مراد آباد، ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی سے بمشکل دو سو کلو میٹر دور ہوگا۔ یہ شہر پیتل کی صنعت کی وجہ سے مشہور ہے جس کی وجہ سے اسے 'براس سٹی' کہا جاتا ہے۔ اسی شہر کے ایک باسی ابراہیم محبوب کے ہاں چوبیس دسمبر 1950 کو ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے، جس کی پیشانی کی چمک سنہرے پیتل جیسی ہے۔ مگر اس پیشانی کے پیچھے چھپا دماغ سونے سے بھی زیادہ چمک دار اور قیمتی ہے۔ یہ سونا آگے چل کر ایسا دمکا، یہ روشنی اِس انداز سے پھیلی کہ اس سے نکلنے والی شعاعیں جہاں جہاں گئیں، وہاں وہاں سننے اور دیکھنے والوں کے دلوں کو خوشی میسر آئی۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھریں۔ انہیں دنیا پہلے سے زیادہ حسین محسوس ہوئی۔

یہ کہانی ہے معین اختر کی، ہمارے معین بھائی۔ ان کی زندگی کو چند منٹ کی ویڈیو میں سمیٹنا تو ناممکن ہے لیکن ہم کوشش کریں گے ان کی زندگی کے ان پہلوؤں کو آپ کے سامنے لائیں، جو یا تو آپ کے لیے بالکل نئے ہوں یا پھر کم از کم ان کے بارے میں آپ کی یادوں کو تازہ ضرور کریں۔

تو آئیے سنیے، پاکستان کی فنّی تاریخ کے کامیاب ترین کمپئیر، کامیڈین، اداکار اور ان سب سے بہتر ایک انسان، معین اختر کی کہانی، رفتار کی زبانی۔

شو شروع ہوا

سن 1967 کا موسم سرما ہے۔ ضیا محی الدّین کے پاس ان کی ٹیم کا پروڈیوسر بھاگتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے، ’’سر! خالد عباس ڈار نے معذرت کرلی ہے، وہ نہیں آ سکتے‘‘۔

’’واٹ ڈو یو مین نہیں آ سکتے؟‘‘ ضیا صاحب چونک کر بولے۔

پروڈیوسر مزید گھبرا گیا۔ کہنے لگا، ’’سر! ان کا فون آیا تھا، وہ کہہ رہے ہیں بانو آپا کا کھیل کر رہا ہوں، ڈیٹس میچ نہیں ہو رہیں۔ لاہور سے کراچی آنے میں ہی پورا دن نکل جائے گا۔‘‘

وہ ابھی کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ ضیا محی الدّین بول پڑے، ’’میرے بھائی کل شو ہے، اسٹینڈ اپ سیگمنٹ کے لیے اتنے شارٹ نوٹس پر کیسے ارینجمنٹ ہوگی؟‘‘

پروڈیوسر لہجے کا خوف سمیٹتے ہوئے کہتا ہے، ’’سر! انھوں نے ایک لڑکے کا نام دیا ہے، کوئی معین ہے یہیں کراچی کا۔ کہہ رہے ہیں اسے آزماؤ، وہ ضیا صاحب کے مزاج کا ہے‘‘

’’کیا کرتا ہے وہ؟ ہو اِز ہی؟‘‘ دو ایک سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ضیا صاحب نے پوچھا۔

’’سر میں پرسنلی تو نہیں جانتا، لیکن چھوٹے موٹے فنکشنز میں پرفارم کرتا ہے۔ پچھلے سال 6 ستمبر پر یہاں ٹی وی بھی آیا تھا۔ حلیے سے ٹھیک ٹھاک تھا۔‘‘

ضیا محی الدّین نے کتاب بند کر دی اور سر پکڑ لیا۔ کہنے لگے، ’’تمہیں معلوم ہے نا پرومو آن آئیر ہو چکا ہے؟ اس شو میں فریدہ خانم آ رہی ہیں۔ مجھے ہر چیز پرفیکٹ چاہیے۔ ڈو یو انڈراسٹینڈ دیٹ؟‘‘

’’جی سر!‘‘ پروڈیوسر کے چہرے پر اب تک ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔

’’ملواؤ مجھے اُس سے، اینڈ یو مے گو ناؤ۔‘‘

ضیا محی الدّین اور ان کا پروڈیوسر، خالد عباس ڈار کے یوں اچانک معذرت کر لینے پر پریشان تو تھے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگلے روز وہ اپنے شو سے ایک ایسے نوجوان کو بریک دینے جا رہے ہیں جو آگے چل پاکستان کی پہچان بنے گا۔ ایسا آرٹسٹ جو اس ملک کی میڈیا کی تاریخ کے کامیاب ترین فنکاروں میں شمار ہوگا۔

