think its the cheapest thing to do Vital sings have done it Red Red Wine … I don’t think its inspiration. If I was some kind of a mad judge. I would send him something to death.
بھلا یہ کس کو برداشت ہوتا؟ عامر اُن سب کو alienateکرتا جا رہا تھا جو اس کا میوزک پروموٹ کر سکتے تھے۔ 90 کی دہائی ختم ہوتے ہوتے پاکستان میں میوزک سین بھی پیک آپ ہونے لگا۔ گرتی ہوئی سیلز اور اسپانسرز کی سپورٹ نہ ہونے سے بینڈز ایک ایک کر کے غائب ہونے لگے۔ آمدنی نہ ہوئی تو بہت سے لوگ فیلڈ ہی چھوڑ گئے۔ آرٹسٹ کا پیٹ تعریفوں سے نہیں بھرا کرتا، نہ ہی اس سے قرض اترتا ہے۔ آج بھی سوسائٹی آرٹسٹ کو ایک دھتکارے ہوئے شخص کے طور پر دیکھتی ہے۔ عامر کی البم ’’سگنیچر‘‘ کا ایک گانا money تو تھا ہی اس بارے میں کہ جو آپ نہ کرپائیں وہ پیسہ کر دکھائے۔
عمران علی بتاتے ہیں:
میں بتاتا ہوں یہ سب سے امپورٹنٹ بات ہے زکی کی ڈاکیو مینٹری بن رہی ہے اس میں سب سے امپورٹنٹ بات یہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت میوزک ہی تھا۔ ایسے ہونا چاہیے۔ وہ ٹھیک بات کرتا تھا۔ اس جیسا میوزیشن پاکستان میں پیدا ہو گیا، بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ لیکن وہ اس کو بیلنس نہیں کر پایا کہ اس نالج کو پریکٹیکلی کیسے یوز کرے گا دوسرے لوگوں کے ساتھ۔
ZAKI THE PROFESSOR
اسد الحفیظ عامر زکی کے بیسٹ اسٹوڈنٹس میں سے ایک ہیں۔ بہت سے پاکستانی میوزیشینز کی طرح اسد نے بھی ہمیشہ عامر زکی کو ہی آئیڈیلائز کیا۔ وہ آج اپنی تمام کامیابیوں کا کریڈٹ بھی عامر زکی کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
میں نے کبھی ان کو پریکٹس کرتے نہیں دیکھا۔ گٹار پریکٹس کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ گٹار اٹھاتے تھے اور بجا دیتے تھے۔ ہم سے کہتے تھے کہ تم لوگ کیا گٹار کی نوکری کر رہے ہو۔ میں حیران ہوتا تھا کہ بندہ پریکٹس بھی نہیں کرتا۔ میں نے پوچھا کہ وہی نوٹ آپ بھی بجا رہے ہیں۔ لیکن آپ کے نوٹ کیوں ہٹ کر رہے ہیں؟ شروع میں جو باتیں کرتے تھے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ بعد میں میں نے ری الائز کیا کہ کتنی اہمیت ہے اس کی۔ شروع میں مجھے لیسنز دیے کہ اپنے دماغ کو فوکس کرو، سوچ کی ٹریفک کو فوکس کرو۔ بعد میں میں نے ری الائز کیا کہ ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ فوکس کرو میڈی ٹیٹ کرو۔
اسد آج ناپا میں اُسی چیئر پر بیٹھ کر میوزک سکھاتے ہیں جہاں کبھی عامر زکی بیٹھا کرتے تھے۔ اسد کے مطابق عامر زکی کی اپروچ پیسہ کمانا نہیں تھی۔ عامر زکی نے اس بات پر اسٹینڈ لیا کہ وہ شو میں ایڈوانس پیمنٹ لیں گے اور کسی کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔ شوز میں اکثر ایسا ہوتا کہ سنگر تو پروموٹر سے ایڈوانس لے لیتا مگر میوزیشینز کو وقت پر پیسے نہ ملتے۔
