آج پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) فی گھنٹہ تقریباً دو کروڑ روپے کے حساب سے نقصان کر رہی ہے۔ یہ صورتحال کیسے بنی؟ اور کیا اس صورتحال کو روکنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یا پھر پی آئی اے کو بیچ کر بھاگ جانا ہی واحد حل ہے؟ اس بارے میں بات کرنے کے لیے ہم نے پی آئی اے کے دو انتہائی تجربہ کار سابق افسران کو دعوت دی۔ ان میں شامل ہیں ارشاد غنی صاحب، جو سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ اور آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، اور ان کے ساتھ موجود ہیں تاجور صاحب جو پی آئی اے کی پبلک ریلیشنز کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

ہم نے اپنے مہمانوں سے پوچھا کہ واقعتاً کیا ہو رہا ہے اور حالات کب اور کیسے کیسے اس حد تک خراب ہوئے؟ اس کے علاوہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے مسائل، جعلی پائلٹ لائیسنس اسکینڈلز، فوجی ادوار میں پی آئی اے کی کارکردگی، ادارے میں سیاسی مداخلت، سمیت پی آئی اے کے زوال کی تمام بنیادی وجوہات پر نہ صرف بات ہوئی بلکہ ان مسائل کے ممکنہ حل پر بھی غور کیا گیا۔

پی آئی اے کو ہلا کر رکھ دینے والے بدنام زمانہ جعلی پائلٹ لائیسنس اسکینڈل سے متعلق بات کرتے ہوئے حیران کن انکشاف ہوا کہ کچھ پائلٹوں کے پاس واقعی جعلی لائیسنس تھے اور جب یہ بات باہر آئی تو اس سے پی آئی اے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ دراصل اس اسکینڈل نے پی آئی اے کے انتظامی ڈھانچے کی ناکامیوں کو کھول کر رکھ دیا۔

پوڈ کاسٹ کے شرکا نے پی آئی اے کے آپریشنز میں سیاسی مداخلت پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایسے واقعات کا حوالہ دیا جب بیورو کریسی کی وجہ سے مفید فیصلوں پر عمل نہ ہو سکا اور یوں ادارے کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ سیاسی مفادات کے لیے پی آئی اے کے استعمال نے بھی معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور انتہائی ضروری اصلاحات کی طرف بڑھتے قدم بھی روک دیے گئے۔

پی آئی اے ایک طویل عرصے تک مالی مسائل شکار رہا ہے۔ ہمارے مہمانوں کے پیش کردہ حیران کن اعداد و شمار سے اس بحران کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں بھی بات ہوئی کہ پی آئی اے کو اربوں کا نقصان پہنچانے میں روٹوں کی منسوخی اور بدعنوانی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایئر لائن میں ملازمین کی افواج ظفرِ موج کے بوجھ پر بھی گفتگو ہوئی، جن میں شامل 200 پائلٹ اور 15,000 ملازمین نے خطرناک شرح سے وسائل کو چوسا۔

پی آئی اے کی نجکاری کو ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس بارے میں شرکا سے پوچھا تو انہوں نے نجکاری کی حکمت عملی اختیار کرنے حمایت کی تاہم اسے کامیابی سے انجام دینے سے پہلے موافق حالات بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ نجکاری کے فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے، اس بات پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا کہ پی آئی اے میں مختلف نوعیتوں کے مفادات رکھنے والوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمارے مہمانوں نے نجکاری کی دیگر کوششوں، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔

گفتگو کے دوران پی آئی اے کی بحالی کے لیے مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ ہمارے مہمانوں نے قیادت کے بحران سمیت پرانے چیلنجز سے نپٹنے کے لیے مشکل فیصلوں کی حمایت کی۔ ائیر لائن چلانے کے بوسیدہ نظام کا اقرار کرتے ہوئے اس سے چھٹکارا پانے اور پی آئی اے کو نئے روشن مستقبل کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ملک کی تمام قیادت کے تعاون کی ضرورت ہے۔

اس پوڈ کاسٹ میں جعلی پائلٹ لائیسنس کے داغ سے لے کر نجکاری کی کوششوں تک پی آئی اے کو در پیش ہر پیچیدگی پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن کسی چوراہے پر کھڑی ہے، اور کیا مستقبل میں کوئی روشنی کی کرن نظر آتی دکھائی دے رہی ہے، یہ اور اس جیسے مزید اہم نکات سے متعلق جاننے کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ ملاحظہ کیجیے۔

اس پوڈ کاسٹ کا دوسرا حصّہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

شیئر

جواب لکھیں