پرفارمنس ضیا صاحب سمیت ہال میں بیٹھے سبھی ناظرین کو پسند آئی لیکن بچہ ابھی بھی کچا تھا۔ اگلے ہی ہفتے کراچی سینٹر کے پروڈیوسر امیر امام نے معین کو ’’چور‘‘ نامی ڈرامے میں کاسٹ کیا۔ کردار کو نبھاتے ہوئے وہ کبھی وحید مراد کی نقل کرنے لگتا تو کبھی محمد علی بن جاتا۔ امیر امام نے غصے میں آ کر کہا ’’بیٹا! اگر ہمیں محمد علی یا وحید مراد کی خدمات چاہیے ہوں گی تو ہم انہیں بلا لیں گے۔ تم اپنی ایکٹنگ کرو۔‘‘ اس پر گھبرا کر معین ٹی وی اسٹیشن سے باہر آگیا۔

یہ بات کسی نے ضیا محی الدّین جا کر بتادی۔ انھوں نے فوراً طلب کرلیا۔ اپنی شاگردی میں لیا اور اداکاری میں اس کی کمزوریوں کو دور کرنے پر بہت محنت کی۔ اس سے پہلے کہ ہم ضیا محی الدّین اور معین اختر کے تعلق پر مزید بات کریں، یہ جان لیجیے کہ شوبز جوائن کرنے پر انہیں گھر میں کیا کچھ سہنا پڑا۔

معین اختر کے صاحب زادے منصور اختر نے بتایا کہ جب ابّو نے mimicry شروع کی تو اسکول میں بہت پسند کی گئی۔ پھر ابّو کالج میں بھی یہ کرنے لگے تو وہاں سے پیسے بھی ملے۔ لیکن جب دادا کو پتہ چلا کہ ابّو یہ کام کر رہے ہیں تو انہوں نے بیلٹ لی اور پھر ٹھیک ٹھاک پٹائی کی۔

کچھ آگے چل کر پٹائی تو رُک گئی لیکن چونکہ خاندان میں پڑھنے پڑھانے کا رواج تھا اس لیے ابراہیم محبوب لڑکے کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند تھے اور ٹوکتے رہتے تھے۔ دوسری طرف معین کو ضیا محی الدّین کی قربت حاصل ہو گئی ہے اور وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہے۔ تعلیم تو ادھوری رہ گئی لیکن علم کے حصول کے لیے معین نے کچھ اور دروازے تلاش کر لیے۔

فلموں کے شوق نے معین کی انگریزی اتنی اچھی کر دی کہ وہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور ہالی وڈ اسٹار اینتھونی کوئن کے فقروں کی ہو بہو پیروڈی کرنے لگا۔ ایک اور تحفہ جو ضیا محی الدّین نے اُسے دیا، وہ خوش لباسی کا سینس تھا۔ اپنے استاد کی انسٹرکشنز پر عمل کرتے ہوئے نوجوان معین نے کامیڈین کے نام پر خود کو نمونہ یا جوکر بنانے کے بجائے بہترین سوٹس میں ملبوس کرلیا۔

لیکن اُس زمانے میں ایک تاثر یہ بھی ابھرا کہ معین ضیا صاحب کو کاپی کرتا ہے۔ سینیئر جرنلسٹ خالد فرشوری بتاتے ہیں کہ معین اختر پر ضیا صاحب کی گہری چھاپ تھی۔

خیر۔ وقت آگے بڑھا اور معین اختر کا کیرئیر بھی۔ اُسے یہ بات تو سمجھ آ گئی کہ پیروڈی اور نقالی۔ فن کی دنیا کی پریمیئم پراڈکٹس نہیں ہیں۔ اس لیے وہ دوسرے شعبوں میں بھی قسمت آزمائی کے لیے پہنچا اور آستینیں چڑھا کر شوبز کے سوئمنگ پول میں ہی کود پڑا۔ پھر کیا ٹی وی، کیا ریڈیو؟ اور کیا تھیٹر اور میزبانی؟ اُس نے بہت جان ماری اور جس میدان میں بھی پرفارم کیا، سب کو آوٹ کلاس کر دیا۔