اُس دور میں عامر کے موڈ سوئنگز اور ڈپریشن شدید ہو چکے تھے۔ ایک دن اپنا بنایا ہوا گٹار ایک اسٹوڈنٹ کو بیچا تو اگلے دن اس کے گھر پہنچ گئے کہ مجھے واپس کر دو میں اُس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک طرف پروموٹرز انہیں انٹرنیشنل شوز کے لیے کالیں کر رہے ہوتے تو دوسری طرف وہ دنیا سے بے خبر اپنی بلیوں کی دیکھ بھال میں لگے ہوتے۔ اسد الحفیظ بتاتے ہیں:
جگہیں بھی موو ہوتی رہتی تھیں۔ گھر بھی موو ہوتے رہتے تھے۔ فون نمبر ہر دو ماہ بعد۔ جب بھی نمبر لیک ہوجاتا سم چینج کر دیتے تھے۔ وہ اسٹیٹ آف مائنڈ maintain کرنے کے لیے۔ وہ ایک الگ زون میں رہا کرتے تھے۔ وہ ایک distraction ہے جو اگر دنیا سے ملتے رہیں گے۔
ایک بار ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اور شاید یہ پہلا اور آخری واقعہ بھی نہیں تھا۔ لاہور کے ایک شو میں عامر زکی کو لائیو پرفارمنس کے لیے بلایا گیا۔ شو ان ہی سے اوپن کروایا گیا تھا۔ عامر زکی اپنے مخصوص اسٹائل کے ساتھ اسٹیج پر آئے۔ گٹار کنکٹ کیا اور بلیوزی ٹون میں گٹار بجانا شروع کیا۔
مگر وہاں تو ایک بھنگڑا ٹائپ کراوڈ تھا، وہاں تو آڈیئنس ہلا گلا کرنے آئی ہوئی تھی۔ انہیں عامر زکی کا میوزک کیا خاک سمجھ آتا؟ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ لوگوں نے ہوٹنگ شروع کر دی۔ عامر زکی سے یہ سب کہاں برداشت ہوتا؟ وہ واپس ہوٹل چلے گئے جہاں انہوں نے گٹار توڑ کر اسے آگ لگانے کے لیے لائٹر جلا لیا۔
اب عامر زکی خاموش ہوتے جا رہے تھے، وہ کئی کئی گھنٹوں تنہائی میں مہدی حسن کے گانے سنتے رہتے۔ ملک اُن دنوں دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ اسکرینز پر میوزک کی جگہ خودکش دھماکوں نے لے لی تھی۔ 2005 میں عامر نے حدیقہ کیانی کے ساتھ البم ’’رف کٹ‘‘ ریکارڈ کیا جو حالات کی نذر ہو کر تباہ ہو گیا۔ زکی نے اس کے بعد کوئی البم نہیں بنایا۔ سب جانتے تھے کہ وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جا رہے تھے مگر کوئی انہیں بچا نہ پایا۔
2006 میں ناپا کی شروعات ہوئیں، عامر زکی نے وہاں گٹار لیسنز دینا شروع کیے مگر ایک سال بعد ناپا بھی چھوڑ دیا۔
ایک روز اچانک عامر زکی اپنا سامان پیک کر کے ہمیشہ کے لیے کینیڈا روانہ ہو گئے۔ وہاں ایک ریکارڈنگ فرم میں پروڈیوسر کے طور پر کام کیا۔ لیکن چھ ماہ نہیں گزرے تھے کہ وہ بیگ اٹھائے کراچی چلے آئے۔ ناپا میں ان کی جگہ پُر ہو چکی تھی۔ اب انہوں نے طارق روڈ کے ایک میوزک اسٹور پر گٹار سکھانا شروع کر دیا۔
2014 میں اچانک عامر زکی اسکرین پر نمودار ہوئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ برسوں کی تپسیا کے بعد اب وہ غار سے باہر آ چکے ہیں۔ کوک اسٹوڈیو میں زوہیب حسن کے ساتھ وہ اسٹیج پر تھے۔ عامر نے گٹار پر اپنی کمانڈ اور پچ پرفیکٹ پرفارمنس سے سب کو اڑا کر رکھ دیا۔ مگر سب ٹھیک نہیں تھا۔ سپاٹ چہرہ نہ کوئی مسکراہٹ۔ شاید وہاں ان کا جسم تھا مگر روح نہیں۔ شاید وہ اس سے کہیں بہتر ڈیزرو کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ واپس لوٹ آئے ہیں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہ پھر غائب ہو گئے۔