میزبانی اور معین، ہمیشہ میڈ فار ایچ ادر رہے۔ معین اختر نے اردن کے شاہ حسین، گیمبیا کے وزیر اعظم داؤد الجوزی سمیت صدر جنرل یحییٰ خان، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، صدر جنرل ضیاء الحق، صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، وزیر اعظم نواز شریف، صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اعزاز میں کرائی گئی مختلف تقریبوں میں بھی میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔

بلکہ ہمیں تو سرحد پار پڑوسی ملک میں بھی اُن کے پائے کا کوئی ہوسٹ نہیں نظر آتا۔ تقریب سرکاری ہو یا معتبر حلقوں اور بزنس کمیونٹی میں، معین اختر فرسٹ چوائس ہوتے تھے، کیونکہ وہ کامیڈی بیک گراؤنڈ رکھنے کے باوجود کبھی لچر پن، بازاری یا ذو معنی جملوں کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کا شائستہ انداز گفتگو اور مہذبانہ حسِ مزاح کے ساتھ دلچسپ اور مزاحیہ جملے کسی بھی تقریب کی جان ہوتے۔

روزی کا معین اختر

ٹاک شوز میں اسٹوڈیو ڈھائی، پونے تین، شو ٹائم سے لے کر لوز ٹاک تک بہت لمبی لسٹ ہے، جن کی وجہ سے معین اختر کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

پھر ایک طرف وہ پاکستان کے کامیاب اور مہنگے ترین ہوسٹ بنے تو دوسری طرف اداکاری کا شوق بھی زندہ ہے۔ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں روزی، عید ٹرین، سچ مچ، ہاف پلیٹ آج تک مشہور ہیں۔ لیکن جو کردار انھوں نے روزی میں نبھایا، اس کے چرچے دور دور تک ہوئے۔

اصل میں ہوا یوں کہ پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے مشہور ہالی وڈ فلم ’ٹوٹسی‘ سے متاثر ہو کر عمران اسلم سے یہ ڈراما لکھوایا۔ پھر معین کو ’ٹوٹسی‘ کی کیسٹ دی اور کہا کہ شوٹ شروع ہونے سے پہلے پہلے ڈسٹن ہوفمین کی اداکاری غور سے دیکھ لو، مجھے کاپی پیسٹ چاہیے۔

تب تو معین نے حامی بھر لی لیکن سارا فوکس اسکرپٹ پر رکھا۔ جان بوجھ کر فلم نہیں دیکھی۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر فلم دیکھ لی تو کہیں اداکاری میں ڈسٹن ہوفمین کی چھاپ نہ آ جائے۔ ضیا محی الدّین کا پڑھایا ہوا سبق انہیں اچھی طرح یاد تھا۔

خیر، روزی ڈراما آن ائیر ہوا تو ساحرہ نے بے ساختہ کہا، ڈسٹن ہوفمین نے مرد والا کردار بہتر کیا تھا اور معین تم نے خاتون والا۔ جیتے رہو۔ شاباش!

معین اختر کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ انھوں نے درجنوں کردار کیے لیکن کسی ایک کردار کو اپنی واحد شناخت نہیں بننے دیا۔ وہ کسی ایک ایکٹ کے اسیر نہیں ہوئے کہ دنیا اسی ایک کردار کے حوالے سے انہیں جانے۔ کمال فن، شاید اسی کو کہتے ہیں۔

جیسے ’’عید ٹرین‘‘ میں انھوں نے خود تو اداکاری کی ہی۔ دوسروں سے بھی کروائی۔ اور کیا خوب کروائی۔

ٹی وی سے ہٹ کر دیکھیں تو اسٹیج پر معین اختر کا ایک اور روپ نظر آتا ہے۔ وہ ’’بڈھا گھر پر ہے‘‘ اور ’’بکرا قسطوں پر‘‘ جیسے کامیاب اسٹیج ڈرامے کرتا ہے، جن کی کیسیٹیں پڑوسی ملک میں اسمگل ہو کر جاتی ہیں۔

اسٹیج سے یاد آیا، یہاں معین اختر کا ذکر عمر شریف کے بغیر بالکل ادھورا ہے۔

معین اختر بمقابلہ عمر شریف

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انڈسٹری میں یہ تاثر موجود تھا کہ عمر شریف اور معین اختر میں کوئی پروفیشنل جیلیسی ہے۔ لیکن اس تاثر کو دونوں نے اپنے عمل سے زائل کر کے دکھایا۔

معین اختر نے فلموں میں بھی اداکاری کی، جس کے بارے میں آگے چل کے آپ کو بتائیں گے لیکن ابھی ’’بکرا قسطوں پر‘‘ کی بات مکمل کر لیں۔ اس ڈرامے کی کیسیٹیں تو ہفتوں کی ویٹنگ پر ملتی تھیں۔