دو جون 2017 کو جمعہ کے روز عامر زکی کے دل نے دھڑکنا بند کر دیا۔ وہ آخری دنوں میں شدید بیمار تھے۔ انہیں مالی مسائل کا بھی سامنا تھا، اور وہ اپنے آرٹسٹ بھائی شاہد زکی کے گھر عزیز آباد شفٹ ہو چکے تھے۔ عمران علی اس دن کو یاد کر کے بتاتے ہیں:
کافی دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے کہ یار یہ ہونا تھا اور یہ ہو گیا۔ بہت بڑا sad لمحہ تھا۔ عامر زکی، nobody else، اپنی ڈیتھ کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ یار وہ خود کو نہیں بچا سکا یہ reality ہے۔ میں جو بات کر رہا ہوں اس کی وجوہات ہیں۔ وہ کبھی بھی غلط نہیں تھا۔ لیکن وہ صحیح کو صحیح سے پورٹرے نہیں کر سکا، اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکا بہت ہی سخت ہوجاتا تھا۔ عامر سے زیادہ respected میوزیشن پاکستان میں کم ہی ہوتے ہیں۔ میرا دل میرا جگر تھا وہ۔ میں ہی ہوں جو یہ بات کر سکتا ہے۔ دنیا سے الگ کر کے نہیں رہ سکتے اس فریم آف مائنڈ میں جانا نہیں چاہیے۔ نقصان عامر زکی کا نہیں ہے اس میوزک کا ہے جو اس کو کرنا تھا اور وہ نہیں کر سکا۔ میوزک ورلڈ کا بہت بڑا نقصان ہوا کہ عامر زکی پوری طرح ایکسپلور نہیں ہو سکا۔
اسد الحفیظ بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جتنا انہوں نے ریکارڈ کیا ہے نا، ان کی میوزک کا صرف ٹین پرسنٹ ہے۔ میں کافی زیادہ ان کے ساتھ رہا ہوں۔ جو چیزیں وہ پلے کرتے تھے وہ بہت ایڈوانس تھیں۔ وہ ریکارڈ نہیں کر سکے۔ یا شاید کرنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ نہ شہرت چاہیے تھی، نہ پیسہ، نہ تعریف چاہیے تھی۔ ان چیزوں سے وہ بالکل الگ تھے۔
عامر کے دنیا سے جانے کے ٹھیک ڈیڑھ مہینے بعد امریکی سنگر چیسٹر بیننگٹن اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پایا گیا۔ لیکن عامر سے لے کر چیسٹر تک، مائیکل جیکسن سے روبن ولیمز تک سب کی ایک ہی کہانی ہے: ڈپریشن اینڈ ناکام ریلیشن شپس۔
ہم نے رفتار پر آپ کو عمر شریف، معین اختر، پروین شاکر اور عامر لیاقت سمیت کئی آرٹسٹس سے ملوایا۔ ان سب میں کامن وہ آگ ہی تو تھی جس نے ایک دنیا روشن کی، مگر انہیں خود اس میں جلتے ہوئے کوئی نہ دیکھ سکا۔
دنیا کا ایک آرٹسٹ کو پرکھنے کا بڑا ہی عجیب پیمانہ ہے۔ لوگ اس کے کام کو اچھا یا برا کہتے ہیں۔ اس کی زندگی کے ups and downs پر بحث کرتے ہیں۔ مگر آرٹ کی تخلیق میں وہ جس struggle، جس کرب سے گزرتا ہے اسے کوئی محسوس نہیں کرتا۔
عامر زکی بھی ایسا ہی حساس شخص تھا، اس کی میوزک پرفیکشن، دیوانہ کر دینے والے سولوز اور رفز کے پیچھے اس کا ’’بریک اپ‘‘ تھا جس کے بعد وہ کبھی نہ سنبھل پایا۔