ملک تو ملک، بیرون ملک فینز بھی معین اختر اور عمر شریف کو اپنے مقامی اسٹارز سے زیادہ پسند کرنے لگے۔

لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ تھیٹر پر زوال آگیا۔ اس مشکل وقت میں معین اختر نے بطور برانڈ خود کو سنبھالا اور فن کی دنیا سے جڑے رہے، کسی اور پاکستانی آرٹسٹ میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے

معین بھائی بہت اچھا گاتے بھی تھے بلکہ گانے لکھتے بھی تھے۔ انہیں راگوں اور انسٹرومنٹس کے بارے میں بہت نالج تھی۔ ’’اوپر والا نمبر وَن ہے، دنیا ہے نمبر ٹو، میرا نام ہے کے ٹو‘‘ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔

فلاپ معین اختر

سارے میدانوں میں قسمت آزمائی ہو چکی تھی بس فلم بچی تھی۔ معین اختر نے فلم کے ٹو بنا لی۔ خود ہیرو آئے، ڈانس اور رومانس کرتے دکھائی دیے۔ لیکن جتنا بڑا اس فلم کا نام تھا اس سے زیادہ یہ فلاپ ثابت ہوئی۔

نوے کی دہائی میں معین اختر بھارت بھی گئے۔ پیدائش کے بعد یہ ان کا پہلا اور فنی اعتبار سے واحد دورہ ہندوستان تھا۔ یہاں انہیں ایک بہت بڑا شو ہوسٹ تو کرنا ہی تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ بالی ووڈ کے دو میگا اسٹارز دلیپ کمار اور راج کمار میں دوستی بھی کروانی تھی۔

معین بھائی کو دلیپ کمار سے بڑی محبت اور عقیدت تھی، اتنی کہ شو کی ریہرسل کے لیے جب پروموٹرز نے دلیپ کمار کو دبئی بلانا چاہا تو اُن سے رہا نہ گیا۔

دورۂ بھارت میں ایک بڑا مزیدار پرینک بھی ہوا۔ معین اختر نے کسی کے ساتھ نہیں، بلکہ کسی نے معین اختر کے ساتھ کر دیا۔ صحافی خالد فرشوری نے اس بارے میں تفصیل بتائی جو آپ ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

خیر آپ لوگ یقیناً سوچ رہے ہوں گے بھارت اور بالی وڈ میں اتنی مقبولیت، اس کے باوجود معین اختر کو وہاں کی کسی فلم میں کام کرنے کی آفر نہیں ہوئی۔ اسٹرینج!

کروڑ پتی معین اختر

یوں معین بھائی نے دنیا بھر میں کام کیا۔ پیسہ بنایا اور پیسہ بانٹا بھی۔ ان کی سخاوت کے قصے بھی آگے چل کر بتائیں گے لیکن پہلے جان لیتے ہیں معین اختر اور ’’ہو وانٹس ٹو بی ملینئیر‘‘ کا قصہ۔ اس انٹرنیشنل لیول کے شو کے لیے بھلا معین اختر سے بہتر پاکستان میں کوئی اور سیلیبرٹی کہاں ملتا؟

جن دنوں یہ شو مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ اس وقت ایک اور ہوسٹ بلکہ ’’عالم ہوسٹ‘‘ نے انٹری دی اور دعویٰ کیا کہ وہ معین اختر سے بہتر پرفارم کر سکتا ہے!

شوبز کے ساتھ ساتھ معین اختر کمال کا بزنس سینس بھی رکھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ادارے کس طرح کام کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں فنڈ ریزنگ کیمپینز چلانے میں بھی مہارت تھی۔ لیکن وہ اپنے اصولوں پر سختی سے کار بند رہتے اور توقع رکھتے کہ سامنے والا بھی ان کی زبان اور بات کا بھرم رکھے گا۔

اسی طرح وہ آرٹسٹ برادری کے حقوق کے معاملے میں بھی بڑے حساس تھے۔ اپنے جونئیرز کے ساتھ محبت کا رشتہ تو تھا ہی لیکن ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور رہنمائی بھی جتنی معین اختر نے کی، شاید ہی انڈسٹری میں کسی نے کی ہو۔ چلیں تربیت تو پھر فری کا گیان ہے، اپنے الماری سے کپڑے کون دیتا ہے جونئیر آرٹسٹ کو؟

اتنے سوٹس، آسائشیں، پیسے اور گاڑیاں رکھنے والا معین اختر عام زندگی میں ایک بہت ہی سادہ سا آدمی تھا۔ دال چاول ہمیشہ سے ان کی پسندیدہ ڈش رہی۔

معین اختر کے دنیا بھر میں کروڑوں مداح تھے لیکن وہ خود انہیں فلم اسٹار لہری بہت پسند تھے۔

جیسے کیریئر کے آغاز میں ضیا محی الدّین اور عمر شریف کا ساتھ لکی ثابت ہوا، ویسے ہی ٹی وی پر معین اختر کو انور مقصود کی جادوئی رفاقت مل گئی جو بعد میں دوستی میں بدل گئی۔ انور مقصود نے جتنا زیادہ اور بہترین معین اختر کے لیے لکھا، شاید ہی کسی اور کے لیے لکھا ہو۔ ’’لوز ٹاک‘‘ کی چار سو زائد قسطیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مگر۔ ایک تاثر پیدا ہونے لگا کہ معین اختر انور مقصود کے بغیر کچھ نہیں۔ انور مقصود نے اس بارے میں ہماری پوڈ کاسٹ میں بھی بات کی جسے آپ یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

سنجیدہ معین اختر

لیکن پھر ایک وقت آیا، جب معین اختر میں سنجیدگی مزید بڑھ گئی۔ وہ مذہب سے قریب ہونے لگے۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کا ان کے گھر آنا جانا رہنے لگا

معین اختر کو قرآن مجید سے بڑی انسیت ہو گئی۔ اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کو شامل کرتے اور دوسروں کو بھی مثالیں دے کر اس کی تلقین کرتے۔

معین اختر کے ذہن پر کام ہر وقت سوار رہا، اس لیے صحت تو گرنی ہی تھی۔ انہیں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا، اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، لیکن پھر بھی کام پہلے اور صحت دوسرے نمبر پر رہی۔ جہاں اوور ورکنگ کی عادت نے معین اختر کو نقصان پہنچایا، وہیں ایک اور شے بھی ان کی صحت ختم کرتی چلی گئی۔ وہ تھی سگریٹ کی عادت۔ خالد فرشوری کہتے ہیں کہ چین اسموکنگ معین اختر کو لے ڈوبی۔

معین اختر جیسا فنکار ہو۔ اور لوگوں کو بغیر حیران کیے دنیا سے چلا جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ انتقال کے بعد جو لوگ سب سے پہلے ان کے گھر پہنچے ان میں جنید جمشید بھی تھے، جن کا کچھ قرض معین اختر پر باقی تھا۔ اس قرض کے تقاضے کے لیے وہ سیدھے بڑے بیٹے کے پاس جا پہنچے۔ منصور اختر کی زبانی اس کا دلچسپ احوال بھی آپ منسلک ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

فنکار معین اختر کو تو سب جانتے تھے لیکن ان کا ایک اور روپ تھا جو بہت کم لوگوں نے دیکھ رکھا تھا۔ منصور اختر بتاتے ہیں کہ بہت سے خاندان ابو کے انتقال کے بعد آئے جن کی وہ کفالت کر رہے تھے۔ خالد فرشوری اس سے اتفاق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کئی فنکار گھرانوں کے چولہے ان کی وجہ سے جل رہے تھے۔

معین اختر کتنے مقبول تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کے مشہور زمانہ مادام تساؤ میوزیم نے ان کا مجسمہ بنانے کا پروگرام بنایا۔ جب گھر والوں سے اجازت لی تو انھوں نے معذرت کر لی، یہ کہہ کر کہ اسلام میں مجسمہ بنانا منع ہے۔ ویسے معین اختر کی آٹو بایوگرافی بھی آنے والی ہے، ’’دی ون مین شو‘‘ کے نام سے۔ منصور اختر نے اس بارے میں بتایا کہ کتاب اکتوبر میں آ جائے گی۔ بابا کہتے تھے پتہ نہیں میں پڑھ سکوں گا یا مرنے کے بعد آئے گی۔

معین اختر جیسی شخصیت کی زندگی کا احاطہ کسی ایک مضمون یا ویڈیو سے ممکن نہیں کیونکہ اُن جیسے فنکار کی عظمت میں نہ کسی تعریف سے اضافہ ہو سکتا ہے، نہ تنقید سے کمی آ سکتی ہے۔ لیکن یہ بات سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چاہے معین بھائی نے لمبی عمر حاصل نہیں کی، لیکن وہ ایک جنم میں کئی جنم جی گئے اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔

شیئر

جواب لکھیں